بیان: 001_11_AQS
تاریخ: ۱۸ رجب المرجب ۱۴۴۶ھ بمطابق۱۹ جنوری ۲۰۲۵ء
اہلِ غزہ کامیاب رہے اور معرکہ جاری ہے!
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین، أما بعد
پندرہ ماہ کی جان توڑ، قربانیوں سے لبریز اور ایمان و شجاعت کی اعلیٰ ترین مثال جنگ کے بعد ارضِ فلسطین میں فتح و نصرت کا ہِلال طلوع ہوا ہے۔ اللہ ﷻ نے اپنے بندوں کو ایک زبردست فتح و ظفر سے نوازا ہے اور تمام تعریفیں اسی ربّ العالمین کے لیے ہیں۔
لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ أَعَزَّ جُنْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَغَلَبَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ فَلَا شَيْئَ بَعْدَهُ
’’ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے جس نے اپنے لشکر کو غلبہ عطا فرمایا
اور اپنے بندے کی مدد کی اور جماعتِ کفار کو مغلوب کیا اس کی ذات بےمثل ہے باقی ہر چیز کو فنا ہے۔‘‘
گزشتہ پندرہ ماہ میں صہیونی (خصوصاً نیتن یاہو، بائیڈن ثم ٹرمپ)یہ دعویٰ و وعدہ کرتے رہے کہ وہ مجاہدینِ غزہ کو نیست و نابود کر دیں گے، بالکل اسی طرح جیسے آج سے ڈھائی دہائی قبل بش نے دعویٰ و وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان میں موجود مجاہدین کو نیست و نابود کر دے گا ۔ غزہ تا کابل ، اہلِ صلیب و صہیون کی شکست کی ایک سی کہانی ہے اور اہلِ ایمان کی فتح و ظفر کی داستان بھی وہی ہے۔غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ اہلِ اسلام و اہلِ جہاد کی واضح فتح اور اہلِ صہیون کی واضح ناکامی ہے۔ ایک طرف نانِ خشک کے چند ٹکڑے(اور وہ بھی دشمن کے اسیروں کو کھلانا ترجیح رہا) اور نہایت قلیل اسلحہ تھا، لیکن ایمان، اللہ کے وعدوں پر یقین ، جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت کی فراوانی تھی۔ دوسری طرف دنیا کی بہترین افواج، سٹیٹ آف دی آرٹ اسلحہ، گولہ بارود، میدانِ جنگ میں اعلیٰ ترین طعام و قیام تھا، لیکن اللہ ﷻ سے کفر کی خصلتِ دیرینہ، انبیاء اور وارثینِ انبیاءُ اللہ کو شہید کرنے کاخسیس چلن، موت سے نفرت اور دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی پانے کی تمنا، اللہ کے بجائے بائیڈن اور ٹرمپ بلکہ دجّالِ اکبر کے وعدوں پر یقین۔ اللہ اکبر وللہ الحمد! وہی ذاتِ حکیم و لطیف تمام تعریفوں کی لائق ہے جس نے ان حالات میں اپنے بندوں کو ثابت قدم رکھا اور پھر انہیں فتح و ظفر سے نوازا! ہم اس موقع پر پوری امتِ مسلمہ کو مبارک باد پیش کرتے ہیں، خصوصاً ایمان و یقین کے پیکر اور عزم و ثبات کی مجسم تصویر غزہ کے اہالیانِ اسلام کو، مجاہدینِ کتائب القسام اور مجاہدینِ سرایا القدس کو!
اسی موقع پر ایک نہایت اہم پیغام کو دہرانا بھی لازمی ہے کہ، بے شک اہلِ غزہ کامیاب رہے لیکن معرکہ ابھی جاری ہے۔ فلسطین ہی کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے مجددِ جہاد شیخ عبد اللہ عزام شہید رحمۃ اللہ علیہ کے اس شہرۂ آفاق فتوے پر عمل کا حکم ،اب بھی ویسا ہی ہے جیسا اس فتوے کے جاری کرتے ہوئے تھا۔ ’ایمان کے بعد اہم ترین فرضِ عین‘ اہلِ اسلام کی سرزمینوں کوبازیاب کروانا ہے۔ ہر وہ چپۂ زمین جہاں ایک دن کے لیے بھی اہلِ اسلام کی حکومت قائم رہی، خصوصاً ہمارے مقدسات جن میں سرِ فہرست ہمارے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اسراء و معراج اور مقدس ترین مقامات میں سے ایک مسجدِ اقصیٰ شامل ہے ، کو آزاد کروانا فرضِ عین ہے۔ معرکۂ طوفان الاقصیٰ جس کا آغاز سات ا کتوبر ۲۰۲۳ء کی بابرکت صبح سے ہوا تھا اس دم تک جاری رہے گاجب تک کہ ہم اہلِ ایمان مسجدِ اقصیٰ میں فاتح بن کر داخل نہ ہو جائیں اور صہیون کے بیٹے اور بیٹیاں زمین میں ذلیل نہ کر دیے جائیں۔
پس امت کے علماء و طلباء، ڈاکٹروں اور انجنیئروں، ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں، اہلِ اقتصاد و تجارت، غرض ہر مرد و زن پر جہاد فرضِ عین ہے۔ امتِ مسلمہ نے جس بیداری و ایمانی جذبے کے ساتھ صہیونی مصنوعات کے بائیکاٹ کی تاریخی کامیاب مہم شروع کی اس کو جاری رکھا جانا چاہیے، بلکہ ان صہیونی مصنوعات میں سرِ فہرست اس نظام کا بائیکاٹ لازمی ہے جو امت سمیت پوری انسانیت کو صلیبی صہیونی نیو ورلڈ آرڈر کا غلام بنانا چاہتا ہے۔اہلِ صلیب و صہیون نے جنگ کو چہار دانگِ عالم میں پھیلایا ہے پس اہلِ اسلام و جہاد بھی اس جنگ کو ہر عسکری، سیاسی، اقتصادی اور فکری محاذ پر لڑنے کے مکلف ہیں ۔ ابھی اس فرضِ عین جہاد، معرکۂ طوفان الاقصیٰ کا ایک مرحلہ طے ہوا ہے اور منزل تک سفر ابھی باقی ہے! اللہ پاک کا فرمان ہے:
وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ (سورة الانفال:39)
’’ اور (مسلمانو) ان کافروں سے لڑتے رہو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے، اور دین پورے کا پورا اللہ کا ہوجائے۔ ‘‘
کفر کا فتنہ ابھی باقی ہے، بلکہ دنیا بھر میں غالب ہے اور اسی کا نظام دنیا میں حاکم ہے۔ اسرائیل کا غرور ابھی ٹوٹا نہیں ہے اور وہ اب بھی جنگ دوبارہ شروع کرنے کی بڑھکیں مار رہا ہے۔ اسرائیل کا سب سے بڑا پشت پناہ امریکہ آج بھی اسرائیل کے ساتھ ماضی کی طرح، بلکہ ماضی سے بھی زیادہ قوت کے ساتھ عسکری، سیاسی، اقتصادی اور سفارتی طور پر کھڑا ہے اور پچھلے پندرہ ماہ کی جنگ نے اس امر کو مزید واضح کردیا ہے کہ اسرائیل کی قوت کو تب تک نہیں توڑا جا سکتا، یہاں تک کہ دنیا بھر میں امریکی اہداف کو نشانہ بنا کر امریکہ کو کمزور نہ کر دیا جائے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو فتح یاب فرمائے، اس امت کے شہداء کی شہادتیں قبول فرمائے، زخمیوں کو شفایاب فرمائے، بے گھروں کو سائبان دے، بھوکوں پیاسوں کو کھلائے پلائے اور جذبۂ جہاد و استشہاد کی بادِ بہاری پوری امت میں چلائے اور مہکائے۔ بے شک اللہ کے اس کلام میں ہمارے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی کی بشارت ہے:
وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهٗ وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاۗءَ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَوَلِيُمَحِّصَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَمْحَقَ الْكٰفِرِيْنَ اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ (سورة آلِ عمران: ۱۴۲–۱۳۹)
’’ (مسلمانو) تم نہ تو کمزور پڑو، اور نہ غم گین رہو، اگر تم واقعی مومن رہو تو تم ہی سربلند ہوگے۔ اگر تمہیں ایک زخم لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی اسی جیسا زخم پہلے لگ چکا ہے۔یہ تو آتے جاتے دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں، اور مقصد یہ تھا کہ اللہ ایمان والوں کو جانچ لے، اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہید قرار دے، اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ اور مقصد یہ ( بھی) تھا کہ اللہ ایمان والوں کو میل کچیل سے نکھار کر رکھ دے اور کافروں کو ملیامیٹ کر ڈالے۔ بھلا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ( یونہی) جنت کے اندر جاپہنچو گے؟ حالانکہ ابھی تک اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو جانچ کر نہیں دیکھا جو جہاد کریں، اور نہ ان کو جانچ کر دیکھا ہے جو ثابت قدم رہنے والے ہیں۔‘‘
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین وصلی اللہ تعالیٰ علی نبینا الأمین!