بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للہ وکفیٰ والصلاۃ والسلام علیٰ أشرف الأنبیاء.
اللّٰھم وفقني کما تحب وترضی والطف بنا في تیسیر کل عسیر فإن تیسیر کل عسیر علیك یسیر، آمین!
آج دنیا کے حالات میں جو تغیرات آ رہے ہیں، خاص کر ان خطوں میں کہ جو دنیا بھر کی جنگوں کا مرکز ہیں، تو یہ حالات راقم السطور کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اس سلسلۂ تحریر ’القاعدہ کیوں؟‘ کو آگے بڑھائے رکھے۔ اللہ پاک سے خیر کی توفیق اور شر سے نجات کا سوال ہے۔ اللہ پاک اس تحریر کو راقم و قاری کے لیے سبب خیر بنائے اور مجھے اس کو جاری رکھنے کی توفیق دے، آمین!
دوسری وجہ: انہیں تنہا چھوڑ دینے والا انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے:
’’لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَی الْحَقِّ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّی يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ کَذَلِکَ.‘‘ (صحیح مسلم)
’’ میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق بات پر غالب رہے گی جو انہیں رسوا کرنا چاہے گا (ان کا ساتھ چھوڑ دے گا)وہ ان کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت)آجائے اور وہ اسی حال پر ہوں گے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے، ذرا غور کیجیے!یہ فرمانِ رسولؐ کن لوگوں پر صادق آتا ہے؟ کیا یہ حدیث ان پر صادق نہیں آتی کہ جو آج یہود و نصاریٰ اور مرتدین کے طاغوتی حملے کا جاں توڑ مقابلہ کر رہے ہیں، جو ان اہلِ کفر و نفاق سے برأت کا اعلان کرتے ہیں، ان کے خلاف تلوار اٹھائے ہوئے، ان کے خلاف جنگ کرتے ہیں اور بدلے میں ان کے خلاف جنگ کی جاتی ہے؟
ذرا غور کیجیے! کیا یہ حدیث ان لوگوں پر منطبق نہیں ہوتی کہ جو اللہ کے دین کے دفاع کی خاطر ایک ایسے وقت میں اٹھ کھڑے ہوئے جب مسجدیں گرائی جا رہی تھیں، مصاحفِ قرآنی شہید کیے جا رہے تھے، عزتیں پامال ہو رہی تھیں، دشمنانِ دین و اہلِ رفض مسلمانوں کی عزت و ناموس کو روند رہے تھے، جب کفر اسلام پر غلبہ پائے ہوئے تھا!
کیا اس حدیث میں بیان کی گئی صفات کے حامل وہ لوگ نہیں کہ جب انہوں نے مسلمان خواتین کی مظلومانہ چیخ و پکار سنی، جن کی عزتیں اہلِ رفض اور صلیب کے پجاریوں نے پامال کی تھیں۔ یہ سب دیکھ اور سن کر انہوں نے قسم کھا کر کہا’’اللہ کی قسم! ہم اس وقت تک سکون سے نہیں بیٹھیں گے،ہم پلکیں بھی نہ جھپکیں گے، ہماری تلواریں تنی رہیں گی اور نیام میں نہ جائیں گی یہاں تک کے اے ہماری عفیفہ بہنو! ہم تمہاری عزت کا انتقام نہ لے لیں!‘‘ اب آپ ہی بتائیے کہ کیا یہ قسم کھانے والے مجاہدینِ اولواالعزم نے اپنے قول کو اپنے عمل سے سچا کر دکھایا یا نہیں؟! یہ مجاہد یا تو اپنا عہد نبھا کر اس دنیا سے گزر گئے یا آج بھی ہر عسر و یسر کے ساتھ میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔
کیا طائفۂ منصورہ کی صفات ان مجاہدین پر صادق آتی ہیں کہ جنہیں کسی کا ساتھ دینا یا چھوڑ جانا، کسی کی حمایت یا مخالفت کچھ متاثر نہیں کرتی اور وہ اپنے جہاد میں جتے رہتے ہیں؟ یا کیا طائفۂ منصورہ کی صفات ان لوگوں پر صادق آتی ہیں جنہوں نے کبھی افغانستان میں امریکہ کا ساتھ دیا، نان نیٹو اور فرنٹ لائن اتحادی کا تمغہ اپنے سینے پر سجایا، یا جنہوں نے عراق میں جاری جہاد کے ناجائز ہونے کے فتاویٰ دیے، جنہوں نے اہلِ سنت کے مجاہدین کو خوارج کہا، ان کے جہاد کو فتنہ قرار دیتے رہے۔ وہ لوگ جنہوں نے مجاہدین کو تنہا چھوڑ دیا، خود اپنے گھروں میں پیچھے بیٹھ رہے اور دنیا کی آسائشوں میں مگن ہو گئے۔ کیا طائفۂ منصورہ کی صفات ان لوگوں پر صادق آتی ہیں کہ جنہو ں نے اپنی تیز زبانوں سے مجاہدین کے دلوں اور کلیجوں پر گہرے گھاؤ لگائے، کسی کہنے والے کی بات مجھے یاد آ گئی کہ ان صاحب نے کہا کہ اچھا ہوا کہ طالبان نے لمبے لمبے بال رکھ لیے، فرشتوں کو انہیں جہنم میں گھسیٹنے میں آسانی ہو گی، فإنّا للہ وإنّا إلیہ راجعون! ان لوگوں نے مجاہدین کا ساتھ کبھی نہ دیا اور ان کے اقوال بتاتے ہیں کہ شاید انہوں نے ان مجاہدوں کے لیے کبھی دعائے خیر بھی نہ مانگی ہو گی۔ یہ لوگ مجاہدین کی بڑی بڑی خوبیوں سے چشم پوشی کرتے ہیں اور ان پر صریح تہمتیں لگانے تک سے گریز نہیں کرتے۔ کیا یہ تہمتیں دھرنے والے اور بہتان لگانے والے لوگ طائفۂ منصورہ میں سے ہیں؟
یہ جاننے کے لیے کہ اولاً مذکور حدیث کس پر زیادہ صادق آتی ہے، اس کو سمجھنے کے لیے کوئی بہت بڑا محقق ہونا ضروری نہیں، عام مشاہدے کی آنکھ سے دیکھیے۔ رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’ان کو تنہا چھوڑنے والا ان کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا‘۔ نصرتِ دین سے پیچھے کون ہٹا؟ کس نے جہاد اور غلبۂ اسلام کی راہ کو چھوڑا؟ وہ جو اپنی جانوں اور مالوں سے کفار کے خلاف نبرد آزما ہیں یا وہ جو اپنے گھروں میں بیٹھ گئے؟
دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم
جو تنظیمیں اور جماعتیں القاعدہ یا دیگر مجاہدین کو غلط قرار دیتی ہیں، میں ان سے پوچھتا ہوں کہ آپ کے منہج و طریق پر چلنے والے مجاہدین کہاں ہیں؟ اور سچ یہ ہے کہ وہ اپنی صفوں میں ایسے مجاہدین کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہیں جو ان کے منہج پر چلتے ہوں۔ اس منہج کے سالکین کیونکر آج جہاد کا حصہ نہیں ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جہاد ہمیشہ جاری رہے گا۔
یہ سب جان لینے کے بعد آپ کی رائے کیا ہے؟ کیا وقت آ نہیں گیا کہ آپ مجاہدین کے بارے میں اپنی رائے بدل لیں۔ وہ مجاہدین جو امت کی شان، امت کا مان، امت کا وقار، امت کے محافظ ہیں، وہ لوگ کہ جن کی آنکھیں رباط میں جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں پر پہرہ دیتی ہیں تو ہم اپنے گھروں میں آرام کی نیند سوتے ہیں اور جن کے پہرے کے سبب ہماری نسلوں کا ایمان محفوظ ہے۔ وہ مجاہدینِ اسلام جنہیں اللہ ربّ العزت نے ’ذروۃ سنام الإسلام‘ اسلام کی چوٹی کے مقام سے نوازا ہے؟
تیسری وجہ: وہ حق کی خاطر قتال کرنے والے ہیں
حضرتِ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
’’لَا تَزَالُ عِصَابَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَی أَمْرِ اللَّهِ قَاهِرِينَ لِعَدُوِّهِمْ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّی تَأْتِيَهُمْ السَّاعَةُ وَهُمْ عَلَی ذَلِکَ.‘‘ (صحیح مسلم)
’’میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ اللہ کے حکم کی خاطر لڑتی رہے گی اور اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل رکھے گی جو ان کی مخالفت کرے گا وہ انہیں کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اسی حالت میں قیامت واقع ہوجائے گی ۔‘‘
اس حدیث میں طائفۂ منصورہ کی ایک واضح صفت بیان کی گئی ہے اور وہ ہے حق کی خاطر قتال کرنا۔ اب اس رُو سے دیکھیے تو ہم القاعدہ کو دنیا کی سب سے زیادہ طاقت ور جہادی جماعتوں میں سے پائیں گے کہ جو حق کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ اس قتال علی الحق کی دلیل ان کا افغانستان، پاکستان، کشمیر، ہندوستان، عراق، شام ، صومالیہ ، مالی، الجزائر اور جزیرۃ العرب خصوصاً یمن میں حملہ ور دشمن اور امریکیوں و اسرائیلوں کے فرنٹ لائن اتحادیوں کے خلاف لڑنا ہے۔ طائفۂ منصورہ کی حق کی خاطر جنگ کرنے کی صفت انتہائی واضح اور ممیز ہے اور اس صفت سے مجاہدین ہی سب سے زیادہ متصف ہیں۔ یہ حدیث ہر گز ان لوگوں پر منطبق نہیں ہوتی جنہوں نے جہاد کو ترک کر دیا اور اس فریضے کو بھلا بیٹھے۔ بلکہ ہائے افسوس کہ کچھ لوگ تو اس فریضے سے بے رغبتی کا اظہار کرتے ہیں اور عصرِ حاضر میں عملِ جہاد کے غیر مؤثر ہونے کا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ حالانکہ اسی اقامتِ جہاد و قتال کے سبب آج امارتِ اسلامیہ افغانستان کی صورت میں ایک حکومتِ شرعی قائم ہوئی ہے، صومالیہ میں مجاہدینِ اسلام کی فتوحات موغادیشو کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہیں، جہاد ہی کی برکت سے ملکِ شام میں ظالم و جابر نصیری نظام کا خاتمہ ہوا ہے اور اہل السنۃ سمیت تمام مظلومین کو چین کا سانس میسر آیا ہے ۔ جبکہ دیگر مناہج کا فروغ کرنے اور جہاد کو غیر مؤثر قرار دینے والے حضرات کی جہد کا ظاہری نتیجہ جسے وہ اپنے تئیں ’مؤثر‘ سمجھتے ہیں، کیا نکلا؟ کیا کوئی ایک خطۂ زمین بھی ایسا ہے جہاں ان ’مؤثر‘ محنتوں کا نتیجہ نفاذِ اسلام یا اقامتِ شریعت یا کم از کم اہلِ کفر و ضلال کے غلبے کے خاتمے کے نتیجے میں ظاہر ہوا ہو؟
یہاں یہ لطیف نکتہ بھی قابلِ بیان ہے کہ بعض اسلامی جماعتیں اور تنظیمیں مذکور روایتِ حدیث کو پھیلانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں، للاسف بعض علماء بھی اس روایت سے چشم پوشی کرتے ہیں، ہم نے کئی علماء سے ’لا تزال طائفۃ……‘ کی روایت سنی ہے، لیکن وہ ’’یقاتلون‘‘ والی روایت ذکر نہیں کرتے، گویا یہ صحیح مسلم میں موجود ہی نہ ہو۔
سنہ ۲۰۱۳ء کی بات ہے کہ میں اپنے مرشد جنابِ اسامہ ابراہیم غوری شہید کو اصرار کر کے لاہور میں جمعے کے دن اس مسجد میں لے گیا جہاں میں اکثر جمعہ پڑھا کرتا تھا۔ وہاں دورانِ خطبہ ہمیں عجیب حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب وہاں موجود محترم خطیب صاحب نے اس آیت کی تلاوت کی ’اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ ‘ کہ بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور مال جنت کے بدلے میں خرید لیے ہیں۔ آیت کے اس ٹکرے کی کچھ تفصیل بیان کرنے کے بعد وہ حضرت بولے کہ ’اس کے بعد اس میں کچھ تفصیل ہے اور اس کے بعد اللہ فرماتا ہے کہ ان لوگوں کی صفت یہ ہے کہ ’’اَلتَّاۗىِٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّاۗىِٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ ‘‘ یعنی ’’ (جنہوں نے یہ کامیاب سودا کیا ہے وہ کون ہیں ؟ )توبہ کرنے والے ! اللہ کی بندگی کرنے والے ! اس کی حمد کرنے والے ! روزے رکھنے والے ! رکوع میں جھکنے والے ! سجدے كرنے والے ! نیکی کی تلقین کرنے والے، اور برائی سے روکنے والے، اور اللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کی حفاظت کرنے والے ‘‘۔‘ بے شک محترم خطیب صاحب نے جو صفات بیان کیں وہ انتہائی اعلیٰ ہیں اور یہ خطیب صاحب کی نہیں اللہ کی بیان کر دہ ہیں بلکہ سورۃ التوبۃ کی آیت نمبر ایک سو گیارہ ’انّ اللہ اشتریٰ‘ کے بعد اگلی آیت میں یہ صفات بیان کی گئی ہیں لیکن پچھلی آیت یعنی ’انّ اللہ اشتریٰ‘ میں بھی خاص کر ایک صفت بیان ہوئی ہے کہ ’يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ ‘ یعنی ’ وہ اللہ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں مارتے بھی ہیں، اور مرتے بھی ہیں ‘۔ اس آیت میں تو کسی القاعدہ کا نام موجود نہیں ہے کہ ہم سوچیں کہ القاعدہ کا نام لینے سے منسوب کوئی خطرہ ان کی طرف متوجہ ہو جائے گا، بلکہ یہ تو اللہ کا قرآن ہے جو کسی القاعدہ کی نہیں بلکہ عموماً ان اہلِ ایمان کی صفات بیان کر رہا ہے کہ جنہوں نے اپنی جانوں اور مالوں کا سودا اللہ سے جنت کے بدلے کر لیا ہے، فیا للاسف، وإلی اللہ المشتکی!
(اصلی تالیف میں)شیخ ابو مصعب العولقی آگے بیان کرتے ہیں کہ میں ایک بار شمالی یمن میں ایک مدرسے میں زیرِ تعلیم تھا، تو میرے ایک ساتھی طالبِ علم نے صحیح مسلم کھولی اور مجھے یہ اولاً مذکور روایت دکھا کر پوچھا ’ہمارے علماء اس روایت کو کیوں بیان نہیں کرتے؟‘
میرے عزیز بھائی! یہ ایک ایسا وصف ہے جس پر عمل کا دعویٰ صرف اس کے اہل لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ یہ اللہ کی رحمتِ خاصہ ہے کہ اس نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے ’یقاتلون‘ کہلوایا جس کی جنگ کے سوا کوئی تاویل نہیں کی جا سکتی۔ اگر روایت میں ’یجاھدون‘ (وہ جہاد کرتے ہوں گے) آتا تو بعض لوگ اس کی تاویل کرنے کی کوشش کرتے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس روایت میں اس قدر صراحت سے قتال کا ذکر ہے اس کے باجود بھی کچھ لوگ اس کا کوئی اور مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں، ولا حول ولا قوۃ إلّا باللہ!
القاعدہ میں موجود ایک مجاہد ساتھی نے مجھے بتایا کہ اس کی بحث کسی اور تنظیم میں موجود کسی شخص سے ہوئی تو اس ساتھی نے کہا ’ہم مجاہدین کا منہج بر حق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یقاتلون‘‘، یہ گروہ قتال کرنے والا ہو گا‘ تو وہ شخص کہنے لگا کہ ’یہاں ’’یقاتلون‘‘ بمعنیٰ ’’یدعون‘‘ بیان ہوا ہے یعنی وہ دعوت دینے والے ہوں گے۔ یہ سن کر القاعدہ سے وابستہ ساتھی بولا اگر تم مجھے لغت میں یقاتلون بمعنیٰ دعوت کہیں دکھا دو تو میں القاعدہ کا منہج ترک کر دوں گا۔ بقولِ اقبالؒ(شرطِ شعر فہمی کے ساتھ کہ اس میں کسی اور پر کچھ طعن مقصود نہیں):
صوفی کی طریقت میں فقط مستیٔ احوال
ملّا کی شریعت میں فقط مستیٔ گفتار
شاعر کی نوا مردہ و افسردہ و بے ذوق
افکار میں سر مست، نہ خوابیدہ و بیدار
وہ مردِ مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کی رگ و پے میں فقط مستیٔ کردار
اللہ آپ کی حفاظت فرمائے! ذرا دیکھیے یہ کیسے نصوصِ شرعیہ کا معنیٰ و مفہوم توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور اس میں تحریف کرتے ہیں۔ اے میرے بھائی بخوبی جان لو کہ یہی حق کا راستہ ہے، اس کی سختی تمہیں اس سے ہٹنے پر مجبور نہ کر دے کہ قتال فی سبیل اللہ طائفۂ منصورہ کی تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے۔
یہ رتبۂ بلند ملا، جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
اللھم اجعلنا هادين مهتدين، غير ضالّين ولا مضلّين، سلماً لأوليائك، وحرباً علی الأعدائك، نحبك من أحبك، ونعادي بعداوتك من خالفك. اللهم هذا الدعاء ومنك الإجابة، اللهم هذا الجهد وعليك التكلان، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم، آمين!
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭