الحمد لله مُعِزِّ المؤمنين، ومُذِلِّ الكافرين، وناصرِ عبادِهِ المجاهدين، الذي صدقَ وعدَهُ، ونصر عبدَه، وأعزَّ جندَه، وهزمَ ا أ لأحزابَ وحدَه،
اس رب کا شکر ہے جو مؤمنوں کو عزت دینے والا اور کافروں کو ذلیل کرنے والا ہے۔ جو اپنے مجاہد بندوں کا حامی و ناصر ہے۔ جس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ جس نے اپنے (نیک) بندے کی مددکی، اپنے سپاہیوں کو عزت بخشی اور اکیلے ہی (دشمن کے ) لشکروں کو شکست دی۔
أما بعد…
طوفان الاقصیٰ کے مبارک معرکے کی عظیم فتوحات پر ہم اپنے پیارے اہلِ غزہ اور وہاں کے معزز مجاہدین کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ یقیناً ہم، اسی ذات جل شأنہ کی بڑائی اور حمد و ثنا بیان کرتے ہیں جو ہر طرح کی تعریف کے لائق ہے۔ وہی ہے کہ جس کی طرف ہر خیر لوٹتی ہے۔ اسی نے فلسطین میں اہلِ رباط کے دلوں کو تھامے رکھا۔ اور پھر انہیں اس نصرِ مبین سے نوازا، بعد اس کے کہ شدت و مصائب کی مہیب راتوں نے ان کو چاروں جانب سے گھیرا ہوا تھا۔ ان پر سختیاں اور تکلیفیں آئیں، اور انہیں ہلا ڈالا گیا، یہاں تک کہ وہ بول اٹھے کہ:
مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ
’’ اللہ کی مدد کب آئے گی ؟ یا درکھو ! اللہ کی مدد نزدیک ہے۔‘‘
اے ہماری محبوب امتِ مسلمہ! قرآن حکیم کے معیارات کے مطابق، اللہ کی نصرت اور فوز و فلاح کی انواع میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ سبحان وتعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو کفر کی سرکش موجوں کے سامنے صبر و استقامت اور ثابت قدمی کی توفیق دے دے۔ قرآنی آیات سے جو فتح و نصرت کا سبق نکلتا ہے، آج اس کا مشاہدہ اللہ کی مسجدوں سے معمور، اس کے ذکر سے پر نور اور قرآن کی تلاوتوں سے معطر غزہ میں بآسانی کیا جا سکتا ہے۔ وہی اللہ ہے کہ جس نے یہودی غاصبوں کے منصوبوں اور ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ نہ تو یہ اپنے کسی بنیادی مقصد کو تکمیل تک پہنچا سکے اور نہ ہی یہ اپنے قبضے کو برقرار رکھ سکے۔ غزہ کے فرزندانِ توحید کے ہاتھوں سے اسلحہ چھیننے کے ان کے بلند و بانگ دعوے آج حسرتوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ مجاہدین کا مکمل صفایا کرنے کے ان کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ غزہ کے اہم اسٹریٹیجک مقامات پر ان کے قبضے کے سب منصوبے برباد ہو چکے۔ ہمارے مسلمان بہن بھائیوں کو قید و بند میں رکھنے میں بھی وہ نامراد ہوئے۔ برابری کی سطح پر رہتے ہوئے مجاہدین نے اگر ان یہودیوں کا کوئی قیدی رہا کیا تو محض اسی کو یہ رہا کروا پائے وگرنہ اپنے قید ساتھیوں کو رہا کرنے کے ہدف میں بھی یہ ناکام ہی رہے۔ غزہ کے غیور باسیوں کو غزہ سے جلا وطن کرنے کی کوشش میں بھی انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی۔ اور حقیقت یہ ہے کہ:
وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّآ اَنْ يُّؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ
’’ اور وہ ایمان والوں کو کسی اور بات کی نہیں، صرف اس بات کی سزا دے رہے تھے کہ وہ اس اللہ پر ایمان لے آئے تھے جو بڑے اقتدار والا، بہت قابل تعریف ہے۔ ‘‘
ان سب سے بڑھ کر یہ مجاہدین کی شرائط ماننے پر مجبور ہو گئے حالانکہ مجاہدین نے اس سے قبل ان یہودیوں کا خوب قتل اور ان کی لاشوں کے انبار لگائے تھے۔ اور جہاں تک بات ہے غزہ کے غیرت مند مسلمانوں کے جانی، مالی اور املاک کے نقصانات کی تو اللہ سبحان وتعالیٰ کا تو ہر مجاہد سے وعدہ، “احدىٰ الحسنيين“ (دو کامیابیوں میں سے ایک، فتح یا شہادت) کا ہے، تو اس میزان میں بھی یہ واقعات ایک عظیم فتح کا پیش خیمہ ہیں۔ پس اللہ سے دعا ہے کہ ان کے شہداء کو قبول فرمائے، ان کے زخمیوں اور مریضوں کو شفائے کاملہ و عاجلہ نصیب فرمائے اور ان کے مفلس، ناداروں اور ضعیفوں کے دامن کو اپنی رحمتِ خاص سے بھر دے۔ آمین۔
صبر و استقامت کی ردا اوڑھے اللہ کی جانب سے ہمارے ان بھائیوں کے لیے جو عظیم کامیابی آئی ہے، اور جہاد و رباط اور ایمان پر ثابت قدم رہنے کی وجہ سے جو ان کو عزت و افتخار حاصل ہوا، اس پر ہم اپنے ان بہادر بھائیوں کو مبارک باد دینا چاہتے ہیں۔ ہماری نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ اور ہم آپ کی تائید کا اعلان کرتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ آپ کو اپنی معیت و نصرت، اور مدد سے نوازے۔ آپ کو ہر ایسے کام کی توفیق دے جو اللہ کو پسند ہو اور جس سے وہ راضی ہو۔ آپ کو دین قائم کرنے والا اور شریعت مطہرہ کی نصرت کرنے والا بنا دے۔
ہم تمام اہل اسلام کو اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ غزہ کے مسلمان بھائیوں اور ان کے اسلامی قضیہ کی خاطر ان کے ساتھ کھڑے ہوں۔ یہ ایسا قضیہ ہے جو آسمان سے برستے قطروں سے زیادہ پاکیزہ و مطہر ہے۔ آج ہم سب پر نہایت شدت سے یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اللہ کے حضور غزہ و فلسطین کے مسلمانوں کا ساتھ چھوڑے رکھنے پر سچی توبہ کریں۔ ہم پر فرض ہے کہ اپنے اموال، اسلحے اور ہر وہ چیز جو ہمارے بس میں ہو، اس سے ان کی مدد کریں، خاص کر دعا سے۔ ان کے فضائل و محاسن لوگوں میں نشر کریں۔ ان کے جہاد کے تذکرے عام کریں۔ اور لوگوں کو بتائیں کہ ان ابطال کا پوری امت کے نوجوانوں پر کیا حق بنتا ہے۔ اسی طرح پوری امت پر واجب ہے کہ ان کے ساتھ رابطے کی کوشش میں رہے تاکہ امت کی تمام رفاہی اور عسکری امداد صحیح جگہ پر پہنچ سکے۔ اس طرح طوفان کی آئندہ آنے والی موجوں میں سرزمینِ اسریٰ و معراج کی آزادی کے معرکوں میں ہم اپنا کردار بھی ادا کر سکیں گے۔ اسی ذریعے سے باذن اللہ مسجد اقصیٰ الشریف آزاد ہو گی۔ پورا خطۂ فلسطین اس شکست خوردہ صلیبی صہیونی اتحاد سے آزاد ہو گا۔ اسی طرح پوری دنیا کے اہل اسلام کو جان لینا چاہیے کہ معرکۂ طوفان الاقصیٰ اور اس سے برآمد ہونے والے نتائج ابھی تک ختم نہیں ہوئے اور نہ ہی دنیا کے ہر نئے رونما ہونے والے واقعے سے اس کے آثار مٹے ہیں۔ ابھی تو ہم نے اس مبارک کتاب کی پہلی دو سطریں بھی مکمل نہیں کیں۔ آئندہ رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں اللہ سبحان وتعالیٰ ہمیں پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ:
وَلَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ
’’ اور اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس (کے دین) کی مدد کریں گے۔ بلاشبہ اللہ بڑی قوت والا، بڑے اقتدار والا ہے۔ ‘‘
پس ہمیں چاہیے کہ اس مقدس سفر کو بیت المقدس تک جاری رکھیں۔ اور یقیناً اہل اسلام وہ دن ضرور دیکھیں گے جب وہ یہود اور ان کے حلیفوں سے خوب اپنا بدلہ چکائیں گے۔ جس دن ہر شجر و حجر یہودیوں کے خون کا پیاسا ہو گا۔ اس دن ہر درخت اور پتھر اہل اسلام کامددگار، معاون اور حلیف بن کر بلند آواز سے کہے گا:
«يا عبد الله هذا يهودي ورائي فاقتله »
’’اے اللہ کے بندے! یہ میرے پیچھے یہودی (چھپا) ہے اسے قتل کر دو۔‘‘
پس آج ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی جنگی تیاری اور اعداد میں لگا رہے تاکہ وہ اس دن کو دیکھ پائے۔ بے شک یہ جہاد ہے، یا تو ہم فتح یاب ہوں گے یا شہید ہو جائیں گے۔ والحمد لله رب العالمين
قیادتِ عامہ
تنظيم قاعدة الجہاد
رجب ۱۴۴۶ھ، جنوری ۲۰۲۵ء
٭٭٭٭٭