یہ تحریر تنظیم قاعدۃ الجہاد في جزیرۃ العرب سے وابستہ یمن کے ایک مجاہدلکھاری ابو البراء الاِبی کی تالیف ’تبصرة الساجد في أسباب انتكاسۃ المجاهد‘ کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے ایسے افراد کو دیکھا جو کل تو مجاہدین کی صفوں میں کھڑے تھے، لیکن آج ان صفوں میں نظر نہیں آتے۔ جب انہیں تلاش کیا تو دیکھا کہ وہ دنیا کے دیگر دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟یہ تحریر ان سوالوں کا جواب ہے ۔(ادارہ)
تیسویں وجہ: کیونکہ ان کے کام کا ذکر نہیں ہوتا ، تعریف نہیں کی جاتی اور ان کی ستائش نہیں کی جاتی
گویا کہ ان کے کام لوگوں کے لیے ہوتے ہیں۔ ایسے شخص کو آپ یہ کہتا پائیں گے: یہاں محنت کی قدر کرنے والا ہی نہیں، کوئی نہیں جو تخلیقی صلاحیت کو دیکھے، جو کام کرنے والوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھے، ہمارے ہاں کوئی نہیں جو لوگوں کو ان کا مرتبہ دے!
جبکہ سلف میں سے بعض حضرات کہتے تھے:
”کوئی شخص متقیوں میں اس وقت تک شامل نہیں ہو سکتا جب تک اس کے نزدیک تعریف کرنے والا اور تنقیص کرنے والا برابر نہ ہو جائیں۔“
حضرت ربیع بن خیثم نے سچ کہا:
”ہر وہ چیز جو خالص اللہ تعالیٰ کے لیے نہ کی جائے وہ مٹ جاتی ہے۔ “
امام ابن الجوزی نے فرمایا:
”منزل کی طلب میں سچائی وہ روشنی ہے جو جہاں پائی جائے تو سیدھے راستے کی نشاندہی کرتی ہے۔ جبکہ بھٹکتا وہ شخص ہے جس میں اخلاص نہ ہو۔ “
شیخ عبد القادر جیلانی نے فرمایا:
” اے لڑکے، دل کے اعمال کے بغیر محض زبان کی سمجھداری تمہیں حق کی طرف ایک قدم بھی نہیں بڑھائے گی۔ سفر پر در حقیقت گامزن تو دل ہوتا ہے۔ “
امام سفیان ثوری نے فرمایا:
”اقتدار اور لوگوں کی تعریف میں زہد اختیار کرنا درہم و دینار میں زہد اختیار کرنے سے زیادہ سخت ہے۔ کیونکہ درہم و دینار بھی اسی مقصد کے لیے خرچ کیے جاتے ہیں۔ “
پھر فرمایا:
”یہ ایک پوشیدہ باب ہے جو صرف ماہر علماء کو ہی نظر آ سکتاہے۔“
اور امام ابن رجب نے فرمایا:
”اس میں یہ بھی شامل ہے کہ عزت اور عہدے والا یہ پسند کرے کہ اس کے کیے پر اس کی تعریف کی جائے اور اس کام کے سبب اسے سراہا جائے۔ وہ لوگوں سے اس کا مطالبہ کرے۔ اور جو اس کی نہ مانے اسے اذیت پہنچائے۔ حالانکہ ممکن ہے کہ اس کا وہ کام تعریف کے بجائے مذمت کے لائق ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ظاہری طور پر نیکی کا کام کر کے یہ خواہش کرے کہ اس کی تعریف کی جائے، لیکن حقیقت میں اس سے بدی مقصود ہو۔ اور پھر لوگوں کو دھوکہ دے اور اس کی شہرت سے خوش ہو۔
یہ اللہ تعالی کے اس فرمان کے موافق ہے کہ :
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اَتَوْا وَّ يُحِبُّوْنَ اَنْ يُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ
”تم ان لوگوں کو عذاب سے محفوظ نہ سمجھو جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایسے کاموں کی تعریف انہیں حاصل ہوجو فی الواقع انہوں نے نہیں کیے۔ حقیقت میں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔“
کیونکہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جن کی یہ صفت ہو۔ جبکہ یہ صفت، یعنی لوگوں سے تعریف کا مطالبہ کرنا، اور اسے پسند کرنا، اور نہ کرنے پر سزا دینا، یہ صرف اللہ وحدہ لا شریک کے شایان شان ہے۔ اسی لیے ائمہ رشد و ہدایت اپنے افعال اور مخلوق خدا پر ان کی طرف سے ہونے والے احسان کی تعریف کرنے سے منع کیا کرتے تھے۔ اور حکم دیتے تھے کہ ایسے افعال پر اللہ وحدہ لا شریک کی تعریف اور حمد و ثنا کی جائے، کیونکہ تمام نعمتیں اسی کی جانب سے ہیں۔“
جو شخص نیکوکار شخص کی حقیقت جاننا چاہتا ہے ، تو وہ اس طرح ہوتا ہے جیسے امام ابن القیم نے الفوائد میں ذکر کیا:
” اسے بہادر اور پیش پیش رہنا چاہیے۔ اپنے توہمات کو گرفت میں رکھنا والا ہو، تخیلات کی حکمرانی کے تحت مقہور و مجبور نہ ہو، اپنے حقیقی مطلوب کے علاوہ ہر چیز میں زہد اختیار کرے، جس کی طرف متوجہ ہوچکا ہے اس سے عشق کرے، اور اس تک لے جانے والے راستے سے بخوبی واقف ہو اور ان راستوں سے بھی جو آڑے آ کر اس راستے کو کاٹ دیتے ہیں، بلند ہمت ہو، حوصلہ مند ہو، کسی ملامت کرنے والے کی ملامت اور معتوب کرنے والے کا عتاب اسے اپنے مطلوب سے نہ پھیر سکے، پر سکون رہنے والا ہو، ہمیشہ فکر مند رہے، نہ مدح و تعریف کی لذت کی طرف مائل ہو اور نہ ہی مذمت کی تکلیف کی طرف، معاون اسباب میں سے جو اسے درکار ہوں انہیں پورا کرنے میں تگ و دو کرنے والا ہو، مخالفتیں اسے برانگیختہ نہ کریں، صبر اس کا اوڑھنا بچھونا ہو، اس کی راحت تھکاوٹ میں ہی ہو، بلند اخلاق کو پسند کرنے والا ہو، اپنے وقت کی حفاظت کرے، لوگوں سے انتہائی احتیاط سے میل جول رکھے، اس پرندے کی طرح جو دانے اچک کر لے جاتا ہے۔ “
امام ابن القیم نے الفوائد میں مزید فرمایا:
”کسی دل میں اخلاص کے ساتھ مدح و ثنا کی محبت اور پرائی چیزوں کی حرص جمع نہیں ہو سکتے۔ جیسے کہ پانی اور آگ۔ اور گوہ اور مچھلی۔ تو اگر آپ کا دل آپ سے اخلاص کا تقاضا کرے تو پہلے آپ لالچ کی طرف بڑھیں اور اسے مایوسی کی چھری سے ذبح کر دیں۔ پھر مدح و ثنا کی طرف بڑھیں اور ان کے بارے میں ایسے زاہد بن جائیں جیسے دنیا کے عاشق آخرت سے زاہد ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ لالچ کو ذبح کرنے اور مدح و ثنا میں زہد کرنے پر پکے ہو جائیں تو آپ کے لیے اخلاص آسان ہو جائے گا۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ لالچ کو ذبح کرنا اور مدح و ثنا میں زہد کرنا مجھ پر کیسے آسان ہو سکتا ہے؟ تو میں کہوں گا: لالچ کو ذبح کرنے کو آپ کا یقینی طور پر یہ جاننا آسان کر سکتا ہے کہ دنیا میں ایسی کوئی چیز نہیں جس کی لالچ کی جائے اور اس کے خزانے صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں نہ ہوں۔ اللہ کے سوا کوئی بھی ان کا مالک نہیں۔ اور اللہ کے سوا کوئی نہیں جو کسی بندے کو ان میں سے کچھ دے۔
رہا مدح و ثنا میں زہد کرنا تو آپ کا یہ جاننا اسے آسان کر سکتا ہے کہ کوئی ایسی ذات نہیں جسے اس کی مدح کرنے سے فائدہ ہو اور اس کی مدح کرنا بھلا ہو، اور مذمت کرنے سے نقصان ہو اور مذمت کرنا برا ہو ما سوائے اللہ وحدہ کے۔ بالکل جیسے اعرابی نے نبی اکرم ﷺ سے کہا تھا: میری تعریف باعث عزت اور میری مذمت باعث عیب و شرمندگی ہے۔ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’یہ تو اللہ تعالی عز و جل کے لیے خاص ہے۔‘ تو جس کی تعریف کرنے سے آپ اچھے نہ لگیں، اور مذمت کرنے سے آپ برے نہ معلوم ہوں تو ایسے شخص سے زہد اختیار کریں۔ اور ایسی ہستی کی مدح میں راغب ہوں جس کی مدح میں تمام خوبصورتی ہے۔ اور اس کی مذمت پوری کی پوری بری ہے۔ اور اس پر صرف صبر و یقین سے ہی عمل کیا جا سکتا ہے۔“
يَهْوَي الثَّنَاءَ مُبَرِّزٌ ومُقَصِّرٌ
حُبُّ الثَّنَاءِ طَبِيعَةُ الْإِنْسَانِ
’’کامیاب اور نا کام دونوں تعریف کے شوقین ہوتے ہیں، کیونکہ مدح و ثنا کو پسند کرنا انسانی فطرت ہے ۔‘‘
حماد بن زید، ایوب سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز سے کسی نے کہا: اے امیر المومنین اگر آپ مدینہ میں رہا کریں تو کتنا اچھا ہے۔ اگر وہاں اللہ نے آپ کے لیے وفات لکھی ہو تو آپ رسول اللہ ﷺ کی قبر سے چوتھی قبر میں مدفون ہوں گے۔ تو حضرت عمر بن عبد العزیز نے فرمایا:
”اللہ کی قسم ، مجھے یہ پسند ہے کہ اللہ مجھے آگ کے علاوہ کسی بھی عذاب میں مبتلا کر دیں لیکن یہ پسند نہیں کہ اللہ میرے دل میں کہیں یہ پا لیں کہ میں اپنے آپ کو اس لائق سمجھتا ہوں۔ “
٭٭٭٭٭