شہید ملا نیک محمد کا نعم البدل
اسلامی و جہادی تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے دین کی حفاظت کے لیے رجال ِ کار پیدا کرتا رہتا ہے۔ راہِ جہاد میں جب ایک بہادر اور باصلاحیت مجاہد شہید ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی کاوش اور صلاحیت کو ضائع نہیں فرماتابلکہ دوسرے مجاہدین کے ذریعے اس کا نعم البدل عطا فرمادیتا ہے۔اس لیے جہادی محاذ کبھی بھی شہادتوں کی وجہ سے رجالِ کار سے خالی نہیں ہوئے۔
پچھلی سطور میں شہید ملا نیک محمد کا تذکرہ ہوا کہ آپ قندھار –ہرات شاہراہ پر روسیوں کے قافلوں پر گھات لگاتے، آپ ۱۹۸۳ء میں شہید ہوئے۔ ان کی شہادت کو ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ اس علاقے میں ارزگان سے اینٹی ٹینک اسلحے (آر پی جی) کے ایک ماہر مجاہد ملا محمد عمرکی آمد ہوئی۔ ملا محمد عمر مجاہدنے اس علاقے کے جہادی گروپ میں ملا نیک محمد کے محاذ کوانہی کی طرح جاری رکھا۔ بعد میں گروپ کے عمومی مسئول فیض اللہ اخوند کہا کرتے تھے کہ اگر چہ ملا نیک محمد اخوند کی شہرت زیادہ تھی لیکن ملا محمد عمر مجاہد ان کی نسبت جہادی فعالیت میں زیادہ تیز ہیں۔
شاہراہوں پر مورچےبنانا، اس کے گرد بارودی سرنگوں کا جال بچھانا اور سکیورٹی چیک پوسٹیں بنانے کے باوجود سوویت افواج مجاہدین کے حملوں کو روکنے میں ناکام رہیں۔ مجاہدین مورچوں کے درمیان سےگزر کر شاہراہ پر آجاتے اور قابض دشمن کے قافلوں پر حملے کیا کرتے ۔ ملا محمد عمر مجاہد ان جنگوں میں راکٹ کا نشانہ خطا نہ ہونے کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ اس دور کے ایک مجاہد کے بقول ان جنگوں میں مجاہدین پر دشمن کی برتری بکتربندگاڑیوں کی وجہ سےتھی جن پر مجاہدین کی بندوق کی عام گولیوں کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا تھا، لیکن جس جنگ میں ملا محمد عمر مجاہد شامل ہوتے تو ہمیں بکتر بند گاڑیوں کا خوف نہیں رہتا تھا۔
آر پی جی مضبوط بازوؤں کے مالک ملا محمد عمر مجاہد کے ہاتھ کا وہ اسلحہ تھا جس کی آپ نے باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی تھی، بلکہ عملی جنگ میں مسلسل استعمال کی وجہ سے آپ کو اس میں مہارت حاصل ہوگئی تھی، چنانچہ کم ہی کہیں ایسا ہوا ہوگا کہ آپ کا نشانہ خطا گیا ہو۔ ان جنگوں میں آپ کے ہمراہ ساتھی ملا عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ملا صاحب نے اس دوران کافی جنگوں میں شرکت کی۔ قابض سوویت افواج کے قافلے پر جب بھی کمین لگائی جاتی تو آپ اس میں حصہ لیتے، آپ دشمن کی بکتربند گاڑیوں کو مسلسل نشانہ بناتے حتیٰ کہ ایک بار ایسا ہوا کہ ملا صاحب کو آر پی جی کے گولے دینے والے ساتھی محمد فاضل کے بقول ملاصاحب نے اپنے پاس موجود آر پی جی کے گولوں کی تعداد کے برابر بکتربند گاڑیوں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں بعض مکمل طور پر تباہ ہوئیں اور باقیوں کو جزوی نقصان پہنچا ۔
روس کے خلاف جہاد میں مجاہدین تباہ شدہ ٹینکوں سے اندازہ لگاتے کہ فلاں مجاہد بہت اچھی آر پی جی چلاتے ہیں اور اب تک اتنی تعداد میں ٹینکوں کو نشانہ بناچکے ہیں۔ لیکن ملا برادر اخوند جوکہ ملا صاحب کے قریبی ساتھی رہ چکے تھے وہ کہتے ہیں کہ ملا صاحب نے مختلف جنگوں میں اتنی کثیر تعداد میں روسی ٹینکوں کو نشانہ بنایا کہ ان کے ساتھیوں کے لیے اندازہ لگانا مشکل ہو گیا۔
ملا برادر اخوند ایک ایسی جنگ کی روداد سناتے ہیں جس میں انہوں نےخود ملاصاحب کے ہمراہ شرکت کی تھی، آپ کہتے ہیں:
” ایک دن میں اور ملا صاحب سنگِ حصار سے پنجوائی نلغام چلے گئے، ادھر ملا محمد صادق اخوند کے گروپ کے مجاہدین رہ رہے تھے۔ ان کے عسکری مسئول ملا عبیداللہ اخوند1 تھے۔ (جو بعد میں امارت اسلامیہ کے وزیر دفاع رہے) ہم دوپہر کے وقت ان کے مرکز پہنچے لیکن جب کھانے کا وقت ہوا تو خبر آئی کہ فوجی قافلہ آرہا ہے۔ ملا صاحب نے کہا، چلو چلتے ہیں، سوویت فوج کے قافلے پر حملے کی غرض سے ہم سنگِ حصار واپس آگئے۔ مرکز واپس پہنچ کر ملا صاحب نے باقی ساتھیوں کو تیاری کا کہا، ہم تقریباً ۱۳ ساتھی تھے۔ ہم جلد ہی سڑک کے کنارے موجود نالے میں پہنچ گئے اور ادھر ہی گھات لگا کر بیٹھ گئے۔
سوویت فوج کی رسد لے جانے والے قافلے کے آگے ایک ٹینک آرہا تھا۔ ملا صاحب نے سب سے پہلے اس ٹینک کو نشانہ بنایا، ٹینک گولہ لگنے کے بعد پیچھے مڑااور عین سڑک کے درمیان میں رک گیا جس کی وجہ سے پیچھے آنے والے قافلے کے لیے راستہ بند ہوگیا اور ساری گاڑیاں رک گئیں، کیونکہ انہیں کچے راستے پر مائنوں کا خطرہ بھی تھا۔ اس کے بعد قافلے میں سامانِ رسد والی گاڑی، کچھ بکتربند اور تیل لے جانے والے ٹینکر بھی پہنچ گئے اور مجاہدین نے ان پر حملے شروع کردیے۔
اس جنگ میں مَیں اور زعفران ماما نامی مجاہد ملا صاحب کے ساتھ تھے، ملا صاحب کے پاس راکٹ کےگولے کم تھے اس وجہ سے آپ صرف ان جنگی وسائل اور گاڑیوں کو نشانہ بنا رہے تھے جن پر چھوٹا اسلحہ کارآمد نہیں تھا۔ ٹینک کو نشانہ بنانے کے بعد ملا صاحب نے ایک بکتر بند گاڑی کو نشانہ بنایا جس میں آگ لگ گئی اور وہ مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔
اگر چہ اس جنگ میں مجاہدین کی تعداد کافی کم تھی لیکن اللہ تعالیٰ کی مددو نصرت سے مجاہدین نے سوویت یونین کے بڑے قافلے کو بھاری نقصان پہنچایا، قافلے کی کچھ رسد پہنچانے والی گاڑیوں میں بھی آگ لگ گئی اور ان سے دھواں اٹھنے لگا ۔ مجاہدین کے پاس جب تک گولیاں رہیں انہوں نے اس وقت تک جنگ جاری رکھی، گولیاں ختم ہونے کے بعد آہستہ آہستہ اپنے مرکز کی طرف واپس ہوگئے۔ عصر تک روسی افواج اپنے نقصانات کو جمع کرنے اور بقیہ قافلے کومحفوظ بنانے میں مصروف رہیں۔ روسی قافلے کی واپسی کے بعد مجاہدین دوبارہ اس علاقے میں چلے گئے۔ علاقے میں روسیوں کو پہنچنے والے نقصانات کے آثار دکھائی دے رہے تھے، مجاہدین کو وہاں سے کچھ اسلحہ بھی ہاتھ لگ گیا۔“
ملا عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ دشمن کے سپاہیوں نے ایک مورچے کے اوپر شلکا لگائی تھی، شلکا چونکہ کافی دور ہدف کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے اس لیے مجاہدین کو کافی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ مجاہدین کے لیے دن میں مورچے کے قریب جانا ناممکن تھا اور رات کو فوجی شلکا کا بیرل اتاردیتے تاکہ مجاہدین کے ہاتھ نہ لگ جائے۔ ایک دفعہ جب رمضان کا مہینہ تھا، مغرب ہونے والی تھی، ملا صاحب نے راکٹ لانچر اٹھا لیا اور دشمن کی شلکا کو نشانہ بنانے کی نیت سے مورچے کے قریب پوزیشن سنبھال لی اور پہلے ہی وار میں شلکا کو نشانہ بنایا جس سے شلکا تباہ ہوگئی اور مجاہدین کی ہمیشہ کے لیے اس سے جان چھوٹ گئی۔
۱۹۸۴ءسے ۱۹۸۶ ء کے سال سوویت افواج کے لیے شدید کارروائیوں اورجارحانہ حملوں کے سال سمجھے جاتے ہیں۔ افغانستان کے امور کے ایک بڑے محقق اور مورخ ’اولیور رائے‘ کے مطابق اس عرصے میں سوویت یونین کی جانب سے جنگ میں شدت کی دو وجوہات تھیں۔ اینڈرو پوف کی موت کےبعد فوج کو ایک بار پھر اپنی جنگی حکمت عملی کو آگے بڑھانے کا موقع مل گیا اور آہنی مکا (Iron Fist) کے عنوان کے تحت پرانی حکمت عملی کو نافذ کر دیا گیا۔ دوسری بات یہ کہ سوویت فوج کو موقع مل گیا کہ اپنی پیش قدمی نہ ہونے کے عوامل کا بغور جائزہ لے اور گوریلا جنگ کے خلاف نئے حربے تخلیق کرے اور انہیں آزمائے۔ شدید جنگوں کی وجہ سے یہی سال سوویت افواج کے لیے سنگین نقصانات کا مرحلہ بھی ثابت ہوئے۔ ۱۹۸۴ء میں سوویت افواج کے اعدادوشمار کےمطابق دو ہزار سے زائد فوجی ہلاک ہوئےاور جنگ کا یہ مرحلہ قابض دشمن کے لیے خون ریز سال کے طور پر جانا جاتا ہے۔
اس مرحلے میں افغانستان کے باقی علاقوں کی طرح قندھار میں بھی سوویت افواج کے خلاف سخت جنگیں جاری رہیں، جن کی زیادہ تر شدت قندھار شہر کے قریب محلہ جات، ژڑئی، میوند، ارغنداب اور پنجوائی کے علاقوں میں تھی۔ چونکہ یہ علاقے ایک طرف قندھار شہر اور روسیوں کے لیے رسدوکمک پہنچانے والے راستوں کے قریب تھے ، تو دوسری طرف چھپنے کے لیے ان علاقوں میں گھنے باغات ہیں جومجاہدین کے چھپنے اور دشمن کے ساتھ مقابلہ کےلیے اچھی جائے پناہ تھی۔
ملا محمد عمر مجاہد نے سوویت یونین کےخلاف گھمسان کی لڑائیوں کے ان سالوں میں اپنا سارا عرصہ انہی جہادی علاقوں میں گزارا، آپ صرف ایک بار اپنے دوست ملا معاذ اللہ اور جنگ میں معاون ملا احمداللہ مطیع کی عیادت کے لیے پاکستان کےعلاقے چمن چلے گئے اور وہاں بیس دن گزار کر واپس افغانستان آگئے۔
آنکھ کی شہادت
فیض اللہ اخوندزادہ کے گروپ کی مرکزی قرارگاہ (اس وقت کے مجاہدین اسے کیمپ کہا کرتے تھے) میوندکے علاقے گرماوَک میں تھی، لیکن مجاہدین کا اصل جہادی علاقہ ضلع میوند کا سنگِ حصار تھا، ادھر ان کے کچھ مراکزاور رہائشی جگہیں تھیں جن میں دو سو سےڈھائی سو مجاہدین مقیم تھے۔ بعض مجاہدین ’کیشانو‘ نامی گاؤں کی مسجد میں رہ رہے تھے، ملا محمد عمر مجاہد بھی انہی مجاہدین میں شامل تھے۔ یہ مسجد سوویت افواج کے خلاف جہاد کے دوران آپ کی رہائش گاہ تھی، بعد میں آپ نے اس میں مزید کچھ کمرے بناکر مدرسہ بنادیا یہاں تک کہ طالبان کی اسلامی تحریک کا آغاز بھی اس مسجد سے ہوا۔
۱۹۸۶ء کی سردیوں میں سوویت افواج اور داخلی اشتراکیت پسند علاقہ سنگِ حصار میں ایک بڑا کانوائے لےآئے، کانوائے جس میں بے شمار ٹینک بھی شامل تھے ژڑئی کے دشت میں رُک گیااور وہاں سے آبادی کو بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بنانا شروع کردیا ۔ چونکہ مجاہدین کے ہلکے ہتھیار دشمن کے کانوائے پر اثر نہیں کررہے تھے اس لیے مجاہدین نے کانوائے پر میزائل حملوں سے جواب دیا۔
ملا محمد عمر مجاہد اپنے ساتھیوں کے ہمراہ باغ میں سوویت افواج پرگھات لگائے بیٹھے تھے تاکہ دشمن کے پیادہ دستے کے اس طرف نمودار ہونے کی صورت میں اس پر حملہ کردیں۔ جنگ کے دوسرے دن سوویت افواج نے گاؤں پرحملے تیز کر دیے اور آہستہ آہستہ گاؤں کی طرف پیش قدمی شروع کردی۔ گاؤں کو تباہ کرنے کے بعد سوویت افواج کا ایک پیادہ دستہ علاقے میں داخل ہوا لیکن اچانک مجاہدین کے شدید حملوں کی زد میں آگیا۔
اس جنگ میں ملا محمد عمر مجاہد اور آپ کے ساتھیوں نے سوویت افواج کے پیادہ دستے کو بھاری نقصان سے دوچار کیا اور دشمن کا اسلحہ غنیمت بھی کیا۔ جب سوویت افواج نے اپنا نقصان دیکھا تو اس نے پسپائی اختیار کر لی۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ روسی جنگی جہاز فضا میں نمودار ہوئے اور آبادی پر وحشیانہ بمباری شروع کردی۔
ملا محمد عمر مجاہد جنگ کے بعد اپنی جگہ (کیشانو گاؤں کی مسجد)واپس آگئے۔ اس دوران فضا سے روسی جہاز بمباری کررہے تھے۔ آپ مسجد میں ایک ستون کے پیچھے کھڑے اپنی دائیں آنکھ سے بمباری کا مشاہدہ کر رہے تھے ، اسی اثناء میں مسجد کے قریب ایک بم گرا اور اس کے پارچے مختلف سمتوں میں پھیل گئے، بم کا ایک پارچہ آپ کی اس آنکھ میں آکر لگا جو ستون کی اوٹ سے باہر تھی اور آپ اس سے علاقے کو دیکھ رہے تھے۔
آپ کی آنکھ پارچہ لگنے کے بعد مکمل ضائع ہوگئی اور آنکھ میں لوہے کا پارچہ پھنس گیا۔ آپ نے تکلیف برداشت کرتے ہوئے اپنی آنکھ سے خود ہی پارچہ نکال دیا۔ بعد میں باقی مجاہدین بھی آپ کی مدد کے لیے آن پہنچے۔ آنکھ کی معمولی پٹی کی گئی لیکن زخم کی صحیح طریقے سے صفائی اور علاج نہ ہوسکا۔ انہی دنوں جب مسلسل جنگیں جاری تھیں آپ ایک مہینے تک زخمی حالت میں یہیں رہے۔ اگر چہ زخمی حالت میں اسلحہ نہیں چلاسکتے تھے لیکن باقی جہادی خدمات میں حصہ لیتے رہے حتیٰ کہ کبھی کبھی مجاہدین کے ساتھ کارروائیوں پر بھی جاتے رہتے۔
جیسا کہ روس کے خلاف جہاد کے وقت جہادی محاذوں پر زیادہ تر اسلحہ جنوبی اور مشرقی سرحدات سے سپلائی ہوتا تھا، تو روسی اس نتیجے پر پہنچے کہ جب تک مجاہدین کے سپلائی راستوں کو بند نہ کیا جائے تب تک جنگ میں کامیاب ہونا ناممکن ہے۔ سوویت افواج نے داخلی خفیہ ادارے (خاد) کی مدد سے۲۴۳۰ کلو میٹر پر مشتمل پاکستان سے منسلک سرحد پر مجاہدین کے رسدوکمک کے راستوں پر نظر رکھنا شروع کردی اور مسلسل مجاہدین کو رسد پہنچانے والے قافلوں پر گھات لگا کر حملے کرتے۔ ۱۹۸۶ء میں مجاہدین کے ہاتھ سٹنگر میزائل لگنے سے اس مسئلے کی اہمیت مزید بڑھ گئی اور سوویت افواج داخلی اشراکیت پسندوں کی پشت پناہی میں مجاہدین کے رسدوکمک والے راستوں پر حملوں میں تیزی لے آئے۔ اعداد وشمار کے مطابق سوویت افواج مجاہدین کے پاس آنے والے اسلحے کی ہر تیسری کھیپ کو پکڑلیتے یا تباہ کردیتے۔
جہادی تنظیموں نےاپنے سپلائی کے قافلوں کی حفاطت کے لیے یہ ترتیب بنائی کہ ہرجہادی گروپ اپنی باری پر سپلائی والے راستوں کی حفاظت کرے گا اور معینہ مدت پر ان کا یہی جہادی کام ہوگا۔ملا محمد عمر مجاہد کے زخمی ہونے کے ایک ماہ بعد ان کے گروپ کوقندھار کے سرحدی علاقے شنہ نری اور ارغستان سے گزرنے والے راستے کی حفاظت کاکام دے دیا گیا۔ گروپ کے مجاہدین نےملا محمد عمر کے قریبی ساتھی ملامعاذ اللہ کی ذمہ داری میں ضلع میوند سے ضلع ارغستان کے سرحدی علاقوں کی طرف جانے کا ارادہ کیا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مجاہدین نے ملا محمد عمر مجاہد اور ایک دوسرے زخمی مجاہد کو بھی ساتھ لے لیا تاکہ انہیں پاکستان علاج کے لیے بھجوایا جائے۔
سخت سردی میں مجاہدین کا یہ گروپ ارغنداب چلا گیا اور وہاں سے ارغستان کی طرف سفر شروع کردیا،ابھی آدھا راستہ طے کیا تھا کہ دریا ئے ترنک کے عین وسط میں گاڑی بند ہوگئی۔ ملا معاذ اللہ اور ان کے ساتھ کچھ ساتھی ٹریکٹر لانے کے لیے نکل گئے۔ اور باقی مجاہدین نے زخمیوں کو منتقل کرنے والی گاڑی کو دریا پار کروایا۔ ملا محمد عمر مجاہدعلاج کی غرض سے چمن اور وہاں سے کوئٹہ چلے گئے آپ کی اپنے پرانے دوست ملا معاذ اللہ کے ساتھ یہ آخری ملاقات تھی۔ کیونکہ ملا معاذاللہ اخوندکا اس جہادی مسئولیت یعنی مجاہدین کے راستے کی حفاظت کے دوران سوویت افواج کے ساتھ سامنا ہوا اور وہ اپنے چند ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے ۔ آپ کی تدفین ضلع ارغستان کے شناختے گاؤں میں کردی گئی۔
ملا محمد عمر مجاہد کی آنکھ کا آپریشن اسی ہسپتال میں ہوا جہاں پر جنگ میں زخمی اور مجاہدین کا علاج معالجہ ہوتا رہتا۔ آپریشن کے چھٹے روز آپ کو ہسپتال سے رخصت کر دیا گیا، جبکہ رخصت ہوتے ہوئے آپ کو ہسپتال والوں نے ایک مصنوعی آنکھ بھی دی تاکہ آپ اسے اپنی دائیں آنکھ کی خالی جگہ میں رکھ دیں۔ مگر آپ نے اس مصنوعی آنکھ کو، جس کا ظاہری خوبصورتی کی علاوہ کوئی اور کام نہیں تھا، اپنی پوری زندگی میں اپنی آنکھ کی خالی جگہ میں نہیں رکھی۔
سوویت یونین کی شکست کے بعد
۱۹۸۶ء کے موسم گرما میں سوویت یونین کے سربراہ میخائل گورباچوف نے افغانستان سے اپنے فوجیوں کے انخلاء کا اعلان کردیا اور اپنے بیان میں کہا کہ اس سال کے اختتام پر سوویت افواج کے چھ بریگیڈ افغانستان سے نکل جائیں گے۔ گورباچوف کے اعلان سے دو مہینے قبل کابل پر حاکم اشتراکی حکومت کے قیادت میں بھی اہم تبدیلیاں رونما ہوئی تھی۔ خلق جمہوری پارٹی نے اپنے اٹھارہویں اجتماعی اجلاس میں حکومت کےخفیہ ادارے (خاد) کے چیف ڈاکٹر نجیب اللہ کو ببرک کارمل کی جگہ پارٹی کا جنرل سیکرٹری مقرر کردیا۔سوویت افواج کے انخلا اور اشتراکی حکومت کی تبدیلی نے جنگ پر سنگین اثرات مرتب کیے۔ جنگ کے میدان سے سوویت افواج کے پیچھے پلٹنے کی وجہ سے اشتراکی حکومت کو اپنی جارحانہ پالیسی سے ہٹنا پڑا اور اس نے اپنی ساری توجہ اس امر پر مبذول کردی کہ بڑے شہراور اہم علاقوں کا دفاع کیسے مضبوط کیا جائے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر نجیب کی سیاست کے مزید دو اہم عناصر تھے جس میں ایک حکومت کے دفاع کی خاطر ملیشیا تشکیل دینا اور اس کے دعوے کی مطابق قومی مفاہمت کی پالیسی کا اعلان کرنا تھا۔
ان اہم تبدیلیوں نے پورے افغانستان کی طرح صوبۂ قندھار کی عسکری صورتحال پر بھی اثر ڈالا، قندھار میں عصمت اور جبار کے ملیشیا کی حیثیت ماضی کی نسبت زیادہ مضبوط ہوگئی۔ اشتراکی حکومت نے، جوکہ ماضی کی نسبت آپریشن اور حملوں کے قابل نہیں رہی تھی، اپنے دفاع کی خاطر قندھار شہر اور اہم ضلعوں کے گرد سکیورٹی حصار بنادیے۔
ملا محمد عمر مجاہد آنکھ کی علاج سے فارغ ہوکر اپنے گھر ارزگان چلے گئے اور پھر قندھار میں اپنے جہادی گروپ کی طرف واپس ہوئے۔ کچھ عرصہ گزار کر آپ دوبارہ اپنے گھر ارزگان چلے گئے، اس مرحلے میں آپ نے شادی کرلی اور جب ۱۹۸۷ء میں آپ واپس قندھار آئے تو یہاں ماضی کی نسبت عسکری و جہادی حکمت عملی میں خاصی تبدیلی آچکی تھی۔ اس وقت مجاہدین کے اہداف دشمن کے وہ دفاعی حصار اور مورچے تھے جو وہ اپنے مراکز کے گرد بنا چکے تھے۔ ان کا محاذ محلہ جات کے علاقے میں وہ حصار تھا جو قندھار شہر کے دفاع کے لیے اشتراکی حکومت نے بنایا تھا اور دوسرا ضلع میوند کے دفاع کے لیے کشک نخود کا مورچہ اور دفاعی حصار تھا جس پر اس علاقے کے مجاہدین حملے کیا کرتے تھے۔
اس مرحلے میں ان کی مرکزیت سنگِ حصار کا علاقہ ہوا کرتا تھا لیکن تعارضی کارروائیوں کے لیے اپنی باری پر کبھی قندھار شہر کے دفاعی حصار اور کبھی کشک نخود کی طرف جاتے تھے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات ہلمند کے گرشک اور نہر سراج ضلعوں میں دیگر مجاہدین کے ساتھ اپنے ساتھیوں کوبھجواتے رہتے تاکہ کارروائیوں میں شامل ہوسکیں۔
سابقہ جنگوں کی طرح اس مرحلے میں اگرچہ مجاہدین حملہ آور تھے لیکن مجاہدین کےجانی نقصان میں کمی نہیں آئی کیونکہ دشمن کے مورچوں پر چڑھنا آسان نہیں تھا۔ حکومت کے سپاہیوں نے مجاہدین کو روکنے کی خاطر مورچوں کے اردگرد بارودی سرنگوں کا جال بچھا رکھا تھا جو مجاہدین کی پیش قدمی میں حائل تھا۔ ملا محمد عمر مجاہد نے بھی یہ مرحلہ زیادہ وقت اپنے گروپ میں گزارا اور اپنی باری پر کارروائیوں میں حصہ لیتے رہتے۔ آپ نے جہادی امور کو اچھے طریقے سے انجام دینے کی خاطر اپنے گھرانے کو سنگ حصار منتقل کردیا اور وہیں رہائش اختیار کرلی۔
قندھار شہر کے دفاعی حصار پر لڑائی میں ملا صاحب کا کردار ماضی کی مانند نمایاں اور ممتازتھا۔ ملا غازی کے بقول ایک بار اشتراکی سپاہی قندھار شہر کے قریب میربازار کے علاقے میں مجاہدین کو کچلنے کی نیت سے فوجی قافلہ لے آئے، جس کے آگے ٹینک اور پیچھے پیادہ دستہ اور فوجی گاڑیاں آرہی تھیں۔ اس لڑائی میں قافلے سے آگے آنے والے دو ٹینکوں کو ملا صاحب نے نشانہ بنایا جس کی وجہ سے دشمن کے اوسان خطا ہوگئے اور قافلہ پسپا ہو گیا۔
گروپ کے مسئول کی حیثیت سے
۱۹۹۰ء میں ڈاکٹر نجیب کی شروع کردہ، اس کی اپنی تعبیر میں،قومی مصالحتی عمل کی مہم زوروں پر تھی۔ مجاہدین کے حملوں کے آگے مزاحمت اور جلال آباد کی جنگ میں حکومت کی فتح نے ان کا حوصلہ مزید بڑھا دیا تھا۔ دوسری طرف سوویت یونین کے انخلاء کے بعد مجاہدین پر بیرونی امداد بند ہوچکی تھی اور مجاہدین کے مابین داخلی اختلافات بڑھ رہے تھے۔ اس مرحلے میں مجاہدین کے گروپوں میں مایوسی کی فضا پیدا ہوگئی ، یہاں تک کہ بعض کم ہمت لوگ برائے نام حکومت کے ساتھ سمجھوتہ اور خفیہ روابط رکھنے کی کوشش میں بھی لگ گئے۔ ملا محمد عمر مجاہد اور آپ کے چند ساتھیوں نے (جو کہ تقریباً تمام دینی علوم کے طلباء اور گروپ کی سطح پر باصلاحیت مجاہد سمجھے جاتے تھے ) گروپ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اس کی وجہ گروپ کے بعض افراد کے حکومت کے ساتھ خفیہ روابط ، ملاقاتیں اور مجاہدین کی قربانیوں کو تحقیر کی نظر سے دیکھنا اور ایسے اعمال کے مرتکب ہونا تھا جو جہادی مقاصدکے بر خلاف تھے۔
آپ اور آپ کے ساتھی اپنے مرکزسے بغیر اسلحے کے چلے گئے اورعلاقے کے دوسرے مجاہدین کے مرکز میں سکونت اختیار کر لی۔ کچھ دن مشاورت میں گزرے کہ آئندہ اپنے جہاد کو کیسے جاری رکھیں گے۔ اس علاقے کے ایک عالم اور روحانی شخصیت مولوی محمد موسیٰ (جو مجاہدین کے درمیان نیک اور بزرگ شخصیت کے طور پر معروف تھے ) نے ملامحمد عمر مجاہد کو امیر اور ملا برادر اخوند کوان کے معاون کے طور پر ساتھیوں پر مقرر کیا اور ان کو مشورہ دیا کہ ایک مجموعہ بنائیں تاکہ جہاد سے محروم نہ ہوں۔ آپ اور آپ کے ساتھیوں نےاس مشورے کو قبول کیا۔
اس وقت جہادی تنظیموں کے مرکزی دفاتر اور قائدین پاکستان میں رہتے تھے، ملا محمد عمر مجاہد ، ملا برادر اخوند اور ملا یارانہ کوئٹہ چلےگئے تاکہ حرکت ِانقلاب ِاسلامی کی تنظیم میں اپنے گروپ کورسمی طور پر شامل کر سکیں۔ قندھار کے بعض مجاہدین نے، جن کو ان کے نئے گروپ کا علم ہوا تھا، آپ کے گروپ کی حمایت کردی اور اس وجہ سے جنوبی زون کے لیے حرکت تنظیم کے مسئول مولوی محمد سخی صاحب نے ان کی درخواست قبول کرلی اور جنوری ۱۹۹۱ء میں آپ کا گروپ رسمی ہوگیا۔ مولوی سخی نے ان کو واضح کیا کہ چونکہ جہاد کا آخری دور چل رہا ہے اور تنظیم کے پاس اسلحہ او ر وسائل نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے ان کو تنظیم کی طرف سے زیادہ اسلحہ نہیں مل سکتا البتہ انہوں نے ایک خط دے دیا کہ قندھار میں دیمراسی کے علاقے میں تنظیم کے اسلحے سے نو عدد بندوقیں اٹھا لیں۔ ملا محمد عمر مجاہد کی قیادت میں اس نئے گروپ نے نو عدد بندوقیں حاصل کرلیں اور بعض قریب کے گروپوں نے بھی ایک یا دو بندوقیں دے دیں یا قرض کی صورت میں مدد کی یہاں تک کہ آپ کے سب ساتھی، جن کی تعداد ۲۰ سے ۲۵ کے درمیان تھی، مسلح ہوگئے۔ آپ نے سنگ حصار کے علاقے کیشانو گاؤں کی اسی مسجد کو جہادی مرکز بنالیا جس میں آپ اور آپ کے ساتھی پہلے بھی رہ چکے تھے۔
اور اس طرح ملا محمد عمرمجاہد نے اشراکیت پسندوں کے خلاف جہاد کے آخری سالوں میں اپنا ایک گروپ بنا لیا۔ اگرچہ اس گروپ کے افراد کی تعداد کم تھی لیکن پھر بھی قندھار اور اس کے مضافاتی علاقوں میں ہونے والی اہم کارروائیوں میں شرکت کرتے رہتے۔ ۱۹۹۰ءکی سردیوں میں جب حکومتی افواج نے صوبہ زابل کے شہر قلات کا محاصرہ توڑنے کے لیے جبار کی ملیشیا کو زابل بھیج دیا اورپھر مجاہدین کے فیصلہ کن حملوں نے اس ملیشیا کو بھاری نقصان سے دوچار کیا، تو اس کارروائی میں دوسرے مجاہدین کے ساتھ ساتھ ملا محمد عمر مجاہد کے ساتھی بھی شریک تھے۔ اسی طرح اس کے بعد جب دوستم کی فوجوں کے ساتھ زابل میں مجاہدین کی لڑائیاں ہوئیں اس میں بھی آپ کے ساتھی شامل رہے۔
زابل کی کارروائیوں کے بعد ضلع میوند کی فتح اور ضلع گرشک کی لڑائیوں میں ملا صاحب کے گروپ کے ساتھی شامل رہے، آپ کے ساتھیوں نے جہاد جاری رکھا یہاں تک کہ مئی ۱۹۹۱ء میں حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور اشتراکیت پسند حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔
تنظیمی بدنظمی اور افراتفری کے دور میں
وہ افراتفری، فساد اور اندرونی لڑائیاں جو اشتراکی نظام کے سقوط کے بعد پیش آئیں، اگر ہم غور سے ان کا تجزیہ کریں تو جہاد کے آخری سالوں کے کچھ معاملات اور مجاہدین کو اقتدار کی منتقلی کے ناقص عمل کو اس کے اصل عوامل کے طور پر سمجھ سکتے ہیں۔
اپریل و مئی ۱۹۹۲ء اشتراکیت پسند حکومت کے زوال کے دن تھے، صوبائی مراکز اور بڑے شہر ایک کے بعد ایک حکومت کے ہاتھ سے جارہے تھے لیکن یہ عمل خفیہ سازشوں اور ناجائز اتحاد کی بنیاد پر آگے بڑھ رہا تھااس لیے عوام کو فتح اور امن کے بجائے ایک اور بحران کے آغاز کا پیغام دے رہا تھا۔
جہادی دور میں مجاہدین کے دوقسم کے گروہ تھے۔ ایک گروہ وہ جو اصلی معنوں میں مجاہد تھے، ان کی نظر میں قوم اور قبیلے کے مفادات نہیں تھے، اقتدار اور کرسی کی خواہش، بیت المال اور غنیمت کی فروخت سے پیسے کمالینا اورجہاد کے عوض مادی منفعت حاصل کرنا مقصد نہیں تھا۔بلکہ اعلائے کلمۃ اللہ اور اشتراکی دہریت کو بھگانا مجاہدین کا اولین مقصد تھا۔ ان گروپوں میں قومی و علاقائی تعلقات سے بالاتر ہرجگہ کے مجاہدین شامل تھے۔ انہی مجاہدین نے سب سے پہلے جہاد کا آغاز کیا اوریہی آخر تک عملی جہاد میں شامل رہے، جن میں بہترین مثال ملا محمد عمر مجاہد کے گروپ اور ان جیسے دیگر حقیقی معنوں میں جہادی گروپوں کی تھی۔
لیکن بعض جہادی تنظیموں کا جہادی گروپ بنانے کے لیے کوئی لائحہ اور اصول نہیں تھا یا اپنے اصول کو لاگو کرنے کے قابل نہیں تھے اس وجہ سے بعض موقع پرست افراد نے اس موقع سے فائدہ اٹھا یااور نتیجے میں بہت سے گروپ قومی و تنظیمی عصبیت کی بنیاد پر پروان چڑھے، ان جیسے چند گروپ صوبہ قندھار میں بھی تھے۔ مجاہدین کے نام سے ذاتی فوائد سمیٹنے والے گروہ جن میں اکثر بدکردار، نشے کے عادی اور جہاد کو بدنام کرنے والے افراد موجود تھے۔ جہاد کے آخری دور میں جب ڈاکٹر نجیب کا صلح و مفاہمت کا پروپیگنڈا شروع ہوا تو ان افراد نے اپنے ذاتی مفادات اور اقتدار کی خاطر اشتراکیت پسندوں کے ساتھ خفیہ روابط رکھنا شروع کردیے۔خاد کے خفیہ اہلکاروں اور ان برائے نام مجاہدین کے درمیان ہمیشہ خفیہ ملاقاتیں ہوتی رہیں، یہاں حتیٰ کہ حکومت ان کو امداد بھی دیتی رہی۔
جب مئی ۱۹۹۲ء میں اشراکی حکومت شکست و ہزیمت کی مرحلے میں تھی تو اس وقت قندھار کا کور کمانڈرلیفٹیننٹ جنرل اکرم تھا اور اس کے ساتھ ساتھ صوبے کے حقیقی اختیارات بھی اس کے ہاتھ میں تھے۔ اُس نے اِس مقصد کی خاطر کہ مجاہدین شہر پر قبضہ نہ کرلیں اور حکومت کے سقوط کے بعد بھی وہ قندھار شہر میں آرام و سکون کی زندگی گزارے،عوام اور مجاہدین کی عدالت کی کٹہرے میں پیش ہونے سے خو کو بچا لے، برائے نام جہادی گروپوں کے راہنماؤں کے ساتھ خفیہ معاہدہ کیا اور ایک سمجھوتے کے تحت اصل مجاہدین کی لاعلمی میں قندھار شہر کے اختیارات ان کو سونپ دیے۔
اسی طرح اشتراکی حکومت اس قابل بنی کہ افغانستان کے باقی حصوں کی طرح قندھا ر میں بھی اس سازشی حربے کو عملی جامہ پہنائے۔ انہوں نے مجاہدین کو یہ موقع ہی نہیں دیا کہ وہ فاتحانہ انداز میں شہر کو اپنے قبضہ میں لے لیں۔ بلکہ جہادی صفوں میں پہلے سے رابطے میں موجود افراد سے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں شہر کا اختیار ان لوگوں کو سپرد کیا جن کا جہاد میں کوئی اہم کردار ہی نہیں تھا۔ اسی طرح قندھار کے اہم اداروں کا اختیار گل آغا، امیر لالی، ملا نقیب اور باقیوں کو دے دیا گیا اور اصل مجاہدین جن میں اکثریت علماء کی تھی ، ضلعوں اور سابقہ جہادی علاقوں میں حکومتی ذمہ داریوں سے محروم کردیے گئے۔
چونکہ جہاد ختم ہوچکا تھا اور اقتدار پر بھی مجاہدین کے نام سےفائدہ اٹھاتے ہوئےدوسرے لوگوں نے قبضہ کر رکھا تھا تو حقیقی مجاہدین کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ بچا کہ وہ اپنی تشکیلات ختم کردیں اور عام معمول کی زندگی کی طرف لوٹ جائیں۔ اس دوران قندھار کے اکثر جہادی گروپ ختم ہوئے اور مجاہدین اپنے گھروں کی طرف واپس چلے گئے۔ بعض گروپوں کے ذمہ داران نے، جوکہ علماء یا طلباء تھے ، اپنے گروپوں کو مدارس میں تبدیل کردیا۔ ملا محمد عمر مجاہد نے بھی سنگِ حصار میں اپنے گروپ کو مدرسہ میں بدل دیا۔ سنگ حصار کی کیشانو مسجد کے ساتھ دو کمرے بھی منسلک تھے ، ملا صاحب نے اپنے اسلحے کو ایک کمرے میں محفوظ کردیا، اور مسجد سمیت باقی کمروں کو درسگاہ اور طلباء کے لیے رہائشی جگہ بنا دیا۔
مولوی عبدالحبیب، مولوی نور محمد، مولوی عبدالرحمٰن اور مولوی محمد ابراہیم وہ علما ءتھے جنہوں نے مدرسے میں درس و تدریس کی خدمات انجام دیں۔ ملا محمد عمر مجاہد کا گھر بھی اسی علاقے میں تھا، آپ نے مسجد کی امامت اور مدرسہ کے انتظامی کاموں کے ساتھ خود بھی حصول علم شروع کردیا تاکہ دینی علوم کو پائے تکمیل تک پہنچائیں۔
٭٭٭٭٭
1 ملا عبیداللہ اخوند ملا فتح محمد کے فرزند ۱۳۸۸ ہجری میں صوبہ قندھار کے ضلع ژڑئی کے علاقے نلغام میں پیدا ہوئے۔ اشتراکیت کے خلاف جہاد میں قندھار کے ملا محمد صادق اخوند کے گروپ میں عسکری قائد کی حیثیت سے مسئولیت نبھاتے رہے۔ آپ طالبان کی اسلامی تحریک کے بانی افرادمیں شمار کیے جاتے ہیں، کابل کی فتح کے بعد آپ کو وزیرِ دفاع بنادیا گیا اور امریکی حملےتک اس مسئولیت پر رہے ۔ امریکہ کے خلاف جہاد شروع ہونے کے بعد آپ کو ملا صاحب نے اپنا نائب مقرر کیا، جنوری ۲۰۰۷ء میں آپ کو پاکستانی خفیہ ایجنسی نے صوبہ بلوچستان میں گرفتار کیا ۔ ملا عبیداللہ اخوند کئی سال کراچی میں پاکستانی خفیہ ایجنسی کے عقوبت خانے میں قید رہے، اس عرصے میں آپ نے قرآن عظیم الشان کا حفظ مکمل کیا، یہاں تک کہ ۵ مارچ ۲۰۱۰ء کو جیل ہی میں شہادت کے مرتبے سے سرفراز ہوئے اور آپ کے جسد کو کراچی میں سپرد خاک کردیا گیا۔