تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے فرمایا:
وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهٗ ۭ وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ ۚ وَلِيَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاۗءَ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ(سورۃ آل عمران: ۱۳۹، ۱۴۰)
’’(مسلمانو) تم نہ تو کمزور پڑو، اور نہ غمگین رہو، اگر تم واقعی مومن رہو تو تم ہی سربلند ہوگے ،اگر تمہیں ایک زخم لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی اسی جیسا زخم پہلے لگ چکا ہے۔ یہ تو آتے جاتے دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں، اور مقصد یہ تھا کہ اللہ ایمان والوں کو جانچ لے، اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہید قرار دے، اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ وعلی آلہ وصحبہ ومن والاہ، امابعد:
ہم پوری امت مسلمہ سے بالعموم اور اپنے غزہ اور کتائب القسام کے بھائیوں سے بالخصوص شجاع قائد یحیی سنوار کی شہادت پر اظہار تعزیت کرتے ہیں، آپ امت کے بدترین دُشمن، فلسطین پر قابض یہود کے خلاف لڑتے ہوئے مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔اس وقت ہم اپنے آپ اور اپنی امت سے اس عظیم سانحے پر تعزیت کرتے ہوئے وہی کہیں گے، جس سے ہمارارب راضی ہو، فاناللہ واناالیہ راجعون۔ہم دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں شہداء میں قبول فرمائے، ان کی کامل مغفرت فرماکر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
اے مسلمانان عالم!
یہ مسلمانوں کے رہنماؤں میں سے ایک راہنماہیں، جوبڑھاپے میں بھی جنگ کے میدان میں اسلحہ تھامے شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوئے اور یہودی جیلوں میں بیس سال قیدرہنے کے بعد زندان سے نکلتے ہی طوفان الاقصیٰ جیسی بابرکت کارروائی انجام دے ڈالی۔
یہ وہ کاروائی تھی جو اسرائیل کے لیے، اس کے وجود میں آنے کے بعد، سب سے زیادہ ذلت کا باعث بنی، اسی کارروائی نے یہود کے دعووں کی قلعی کھول ڈالی کہ وہ ناقابل شکست فوج کے مالک ہیں، کیا ہی بہترین الہامی کارروائی تھی جو تمام نوجوانان امت کے لیے تحریض کا سبب بنی۔
یقیناً آج دشمنان اسلام کی خوشی کادن ہے جیساکہ وہ ابطالِ امت و مجاہدین کے کسی بھی قائد و راہنما کی موت و شہادت پر خوشی مناتے ہیں، اس حوالے سے ہم ان حضرات کی جدائی پر غمگین ہیں، بجز اس کے کہ ہم تو شہادت پر فخر کرتے ہیں کہ ہمارے مقتول جنت میں ہیں اور دشمنوں کے مقتولین جہنم کے مستحق ہیں۔
یقیناً اللہ کی راہ میں جہاد دینِ مبین کا ایک جزوِ لاینفک ہے، جس کی حفاظت وبقاء کا وعدہ خود اللہ تعالیٰ نے کیاہے، خواہ دشمنانِ اسلام کو کتنا ہی ناگوار گزرے، لہٰذا اس عظیم کام کے خلاف جتنے منصوبے بنیں، کتنے ہی لشکر اس کے مقابلے میں جمع ہوجائیں اور ہمارے قائدین وراہنماؤں میں سے جتنے بھی شہید ہوجائیں، یہ حکمِ الٰہی تاقیامت باقی و جاری رہے گا اور کافروں کی چالیں تو سب کی سب اکارت جائیں گی۔ یہ صہیونی جنگ مسلمانوں میں انتقام کی آگ مزید بھڑکائے گی، جس کے نتیجے میں انفرادی واجتماعی شکل میں مسلمانانِ عالم مجاہدین کی صفوں سے آملیں گے۔
ہم اس تعزیتی بیان کے ذریعے واضح کرناچاہتے ہیں کہ امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے، ہماری خوشی وغم ایک ہے، موجودہ جنگ کفر و اسلام کی جنگ ہے۔ ہمیں اس حادثے پر دشمنانِ امت، صہیونیوں اور صلیبیوں کے ایجنٹ مرتد حکمرانوں اور ان کے کاسہ لیسوں کی جانب سے خوشی کے شادیانے بجانے پر کوئی تعجب نہیں، کہ ہم کئی عشرےپہلےسے ان طواغیت، ان کے آلۂ کاروں کی حقیقت جانتے ہیں، انہی کی دہکائی آگ میں مسلمانانِ عالم آج تک جل رہے ہیں، بلکہ عالمِ اسلام میں کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آتاہے تو اس میں یہی ظالم طائفہ کار فرماہوتاہے ’’ھم العدو، فاحذرھم‘‘ یہی(حقیقی) دشمن ہیں، ان سے محتاط رہیے۔
موجودہ حالات میں مسلمانوں کے ایک راہنما کی شہادت پران کا یہود واہل صلیب کی خوشی میں شریک ہونا، انہیں مبارکباد دینا، امتِ مسلمہ کے خلاف کیے جانے والے جرائم میں سے ایک جرم ہے۔ ہمیں تعجب تو ان مسلمانوں پر ہے جو اس موقع پر اہل غزہ ومجاہدین فلسطین کی مدد و نصرت (چاہے وہ زبانی بیان سے ہی کیوں نہ ہو) چھوڑبیٹھے ہیں۔ اجتہادی اختلاف، جس میں تاویل کی گنجائش ہے اور وہ اس حوالے سے معذور ہیں، ایسے اختلاف کی وجہ سے مظلوم مسلمانوں کی مدد ونصرت سے دست کش ہوجانابالکل بھی مناسب نہیں۔
ہم امت مسلمہ کے مجاہدین سے کہنا چاہتے ہیں کہ اجتہادی اختلاف کے امور کی وجہ سے اپنے مسلمان بھائیوں کو ظالم کے سامنے بے یار ومددگار نہ چھوڑیں، اللہ رب العزت کا فرمانِ عالیشان ہے:
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا
( اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مظبوطی سےپکڑ لو اور تفرقے میں مت پڑو)۔
جان لیں کہ دشمن ہمارے اختلاف وتفرقے سے خوش اور ہمارے اتحاد واتفاق سے خوف میں مبتلا ہوجاتاہے۔آج پوری امت پر واجب ہے کہ فروعی اختلافات کو چھوڑکر فلسطینی مجاہدین کی مددکریں، یہ وقت اختلاف واحتساب کے بجائے، ایمان کے بعد سب سے اہم فریضے حملہ آور دشمن سے جہاد ودفاع کا وقت ہے۔یہ مناسب نہیں کہ ہم ان لوگوں کی طرح ہوجائیں، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اَلَّذِيْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِھِمْ وَقَعَدُوْا لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْا (وہ جنہوں نے اپنے بھائیوں کے بارے میں کہا اورخود بیٹھے رہے، کہ وہ ہمارا کہنا مانتے تو نہ مارے جاتے۔)لہذا تمام مسلمان، اختلافات کو بالائے طاق رکھ کردشمن کا مقابلہ اوراہل غزہ کی مدد ونصرت کریں کہ حملے و بمباریاں جاری ہیں، قتل ِعام روارکھاجارہاہے، یہود کا منصوبہ کافی بڑاہے، لیکن اہل فلسطین بے یار و مددگار ہیں۔
اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی، جب تک آپ ﷺ کی کہی ہوئی حدیث ثابت نہ ہوجائے، صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی، جب تک مسلمان یہود سے جنگ نہ کریں، مسلمان انہیں قتل کریں گے (اس دوران) یہودی پتھر اور درخت کی آڑ لیں گے، تب پتھر و درخت بول پڑیں گے۔ اے مسلمان! اے اللہ کے بندے! یہ ہے یہودی، میرے پیچھے، آجا اور اسے قتل کرڈال، سوائے غرقد کے درخت کےکہ وہ یہود کے درختوں میں سے ہے۔
اے اللہ اپنے بندے یحییٰ السنوارپر اپنی رحمتیں ومغفرتیں نازل فرما، انہیں شہداء میں قبول فرما، ان کی موت کو دشمنانِ اسلام کی خوشی کے بجائےغم وپریشانی کا سبب بنا دے۔
وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العلمین
والعاقبۃ للمتقین ولاعدوان الاعلی الظالمین
تنظیم قاعدۃ الجہاد فی جزیرۃ العرب
۱۷ربیع الثانی۱۴۴۶ھ الموافق ۲۰ اکتوبر۲۰۲۴م
٭٭٭٭٭