مجلّہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ بطلِ اسلام، مجاہد قائد، شہیدِ امت، صاحبِ سیف و قلم شیخ یحییٰ ابراہیم السنوار رحمۃ اللہ علیہ کےایمان اور جذبۂ جہاد و استشہاد کو جلا بخشتے ، آنکھیں اشک بار کر دینے والے خوب صورت ناول و خودنوشت و سرگزشت ’الشوک والقرنفل‘ کا اردو ترجمہ ، قسط وار شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ یہ ناول شیخ نے دورانِ اسیری اسرائیل کی بئر سبع جیل میں تالیف کیا۔ بقول شیخ شہید اس ناول میں تخیل صرف اتنا ہے کہ اسے ناول کی شکل دی گئی ہے جو مخصوص کرداروں کے گرد گھومتا ہے تاکہ ناول کے تقاضے اور شرائط پوری ہو سکیں، اس کے علاوہ ہر چیز حقیقی ہے۔ ’کانٹے اور پھول‘ کے نام سے یہ ترجمہ انٹرنیٹ پر شائع ہو چکا ہے، معمولی تبدیلیوں کے ساتھ نذرِ قارئین ہے۔ (ادارہ)
انتساب
یہ نہ میری ذاتی کہانی ہے اور نہ ہی کسی خاص شخص کی کہانی ہے، البتہ اس کے تمام واقعات حقیقی ہیں، ان میں سے ہر واقعہ یا واقعات کا ایک مجموعہ کسی نہ کسی فلسطینی یا کسی دوسرے سے متعلق ہے، اس کام میں تخیل صرف اتنا ہے کہ اسے ایک ناول کی شکل دی گئی ہے جو مخصوص کرداروں کے گرد گھومتی ہے تاکہ اس میں ناول کے تقاضے اور شرائط پوری ہو سکیں، اس کے علاوہ ہر چیز حقیقی ہے اور اس کا بیشتر حصہ میں نے ان لوگوں کی زبانی سنا ہے جنہوں نے یہ خود، ان کے اہل خانہ اور پڑوسیوں نے فلسطین کی مقدس سرزمین پر کئی دہائیوں سے جھیلا ہے۔
میں اسے ان لوگوں کے نام کرتا ہوں جن کے دل معراج و اسراء کی سرزمین سے محبت رکھتے ہیں، بحر اوقیانوس سے خلیج تک، بلکہ بحر اوقیانوس سے بحر اوقیانوس تک۔
یحییٰ ابراہیم السنوار
بئر سبع جیل ۲۰۰۴ء
عرض مترجم
للہ الحمد و الشکر اس خالق و منعمِ حقیقی کا احسان ہے کہ اس عالی مرتبت نے مجھ سراپا تقصیر کو اس کتاب کے ترجمے کی سعادت نصیب فرمائی۔ یہ محض جہاد و مجاہدین سے محبت کا نتیجہ ہے جس نے ترجمے کے خیال کو ذہن و فکر پر چسپاں کیا، یہ محبت تھی کہ جس نے خیالِ زیست اور خوفِ پابندِ سلاسل کو پرے رکھ کر عشق و محبت کی سنگلاخ وادی کو طے کرنے کا حوصلہ بیدار کیا، یہ وہ شوقِ شہادت فی سبیل اللہ ہے جس نے موت کی آنکھوں سے سرمہ چرانے کی طاقت پیدا کردی۔ بے شک جینا بھی اسی کا حق ہے جسے مرنے کا سلیقہ آتا ہو، وہ لوگ جو موت کی آنکھوں میں آ نکھیں نہیں ڈال سکتے وہ کسی روز جیتے جی مر جاتے ہیں، جو شہادت کو محبوبہ نہیں سمجھتے، جو مرتے مرتے بچنا چاہتے ہیں، وہ کل بچتے بچتے مرجائیں گے۔ یہ کتاب ’الشوك والقرنفل‘ مجاہدِ فلسطین قائدِ تحریک حماس شیخ یحییٰ سنوار حفظہ اللہ1 کی ہے۔ کتاب کیا ہے بس ایک طوفان ہے جس نے ہلچل سی مچا دی، سوزِ دروں کے ساز چھیڑ دیے، اس کا انداز بے شک ناول والا ہے، لیکن مصنف کے بقول اس کے واقعات و حکایات حقیقت پر مبنی ہیں۔ اگر کوئی سچے دل سے مکمل پڑھ لے تو دل کی دنیا بدل جائے، قلبِ مومن کے آئینے پہ جمی دھول اڑ جائے، پرسکون موجوں میں اضطراب پیدا ہوجائے۔ واقعی یہ کتاب اقصیٰ کی بازیابی کے لیے کی جانے والی جد و جہد کی آئینہ دار ہے۔ یہ کتاب پڑھ کر دل میں ارضِ مقدس سے بے مثال محبت، قابضین کے خلاف جہاد و مزاحمت کا جوش اور نوجوانوں میں شوق و جذبۂ شہادت اجاگر ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ انقلاب محض ہاتھ پہ ہاتھ دھرے وظائف پر اکتفا کرنے کی صورت میں برپا نہیں ہوا کرتے، بلکہ انقلاب کے لیے کشت ِویراں کی خونِ جگر سے سینچائی کرنی ہوتی ہے، جانوں کے نذرانے پیش کرنے پڑتے ہیں، آزادی کا تمغہ بغیر کد و کاوش سینے پہ نہیں سجتا۔ اس کی بہترین مثال جہادِ افغانستان و جہادِ فلسطین ہیں کہ مجاہدین نے دل جلا کر روشنی کی، لاکھوں کروڑوں کی جانیں قفسِ عنصری سے جانِ آفریں کے سپرد ہوئیں، تب جاکر انقلاب کی راہیں ہموار ہوئیں۔ آج بھی مقبوضات کی بازیابی کا واحد علاج مزاحمت و جہاد ہے، جہاد کی برکت سے اہلِ اسلام فتح حاصل کرتے آئے ہیں، جہاد کی بدولت ہی دینی اداروں کا تحفظ ہوا ہے، باقی جمہوری طریقے پر مقبوضات پر مذاکرات کی میز سجانا، یہ عہد و معاہدے کے پل باندھنا چنداں مفید نہیں۔ انقلاب کے لیے جمہوری طریقے مفید نہیں، خدا کی زمین پر خدائی نظام کے لیے خدا کا عطا کردہ طریقہ جہاد ہی مفید ہے۔ رہی جمہوریت تو بقولِ اقبال ایک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔
الغرض محبت و عقیدت کے یحییٰ سنوار اور دیگر مجاہدین کو ہزاروں سلام۔ مجاہد کے کل گھرانے کو مجاہد گھرانہ یا جہادی گھرانہ کہنا بے جا نہ ہوگا، ماں کا صبر اور قوتِ ضبط و تحمل، ابراہیم کے جذبات و کوششیں، محمد و حسن کی سچائی و صداقت، مقبوضات کی آزادی کی تڑپ، سبھی کچھ قابل رشک ہے۔ جی چاہتا ہے بس اسی نقش پا کو چومتے جائیں، دیکھتے جائیں اور اسی پر چلتے جائیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مصنِف و مصنَف کا تعارف ہو جائے۔
یحییٰ سنوار ایک فلسطینی عسکری اور سیاسی شخصیت ہیں جو حماس کے رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں۔انہوں نے حماس کے عسکری ونگ، القسام بریگیڈز میں اہم کردار ادا کیا ہے۔یحییٰ سنوار 1962ء میں غزہ کی پٹی کے جنوب میں خان یونس میں پیدا ہوئے، انہوں نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور وہیں سے عربی زبان و ادب میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔ پھر حماس کے قیام کے ابتدائی دنوں میں ہی تنظیم میں شمولیت اختیار کی اور تیزی سے اوپر کی جانب بڑھے۔ 1988ء میں انہیں اسرائیلی فوج نے گرفتار کیا اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم 2011ء میں انہوں نے اسرائیل کے ساتھ ایک قیدی تبادلے کے معاہدے کے تحت رہائی پائی، جسے گلعاد شلیط معاہدہ بھی کہا جاتا ہے۔ یحییٰ سنوار 2017ء میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ منتخب ہوئے، ان کی قیادت میں حماس نے اپنی عسکری صلاحیتوں کو مضبوط کیا اور غزہ میں اپنی حکمرانی کو مستحکم کیا۔ سنوار کو ایک سخت گیر رہنما کے طور پر جانا جاتا ہے جو اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کی مفاہمت کے مخالف ہیں۔ یحییٰ سنوار اب بھی حماس کے اندر ایک طاقتور شخصیت ہیں اور غزہ کی پٹی کی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی قیادت میں حماس نے مختلف عسکری اور سیاسی چیلنجز کا سامنا کیا ہے۔ انہوں نے جیل میں رہتے ہوئے یہ ناول ’الشوك والقرنفل‘ تیس فصلوں میں لکھا ہے، جس میں انہوں نے اپنی یادوں اور اپنی قوم کی کہانی کو امید اور درد کے ساتھ دکھایا اور اسے ہر فلسطینی کی کہانی بنایا۔ اس ناول میں انہوں نے 1967ء سے لے کر الاقصیٰ انتفاضہ کے آغاز تک فلسطینی قوم کے اہم ترین مراحل کی تصویر کشی کی ہے۔ یہ ناول قابض افواج کی جیلوں کے اندھیروں میں لکھا گیا، جسے درجنوں لوگوں نے نقل کیا اور جلادوں کی نظروں اور ان کے آلودہ ہاتھوں سے چھپانے کی کوشش کی۔ انہوں نے اسے روشنی میں لانے کے لیے چیونٹی کی طرح محنت کی، تاکہ یہ قارئین کے ہاتھوں تک پہنچ سکے۔ یہ ناول عربی زبان میں ہے، احقر نے انتہائی جانفشانی سے اس کا اردو زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ ترجمہ نہ مکمل محاوری کیا گیا ہے نہ بالکل لفظی، بلکہ ایسا درمیانی ترجمہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس سے مطلب فہمی میں مدد ملے، اللہ تعالیٰ بذل مجھود کو قبول فرمائے، عافیت عطا فرمائے، آمین۔
۲۴ ستمبر ۲۰۲۴ء
پہلی فصل
١٩٦٧ء کا موسم سرما بہت سخت تھا، جانے کا نام نہیں لیتا تھا۔ یہ بہار کی روشن اور گرم دھوپ کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا، جب بہار اپنی روشنی لانے کی کوشش کرتی، تو سردی بادلوں سے آسمان کو ڈھانپ دیتی تھی اور اچانک بارش شروع ہوجاتی تھی۔ یہ بارش غزہ شہر کے الشاطی پناہ گزین کیمپ کے سادہ گھروں کو ڈبو دیتی تھی اور سیلاب کی صورت میں گلیوں میں بہنے لگتی تھی، گھروں میں گھس جاتی تھی اور ان کے مکینوں کو ان کے چھوٹے کمروں میں تنگی میں ڈال دیتی تھی جن کے فرش قریبی سڑک کی سطح سے نیچے تھے۔ بار بار بارش کے سیلاب کا پانی ہمارے گھر کے چھوٹے سے صحن میں داخل ہوتا تھا اور پھر ہمارے گھر کے اندر، جہاں ہمارا گھرانہ رہتا تھا، آ جاتا تھا۔ 1948ء میں مقبوضہ علاقوں میں واقع الفلوجہ قصبے سے ہجرت کرکے جب سے ہمارا خاندان یہاں آ بسا تھا یہی صورتحال تھی۔ ہر بار میرے، میرے تین بھائیوں اور بہن کے دلوں میں خوف بیٹھ جاتا تھا، جو سب مجھ سے عمر میں بڑے تھے، ایسے میں میرے والد اور والدہ ہمیں اٹھا لیتے تھے، اور میری والدہ بستروں کو اٹھا لیتی تھیں، تاکہ انہیں پانی سے بھیگنے سے بچا سکیں ۔ چونکہ میں سب سے چھوٹا تھا، میں اپنی والدہ کے گلے سے لپٹ جاتا تھا، اور میری چھوٹی بہن جو عموماً ایسی حالتوں میں ان کے بازوؤں میں ہوتی تھی، وہ بھی میرے ساتھ ہوتی تھی۔
کئی بار رات کو میں اپنی والدہ کے ہاتھوں کے لمس سے جاگ جاتا تھا، جو مجھے ایک طرف کر دیتی تھیں اور میرے قریب ہی اپنے بستر پر ایلومینیم کا برتن یا بڑا مٹی کا پیالہ رکھ دیتی تھی تاکہ چھت کے شگاف سے ٹپکنے والا پانی اس میں گرتا رہے۔ ایک برتن یہاں، ایک مٹی کا پیالہ وہاں اور ایک اور برتن کسی اور جگہ۔ میں ہر بار سونے کی کوشش کرتا، کبھی کامیاب ہو جاتا اور کبھی پانی کے قطروں کی آواز سے جاگ جاتا جو باقاعدگی سے برتن میں گر رہے ہوتے تھے۔ جب برتن بھرنے کے قریب ہوتا، تو پانی کے چھینٹے ہر قطرے کے ساتھ چھلکنے لگتے تھے، تب میری والدہ اٹھ کر نیا برتن رکھ دیتی تھیں اور بھرے ہوئے برتن کو کمرے سے باہر لے جا کر انڈیل دیتی تھیں۔
میں پانچ سال کا تھا اور ایک سردیوں کی صبح، جب بہار کی دھوپ سردی کی رات کے حملے کے اثرات مٹانے کی کوشش کر رہی تھی، میرا سات سالہ بھائی، محمد، میرا ہاتھ پکڑ کر کیمپ کی گلیوں میں چلنے لگا۔ہم کیمپ کے کنارے کی طرف جا رہے تھے جہاں مصری فوج کا ایک کیمپ تھا۔
مصری فوجی اس کیمپ میں ہمیں بہت پسند کرتے تھے۔ ان میں سے ایک نے ہم سے جان پہچان کر لی تھی اور ہمارے نام بھی جان لیے تھے۔ جب ہم نظر آتے تو وہ ہمیں آواز دیتا، ’’محمد! احمد! یہاں آؤ ‘‘، تو ہم اس کے پاس جاتے اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر انتظار کرتے کہ وہ ہمیں کیا دے گا۔ وہ اپنی فوجی پتلون کی جیب سے ہر ایک کو پستے کی مٹھائی کا ایک ٹکڑا نکال کر دیتا، ہم میں سے ہر ایک اپنا ٹکڑا لے کر شوق سے کھانے لگتا، وہ فوجی ہمارے کندھوں پر ہاتھ رکھتا اور ہمارے سروں پر ہاتھ پھیرتا اور ہمیں گھر واپس جانے کا حکم دیتا، ہم اپنے قدم گھسیٹتے ہوئے کیمپ کی گلیوں سے واپس چل پڑتے۔
سردی کا موسم طویل مدت اور شدت کے بعد ختم ہو گیا اور موسم گرم اور خوبصورت ہونے لگا۔بارش نے ہمیں اپنی آفتوں سے نہیں گھیرا اور میں سوچنے لگا کہ سردی گزرنے کے انتظار میں بہت وقت گزر چکا اور یہ جلدی واپس نہیں آئے گی۔ لیکن میں اپنے ارد گرد ایک بے چینی اور پریشانی کی حالت دیکھ رہا تھا، سب گھر والے اس رات سے کہیں زیادہ بدتر حالت میں تھے، میں اس وقت صورتحال سمجھنے کے قابل نہیں تھا، لیکن معاملہ عام نہیں تھا۔ یہاں تک کہ سردی کی راتوں میں بھی، میری ماں اپنے پاس موجود ہر برتن میں پانی بھر رہی تھی اور ان برتنوں کو صحن میں رکھ رہی تھی۔ میرے والد نے پڑوسیوں سے ایک کدال ادھار لی اور گھر کے سامنے والے صحن میں ایک بڑا اور لمبا گڑھا کھودنے لگے۔ میرا بھائی محمود، جو اس وقت 12 سال کا تھا، کچھ حد تک ان کی مدد کر رہا تھا۔ جب گڑھا تیار ہوگیا تو میرے والد نے اس پر لکڑی کے ٹکڑے رکھ دیے، پھر اسے صحن کے ایک حصے کو ڈھانپنے والی لوہے کی چادروں سے ڈھانپنے لگے۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے والد مشکل میں ہیں کیونکہ وہ کچھ تلاش کرتے ہوئے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے، پھر میں نے دیکھا کہ انہوں نے باورچی خانے کا دروازہ اتار کر اس گڑھے کے اوپر رکھ دیا۔ لیکن میں نے دیکھا کہ میری ماں اور بھائی محمود اس گڑھے میں ایک کھلے ہوئے سوراخ سے نیچے جا رہے ہیں، تب مجھے سمجھ میں آیا کہ کام مکمل ہو چکا ہے۔ میں نے ہمت کر کے اس سوراخ کے قریب جا کر اس گڑھے میں جھانکا تو مجھے زمین کے نیچے ایک تاریک کمرہ نظر آیا۔ میں کچھ نہیں سمجھ پایا، لیکن یہ واضح تھا کہ ہم کسی مشکل اور غیر معمولی چیز کا انتظار کر رہے ہیں، جو شاید ان طوفانی بارش والی راتوں سے کہیں زیادہ سخت ہے۔
کوئی بھی مجھے دوبارہ اپنے ہاتھ سے پکڑ کر قریب واقع مصری فوجی کیمپ نہیں لے جا رہا تھا تاکہ ہم پستے کی مٹھائی لے سکیں، بلکہ میرا بھائی بار بار ایسا کرنے سے انکار کر رہا تھا۔ یہ میرے اور محمد کے لیے ایک بڑی تبدیلی تھی، اور میں اسے سمجھنے کے قابل نہیں تھا۔ حسن بھی ہمارے اس راز کو نہیں جانتا تھا، شاید وہ جانتا تھا، لیکن ہمیں شریکِ راز نہیں بناتا تھا اور مجھے یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ کل ہمارے ساتھ کیوں نہیں تھا؟ لیکن میرا ہم عمر چچا زاد بھائی ابراہیم، جو ہمارے پڑوس میں رہتا تھا، اس معاملے سے واقف تھا۔ محمد کے انکار کرنے اور میرے ساتھ نہ جانے پر میں اپنے چچا کے گھر چلا گیا تاکہ ابراہیم کے ساتھ وقت گزار سکوں۔ میں نے دروازہ دھکیلا اور کمرے میں داخل ہو گیا۔ چچا وہاں بیٹھے تھے جن کے چہرے کے نقوش و خدو خال میں کبھی نہیں بھول پاؤں گا۔ ان کے ہاتھ میں ایک بندوق تھی، جسے وہ مرمت کر رہے تھے۔ میں نے دل میں سوچا کہ شاید میں بھی اس بندوق کے ساتھ کچھ کر سکوں، بندوق نے میری توجہ کھینچ لی، اور میری نظریں تمام وقت اسی پر مرکوز رہیں۔ چچا نے مجھے بلایا اور اپنے پاس بٹھایا، پھر بندوق میرے ہاتھ میں دے دی اور اس کے بارے میں باتیں کرنے لگے، جنہیں میں سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ پھر انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے کمرے سے باہر بھیج دیا۔ میں نے ابراہیم کو ساتھ لیا اور ہم دونوں گھر سے نکل کر کیمپ کی طرف چل پڑے تاکہ مصری فوج کے کیمپ جا سکیں۔ جب ہم وہاں پہنچے تو حالات بالکل بدل چکے تھے، وہ فوجی جو ہمیشہ ہمارا انتظار کرتا تھا اور خیرمقدم کرتا تھا، اس بار نہیں تھا۔ صورتحال غیر معمولی تھی اور مصری فوجی جو ہمیں ہمیشہ خوش آمدید کہتے تھے، اس بار انہوں نے ہمیں دور جانے کا اشارہ کیا اور کہا کہ ہم اپنی ماؤں کے پاس واپس چلے جائیں۔ ہم مایوسی کے ساتھ واپس لوٹ آئے کیونکہ ہمیں اپنے حصے کی پستے کی مٹھائی نہیں ملی تھی اور میں اس تبدیلی کو سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
اگلے دن میری ماں نے گھر سے کچھ بستر لیے اور اس گڑھے میں بچھا دیے، پھر کچھ پانی کے دو یا تین گھڑے اور کچھ کھانا لے کر ہمیں اس گڑھے میں بٹھا دیا۔ چچا کی بیوی اور ان کے بچے حسن اور ابراہیم بھی ہمارے ساتھ شامل ہوگئے۔میں اس تنگ جگہ سے بے حد پریشان تھا جہاں ہمیں بلاوجہ بٹھا دیا گیا تھا۔ ہم نے گھر، کمرے، صحن اور گلیاں چھوڑ دی تھیں اور یہاں مجبوراً بٹھا دیے گئے تھے۔ جب بھی میں باہر نکلنے کی کوشش کرتا، میری ماں مجھے کھینچ کر واپس بٹھا دیتی۔ وہ ہمیں کبھی کبھی تھوڑی سی روٹی اور چند زیتون دے دیتی۔
سورج غروب ہو رہا تھا، دن کی روشنی ختم ہو رہی تھی اور اندھیرا اس گڑھے میں بڑھتا جا رہا تھا، خوف ہمارے دلوں میں سرایت کر رہا تھا اور ہم بچے چیخنے لگے، میری ماں اور چچا کی بیوی ہمیں روکنے کی کوشش کرتی تھیں، وہ ہمیں کہتیں کہ بچو! دنیا میں جنگ ہو رہی ہے، کیا تم جنگ کا مطلب نہیں جانتے؟ اس وقت میں جنگ کا مطلب نہیں جانتا تھا، لیکن میں نے جان لیا کہ یہ کچھ خوفناک، غیر معمولی، اور گھٹن بھری چیز ہے۔ ہم بار بار باہر نکلنے کی کوشش کرتے اور ہمیں بار بار روکا جاتا، ہمارے رونے کی آوازیں بلند ہو رہی تھی اور وہ ہمیں چپ کرانے کی کوشش کرتیں، مگر بے سود۔ اس وقت محمود نے کہا : ماں! کیا میں چراغ لے آؤں تاکہ ہم اسے جلائیں؟ ماں نے جواب دیا، ہاں محمود لے آؤ۔ محمود گڑھے سے نکلنے کے لیے لپکا تو میری ماں نے اسے پکڑ کر روکا اور کہا، باہر مت جاؤ محمود (مت نکلو بیٹا)۔
ماں نے اسے بٹھایا اور خود باہر نکل گئی۔ واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں مٹی کے تیل کی لالٹین تھی، اسے جلایا تو جگہ روشن ہوگئی۔ ایک خاموشی اور اطمینان سا پھیل گیا، نیند نے مجھے اور میرے بھائیوں اور چچا زاد بھائیوں کو اپنی آغوش میں لے لیا اور میری ماں اور چچی نیند سے لڑتے لڑتے سو گئیں۔ اگلے دن کوئی خاص بات نہیں ہوئی، ہم سارا دن خندق میں ہی رہے۔
ہماری پڑوسن معلمہ عائشہ ہمیشہ اپنے ریڈیو کے ساتھ رہتیں اور خندق کے قریب رہنے کی کوشش کرتیں تاکہ ریڈیو کی لہریں پکڑ سکیں اور تازہ ترین خبریں سن سکیں۔ جب بھی وہ کوئی نئی خبر سنتیں تو میری ماں اور چچی کو بتاتیں، جس سے ماحول میں افسردگی اور غم بڑھ جاتا، اور خاموشی چھا جاتی۔ اس کا اثر ہماری ماؤں کی تیاری اور ہماری فرمائشوں کو سننے اور پورا کرنے کی صلاحیت پر بھی پڑتا۔ جب وہ ہمیں خاموش رہنے کا کہتیں تو ہمیں زیادہ بوجھ محسوس ہوتا۔ احمد سعید کی ’’صوت العرب‘‘ سے دی جانے والی دھمکیاں اور یہودیوں کو سمندر میں پھینکنے کی باتیں کمزور پڑنے لگیں، اور ہمارے والدین کے وطن واپسی کے خواب ان ریت کے محلوں کی طرح بکھرنے لگے، جو ہم بچے کھیل کے دوران بنایا کرتے تھے۔ ہماری سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ ہم اس علاقے میں واپس جائیں جہاں ہم تھے اور یہ کہ ہمارے چچا، جو فلسطین کی آزادی کے فوج میں بھرتی تھے، صحیح سلامت واپس آجائیں، اور ہمارے والد جو عوامی مزاحمت میں شامل تھے، ہمارے پاس سلامت واپس آ جائیں۔ ہر نئی خبر کے ساتھ جو محترمہ عائشہ سنتیں، افسردگی اور تناؤ بڑھتا گیا، اور لوگ دعاؤں میں مشغول ہو گئے، ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر سلامتی اور واپسی کی دعائیں کرنے لگے جبکہ دھماکوں کی آوازیں تیز اور قریب ہونے لگیں۔
میری ماں گاہے بگاہے خندق سے باہر نکلتی اور چند منٹوں بعد گھر سے کچھ کھانے یا اوڑھنے کے لیے لے آتی، یا پھر میری چچی کو دادا کے بارے میں تسلی دینے کے لیے آتی جو ضد میں اپنے کمرے میں رہنے پر مصر تھے اور ہمارے ساتھ خندق میں نہیں آنا چاہتے تھے۔
شروع میں ان کو امید تھی کہ ہم جلد ہی فلوجہ اپنے گھر اور کھیتوں میں واپس جائیں گے اور ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہوگا کیونکہ خطرہ یہودیوں کے لیے ہوگا جنہیں عرب افواج روند ڈالیں گی۔ لیکن جب انہیں جنگ کی نئی حقیقت کا علم ہوا کہ یہ ہمارے حق میں نہیں ہے، تو انہوں نے نیچے آنے سے اس لیے انکار کر دیا کیونکہ اب زندگی اور موت ان کے لیے برابر ہو چکی تھی۔ وہ پوچھتے تھے کہ کب تک ہم اپنے مقدر سے بھاگتے رہیں گے؟ موت اور زندگی ایک جیسے ہوگئے تھے۔ ایک بار پھر اندھیرا چھا گیا اور ہم نیند کی آغوش میں چلے گئے، جسے کئی بار دھماکوں کی آوازوں نے توڑا۔ اگلی صبح دھماکوں کی شدت میں اضافہ ہوگیا۔ اس دن کوئی خاص بات نہیں ہوئی سوائے اس واقعے کے کہ بہت سے لوگ چیختے چلاتے ہوئے دوڑتے ہوئے آئے ’’جاسوس! جاسوس!‘‘ یہ واضح تھا کہ وہ جاسوس کا پیچھا کر رہے تھے، اس کے پاس کوئی چیز تھی جیسے وہ گاڑی جس میں پہیے ہوتے ہیں یا کچھ اسی طرح کا، اور لوگ اس کا پیچھا کر رہے تھے۔ میں نے اپنی امی، چچی اور محترمہ عائشہ کی بات چیت سے سمجھا کہ اس جاسوس کا یہودیوں سے کچھ تعلق ہے۔ دھماکے شدت سے ہونے لگے اور قریب آنے لگے، یہ واضح تھا کہ اب یہ مغربی گھروں کو نشانہ بنا رہے تھے، ہر نئے دھماکے کے ساتھ خوف، چیخ و پکار بڑھنے لگی۔ اگرچہ تسلی دینے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ ہر کچھ دیر بعد عائشہ خندق کی کھڑکی کے قریب جا کر خبریں سن کر امی اور چچی کو بتاتیں۔
کچھ دن بعد امی کے لیے باہر جانا ممکن نہ رہا جیسے پہلے دو دنوں میں کیا کرتی تھی، عائشہ نے خبریں سنیں اور سنتے ہی رونے اور چیخنے لگیں، وہ اپنے قدموں پر کھڑی نہ رہ سکیں اور گر گئیں اور بڑبڑانے لگیں کہ یہودیوں نے ملک پر قبضہ کر لیا ہے۔ ایک لمحے کے لیے خاموشی چھا گئی، اس خاموشی کو میری چھوٹی بہن مریم کی درد بھری چیخ نے توڑ دیا، وہ بھی اپنی ماں کے رونے سے متاثر ہو کر رونے لگی تھی۔
بمباری اور دھماکوں کی آوازیں رک گئی تھیں، اب صرف کبھی کبھار فائرنگ کی ہلکی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ شام کے قریب یہ آوازیں بھی بند ہوگئیں اور خاموشی چھا گئی۔ شام کو پڑوسیوں کی آوازیں بلند ہونے لگیں، وہ خندقوں سے یا اپنے گھروں سے باہر نکلنے لگے جہاں وہ تمام وقت چھپے ہوئے تھے۔ عائشہ باہر جا کر صورتحال کو جانچ کر واپس آئیں اور کہا کہ جنگ ختم ہوگئی ہے، باہر آ جاؤ۔ امی اور چچی پہلے باہر نکلیں اور پھر ہمیں بھی باہر نکلنے کو کہا۔
کئی دنوں بعد ہم نے پہلی بار کھلی فضا میں سانس لی، لیکن یہ فضا بارود اور تباہ شدہ گھروں کے گرد و غبار سے بھری ہوئی تھی۔ مجھے اپنے ارد گرد دیکھنے کا موقع ملا، اس سے پہلے کہ امی مجھے گھر کھینچ کر لے جاتیں۔ میں نے دیکھا کہ ہمارے ارد گرد ہر سمت تباہی کے آثار تھے، بمباری نے کئی پڑوسیوں کے گھروں کو نقصان پہنچایا تھا۔ ہمارا گھر محفوظ رہا، کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ہم گھر کے اندر گئے، دادا نے ہمیں بانہوں میں لے لیا، ایک ایک کر کے بوسہ دیتے ہوئے، اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہ ہم محفوظ ہیں، اور ہمارے والد کی جلد واپسی کی دعا کرتے رہے۔
اس رات چچی اور ان کے دو بیٹے ہمارے ساتھ سوئے۔ میرے والد اور چچا اس رات واپس نہیں آئے، ایسا لگتا تھا کہ ان کی واپسی میں ابھی مزید وقت لگے گا۔ صبح کے وقت، کیمپ کی گلیوں میں حرکت شروع ہوگئی۔ ہر ایک اپنے بچوں، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی خیریت معلوم کرنے نکلا، اور اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا کہ وہ محفوظ ہیں، اور یہ جاننے کی کوشش کر رہا تھا کہ ان گھروں کے مکینوں کا کیا حال ہے جنہیں بمباری نے نقصان پہنچایا تھا۔
یہ ایک کہانی ہے جو ایک فلسطینی گاؤں کے حالات کو بیان کرتی ہے جب اسرائیلی فوج نے اس پر قبضہ کر لیا تھا، اور گاؤں میں موت کے کچھ واقعات پیش آئے تھے۔ لیکن زیادہ تر گاؤں والوں نے سمندر کی طرف یا قریبی باغات اور کھلے میدانوں کی طرف بھاگ کر، یا پھر پہلے سے کھودی ہوئی خندقوں میں پناہ لی تھی۔
قابض افواج کو ایک علاقے میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو وہ پیچھے ہٹ گئیں، تھوڑی دیر بعد کچھ ٹینک اور فوجی جیپیں نمودار ہوئیں جن پر مصری جھنڈے لہرا رہے تھے، مزاحمت کرنے والے یہ سمجھ کر خوش ہوگئے کہ مدد آ گئی ہے اور اپنے ٹھکانوں اور خندقوں سے نکل کر ہوا میں گولیاں چلانے لگے۔ جیسے ہی یہ قافلہ قریب آیا، اس نے مزاحمت کرنے والوں پر شدید فائرنگ کر دی، جس سے وہ ہلاک ہو گئے۔ پھر ان ٹینکوں اور گاڑیوں پر مصری جھنڈوں کی جگہ اسرائیلی جھنڈے لہرا دیے گئے۔
لوگ قریبی اسکولوں پر ٹوٹ پڑے، جو جنگ سے پہلے مصری فوج کا کیمپ تھے، اور وہاں سے جو کچھ مل سکا، لوٹ لیا۔ کوئی کرسی لے کر بھاگ رہا تھا، کوئی میز، کوئی اناج کی بوریاں، تو کوئی باورچی خانے کا سامان ۔ اس طرح بجائے اس کے کہ قابض فوج ان چیزوں پر قبضہ کرتی، لوگوں نے خود کو ان کا وارث سمجھا کیونکہ مصری فوج وہاں سے غائب ہو چکی تھی۔ کچھ لوگوں نے قریبی دکانوں کے دروازے توڑ کر وہاں سے چیزیں لوٹنا شروع کر دیں، جبکہ کچھ نے کیمپوں میں چھوڑے گئے اسلحہ اور گولہ بارود پر قبضہ کر لیا۔ یہ افراتفری کئی دن تک جاری رہی، ہر کوئی اپنے کام میں مصروف تھا۔
ایک دن دوپہر کے قریب، دور سے بلند آواز میں بھدی عربی زبان میں اعلان سنائی دیا کہ کرفیو کا اعلان کیا جا رہا ہے اور سب اپنے گھروں میں رہیں، جو بھی باہر نکلے گا، وہ موت کے خطرے میں ہوگا۔ لوگ اپنے گھروں میں رہنے لگے اور فوجی جیپیں یہ اعلان کرتی رہیں۔ پھر انہوں نے اعلان کیا کہ ۱۸ سال سے اوپر کے تمام مرد قریبی اسکول میں جمع ہوں، اور جو بھی حکم کی خلاف ورزی کرے گا، اسے موت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
میرے والد اور چچا واپس نہیں آئے تھے اور میرا بڑا بھائی محمود ان کے مقابلے میں چھوٹا تھا۔ جب میرے دادا اسکول کی طرف جانے لگے تو ایک فوجی نے انہیں دیکھ کر واپس جانے کا حکم دیا کیونکہ وہ بوڑھے اور کمزور تھے۔ وہ مایوس ہو کر واپس آ گئے۔ تھوڑی دیر بعد، بڑی تعداد میں فوجی، بندوقیں تھامے گھر گھر تلاشی لینے لگے اور جو بھی مرد انہیں ملا، اسے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے گولی مار دی۔
محلے کے مرد قریبی اسکول میں جمع ہوئے جہاں فوجیوں نے انہیں اسکول کے میدان میں زمین پر قطاروں میں بٹھا دیا، اور فوجیوں نے ہر طرف سے انہیں گھیر لیا اور اپنی بندوقیں ان کی طرف سیدھی کر لیں۔ جب مردوں کو اکٹھا کرنے کا کام مکمل ہوا، تو ایک ڈھکی ہوئی ملٹری جیپ اسکول میں آئی جس میں سے ایک شخص اترا جو سویلین لباس میں تھا، لیکن وہ قابض فوج کا حصہ تھا، کیونکہ تمام فوجی اس کی باتوں کو بڑی توجہ سے سن رہے تھے اور وہ انہیں احکامات دے رہا تھا اور وہ اس کی ہدایت کے مطابق صف بندی کر رہے تھے۔ انہوں نے مردوں کو زمین پر ایک ایک کر کے اٹھنے اور چلنے کا حکم دیا تاکہ وہ اس جیپ کے سامنے سے گزریں جو آخر میں آئی تھی۔ مرد ایک ایک کر کے اٹھتے اور گزرتے، اور جب کبھی ایک مخصوص سپاہی بگل (ناقوس) بجاتا، تو فوجی اس مرد کی طرف دوڑتے، اسے زور زبردستی اور ذلت کے ساتھ پکڑ کر عقبی میدان میں لے جاتے جہاں نگرانی اسکول کے مرکزی میدان سےبھی زیادہ سخت تھی۔
یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ جس کے گزرنے پر بگل بجتا، اس کی قسمت خراب ہو چکی ہے کیونکہ اسے ایک خطرناک آدمی قرار دیا گیا تھا۔ اس طرح یہ سلسلہ جاری رہا جب تک کہ آخری مرد بھی گزر نہ گیا۔ ہر تھوڑی دیر میں بگل بجتا اور کسی کو جیپ کے سامنے سے ہٹا دیا جاتا، اور جس کے گزرنے پر بگل نہ بجتا، اسے سائیڈ پر بٹھا دیا جاتا۔ جب یہ کام ختم ہو گیا، تو سویلین لباس میں ملبوس افسر کھڑا ہوا اور بیٹھے ہوئے لوگوں سے بھاری مگر قابل فہم عربی میں بات کرنے لگا۔ اس نے اپنا تعارف ’’ابو الدیب‘‘ کے نام سے کرایا، جو کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی کا افسر اور اس علاقے کا انچارج تھا۔ اس نے عربوں کی شکست کے بعد نئے حالات کے بارے میں ایک لمبی تقریر کی، اور کہا کہ وہ علاقے میں امن و امان چاہتا ہے اور کسی بھی قسم کی مشکلات نہیں چاہتا، اگر کسی نے امن خراب کرنے کی کوشش کی تو اسے موت یا قید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر کسی کو اسرائیلی دفاعی فوج سے کوئی سروس چاہیے تو اس کا دفتر کھلا ہے۔ جب اس نے اپنی بات ختم کی، تو اس نے حاضرین کو ایک ایک کر کے اور خاموشی سے جانے کا حکم دیا۔ مرد اٹھنے لگے اور اسکول سے اپنے گھروں کی طرف جانے لگے۔ ہر ایک یہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ بلاشبہ موت سے بچ گیا ہے۔ انہوں نے محلے کے تقریباً سو مردوں کو الگ کر دیا تھا۔
وہ افسر جس جیپ میں آیا تھا، اسی میں بیٹھ کر اس میدان میں چلا گیا جہاں ان آدمیوں کو جمع کیا گیا تھا اور اس نے انہیں حکم دیا کہ ایک ایک کر کے کھڑے ہوں، اور دوبارہ جیپ کے سامنے سے گزریں۔ جب بھی بگل بجتا، گزرنے والے کو دوبارہ پکڑ لیا جاتا اور قریب کی دیوار کے پاس کھڑا کر دیا جاتا، جبکہ اس کا چہرہ دیوار کی طرف ہوتا۔ باقی لوگ میدان کے کنارے بیٹھ گئے۔ اس گروپ میں سے پندرہ آدمیوں کو چن کر دیوار کے پاس کھڑا کر دیا گیا۔ افسر نے کچھ سپاہیوں کو ان کے سامنے کھڑے ہونے کا حکم دیا، انہوں نے اپنی بندوقیں نکالیں اور گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے، پھر ان پر نشانہ لگا کر فائر کر دیا، جس سے وہ زمین پر گر پڑے۔ باقی لوگ جو پسینے سے شرابور تھے، ان کے ہاتھ پیچھے باندھ دیے گئے اور آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی گئیں، اور انہیں ایک بس میں بٹھا دیا گیا جو انہیں مصر کی سرحد پر لے گئی۔ وہاں موجود سپاہیوں نے انہیں حکم دیا کہ سرحد عبور کر کے مصر چلے جائیں، جو آگے نہیں بڑھے گا یا پیچھے مڑ کر دیکھے گا، اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا جائے گا۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
1 کتاب کا ترجمہ شیخ یحییٰ سنوار کی شہادت سے قبل کیا گیا تھا۔ (ادارہ)