نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home عالمی منظر نامہ

اخباری کالموں کا جائزہ | اپریل و مئی ۲۰۲۴

شاہین صدیقی by شاہین صدیقی
31 مئی 2024
in عالمی منظر نامہ, اپریل و مئی 2024
0

اس تحریر میں مختلف موضوعات پر کالم نگاروں و تجزیہ کاروں کی آرائ پیش کی جاتی ہیں۔ ان آراء اور کالم نگاروں و تجزیہ کاروں کے تمام افکار و آراء سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ (ادارہ)


بھارت | الیکشن ۲۰۲۴ء

انڈیا میں لوک سبھا کے انتخابات جاری ہیں جو کہ پانچ مرحلوں میں ہو رہے ہیں۔ جن میں پہلا مرحلہ ۱۹ اپریل کو ہوا۔ ابھی چار مرحلے باقی ہیں۔ اور نتائج کا اعلان ۵ جون کو کیا جائے گا۔ انتخابات کا انعقاد عین رام نومی تہوار کے فوراً بعد کیا گیا۔ جس میں ہر سال کی طرح اس سال بھی ہندو مسلم فسادات کا خطرہ تھا، جس سے بچنے کے لیے جہاں جہاں سے رام نومی کا جلوس گزرا وہاں موجود مسجدوں کو مسلمانوں نے سفید غلاف سے ڈھانپ دیا۔ لیکن پھر بھی جلوس میں موجود بھگوا شرپسندوں نے مساجد کے سامنے کھڑے ہو کر مسلمانوں کے خلاف اور ہندتوا کے حق میں خوب نعرے بازی کی اور اونچی آواز میں میوزک لگا کر مسلمانوں کی ایذارسائی کی۔ اس طرح جس مسلم مخالف ماحول میں انتخابات ہو رہے ہیں، مسلمانوں کے لیے کسی خیر کی امید نظر نہیں آتی۔ ماحول اس قدر مسلم مخالف ہے کہ کانگریس اور دیگر سیکولر جماعتیں (عام آدمی پارٹی اور سماج وادی پارٹی)بھی اس ڈر سے مسلمانوں کے حقوق کی بات کرنے اور مسلمانوں کا نام لینے سے کترا رہی ہیں کہ کہیں ان کا ہندو ووٹ بینک خراب نہ ہو جائے۔ جبکہ مودی کھلے عام اپنی انتخابی ریلیوں میں بڑھ چڑھ کر مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہا ہے۔ ’’گھس بیٹھیے‘‘، ’’در انداز‘‘، اور ’’زیادہ بچے جننے والے‘‘ کہہ کر مسلمانوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ ایسے میں یہ انتخابات مسلمانوں کے لیے کس طرح نتیجہ خیز ہوں گے یہ وقت ہی بتائے گا۔

اس متعلق اخبارات کیا کہہ رہے ہیں؟ چند اقتباسات قارئین کے لیے پیش کیے جا رہے ہیں۔

انتخابات اور مسلمان| محمد امین نواز

’’دانشوروں کا کہنا ہے کہ اگر اس الیکشن میں بی جے پی دوبارہ اقتدار میں آتی ہے تو پھر مستقبل میں کوئی الیکشن نہیں ہو گا۔ سابق حکومت شاہد ہے کہ کس طرح اقلیتوں نے خوف و ہراسانی کے ماحول میں دن گزارے ہیں۔ اس بات کا اندازہ شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کو ہم سے زیادہ ہو گا، کیونکہ ماب لنچنگ (ہجومی تشدد) کے واقعات، بابری مسجد کی جگہ رام جنم بھومی ، ’طلاقِ ثلاثہ‘، بلڈوزر کارروائیاں، گیان واپی مسجد، یکساں سول کوڈ، سی اے اے، مدارس پر حکومت کی سختیاں، نصابی کتابوں پر بھگوا رنگ، فسادات بھی بہت ہوئے ہیں۔ آر ایس ایس کا عروج گزشتہ دس برس میں جو ہوا ہے وہ شاید اس سے قبل ملک کی تاریخ میں نہیں ہوا تھا۔ مسلم ووٹوں کی بات کی جائے تو لوک سبھا انتخابات سے قبل صورتحال واضح ہوتی نظر آ رہی ہے۔ حکمران اسٹیبلشمنٹ نے بغیر کچھ کہے واضح کر دیا ہے کہ اسے برادری کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا ’۴۰۰ کو عبور کرنا‘ مسلمانوں پر منحصر نہیں ہے۔ حزب اختلاف کا مؤقف اس کے برعکس نظر آتا ہے:

’’پریشان کن مسلمان ہمیں نہیں تو کس کو ووٹ دیں گے؟‘‘

سیاست جذبات کا کھیل نہیں ہے، ہر کام سوچ سمجھ کر کرنا پڑتا ہے، چاہے اس کے لیے ہمیں ہتھیار ڈالنا کیوں نہ پڑیں۔ ا ب دیکھنا یہ ہے کہ ان سنگین حالات میں ہندوستان کے اور کرناٹک کے مسلمان کیا فیصلہ لیتے ہیں۔ جو بھی فیصلہ ہو گا اس کا اثر ہماری آنے والی نسلوں پر پڑے گا، یہ بات ذہن میں رکھنا ہو گی۔

چونکہ یہ انتخابات انتہائی اہم ہیں اس لیے کوئی حکمت عملی، کوئی مہم کام نہیں دے سکتی۔ مسلمانوں کو یہ سوچنا ہو گا کہ اس امتحان کی گھڑی میں کون سا قدم اٹھائیں۔‘‘

[روزنامہ اعتماد]

انتخابی منظر نامہ سے غائب مسلمان| معصوم مراد آبادی

’’اگر آپ سنجیدگی کے ساتھ ملک کے انتخابی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو محسوس ہو گا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے جشن میں مسلمان اپنی نمائندگی کا ماتم کر رہے ہیں۔ بی جے پی کھل کر ہندو کارڈ کھیل رہی ہے۔ انتخابی میدان میں یوں تو ترقی کے ایجنڈے کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے لیکن مختلف انتخابی حلقوں میں ان زعفرانی جھنڈوں کو چمکانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو گزشتہ ۲۲ جنوری کو رام مندر کی پران پرتیشٹھا کے موقع پر لگائے گئے تھے۔ یہ دراصل خود کو ہندوؤں کا سب سے بڑا خیر خواہ ثابت کرنے کی کوشش ہے تاکہ سارے ہندو ووٹ بی جے پی کی جھولی میں گریں……

……سبھی جانتے ہیں کہ آزادی کے بعد سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں کو محض طفل تسلیوں پر زندہ رکھا ہے اور ان کی حد سے بڑھی پسماندگی دور کرنے کے لیے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا۔ لیکن جب سے قومی سیاست میں بی جے پی کا عروج ہوا ہے تب سے مسلمانوں کا نام لینا بھی حرام سمجھا جانے لگا ہے۔ اگر آپ ملک کے موجودہ انتخابی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو صاف نظر آئے گا کہ اس میں مسلمان غائب ہیں۔ نہ ان کے مسائل پر کوئی گفتگو ہو رہی ہے اور نہ ہی ان سے کوئی یہ پوچھنے والا ہے کہ تمہارے منہ میں کتنے دانت ہیں۔ موجودہ انتخابات میں مسلمانوں کی گمشدگی کے پیش نظر یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اٹھارویں لوک سبھا میں مسلم نمائندوں کی تعداد سب سے کم ہو گی اور یہی بے جے پی کا اصل ہدف بھی ہے۔‘‘

[روزنامہ اعتماد]

وزیر اعظم مودی اور ’ہندو مسلم‘ کی سیاست| اداریہ

’’وزیراعظم مودی نے راجھستان میں انتخابی تشہیر کے دوران جو تقریر کی وہ واضح طور پر ’ہیٹ سپیچ‘ (کسی ایک مذہب کے خلاف نفرت بھڑکانے) کے زمرے میں آتی ہے۔ سیکولر عوام کا مطالبہ ہے کہ اس نفرت آمیز تقریر کی پاداش میں وزیر اعظم مودی کی اگلی پوری انتخابی مہم میں حصہ لینے پر پابندی لگا دینی چاہیے لیکن الیکشن کمیشن کے ذہن میں وزیر اعظم مودی کی تقریر کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اسی لیے اس نے سخت اقدام اٹھانا تو درکنار اس زہریلی تقریر پر وزیر اعظم کو نوٹس تک جاری کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس بیان نے یہ بھی واضح کر دیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور مودی کے پاس پچھلے دس سال کی کارکردگی کے نام پر ووٹ مانگنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ مودی کے دس سال کا دورِ اقتدار آج بھی صرف اور صرف مسلم مخالف پراپیگنڈہ کے ہی سہارے ہے۔‘‘

[اردو ٹائمز]

مودی ہے تو ممکن ہے| وسعت اللہ خان

’’بی جے پی کے لیے موجودہ الیکشن اس لیے بھی اہم ہیں کہ اس کا حتمی ہدف سیکولر آئین کی شکل بدل کر ایک ہندو راشٹر کا قیام ہے جس میں ایک راجہ، ایک کتاب اور ایک قانون سب کے لیے ہو۔ جبکہ حزب اختلاف کے لیے یہ آخری موقع ہے مودی کے لشکر کو اس راہ پر جانے سے روکنے اور سیکولر جمہوریہ کی باقیات بچانے کے لیے……

……حسب روایت فرقہ وارانہ کارڈ بھی آستینوں سے نکل آیا ہے۔ مودی نے حزب اختلاف کے اتحاد (انڈیا) کے منشور پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایسا لگتا ہے جیسے یہ مسلم لیگ کا منشور ہو۔ یہ سب جماعتیں رام دشمن ہیں اور اس بار ووٹر انہیں پہلے سے زیادہ مزہ چکھائیں گے۔‘‘

ایک ایسے ماحول میں جب میڈیا مودی کا بھونپو بن چکا ہے ، عدلیہ اور الیکشن کمیشن سمیت تمام آئینی و انتظامی ادارے بی جے پی کی ذیلی تنظیم کا کردار ادا کر رہے ہیں، حزب اختلاف کے پاس ’مودی ہے تو ممکن ہے‘ جیسے نعرے کے توڑ کے لیے کوئی نعرہ نہیں۔

بھارت چونکہ پانچویں بڑی عالمی معیشت کے پائیدان پر پہنچ کر برطانیہ کو بھی پیچھے چھوڑ چکا ہے، اس لیے بیرون بھارت کسی کو بھی وہاں انسانی حقوق اور جمہوریت کے مستقبل سے پہلے جیسی دلچسپی نہیں رہی۔ حالانکہ رائے عامہ کے مغربی ادارے اور تھنک ٹینک اپنی ہی رپورٹوں میں کہہ چکے ہیں کہ بھارت پچھلے دس برس میں مکمل جمہوریت سے نیم جمہوری ریاست کے درجے پر آ چکا ہے۔

کئی انتخابی پنڈت یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ یہ بھارت کا آخری کھلا الیکشن ہے۔ آئندہ جو بھی الیکشن ہوا وہ اتنا ہی جمہوری ہو گا جتنا ایران، روس یا چین میں ہوتا ہے۔‘‘

[روزنامہ ایکسپریس]

پاکستان | بہاولنگر پولیس سٹیشن پر فوج کا دھاوا

پنجاب کا شہر بہاولنگر ۱۰ اپریل کو ہونے والے ایک واقعہ کی وجہ سے میڈیا اور سوشل میڈیا کی زینت بنا رہا۔ پاکستانی میڈیا کے مطابق ۱۰ اپریل کو بہاولنگر شہر کے پولیس تھانہ میں فوج نے دھاوا بول دیا۔ اور وہاں کے پولیس ایس ایچ او سمیت تھانے کے دیگر اہلکاروں کو زدوکوب کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ وہاں کے کیمرے توڑ ڈالے اور ڈی وی آرز بھی اپنے قبضے میں لے لیں۔ چونکہ یہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ تھا تو فوراً ہی واقعہ کی اور ہسپتال میں پہنچے زخمی ایس ایچ او کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں۔اگر دیکھا جائے تو ایک قانون نافذ کرنے والے ادارے کا دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے پر حملہ خود قانون کا ہی مذاق ہے۔

ہوا کچھ یوں کہ بہاولنگر پولیس نے ۸ اپریل کو ناکہ پر موٹر سائیکل سوار کو روکا تو اس سے پستول برآمد ہوئی۔ اس سے ابتدائی پوچھ گچھ کی تو وہ موٹر سائیکل سوار وہاں سے بھاگ نکلا۔ رات کو پولیس نے اس کے بتائے ہوئے ایڈریس پر چھاپہ مارا ، وہاں وہ تو گھر پرنہیں ملا، البتہ اس کا بھائی جو فوج کا حاضر سروس افسر تھا، وہاں موجود تھا۔ پولیس نے وہاں مردوں پر تشدد کیا اور ان کو گرفتار کر لیا اور خواتین سے بھی کافی بد تمیزی کی۔ پولیس کی اس حرکت پر ’سبق سکھانے‘ کے لیے فوج نے تھانے پر دھاوا بول دیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ’فیس سیونگ‘ (Face saving) کے لیے فوج اور پولیس کی جانب سے مشترکہ بیان آیا کہ اس واقعہ کی مشترکہ تحقیقات کی جائیں گی تاکہ اختیارات کا غلط استعمال کرنے والے ذمہ داران کا تعین کیا جا سکے۔

ایک طرف پاکستان کی پولیس بدعنوان، کرپٹ اور ظالم ہے، عام اور شریف شہریوں پر فرعون بنی بیٹھی ہے ، اور جب اصل مجرموں سے واسطہ پڑتا ہے تو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی بجائے رشوت لے کر ان کے ساتھ مل جاتی ہے اور پس پردہ انہیں تحفظ فراہم کرتی ہے۔ دوسری طرف فوج ہے جو اپنے آپ کو مختار کل سمجھتی ہے۔ اس وقت پاکستان کے تمام سرکاری ادارے عملی طور پر فوج کے کنٹرول میں ہیں۔ عام شہری فوج کے رحم و کرم پر ہیں۔ فوج کا جب جی چاہتا ہے کسی کو اٹھا لے، کسی کو غائب کرے اور کسی کو بھی ’دہشت گرد ‘ کا لیبل لگا کر مار ڈالے، کسی کو بھی فوج کا محاسبہ کرنے کی جرأت نہیں۔ عدلیہ ہو یا میڈیا ان کے تسلط سے کوئی آزاد نہیں۔ پچھلے مہینے ہائی کورٹ کے سینئر ججز کے مشترکہ خط سے بھی واضح ہوا کہ کس طرح آئی ایس آئی اپنی مرضی کے فیصلے کروانے کے لیے دباؤ ڈالتی ہے اور دھمکاتی ہے۔ ججز کے بیڈ رومز سے خفیہ کیمرے تک برآمد ہوئے۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ یہ ادارہ اخلاقی طور پر کس قدر گرا ہوا ہے۔ جوذلت آمیز رویہ ایک فوجی کے گھر والوں کو پولیس کے ہاتھوں سہنا پڑا، ایسے ہی ذلت آمیز سلوک سے عام شہری آئے دن گزرتے ہیں لیکن ان کے پیچھے طاقتور ہاتھ نہیں ہوتا اس لیے انہیں کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ اور عوام کے لیے ’پولیس گردی‘ جاری رہتی ہے۔ کس قدر بڑا المیہ ہے یہ کہ جتنا پاکستان کو ان ظالم اور لٹیرے اداروں نے نقصان پہنچایا، اتنا کسی نے نہیں پہنچایا۔ نتیجتاً جتنی نفرت ان اداروں کے لیے اب عوام میں سرایت کرچکی ہے، اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔ اگر ان اداروں کو اب بھی انصاف کے کٹہرے میں نہ لایا گیا تو یہ ادارے ہی پاکستان کی تباہی کے ذمہ دار ہوں گے۔ فوج کے کنٹرول کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجا سکتا ہے کہ اس واقعہ پر میڈیا نے ساری تنقید پولیس پر ہی کی فوج پر کچھ کہا تو نرم سے الفاظ میں صرف اتنا کہ تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے اور بس اس سے زیادہ کچھ کہنے کی کسی میں جرأت نہ تھی مبادہ ارشد شریف والا انجام ان کا بھی نہ ہو جائے۔

اس حوالے سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔

بہاولنگر واقعہ اور کرپٹ پولیس | محسن گورایہ

’’بہاولنگر میں رونما ہونے والے واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں اطراف جو ہوا غلط ہوا۔ مگر کوئی یہ بتائے گا کہ پولیس ہر روز عوام پر جو ظلم و تشدد کرتی ہے، لوگوں کے گھروں میں بغیر وارنٹ اور سیڑھیاں لگا کر جس طرح داخل ہوتی ہے اور جو حرکتیں کرتی ہے کیا وہ جائز ہیں؟ پولیس کو پہلی دفعہ مذاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ مد مقابل اس سے زیادہ طاقتور تھا۔ اگر اصلاح احوال کے لیے کوئی سنجیدہ قدم نہ اٹھایا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب ہر سطح پر اسی طرح کی مذاحمت ہو گی۔ پولیس کے اعلیٰ حکام کو سوچنا ہو گا کہ وہ سیاسی آلہ کار بننا چھوڑ دیں، قانون پر چلیں اور نچلی سطح کے اہلکاروں کا اخلاق اور معاشی حالات کچھ بہتر کریں۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ پولیس کا مد مقابل اگر اس سے زیادہ طاقتور نہ ہوتا، کوئی عام بندہ یا ادارہ ہوتا تو پولیس نے اس کی کیا حالت بنا دینی تھی اب تک؟

حقیقت یہ ہے کہ جرائم کی روک تھام کے لیے بنایا جانے والا پولیس کا محکمہ جرم ہونے سے پہلے تو کیا جرم ہونے کے بعد بھی از خود لوگوں کی مدد کے لیے نہیں پہنچتا۔ اگر کسی دباؤ کے تحت پولیس والوں کو آنا پڑے تو فوری کارروائی کی بجائے وقت ضائع کیا جاتا ہے اور معاملات کو الجھا کر پیچیدہ بنایا جاتا ہے تاکہ جرائم پیشہ عناصر ان کی رسائی سے دور ہو جائیں اور پولیس والوں کو وہاں سے کچھ مال پانی مل جائے یا پھر انہیں مجرموں کو پکڑنے کے لیے تگ و دو نہ کرنا پڑے۔ کسی واقعہ کے رونما ہونے کے بعد ایف آئی آر درج کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ لیکن پاکستان میں ایف آئی آر درج کرانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ لوگ انصاف ملنے کی آس میں دس بارہ دن تھانے کے چکر لگا لگا کر تھک ہار جاتے ہیں اور خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ لیکن ایف آئی آر درج نہیں ہوتی۔ اگر ہو جائے تو ممکن ہے پولیس والے سارا قصور آپ کا ہی نکالیں، ایسے میں لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ لیکن یہ معاملہ سب کے ساتھ نہیں ہے، صرف غریب اور متوسط طبقے کے عوام کے ساتھ ہے۔ اگر کوئی امیر بندہ شکایت لے کر تھانے جائے تو فوراً داد رسی کی جاتی ہے۔ بلکہ سننے میں آتا ہے کہ طاقتور افراد تو اپنے علاقے میں اپنی پسند کے تھانے دار لگواتے ہیں تاکہ وہ اسے اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کر سکیں اور اپنے کام کروا سکیں۔‘‘

[روزنامہ نئی بات]

فلسطین | ایران اسرائیل حملے

یکم اپریل کو اسرائیل نے دمشق میں ایرانی سفارتخانے کی عمارت کو نشانہ بنایا جس میں ایرانی پاسداران انقلاب کا سربراہ بریگیڈیئر جنرل علی رضا زاہدانی عملے سمیت مارا گیا۔ اس جارحانہ حملے کے جواب میں ۱۳ اپریل کی شب ایران نے اپنی سرزمین سے ۳۰۰ سے زائد میزائل اور ڈرونز اسرائیل کی طرف فائر کیے۔ اس جوابی حملے کی اطلاع ایران نے امریکہ اور پڑوسی ممالک کو۷۲ گھنٹے قبل کر دی تھی، جس کی بدولت ان سینکڑوں کی تعداد میں میزائل اور ڈرونز کو امریکہ، برطانیہ اور اردن نے راستے میں ہی انٹر سیپٹ کر کے تباہ کر دیا۔ باقی جو کچھ اسرائیل کی سرزمین پر پہنچے تو اسرائیلی فضائی ڈیفنس سسٹم (آئرن ڈوم) کے ذریعے انٹر سیپٹ ہو گئے۔ اس طرح ۹۹ فیصد میزائل اور ڈرونز انٹرسیپٹ کر لیے گئے۔ باقی ایک فیصد جو نشانہ پر لگے اسے اسرائیل نے میڈیا پر ظاہر نہیں کیا۔ لیکن بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی ’نواتیم‘ ائیر بیس کو نقصان پہنچا ہے۔

اگرچہ اسرائیل کو کوئی بڑا یا جانی نقصان نہیں ہوا لیکن اس حملے کو اسٹریٹیجک اعتبار سے اہم کہا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ حملہ اسرائیل کے لیے ایک دھمکی سے کم نہیں، کیونکہ نواتیم ائیر بیس اسرائیل کے اہم دیمونا جوہری مرکز سے صرف ۲۰ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس اعتبار سے ایران کی انٹیلی جنس معلومات اور ایرانی ڈرونز اور میزائل کی اسرائیل تک با آسانی رسائی اسرائیل کے لیے ایک خطرناک دھمکی سے کم نہیں۔

بین الاقوامی میڈیا پر اس واقع کو مختلف زاویوں سے دیکھا جا رہا ہے جن میں سے چند ہم قارئین کے لیے پیش کر رہے ہیں۔ پاکستانی صحافیوں میں کچھ نے اس حملے کی حمایت میں لکھا ہے اور کچھ نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا کہ ایران نے اس جوابی حملے میں اسرائیل کو نقصان کیوں نہ پہنچایا۔ جبکہ بعض لکھاریوں نے ایران کے اس حملے کو ’’دانشمندانہ‘‘ قرار دیا کہ اگر ایران بھی کوئی بڑا حملہ کرتا یا اسرائیل کو نقصان پہنچاتا تو ایک بڑا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا تھا۔

ایران کا اسرائیل پر میزائل و ڈرون حملہ | مصطفیٰ کمال پاشا

’’ایران نے میزائل داغے اور ڈرونز لانچ ضرور کیے لیکن وہ کہاں جا کر گرے، کن تنصیبات کو نشانہ بنایا، کتنے یہودی واصل جہنم ہوئے، اسرائیل میں کتنی تباہی مچی، کسی کو پتہ نہیں چلا۔ لیکن ایران نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل پر حملہ کامیاب رہا، ہم نے بدلہ لے لیا۔ اسرائیل کو جارحیت کا مزہ چکھا دیا وغیرہ وغیرہ۔ دوسری طرف اسرائیل نے اعلان کیا کہ ہم نے اتحادیوں کی مدد سے ۹۹ فیصد ایرانی ڈرونز اور میزائل مار گرائے۔ کہیں اکا دکا فوجی تنصیبات کو نقصان ضرور پہنچا لیکن ہم اتحادیوں کی مدد سے محفوظ رہے۔ اردن اور امریکہ نے ڈرون تباہ کرنے میں مدد کی۔ برطانیہ بھی اسرائیل کی مدد کو پہنچ گیا۔ ایرانی قیادت نے اعلان کیا کہ اگر اسرائیل اب بھی باز نہ آیا تو اس سے بھی بڑا حملہ کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ گویا یہ بڑا حملہ تھا جس میں ڈرونز اور میزائل استعمال کیے گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسرائیل کا نقصان نہیں ہوا اور اگر کہیں ہوا بھی تو وہ دنیا کے سامنے نہیں آ سکا۔

امریکہ نے بہت خوبصورت اور پر مغز بیان دیا کہ اگر اسرائیل نے جوابی حملہ کیا تو امریکہ ساتھ نہیں دے گا۔ جی سیون میں متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں گے، گویا امریکہ نہ صرف صلح جو کے طور پر سامنے آیا بلکہ اسرائیل کو پر امن رکھنے کے عامل کے طور پر بھی ظاہر ہوا۔

پاکستان، چین اور سعودی عرب کا اظہار تشویش بھی سامنے آیا، نجانے کس بات پر۔ ایرانی حملے یا اسرائیل کے ممکنہ جوابی حملے پر۔ امریکی بیان پر یا ایرانی قیادت کے بڑا حملہ کرنے کی دھمکی پر۔ بہرحال بیانات پر بیانات بہت ہی اعلیٰ ثابت ہو رہے ہیں۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے امریکہ خطے میں امن کے قیام کے لیے یکسو ہو چکا ہے، وہ چاہتا ہے کہ جنگ کا دائرہ کار نہ پھیلے۔ حالانکہ اسرائیل کی جنگی مشینری، امریکی اسلحہ و گولہ بارود کے سہارے چل رہی ہے۔ امریکہ یہ ہلاکت کا سامان، اسرائیل کو چھپ چھپا کر نہیں دے رہا بلکہ اپنے ملکی و داخلی قواعد کے مطابق علی الاعلان سپلائی کر رہا ہے۔ فوجی امداد اس کے علاوہ ہے۔ ہزاروں شہید ہونے والے بچے و عورتیں امریکی گولی بارود کا شکار ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ یہ سب کچھ امریکی گولہ بارود کے ذریعے ہو رہا ہے۔ یہ امریکی شہہ و حمایت ہے جس کے باعث اسرائیل درندہ بنا ہوا ہے، بے گناہ اور نہتے فلسطینیوں پر قہر بنا ہوا ہے۔ اس نے فلسطینیوں پر عرصۂ حیات تنگ ہی نہیں بلکہ مکمل طور پر بند کر دیا ہے۔‘‘

[روزنامہ پاکستان]

مغرب نے ایران کے جوابی حملے کو حسب معمول منافقانہ اور دوغلی پالیسی کے تحت تنقید کا نشانہ بنایا، جیسا کہ برطانوی وزیر اعظم رشی سونک (Rishi Sunak) نے تہران کے ’’جارحانہ اقدام‘‘ کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایک بار پھر یہ ظاہر ہوا کہ ایران اپنے ہی صحن میں افراتفری (Chaos) کے بیج بونے کا ارادہ رکھتا ہے۔‘‘ جبکہ جمہوریہ چیک کی وزارت خارجہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایران کا طویل مدتی جارحانہ رویہ مشرقِ وسطیٰ کے خطے کو امن و سلامتی سے رہنے میں مانع ہے۔‘‘

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ایران کی مذمت کرتے ہوئے ’’اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘‘ کی وہی گھسی پٹی لائن دہرائی، جبکہ جرمنی نے اسرائیلیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر بیان دیا کہ ’’آج رات ہم ان تمام اسرائیلیوں کے ساتھ ہیں جنہیں ایران اپنے بے مثال اور بے رحم حملے سے دہشت زدہ کر رہا ہے۔‘‘

اسرائیل کے باپ اور پشت پناہ امریکہ، جس کی شہہ پر اسرائیل دھڑلے سے نہتے فلسطینیوں کی پچھلے چھ ماہ سے نسل کشی کر رہا ہے، کے صدر نے اعلان کیا: ’’ایران اور اس کی پراکسیوں سے اسرائیل کی سلامتی کو لاحق خطرات کے خلاف ہماری وابستگی آہنی ہے۔‘‘

الجزیرہ کی کالم نگار ’بیلن فرنانڈز‘ ان تمام مغربی ممالک کے منافقانہ رویے کو اپنے کالم میں سخت تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔ اس کالم سے ایک اقتباس کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

Sorry, but Iran is not the aggressor here | Belen Fernandez

’’ایرانی حملہ، یاد رہے، اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی کو ملیا میٹ کرنے کے جاری عمل کے چھ ماہ سے کچھ اوپر مدت بعد ہوا، جس میں تقریباً چونتیس ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں تقریباً ۱۳ ہزار ۸ سو بچے بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اندازہ یہ ہے کہ ہزاروں لاپتہ افراد ممکنہ طور پر ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، یہ انتہائی خوفناک اعداد و شمار بھی بلاشبہ بہت کم تخمینہ ہے۔

۷۶ ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے ہیں، کیونکہ اسرائیلی فوج پورے محلوں کو ہموار کرنے اور سکولوں، ہسپتالوں اور دیگر بنیادی انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے اور اس کے ساتھ ساتھ علاقے کے باسیوں کو قحط اور فاقہ کشی میں دکھیلنے میں مصروف ہے۔

اور بات کرتے ہیں ’’دہشت گردی‘‘ کی۔

نسل کشی طویل مدتی جارحانہ رویہ کو نہیں کہتے تو اور کسے کہتے ہیں؟ جمہوریہ چیک کی وزارت خارجہ کے الفاظ مستعار لے کر بات کریں تو بلاشبہ، اگر یہ سارا معاملہ ا س قدر گھناؤنا نہ ہو، تو یہ دعویٰ انہتائی مضحکہ خیز ہے کہ ایران اصل میں ’’افراتفری کے بیج بونے‘‘ اور ’’خطے میں امن و استحکام‘‘ کو نظر انداز کر رہا ہے۔

لیکن چونکہ اسرائیل جرم میں امریکہ کا قیمتی شراکت دار ہوتے ہوئے بڑے کردار کا حامل ہے اس لیے اسے حق حاصل ہے کہ وہ منطق کو بالکل الٹ دے، نسل کشی کرنے والے مظلوم کہلائیں اور مسلسل اسرائیلی جارحیت ’’دفاع‘‘ بن جائے۔ اور یکم اپریل کو جو دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیل نے حملہ کیا اس کی خیر ہے۔وہ تو اقدامی انتقامی کارروائی تھی۔ ہے ناں؟

غزہ میں نہ تھمنے والے قتل و غارت کی روشنی میں انٹرسیپٹ کیے گئے ایرانی میزائل اور ڈرونز کے بارے میں مغربی رد عمل انتہائی گھٹیا اور مذموم ہے۔ سونک کا فضول دعویٰ کہ ’’کوئی بھی مزید خون خرابہ نہیں دیکھنا چاہتا‘‘ اس حقیقت کا اظہار نہیں کر رہا کہ اگر یہ خون فلسطینیوں کاہو تو پھر کوئی مسئلہ نہیں۔‘‘

[Al Jazeera English]

ایران کے اس حملے کا چونکہ براہ راست تعلق فلسطین سے ہے جو غزہ میں چھ ماہ سے مسلسل اسرائیل کے ظلم و ستم کا اور مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں ان متعصب یہودی آباد کاروں کے ظلم و تشدد کا شکار ہیں، جو پچھلے چھ ماہ سے بہت تیزی کے ساتھ بزور قوت فلسطینیوں کے گھروں اور املاک سے انہیں بے دخل کر کے ان کی جگہوں پر قبضہ کر رہے ہیں۔ اس حملے کے متعلق فلسطینی کیا سوچتے ہیں اور ان کی رائے کیا ہے، اس متعلق MEMO (مڈل ایسٹ مانیٹر) پر رام اللہ کے ایک فلسطینی صحافی ’فرید تام اللہ‘ نے بہت اہم مضمون لکھا۔ ان کے مطابق فلسطینی عوام کی رائے ان کے سیاسی نقطۂ نظر کے مطابق ہے۔ جس میں ایک فریق نے ایران کے اس حملے کا جشن منایا، کیونکہ ایران وہ پہلا ملک ہے جس نے اسرائیل کے خلاف کوئی عملی اقدام اٹھایا۔ اس رائے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اگر ایران کے حملے سے اسرائیل کو خاطر خواہ نقصان نہیں بھی پہنچا پھر بھی انہوں نے اسرائیل کو ایک اہم پیغام ضرور دیا ہے کہ فلسطین کو آزاد کروانے کا واحد راستہ ’مذاحمت‘ ہے۔ اس طرح ایران ان عرب ممالک سے بہت بہتر ہے جنہوں نے سیاسی و عسکری سطح پر فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دیا بلکہ ایرانی میزائل اور ڈرون کو مار گرانے میں اسرائیل کا ساتھ دیا۔ یہ رائے حماس اور “Axis of Resistance” کے حامیوں کی ہے جو عسکری مذاحمت کو فلسطین کی آزادی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

دوسرا بائیں بازو کا فریق جو “Axis of Moderation کے حامی ہیں اور عرب ممالک اور فلسطینی اتھارٹی کی رائے پیش کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں ایران کا اسرائیل پر حملہ ایران اور اسرائیل کے درمیان طے شدہ منظر نامے کا حصہ تھا۔ ان کے مطابق یہ حملہ محض ایک تماشہ تھا جس کا مقصد ایران کو اسرائیل کے دشمن کے طور پر پیش کر کے فلسطینیوں اور باقی مسلمانوں کے رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنا ہے۔ اس رائے کے حامیوں کا خیال ہے کہ فلسطینیوں کی آزادی کا راستہ ایران سے نہیں بلکہ ایک ایسے سیاسی عمل سے گزرتا ہے جو ہمارے عرب بھائیوں، مغربی دوستوں اور خاص طور پر امریکہ کے تعاون سے ایک فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف لے کر جاتا ہے۔

اگرچہ مندرجہ بالا دو موقف فلسطینی سیاسی تقسیم کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن فلسطینی عوام کی خاموش اکثریت خود کو اس سیاسی کشیدگی کا فریق نہیں سمجھتی۔ جو چیز ان کی نظر میں اہم ہے وہ ہے اسرائیلی جارحیت کو روکنا، آزادی حاصل کرنا اور اسرائیل کے ناجائز قبضے کا خاتمہ۔ اور وہ کسی بھی ایسی جماعت کی حمایت کرتے ہیں جو اس مقصد کے حصول میں مدد کرے۔

آگے چل کر وہ لکھتے ہیں کہ مجموعی طور پر فلسطینی ایرانی میزائل کے گرنے کو دیکھنے کے لیے رات دیر تک جاگتے رہے اور انہیں وہ خوشی، چاہے وہ ایک لمحے کے لیے ہی ملی ہو، اور آزادی کے لیے امید کی ایک کرن نظر آئی جس کا وہ کافی عرصے سے انتظار کر رہے تھے۔

ان کی تحریر اس خلاصے کے بعد آخری حصے سے اقتباس کا ترجمہ درج ذیل ہے:

How do ordinary Palestinians view the Iranian attack on Israel | Fareed Taamallah

’’فلسطینیوں کو یہ بات سمجھ نہیں نہیں آتی کہ مغرب اس عجیب و غریب تضاد کا کیسے جواز فراہم کر سکتا ہے کہ وہ ایک ایسے ملک کے دفاع کے لیے بھاگا جس کے پاس خطے کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہے اور وہ ایک اور قوم کی نسل کشی میں بھی مصروف ہے۔ وہ اسرائیل کے لیے رضاکارانہ طور پر لڑتے ہیں اور اسے ضروری اسلحہ اور فنڈز فراہم کرتے ہیں لیکن اس پر اتنا دباؤ نہیں ڈال سکتے کہ غزہ کی پٹی میں ضروری طبی امداد اور خوراک بھیجنے کی اجازت دے دے کجا یہ دباؤ ڈالنے کے کہ وہاں اپنی جارحیت روک دے۔ عرب ممالک اسرائیل کے خلاف ایرانی حملے کو روکنے کا کیسے جواز فراہم کر سکتے ہیں جبکہ ان ملکوں نے پچھلے چھ ماہ میں فلسطینیوں پر گرنے والے اسرائیلی میزائلوں کو روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔

نہتے فلسطینی لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ یتیم ہیں اور انہیں خطے کی مضبوط ترین عسکری طاقت کے مقابل تنہا چھوڑ دیا گیا ہے، جسے دنیا کی پہلے نمبر کی عسکری قوت کی مدد حاصل ہے۔ ایک طرف عرب بھائیوں نے خود کو بچانے کے لیے اور اپنے مفادات کے دفاع کے لیے اپنے مظلوم بھائیوں کو چھوڑ دیا جبکہ دوسری طرف مغرب اپنے اتحادی، اصلی جارح کو بچانے کے لیے حرکت میں آگیا۔ صرف جنوب کے کچھ ممالک جیسے نکاراگویا اور جنوبی افریقہ، اور ان کے علاوہ دنیا کے آزاد لوگ، فلسطینی لوگوں کے لیے اپنا حقِ آزادی و وقار حاصل کرنے کی واحد بچی ہوئی امید کی نمائندگی کرتے ہیں۔‘‘

[Middle East Monitor]

فلسطین | مجموعی صورتحال

غزہ پر ظالمانہ تباہ کن اسرائیلی قبضے کو چھ ماہ سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے۔ اب تک ۳۵ ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں جن میں ساڑھے چودہ ہزار بچے اور ساڑھے آٹھ ہزار خواتین شامل ہیں۔ ۸ ہزار سے زائد اب بھی لاپتہ ہیں جن کی لاشیں تک نہ مل سکیں، جبکہ ۷۷ ہزار سے زائد زخمی ہیں، جن میں بہت سوں کے اعضاء کٹ گئے یا ناکارہ ہو گئے اور ہزاروں معزور ہو گئے۔ اسرائیل کے اس انسانیت سوز ظلم نے تو شیطان کو بھی شرما دیا ہوگا۔ ناجائز اسرائیلی ریاست کی فوج اس قدر ذہنی بیمار، گھٹیا، بے حس اور اخبث ہے کہ نہتے شہریوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتے، معصوم بچوں کے سینوں میں گولیاں اتارتے، کس بے شرمی اور ڈھٹائی سے ویڈیو بھی بناتی ہے اور سوشل میڈیا پر اپلوڈ بھی کرتی ہے۔ جبکہ مجاہدین کا سامنا کر کے ان سے دو بدو لڑائی سے ان کی روح تک کانپ جاتی ہے۔ عام شہریوں کے مکانات، سکول و ہسپتالوں کو بموں سے اڑا کر اس بے شرمی سے جشن مناتے ہیں، لیکن جب ملک الموت کی پکار آتی ہے تو وہاں سے ایسے دوڑ لگاتے ہیں کہ شاید موت سے بھاگ جائیں گے۔

فلسطینی مسلمان گھر بار، خاندان اور زندگیاں تک کھو دینے کے بعد بھی جس ہمت اور عزم سے ڈٹے ہوئے ہیں اسے دیکھ کر ہماری اور سارے دنیا کے مسلمانوں کی گردنیں اپنے حال پر شرم سے جھک گئی ہیں۔ مغربی کنارے اور بیت المقدس کے علاقوں میں درندہ صفت اسرائیلی فوج کے تحفظ میں انتہا پسند یہودی آباد کار مسلمانوں کو ان کے گھروں اور املاک سے زبردستی نکال کر ان کے گھروں کو نذر آتش کر رہے ہیں، ان کی جائیدادوں اور املاک پر قبضہ کر رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو فلسطینی ہر طرف سے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ایسے میں پریس، الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر انسانیت کا درد رکھنے والے آواز اٹھا رہے ہیں۔ جن میں سے پاکستان سے ایک کالم کا اقتباس یہاں پیش کیا جا رہاہے۔

لہولہان غزہ اور بے حس مسلمان | بشریٰ نسیم

’’عالمی عدالت نے رواں برس جنوری میں اسرائیل کو غزہ میں شہریوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن اسرائیل نے حکم کی تعمیل نہیں کی۔ حالیہ قرارداد کی منظوری کے باوجود اسرائیلی جارحیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیلی طیاروں نے خان یونس میں فلسطینیوں کے خیموں پر بم گرائے جبکہ اسرائیلی فوجیوں نے نصیر ہسپتال کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے جہاں مریضوں کو مسلسل فائرنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ غزہ کے الشفاء ہسپتال پر حملے کے دوران غاصب صہیونی فوجیوں نے فلسطینی خواتین کی عصمت دری کی اور پھر انہیں قتل کر دیا۔ غاصب اور وحشی صہیونی فوجیوں نے کئی خاندانوں کو پوری طرح سے ختم کر دیا اور پھر ان کی لاشیں جلا دیں۔ ہسپتال، تعلیمی ادارے، رہائشی علاقے سب کچھ تہس نہس کر دینے کے بعد بھی اس کی بربریت میں کمی نہیں آئی۔ جو تمام عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ غزہ میدان جنگ بنا ہوا ہے اور اس کی بچی کھچی آبادی دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں روز و شب گزارنے پر مجبور ہے۔ یہاں فوری طور پر مکمل جنگ بندی نافذ ہونی چاہیے تاکہ اہل غزہ کو امدادی سامان میسر آ سکے۔ خطے کا ۶۰ فیصد ڈھانچہ تباہ ہو گیا۔ یہ جنگ غزہ کی ۲۴ لاکھ آبادی کی تباہی اور بربادی کا باعث بن رہی ہے۔ اگر اتنی بربادی کے باوجود عالمی برادری اسرائیل کو روکنے میں ناکام ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس برادری کو انسانیت عزیز نہیں۔ وہ دنیا جسے غزہ کے بچوں کی فکر نہیں، خوراک کی کمی اور غذائی قلت سے بچے شہید ہو رہے ہیں۔ایک عشاریہ سات ملین فلسطینی یعنی غزہ کی آبادی کا ۷۵ فیصد قحط کے خطرے سے دوچار ہیں اور اسرائیل کی جانب سے غزائی قلت کو غزہ میں جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ صہیونی ہٹ دھرمی، شیطانیت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ غزہ کو تباہ کرنے کے لیے دو ایٹم بموں کے برابر ۲۵ ہزار ٹن بارود استعمال کیا جا چکا ہے۔اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کی کارروائیوں کا ارتکاب کیا ہے۔ گرفتار شدہ فلسطینیوں کو بھی شدید جسمانی و ذہنی نقصان پہنچایا گیا۔ ان کے خلاف جان بوجھ کر ایسے اقدامات کیے گئے جن سے بچوں کی پیدائش رک جائے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ قرارداد پر عمل کرتے ہوئے جلد از جلد جنگ بندی کی جائے اور دنیا کی بڑی طاقتیں بالخصوص امت مسلمہ یکجا ہو کر اس کا دیرپا اور پائیدار حل تلاش کریں۔‘‘

[روزنامہ نئی بات]

فلسطین | غزہ کی اجتماعی قبریں

غزہ کے الشفاء میڈیکل کمپلیکس اور خان یونس کے نصیر ہسپتال کے گردو نواح سے چند روز قبل اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں۔ ان علاقوں سے اسرائیلی فوج کے انخلاء کے بعد فلسطینی ایمرجنسی ٹیموں نے ان اجتماعی قبروں سے تقریباً ۴۰۰ کے قریب لاشیں نکالی ہیں۔ جن میں سے کچھ کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے، کچھ کے اعضاء غائب اور مسخ شدہ اور تشدد زدہ ہیں۔ جبکہ بعض لوگوں کو زندہ دفنانے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ اس متعلق اقوام متحدہ نے آزادانہ تحقیق کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ جنگ کے اصول و قواعد میں ہسپتالوں کو استثنیٰ حاصل ہوتا ہے لیکن اسرائیل کے جنگی جرائم نے ہسپتالوں اور وہاں موجود مریضوں تک کو نہیں چھوڑا۔ یہ ایسا خوفناک واقعہ ہے جو طاقتوروں کا ضمیر جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔

الجزیرہ کے ایک صحافی سومدیپ سن اسرائیل کو رسمی طور پر ایک بدمعاش (Rogue) ریاست قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

It’s time to declare Israel a rogue state | Somdeep Sen

’’ایک اور دن، غزہ میں ایک اور سانحہ۔ وقت تحریر امدادی کارکن جنوبی غزہ کے شہر رفح کی ایک رہائشی عمارت پر اسرائیلی فضائی حملے کے بعد ملبے سے لاشیں نکال رہے تھے۔ دریں اثنا، کچھ میل دور خان یونس میں، نصیر ہسپتال کی زمین پر موجود اجتماعی قبروں سے لاشیں کھود کر نکالنے کا تکلیف دہ عمل جاری ہے۔ فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداد چونتیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور غزہ میں گیارہ لاکھ افراد خوراک کی قلت کی تباہ کن صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔

……اپنے قریبی ترین شراکت دار اور محافظ امریکہ سمیت پوری دنیا کی جانب سے احتیاط کرنے کے مطالبات کو نظر انداز کرتے ہوئے، اسرائیل رفح میں ایک مہنگا زمینی آپریشن کرنے پر پرعزم ہے، جہاں لاکھوں شہری پناہ گزین ہیں۔ مبصرین اور سیاسی شخصیات اعلان کر رہی ہیں کہ اسرائیل ایک بوجھ بن چکا ہے اور اس کے رہنما گمراہ ہو چکے ہیں۔

کیا اب بھی اسرائیل کو ’بدمعاش‘ (Rogue) ریاست قرار دینے کا وقت نہیں آیا؟

……میدان جنگ میں اسرائیل کے ہتھکنڈوں کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیلی فورسز غز ہ میں طبی مراکز کو نشانہ بنانے پر مصر رہی ہیں۔ پوری مہم کے دوران، اسرائیل نے طبی مراکز پر ۹۰۰ سے زائد حملے کیے ہیں، جس میں طبی عملے کے کم از کم ۷۰۰ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اس وقت غزہ کی پٹی میں ۳۶ ہسپتالوں میں سے صرف ۱۰ جزوی طور پر فعال ہیں۔

اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ غزہ میں ہسپتالوں کو حماس فوجی اڈوں کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ یہ اسرائیل کی جانب سے محصور علاقے میں سب سے بڑے اور جدید ترین طبی مرکز الشفاء ہسپتال کے محاصرے کا رسمی جواز تھا۔

جب اسرائیلی فورسز نے بالآخر کمپلیکس سے انخلاء کیا تو عینی شاہدین نے ، کوّوں کے کھائے ہوئے انسانی سر، ناقابل شناخت اور گلے سڑے جسمانی اعضاء اورسینکڑوں لاشوں کا ڈھیر لگا کر انہیں اجتماعی قبروں میں دفن کرنے کے رونگٹے کھڑے کر دینے والے مناظر بیان کیے۔‘‘

[Al Jazeera English]

فلسطین | امریکی یونیورسٹیوں کے طلبہ کی فلسطین کے حق میں تحریک

اسرائیل کے فلسطینیوں پر جاری ظلم کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں ایک اہم آواز امریکی یونیورسٹیوں کے طلباء کی فلسطین کے حق میں اٹھنے والی تحریک ہے۔ جس نے نیتن یاہو کو خوف میں مبتلاء کر دیا ہے۔ اس متعلق اس کا کہنا ہے کہ:’’امریکی جامعات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ خوفناک ہے۔ یہود مخالف anti-Semitic ہجوموں نے جامعات پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہود مخالف anti-Semitic ہجوم اسرائیل کے خاتمے کا مطالبہ کرر ہے ہیں اور ہجوم یہودی طلباء اور فیکیلٹیوں پر حملے کر رہے ہیں۔ اس سلسلے کو روکنا ہو گا۔ امریکی جامعات کے کئی صدور کا ردعمل شرمناک ہے۔‘‘

میڈیا کے مطابق امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی میں پچھلے چند ہفتوں سے جاری اسرائیل مخالف اور فلسطینیوں کے حق میں تحریک میں طلباء نے خیمے لگا کر احتجاج شروع کیا تھا۔ جس کی شہرت کے سبب یہ احتجاجی تحریک امریکہ کی دیگر یونیورسٹیوں نیو یارک یونیورسٹی(NYU)، ٹیکساس یونیورسٹی، کیلی فورنیا یونیورسٹی، سٹین فورڈ یونیورسٹی سے ہوتی ہوئی یورپ میں بھی پھیل گئی۔ ہارورڈ یونیورسٹی اور الینوائے کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی اور بوسٹن کے ایمرسٹن کالج میں بھی مختلف احتجاجی مظاہرے ہوئے ، خیمے لگائے گئے، فلسطینی کیفیہ پہنا گیا اور دھرنے دیے گئے۔ جس پر بہت سے طلباء کو گرفتار اور بہت سی جامعات میں کلاسز معطل کر دی گئیں۔

فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے یہ مظاہرے امریکہ اور یورپ کے بعد اب آسٹریلیا کی یونیورسٹیوں تک پھیل چکے ہیں۔

اس حوالے سے سٹین فورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ پالمبو لیو (David Palumbo-Liu) لکھتے ہیں:

How Gaza is changing US campuses | David Palumbo-Liu

’’غزہ میں نسل کشی کے ان پر جو ذاتی سطح پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اس سے درکنار، امریکی کالجوں کے طلباء فلسطینیوں کے لیے تاریخی طور پر بے مثال یکجہتی، ہمدردی اور پرواہ کا اظہار کر رہے ہیں اور اس بات پر غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں کہ امریکہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی تاریخی نسل کشی کا سہولت کار بنا ہوا ہے۔

……اگرچہ یقینی طور پر پیش گوئی کرنا مشکل ہے کہ یونیورسٹیوں کے کیمپس میں ان تحریکات کا وسیع تر قومی سیاسی منظر نامے پر کوئی اثر پڑے گا یا نہیں، لیکن میرے خیال میں اتنا کہا جا سکتا ہے کہ : کیمپسوں میں ان میں سے ہر ایک اقدام نے نہ صرف مقامی برادری کی توجہ مبذول کروائی ہے بلکہ ان کو اپنے ساتھ شریک بھی کیا ہے۔

اور باہر کی یہ برادریاں نہ صرف افراد پر مشتمل ہیں، اس میں سیاسی تبدیلی پر مجبور کرنے والی یونینز، چرچ گروپس، اور سول سوسائٹی گروپس بھی شامل ہیں۔ اس وقت ۱۰۰ سے زیادہ میونسپلٹیوں نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے ، اور یہی کام کانگریس کے تقریباً ۸۵ ارکان نے بھی کیا ہے۔ اگرچہ تبدیلی آ رہی ہے، لیکن یہ بہت سست روی سے آ رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ اگلے مہینوں میں فلسطینیوں کے حقوق کی خاطر طلبہ سرگرمیوں میں کوئی کمی یا خاتمہ نظر نہیں آئے گا۔‘‘

[Al Jazeera]

جہاں مغربی ممالک کے طلباء آواز اٹھا رہے ہیں، ہمارے مسلمان ممالک کے طلباء اور عرب ممالک کے طلباء اس طرح کی تحریک کیوں نہیں اٹھا رہے؟ بحثیت مسلمان ہمیں ان سے بڑھ کر آواز اٹھانی چاہیے۔ مڈل ایسٹ مانیٹر میں علی انوزلا (Ali Anouzla) بھی یہی سوال پوچھ رہے ہیں:

Where is the voice of the Arab student movements? | David Palumbo-Liu

’’دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں ہر روز اس نسل کشی کی مذمت میں آوازیں اٹھ رہی ہیں جو اسرائیل غزہ میں پچھلے ۲۰۰ سے زائد دنوں سے کر رہا ہے۔ یونیورسٹیوں کا ایک عالمی بلاک بنتا جا رہا ہے، جس سے دنیا کی سب سے بڑی عالمی طلباء تحریک پیدا ہو رہی ہے۔ بالکل ویسی ہی جیسی دنیا نے ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کی دہائیوں میں دیکھی جس کی وجہ سے الجزائر اور ویت نام کی جنگیں رک گئیں۔

……جبکہ ہم اپنے عرب خطے کی یونیورسٹیوں کے ضمیر کے بیدار ہونے کے منتظر ہیں، غزہ میں جاری مجرمانہ جنگ نے بہت سوں کو، حتیٰ کہ ان کو بھی جو اس خطے اور اس مسئلے سے بہت دور رہتے ہیں، ایک گہرے اخلاقی بحران سے دوچار کر دیا ہے، اور اگر دنیا نے ان آوازوں کا جواب نہیں دیا جو اس سانحے کے خاتمے کے لیے اٹھ رہی ہیں، تو اس بحران کے خوفناک اخلاقی اثرات ہوں گے اور ان اقدار پر مبنی ، جن کو آج ہم اپنی آنکھوں کے سامنے ٹوٹتا دیکھ رہے ہیں جبکہ کوئی بھی عمل نہیں کر رہا، انسانی بقائے باہمی کے مستقبل کے لیے تباہ کن نتائج نکلیں گے۔‘‘

[Middle East Monitor]

فلسطین | رفح: اسرائیل کا اگلا ہدف

اسرائیل کا غزہ میں اگلا ہدف رفح پر حملہ کرنا ہے، جس کا وہ پچھلے ایک ماہ سے اعلان کر رہا ہے۔ لیکن رفح غزہ کا ایک انتہائی گنجان آباد علاقہ ہے جہاں تقریباً تین لاکھ شہری رہائش پزیر ہیں اور ان سمیت باقی ماندہ علاقوں سے آنے والے ۱۴ لاکھ پناہ گزین بھی موجود ہیں ۔ ایسے میں امریکہ اور مغربی ممالک اسرائیل سے رفح پر حملہ نہ کرنے کی ’’درخواست‘‘ کر رہے ہیں۔ لیکن اسرائیل اپنے جنگی جنون کے نشے میں بدمست ہے اور وہ رفح پر حملے کے لیے پر تول رہا ہے اور ساتھ میں روزانہ کے حساب سے رفح پر بمباری بھی کر رہا ہے۔ مڈل ایسٹ مانیٹر میں معتصم الضلول لکھتے ہیں:

Will Netanyahu win the battle of Rafah? | Motasem A Dalloul

’’دسیوں اسرائیلی مصنفین، عسکری و اسٹریٹیجک ماہرین نے نیتن یاہو کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے بھاری قیمت ادا کرتے ہوئے فلسطینی مذاحمت کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کریں کیونکہ یہ اس مقصد کے حصول کا واحد راستہ ہے۔

اسرائیل میں اندرونی پیچیدگیوں سے قطع نظر، جو نیتن یاہو کو جیل بھیج سکتی ہیں، نیتن یاہو ایک اسرائیلی رہنما کے طور پر اپنی بدمعاش ریاست کے لیے فتح حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے لیکن اسے ابھی تک سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ کیسے ہو گا۔

اس کا تکبر اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ اندرونی یا بیرونی اتحادیوں ، حتیٰ کہ اس کے سرپرستوں، امریکی صدر، اعلیٰ حکام اور کانگریس کے ارکان کی بھی کسی نصیحت پر کان نہ دھرے۔ وہ تو اپنے عسکری مشیروں کی بھی نہیں سن رہا، بشمول شباک اور موساد کے سربراہوں کے، جو فلسطینی مذاحمتی تحریک کے ساتھ مذاکرات کی قیادت کر تے ہیں۔

جہاں تک فلسطینی مذاحمتی تحریک کی بات ہے، تو چاہے نیتن یاہو رفح کی جانب پیش قدمی کرے یا نہ کرے، وہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے اپنی شرائط میں تبدیلی نہیں لائے گی۔

بلاشبہ فلسطینی مذاحمتی تحریک کم تر انسانی نقصان کو ترجیح دیتی ہے، خاص طور پر جب بد کردار اسرائیلی فوج بڑی تعداد میں عام شہریوں پر حملہ کرتے ہیں، لیکن اس کا کہنا ہے کہ ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں کو اسرائیل کی جیلوں سے رہائی کا حق حاصل ہے اور غزہ کے چوبیس لاکھ افراد جو ایک کھلی جیل میں اٹھارہ سال سے زندگی گزار رہے ہیں انہیں بھی آزادی کا حق حاصل ہے۔

لہذا، ایک ضدی اور جائز فلسطینی مذاحمتی تحریک کا سامنا کرتے ہوئے، چاہے نیتن یاہو رفح پیش قدمی کرے یا نہ کرے، وہ اپنی پسندیدہ فتح حاصل نہیں کر پائے گا۔ اس کے علاوہ فلسطینی مذاحمتی تحریک کی عالمی حمایت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور نتین یاہو اور اس کے جرائم کے خلاف غصہ بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ‘‘

[Middle East Monitor]

فلسطین | اختتامیہ

اسرائیل دراصل رفح پر ایک بڑا زمینی حملہ کر کے وہاں کے مسلمانوں کو مصر کی جانب دکھیلنا چاہ رہا ہے تاکہ غزہ کے مسلمان اپنی سرزمین سے دستبردار ہو کر مصر میں پناہ لے لیں اور اسرائیل پورے غزہ پر یہودیوں کی نئی آبادکاریاں کر لے۔ غزہ میں آبادکاری کا منصوبہ پہلے ہی میڈیا پر آ چکا ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے اسرائیل کو سبق سکھانے کے لیے کسی بڑے اقدام کی اشد ضرورت ہے۔ امت کا درد رکھنے والے مسلمان بائیکاٹ اور مختلف پلیٹ فارمز سے آواز تو اٹھا رہے ہیں، امداد بھی اکٹھی کر رہے ہیں، لیکن یہ سب کچھ نقار خانہ میں طوطی کی آواز کی مانند ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر طبقۂ زندگی سے تحریکیں اٹھیں اور اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالیں۔ فلسطین کے ہمسایہ عرب ممالک ہی اگر اٹھ کھڑے ہوں تو اسرائیل کو سبق سکھانا کچھ مشکل نہ ہو۔ ہمارا قبلۂ اوّل خطرے میں ہے۔ قبلۂ اوّل کی حفاظت کی غرض سے ہی امت کو اٹھنا ہو گا۔ کیونکہ یہی وقت ہے۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

٭٭٭٭٭

Previous Post

اِک نظر اِدھر بھی | اپریل و مئی 2024

Next Post

زيارتِ مقامِ شوق: بالاکوٹ

Related Posts

علاجے نیست
عالمی منظر نامہ

علاجے نیست

17 اگست 2025
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے!
عالمی منظر نامہ

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے!

17 اگست 2025
اخباری کالموں کا جائزہ | اگست ۲۰۲۵ء
عالمی منظر نامہ

اخباری کالموں کا جائزہ | اگست ۲۰۲۵ء

16 اگست 2025
خیالات کا ماہنامچہ | جولائی ۲۰۲۵ء
عالمی منظر نامہ

خیالات کا ماہنامچہ | اگست ۲۰۲۵ء

14 اگست 2025
اسرائیل اور امریکہ میں شیطان پرستی اور بچوں کا قتل
عالمی منظر نامہ

اسرائیل اور امریکہ میں شیطان پرستی اور بچوں کا قتل

14 جولائی 2025
اخباری کالموں کا جائزہ | جولائی ۲۰۲۵ء
عالمی منظر نامہ

اخباری کالموں کا جائزہ | جولائی ۲۰۲۵ء

13 جولائی 2025
Next Post
زيارتِ مقامِ شوق: بالاکوٹ

زيارتِ مقامِ شوق: بالاکوٹ

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version