نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ

زيارتِ مقامِ شوق: بالاکوٹ

سفر نامہ

معین الدین شامی by معین الدین شامی
31 مئی 2024
in تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ, اپریل و مئی 2024
0

اگر اس دنیا میں کچھ مقاماتِ شوق ہیں، جنہیں دیکھا جائے تو وہ کیا ہیں؟ قصر الحمراء ،تاج محل، یا کچھ اور؟ بلا شبہ قصر الحمراء ہو یا تاج محل یہ مسلمانوں کے زمانۂ عروج کی ظاہری نشانیاں ہیں۔ لیکن یہ نشانیاں جس عروج کی ہیں اس عروج سے پہلے کے مراحل جہاں طے ہوتے ہیں، فی الحقیقت وہ مقامات ہی مقاماتِ شوق کہلانے کے مستحق ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ غرناطہ و اشبیلیہ اور قرطبہ و وادی الکبیر دیکھنے کا اشتیاق ہمارے قلب و نظر کو نہیں، بلکہ زمانۂ بچپن ہی سے ہمارا قلب، غمِ اندلس میں روتا رہا ہے اور تاج محل کو دیکھنے کی خواہش بھی کم از کم دو دہائیوں سے ہے، جب سے ہم نے اپنے والدِ ماجد سے تاج محل کا چشم دید احوال سنا۔ لیکن اسی کے ساتھ کیفیتِ قلب یہ تھی کہ مجھے بہت سے دیگر نیاز مندوں کی طرح تاج محل سے زیادہ سلطان فتح علی ٹیپو رحمۃ اللہ علیہ کا مزار دیکھنے کا شوق تھا اور ہے۔ اسی طرح جب اپنے نانا ابا مرحوم سے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے زیارتِ مزار کا ذکر سنا تو میں اپنے شعورِ شوق میں اس زیارتِ مزار میں بھی ان کے ساتھ تھا۔

بہر کیف، آٹھ سال قبل موسمِ گرما میں، میں اپنے شہرِ وطن سے قلبِ برِّ صغیر، شہرِ زندہ دِلان، لاہور بذریعہ مسافر بس پہنچا۔ لاہور میں پہلی منزل ایک عالمِ دین ساتھی کا گھر تھی۔ مولوی صاحب کے گھر پہنچا تو رات ہو چکی تھی۔ جن مجاہد دوستوں کے ساتھ بالاکوٹ جانے کا ارادہ تھا وہ ابھی تک طے کردہ، مولوی صاحب کی جگہ پر نہیں پہنچے تھے۔ غالباً ساڑھے دس بج چکے تھے، پھر سفر اور گرمی نے تھکا دیا تھا، سو نماز پڑھ کر اور انسدادِ گرمی میں نہا کر سو گیا۔ علی الصباح مولوی صاحب نے نماز کے لیے جگایا۔ نماز پڑھ کر بیٹھا تھا کہ قریشی صاحب آ گئے۔ قریشی صاحب کی آمد کے بعد ہم اپنے چوتھے رفیقِ سفر میاں صاحب کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔

دن چڑھے میاں صاحب کو لیا اور مقامِ شوق کی طرف چل پڑے۔ لاہور سے بالاکوٹ تک کا ہمارا بیشتر سفر بذریعہ ’نیشنل ہائی وے نمبر ۵‘ تھا جسے عرف میں ہمارے یہاں جی ٹی روڈ کہتے ہیں۔ لاہور سے ہم موٹر وے (M2) پر چڑھے اور کالا شاہ کاکو سے اتر کر جی ٹی روڈ پر گوجرانوالہ کی جانب روانہ ہو گئے۔ کالا شاہ کاکو سے بیسیوں بار گزرنا ہوا ہے اور شاذ ہی ایسا ہوا ہو گا کہ وہاں سے گزرتے ہوئے اپنے بعض شہید ساتھی یاد نہ آتے ہوں، جن میں سرِ فہرست فیصل آباد کے بھائی فیصل ہیں، جو مجاہدین میں فرقان کے نام سے معروف تھے۔ فرقان بھائی نے قریباً تین چار سال ارضِ ہجرت میں گزارے جہاں وہ برقیات(الیکڑانکس) اور توزیع (دعوتی مواد کی تقسیم)کے شعبوں سے وابستہ رہے۔ فیصل آباد میں بھی آپ کی دعوتی سرگرمیاں معروف ہیں اور آج تک ان کی محنتیں اس شہر اور اطراف میں برگ و گل بحمد اللہ کھِلا رہی ہیں۔

سال ۲۰۱۵ء میں فرنٹ لائن اتحادی فوج کی ملٹری انٹیلی جنس کے کالا شاہ کاکو میں ایک چھاپے میں فرقان بھائی دیگر ساتھیوں سمیت مقامِ شہادت پر فائز ہوئے اور دس سے زائد فرنٹ لائن اتحادی بھی اگلے جہان میں اسی خانے میں داخل ہو گئے جس میں ان کے آقا جاتے ہیں۔

قریباً ایک گھنٹہ مزید سفر کرنے کے بعد، ہم بابِ وزیر آباد سے گزر کر وزیر آباد شہر کی طرف جا رہے تھے۔ جی ٹی روڈ سے چند کلومیٹر دور ہی وزیر آباد کا قصبہ ساروکی ہے جو شہیدِ ناموسِ رسالت غازی عامر چیمہؒ شہید کا آبائی وطن اور حالیہ مسکن ہے ۔ یوں تو کوئی دور نہ ایسا گزرا ہے نہ ایسا آئے گا کہ جس میں عاشقانِ ناموسِ رسالت کی اہمیت کم ہو، لیکن جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں یہ دور اپنی اہمیت میں یکتا ہے۔ شیخ انور العولقی شہید رحمۃ اللہ علیہ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’ہمیں آج صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسی سعادت حاصل کرنے کا موقع میسر ہے، جیسے صحابہ نے دین کی عمارت کی تعمیر بالکل بنیاد سے کی تھی آج اقامتِ دین کی تعمیر کو بالکل بنیاد سے کرنے کا موقع ہمیں حاصل ہے، پس ایسے میں اس خدمت میں اپنے آپ کو لگانا باقی سب زمانوں سے زیادہ افضل ہے اور کم عمل سے زیادہ اجر کمانے کا موقع ہمیں میسر ہے‘۔ اسی طرح کا معاملہ آج ناموسِ رسالت کے مسئلے میں بھی ہے۔ کفار کی افضل الخلائق علیہ الصلاۃ والسلام کے متعلق دریدہ دہنی بے شک سورج کی طرف منہ کر کے تھوکنے کے مترادف ہے لیکن جن مونہوں سے یہ جھاگ نکلے تو ان مونہوں پر اپنی تلواروں اور بندوقوں سے مارنا افضل الاعمال میں سے ہے جس پر قرآن و حدیث شاہد ہیں۔ جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو اسرائیل اپنی پوری قوت کے ساتھ غزہ و رفح کو ملیامیٹ کر رہا ہے اور ساتھ ہی اسرائیل کے بعض چوراہوں پر کچھ بد اصل یہودی ناچتے اور گاتے نظر آ رہے ہیں جو حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کر رہے ہیں۔ پس آج اسرائیل سے جنگ مسلمانوں کے دفاع، فلسطین کی آزادی اور مسجدِ اقصیٰ کی خاطر ہی نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی جنگ بھی ہے۔ امام ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی وہ بات مشہور ہے کہ جس میں انہوں نے فرمایا کہ ’جب ہم سے دورانِ جنگ دشمن کا کوئی قلعہ فتح نہ ہو رہا ہوتا تھا تو ایسے میں ہم سنتے تھے کہ اہلِ قلعہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ہے۔ اگرچہ یہ امر جان کر ہمیں بہت صدمہ ہوتا تھا لیکن ساتھ ہی ہمیں اس بات کا یقین ہو جاتا تھا کہ اب کفار کو یقیناً شکست ہو گی ‘1۔پس یہی آج ارضِ فلسطین میں جاری جنگ میں بھی ہورہا ہے۔ جہاں اس گستاخی سے ہمارے کلیجے کٹتے اور خون کھولتا ہے تو ساتھ ہی اس میں ہم فتح و ظفر کی بشارت بھی پاتے ہیں۔ لیکن فتح و ظفر کی بشارت تو ان کے لیے ہے جو اس جنگ میں کسی نہ کسی صورت میں شریک ہوں، جہاد و قتال کی استطاعت نہ ہو، تو بیان و دعوت سے لڑیں وہ بھی نہ ہو تو صہیونی مصنوعات کا مقاطعہ (بائیکاٹ) کریں، کچھ نہ پائیں تو مظاہرے و جلوس میں شرکت کریں، اللہ کے سامنے گڑ گڑائیں اس امر پر کہ ہم اس لشکر میں شامل نہیں ہو سکتے، یہ رونا اس لیے نہ ہو کہ گویا ہمارے آنسو ان مجاہدوں کے خون کے برابر ہیں یا ہمارا مظاہروں اور جلوسوں میں چلنا ان مرابط مجاہدوں جیسا ہے جو صفِ اول میں دشمن سے معرکہ آ را ہیں، بلکہ یہ رونا اس لیے ہو کہ ہم ان کے میدان میں دست و بازو نہ بن سکے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اگر کسی عذر کے سبب میدانِ جنگ سے پیچھے رہ جاتے تو رو رو کر ان کے کلیجے منہ کو آ جاتے تھے۔

ساروکی سے گزرنے کے بعد ہم وزیر آباد کے ریلوے جنکشن کے ساتھ تعمیر شدہ فلائی اوور سے گزر رہے تھے جب میاں صاحب کہنے لگے کہ ’سیّد احمد شہید کی جماعتِ مجاہدین کے اموال کی ترسیل بذریعہ وزیر آباد ہوا کرتی تھی۔ حالانکہ وزیر آباد سکھوں کا گڑھ تھا۔ لیکن سیّد صاحب کے ساتھیوں کی امنیت (اہتمامِ حفاظت) بفضل اللہ، اتنی اچھی تھی کہ ان کے راز افشا نہ ہوئے‘۔ مقصدِ سفر چونکہ محض تفریح نہ تھا، بلکہ حضرت امیر المومنین، سیّد احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ سے نسبت تھا، سو راستے میں عموماً حضرت سیّد بادشاہ کا ذکر ہوتا رہا۔

بات آگے چلی کہ ابتداءً تو سیّد صاحب کے ساتھیوں کا ’طریقِ ہجرت‘ وہی تھا جو خود سیّد صاحب نے اختیار کیا تھا، یعنی یو پی سے راجستھان، پھر سندھ و بلوچستان، پھر قندھار، غزنی، کابل اور پھر علاقۂ سرحد۔ لیکن بعداً جو مہاجر مجاہدین آتے رہے وہ یو پی سے براستہ پنجاب، علاقۂ سرحد میں داخل ہوتے جو آدھے سے بھی کم مسافت تھی۔ ہاں یہاں حفاظت کا اہتمام خوب زیادہ کرنا پڑتا تھا اور کبھی کوئی حادثہ بھی پیش نہ آیا۔

ہم وزیر آباد سے تو گزر چکے تھے، لیکن ہماری گفتگو اس موضوع پر کچھ دیر جاری رہی۔ یاد آیا کہ خود سیّد صاحب نے جب پشاور کے خائن خوانین کو ایک بار مخاطب کیا تو ان سے یہی کہا تھا کہ تم کیسے مسلمان ہو کہ ہمارے ہندوستانی مہاجر بھائی، سکھوں کے علاقے سے تو بخیر و عافیت گزر آتے ہیں لیکن تمہارے علاقے میں داخل ہوتے ہیں تو لُوٹ لیے جاتے ہیں، بے عزت کیے جاتے ہیں۔ بعض مہاجرین کو تو ان خائنین نے پکڑ کر دریائے سندھ میں ڈبکیاں بھی لگوائیں ، پگڑیاں چھین لیں اور نہایت ذلیل کیا2۔ کتابوں میں پڑھی اسی یاد کے ساتھ خیال آیا کہ منافق کردار ہمیشہ ایسے ہی رہے ہیں اور آج بھی ان کا یہی طرزِ عمل ہے۔ امارتِ اسلامیہ افغانستان کے ۲۰۰۱ء کے اواخر میں سقوط کے بعد مہاجر مجاہدینِ عرب و عجم جب آج کے پاکستان میں داخل ہوئے تو پرویز مشرف کے اپنے اعتراف کے مطابق اس نے ساڑھے چھ سو سے زائد عرب مجاہدین پکڑ کر امریکیوں کے حوالے کیے۔ یہ مہاجر مجاہدین امریکیوں سے تو بچ گئے، لیکن ’مومنوں‘ نے ان کو پکڑ لیا اور کیوبا کے پنجرے ان سے آباد کروانے میں امریکہ کے لیے ’سہولت کاری‘ کی۔ انہوں نے صلے میں ڈالر تو وصول کیے لیکن ’اصل‘ صلہ وہ تھا جو ایک امریکی اخبار نے کارٹون کی صورت میں ’عطا‘ کیا، جس میں افواجِ پاکستان اور انٹیلی جنس اداروں کو ایک کتے کی شکل میں دکھایا گیا، جس نے چوٹی کے ایک عرب مجاہد قائد [شیخ ابو فرج اللیبی(فک اللہ اسرہ)] کو اپنے جبڑوں میں دبوچا ہوا ہے اور امریکی فوجی آقا کو پیش کر رہا ہے اور امریکی آقا کتے سے کہتا ہے کہ ’شاباش! اب جا کر اسامہ بن لادن کو تلاش کرو!‘، [بعد میں (امریکیوں کی منظر کشی کے مطابق یہی ’بے وفا کلبِ زر خرید ‘)شیخ اسامہ بن لادن کی بُو سونگھنے میں کامیاب ہو گیا اور ان کا بھی سودا کیا]۔

علاقۂ سرحد کے خائن خوانین کا حشر بھی، سیّد صاحب سے خیانت کے بعد اس سے کچھ مختلف نہیں ہوا تھا۔ بلکہ انہوں نے نہایت ذلت کے ساتھ رنجیت سنگھ کو خراج دینا منظور کیا اور تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ خائن لوگوں کی عورتوں کو سکھ اٹھا کر لاہور لے گئے اور بعد میں یہ عورتیں پنجاب کے بازاروں میں ’زنانِ بازاری‘ بن گئیں، جن کی اولادیں نجانے آج تک کتنی ناپاکیاں لاہور و ملتان کے بازاروں میں ڈھو رہی ہیں، حسبنا اللہ و نعم الوکیل۔ ظاہر ہے کہ ان عورتوں کا تو کچھ قصور نہیں تھا، لیکن قصور ان بد بختوں کا تھا جنہوں نے اپنی ’روایات و قوانین‘ کو شریعت پر ترجیح دے کر اور رنجیت سنگھ کا ’فرنٹ لائن اتحادی‘ بن کر سیّد بادشاہ کے ساتھ خیانت کی تھی۔ آج کے خائنوں کو بھی اس سے عبرت حاصل کرنا چاہیے۔

میرے ذہن کی سکرین پر وہ واقعہ بھی ساتھ ہی گھوم گیا جب آج سے ایک دہائی یا کچھ زیادہ قبل آسٹریلیا سے ایک مسلمان خاتون ’اُمِّ عمر‘، حفاظتِ ایمان کی خاطر اپنے بچوں سمیت مہاجر ہو کر یمن کے شہر صنعاء میں آ کر بسی۔ امریکی تربیت یافتہ اور سعودی نمک خوار یمنی فوج نے اس خاتون کے گھر چھاپہ مار کر اس کو اٹھا لیا۔ یہ اللہ والی ’آسٹریلوی–یمنی عافیہ صدیقی ‘کہنے لگی کہ ’بھائیو! تم میرے ساتھ کیا کر رہے ہو؟ تم جانتے ہو کہ میں ایک عورت ہوں۔ میں اللہ کے لیے ہجرت کر کے یمن آئی ہوں۔ اور تم تو میرے ’’انصار‘‘ (مددگار)ہو؟!‘۔ جواباً یمنی فوج کے کلمہ گو افسر نے کہا’ إنّنا نصاریٰ ولسنا اأنصاراً!، ہم تمہارے انصار نہیں ہیں، بلکہ ہم نصاریٰ یعنی صلیبی ہیں!)‘۔

ذہن و نظر کی جب سڑک پر واپسی ہوئی تو جی ٹی روڈ کے بعض مقامات کو دیکھ کر ماضی کے تصور میں پہنچ گیا ۔ سلطانِ عادل، محی الدین محمد اورنگ زیب عالمگیر ؒ کا جہادی جنگی تزویراتی اہمیت کے پیشِ نظر دریائے جہلم کے کنارے، کشمیر و پنجاب کی سرحد پر سلطنتِ اسلامیہ قائم رکھنے کے لیے آباد کردہ ’سرائے عالمگیر‘ جو دراصل بطورِ چھاؤنی بسایا گیا تھا۔ دینہ کے قریب شیر شاہ سوریؒ کا قلعہ روہتاس، جس کا نام شیر شاہ سوری نے صوبۂ بِہار کے قلعہ روہتاس گڑھ کے نام پر رکھا تھا اور قلعہ روہتاس گڑھ شیر شاہ نے کمال دانائی سے فتح کیا تھا، جس کے قصّے کا یہ مقام نہیں۔ سوہاوہ میں شہاب الدین محمد غوریؒ کے مزار کے پاس سے گزر ہوا۔ پھر آج کا روات جو کل شیر شاہ سوریؒ نے بطورِ ’رباط‘ یعنی ’پہرہ گاہ‘ آباد کیا تھا اور وہاں بھی ایک قلعہ تعمیر کیا تھا۔نجانے انہی خیالوں میں کتنا وقت گزر گیا۔ حقیقی خیالوں کی اصلی دنیا سے جب واپسی ہوئی تو ہم راولپنڈی کی مال روڈ پر تھے۔ بسمتِ پشاور جی پی او چوک سے پہلے دائیں ہاتھ پر انگریزوں کا بنایا کلیسا ’سینٹ پال چرچ‘تھا اور بائیں ہاتھ ایسٹ انڈیا کمپنی کا جنرل ہیڈ کوارٹر۔ ہمارا سفر تو جاری تھا لیکن شاید وقت پچھلی کئی صدیوں سے ٹھہرا ہوا تھا، یا وقت تو شاید نہیں ٹھہرا تھا لیکن ، زمانے کے سٹیج پر کردار اب تک ویسے ہی تھے،کسی عالمگیر کے مقابل ہندو راجے، مرہٹے اور اپنا ہی لادین بھائی دارا شکوہ3، کسی غوری کے مقابل پرتھوی راج ،سیّد بادشاہ کے مقابل رنجیت سنگھ اور انیسویں صدی کے ناردرن کمانڈ ہیڈ کوارٹرز راول پنڈی (جو قیامِ پاکستان کے بعد جی ایچ کیو قرار پایا) سے شریعت کا مطالبہ کرتے مجاہدوں کے خلاف جنگ۔

جب ہم لالہ موسیٰ، کھاریاں ،سرائے عالمگیر اور دینہ سے گزر رہے تھے تواستادِ محترم مولوی صاحب نے مشہور صوفی پنجابی شاعر میاں محمد بخش صاحب کے چند اشعار گنگنانا شروع کر دیے۔ مولوی صاحب اپنی پسند کے چند اشعار پڑھتے جاتے اور میاں صاحب ساتھ ساتھ اپنی ہُو لگاتے۔ میاں محمد بخش کے کلام اور ہمارے ساتھی میاں صاحب کی ہُو نے میرے دادا رحمۃ اللہ علیہ اور والدِ ماجد مد ظلہ کی یاد تازہ کر دی کہ یہ دونوں ہی میاں محمد بخش صاحب کے اشعار کے عارف اور میں ان کا اس میں تھوڑا بہت وارث ہوں۔ میاں محمد بخش صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی جائے پیدائش ریاستِ کشمیر کا علاقہ میر پور ہے جو سلطنتِ مغلیہ کے زمانے میں میراں شاہ غازی نے آباد کیا، میاں محمد بخش صاحب کو اہلِ سخن و اہلِ علاقہ ’رومیٔ کشمیر‘ بھی کہتے ہیں۔ میاں محمد بخش صاحب کے چند اشعار یہاں نذرِ قارئین ہیں جن میں پہلا استادِ محترم مولوی صاحب کا پسندیدہ ہے:

درد منداں دے سخن محمد دینڑ گواہی حالوں
جس پلے پھُل بدّھے ہوون آوے باس رومالوں4

قصے ہور کسے دے، اندر درد اپنے کُج ہوون
بِن پیڑوں تاثیراں ناہیں، بے پیڑے کد روون5

کچا رنگ للاری والا چڑھدا لہندا رہندا
عشق تِرے دا رنگ محمد! چڑھیا فیر نہ لہندا6

نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نئیں پایا
کِکر تے انگور چڑھایا تے ہر گچھا زخمایا7

آپ مکانوں خالی، اس تھیں کوئی مکان نہ خالی
ہر ویلے، ہر چیز محمد، رکھدا نت سنبھالی8

رحمت دا مینہ پا خدایا باغ سُکا کر ہَریا
بُوٹا آس امید میری دا کر دے میوے بھریا9

یہ رات کا وقت تھا اور ہمیں اپنی پہلی منزل مانسہرہ پہنچنے کی جلدی تھی۔ سو راستے میں ایک پٹرول پمپ سے پٹرول ڈلوانے اور نمازیں پڑھنے کے سوا کہیں اور نہیں رکے۔ کئی کئی بار میں راستے میں سو بھی گیا اور ہم ٹیکسلا، واہ، ہری پور اور پھر ایبٹ آباد سے ہوتے ہوئے غالباً رات کو دس گیارہ بجے مانسہرہ اپنے ایک پشتون میزبان کے گھر پہنچے۔ قریب میں ایک مہمان خانے میں رات گزاری ، نمازِ فجر کے بعد ایک پر تکلف ناشتہ کیا اور پھر جب دن چڑھا تو قریبی نالے پر نہانے چلے گئے، یہ نالا صاف نالا ہے کوئی اسے اسلام آباد کے نالوں پر قیاس نہ کر لے، جن میں اول تو پانی ہوتا نہیں ہے اور اگر ہوتا ہے تو انتظامیہ کی بد انتظامی کے سبب دہائیوں سے یہ نالے گندے نالے بن گئے ہیں جن میں شہر بھر کی سیوریج کی لائنیں گرائی جاتی ہیں، بہر کیف مقامی لوگ اس کو دریا کہتے ہیں۔ اس علاقے کا نام مجھے اب اتنے سال گزر جانے کے بعد بالکل یاد نہیں ہے۔ لیکن اسی نالے کے ساتھ ایک بڑا میدان بھی ہے ۔ خیر اس میدان کے بارے میں ہمارے پشتون میزبان نے بتایا کہ سیّد صاحب کے ساتھیوں کی یہاں بھی ایک بار سکھوں سے معرکہ آرائی ہوئی تھی۔ میرا اندازہ ہے کہ جنوب کی طرف سکھوں کا لشکر تھا اور شمال مشرق کی طرف سے مجاہدین نے ان پر حملہ کیا اور ان کا سالمین غانمین واپس لوٹنا بہر حال ثابت ہے۔

یہ دن ہم نے مانسہرہ ہی میں گزارا۔ قریب ایک تفریح گاہ تھی، وہاں بھی جانا ہوا ، راستے میں ہم نے ایک حلوائی کی دکان سے جس کا ’کھویا‘ مشہور ہے، خریدا اور میری توقع کے بر خلاف وہ اتنا لذیذ تھا کہ نہ میں نے اس سے پہلے کبھی ایسا کھویا کھایا اور نہ بعد میں۔

شام کو میزبان کے گھر لوٹے۔ انہوں نے پلاؤ، قورمہ، سیخ کباب اور مانسہرہ کے لوگوں کے خاص انداز سے بنائے رائتے سے تواضع کی۔ اس رائتے کی دقیق ترکیب تو مجھے معلوم نہیں لیکن یہ معلوم ہے کہ اس میں اخروٹ کُوٹ کر ڈالا جاتا ہے۔ پہلے پہل اس رائتے کے بارے میں میرا خیال تھا کہ یہ ہمارے میزبان کی خاص پیشکش ہے، لیکن بعد میں کئی اور مانسہریوں سے بھی اور مانسہرہ آنے جانے والوں سے بھی معلوم ہوا کہ ان کا یہ رائتہ مشہور ہے، بہر کیف، کھایا، اللہ کا شکر ادا کیا، میزبان کو دعائیں دیں اور قریبی مہمان خانے سونے کے لیے چلے گئے۔

اگلی صبح ہم بالاکوٹ کے لیے روانہ ہوئے۔ میں قریباً بارہ سال پہلے بھی بالاکوٹ جا چکا ہوں۔ لیکن تب ہمارا اصلی قصد بالاکوٹ نہیں تھا، اس لیے ہم صرف ایک رات بالاکوٹ میں رکے اور علی الصباح وہاں سے کاغان و ناران کی طرف روانہ ہو گئے10، گو کہ اس بار کا قیام بھی صبح سے شام تک ہی تھا، لیکن بالاکوٹ خود مقصد تھا سو اس قیام میں بہت کچھ دیکھنے اور محسوس کرنے کا موقع ملا۔ البتہ بارہ سال پہلے کی رات بھی بالکل خالی نہیں گئی تھی، بلکہ جب میرے تمام رفقائے سفر سو گئے تھے تو میں اکیلا رات گئے کنہار کے کنارے آیا تھا۔ پھر جس مقام پر میں کھڑا تھا وہاں پر کنہار کا عرض تنگ ہو جاتا ہے، یہاں سے کافی دیر تک کنہار کی بپھری موجوں کو دیکھتا رہا تھا۔ دریائے کنہار کی موجیں اس کی دیواروں سے ٹکرا رہی تھیں اور رات کے سناٹے میں ان موجوں کا شور بہت زیادہ تھا۔ میں جب ان اچھلتی، بپھرتی، بل کھاتی، پتھروں کو اپنے ساتھ بہاتی، تند و تیز موجوں کو دیکھ رہا تھا تو میرے ذہن میں وہ تاریخی روایت تھی جس کے مطابق سیّد صاحب کی نعش کو کنہار بہا کر لے گیا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ وہ کیسی موجیں ہوں گی جنہوں نے اپنے زمانے کے مجدد کو اپنے اندر ڈبویا ہو گا اور ان کی نعش کھینچ کر لے گئی ہوں گی۔ بعد میں سیّد صاحب کی نعش ملی یا نہیں، اس پر لائقِ قدر مؤرخین نے لکھا ہے، لیکن اگر ان کی نعش کنہار ہی لے گیا تو وہی مولانا سیّد ابو الحسن علی ندویؒ اور دیگر حضرات کی نقل کردہ بات کہ سیّد صاحب سے کسی نے کہا کہ آپ قبور پرستی کے خلاف دعوت دیتے ہیں اور اس شرک سے لوگوں کو روکتے ہیں، جب آپ فوت ہو جائیں گے تو لوگ آپ کی قبر کا بھی ایسا ہی مزار بنا لیں گے اور قبر پرستوں اور ضعیف الاعتقاد لوگوں کا تانتا آپ کی قبر پر بھی بندھا ہو گا! جواباً سیّد بادشاہ نے فرمایا تھا کہ میں نے اللہ سے دعا کی ہے کہ میری قبر بے نشان ہو اور اس کا کچھ پتہ کسی کو نہ ہو تا کہ میری قبر اس جہالت سے محفوظ رہے۔ اور سیّد صاحب کی دعا قبول ہوئی کہ ایک روایت کے مطابق آپ کی نعش ملی ہی نہیں (جو مقامات آپ کی قبر کے طور پر مشہور ہیں ان کا ذکر آگے آئے گا)۔

میں اس رات، کنہار کو دیکھتا رہا، کنہار کی موجوں کی آواز جسے ہم شور سے تعبیر کر رہے ہیں، شور نہیں ہے، بلکہ ایک پیغام کی ترجمانی ہیں۔ یہ پیغام نفاذِ اسلام کا پیغام ہے، شریعت پر عمل کرتے ہوئے شریعت کی خاطر جینے کا اور پھر شریعت ہی کی خاطر شہادت کو گلے لگانے کا کہ کنہار کے پانی میں تیرہویں صدی ہجری کے بہترین لوگوں کا خون ملا ہے۔ یہ کنہار سیّد بادشاہ کی تحریکِ بر حق کا دنیا میں سب سے بڑا زندہ عینی گواہ ہے، بلکہ اس نے اس تحریک کے پیغام کو اپنے اندر سمو رکھا ہے، بس بصر چاہیے جو اس پیغام کی عبارت کو پڑھے اور وہ سمع چاہیے جو اس پیغام کو سن سکے۔

کبھی لٹا تھا یہاں قافلہ تمنا کا
نظر اِدھر سے اُدھر بار بار پھرتی ہے

وہ جبکہ تیغوں کے سائے میں دورِ جام چلا
نگاہوں میں وہ شبِ یادگار پھرتی ہے

بہر کیف، ہم مانسہرہ سے بالاکوٹ کو روانہ تھے۔ شاید صبح سات ساڑھے سات بجے ہم بالاکوٹ کے مضافات میں پہنچے۔ ناشتہ ایک ڈھابے پر کیا۔ میرے رفقا چائے کے شوقین تھے اور چائے ڈھابے پر یا تو اچھی نہیں تھی یا ملی ہی نہیں تھی، سو مزید آگے چلے اور بالاکوٹ میں پی ٹی ڈی سی موٹل کی طعام گاہ میں بیٹھ کر چائے پی۔ میری نظر میں چائے کا مزا، اس کو محض پینے میں نہیں بلکہ یاروں دوستوں کے ساتھ بیٹھ کرپینے میں ہے جو اکثر میرے لیے ٹھنڈی ہی ہو جاتی ہے، لیکن یادوں اور احساس کی گرمی و حِدّت سالوں برقرار رہتی ہے، جیسے اس بار کی اب تک یاد و احساس میں محفوظ ہے۔

 

دریائے کنہار کا ایک پانوراما (panorama)منظر جسے راقم نے اسی سفر کے دوران محفوظ کیا۔ پس منظر میں بالاکوٹ کے پہاڑ بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

چائے پی کر فارغ ہوئے تو سب سے پہلے ہم معرکۂ بالاکوٹ کے مقام پر پہنچے جس کی کوئی نشانی موجود نہیں ہے، سوائے ان روایات کے، کہ جو سینہ در سینہ چلتی آئی ہیں۔ ہمارے مقامی میزبان ہمیں پہاڑی پگڈنڈیوں پر لے کر ایک طرف کو روانہ ہوئے۔ شاید آدھ گھنٹے کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک چشمے کے پاس پہنچے جو ایک درّے میں بہہ رہا تھا ۔ ہمارے میزبان نے ایک پہاڑ کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ یہ وہ پہاڑ ہے جس سے سکھ اترے تھے۔ اس پہاڑ کو دیکھ کر اس پہاڑ سے منسوب تاریخی روایتیں تازہ ہو گئیں۔ سیرت سیّد احمد شہید (مؤلفہ مولانا سیّد ابو الحسن علی ندویؒ) میں درج ہے کہ:

’’ ۲۴ ذی قعدہ (۱۲۴۶ھ) کی صبح صادق اور صبح کی اذان ہوئی، تو سب لوگ وضو کر کے مسلح ہو کر حاضر ہوئے۔ آپ (سيّد صاحب)نے نماز پڑھائی۔ پھر اجازت دی کہ اپنی اپنی جگہ پر جا کر ہوشیار رہو۔ آپ بھی اپنے ڈیرے پر آ کر وظیفے میں مشغول ہو گئے۔ جب آفتاب نکلا، تو نماز اشراق پڑھ کر کچھ دیر کے بعد وضو کر کے سرمہ لگایا اور ڈاڑھی میں کنگھی کی اور لباس اور ہتھیار پہن کر مسجد کو چلے۔ اس وقت سکھ پہاڑ سے مٹی کوٹ کی طرف اترتے تھے۔ لوگوں نے ان کی طرف اشارہ کر کے آپ سے عرض کیا سکھوں کا لشکر پہاڑ سے اترتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اترنے دو۔ پھر آپ مسجد میں داخل ہوئے اور اس کے سائبان تلے بیٹھے اور ایک ایک دو دو کر کے بہت سے غازی بھی وہیں جمع ہو گئے۔‘‘

اسی طرح دوسری جگہ اسی پہاڑ کے متعلق درج ہے:

’’محمد امیر خاں قصوری کہتے ہیں: اس وقت آسمان صاف تھا: نہ ابر تھا نہ غبار، دھوپ پھیلی ہوئی تھی، مگر بارود کے دھویں کے سبب سے اس طرح کی تاریکی تھی کہ نزدیک کا آدمی بھی بمشکل پہچانا جاتا تھا۔ سکھوں کی بندوقوں کے کارتوس کے کاغذ یوں معلوم ہوتے تھے، جیسے ٹیٹریاں (ٹِڈیاں) اڑتی ہیں۔ وہ وقت نہایت اداس اور خوفناک نظر آتا تھا۔ سب مجاہدین نے قرابین اور بندوقیں گلے میں ڈال کر تلواریں پکڑیں اور یکبارگی بآواز بلند اللہ اکبر! اللہ اکبر! کہہ کر حملہ آور ہوئے۔ اس وقت لڑائی کا یہ رنگ تھا کہ تمام سکھ منہزم ہو کر پہاڑ پر چڑھے جاتے تھے اور مجاہدین پہاڑ کی جڑتک پہنچ گئے تھے اور سکھوں کی ٹانگیں پکڑ پکڑ کر کھینچتے تھے اور تلواریں مار مار کر مردار کرتے تھے اور جانبین سے پتھر چلتے تھے۔‘‘

ہم بغور اس پہاڑ کو دیکھتے رہے اور چشمِ تصور سے سکھوں کو اترتا، پہلے پسپا اور پھر شیر سنگھ کی چیخ و پکار پر دوبارہ جمع ہو کر مجاہدین پر ہلہ بولتے دیکھتے رہے۔ ساتھ بہتے چشمے کا جب خیال آیا تو لڑائی کے بعد جو عزم و ہمت کی مجسم تصویر مجاہدین بچے تھے، ان کی یاد تازہ ہو گئی، جنہوں نے انیسویں صدی عیسوی کے بچ جانے والے یاقوتوں اور ہیروں کو دوبارہ جمع کیا اور چشمے کا یہ چھوٹا سا اجتماع تحریکِ مجاہدین کو اگلی سوا صدی تک مزید جِلا بخشنے کا اقدام قرار پایا۔

’’میاں خدا بخش، الٰہی بخش، شیر محمد خاں رامپوری، محمد امیر خاں قصوری، لعل محمد جگدیس پوری اور داروغہ عبدالقیوم وغیرہ کہتے ہیں کہ لڑائی کے کھیت سے نکل کر ہم اکثر لوگ پہاڑ کی آڑ میں چشمے پر جمع ہوئے۔ کچھ لوگ آگے چلے گئے، وہیں چشمے پر دو یا تین غازی مولوی خیر الدین صاحب کے ہمراہی آ پہنچے۔‘‘

ہم نے اس با برکت چشمے میں ہاتھ تر کیے اور (ان شاء اللہ) آئندہ اپنے ہی فی اللہ بہہ جانے والے خون میں ہاتھ تر کرنے کا عزم۔ اس چشمے کی ایک تصویر کیمرے سے اور دوسری اپنی آنکھوں کے راستے آئینۂ دِل میں محفوظ کر لی۔

انہیں پہاڑوں کو دیکھتے ہوئے ان لکھنوی مجاہد کا واقعہ بھی یاد آیا جو یہیں کہیں کسی پہاڑ سے لٹکے کسی سکھ کو ٹانگوں سے کھینچ رہے تھے ، کتاب میں کچھ یوں درج ہے:

’’لعل محمد جگدیس پوری یوں بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ معمور خاں لکھنوی دانتوں سے ننگی تلوار پکڑے ہوئے ایک سکھ کے پاؤں پکڑ کر اپنی طرف کھینچ رہے ہیں اور ایک سکھ اس سکھ کے ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچتا ہے۔ آخر الامر خان موصوف نے ایسا زور کیا کہ وہ سکھ اس کھینچنے والے سے چھوٹ کر ان کے اوپر آ رہا اور دونوں وہاں سے غلطاں نیچے نالے میں آ کر گرے اور دونوں وہیں رہے۔ خان ممدوح تو شہید ہو گئے اور وہ مردار ہوا۔‘‘

پہاڑی درے کے درمیان بہتا ایک چشمہ

پھر میں تصور کی آنکھ سے ان بڑے میاں کو دیکھتا رہا جو یہیں کسی پہاڑ پر مجاہدین کے لیے کھیر پکا رہے تھے، جنہوں نے عالمِ خواب میں نہیں، بلکہ کھلی آنکھوں سے ستّر پوشاکوں میں اور لہنگوں اور غراروں میں ملبوس حورِ جنت کو دیکھا، پہلی نظر میں محبت میں گرفتار ہو گئے ، وہیں اس عروس سے تقریبِ نکاح ہوئی اور چند لمحوں میں اپنی محبوبہ سے کبھی نہ ختم ہونے والے وصال کو پا گئے۔ سیرتِ سیّد احمد شہید میں لکھا ہے:

’’الٰہی بخش رامپوری کہتے ہیں کہ ہماری جماعت میں ضلع پٹیالہ کے ایک سیّد چراغ علی تھے وہ کھیر پکا رہے تھے اور قرابین ان کے کندھے پر پڑی ہوئی تھی۔ سکھ مٹی کوٹ سے نیچے اتر رہے تھے، وہ اپنی کھیر بھی چمچہ سے چلاتے جاتے تھے اور سکھوں کی طرف بھی دیکھتے تھے۔ اس وقت ان پر ایک اور ہی حالت واقع تھی۔ یکبارگی آسمان کی طرف دیکھ کر بولے کہ وہ دیکھو، ایک حور کپڑے پہنے ہوئے چلی آتی ہے۔ کچھ دیر کے بعد کہنے لگے کہ دیکھو ایک حور کپڑے پہنے ہوئے چلی آتی ہے۔ کچھ دیر کے بعد کہنے لگے کہ دیکھو ایک پوشاک پہنے ہوئے آتی ہے۔ یہ کہہ کر وہ چمچہ دیگچی پر مارا اور یہ کہتے ہوئے کہ اب تمہارے ہی ہاتھ کا کھانا کھائیں گے، سکھوں کی طرف روانہ ہوئے۔ کتنا ہی لوگ کہتے رہے کہ میر صاحب ٹھیر جاؤ، ہم بھی چلیں گے۔ انہوں نے کسی کے کہنے کا کچھ خیال نہ کیا اور جاتے ہی سکھوں کے مجمع میں گُھس گئے اور داد جوانمردی دے کر شہید ہوگئے۔‘‘

ہم کچھ دیر یہاں جہاں جگہ ملی بیٹھ گئے، ہم تھے، ایک سکوت تھا اور سکوت کو توڑتے چشموں اور چھوٹے چھوٹے جھرنوں کی آوازیں۔ پھر یہاں سے اٹھے اور اگلے مقامِ شوق حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہید نوّر اللہ مرقدہٗ کے مزار کی طرف روانہ ہو گئے۔

یہ مزار عام آبادی و بازار سے ہٹ کر ہے۔ اگر رُخ کاغان و ناران کی طرف ہو تو مزار کے لیے بازار کی بغل سے (جس زمانے میں راقم نے دیکھا تھا) ایک سڑک بائیں طرف کو جاتی ہے، شاید دو کلومیٹر کا گاڑی کے لیے کچا پکا راستہ ہوگا جسے طے کرنے کے بعد مزار آتا ہے۔

شاہ اسماعیل صاحب کے مزار کے ارد گرد اور لوگوں کی بھی قبریں ہیں۔ اس قبروں کے احاطے میں جب داخل ہوتے ہیں تو وہاں سب لوگ جوتے اتار لیتے ہیں اور برہنہ پا داخل ہوتے ہیں۔ جب ہم اس احاطۂ مزار میں داخل ہوئے تو عین دو پہر کا وقت تھا۔ آسمان پر ارد گرد بادل تھے، لیکن رُوئے خورشید کو ابھی نقابِ ابر نے چھپایا نہ تھا، سو وہ گرمی بکھیر رہا تھا ۔ سورج کی تپش کے سبب مزار کے احاطے کا فرش تپ رہا تھا اور اس تپتے فرش پر پاؤں رکھتے ہی مجھے وہ واقعہ یاد آ گیا جو میں نے پہلی بار اپنے والدِ ماجد (مدّ ظلہ) سے ابتدائے بچپن میں، اپنے والد صاحب کے بچپن کے محلے کی مسجد میں سنا تھا۔ وہ بھی گرمیاں ہی تھیں جب میں ظہر کی نماز پڑھ کر اپنے ابّو کے ساتھ اس چھوٹی سی مسجد کے مسقّف احاطے سے نکل کر صحن میں آیا تو فرش کے گرم ہونے کے سبب پاؤں نہ رکھ سکا اور فوراً اُچھلا۔ پنجوں پر چلتا جیسا تیسا مسجد سے باہر نکلا اور جلدی سے جوتے پہنے۔ یہ دیکھ کر ابّو کہنے لگے کہ ’شاہ اسماعیل شہید، جہاد کی تیاری کی غرض سے جامع مسجد دہلی کے صحن کے گرم فرش پر عین دوپہر میں ننگے پاؤں چلا کرتے تھے کہ جسم جہاد کی سختیوں کا عادی ہو جائے‘۔

’شدّت پسندی‘ کی یہ تعلیم ہر مسلم گھرانے میں کسی نہ کسی صورت بچپن سے ہی ملتی ہے۔ آج کا کوئی دین دار گھرانہ مشکل سے ایسا ملے گا جہاں ذکرِ سیّدین شہیدین کی باس سے مکان نہ مہکتا ہو۔ اسی بات سے اپنے ایک نہایت بزرگ اور نہایت مکرم و محترم شیخ و مفتی صاحب (نوّ ر اللہ مرقدہ) کا چند برس پہلے سنایا واقعہ یاد آ گیا۔ حضرتِ والا فرمانے لگے کہ جب نیشنل ایکشن پلان وطنِ عزیز کی اساس (لا الٰہ الا اللہ) کی مخالفت و تردید میں منظور ہوا تو انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں نے جا بے جا چھاپے مارے اور چھاپوں کا خاص سلسلہ اردو بازار لاہور میں چل پڑا۔ ایجنسی والے ایک ناشر و کتب فروش کی دکان پر گئے اور اس کو بتانے لگے کہ فلاں اور فلاں کتابوں پر پابندی ہے کہ ان میں ’شدّت پسندی‘ کا مواد پایا جاتا ہے۔

شہیدِ اسلام، حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہید دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کا ایک پانوراما (panorama) منظر

یہ ناشر و کتب فروش صاحب بغور سنتے رہے اور بظاہر یہی ظاہر کرتے رہے کہ وہ ایجنسی والوں سے خوب تعاون کر رہے ہیں۔ جب ایجنسی والوں کی بات ختم ہو گئی تو یہ صاحب بولے کہ کتابوں کی جس فہرست کا آپ نے ذکر کیا ہے اس میں ایک کتاب رہ گئی ہے، میرے پاس رکھی ہے، میں سٹور سے لاتا ہوں۔ ایجنسی والے اس ’تعاون‘ پر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ ضرور لائیے۔ یہ صاحب اندر گئے اور مصحف شریف اٹھا لائے۔ ایجنسی والوں نے دیکھا تو آگ بگولہ ہو گئے اور کہنے لگے ’تُو ہمارے ساتھ مخول (مذاق) کرتا ہے؟ یہ تو قرآن شریف ہے!‘۔ اس پر یہ صاحب کہنے لگے کہ ’جتنی ’’شدّت پسندی ‘‘کی کتابوں کی فہرست تم نے دی ہے یہ سب اسی قرآن سے نکلی ہیں!‘۔ ایجنسی والے یہ سن کر مغلظات بکنے لگے اور ڈرا دھمکا کر چلے گئے۔ خیر، اس واقعے کے بیان سے میرا مقصد یہ تھا کہ جسے امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر کے دینِ جدید ’سرمایہ دارانہ جمہوریت‘ میں ’شدّت پسندی‘ کہا جاتا ہے تو اس کا آغاز تو ازل سے ہوا اور جب تک کا زمانہ ابد کہلاتا ہے تب تک یہ غلغلہ بلکہ حقیقت میں اس فکر کا غلبہ رہے گا۔ لہٰذا حسبِ قولِ عباس تابشؔ:

؏تیری مرضی جس کو دہشت گرد کہہ کر مار دے

سو جب تک قرآن گھروں ، مدرسوں، مسجدوں، مکتبوں، دکانوں اور زندگی کے کارخانوں سے نہیں ’اٹھایا‘ جاتا یہ ’شدّت پسندی‘ رہے گی۔ یہ ’شدّت پسندی‘ امت کے ہر مکتبۂ فکر اور ہر مسلک سے وابستہ ہے، ہر شعبۂ زندگی میں دخیل ہے اور جب آخر الزمان میں قرآن ’اٹھایا‘ جائے گا تو قیامت آ جائے گی اور قرآن اور قرآنی پیغام کے دشمنوں کے لیے دنیا جہنم ’ہمارے‘ ہاتھوں ہے اور قیامت تا ہمیشہ ہمیشہ نارِ جہنم ’مالک‘ داروغۂ جہنم کے ہاتھوں ہے (اللھم أجرنا من النار!)۔

شاہ اسماعیل صاحب کے احاطۂ مزار کے صحن کا فرش بدستور تپ رہا تھا، سو مجھ سہولت کے مارے نے فوراً ایک سائے کی جگہ میں پناہ لی۔ چند منٹ مزید بِیتے تو پورے آسمان پر بادل چھا گئے اور مزار بھی زیرِ سایہ آ گیا،پھر شاہ صاحب کی قبر کے پاس پہنچا، کچھ دیر عقیدت سے اس بقعۂ نور کو دیکھتا رہا۔ قبر کے ساتھ کتبے پر ’حضرت مولوی شاہ محمد اسماعیل شہیددہلوی بن شاہ عبد الغنی بن شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہم ‘ لکھا ہوا تھا۔ سوچتا رہا کہ یہ علماء کے خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ زمانے کے بہترین لوگوں میں سے ایک۔ اس زمانے کے بلکہ ہر زمانے کے میٹروپولیٹن شہر ’دِلّی جو ایک شہر تھا عالَم میں انتخاب‘کے باشندے۔ شاہ صاحب سب چھوڑ چھاڑ کر یہاں آئے تھے۔ اس بالاکوٹ کو کون جانتا تھا؟ شاہ صاحب واقعی ان لوگوں میں سے تھے جن کی نسبت سے شہر جانے جاتے ہیں۔ آج یہی بالاکوٹ لکھنوی بھی ہے اور دہلوی بھی۔ انہی شاہ صاحب کے ایک مدّاح، ’اقبالؒ‘ 11کے ایک مصرعے میں کچھ تصرف کے ساتھ:

؏اس ’جبل‘ سے بہتر ہے نہ دِلّی نہ بخارا!

ہم نے شاہ صاحب کے بلندیٔ درجات کے لیے دعا کی اور اپنے لیے انہی شہیدوں میں شامل کیے جانے کی۔ باہر نکلے ، پھر راہ میں تپتا صحن آیا تو میں نے فوراً میاں صاحب کو جامع مسجد دلّی کے صحن کے تپتے فرش والا واقعہ یاد دلایا، میاں صاحب اپنے کشمیری لہجے میں کہنے لگے ’شاہ صاحب بعد از شہادت بھی اپنے احاطۂ قبر کے صحن کے تپتے فرش سے لوگوں کو تیاریٔ جہاد کی تحریض دلا رہے ہیں‘۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ’مرابط کا اجر تا قیامت جاری رہتا ہے‘، اس کی تشریح میں شیخ انور العولقی شہید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اور امامِ ابنِ حجرؒ یا امام سیوطیؒ میں سے کسی کا قول نقل کرتے ہیں کہ ہر شخص کا سلسلۂ اجر کہیں نہ کہیں جا کر موقوف ہو جاتا ہے سوائے مرابط مجاہد کے، کہ جس سلسلۂ رباط سے مرابط مجاہد جڑا ہوتا ہے وہ تا قیامت جاری رہے گا۔ سو جو مجاہد، عالم بھی ہو اور اس کے علم و عمل سے ایک دنیا فیض یاب ہو رہی ہو اس کے اجر کا تو کیا ہی کہنا!

؏ایں سعادت بزورِ بازو نیست!

شاہ صاحب کے مزار کے بعد اگلی منزل سیّد بادشاہ کا مزار تھی۔ سیّد صاحب کی قبر کے حوالے سے تین چار مقامات معروف ہیں۔ غالباً دو بالاکوٹ میں، ایک کہیں اور، اور ایک گڑھی حبیب اللہ میں، لیکن بالاکوٹ میں ایک مقام مشہور ہے، جہاں سلسلۂ سیّد احمد شہید کے ایک بزرگِ با وفا و صفا اور دورِ حاضر میں مجاہدین کے ایک محب و انصار، جن کی خانقاہ میں مجاہدین دشمن ایجنسیوں سے چھپ کر پناہ لیتے تھے اور بعض دفعہ مہینوں گزارتے تھے، مکتبہ سیّد احمد شہید (اردو بازار لاہور) اور سیّد احمد شہید اکادمی قائم کرنے والے اور وقائع احمدی کو پورا اپنے ہاتھ سے دوبارہ تحریر کر کے شائع کرنے والے، خطِ نستعلیق میں صنفِ ’نفیس ‘ کو تشکیل دینے والے، حضرت مولانا سیّد نفیس الحسینی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے سیّد احمد شہید کے متعلق ایک کتبہ لگوا رکھا ہے۔

سیّد بادشاہ کی قبر کی نشاندہی کرتا کتبہ

قبر پر حاضر ہوئے، یہ قبر عام قبرستان میں واقع ہے۔ یہ قبرستان بالاکوٹ کے ایک اندرونی بازار سے متصل ہے، اس بازار کے درمیان سے ایک چھوٹی سی گلی اس قبرستان کی جانب جاتی ہے۔ جب میں قبر کے قریب گیا تو یقین ہی نہ آیا کہ یہ سیّد بادشاہ کی قبر ہے۔ قبر کے پاس میں قریباً آدھ گھنٹہ کھڑا رہا،لیکن بس میں تھا ور میرے ساتھی اور کوئی نہ تھا۔ غالباً ایک عورت آئی اور وہ بھی شاید کسی اور عزیز کی قبر پر کچھ دیر کھڑی رہی اور چلی گئی۔ عام طور پر عورتیں زیادہ ضعیف الاعتقاد ہوتی ہیں، عورت آئی اور زمانے کے قطب اور ابدال میں سے ایک پیرِ طریقت حضرت سیّد احمد شہید کے مزار پر نہ کھڑی ہوئی؟ اب اگر یہی مان لیا جائے کہ یہی سیّد المجاہدین کی قبر ہے تب بھی سیّد صاحب کی دعا کے مقبول ہونے کا یقین ہو جاتا ہے۔ قبر پر گھاس سی اگی ہوئی تھی، کچھ جنگلی بُوٹیاں بھی اور شاید کسی نے ایک باقاعدہ پودا بھی اس پر لگا رکھا تھا۔ قبر پر گرد پڑی ہوئی تھی۔

ہزار جاہ و حشم اس کی شان پر قرباں
وہ بے کسی جو بہ گردِ مزار پھرتی ہے

یہاں پہ خونِ شہیداں کے جل رہے ہیں چراغ
بقا کو دیکھیے پروانہ وار پھرتی ہے

یہاں دل کی عجیب سی حالت رہی، نہ دل پر کسی خیال کا گزر ہوا اور نہ ہی دماغ نے کچھ دیر یہاں کچھ بھی سوچنا چاہا۔ قاطعِ شرک و بدعت کی قبر پر دل دل میں بس اپنے لیے دعا کی،کچھ ایصالِ ثواب ان سے نسبت جوڑنے کی خاطر کر دیا اور یہاں سے نکل آئے۔

سیّد صاحب کی حیاتِ دنیوی کی آخری شب کچھ ساتھیوں نے لوگوں کے غدر و خیانت کا ذکرکیا۔ سیّد صاحب نے بھی جواباً کچھ باتیں گنوائیں، جن درباری علماء نے سیّد صاحب پر الزامات لگائے ان کا بھی ذکر کیا، لیکن خائنوں اور غداروں کے ذکر کے بعد آپ نے دوبارہ ساتھیوں کی توجہ اپنے مقصد کی طرف کروائی۔ سیرتِ سیّد احمد شہید میں درج ہے کہ سیّد صاحب نے فرمایا:

’’تم سچ کہتے ہو، حقیقت حال یہی ہے۔ اتنے برس ہم نے اس کارِ خیر کے واسطے طرح طرح کی کوشش و جانفشانی کی، اپنی دانست میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا، ہندوستان، خراسان اور ترکستان میں اپنے خلفاء روانہ کیے، انہوں نے بھی حتی الامکان دعوت فی سبیل اللہ میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور ہم بھی جہاں جہاں گئے وہاں کے لوگوں کو ہر طریقے پر وعظ و نصیحت سے سمجھاتے رہے، مگر سوائے تم غرباء کے کسی نے ہمارا ساتھ نہ دیا، بلکہ ہم پر طرح طرح کا افترا کیا، اب ہمارے کاتب بھی خط لکھتے لکھتے تھک گئے اور ہم بھیجتے بھیجتے تنگ آگئے اور کچھ ظہور میں نہ آیا، اب یہی خوب ہے کہ اپنے غازی بھائیوں کو پہروں پر سے اپنے پاس بلوالیں۔ کل صبح کو اسی بالا کوٹ کے نیچے ہمارا اور کفار کا میدان ہے۔ اگر اللہ نے ہم عاجز بندوں کو ان پر فتحیاب کیا تو پھر چل کر لاہور دیکھیں گے اور جو شہید ہوگئے، تو ان شاء اللہ جنت الفردوس میں چل کر عیش کریں گے۔‘‘

بزبانِ شاعرِ جہاد، شیخ احسن عزیز شہیدؒ، سیّد المجاہدین نے اپنے وفادار ارباب بہرام خان شہیدؒ سے فرمایا:

’’سارا سفر یہ اپنا

جس وقت کے لیے تھا

وہ وقت بس یہی تھا

تھا انتظار جس کا

خاں جی!یہ وہ گھڑی ہے

’منزل‘ تو آ گئی ہے!‘‘

سیّد بادشاہ نے ولایتِ الٰہی کا عظیم مقام ’شہادت‘ پایا اور ان کے ساتھی مجاہدین نے بھی۔ رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرمانِ مبارک کا مفہوم ہے کہ ’جنت میں اللہ تعالیٰ نے صرف مجاہدین کے لیے سو درجات تیار کر رکھے ہیں‘۔ ان شاء اللہ، سیّد بادشاد جنت میں بھی بادشاہوں کے ٹھاٹ کے ساتھ، اہلِ جہاد کے لیے بنائے گئے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہوں گے۔

سیّد صاحب کے مزار سے نکل کر ہم نے اپنی واپسی کا سفر شروع کیا۔ ہم سب کی خواہش تھی کہ واپسی پر ایبٹ آباد میں مشہدِ شہیدِ اسلام، حضرت شیخ اسامہ بن لادن پر بھی حاضری دیتے، لیکن حفاظت کا خیال درمیان میں مانع ہوا، کہ شیخ صاحب کے مشہد پر ان کا سودا کرنے والے اکیسویں صدی کے بدترین کلمہ گو خائن نہ ہوں اور ہمارا راز ان کے سبب افشا نہ ہو جائے۔ بقول ایک قابلِ احترام مبلغۂ دین ’خورشید سمندر میں ہی ڈوبا کرتا ہے‘، سو ہمارے شیخ کا مرقد کوئی نہیں ہے، دشمن نے شیخ کا نشان مٹانے کے لیے انہیں مٹی میں نہ دفنایا، لیکن اس کے ہاتھوں خدائے برتر نے، خیر الماکرین نے شیخ شہید کے لیے دنیا کی سب سے بڑی قبر کا سامان پیدا کر دیا ، بس دنیا کا جو ساحل جس معتقد و عاشقِ شیخ اسامہ کو مل جائے اسے ہی شیخ کی قبر جان لیا جائے۔ایبٹ آباد سے شیخ مرحوم کے مشہد کی زیارت کیے بغیر جو گزرے اور جو دل کی حالت ہوئی اس کی ترجمانی نعیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ کے کچھ اشعار سے ہوتی ہے(ایک آدھ جگہ معمولی تصرف کے ساتھ):

مرے رفیقِ سفر! اس مقام پر تھم جا
حسابِ الفتِ محبوب کچھ چکا کے چلیں

یہ اجڑا شہر جہاں تھے ہزار روئے صبیح
تصورات میں وہ صورتیں بسا کے چلیں

یہ خاک جس میں تھے گلہائے رنگ رنگ کھلے
ہم اپنے زخموں کے کچھ پھول یاں کھلا کے چلیں

ہم اس صلیب کی پُر ہول چھاؤں میں رُک کر
دو ایک ساغرِ زہراب ہی لنڈھا کے چلیں

ہے یاں پہ خونِ شہیداں کی پھیلتی خوشبو
مشامِ جاں میں یہ بُوئے جناں بسا کے چلیں

یہ وہ جگہ ہے جہاں قافلہ وفا کا لُٹا
یہاں پہ ہم بھی متاعِ جگر لُٹا کے چلیں

مزار سارے ہیں جیسے یہاں مزارِ حبیب
چراغِ نالۂ حشر آفریں جلا کے چلیں

اِدھر اُدھر کئی لاشیں پڑی ہیں بکھری ہوئی
ہم ان کو چوم کے اِن کو گلے لگا کے چلیں

یہ خاک جس نے پیا ہے لہو شہیدوں کا
ہم اپنا خوں بھی کچھ اس خاک میں ملا کے چلیں

وہ گیت جس کو الاپا گیا تو جرم بنا
مرے رفیق! وہی گیت ہم بھی گا کے چلیں

اگر کچھ اور نہ توفیق ہو رفیقِ حزیں!
دیارِ یار میں دو اشک ہی بہا کے چلیں!

۲۰۲۴ء کے مئی کے مہینے میں یہ سفر نامہ طبعِ ثانی کے طور پر شائع ہو رہا ہے۔ مئی کا مہینہ کئی ایک مشاہیرِ اسلام اور رجالِ دین کی شہادت کا مہینہ ہے۔ ان میں سرِ فہرست سیّد احمد شہید ۶مئی (۱۸۳۱ء)، سلطان فتح علی ٹیپو شہید ۴ مئی (۱۷۹۹ء)، امیر المومنین ملا اختر محمد منصور ۲۱ مئی (۲۰۱۶ء) اور شیخ اسامہ بن لادن شہید ۲ مئی (۲۰۱۱ء) ، شامل ہیں۔ بے شک ہم اپنے شہیدوں کو یاد رکھتے ہیں اور ان کے ایامِ شہادت پر وہ ہمیں یاد بھی زیادہ آتے ہیں لیکن ہم اہلِ اسلام اپنے ابطال کی برسیاں نہیں مناتے کہ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ جل جلالہ نے یہ اعزاز بخشا ہے کہ:

سلام اسؐ پر کہ جسؐ کے نام لیوا ہر زمانے میں
بڑھا دیتے ہیں ٹکڑا سرفروشی کے فسانے میں

ہمارے یہاں ہر روز ابطال کی پیدائش ہوتی ہے اور جن کے یہاں ہر روز ابطال پیدا ہوتے ہوں وہ روز خوشیاں منایا کرتے ہیں۔ ہاں بہر کیف عام و خاص ایام میں ان شہید ہستیوں کو یاد کرنے کا مقصد، انہی کی دعوت اور عزم و ہمت کو عام کرنا ضرور ہوتا ہے۔ شیخ اسامہ بن لادن شہید رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر آیا ہے تویہ بات لکھ دینا اچھا ہے کہ اسامہ بے شک ایک شخصیت کا نام تھا، لیکن اسامہ ساتھ ہی ایک نظریے کا نام بھی تھا اور نظریات کی موت نہیں ہوا کرتی۔ اسامہ بن لادن جس دعوت کے ساتھ اٹھے اور جس دعوت و نظریے کی بنیاد پر انہوں نے امتِ مسلمہ کو ساتھ ملا کر کفار بلکہ کفار کے سرغنہ امریکہ کو نشانہ بنایا ، اس نظریے کی عدالت پر خود آج کفار بھی گواہ ہیں۔ اسامہ بن لادن کی دعوت بڑی سادہ اور سیدھی، عام فہم دعوت ہے اور اس دعوت کا ایک پہلو یہ ہے کہ

  • امریکہ ہم اہلِ اسلام اور اسرائیل کے بیچ سے ہٹ جائے، اسرائیل کی مالی و سیاسی مدد سے باز آ جائے اور اسرائیل کو عسکری کمک بند کر دے۔ پھر ہم جانیں اور یہود اور ہم کیسے ان یہودِ نا مسعود سے اپنا قبلۂ اول آزاد کرواتے ہیں یہ ہم اہلِ اسلام کا کام ہے۔
  • امریکہ اپنی عالمی بدمعاشی ترک کرتے ہوئے اہلِ اسلام کی سرزمینوں سے نکل جائے اور ان سرزمینوں میں موجود اپنے ٹوڈیوں کی حمایت ترک کر دے۔

پھر اگر اس عام فہم اور سیدھی سادی دعوت کو امریکہ اور اس کے اتحادی قبول نہیں کرتے تو اہلِ اسلام پوری طرح اللہ جل شانہ کی شریعت کے احکام اور عقلی پیمانوں سے حق بجانب ہیں کہ وہ امریکہ اور اس کے مفادات کو مقدور بھر وسائل کے ساتھ دنیا میں جہاں پائیں نشانہ بنائیں۔ کل، آج سے دو صدیاں قبل برِّ صغیر میں سیّد احمد شہید اس وقت عالمی نظام کے سرغنہ انگریز کے خلاف جہاد کے لیے اٹھے تھے اور اولاً راہ میں حائل سکھوں سے نبرد آزما ہوئے تو آج عالمی کفر و فساد کے سانپ کے سر امریکہ کے خلاف علمِ جہاد شیخ اسامہ بن لادن نے بلند کیا ہے۔ نہ برِّ صغیر کے سیّد احمد کی تحریک و نظریہ ختم ہوا، نہ جزیرۃ العرب کے اسامہ کی تحریک و نظریہ ختم ہوا ہے اور دراصل یہ سب طریق و سلوک اللہ جل جلالہ کو راضی کرنے کے اور اس کے دین کے جھنڈے کو بلند کرنے کے لیے ہیں۔

یہ شہادت اک سبق ہے حق پرستی کے لیے
اِک ستونِ روشنی ہے بحرِ ہستی کے لیے

اپنے زمانے کے مجددِ دین ہوں یا اپنے زمانے کے مجددِ جہاد، سیّد بادشاہ سے شیخ اسامہ تک کی زندگی کا ایک ہی پیغام ہے۔ مشہدِ بالاکوٹ سے مشہدِ ایبٹ آباد تک کے مقاماتِ شوق سے ایک ہی صدا بلند ہو رہی ہے:

إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۝

’’بلا شبہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا، صرف اور صرف اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے۔‘‘

٭٭٭٭٭


1 الصارم المسلول

2 پگڑی اور عزت کے تعلق کا تصور اب ہمارے معاشرے سے مفقود ہو چکا ہے، لیکن یہی تصور آج بھی افغانستان و پاکستان کے سرحدی و بلوچ قبائل میں پایا جاتا ہے۔ زیادہ دور کی نہیں محض تین دِہائیاں قبل کی بات ہے کہ خود راقم کے دادا مرحوم گھر سے باہر بنا پگڑی سر پر باندھے نکلنے کو بے عزتی گردانتے تھے۔

3 دارا شکوہ آج کل کے نام نہاد ’سیکولر و لبرل صوفیوں‘ کا رہنما ہے، جس نے تمام ادیان کے اتباع کو حصولِ جنت جانا اور ’سرمد کاشانی‘ کو اپنا ’مرشد‘ قرار دیا۔ ’سرمد‘ پہلے ایک یہودی تھا ، بعداً لا دین صوفی بنا جو الف ننگا گھوما کرتا تھا اور سندھ کے شہر ٹھٹھہ کے ایک نو عمر ہندو لڑکے ابھائی چند کا عاشق ہو گیا تھا، سرمد نے اپنی رباعیات میں لکھا ہے کہ نہ وہ یہودی ہے، نہ مسلمان اور نہ ہی ہندو۔ نیز تاریخی روایات میں درج ہے کہ وہ محض ’لا الٰہ‘ کہا کرتا تھا اور ’الا اللہ‘ کا اقرار نہ کیا کرتا تھا اور اسی جرمِ الحاد کے سبب سلطانِ عادل اورنگزیب عالمگیرؒ نے سرمد کا سر قلم کروایا اور اسی لادینیت کی اتباع میں دارا شکوہ نے عالمگیر سے جنگیں لڑیں اور یہی الحاد دارا شکوہ کے قتل کا سبب بنا۔ آج کل کے بعض پاکستانی سیکولر لوگ ’دارا شکوہ‘ کو اپنا آئیڈیل بتاتے ہیں اور اسی قسم کا ’جوگی تصوف‘ آج کل ہندوستان میں بھی دارا شکوہ کے ذکر کے ساتھ فروغ دیا جا رہا ہے۔

4 یعنی: اہلِ درد کا سخن اپنے اوپر خود گواہ ہے، جس دامن سے پھول بندھے ہوں تو ان کپڑوں سے خوشبو خود بخود آتی ہے۔

5 یعنی: اہلِ درد کی زبان پر قصے تو کسی اور کے رواں ہوتے ہیں لیکن دراصل درد اپنے دل کا ہوتا ہے جو ان قصوں کے بیان کا موجب ہے، درد کے بغیر کلام و بیان میں کب تاثیر ہوتی ہے اور بے درد کب رویا کرتے ہیں؟

6 یعنی: کچا رنگ، کپڑے رنگنے والے کا ہوتا ہے، کبھی چڑھتا ہے کبھی اترتا ہے، لیکن اے اللہ! تیرے عشق کا رنگ ایسا رنگ ہے کہ ایک بار چڑھ گیا تو پھر اترتا نہیں، صِبْغَةَ اللّهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّهِ صِبْغَةً وَنَحْنُ لَهُ عَابِدونَ۝

7 یعنی: کمینے لوگوں کی یاری سے کبھی کوئی فیض یاب نہیں ہوا، کیکر کے خاردار درخت پر انگور جیسے نازک پھل کی بیل چڑھائی تو ہر خوشۂ انگور زخمی ہوا۔

8 یعنی: وہ ذات ﷻ خود تو لا مکان ہے، لیکن کوئی مکان نہ اس کے تصرف سے خالی ہے نہ اس کے ذکر سے، وہ ذات ہر آن، ہر چیز کو اپنی شان کے مطابق سنبھالے ہوئے ہے۔

9 یعنی: یا اللہ! میرے دل کا باغ تیرے عشق و محبت، تیری عبادات کی لذت سے خشک ہے، مولا! اپنی رحمت کی بارش برسا اور میری آس و امید کے شجر کو پھل پھولوں سے بھر دے!

10 کاغان ناران جانے کا تجربہ نہایت برا ثابت ہوا۔ عرف میں ہم ’مولوی لوگ‘، اصل میں مجاہدین جب یہاں پہنچے اور خاص کر جب جھیل سیف الملوک پہنچے تو سخت پریشان ہوئے اور مجھے تو سخت غصہ آیا۔ اس کا سبب یہاں کی بے حد و حساب فحاشی تھی۔ عورتیں اور ان میں بے حجاب و حیا باختہ عورتیں اس قدر زیادہ تھیں کہ ہمارے لیے نظر اٹھانا محال تھا۔ اس سبب ہم جھیل سیف الملوک بھی صحیح سے نہ دیکھ سکے۔ بعداً ہمارے ایک ساتھی نے ایک کونۂ عافیت ڈھونڈا، جہاں عافیت و عفت تو تھی لیکن سیف الملوک کا وہ حُسن نہیں تھا جس کو نہ صرف دیکھنا جائز ہے بلکہ اس حُسن کو دیکھ کر وطنِ اصلی ’جنت‘ کو یاد کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ایک ساتھی کو اس قدر غصہ آیا کہ کہنے لگا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ جھیل کو مٹی سے پاٹ دوں کہ یہ فحاشی کا سلسلہ تو ختم ہو۔ سیف الملوک جانے کا راستہ عموماً فور بائی فور جیپوں پر طے کیا جاتا ہے کہ کسی اور گاڑی کا ان کچی چڑھائیوں پر چڑھنا نا ممکن ہے اور جب جیپ وہاں چڑھتی ہے تو ایک طرف چڑھائی اور دوسری طرف گہری کھائی کو دیکھ کر انسان ایک خوف میں مبتلا رہتا ہے، لیکن مقامِ عبرت یہ ہے کہ یہ خوف ناک کھائیاں اور چڑھائیاں عبور کر کے’انسانوں‘ کی کثیر بے حیا تعداد اپنے جلوے دکھانے اور باقی دیکھنے جاتی ہے، حالانکہ چڑھائی چڑھتی جیپ بعض جگہوں پر محض دو چار انچ دائیں بائیں ہو جائے تو انسان سیدھا موت کی کھائی میں چلا جائے۔ ممکن ہے کہ اب وہاں کا راستہ ایسا خطرناک نہ رہا ہو، لیکن اللہ کے خوف کی تو بہر حال و کیفیت ضرورت ہے!

11 علامہ اقبالؒ شاہ اسماعیل شہیدؒ کو بہت بلند نظر سے دیکھتے تھے اور اقبال نے شاہ صاحب جیسے اور عالم پیدا نہ ہونے کا شکوہ بھی ایک جگہ کیا ہے (بحوالہ ’تذکرۂ شہید‘ از مولانا محمد خالد سیف)۔

Previous Post

اخباری کالموں کا جائزہ | اپریل و مئی ۲۰۲۴

Next Post

زندہ رہنا ہے تو میرِ کارواں بن کر رہو

Related Posts

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چوتھی قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چوتھی قسط

31 مئی 2024
صبر اور مقامِ صدّیقین | دوسری (و آخری) قسط
تزکیہ و احسان

صبر اور مقامِ صدّیقین | پہلی قسط

31 مئی 2024
فلسطین: امن و جنگ کے ۷۵ سال
طوفان الأقصی

فلسطین: امن و جنگ کے ۷۵ سال

31 مئی 2024
پیامِ غزّہ: تصویر کے دو رُخ
طوفان الأقصی

پیامِ غزّہ: تصویر کے دو رُخ

31 مئی 2024
آلِ ہنیہ کے لیے پیغامِ تعزیت و تہنیت
طوفان الأقصی

آلِ ہنیہ کے لیے پیغامِ تعزیت و تہنیت

31 مئی 2024
اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | چوتھی قسط
جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | چوتھی قسط

31 مئی 2024
Next Post
زندہ رہنا ہے تو میرِ کارواں بن کر رہو

زندہ رہنا ہے تو میرِ کارواں بن کر رہو

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version