اس تحریر میں مختلف موضوعات پر کالم نگاروں و تجزیہ کاروں کی آرائ پیش کی جاتی ہیں۔ ان آراء اور کالم نگاروں و تجزیہ کاروں کے تمام افکار و آراء سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ (ادارہ)
اس شمارے کے کالموں کے جائزے میں درج ذیل موضوعات شامل ہیں:
- پاکستان
- بجٹ ۲۰۲۴ء
- اظہارِ رائے پر قدغن اور ریاستی اداروں کا بحران
- سیو غزہ مہم
- بھارت
- الیکشن ۲۰۲۴ء
- الیکشن کے بعد کے حالات
- فلسطین
- مظالم کے نو ماہ
- فلسطین کی نسلِ نو نشانے پر
- نصیرت کیمپ پر حملہ
- غزہ کے حوالے سے عرب ممالک سے خفیہ ساز باز
- اختتامیہ
پاکستان | بجٹ ۲۰۲۴ء
اس وقت جبکہ پاکستان کے سیاسی و معاشی حالات دگرگوں ہیں اور پاکستان مجموعی طور پر اپنے بدترین دور سے گزر رہا ہے، ایسے میں شہباز شریف کی حکومت نے سال ۲۰۲۴– ۲۵ء کا بجٹ پیش کیا جس کا حجم ۱۸۸ ؍کھرب ۷۵؍ ارب روپے ہے۔ یہ بجٹ جہاں حکمرانوں اور ’’مقتدر‘‘ طبقے کی عیاشیوں کے لیے مراعات لایا ہے، جس کے تحت وزیر اعظم ہاؤس کا خرچہ تیس فیصد بڑھا دیا گیا، قومی اسمبلی اور سینیٹ کا بجٹ تیس فیصد بڑھا دیا گیا، ۷۵ ارب روپے اراکین پارلیمنٹ کے لیے مختص کیے گئے، سرکاری ملازموں کی ۲۵ فیصد تک تنخواہیں بڑھا دی گئیں، جبکہ نان فائلر یا دوسرے الفاظ میں عوام کی کثیر تعداد کے سر پر مزید ٹیکسوں کا اضافہ کر کے ان کے لیے دال روٹی اور بنیادی سہولیات کے حصول کو مشکل بنا کر ان کی کمر توڑی گئی ہے۔ بجلی اور گیس کے بلوں میں بے تحاشہ اضافہ جس کا اثر براہ راست مڈل کلاس اور غریب طبقے پر پڑ رہا ہے جبکہ وی وی آئی پی کو پانچ ہزار یونٹ بجلی فری، دو ہزار یونٹ گیس فری، پٹرول مفت اور گاڑیاں مفت۔
دوسری طرف خود وزیر اعظم نے اس بات کو قومی اسمبلی میں تسلیم کیا کہ یہ بجٹ ’آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر بنایا گیا ہے‘(گویا آئی ایم ایف کی خواہشات کے عین مطابق بنایا گیا ہے) ، جس میں قرضوں کی سودی ادائیگیوں کے لیے ۹۷ کھرب ۷۵ ارب روپے مختص کر دیے گئے ہیں، جو ہمارے بجٹ کا اکاون (۵۱) فیصد بنتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اللہ اور اس کے رسول ؐکے ساتھ جنگ کے لیے مختص کر دیے گئے ہیں۔
ملکی معیشت اس قدر تباہ حال ہے کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف ہاتھوں میں کشکول لیے کتنے ہی ملکوں کا دورہ کر چکے ہیں کہ دوسرے ملک پاکستان میں آ کر سرمایہ کاری کریں، لیکن کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ پاکستانی معیشت حکمرانوں کی لوٹ مار، کرپشن اور آئی ایم ایف کے قرض کی زنجیروں میں اس طرح جکڑی ہوئی ہے کہ آزادانہ فیصلے بھی نہیں کر سکتی، اور پوری طرح آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر ہے۔ ایسے میں ترقی اور خود مختاری کے نعرے صرف دل بہلانے کو لگائے جا رہے ہیں۔
روزنامہ دنیا میں کالم نگار بابر اعوان نے لکھا :
یہ وطن تمہارا ہے؟……| بابر اعوان
’’اس وقت پاکستانی معیشت گردن تک اور پاکستان کے پچیس کروڑ عوام ناک تک قرض کی دلدل میں ڈوب چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کا قرض، ورلڈ بینک کا قرض، ایشین ڈویلپمنٹ بینک کا قرض، تاج برطانیہ کا قرض، شاہ سعودیہ کا قرض، متحدہ عرب امارات کے امیر کا قرض، چین کا قرض، بیرونی قرض، اندرونی بینکوں کا قرض۔ قرض، قرض، قرض اور مقروض۔ اس کے باوجود ہمارے لیڈروں کی ہمت ہے کہ وہ نت نئی زبانوں میں خوشامد کا فن سیکھ کر مختلف براعظموں کے لیڈروں سے قرض کی بھیک مانگیں۔ قرض کے اس مرض میں مبتلا بین الاقوامی بھکاری بہت جلد بنگالی، سنسکرت ، پشتو اور دری زبان بھی سیکھیں گے۔ تاکہ بنگلہ دیش، بھارت اور افغانستان سے قرض مانگا جائے۔ اس سے بھی زیادہ ہمت یا بے شرمی کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم نے کشکول توڑ دیا۔ ۷۶ سال بعد جس ملک کا نظام اور اس کے مینجرز انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے دروازے کے سامنے قطار لگا کر بھیک میں بیل آؤٹ پیکج مانگتے ہیں وہ قوم کو اس سوال کا جواب ضرور دیں کہ جب ان کے اپنے مال منال، بینک اکاؤنٹس، انوسٹمنٹس اور کاروباری مفادات عرب و عجم کے ملکوں میں ہیں اور پاکستان کے کرپٹ مافیہ کو ساری دنیا جانتی اور اچھی طرح پہچانتی بھی ہے، ایسے میں کون سی حکومت ہے جو اس بات کا رسک لے گی کہ جس ملک کے کرسی نشین اپنے ہی ملک میں باہر سے اپنی انوسٹمنٹ نہیں لانا چاہتے، وہ آکر ایسی اکانومی میں انوسٹمنٹ کرے؟ جہاں کے بڑے اپنے ملک میں انوسٹمنٹ کرنے سے ڈرتے ہیں۔‘‘
[روزنامہ دنیا]
پاکستان | اظہارِ رائے پر قدغن اور ریاستی اداروں کا بحران
پاکستان اس وقت ایک انتہا درجے کے آمرانہ اور ظالمانہ نظام میں جکڑا ہوا ہے جس میں آزادی اظہار رائے پر یا پھر دوسرے الفاظ میں حق بات کہنے پر پابندی ہے۔ صرف اسٹیبلشمنٹ اور حکمرانوں کی خوشامد اور ان کے ہر فیصلے کو حق کہنے کی آزادی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو حقیقت میں پاکستان کے حالات ہیں، اب الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں نظر نہیں آتے۔ اخبارات کے کالم ٹٹولے جائیں تو حقیقی مسائل پر کہیں بات نہیں ہوتی۔ ایسا لگتا ہے جیسے لکھاریوں کے پاس قلم اٹھانے کے لیے موضوع ختم ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر حقیقی مسائل پر اٹھنے والی چند آوازیں تو موجود ہیں لیکن یہ آوازیں بھی انتہائی غیر اخلاقی، بدتہذیب لبرلز اور دین بیزار طبقے کی گالم گلوچ اور بے مقصد بحث و مباحثے میں دب کر رہ جاتی ہیں۔ اس طرح من حیث القوم ہم شدید اخلاقی زوال کی طرف تیزی سے گر رہے ہیں۔
جمہوری نظام کی علامت قومی اسمبلی اور سینیٹ میں وہی ٹولہ نظر آتا ہے جو دہائیوں سے صرف ملکی دولت لوٹنے برسر اقتدار آتا ہے۔ انتظامیہ اوپر سے لے کر نیچے تک کرپٹ افسران سے بھری پڑی ہے۔ رہ گئی عدلیہ جہاں ایک عام آدمی کو انصاف نہیں مل سکتا اور وہاں خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے دھونس، دھمکی اور بلیک میلنگ کر کے اہم فیصلوں کو اپنے مطا ق کروایا جاتا ہے۔ جس ملک میں منصف کو ہی انصاف نہ ملے وہاں عام آدمی کو کیسے انصاف کی توقع ہو؟
حکمرانوں کے خلاف بولتی ہر زبان کو خاموش کروانے کے لیے نت نئے قوانین پاس کروائے جا رہے ہیں۔ جن میں حالیہ پاس ہونے والا ہتک ِ عزت کا قانون ہے، تاکہ حکمران ٹولہ جو بھی کرے ان پر تنقید کرنے والا کوئی نہ ہو۔
ذیل میں اسی متعلق کالموں سے چند اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں
ریاست، ادارے اور بحران| نسیم شاہد
’’……جب کسی ریاست کا بحران عروج پر ہوتا ہے تو اس ریاست کے ادارے ایک دوسرے سے الجھ پڑتے ہیں اور سماج کے مختلف طبقات ایک دوسرے کا گریبان پکڑ لیتے ہیں۔…… اس بات کے تناظر میں آج کے پاکستان کو دیکھا جائے تو لگتا ہے یہاں بھی بحران عروج پر ہے۔ ریاست کے ادارے ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہیں اور طبقات کے درمیان ایک واضح محاذ آرائی جاری ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ اسے کوئی روکنے والا بھی نہیں ۔ سپریم کورٹ میں جب نیب آرڈیننس کے حوالے سے سماعت ہو رہی تھی تو وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ جملہ بھی زیر بحث آیا کہ بعض جج کالی بھیڑوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس تھے، ہم کالی بھیڑیں نہیں بلکہ کالے بھونڈ ہیں۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ کالی شہد کی مکھی خود سے نہیں کاٹتی البتہ اسے چھیڑا جائے تو حملہ کر دیتی ہے۔ اس سے پہلے اسی عدلیہ نے چھ ججوں نے ایک خط لکھ کر یہ الزام بھی لگایا کہ اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے ان کے اختیارات میں مداخلت ہو رہی ہے، یہاں تک بھی کہا گیا کہ دھمکیاں مل رہی ہیں اور فیصلوں سے روکا جا رہا ہے، گویا اس وقت عدلیہ انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر نہیں بلکہ معاملہ سنگینی کی طرف جا رہا ہے۔ یہ ریاست کا ایک بڑا بحران ہے۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک دوسرے کی حدود کو تسلیم نہیں کیا جا رہا اور من مانی کی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے بہت عجیب لگتا ہے کہ ہم ایک متفقہ آئین رکھتے ہیں جس میں ہر ادارے کی حدود و قیود کا تعین کر دیا گیا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ آئین میں عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کا ذکر ہے، اسٹیبلشمنٹ کا کہیں ذکر نہیں جو اب ایک بڑا ہوّا بن کر سامنے آ چکی ہے۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ آئین بنانے والوں کے نزدیک انتظامیہ میں اسٹیبلشمنٹ بھی شامل تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا واضح طور پر اپنا وجود ہے اور اس کے اختیارات بھی یوں نظر آتا ہے کہ سب سے زیادہ ہیں۔ ‘‘
[روزنامہ پاکستان]
میڈیا مخالف قوانین کی بھرمار| مظہر عباس
’’لگتا ہے ’فائروال‘ کے ذریعے میڈیا کو دیوار میں چننے کی تیاری مکمل ہے۔ اب پتہ نہیں ٹارگٹ میڈیا ہے یا ’ڈیجیٹل پی ٹی آئی‘۔ ہر دو صورتوں میں نقصان مسلم لیگ نون اور موجودہ حکومت کا ہو گا، جو میڈیا مخالف قوانین لانے میں نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔
یہاں صحافی مارے جا رہے ہیں، میڈیا زیر عتاب ہے، سنسر شپ ہے، ٹارگٹ صرف میڈیا ہے۔ میڈیا میں ’ہتکِ عزت‘ کے قانون کو جو ۲۰۰۲ء میں لایا گیا تھا چند تحقیقات کے بعد مان لیتا ہوں مگر اس وقت بھی کہا اور آج بھی کہتا ہوں کہ حکومتوں کی نیتوں کا فتور دکھائی دیتا ہے۔ آپ بہتر نہیں کرنا چاہتے، ٹارگٹ کرنا چاہتے ہیں مخالفین کو، میڈیا پر جب بھی سنسر شپ لگتی ہے تو سمجھ لیں میڈیا کچھ تو اچھا کام کر رہا ہے۔
اگر صحافی شہید ہو رہے ہیں، لاپتہ ہو رہے ہیں، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو یہ جان لیں کہ میڈیا اچھا کام کر رہا ہے۔ ۱۸۵۷ء سے لے کر آج تک صحافت کو قابو کرنے کے لیے کالے قوانین لائے گئے، کل یہ کام انگریز کر رہا تھا، آج کالے انگریز اور ان کے غلام۔
……یاد رکھیں پابندیاں یا سختیاں کبھی مسئلے کا حل نہیں پیش کرتیں، یہ آمرانہ سوچ ہے۔ جب سوشل میڈیا نہیں تھا، سنسر شپ تو تب بھی تھی، پرنٹ کا زمانہ ہو یا الیکٹرانک میڈیا کا، سنسر شپ کا تعلق کسی نئے میڈیم سے نہیں بلکہ اظہارِ رائے کے خوف سے ہے۔ یہ جو’ڈیجیٹل جن‘ اب بوتل میں جانے کو تیار نہیں، بہتر ہے اسے خطرہ نہیں چیلنج کے طور پر لیں۔‘‘
[روزنامہ جنگ]
ہم کہاں کھڑے ہیں؟| حامد میر
’’ہتکِ عزت کا قانون پاکستان کے عام آدمی کا مسئلہ نہیں ہے، اس قسم کے قوانین کا مقصد صرف اور صرف صحافیوں کا بازو مروڑنا ہے اور ان کے ہاتھ میں زنجیریں پہنانا ہے۔ پیکا قانون کے تحت عمران خان کے خلاف تو انکوائری بھی ہو سکتی ہےا ور ان کے خلاف غداری کا مقدمہ بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن میرے جیسا کوئی صحافی اس پیکا قانون کے تحت ایف آئی اے کو درخواست دے تو معاملہ آگے نہیں بڑھتا۔ شکر ہے ہم عوام میں شامل ہیں خواص میں نہیں ہیں۔ کیونکہ پیکا قانون بھی عوام کے لیے نہیں خواص کے لیے بنایا گیا ہے۔ اب ہتکِ عزت کا قانون بھی عوام کے لیے نہیں خاص لوگوں کے لیے بنایا گیا ہے۔
ہتکِ عزت کا قانون جس عجلت میں منظور ہوا اور جس پراسرار انداز میں قائم مقام گورنر نے اس پر دستخط کیے اس سے واضح ہے کہ آنے والے دنوں میں اس قانون کو صحافیوں اور مسلم لیگ نون کے مخالفین کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ کل کو اگر تحریک انصاف دوبارہ حکومت میں آ گئی تو وہ بھی آزدیٔ صحافت کے خلاف نت نئے قوانین بنائے گی اور پھر مسلم لیگ نون آزادیٔ صحافت کی علم بردار بننے کی کوشش کرے گی۔ ہم تو وہیں کھڑے رہیں گے جہاں پہلے سے کھڑے ہیں لیکن اب ہمیں پاور پالیٹکس کرنے والے سیاست دانوں کے بارے میں اپنا رویہ تبدیل کرنا چاہیے اور ان کی منافقت کا پردہ چاک کرنا چاہیے۔‘‘
[روزنامہ جنگ]
پاکستان | سیو غزہ مہم
ویسے تو ۸ اکتوبر سے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت اور ظلم و استبداد کے خلاف پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی مظاہرے اور جلسے جلوس نکالے گئے اور احتجاج بھی ہوئے لیکن کوئی بھی قابل ذکر نہیں رہا۔ البتہ سابق سینیٹر مشتاق احمد کی شروع کردہ ’سیو غزہ مہم‘ ضرور قابل ذکر ہے جس کے تحت رفح پر اسرائیلی حملے کو رکوانے کے لیے حکمرانوں پر دباؤ ڈالنے اورپاکستانی قوم کو فلسطین کے حوالے سے بیدار کرنے کے لیے اسلام آباد ڈی چوک پر دھرنا شروع کیا جو ایک ماہ سے زائد عرصے تک جاری رہا۔ اس دوران حکومت کی طرف سے دھرنے کے شرکاء پر تشدد کیا گیا، ان کے خلاف مختلف مقدمات میں ایف آئی آر کاٹی گئی، یہاں تک کہ ۱۹ مئی کو آدھی رات کے وقت جب دھرنے کے شرکاء سو رہے تھے، ایک ’نامعلوم‘ شخص نے شرکاء کو اپنی گاڑی تلے روند دیا، جس کے نتیجے میں دو شرکاء شہید جبکہ تین شدید زخمی ہو گئے۔ اور یہ سب کچھ وہاں موجود پولیس اہلکاروں کے سامنے ہوا جو اس وقت ڈیوٹی پر تھے۔ ان پولیس والوں نے نہ تو اس شر پسند کو روکا، نہ ہی کسی قسم کی مزاحمت کی، جبکہ دھرنے کے شرکاء تڑپتے رہے اور شور مچاتے رہے۔ اگلے دن موبائل سے بنائی گئی ویڈیوز سے ظاہر ہوا کہ وہ آئی ایس آئی کی گاڑی نکلی اور حملہ کرنے والا آن ڈیوٹی اہلکار اور کسی جنرل یا بریگیڈئر کا بیٹا نکلا، لیکن اس کی شناخت چھپا لی گئی۔ اپنے شہداء کی ایف آئی آر درج کروانے کے لیے کئی دن تک دھرنے کے شرکاء نے تھانے کے چکر لگائے لیکن انہیں یہ کہہ کر منع کر دیا گیا کہ مقدمہ ملٹری کورٹ میں درج کیا گیا ہے۔ دھرنے کے شرکاء نے جس طرح دن رات ایک کر کے غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے لیے آواز اٹھائی وہ قابل قدر ہے لیکن ان کی تمام کوششیں بارآور نہ ہو سکیں کیونکہ حکومت ان کے پانچ نکاتی مطالبات ماننے کو تیار نہ تھیں۔ ان پانچ سادہ سے مطالبات میں وزیر اعظم کی طرف سے حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو جوابی خط لکھ کر پاکستان کی حمایت کا یقین دلانا، غزہ کے لیے پاکستانی امداد سے لدہ بحری بیڑہ (فلوٹیلا) روانہ کیا جائے، بین الاقوامی عدالت انصاف میں اسرائیلی نسل کشی کے خلاف جنوبی افریقہ کی طرف سے پاکستان فریق بنے، دھرنے میں گاڑی چڑھانے والے شخص کو قانون کے تحت سخت ترین سزا دی جائے اور لواحقین کو انصاف فراہم کیا جائے۔
یوں تو حکومت پاکستان فلسطین خصوصا غزہ کے مسلمانوں کے لیے کسی بھی قسم کا اقدام اٹھانے سے انکاری ہے، لیکن اچانک بائیس جون کو وزیر داخلہ محسن نقوی نے دھرنے کے شرکاء سے ملاقات کر کے ان کے تمام مطالبات مان لیے اور دھرنا ختم کروا دیا اور اس کے فوراً بعد ہی حکومت نے نئے آپریشن ’عزم استحکام‘ کا اعلان کر دیا۔ یہ نئے آپریشن کے خلاف عوامی ردّ عمل کا سدباب کرنے کی ایک چال تھی، اسی لیے اتنے دن گزر جانے کے باوجود حکومت نے مطالبات پر نہ عمل کرنا تھا نہ کیا۔ سیو غزہ مہم اب بھی جاری ہے لیکن ان کی ساری کوششیں نقار خانے میں طوطی کی آواز کی مصداق ہیں۔
اس حوالے سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔
سیو غزہ مہم کے مطالبات کیا ہیں؟ | غزالہ عزیز
’’پاکستان میں عوام کے دل فلسطین کے لیے تڑپ رہے ہیں لیکن حکومتی سطح پر غزہ کے لیے کوئی تڑپ نظر نہیں آتی۔ سیو غزہ مہم سینیٹر مشتاق احمد اور ان کی اہلیہ بھرپور قوت کے ساتھ چلا رہیں ہیں۔ حکومت بجائے ان کے ساتھ کھڑے ہونے کے ان خلاف اقدامات میں مصروف ہے۔ حمیرہ مشتاق اور مشتاق احمد صاحب کے خلاف دس پندرہ ایف آئی آر کاٹی جا چکی ہیں، ان کو گرفتار بھی کیا گیا پھر عدالتی حکم پر ضمانت پر رہا کیا گیا۔ دھرنے کے لوگوں پر حکومتی ادارے کے حاضر سروس نے گاڑی چڑھا دی۔ مشتاق احمد نشانہ ہو سکتے تھے، لیکن زندگی تھی بچ گئے۔ دو معصوم کارکن شہید کر دیے گئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ غزہ کے معصوم عوام کے لیے چلائی گئی اس مہم میں حکومت منتظمین کے ساتھ کچھ نہ کچھ تو تعاون کرتی۔ لیکن حکومت تعاون کی بجائے انتہائی سخت رویہ رکھے ہوئے ہے۔ حکومت کا یہ سخت رویہ بتاتا ہے کہ ہماری حکومت امریکہ کو خوش کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ ‘‘
[روزنامہ جسارت]
بھارت | الیکشن ۲۰۲۴ء
۴ جون ۲۰۲۴ء کو انڈیا میں لوک سبھا چناؤ (قومی اسمبلی الیکشن) کا نتیجہ آیا اور حسب توقع تیسری بار نریندر مودی نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لیا۔ لیکن اس مرتبہ مودی کا نعرہ ’اب کی بار چار سو پار‘ اپنی موت آپ مر گیا، اور مودی کی جماعت بی جے پی کو اتنے بھی ووٹ نہ ملے کہ سادہ اکثریت سے وزیر اعظم بن سکے بلکہ اتحادیوں (این ڈی اے) کے ساتھ مل کر بی جے پی نے حکومت بنائی۔ انڈیا کے مسلمان اور سیکولر کانگریس اگرچہ الیکشن نہ جیت سکی لیکن مودی کو مکمل کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اس طرح کانگریس اور مسلمان ہار کر بھی خوشیاں مناتے رہے اور مودی کا جیت کر بھی منہ لٹکا رہا۔
عددی اعتبار سے انڈیا کی لوک سبھا (قومی اسمبلی) میں حکومت بنانے کے لیے ۲۷۲ سیٹوں کی سادہ اکثریت کی ضرورت تھی، اگرچہ بی جے پی خواب تو چار سو سے زیادہ سیٹوں کے دیکھ رہی تھی لیکن وہ صرف دو سو چالیس نشستیں ہی لے پائی جس کی وجہ سے بی جے پی نے ’تلگو دیشم‘ نامی پارٹی کے ’چندرا بابو نائیڈو‘ اور ’نتیش کمار‘ کے ساتھ مل کر حکومت بنائی اور اس وقت کانگریس کے بنائے ہوئے ’انڈیا‘ (INDIA) نامی اتحاد، جسے مسلمانوں نے بھی ووٹ دیا ، مضبوط اپوزیشن میں ہے۔ خاص کر کے اتر پردیش میں، جہاں بابری مسجد کی جگہ مودی نے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف اپنے ساتھ ملانے کے لیے رام مندر بھی بنوایا، وہاں کی ۸۰ میں سے صرف ۳۳ نشستیں حاصل کرکے بی جے پی بہت بری طرح ناکام ہوئی۔ ایسے میں انڈیا کو ہندو راشٹر بنانے کے مودی اور سنگھ پریوار کے خواب کو ایک جھٹکا ضرور لگا ہے۔ لیکن کیا مودی کی کمزور حکومت سے انڈیا کے مسلمانوں کو کوئی اچھی امید رکھنی چاہیے؟ اس بارے میں وہاں کے صحافی کیا امیدیں رکھتے ہیں چند اقتباسات ملاحظہ ہوں۔
کیا بی جے پی وہ کر پائے گی جو کرنا چاہتی ہے؟ | رام پنیانی
’’مودی کے پچھلے دس سالہ دور حکمرانی میں اقلیتوں پر مختلف بہانوں سے مظالم ڈھائے گئے۔ حکومتوں کی سرپرستی میں مسلم نوجوانوں کو ہجومی تشدد کے ذریعے قتل کیا گیا۔ قاتلوں اور حملہ آوروں کے خلاف کاروائی کی بجائے انہیں اعزازات سے نوازا گیا۔ اقلیتوں کے ساتھ تعصب اور جانب داری کا بدترین مظاہرہ کیا گیا۔ چونکہ اب مودی اور بی جے پی کو اکثریت حاصل نہ ہو سکی ، اس لیے وہ ’چندرا بابو نائیڈو‘ اور ’نتیش کمار‘ کی بیساکھئیوں کے سہارے حکومت بنائے ہیں۔ ایسے میں شرپسندوں کے ہاتھوں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کو ستائے جانے، ڈرائے دھمکائے جانے اور قتل کیے جانے کے واقعات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ فرقہ پرستی اور فرقہ پرستوں کے گندے عزائم ہمارے سسٹم میں بری طرح پیوست ہو گئے ہیں۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’نتیش کمار‘ اور ’چندرا بابو نائیڈو‘ جیسے اتحادی اس پھیلے ہوئے مسلم مخالف تشدد کے خلاف آواز اٹھا پائیں گے یا نہیں؟ یہ دیکھنا باقی ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ مودی اور بی جے پی کے زورِ بازو کے ہتھکنڈوں کے خلاف یہ دونوں کتنے کارآمد ہو سکتے ہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ہندوتوا تحریک کی طرف سے پھیلائی گئی نفرت اس قدر معاشرے میں سرائیت کر گئی ہے کہ اسے کم کرنا شاید آسان نہ ہو۔ ہاں اس بات کا امکان ہے کہ ہندوستانی سیاست کے تیسرے ستون ’یونیفارم سول کوڈ‘ کو ٹال دیا جائے گا۔ دوسری طرف شہریت ترمیمی قانون ہے، جو مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ قانون مسلمانوں پر ایک ننگی تلوار کی طرح لٹک رہا ہے۔ اب وقت ہی بتائے گا کہ بی جے پی اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے کتنا دباؤ ڈالے گی۔ امید ہے کہ بی جے پی اس پر زیادہ اصرار نہیں کرے گی، جب تک کہ وہ یہ محسوس نہ کرے کہ وہ ’چندرا بابو نائیڈو‘ اور ’نتیش کمار‘ کے باوجود، جو ان معاملات میں زیادہ حکمت عملی رکھتے ہیں، اپنا راستہ روک سکتے ہیں۔ یہاں اس بات کو نوٹ کرنا ضروری ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ اَمِت شاہ نے بار بار یہی کہا ہے کہ مسلمانوں کو دیے جانے والے تحفظات کو ختم کر دیں گے۔ مودی نے تو انتخابی مہم میں یہاں تک کہہ دیا کہ جب تک وہ زندہ ہے مسلمانوں کو تعلیمی اداروں اور ملازمتوں میں تحفظات دینے کی اجازت نہیں دیں گے۔ لیکن ’چندرا بابو نائیڈو‘ نے ’این ڈی اے‘ کا حصہ رہتے ہوئے ببانگ دہل یہ کہا ہے کہ وہ اور ان کی پارٹی ’تلگو دیشم‘ مسلمانوں کو تحفظات دیے جانے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ آندھرا پردیش میں انتخابی مہم کے دوران مودی اور امت شاہ نے مسلم تحفظات ختم کرنے کی بات نہیں کی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’چندرا بابو نائیڈو ‘ این ڈی اے میں کتنا اثر رکھتے ہیں۔……
مسلم مخالف سوچ معاشرے کے ایک بڑے طبقے کے ادراک کا حصہ بن چکی ہے ۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کے کاموں بلکہ کارستانیوں کو کارناموں کے طور پر نصابی کتب میں شامل کیا جا رہا ہے۔ ان کے نظریات کے فروغ میں میڈیا بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ لوگ مذہبی خطوط پر عوام کو تقسیم کر کے ان میں پھوٹ ڈال کر اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں۔ ‘‘
[روزنامہ سیاست]
’این ڈی اے‘ حکومت جسے دوا سے زیادہ دعا کی ضرورت ہے | ندیم عبد القدیر
’’جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان کے لیے این ڈی اے کی یہ حکومت ٹھیک ہی ہے ۔ اگرآپ غور کیے ہوں تو معلوم ہو گا کہ نتائج کے دن سے ہی لفظ ’ہندو راشٹر‘ پورے منظر نامے سے غائب ہے۔ اس کے علاوہ ’این آر سی‘، ’یکساں سول کوڈ‘ ، ’گیان واپی مسجد‘، اور ’متھرا عید گاہ مسجد‘ کے معاملات پر بھی ایک خاموشی ہی چھائی ہوئی ہے۔ مسلم ریزرویشن کی مخالفت پر تو بی جے پی کی حالت اور بھی خراب ہے۔ بی جے پی نے پورے الیکشن میں مسلم ریزرویشن کی مخالفت میں اپنی پوری طاقت جھونک دی۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ خود اس کے محاذ کی اہم حلیف ’تلگو دیشم‘ اپنی ریاست میں مسلمانوں کو چار فیصد ریزرویشن دینے کا وعدہ کر چکی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ تلگو دیشم نے اپنی ریاست کے حاجیوں کو ایک لاکھ روپے کی مالی مدد کا اعلان بھی کیا ہے۔ بی جے پی کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اپنی حلیف جماعت کی ان پالیسیوں کی مخالفت کرے۔ لاؤڈ سپیکر سے اذان، سڑکوں پر نماز کے موضوعات بھی سرد خانے کی نظر ہو گئے۔ کیونکہ ’چندرا بابو نائیڈو‘ کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہو رہا ہے جس میں ’چندرا بابو نائیڈو‘ عید الفطر کی نماز ادا کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور یہ نماز مسجد میں نہیں ہو رہی۔ حجاب کے معاملے پر سکوت ہی ہے۔ نتیش کمار بھی مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کے حق میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ریزرویشن کسی کمیونٹی کو خوش کرنے کا عمل نہیں بلکہ سماجی انصاف کا تقاضہ ہے۔ این آر سی کے موضوع پر بھی نتیش کمار راضی نہیں ہیں۔ یعنی ہندو ووٹروں کو رجھانے کے لیے مسلم مخالفت کی سیاست کے اہم موضوعات پر بی جے پی کے پاس اب خاموش رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ بی جے پی کو اپنے بنیادی مسلم مخالف ایجنڈے کو خیر باد کہنا پڑ رہا ہے۔ ان موضوعات پر اب وہ اگلے پانچ سال تک کوئی اسمبلی الیکشن بھی لڑنے کی حالت میں نہیں ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ قدرے تسکین بخش امر ہے۔‘‘
[روزنامہ اردو ٹائمز]
بھارت | لیکشن کے بعد کے حالات
اسے ہندوستانی مسلمانوں کی سادہ لوحی کہیں یا نادانی کہ سیکولر انڈیا سے اپنے حقوق کے لیے امیدیں باندھے بیٹھے ہیں۔ ویسے تو سیکولر نظریے کی حامی کانگریس نے اپنے دور حکومت میں بھی کبھی مسلمان طبقے کے حقوق اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیا، لیکن ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ اپوزیشن میں بیٹھ کر انتہا پسند ہندوؤں کی مسلمانوں کے خلاف متعصابانہ کاروائیوں کے آگے بند باندھ سکیں گے، محض ایک خام خیالی ہے۔
بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے فوراً بعد عید الاضحیٰ کے موقع پر ہندوتوا دی دوبارہ اپنی غنڈہ گردی پر واپس آ گئے۔ کئی جگہوں پر مسلمانوں کی ماب لنچنگ کی گئی۔ گائے کا گوشت فریزر میں رکھنے کا جھوٹا بہانہ بنا کر دسیوں مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا کر انہیں مسمار کر دیا گیا۔کئی جگہ جان بوجھ کر مسلمانوں کو عید الاضحیٰ کی قربانی سے روکنے کے لیے فتنے کھڑے کیے گئے۔ اترپردیش کے علی گڑھ شہر میں ایک مسلمان کو ’چور‘ کہہ کر شہید کر دیا گیا۔ چھتیس گڑھ میں گائے قربانی کا الزام لگا کر تین مسلمانوں کو ماب لنچنگ میں شہید کر دیا گیا۔ مدھیا پردیش میں ایک درجن مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوز کر دیا گیا۔ مدھیا پردیش، چھتیس گڑھ اور اڑیسہ کے علاوہ تلنگانہ کے ضلع میدگ میں قربانی کے جانور کے نام پر دینی مدارس پر حملہ کیا گیا اور کئی لوگوں کو زخمی اور مقامی مسلمانوں کی دکانیں لوٹ لی گئیں۔ یہ سارے واقعات مودی کے نئے دور حکومت کی ابتدا ہیں۔ ان واقعات پر اب مسلمان کیا سوچ رہے ہیں؟ اس حوالے سے ذیل میں چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
گائے کے بہانے مسلمانوں پر بھیانک حملوں کا سلسلہ| ندیم عبد القدیر
’’ظلم کی داستان ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ایسا سمجھا جا رہا تھا کہ ۲۰۲۴ء انتخابات کے بعد مخلوط حکومت کی تشکیل کے سبب وطن عزیز میں مسلمانوں کے شب و روز میں راحت کی کرن نمودار ہو گی۔ لیکن حقیقتاً ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ انتخابات کے بعد پہلی عید الاضحیٰ کے موقع پر ہی ملک بھر میں مسلم نوجوانوں کے قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہو گیا اور ان میں سے کچھ وارداتیں تو پہلے سے زیادہ ہولناک ہیں۔ مدھیا پردیش کے منڈلہ میں گائے کا گوشت فریج میں رکھنے کے نام پر ہندو انتہا پسند غنڈوں نے نہیں بلکہ خود پولیس نے مسلمانوں کے گیارہ مکانات کو انتہائی ظالمانہ طور پر بلڈوزر سے منہدم کر دیا۔ اس معاملے میں گائے کو ذبح کرتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا۔ گوشت گائے کا ہی ہے اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں۔ گوشت کی جانچ بھی نہیں کی گئی بلکہ جانچ سے پہلے ہی مسلمانوں کے گیارہ مکانات کو مسمار کر دیا گیا۔ کوئی جانچ نہیں کوئی شنوائی نہیں، سیدھے سزا اور وہ بھی محض فریج میں گوشت ملنے پر۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پولیس کی دلچسپی یہ جاننے میں تھی ہی نہیں کہ مذکورہ گوشت گائے کا ہے یا بھینس کا۔ (مدھیا پردیش میں بھینس کے گوشت کی اجازت ہے۔) بلکہ پولیس کی ساری دلچسپی مسلمانوں کے مکانوں کو منہدم کرنے میں تھی۔
…… مسلمانوں پر ہونے والے حملوں میں کسی بھی واقعہ میں گائے نہیں پائی گئی اس کے باوجود مسلمانوں کے مکانات کو منہدم کر دیا گیا، مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا۔ کسی بھی حملے میں حملہ آوروں نے یہ پتہ کرنے کی کوشش نہیں کی کہ جانور گائے ہے یا بھینس، بلکہ کئی حملوں میں یہ معلوم ہوجانے کے بعد بھی کہ جانور بھینس ہے، حملہ آوروں نے کسی طرح کی کوئی رعایت نہیں کی۔ اس سے یہ واضح ہے کہ ان حملوں کا درحقیقت گائے کی عقیدت سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔
یہ حملے صرف اور صرف ہندو انتہا پسندوں میں مسلم خون کی پیاس کا حاصل ہے۔ مسلم دشمنی کا نشہ اور اہل اقتدار کی کرم نوازی کا یقین ، ہندو انتہا پسندوں کو مسلمانوں پر حملے کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ ان حملوں کو روکنے کا کام حکومت اور پولیس کا ہے، لیکن اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ حکومت ان حملوں کو روکنے میں کسی طرح کی کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ مسلمانوں پر ہونے والے ان حملوں کا سلسلہ لگاتار جاری رہنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔
……غرض! ایک سو چالیس کروڑ کی آبادی میں ایک شخص بھی ان حملوں کی مذمت میں سامنے نہیں آیا۔ میڈیا، غیر سرکاری تنظیمیں، حقوق انسانی کی آوازیں، سیاسی جماعتیں اور سماجی ادارے، کوئی بھی نہیں۔ یہ علامت ہے کہ پورا سماج سڑ گیا ہے۔ کسی بھی ملک، کسی بھی قوم یا کسی بھی سماج میں تعصب یا نفرت کی سڑاند صرف کچھ خاص لوگوں تک محدود ہوتی ہے۔ سماج کے باقی لوگ اور باقی حصہ اس زہر کے اثر کو کم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں معاملہ ایسا ہے ہی نہیں۔ یہاں سماج کا کوئی بھی حصہ تعصب کے زہر کو کم کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا بلکہ خاموش رہ کر اس کی پوری مدد اور تعاون کرتا ہے۔‘‘
[روزنامہ اردو ٹائمز]
مسلمانوں پر حملے، اتحادیوں کی خاموشی معنی خیز| محمد امین نواز
’’ملک میں مسلمانوں پر بڑھتے ہوئے حملوں پر حکومت کا کوئی رد عمل دیکھنے میں نہیں آیا ۔ کئی اہلکار خاموش رہے اور تشددکی مذمت کرنے میں ناکام رہے۔ بہت سے معاملات میں خود متاثرین کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ ایسی صورتحال میں نتیش کمار اور ’چندرا بابو نائیڈو‘ کی خاموشی معنی خیز ہے۔ان دونوں نے اپنی اپنی ریاست میں مسلمانوں سے بڑے بڑے وعدوں کے سبز باغ دکھا کر اقتدار تو حاصل کر لیا ہے مگر ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہے ظلم و زیادتی اور نا انصافیوں پر آواز اٹھا کر جن ووٹوں سے اقتدار حاصل کیا تھا اور اپنی پارلیمنٹ کی نشستیں لائے ہیں ان کے لیے آواز اٹھائیں گے؟ اگر ایسا نہیں ہو گا تو انہیں جن مسلمانوں نے اقتدار میں بٹھایا ان کو جواب دینا ہو گا۔ ‘‘
[روزنامہ اعتماد]
فلسطین | مظالم کے نو ماہ
غزہ میں اسرائیلی حملے کو نو ماہ ہو گئے ہیں۔ اور ناپاک اسرائیل ظلم و جبر کی تمام حدوں کو پار کر گیا ہے۔ لیکن کسی ایک مسلم ملک نے غزہ کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کوئی آواز یا جنگ رکوانے کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔ اسرائیلی فوج کے رفح کے علاقے میں داخلے کے بعد رفح بارڈر پر بھی اسرائیلی ناپاک فوج کا قبضہ ہے اور غزہ کے مسلمان خوراک اور ادویات کو ترس گئے ہیں۔ کسی بھی قسم کی زمینی امداد جو مصر کے رفح بارڈر سے آ رہی تھی وہ بھی روک دی گئی۔ جیسا کہ اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے غزہ کی مکمل ’ناکہ بندی‘ کا حکم جاری کیا تھا اور کہا تھا کہ کوئی بجلی، خوراک، پانی یا ایندھن غزہ میں داخل نہیں ہو گا۔
غزہ میں فضائی طور پر گرائی ہوئی وہی تھوڑی بہت امداد پہنچ رہی ہے جو زیادہ تر تو سمندر میں گر جاتی ہے، جو تھوڑی بہت غزہ کی سرزمین پر گرتی ہے، اسے پکڑنے کے دوران کئی لوگ حادثوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پچانویں فیصد غزہ کی آبادی قحط کے خطرے سے دوچار ہے اور ہر پانچ میں سے ایک فرد خوراک کی کمی اور بھوک کا شکار ہے۔ جبکہ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ساٹھ فیصد سے زائد زرعی اراضی اسرائیل کے حملوں سے تباہ ہو چکی ہے۔ نو ماہ سے جاری اس جنگ کی وجہ سے کسی قسم کی کاشت بھی ممکن نہیں ہوئی۔ بھوک سے بچے مر رہے ہیں اور بزرگ پتے کھانے پر مجبور ہیں۔ الغرض غزہ کے مسلمانوں کی نسل کشی باقاعدہ دنیا کو بتا کر کی جا رہی ہے۔ اور مسلم ممالک کے حکمران ’صم بکم عمی‘ کے مصداق اپنی دنیا میں مست ہیں۔
دھنیے سے اسرائیلی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں| وسعت اللہ خان
’’اسرائیل غزہ کی روزمرہ زندگی کو ہر اعتبار سے محتاج رکھنے کے معاملے میں اتنا سنجیدہ ہے کہ مئی ۲۰۱۰ء میں اس نے ترکی سے دس ہزار ٹن اشیائے ضرورت لے کر غزہ کی جانب آنے والے بحری قافلے ’فریڈم فلوٹیلا‘ کو بھی نہ بخشا، اور اس امدادی بیڑے کے سب سے بڑے جہاز ’ماوی مرمرا‘ پر اسرائیلی کمانڈوز نے حملہ کر کے نو امدادی کارکنوں کو ہلاک کر دیا اور سامان رسد بھی ضبط کر لیا۔
اس کاروائی کی عالمی سطح پر مذمت کے سبب اسرائیل نے کچھ اشیائے ضرورت کی ترسیل پر پابندی عارضی طور پر نرم کر دی۔ اس نرمی پر انسانی حقوق کی اسرائیلی تنظیم گیشا نے اپنی ویب سائٹ پر طنزیہ تبصرہ کیا کہ ’دھنیے کو غزہ پہنچنے کی اجازت یہ اطمینان کرنے کے بعد دی گئی ہے کہ دھنیا اسرائیلی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں ہے۔‘
اسرائیل نے دہرے استعمال کی ممنوع اشیاء کی فہرست میں پانی اور سیوریج پمپوں کو بھی شامل کر لیا۔ ۲۰۱۸ء میں لگ بھگ ایک ہزار اشیاء کی غزہ کو فراہمی پر پابندی لگا دی گئی۔ ان میں سے عروسی جوڑے، ان سلا کپڑا، پاستا، بسکٹ، مٹھائی، الائچی، دھنیا، ادرک، جیم، اخبارات، نوٹ بکس، ماہی گیری کی ڈور، سلائی مشین، ٹریکٹروں کے فاضل پرزے، موسیقی کے آلات، بچوں کے دودھ کی بوتلیں، بے بی ڈائیپرز، بے بی وائپس، ڈبہ بند خوراک، کھلونے، پین اور پنسلیں، بار برداری کے گدھے، مرغی کے چوزے اور ان چیزوں کی ٹرانسپورٹ میں استعمال ہونے والے ڈبے، کنگھے، بوتل بند پانی، ٹوائلٹ پیپر، پٹرول، گیس سیلنڈرز اور اے فور سائز کے کاغذ بھی شامل ہیں۔
سات اکتوبر کے بعد سویلین اور فوجی استعمال کی دہری اشیاء کی فہرست میں آلات جراحی، مریضوں کو بے ہوش کرنے والی ادویات، وینٹی لیٹرز، آکسیجن سیلنڈرز، ایکس رے مشینیں، بے ساکھیاں، کھجوریں، سلیپنگ بیگ، کینسر کی ادویات، میٹرنٹی کٹس اور پانی صاف کرنے والے آلات بھی شامل کر دیے گئے۔ اور جب تنگ آمد بجنگ آمد غزہ کے باسیوں نے خود کو قید کرنے والی باڑ توڑی تو وہ ظالم اور اسرائیلی مظلوم کہلائے۔ ‘‘
[روزنامہ ایکسپریس]
فلسطین | فلسطین کی نسلِ نو نشانے پر
اسرائیل نے جو باقاعدہ ظلم و بربریت کی داستان رقم کی ہے اس میں اس کا خصوصی شکار فلسطینی مسلمانوں کی نسلِ نو ہے، فلسطینیوں کا مستقبل جسے وہ بالکل ختم کر دینا چاہتا ہے، فلسطینی نسلوں کا صفایا کر دینا چاہتا ہے۔ صرف غزہ میں ہی نہیں بلکہ مغربی کنارے پر دوسری فلسطینی آبادیوں میں بھی صہیونی آئے دن فلسطینی نوجوانوں اور بچوں کو گرفتار کرتے ہیں، شہید کر دیتے ہیں یا سر عام تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ اور اس سب کی شدت ۷ اکتوبر کے بعد سے کئی گنا بڑھ چکی ہے۔
اس حوالے سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
Israel is forcibly disappearing future Palestinian generations | Ramona Wadi
ترجمہ: ’’ سیو دی چلڈرن (Save the Children) نامی ادارے نے غزہ پر اسرائیلی بمباری کے بچوں پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے ایک رپورٹ مرتب کی ہے۔ ہلاکتوں کی کل تعداد میں تینتالیس (۴۳) فیصد تعداد بچوں کی ہے، غزہ میں ساٹھ فیصد سے زیادہ رہائشی عمارتیں اور گھر تباہ ہو چکے ہیں، بعض خاندان مکمل طور پر صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہیں، ان بچوں کی بقاء اور دوبارہ اپنے خاندانوں سے مل جانے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ’بچوں کا پوری رہائشی عمارت کے ملبے تلے دبنے کے بعد بچ جانا ممکن نہیں۔‘ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’دھماکے سے لگنے والے زخموں سے بچوں کی اموات کے امکانات بالغوں سے سات گنا زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ ان کے جسم کمزور اور ابھی نشونما پا رہے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود اسرائیل کا ’صرف‘ حماس کو نشانہ بنانے کا بیانہ ابھی بھی چل رہا ہے، حالانکہ یہ واضح ہے کہ فلسطینیوں کی نوجوان نسل کا خاتمہ اس نسل کشی کرنے والے نو آبادیاتی آباد کار وجود کے لیے زیادہ اہم مقصد ہے۔ جلے ہوئے، کٹے پھٹے، اور مسخ شدہ فلسطینی بچے اب معمول کی بات بن گئی ہے، جو کہ کبھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔
اور فلسطین میں اجتماعی قبروں کی دریافت پر تمام ممکنہ سفارتی حیرانی اور صدمے کے باوجود، بین الاقوامی برادری ابھی تک کوئی بھی قدم اٹھانے میں ناکام رہی ہے۔
…… ’سیو دی چلڈرن‘ کے مطابق ۷ اکتوبر کے بعد سے سترہ ہزار بچے اپنے خاندان سے جدا ہو چکے ہیں یا یتیم ہو چکے ہیں۔ جب عالمی برادری اسرائیل کو سفارتی ڈانٹ پلاتی ہے تو کیا وہ فلسطینی معاشرے پر ایسے اعداد و شمار کے اثرات پر بھی غور کرتی ہے؟ ایک گنجان آباد اور تباہ شدہ زمین کی پٹی میں ، جہاں اسرائیل کے ’تیر بہدف‘(precision) بموں سے، جو فلسطینی شہریوں کو بالکل ’تیر بہدف‘ (precise) نشانہ بنا تے ہیں، ہر روز ملبے کے نئے ڈھیر بنتے جا رہے ہیں، ایسے میں خاندان کا کیا معنی رہ جاتا ہے؟ اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے، اقوام متحدہ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ غزہ میں اس کے ’پائیدار ترقیاتی اہداف‘ (Sustainable Development Goals) اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتے جب تک کہ وہ اسرائیل کااس کے جرائم میں ساتھ دینا ختم نہیں کر دیتا اور جب تک وہ خود کو اور اس نوآبادیاتی آباد کار فریق کو اس نسل کشی کے لیے جوابدہ نہیں ٹھہرا دیتا۔
ان اعداد و شمار پر اسرائیل کوئی ردّ عمل ظاہر نہیں کرے گا، کیونکہ وہ جوابدہی کی کسی بھی آواز پر کان نہیں دھرتا۔ لیکن یہ فلسطینی بچوں کو لاپتہ کرتا رہے گا، تاکہ مستقبل کی فلسطینی نسلوں کی تباہی کو یقینی بنا سکے۔ نسل کشی کی منصوبہ بندی کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے، لیکن بین الاقوامی برادری دکھا رہی ہے کہ ایسا کیا جا سکتا ہے۔ دریں اثناء، کٹے پھٹے اور جلے جھلسے بچوں کی مزید تصویریں ہماری سکرینوں کو بھرتی جا رہی ہیں، جبکہ اسرائیل ’حماس کو تباہ کرنے‘ میں کامیابی حاصل کرنے کی ڈینگیں مار رہا ہے۔ اور یہ ایک ایسا بیانیہ ہے جسے چیلنج کرنے کے لیے کوئی ایک مغربی حکومت بھی تیار نہیں۔ حماس ایک ضرورت سے پیدا ہونے والا نظریہ ہے، اور جب تک یہ ضرورت موجود رہے گی، حماس موجود رہے گی۔ لیکن، وہ بچے جنہیں اسرائیل ’حماس سے لڑنے‘ کے بہانے قتل کر رہا ہے، وہ کبھی واپس نہیں لوٹیں گے، اور بالکل یہی اسرائیل چاہتا ہے: آج ان کے مستقبل کو قتل کر کے فلسطین کی مقامی آبادی کا خاتمہ۔‘‘
[Middle East Monitor]
فلسطین | نصیرت کیمپ پر حملہ
’سیو دی چلڈرن‘ (Save the Children) کے مطابق اسرائیل اب تک ۷۵ ہزار ٹن کا گولہ بارود فلسطین پر برسا چکا ہے، جو چھ ایٹمی بموں کے مساوی ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ایک گھنٹے میں غزہ میں اوسطاً:
- پندرہ لوگ شہید کیے جا رہے ہیں، جن میں نصف تعداد بچوں کی ہے،
- ۳۵ افراد زخمی ہو رہے ہیں،
- ۴۲ بم گرائے جا رہے ہیں اور
- بارہ عمارتیں تباہ ہو رہی ہیں۔
آٹھ جون کو اسرائیلی فوج نے نصیرت پناہ گزین کیمپ پر ایک بڑا حملہ کیا اور صرف چار یہودی یرغمالیوں کو چھڑانے کے لیے ۲۷۴ فلسطینیوں کا قتلِ عام کیا، جبکہ سات سو فلسطینی شدید زخمی ہوئے۔ اس حملے میں امریکی سپیشل فورسز نے بھی حصہ لیا ، اور بھیس بدل کر امدادی قافلے کی شکل میں گئے۔ جس کی بدولت عام فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد امداد کی امید میں تیزی سے ان کی طرف بڑھی، جس کے جواب میں انہوں نے عام شہریوں پر فائر کھول دیا۔ اس قدر حقیر ہے ان کی نظر میں عام شہریوں کی زندگی……
اس حوالے سے دو اقتباسات ملاحظہ ہوں:
Diamond and coal dust: Slaughter at Nuseirat | Dr Binoy Kampmark
’’نصیرت آپریشن میں فلسطینی شہریوں کی ہلاکت کی بھاری تعداد صدر جو بائیڈن کے لیے اسرائیلی یرغمالیوں کی فلاح و بہبود کی نسبت کم تشویش کا باعث تھی۔ پیرس میں بات کرتے ہوئے بائڈن نے ’چار یرغمالیوں کی بحفاظت بازیابی کا خیر مقدم کیا جو اسرائیل میں اپنے اہل خانہ کو لوٹا دیے گئے تھے‘، اور مزید کہا کہ ’ہم اس وقت تک کام بند نہیں کریں گے جب تک تمام یرغمالی گھر لوٹ نہیں جاتے اور جنگ بندی نہیں ہو جاتی‘۔
نصیرت میں ہونے والے دردناک واقعے کو ہضم کرنا بہت مشکل ہے، حتیٰ کہ بائڈن کے لچکدار معیارات کے مطابق بھی۔ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ’اس پورے آپریشن کو امریکی انٹیلی جنس اور دیگر لاجسٹک سپورٹ سے تقویت دی گئی‘۔ دو اسرائیلی انٹیلی جنس افسران نے بھی تصدیق کی ہے کہ ’اسرائیل میں موجود امریکی انٹیلی جنس اہلکاروں نے ہفتے کے دن بازیاب کروائے جانے والے یرغمالیوں کے حوالے سے کچھ انٹیلی جنس معلومات فراہم کی تھی‘۔ اور ہمیں قاتلانہ فوجی مشینری کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے جسے امریکی دفاعی کمپنیوں نے خوشی سے فراہم کیا۔ اس سے لگتا ہے کہ اسرائیلی یرغمالیوں کی زندگیاں، جنہیں ان کے بچانے والوں نے ’ہیروں‘ کا نام دیا، انمول ہیں، اسرائیلی امریکی پالیسی کے قیمتی پتھر۔ جبکہ دوسری طرف فلسطینی محض کوئلے کی راکھ ہیں، جو ایک طرف بہا دیے جائیں گے۔ ‘‘
[Middle East Monitor]
Collateral genocide in Nuseirat | Belén Fernández
’’۸ جون کو اسرائیلی فوج نے وسطی غزہ کی پٹی میں نصیرت پناہ گزین کیمپ پر حملہ کر کے کم از کم ۲۷۴ فلسطینیوں کو شہید جبکہ ۷۰۰ کے قریب کو زخمی کر دیا۔ بین الاقوامی برادری کے متعلقہ طبقے نے حسب معمول نے ردّ عمل کے طور پر وہی غیر مؤثر تذبذب کا اظہار کیا: یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے سربراہ جوسپ بوریل نے اسرائیل کی جانب سے تازہ ترین ’شہریوں کے قتل عام‘ کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ یہ خون کی ہولی فوری طور پر ختم ہونہی چاہیے۔‘……
……درحقیقت، فلسطینیوں کے زندگی کے بارے میں صریح لاپرواہی، اس جنگ کے تناظر میں شاید ہی چونکا دینے والی بات ہو جس نے سرکاری طور پر غزہ میں ۳۷ ہزار سے زائد لوگوں کو صرف آٹھ ماہ سے کچھ اوپر عرصے میں قتل کر دیا۔ ملبے تلے دبی لاشوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، اصل ہلاکتوں کی تعداد بلاشبہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔
جہاں تک بات ہے دنیا کے سب سے بڑے کھلاڑی کی، امریکی صدر جو بائیڈن نے پیرس میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران چار یرغمالیوں کی واپسی کی تعریف کی اور مزید کہا: ’ہم اس وقت تک کام بند نہیں کریں گے جب تک تمام یرغمالی گھر لوٹ نہیں جاتے اور جنگ بندی نہیں ہو جاتی‘۔
اس سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے: جنگ بندی کبھی بھی کیسے ہو سکتی ہے؟ یا بوریل کے الفاظ میں، یہ خون کی ہولی کیسے ختم ہو سکتی ہے، جبکہ امریکی صدر خود بنیادی طور پر یہ خون کی ہولی کھیلنے پر اسرائیل کی تعریف کر رہا ہے؟
…… بائیڈن نے خبردار کیا تھا کہ وہ جنوبی غزہ کی پٹی میں رفح پر مکمل حملے کی صورت میں اسرائیل کو مزید جارحانہ ہتھیار فراہم نہیں کرے گا، کیونکہ ، اس کے بقول، ’ان بموں کے نتیجے میں غزہ میں شہری ہلاک ہوئے ہیں۔‘ اور پھر بھی یہ اچانک ایک غیر ضروری بات ہو گئی کہ شہری مارے جاتے رہیں کیونکہ سارا معاملہ یرغمالیوں کا ہے۔
…… ۶ جون کو اقوام متحدہ کے زیر انتظام چلنے والے سکول پر اسرائیلی حملے سے وہاں پناہ گزین فلسطینیوں میں سے کم از کم چالیس ہلاک ہو گئے۔ الجزیرہ کو ہتھیاروں کے ٹکڑوں کا تجزیہ کرنے پر انکشاف ہوا کہ اس میں امریکی ساختہ پرزے تھے۔
ایسا لگتا ہے کہ بائیڈن کا انتباہ بھی ’کولیٹرل‘ نقصان بن گیا ہے، یا شاید نسل کشی اب مکمل طور پر معمول کی بات بن گئی ہے۔‘‘
[Al Jazeera]
فلسطین | غزہ کے حوالے سے عرب ممالک سے خفیہ ساز باز
فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے مذموم عزائم پوری دنیا پر عیاں ہیں۔ ایسے میں عرب ممالک کے حکمرانوں کی بے غیرتی اور منافقانہ کردار بھی آشکار ہو رہا ہے کہ کس طرح وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے پیٹھ پیچھے ان کے دشمن کے ساتھ ساز باز کر رہے ہیں۔ اس وقت اسرائیل جانے والا تجارتی راستہ بھی تمام عرب ممالک کی سرزمینوں سے گزر کر اسرائیل پہنچ رہا ہے۔ جب کہ فلسطینی مسلمان روٹی کے ایک ایک لقمے، صاف پانی اور ادویات کو ترس رہے ہیں۔
اسی طرح کی ایک خفیہ میٹنگ کے بارے میں مڈل ایسٹ مانیٹر پر ایک لکھاری پردہ اٹھاتے ہیں:
Why the US plan to introduce Arab forces into Gaza will fail | Feras Abu Helal
’’امریکی ویب سائٹ Axios کے مطابق، اسرائیل کے چیف آف آرمی سٹاف نے مشرق وسطیٰ میں مشترکہ امریکی افواج کے سربراہ کی موجودگی میں پانچ عرب آرمی کمانڈروں سے بحرین میں ملاقات کی۔ ملاقات کا مقصد اسرائیلی جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ کی صورتحال کو سنبھالنے کے لیے آپشنز پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔ واشنگٹن کا ماننا ہے کہ ایک آپشن یہ ہے کہ عرب افواج کو مقبوضہ اور محصور فلسطینی سرزمین میں داخل کر دیا جائے۔
ناکامی اس آپشن کا مقدر ہے۔ یہ خطے کے بارے میں امریکی ابہام اور غلط فہمیوں کی محض ایک اور مثال ہے۔
Axiosکے مطابق یہ ملاقات خفیہ طور پر منعقد کی گئی اور پانچ عرب ممالک، مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن اور بحرین، کے اعلیٰ حکام نے اس میں شرکت کی۔ شاید رازداری رکھنے کی وجہ یہ ہو کہ عرب افواج اور غاصب ریاست کے درمیان اس طرح کا مطلوبہ تعاون عرب دنیا میں ایک غیر مقبول پالیسی ہے۔……
……فلسطین اسرائیل تنازع سے وابستہ عرب ممالک نے ایک سے زیادہ مواقع پر کہا ہے کہ وہ اس طرح کے تعاون کی پیش کش اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک کہ یہ دو ریاستی حل پر مبنی جامع سیاسی معاہدے کا حصہ نہ ہو۔ مغربی اور اسرائیلی تجزیہ کاروں کے مطابق، اگر حماس کا خاتمہ نہ کیا گیا تو نہ فلسطینی اتھارٹی اور نہ ہی عرب ممالک غزہ پر حکومت کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکیں گے۔ تاہم غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی فوجی جارحیت کے آغاز کو آٹھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد ، امریکی اور دیگر صہیونی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے ماہر تجزیہ کار بھی جانتے ہیں کہ وہ مقصد جسے نیتن یاہو نے پچھلے اکتوبر سے خوب اچھالا ہے یعنی حماس کو ’ختم کرنا‘ ناممکن ہے۔
بہرحال، یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ واشنگٹن دو ریاستی حل کے مطابق نیتن یاہو پر کوئی سیاسی حل نہ مسلط کرنا چاہتا ہے، اور نہ ہی کر سکتا ہے۔
قابض فوج کی حماس کو ختم کرنے میں ناکامی اور فلسطین اسرائیل تنازع کا ایک جامع حل پیش کرنے میں واشنگٹن کی ناکامی، جنگ کے خاتمے کے بعد عرب افواج کے غزہ میں داخل ہونے اور کنٹرول سنبھالنے کو تقریباً ناممکن بنا دیتی ہے۔
امریکہ کو سمجھنا ہو گا کہ وہ فلسطینی عوام کے جائز حقوق کے ساتھ ساتھ عرب عوام کی امنگوں اور فلسطین پر ان کے مؤقف کو مد نظر رکھے بغیر نہ مشرق وسطیٰ میں اپنے مقاصد حاصل کر پائے گا اور نہ ہی غزہ میں اپنے منصوبے مکمل۔ اگر واشنگٹن پورے خطے کے لوگوں کے مفادات کو مد نظر رکھے بغیر مشرق وسطیٰ کو کنٹرول کرنے کے بارے میں اپنے آپ کو اور باقی سب کو دھوکہ دینا بند نہیں کرتا تو پھر ناکامی اس کا مقدر ہے۔ ‘‘
[Middle East Monitor]
فلسطین | اختتامیہ
غزہ میں دن بدن تباہی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسرائیل اپنے ظلم و جبر میں موجودہ دور کا فرعون بنا بیٹھا ہے اور ہم، پوری امت مسلمہ خاموش تماشائی بنی دیکھ رہی ہے۔ جن کے ضمیر مردہ نہیں ہوئے وہ آواز اٹھا رہے ہیں، لیکن عملی طور پر پوری امت مسلمہ ناکام ہو چکی ہے۔ پیارے نبی ﷺ کی اس حدیث کے مصداق جس میں انہوں نے فرمایا تھا:
يُوشِکُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَی عَلَيْکُمْ کَمَا تَدَاعَی الْأَکَلَةُ إِلَی قَصْعَتِهَا فَقَالَ قَائِلٌ وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ قَالَ بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ کَثِيرٌ وَلَکِنَّکُمْ غُثَائٌ کَغُثَائِ السَّيْلِ وَلَيَنْزَعَنَّ اللَّهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّکُمْ الْمَهَابَةَ مِنْکُمْ وَلَيَقْذِفَنَّ اللَّهُ فِي قُلُوبِکُمْ الْوَهْنَ فَقَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْوَهْنُ قَالَ حُبُّ الدُّنْيَا وَکَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ
’’قریب ہے کہ تم پر دنیا کی اقوام ایسے چڑھ آئیں گی جیسے کھانے والوں کو کھانے کے پیالے پر دعوت دی جاتی ہے۔ کسی نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ کیا ہم اس زمانہ میں بہت کم ہوں گے ؟ فرمایا کہ نہیں! بلکہ تم اس زمانہ میں بہت کثرت سے ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ہوگے اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہاری ہیبت و رعب نکال دے گا اور اللہ تعالیٰ تمہارے قلوب میں وہن ڈال دے گا۔ کسی کہنے والے نے کہا، یا رسول اللہ ﷺوہن کیا چیز ہے؟ فرمایا کہ دنیا کی محبت اور موت سے کراہت۔‘‘ (مسند احمد)
ایک طرف معصوم بچوں کی کٹی پھٹی لاشیں، پاکیزہ خواتین کی آہ و زاریاں، بھوک سے بلبلاتے امدادی ٹرکوں کے پیچھے بھاگتے لوگ، اسرائیلی قید سے آزاد ہوئے بدر دہلان کی پھٹتی آنکھیں، انسانیت سوز اسرائیلی جیلوں میں ہر روز ظلم تو تشدد کا شکار ہزاروں کی تعداد میں معصوم لوگ۔ جبکہ دوسری طرفاپنے بھیانک جرائم کی ویڈیو بنا کر اسے سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر کے قہقہے لگاتے ناچتے صہیونی درندے، شجاعیہ کیمپ میں ساٹھ سالہ بوڑھی خاتون پر خونخوار کتا چھوڑ کر اس کی ویڈیو دنیا کو دکھانے والے گیدڑ……
فلسطینیوں کی نسل کشی اس وقت پوری دنیا کی ٹی وی اور موبائل سکرینوں پر براہ راست اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ چل رہی ہے۔ مسلمان ممالک میں ہم جنس پرسوں کے حقوق اور خواتین کے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتی سول سوسائٹی اور این جی اوز کو اس معاملے میں چپ لگ گئی ہے۔ مسلم ممالک کے حکمران تو ایسی دبی آوازوں میں فلسطینیوں کے حقوق کی بات کر رہے ہیں کہ کہیں آواز اونچی ہو گئی تو ان کے سروں پر امریکی جوتے پڑیں گے۔ کوئی صلاح الدین ایوبی نہیں کہ اٹھ کر بیت المقدس کو آزاد کروائے، یا کم از کم ظلم تو رکوائے۔ لیکن پھر بھی غزہ کے نہتے مجاہدین ڈٹے ہوئے ہیں اور عظمت و بہادری کی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ کم از کم مسلم امت کی عوام کو تو یک زبان ہو جانا چاہیے۔ صہیونیوں اور ان کے آلہ کاروں کی ہر سطح پر ناکابندی، بائیکاٹ، مذمت اور جہاں ممکن ہو ان کے مفادات پر ہر طرح کے حملے کر کے انہیں نقصان پہنچانا چاہیے۔ کوئی تو ہو جو ان بےغیرت حکمرانوں کو بھی سر عام رسوا کرے۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے ظالموں کی رسی دراز کر رکھی ہے تو ظلم کے تماش بینوں کو بھی جھوٹ دے رکھی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانی ہے، اس سے پہلے کہ اللہ کی پکڑ آجائے۔
کوئی تو ہو جو محاذوں پہ ان کا ساتھی ہو
کہ جس کے پاؤں تلے ابرہہ کا ہاتھی ہو
کوئی اب آ کے ہنر اپنے آزمائے تو!
عدو کے ٹینک اور توپ کو اُڑائے تو!
٭٭٭٭٭