نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

منشیات کا دھندہ: پاکستانی فوج کی معاشی و اسٹریٹیجک طاقت کا اہم ستون

اریب اطہر by اریب اطہر
30 جولائی 2024
in پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!, جون و جولائی 2024
0

سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی نے اپنے ایک ویلاگ میں انکشاف کیا کہ ملتان میں اربوں روپے مالیت کی منشیات پکڑی گئی، لانے والے فوجی تھے۔ سب نے دیکھا، موٹر وے کئی گھنٹے بند رہی لیکن اس کے باوجود میڈیا میں اس سے متعلق کوئی خبر نہیں ہے۔ جاوید ہاشمی کے اس ویڈیوکلپ کو تحریک انصاف کے حامی کارکنوں اور صحافیوں کی جانب سے وائرل کیا جاتا رہا لیکن ٹی وی چینلز پر یا اخبارات میں اس متعلق کوئی خبر نہ آسکی۔ ایک اور واقعے میں ایک فوجی گاڑی سے ملتان پولیس نے 170 کلوگرام منشیات برآمد کیں، گاڑی میں 4 ایس ایس جی کمانڈو سوار تھے۔ سابق آرمی افسر عادل راجہ اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ منشیات کا استعمال پاکستانی فوج اور سول آرمڈ فورسز میں ایک وبا کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ کشمیر میں ڈیوٹی کرنے والے سپاہیوں کے متعلق تو یہ سبھی جانتے ہیں کہ بارڈر پر بھارتی سپاہیوں کو منشیات دے کر اس کے بدلے پاکستانی فوجی شراب لیتے ہیں۔ رات کو ڈیوٹی کرنے والے اہلکار آئس کا نشہ کرتے ہیں تاکہ جاگتے رہنے میں دقت نہ ہو۔ ایک کلپ اس وقت بھی وائرل ہے جس میں ایک ہم جنس پرست شخص علی سلیم جو عورتوں کا لباس پہن کر کر بیگم نوازش علی کے نام سے میڈیا میں جانا جاتا رہا، ٹی وی چینلز پر اسے خوب پذیرائی دلوائی گئی، یہ شخص ایک ریٹائرڈ کرنل کا بیٹا ہے۔ اس نے اپنے ویڈیو بیان میں فوج اور آئی ایس آئی پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی گندے لوگ ہیں، لڑکیوں کا استحصال کرتے ہیں، میں ان کے سیف ہاؤسز کے ایڈریسز جانتا ہوں اور ان کی پارٹیوں میں شریک رہا ہوں۔ آج اسکول جانے والی عمر کے بچے آئس کے نشے میں مبتلا ہیں، یہ آئس نشہ کون لاتا ہے؟ اس کا اشارہ فوج کی طرف ہی تھا۔ بقول اس شخص کے فوج اسے لڑکیاں فراہم کرنے کے کام پر راضی کرنا چاہتی تھی، جو اسے منظور نہ تھا۔ اس نے اپنے ویڈیو بیان میں چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ وہ اسے سکیورٹی دے کر بلائیں تو وہ ثبوت و تفصیلات دے سکتا ہے۔

پاکستان میں اس وقت سینکڑوں پرائیویٹ چینلز و اخبارات ہیں جن میں ہزاروں صحافی کام کررہے ہیں، اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں مختلف شعبوں میں کام کرنے والی این جی اوز ہیں، اس کے باوجود یہ انتہائی حیران کن بات ہے کہ کسی بھی ادارے، این جی او، ٹی وی چینل یا صحافی کا منشیات کے پھیلاؤ اور اس کے تدارک کے حوالے سے کسی بھی قسم کا تحقیقی کام صفر ہے۔ جو تھوڑی بہت معلومات یا اعداد و شمار پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر نظر آتے بھی ہیں وہ اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم کی روک تھام کے دفتر سے جاری ہوتے ہیں، جو UNODC کہلاتا ہے۔ اقوام متحدہ کا یہ دفتر بین الاقوامی سطح پر منشیات کے استعمال اور ان کی تجارت سے متعلق حقائق جمع کرتا ہے۔ UNODC کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں منشیات اور نشہ آور ادویات کا غیر قانونی استعمال کرنے والے افراد کی تعداد سڑسٹھ لاکھ ہے، اور ان میں بھی سب سے بڑی تعداد پچیس سے لے کر انتالیس سال تک کی عمر کے افراد کی ہے۔ دوسرا سب سے بڑا گروپ پندرہ سال سے لے کر چوبیس سال تک کی عمر کے نوجوانوں کا ہے۔ ان قریب سات ملین افراد میں سے بیالیس لاکھ ایسے ہیں جو مکمل طور پر نشے کے عادی ہیں۔ پاکستان میں منشیات کا استعمال کتنا بڑا مسئلہ ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں جاری جنگ کے نتیجے میں قریب ساٹھ ہزار افراد دس سالوں میں مارے گئے (گو کہ یہ بھی سرکاری دعویٰ ہے) جبکہ امریکی جریدے فارن پالیسی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نشے کی عادت کے سبب ہر سال تقریباً ڈھائی لاکھ ہلاکتیں ہوتی ہیں (ڈی ڈبلیو جون 2016ء)۔ آج ہائی کلاس ایریا کی پارٹیوں سے لے کر مڈل اور لوئر کلاس کے گلی محلوں، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں تک ہرجگہ ہر قسم کا نشہ بآسانی دستیاب ہے۔ پیشہ ور بھکاریوں کے گینگ بچوں کو افیون کھلا کر بھکاریوں کو پکڑا دیتے ہیں اور وہ ان کی گود میں سوئے رہتے ہیں۔ کچھ گینگ ایسے ہوتے ہیں جو لاوارث اور گھر سے بھاگنے والے بچوں کو نشے کی لت میں لگا کر ان سے چوریاں کرواتے ہیں اور جسم فروشی کی طرف بھی دھکیلتے ہیں۔ یہ سب کچھ تو دو دہائیاں قبل دیکھا تھا۔ لیکن اس وقت میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ منشیات کے اس پھیلاؤ کے پیچھے پاکستانی فوج کیوں اور کب سے ملوث ہے؟

مشرف کی جانب سے جب نواز حکومت کا تختہ الٹا گیا اور پھر جب وہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوا، اس وقت اس نے ایک کتاب اپنی صفائی میں سہیل وڑائچ سے لکھوائی ’’غدار کون‘‘۔ اس کتاب میں اس نے اپنے پہلے دور حکومت جو 1990ء سے 1993ء تک تھا، کے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے۔ یہ پڑھ کر بخوبی سمجھ آجائے گا کہ یہ سب کچھ مس مینجمنٹ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ نہایت منظم انداز میں فوج نے اس دھندے کو اپنی معاشی طاقت بڑھانے کے لیے استعمال کیا اور پھر آہستہ آہستہ یہ بزنس جرنیلی تسلط کو مضبوطی فراہم کرنے والے بہت سے گروہوں کا بھی پیشہ یا سائیڈ بزنس بن چکا ہے کیونکہ ادارے انہیں سہولت کاری، مدد اور پروٹیکشن فراہم کرتے ہیں۔

سہیل وڑائچ: پاکستان کے بیشتر وزرائے اعظم کو یہ شکایت رہی ہے کہ خفیہ ایجنسیاں ان سے بالا بالا ہی سارے کام کرتی ہیں۔ اس حوالے سے آپ کا کیا تجربہ رہا؟

نواز شریف: پاکستان میں خفیہ ایجنسیاں بہت منہ زور ہوچکی ہیں۔ صدر اور وزیراعظم کو بتائے بغیر کام کیے جاتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی یہ تصور نہیں ہے کہ خفیہ ایجنسیاں حکومت کی اجازت کے بغیر کام کریں کیونکہ آپ دنیا میں یا ملک کے اندر جو بھی کارروائی کریں اس کی ذمہ داری تو حکومت پر آتی ہے اور اسے ہی دنیا کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔ پاکستان میں غلط کام تو خفیہ ایجنسیاں کرتی ہیں اور جوابدہی حکومت کی ہوتی ہے جسے ان معاملات کا علم ہی نہیں ہوتا۔ مثلاً، میرے پہلے دور حکومت میں ایک بار دو سینئر فوجی جرنیل ملنے آئے، میٹنگ شروع ہوئی تو ایک جنرل نے کہا کہ ’’ملک کی معاشی حالت سنوارنے کے لیے منشیات کو حکومتی سرپرستی میں بیرون ملک بھجوایا جائے، ہیروئن برآمد کرنے سے ملک کی معاشی تقدیر بدل جائے گی‘‘۔ میں اس بات پر حیران ہوا اور میں نے سختی سے پوچھا کہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں تو جنرل نے جھینپتے ہوئے کہا کہ یہ تو صرف تجویز ہے۔ اس پر دوسرے جنرل بولے کہ ’’تمام ترقی یافتہ ملکوں نے بلیک منی سے ہی ترقی کی ہے۔ انگلینڈ ہو یا سوئٹزرلینڈ، یہ سب بلیک منی سے ہی امیر ہوئے تھے۔ امریکہ نے دوسرے ممالک کی دولت لوٹی ہے، ہمیں بھی چاہیے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور ملک کو منشیات کی سمگلنگ سے خوشحال بنائیں‘‘۔ میں نے سختی سے یہ تجویز رد کردی۔

(اقتباس: غدار کون، نواز شریف کی کہانی ان کی زبانی، از قلم سہیل وڑائچ)

بظاہرایسا لگتا ہے کہ فوج بہت پہلے سے منشیات کے دھندے میں کود چکی تھی، بس سیفٹی کے لیے اس وقت کے وزیرعظم کو بھی ساتھ ملانا چاہا۔

میں دوران طالب علمی جس ہاسٹل میں رہا وہاں قریب ہی لاء کالج کے طالب علموں کا بھی ہاسٹل تھا۔ اس وقت وہاں بہت سے دوست بنے جو آج وکالت کے پیشے سے منسلک ہیں۔ پاکستان میں منشیات کے پھیلاؤ کے ایشو پر میری ان سے اکثر و بیشتر بات چیت ہوتی ہے اور اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے تجسس نے مجھے ہمیشہ مجبور کیا کہ میں انہیں کریدتا رہوں۔ ایسا کرتے ہوئے کئی سال ہوچکے ہیں۔ میرے بہت سے دوستوں نے میرا تعارف ان دوسرے وکلاء سے بھی کرایا جو عموماً منشیات کے الزام میں قید ملزموں کے کیسز کا دفاع کرتے ہیں۔ یہ معلومات اتنی زیادہ ہیں کہ شاید ایک کتاب میں ہی ان کا احاطہ ہوپائے گا چہ جائیکہ ایک مضمون میں اسے سمویا جائے۔

جس طرح پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ اور مغربی دنیا کو بے وقوف بنا کر فنڈز اینٹھے ہیں، کچھ یہی حال منشیات کے تدارک کے لیے لڑی جانے والی نام نہاد جنگ کا بھی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو امریکہ و مغرب سمجھ چکے ہیں، تبھی پاکستان کو اب دہشت گردی کی جنگ لڑنے کے نام پر اس طرح بلینک چیک نہیں مل رہے جس طرح ماضی میں ملتے رہے۔ لیکن منشیات کے تدارک کے لیے لڑی جانے والی جنگ کے متعلق چونکہ کوئی تحقیق سرے سے ہوئی نہیں اس لیے دنیا تاحال غافل ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ پاکستان کو انسداد منشیات کی مد میں 24 ملین ڈالر کی رقم فراہم کرچکا ہے۔ جبکہ حالت یہ ہے کہ پاکستانی فورسز منشیات کی کاشت، اسٹاک اور سپلائی سے لے کر صارف تک پہنچنے تک ایک ایک چیز مانیٹر کرتی ہیں، اس سے نفع کماتی ہیں اور کئی ذریعوں سے کماتی ہیں۔ امریکہ اور اقوام متحدہ کو یہ باور کرانے کے لیے کہ پاکستانی فورسز منشیات کے تدارک کے لیے کام کررہی ہیں اور اس میں ملوث لوگوں کو گرفتار کرکے ان پر مقدمات بنارہی ہیں، اینٹی نارکوٹکس ایک طے کردہ تعداد تک لازمی لوگوں کو گرفتار کرکے سزا دلواتے ہیں اور اس سارے پراسیس کے لیے بھاری فنڈز وصول کرتے ہیں۔ اس وقت پاکستان بھر کی جیلوں میں ہزاروں قیدی منشیات کے کیسز میں قید ہیں۔ لیکن ان میں سے اکثریت غریب ڈرائیوروں کی ہوتی ہے جو نئے نئے اس کام کی طرف آتے ہیں اور انہیں اس کام کی طرف لانے والے ہی منشیات کے اسمگلر پکڑوا دیتے ہیں۔ وہ افراد جو اس دھندے میں مال بناچکے ہوتے ہیں اگر کبھی وہ پکڑے جائیں تو وہ ساٹھ ستر لاکھ میں پولیس اور اینٹی نارکوٹکس سے ہی معاملہ طے کرکے چھوٹ جاتے ہیں۔ جبکہ منشیات کو فورسز دوبارہ بیچ دیتی ہیں۔ اگر گرفتاری کے وقت ہی فورسز کے ساتھ معاملہ نہ نمٹے اور کیس بن جائے تو عدالت سے بھی یہ اسمگلر کروڑ ڈیڑھ کروڑ تک معاملہ سیٹل کرلیتے ہیں۔ ججوں سے معاملہ سیٹل کروانے میں خفیہ ایجنسیاں بھی کام کرتی ہیں، (ججوں پر ایجنسیوں کا اثر و رسوخ بھی اس لیے اہم ہے کیونکہ من پسند فیصلے کرواکر وہ اسمگلروں سے بھاری قیمت وصول کرلیتے ہیں)۔ پھر بہت سے ایسے غریب ڈرائیوروں کو بھی منشیات کے مقدمے میں ملوث کردیا جاتا ہے جو سامان ڈیلیوری کی بکنگ لیتے ہیں اور انہیں نہیں معلوم ہوپاتا کہ اس میں کہیں منشیات چھپائی گئی ہے۔ اگر کسی نے کہیں سو بوری پیاز ڈیلیور کرنی ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ سو بوری پیاز کھول کھول کر چیک کرے اور پھر سامان ڈیلیوری کے لیے بک کرے۔ جبکہ مال بک کروانے والا جس نے فقط اینٹی نارکوٹکس والوں کو کیس دینا ہوتا ہے، وہ مال بک کرواکر اطلاع دے دیتا ہے کہ فلاں گاڑی میں اس طرح مال چھپایا گیا ہے۔ ایک شخص جس پر سکیورٹی اداروں پر حملوں میں ملوث ہونے کا الزام ہو، اس سے برآمد ہونے والا اسلحہ کتنے لوگوں سے ہوتا ہوا پہنچا وہ سب تفتیش و انتقام کا حصہ بنتے ہیں، ایسے شخص کے دوست رشتہ دار جن کا اس کے کسی فعل سے کوئی تعلق نہ بھی ہو وہ بھی انتقامی کارروائی کا حصہ بنتے ہیں۔ جبکہ ایک ایسا غریب ڈرائیور جس پر منشیات کی برآمدگی کا الزام ہو، ادارے کبھی یہ ڈھونڈنے کی زحمت گوارا نہیں کریں گے کہ یہ منشیات کتنے لوگوں سے ہوتی ہوئی اس کے ہاتھ پہنچی یا یہ جس سپلائر سے خریدی گئی اسے بھی کیس میں ملوث کیا جائے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا چونکہ امریکہ کو بس یہی بتانا مقصود ہے کہ ہم نے اتنی گرفتاریاں کیں بس اسی طرح خانہ پری کی جاتی ہے۔

اب آتے ہیں ملک بھر میں ترسیل کی طرف۔ ملک بھر میں مختلف گروہ باقاعدہ ان کی سہولتکاری اور اجازت سے ہی منشیات کی ترسیل تمام علاقوں، اسکولوں، کالجوں اور ہائی کلاس ایریا میں ممکن بناتے ہیں۔ کبھی یہ گروہ فوج کی منظور نظر سیاسی جماعت کی چھتری کا بھی سہارا لیتے ہیں۔ اس طرح سیاسی جماعتوں کو ان جرائم پیشہ گروہوں سے منسلک کرکے ایک ہدف یہ بھی ہوتا ہے کہ جب بھی یہ جماعتیں کنٹرول سے باہر نکلیں تو انہیں ان کے غیر قانونی دھندوں سے ہی بلیک میل کیا جائے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں تو بالخصوص اور پورے پاکستان میں بالعموم پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں منشیات کے کاروبار میں ملوث لوگوں کو مجاہدین کے خلاف جاسوسی کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

منشیات کے کاروبار کی سب سے گھناؤنی صورت وہ ہے جو سابق سی ایس پی آفیسر عاشر عظیم اور سابق پیمرا چیئرمین ابصار عالم سمیت کئی افراد بتاچکے ہیں۔ بقول عاشر عظیم تمام بڑے شہروں کے پوش علاقوں جیسے کراچی میں ڈیفنس کا علاقہ ہے وہاں ایجنسیوں نے پرائیویٹ گھر لے رکھے ہیں جہاں پرائیویٹ پارٹیوں کا انتظام کیا جاتا ہے اور ہر قسم کی منشیات فری فار آل میسر ہوتی ہیں۔ یہاں اہم شخصیات کو مدعو کیا جاتا ہے تاکہ انہیں ٹریپ کیا جاسکے۔ ابصار عالم نے بھی اپنے ایک کالم میں انکشاف کیا کہ جن دنوں عمران خان کی حکومت کو فوج سَپورٹ کررہی تھی ان دنوں خفیہ ایجنسی کے افسر اسلام آباد میں روزگار کی تلاش میں آنے والی لڑکیوں کو نشے کی لت میں لگا کر انہیں اہم شخصیات سے تعلقات بنانے اور بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کررہے تھے۔ بہاولپور یونیورسٹی میں بھی ایک ریٹائرڈ فوجی افسر جو یونیورسٹی میں چیف سکیورٹی آفیسر کے طور پر تعینات تھا منشیات اور طالبات کے جنسی استحصال میں ملوث تھا۔

اپنے ایک وکیل دوست سے ہی میں ان لوگوں کے متعلق بھی اکثر پوچھتا رہتا ہوں جو اس دھندے میں ملوث ہوجاتے ہیں، میرے لیے یہ معلومات یقیناً حیران کن تھی۔ اس میں بیچنے والے تو اکثر وبیشتر جرائم پیشہ بدکردار لوگ ہوتے ہیں جن کے لیے حلال حرام صحیح غلط سرے سے کوئی معنی نہیں رکھتا، لیکن منشیات کے الزام میں پکڑے جانے والے ڈرائیوروں کی ایک بڑی تعداد بظاہر دیندار بھی ہوتی ہے۔ ایسے ہی ایک شخص سے جب میرے وکیل دوست نے ملاقات کروائی تو میں نے اس سے پوچھا کہ بھائی آپ یہ حرام کاروبار کیوں کرتے ہیں تو اس نے کہا میں نے چرس سے کاروبار شروع کیا لیکن پھر ہیروئن اور آئس جسے چھپانا زیادہ آسان ہے اور منافع زیادہ ہے، بس پھر میں اس دھندے میں بھی آگیا، دوسری بات علاقے کے اکثر لوگ اس کاروبار میں ملوث ہیں، کاشت بھی ہوتی ہے جس کے لیے سکیورٹی اداروں کو بھتہ دیتے ہیں اور پھر یہاں سے خریدنے والوں کو کبھی بھی پکڑا نہیں جاتا اس لیے بچپن سے بس مانوسیت کہہ لیں کہ ہمارے علاقے میں اس کو برا ہی نہیں سمجھا جاتا۔

اب یہ تو واضح ہے کہ پاکستان کے سکیورٹی ادارے منشیات کے دھندے میں سر تا پا ملوث ہیں اس لیے ان اداروں سے تو توقع ہی فضول ہے کہ وہ منشیات کی روک تھام کے لیے کوئی اقدامات اٹھائیں گے لیکن اس سلسلے میں کیا علماء کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ موجودہ حالات کے تناظر میں اس مسئلے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اس پر کھل کر بات کریں۔ اب جو نئے نشے آرہے ہیں جیسا کہ آئس، ان کے اثرات تو اتنے تباہ کن ہیں جس کا اندازہ وہی لگاسکتا ہے جس کے گھر کا کوئی فرد ایسے کسی مہلک نشے میں مبتلا ہوجائے۔ یہ افراد نشہ حاصل کرنے کے لیے پہلے اپنے گھر سے ہی چوریاں کرتے ہیں پھر باہر چوریاں شروع کرتے ہیں پھر جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ اور اگر خفیہ ایجنسی سے منسلک ہوجائیں تو اپنے نشے کے حصول کے لیے ان کے ہر ناجائز کام کو کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ ایسے بہت سے افراد ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں، کبھی ماں باپ بہن بھائی جیسے اپنے سگے خونی رشتوں کو قتل کر ڈالتے ہیں تو کبھی اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ کلمات کہتے ہیں۔ چونکہ ایسے افراد کی شادیاں بھی نہیں ہوپاتیں اس لیے بہت سے ایسے افراد بچوں سے جنسی زیادتی اور قتل کے بھی مرتکب ہوجاتے ہیں۔

اپریل 2022ء میں امیر المومنین شیخ ہبت اللہ کے ایک حکم نامے کے ذریعے پوست کی کاشت پر پابندی سے قبل افغانستان افیون پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسداد منشیات اور جرائم (UNODC) کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں منشیات کی پیداوار اس حکم کے بعد تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ کابل میں طالبان حکام کے اس اقدام کو بین الاقوامی برادری کی طرف سے سراہتے ہوئے ان کی تعریف بھی کی گئی۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستانی حکومت افغان مہاجرین کے جبری انخلاء کی مہم زور وشور سے چلارہی تھی، پاکستان کے خفیہ ادارے سابقہ افغان حکومت کے وہ اہلکار جو منشیات کے بزنس سے جڑے تھے انہیں پاکستان میں آباد کرانے کے انتظام بھی کررہے تھے۔ گلستان پاک افغان سرحدی علاقہ جو منشیات کی کاشت کے حوالے سے بھی مشہور ہے وہاں ان لوگوں کو آباد کرایا گیا۔ بظاہر ان سابق افغان اہلکاروں کی یہاں آبادکاری انہیں امارت اسلامیہ افغانستان کے خلاف استعمال کرنا ہی ہے۔ دوسرا مقصد منشیات کی تیاری میں ان افراد کے تجربے سے استفادہ حاصل کرنا بھی ہوسکتا ہے۔

قبل اس کے کہ ہمارے گھر کا کوئی فرد اس ناسور کا شکار ہو، ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ اس سے متعلق آگاہی پھیلائیں۔ علماء اپنے خطبات اور فتاویٰ جات سے لوگوں کو اس کے کاروبار اور اس کے استعمال سے روکیں۔ دوسرا، صحافی اور محققین حضرات کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ جس طرح وہ اور بہت سے مسائل پر گہرائی کے ساتھ تحقیق کرتے اور لکھتے ہیں منشیات کے ایشو پر بھی لکھیں، حقائق لوگوں کے سامنے لائیں اور ان طاقتوں کو بے نقاب کریں جو صرف اور صرف اپنے گھٹیا مفادات کے حصول کے لیے پورے معاشرے کو منشیات کی دلدل میں دھنسانے کے لیے بنیادی کردار ادا کررہی ہیں۔

٭٭٭٭٭

Previous Post

اِک نظر اِدھر بھی | جون و جولائی 2024

Next Post

اخباری کالموں کا جائزہ | جون و جولائی ۲۰۲۴

Related Posts

اٹھو پاکستان! بیٹی پکار رہی ہے
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

اٹھو پاکستان! بیٹی پکار رہی ہے

13 اگست 2025
کلمے کے نام پر بنے ملک کے دارالامان میں بے آبرو ہوتی قوم کی بیٹیاں
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

کلمے کے نام پر بنے ملک کے دارالامان میں بے آبرو ہوتی قوم کی بیٹیاں

13 اگست 2025
فوجی اشرافیہ کی صہیونیت: پاکستانی فوج غزہ کا دفاع کیوں نہیں کرتی؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

فوجی اشرافیہ کی صہیونیت: پاکستانی فوج غزہ کا دفاع کیوں نہیں کرتی؟

13 اگست 2025
سوات سانحے کا ذمہ دار کون؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

سوات سانحے کا ذمہ دار کون؟

10 جولائی 2025
سیکولر مزاحمت اور نظام مسائل کا حل نہیں
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

سیکولر مزاحمت اور نظام مسائل کا حل نہیں

7 جون 2025
عالمی شپنگ کمپنی سے معاہدہ: پس پردہ محرکات کیا ہیں؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

عالمی شپنگ کمپنی سے معاہدہ: پس پردہ محرکات کیا ہیں؟

26 مئی 2025
Next Post
اخباری کالموں کا جائزہ | اپریل و مئی ۲۰۲۴

اخباری کالموں کا جائزہ | جون و جولائی ۲۰۲۴

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version