الشیخ المجاہد احسن عزیز شہید رحمۃ اللہ علیہ کی آج سے بیس سال قبل تصنیف کردہ نابغہ تحریر ’ اجنبی ___ کل اور آج ‘، آنکھوں کو رلاتی، دلوں کو نرماتی، گرماتی ، آسان و سہل انداز میں فرضیتِ جہاد اور اقامتِ دین سمجھانے کا ذریعہ ہے۔ جو فرضیتِ جہاد اور اقامتِ دین( گھر تا ایوانِ حکومت) کا منہج سمجھ جائیں تو یہ تحریر ان کو اس راہ میں جتے رہنے اور ڈٹے رہنے کا عزم عطا کرتی ہے، یہاں تک کہ فی سبیل اللہ شہادت ان کو اپنے آغوش میں لے لے(اللھم ارزقنا شهادۃ في سبیلك واجعل موتنا في بلد رسولك صلی اللہ علیہ وسلم یا اللہ!)۔ ایمان کو جِلا بخشتی یہ تحریر مجلہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ میں قسط وار شائع کی جا رہی ہے۔(ادارہ)
یہی اہلِ محبت آج بھی درد آشنا ٹھہرے!
یہ طبقاتِ مجاہدین آج دنیا کے ہر خطے میں قریباً ایک سی کیفیت سے دوچار ہیں۔ان کا تعلق خواہ کسی رنگ ،نسل،زبان سے ہو یہ آج مقہور ہیں اور اسلام کے محافظ ہونے کی و جہ سے دنیائے کفر کا سب سے بڑا ہدف بھی یہی ہیں۔
یہ اس دور کے وہ اجنبی مسافر ہیں جنہوں نے عرب و عجم کی بستیوں سے کوچ کیا۔ صحراؤں، بیابانوں اور جنگلوں کو اپنا مسکن بنایا۔جہاد کو کسی جغرافیائی ضرورت یا قومی مقصد کے بجائے ایک عبادت اور عقیدے کے طور پر پہچانا۔ اس کی فرضیت پر دل سے ایمان لائے اور اپنے عمل سے اس کی تصدیق کی۔ اسلاف کی طرح اسے اپنی زندگی کا طریق بنایا۔ مغرب کی کفری تہذیب کو، بغیر اس سے کوئی دلیل مانگے مسترد کیا اور اس کے سر نامے پر لکھے ہوئے تین حروف ’’ک ف ر‘‘ کو کافی دلیل جانا۔ کوہ ہندو کش کو سرخ ریچھ کے پنجوں سے نکالنے کے لیے اور اسلامی شریعت کو اس زمین پر نافذ کرنے کے لیے انہی سرفروشوں نے اپنا خون دیا۔ کوہ قاف کے شہزادے اسی قافلے کے ہم رکاب ہو کر ابدی جنتوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔ کوہِ ہمالیہ کے پڑوسی ا ہلِ حمیت نے جہاد کے ان کرداروں سے درسِ شجاعت لیا۔ کوہِ احد کے پہلو میں سوئے ہوئے شہیدوں کے وارثوں نے:’’لَاُخْرِجَنَّ الْیَھُوْدَ والنَّصَارٰی مِنْ جَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ حَتّٰی لَا اَدَعَ اِلَّا مُسْلِمًا‘‘(مسلم،کتاب الجہاد والسیر) ’’میں ضرور بالضرور جزیرۂ عرب سے یہود و نصاریٰ کو نکال کر دم لوں گا یہاں تک کہ مسلمانوں کے سوا یہاں کسی اور کو نہ چھوڑوں گا‘‘___ کے فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنی گردنیں پیش کردیں۔ پھراسی میدان کے شہسواروں نے مسجد ِ اقصیٰ کے گرد سرد پڑی جہادکی بھٹی کو اپنے لہو کے شعلوں سے گرم کیا ۔ اور آج یہی غرباء اپنی عظمت رفتہ کی یادگار دارالخلافہ بغداد کے کارزار کو گرم رکھے ہوئے ہیں۔ یہ اس دور کے ’’ اَلنُّزَّاعُ مِنَ الْقَبَائِل‘‘ ہیں،اس قافلہ ء بہار کے راہی ہیں جس میں مالک نے پوری امت کا عطر کشید کر جمع کر دیا ہے۔ اسلام کے ہر مورچے میں یہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کے لہو کی سرخیاں درمیان میں حائل نہ ہوتیں تو امن کی کتنی بستیوں تک فرعونیوں کے لشکر پہنچ چکے ہوتے۔ لیکن اس سب کے باوجود بھی یہ اپنوں میں غیر ہیں، انجان ہیں۔کیا آرام کی نیند سونے والے جانتے نہیں کہ یہی ہیں جنہوں نے اعدائے ملت کو شرق و غرب کے محاذوں پر روکا ہوا ہے؟ ملت کے ہر خاص و عام کو یہ ماننا ہو گا کہ فلپائن سے فلسطین تک ، شیشان سے کشمیر تک اور افغانستان سے عراق تک کے مورچوں میں بیٹھ کر دشمن کوپچھاڑنے والے یہ مجاہدین ان کے عظیم محسن ہیں۔
بے شک یہ کہنا غلو ہو گا کہ اسلام کے خدمت گزار صرف یہی ہیں___ لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ اگر یہ نہ رہے تو اسلام کے بہت سے خدمت گزاروں تک کفار کے ہاتھ بآسانی پہنچ جائیں گے ۔ یقیناً اسلام کی حفاظت کی جنگ آج علم و عمل کے بہت سے مورچوں میں لڑی جا رہی ہے ___ لیکن اس میں بھی تو کوئی شک نہیں ہو نا چاہیے کہ اگریہ جانثار اپنے مورچوں سے ہٹ گئے تو باقی سارے مورچوں کا نقشہ بھی بدل جائے گا۔ ان میں سے کتنے وہ ہیں جنہوں نے اپنے جسموں کو ہواؤں میں تحلیل کردیا اور سر کی آنکھوں سے اپنے عمل کے نتائج تک نہ دیکھ سکے، صرف اس لیے کہ دکھوں کی ماری امت کو ٹھنڈک بھری ایک شام میسّر آسکے۔کیااُمتوں کی زندگی میں کبھی ایسا وقت نہیں آتا جب اپنی جان،مال ، آبرو کا دفاع ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے ؟ ان سرفروشوں نے اپنے عمل سے وقت کے اسی تقاضے پر لبیک کہا ہے ، لہٰذا ہم پر یہ بھی فرض ہے کہ ہم اسلام کے غلبے اور دفاع کی خاطر اٹھنے والے ان غیر مانوس لوگوں کی مدد کریں۔تاریخ کبھی مسلمانوں کو معاف نہیں کرے گی،اگر انہوں نے ان مجاہدین کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیا۔ ان کی مدد مستضعفین کی مدد ہے، دین و دنیا کو تہس نہس کر دینے والے دشمن (عدوّ الصائل) کے خلا ف خود اپنادفاع ہے اور اگر دفاع کی یہ ’’دیوار‘‘ مسلمانوں کے راستے سے ہٹ گئی اور ہم اس کے گرنے کا تماشہ دیکھتے رہے تو پھر ایک سیلاب ہو گا اور ہر ایک بلد ِاسلام ا س کے سامنے تنکوں کی طرح بہہ جائے گا۔شیش محلوں کے باسیوں،جاگیر داروں،کارخانہ داروں، تاجروں، بچوں ، جوانوں، بوڑھوں، مردوں ، عورتوں ___کسی سے بھی وہ سیلاب دور نہیں رہے گا۔ تاریخ کا سبق یہی ہے ، ا للہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وعیدیں ایسی ہی ہیں:
’’مَا مِنِ امْرِیئٍ یَخْذُلُ امْرَئً ا مُسْلِمًا فِیْ مَوْضِعٍ یُنْتَہَکُ فِیْہِ حُرْمَتُہٗ وَ یُنْتَقَصُ فِیْہِ مِنْ عِرْضِہٖ اِلَّا خَذَلَہُ اللّٰہُ فِیْ مَوْطِنٍ یُحِبُّ فِیْہِ نُصْرَتَہٗ وَمَا مِنِ امْرِ یئٍ یَنْصُرُ مُسْلِمًا فِیْ مَوْضِعٍ یُنْتَقَصُ فِیْہِ مِنْ عِرْضِہٖ وَ یُنْتَہَکُ فِیْہِ مِنْ حُرْمَتِہٖ اِلَّا نَصَرَہُ اللّٰہُ فِیْ مَوْطِنٍ یُحِبُّ نُصْرَتَہ (ابو داود،کتاب الأدب)
’’جو شخص بھی کسی مسلمان کو کسی ایسے موقع پر بے یار و مدد گار چھوڑ دے جہاں اس کی حرمت پامال اور عزت مجروح کی جا رہی ہو تو اللہ بھی اس کو کسی ایسی ہی جگہ پر بے یارو مددگار چھوڑ دے گا جہاں یہ چاہے گا کہ اس کی مدد کی جائے ،اورجو شخص بھی کسی مسلمان کی کسی ایسے موقع پر نصرت کرے گا جہاں اس کی عزت مجروح اور حرمت پامال کی جا رہی ہو،تو ا للہ کسی ایسی ہی جگہ پر اس کی نصرت فرمائے گا جہاں یہ چاہے گا کہ اس کی مدد کی جائے۔‘‘
اس دین نے غالب اور فتح یاب تو ہوناہے،اور اس بارے میں قرآن و سنت میں ہم سے سچے وعدے کیے گئے ہیں۔تاہم یہ بات کہ یہ فتح ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ پائیں گے یا نہیں تو یہ تو وہ چیز ہے جواللہ عزوجل کی جانب سے،سیّدِ اولادِ آدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بار بار بتا دی گئی تھی کہ ضروری نہیں کہ وہ یقینی فتح اور غلبہ جس کا اللہ نے آپ ؐسے وعدہ فرمایا، اسے آپؐ اپنی زندگی میں بھی دیکھ سکیں بلکہ یہ ہماری مرضی ہے کہ ہم یہ سچا وعدہ دکھانے سے پہلے آپؐ کو دنیا سے لے جائیں یا اس کے بعد:
فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ فَاِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُہُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ (سورۃ المؤمن:۷۷)
’’پس آپ صبرکیجیے،بے شک اللہ کا وعدہ برحق ہے۔اب خواہ جس عذاب کا ہم ان سے و عدہ کر رہے ہیں،اس میں سے کچھ تھوڑا سا(عذاب)آپ کو دکھلا دیں یا اس کے نزول سے پہلے ہی آپ کو وفات دے دیں ، پلٹ کر آنا تو انہیں ہمارے ہی طرف ہے۔‘‘
پس اصل فتح اللہ کے دین کی فتح ہے،جس کے وعدے اہلِ ایمان سے بہت واضح طور پر کیے گئے ہیں،تاہم فرد کے لیے دونوں صورتوں میں کامیابی ہے،فتح میں بھی اور شہادت میں بھی! یہی بات اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کو سکھائی تھی:
قُلْ ہَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلَّا اِحْدَی الْحُسْنَیَیْنِ (سورۃ التوبۃ :۵۲)
’’ان سے کہو کہ تم ہمارے معاملے میں جس چیز کے منتظر ہو، وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہے۔‘‘
بظاہر شہادت دشمن سے جسمانی مغلوبیت اور ابتلاء کی ایک صورت ہے،لیکن مالک اس کو ’’بھلائی‘‘ قرار دے تو بندے کو کیوں یہ بھلائی پسند نہ ہو؟اور اگر بندہ بھی وہ ہوجس کے پاس سب سے بڑھ کر خالق کی معرفت ہو،جو کل جہاں سے زیادہ دنیا کی حقیقت اور آخرت کے اجر سے واقف ہو ،جس سے بڑھ کرجنت کا کوئی حریص زمین پر نہ گزرا ہو،پھر تو یہ اسی کے لائق ہے کہ وہ اپنے ربّ سے ایک نہیں بار بار کا کٹنا مانگے،بار بار کا اٹھنا مانگے :
’’وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوَدِدْتُّ اَنِّیْ اُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلُ،ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلُ،ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلُ‘‘ (بخاري،کتاب الجہاد والسیر)
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، میری تو آرزو ہے کہ میں اللہ کے راستے میں قتل کر دیاجاؤں،پھر زندہ کیا جاؤں پھرقتل کیاجاؤں،پھرزندہ کیا جاؤں پھر قتل کیاجاؤں،پھرزندہ کیا جاؤں اور پھر قتل کر دیا جاؤں۔‘ ‘
پس معلوم ہوا کہ اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے اور اگریہ کامیابی (جنت و مغفرت) مقصودِ اصلی نہ ہوتی تو دنیا کی کامیاب ترین ہستی کبھی اپنے لیے یہ تمنا نہ کرتی۔
لہٰذاشہادت کو چند دیوانوں کی جذباتی خواہش سمجھنے والوں کو بھی یہ جان لینا چاہیے کہ یہ ایک مطلوب چیز ہے،ایسی مصیبت نہیں جس کے ڈر سے عزیمت کے راستوں کو چھوڑ دیا جائے،اور دوسروں کو بھی بزدل بنا دیا جائے۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جو آزمائش آج امت پر آن پڑی ہے اس سے کہیں زیادہ کٹھن دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب ؓپر بھی آ چکا ہے،اگر وہ سب برگزیدہ ہستیاں بھی نعوذ باللہ دشمن سے خوفزدہ ہو رہتیں،مقابلہ نہ کرتیں تو کیا آج ہم تک اسلام پہنچ پاتا؟
پس اللہ کی شکر گزاری کا طریقہ یہی ہے کہ ہم آج انؓ کی اس سنت کو تازہ کریں،ورنہ یہ نعمت چھن بھی سکتی ہے،ایسے ہی___ جیسے اندلس و ترکستان کے لاکھوں لوگوں کو جبراً عیسائی بنا دیا گیا۔
عافیت کدوں میں رہنے والوں کو جاننا ہو گا کہ امّتِ مسلمہ حا لتِ جنگ میں ہے اورہمارے پاس صبر،توکل،ذکرِ الٰہی، استقامت، اخوت اور یکسوئی کے ساتھ کفار کی اس یلغار کا مقابلہ کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ورنہ دنیاو آخرت کے پے در پے عذابوں کا سامنا کرنے کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے:
اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا وَّ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ وَلَا تَضُرُّوْہُ شَیْئًا وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ (سورۃ التوبۃ:۳۹)
’’اگر تم نہ نکلو گے تو اللہ تم کو دردناک عذاب دے گا۔اور تمہاری جگہ اور لوگ پیدا کر دے گا اور تم اس کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکو گے۔ اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘
خلیفۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مَا تَرَکَ قَوْمٌ الْجِہَادَ اِلَّا عَمَّہُمُ اللّٰہُ بِالْعَذَابِ‘‘ (رواہ الطبراني باسناد حسن)
’’ کبھی کسی قوم نے جہاد نہیں چھوڑا ، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے (بطور سزا ) اُن پر عام عذاب مسلّط کردیا ۔‘‘
بے شک اللہ کے وعدے سچے ہیں۔یہ دور صرف آزمائش کا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی اور موت، خیرو شر کو پیدا ہی ابتلاء و آزمائش کے لیے کیاہے ۔ یہ وقت گزر توجائے گا___لیکن ہماری قسمتوں کا فیصلہ سنا جائے گا کہ ہم عذاب یا ثواب میں سے کس چیز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں؟:
وَلَوْیَشَائُ اللّٰہُ لَانْتَصَرَ مِنْہُمْ وَلٰکِنْ لِّیَبْلُوَا بَعْضَکُمْ بِبَعْضٍ وَالَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَلَنْ یُّضِلَّ اَعْمَالَہُمْ سَیَہْدِیْہِمْ وَ یُصْلِحُ بَالَہُمْ وَ یُدْخِلُہُمُ الْجَنَّۃَ عَرَّفَہَا لَہُمْ (سورۃ محمد :۴۔۶)
’’اور اگر اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے بدلہ لے لیتا لیکن (وہ چاہتا ہے کہ)تم میں سے ایک کا امتحان دو سرے کے ذریعے سے لے لے۔ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کر دیے جاتے ہیں اللہ ان کے اعمال ہرگز ضائع نہ کرے گا، انہیں راہ دکھائے گا، اور ان کی حالت درست کر دے گا۔ اور انہیں اس جنت میں لے جائے گا جس سے انہیں شناسا کر رکھا ہے۔‘‘
موجودہ حالات میں ہم میں سے ہر کوئی اللہ سے نصرت کا طالب ہے لیکن اللہ کی نصرت کے حصول کی پہلی شرط یہی ہے کہ ہم اللہ کی نصرت کے لیے آگے بڑھیں،پہل کریں۔تبھی اللہ کی مدد آئے گی،تبھی قدموں کو بھی ثبات ملے گا۔
یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ (سورۃ محمد:۷)
’’اے ایمان والو ! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا ا ور تمہیں ثابت قدم رکھے گا ۔‘‘
قدموں کا ثبات___ جودنیا اور آخرت میں فلاح کی ضمانت ہے!
امام مالکؒ نے بہت خوب فرمایا تھا کہ: ’’لَا یَصْلُحُ اٰخِرُ ہٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلَّا بِمَا صَلُحَ بِہٖ اَوَّلُھَا‘‘ ’’اس امت کا آخری حصہ بھی اسی چیز سے اصلاح پا سکتا ہے جس چیز سے اس کے اول حصے نے اصلاح پائی۔‘‘
آج امت کے پاس اصلاح کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ یہ طاغوت کے انکار اور توحید کے اقرار کے تقاضوں کو پورا کرے ، فکر و عمل میں کفار کی مشابہت سے بچے اور وقت کی جاہلی تہذیب کی اقدار اور اس کے مظاہر سے اپنی جان چھڑائے، ظاہر و باطن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور شریعتِ مطہرہ سے چمٹ جائے ، دنیا کی امامت و سیادت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے منہج کو اپنا اسوہ بنائے،کامیابی اور فلاح کے دجّالی تصورات کو ردّ کرے اور جن و انس کو جس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے ،اسی کو اپنا مقصودِ زندگی بنائے: وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (سورۃ الذاریات : ۵۶) ’’ا ور میں نے جن اور انسان کو اسی واسطے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کیا کریں ۔‘‘
جس اللہ نے شہادتَین، نماز، روزہ، زکٰوۃ اور حج جیسی عظیم عبادات کو اپنے دین کی بنیادیں قرار دیا ہے ، اسی ربّ نے دین کے غلبے اورحفاظت کے لیے جہاد بھی ہم پر فرض قرار دیا ہے۔
پس آج جس چیز پر سب سے بڑھ کر ___قلم والوں کو لکھنے کی ، زبان دانوں کو بولنے کی ،جان والوں کو کھپنے کی اور مال والوں کو خرچنے کی ضرورت ہے وہ وہی فریضہ ہے جس کو سب سے بڑھ کر بھلا دیا گیا ہے۔یہ بھلایا گیا فریضہ،فریضۃ الغائبۃ جہاد ہے۔
جہاد میں ایمان ہے ،زندگی ہے، نجات ہے۔ اس کے ترک میں نفاق ہے،موت ہے،عذاب ہے۔ چنانچہ اللہ کے راستے میں جان و مال خرچ کرنے کی ضرورت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک ہمیں ایمان مقصودہے،زندگی درکارہے اور نجات پیاری ہے۔ مطلوب شخصی و گروہی بالادستی نہیں بلکہ اللہ کے دین کی نصرت ہے۔
اسلام کے مورچوں میں بیٹھاہوا ہر ایک مجاہد___ آج جنت کے ہر متلاشی، عالمِ اسلام کے ہر مرد،عورت،جوان ، بزرگ، عالم، طالبِ علم، تاجر،صنعت کار،صحافی،استاد،ڈاکٹر اور انجینئر سے خاموشی کی زبان سے یہ سوال کر رہا ہے کہ ہمارے قدم تو اس راستے میں بحمد اللہ ثابت ہیں لیکن کیا ہوا اُس کا ___ وہ جو ایمان کے ایک لازوال رشتے کی بنیاد پر ___’’ تمہارا مجھ سے وعدہ تھا؟!‘‘
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْاَلُکَ اِیْمَانًا لَا یَرْتَدُّ وَنَعِیْمًا لَا یَنْفَدُ وَمُرَافَقَۃَ مُحَمَّدٍصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ اَعْلٰی جَنَّۃِ الْخُلْدِ۔
٭٭٭٭٭