نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | پہلی قسط

امارت اسلامیہ افغانستان کے مؤسس عالی قدر امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد﷬ کی مستند تاریخ

عبد الستار سعید by عبد الستار سعید
31 مئی 2024
in افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ, اپریل و مئی 2024
0

حرف ِاول

الحمدلله رب العلمين والصلاة والسلام على خير خلقه محمد واله واصحابه أجمعين وبعد:

امارت اسلامیہ افغانستان ہمارے ملک (افغانستان) اور تاریخِ اسلام میں ایک اہم سیاسی اور جہادی داستان رکھتی ہے، جوکہ زیادہ تر مؤرخین اور مصنفین کی تحقیق کا موضوع رہا ہے۔ اس تحریک کے مؤسس اور امیر مرحوم امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد ان اہم شخصیات میں سے ہیں جن کے ذکر کے بغیر اس دور کی تاریخ ادھوری ہے۔

ملا محمد عمر مجاہد کی زندگی پر اس سے قبل بھی بعض داخلی اور خارجی مصنفین نے کتابیں لکھی ہیں، لیکن ان میں سے اکثر کتابیں پروپیگنڈا اور دشمن کے سیاسی مقاصد و اغراض کو پورا کرنے کی خاطر لکھی گئی ہیں۔ بعض نے ملا صاحب کا تعارف ایسے انداز میں کیا ہے جس سے ان کی شخصیت مشکوک اور بدنام ہوجائےاور بعض نے اپنی قلت ِ معلومات کے سبب غلط راہ اختیار کر رکھی ہے۔

اس تصنیف کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ امارت اسلامیہ کے زعیم ملا محمد عمر مجاہد کے دینی و سیاسی کارناموں کو حال اور مستقبل کی مسلمان نسل کے لیے بطور نمونہ و اقتداء پیش کیا جائے۔ اسی طرح مرحوم ملا صاحب کی زندگی پر مبنی اصل اور باوثوق معلومات قارئین تک پہنچائی جائیں تاکہ تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے اور عام قارئین انہی باوثوق معلومات سے فائدہ اٹھا سکیں۔یہاں ہم مرحوم ملا صاحب کی سیرت پر مبنی کتاب کو لکھنے کی خاطر معلومات کے حصول کی مختصر روداد بھی قارئین کی نظر کریں گے۔

۶ قوس ۱۳۹۵ شمسی ہجری (بمطابق ۲۶ نومبر ۲۰۱۶ء) کو مرحوم امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد کی سیرت پر مبنی کتاب کو لکھنے کی مناسبت سے آپ﷫ کے گھرانےکے افراد کی موجودگی میں ایک مجلس کا انعقاد ہوا، جس میں ملا صاحب کے بڑے فرزند امارت اسلامیہ کے نائب مولوی محمد یعقوب مجاہد، آپ﷫ کے بھائی ، رہبری شوریٰ کے رکن ملا عبدالمنان عمری، آپ﷫ کے مرحوم داماد قاری صدیق اللہ صاحب، آپ﷫ کے بہنوئی مولوی عبدالرحمٰن صاحب، امیرالمومنین کے دفتر کے رئیس مولوی احمد جان احمدی، امارت اسلامیہ کے سابقہ ترجمان مفتی لطف اللہ حکیمی، اعلامی کمیشن کے نائب ملا احمداللہ وثیق، عسکری ادارے کے کمیشن کے مسئول بخت الرحمٰن شرافت، کتاب کے مصنف قاری عبدالستار سعید سمیت باقی مصنفین نے شرکت کی۔

یہ مجلس جو دو دنوں تک جاری رہی جس میں مرحوم امیرالومنین کی تاریخ کو قلم نوشت کرنے کی اہمیت اور ضرورت پر بحث ہوئی اور اس کے بعد اس کام کے لیے ایک اجمالی خاکہ بنایا گیا جس کا پہلا مرحلہ معلومات جمع کرنا اور اس کو کتابی شکل میں مرتب کرنا تھا۔

معلومات کو جمع کرنے کے لیے دسیوں افراد کاچناؤ کیا گیاجن سے براہ راست انٹرویو لیے جانے تھےاور مرحوم امیرالمومنین کی زندگی کے مختلف مراحل کی معلومات ان سے جمع کی جانی تھی۔ مجلس میں معلومات کو جمع کرنے کے لیےبھی ایک کمیٹی بنا لی گئی جس کی ذمہ داری ملا صاحب کے داماد قاری صدیق اللہ نے اٹھائی اور ان کا نائب قاری عبدالستار سعید (راقمِ سطور)کو بنایا گیا۔

اور یوں اس طرز پر مرحوم امیر المومنین ؒ کی زندگی اور کارناموں کے بارے میں معلومات کو جمع کرنےکے کام کا آغاز ہوگیا۔ معلومات جمع کرنے کے مرحلے میں کمیٹی کے ذمہ دار او ر ان کے نائب کے علاوہ کمیٹی کے باقی ارکان مولوی احمد جان احمدی، مفتی لطف اللہ حکیمی، ملا احمداللہ وثیق، ملا عبدالاحد جہانگیروال، ملا بخت الرحمٰن شرافت، ملا عتیق اللہ عزیزی اور ڈاکٹر محمد طاہر صاحب سمیت تمام حضرات کے ساتھ نشست کی گئی۔

چند مہینے بعد جب کسی قدر معلومات جمع ہوگئیں تو ایک بار پھر کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا ، اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ جمع شدہ معلومات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کتاب کا متن لکھنے کا کام شروع کیا جائے۔ کتاب کا متن کون لکھے؟ اس پر مجلس میں مشورہ کیا گیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ متن لکھنے کی ذمہ داری ، راقمِ سطور (قاری عبدالستار سعید) کو دے دی جائے اور فیصلہ اس پر ہوا کہ میں مہینے کے اوائل میں کتاب کا متن لکھوں گا اور مہینے کے آخر میں تین افراد پر مشتمل کمیٹی (جن کے ارکان مولوی احمد جان احمدی، مفتی لطف اللہ حکیمی اور قاری عبدالستار سعیدتھے)اس متن کا مراجعہ کریں گے۔

اس طرز پرکتاب لکھنے کا آغاز ہوا ا ور کئی مہینوں تک جاری رہا۔ دقیق تحقیق، توثیق اور مزید اضافوں کی وجہ سے کتاب کی حتمی شکل نے طے شدہ سے زیادہ وقت لے لیااور بالآخر یہ متن تیار ہوا جو اس وقت آپ کے ہاتھ میں ہے۔

تیار شدہ متن پہلےمرحلے میں اہلِ نظر افراد کو نظر ثانی کے لیے دیا گیا اور آخر میں مرحوم امیرالمومنین کے گھرانے کے افراد یعنی ملا صاحب کے بڑے فرزند، ملا صاحب کے بھائی، ملا صاحب کے داماد اور ملا صاحب کے کاتبِ خاص ملا عبدالسلام سے نظر ثانی کروائی گئی ، جس کے بات مزید اصلاحات کی گئیں اور بالآخر کتاب مکمل اور عام نشر کے لیے تیارہ ہوگئی۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس کتاب کا حجم اس کی تحقیق اور توثیق کے لیے جمع شدہ خام مواد کی نسبت بہت کم ہے۔ملا محمد عمر مجاہد اور امارت اسلامیہ کے قیام اور فتح کے بارے میں درکار معلومات کو جمع کرنے کی خاطر ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔ واقعات اور مختلف مراحل کے عینی شاہدین کے ساتھ براہ راست ملاقاتیں اور انٹریوز لیے گئے، جن کے با ر بار مراجعہ کے بعد انہیں کتاب میں شامل کیا گیا۔

بعض معروف واقعات اگرچہ ملا صاحب کی شخصیت کواجاگر کرنے میں بھر پور کردار ادا کررہے تھے لیکن مستند راوی معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کتاب میں شامل نہیں کیا گیا، ملا صاحب کے بارے میں ان کے ساتھیوں، امارت اسلامیہ کے منسوبین اور بعض شخصیات کی ان کے ساتھ گزری یادیں، تاثرات اور آنکھوں دیکھے حال کو من و عن روایت کرکے اس میں شامل کیا گیا ہے۔

اگرچہ ملا محمد عمر مجاہد اور امارت اسلامیہ کے حق میں اور مخالفت پر اس سے قبل بھی کتابیں لکھی گئیں لیکن اس کتاب کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ان حقائق کو اجاگر کیا جائےجو جھوٹ کے غبار تلے چھپائے گئے ہیں۔ لہذا یہ کتاب پچھلی لکھی گئی کتابوں کا تکرار نہیں بلکہ چھپے ہوئے حقائق کو اجاگر کرنے کی ایک کوشش ہے۔

آخر میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا اپنے لیے لازم سمجھتا ہوں کہ مجھے اس کتاب کے لکھنے کی توفیق دی۔للہ الحمد والمنہ

اور جاتے جاتے کتاب کے ان قارئین سے معافی کا طلبگار ہوں جنہوں نے اس کتاب کے نشر اور مطالعہ کے لیے کافی عرصہ انتظار کیا۔

ملا محمد عمر مجاہد اللہ تعالیٰ کے دین کے ایک مخلص اور فداکار محافظ تھےاور آپ﷫ کی سیرت کو لکھنے کا مقصد مومن رجالِ کار کے کارناموں کو محفوظ رکھنا تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری اس کاوش کو دینی خدمت کی حیثیت سے اپنے عظیم دربار میں قبول فرماکر ہمارے لیے آخرت کا توشہ بنائے۔ آمین

قاری عبدالستار سعید

۱۳ میزان ۱۳۹۹ ہ ش

(بمطابق: ۴ اکتوبر ۲۰۲۰ء)

عمر سے عمر تک ، مختصر تاریخی سرگزشت

عالمِ اسلام کے مشہور خلیفہ حضرت عمرفاروق ﷜ کے دورِ خلافت کے اواخر میں اسلامی لشکر کے دو سپاہ سالار سرزمینِ افغانستان میں داخل ہوئے۔ حضرت احنف بن قیس تمیمی﷜ فارس کے مفرور ساسانی بادشاہ یزدگر کی تلاش میں ایران کے علاقے بیرجند اور طبسین کے راستے سے ہوتے ہوئے فراہ میں داخل ہوگئے اور اس کے بعد ہرات کو فتح کیا، کچھ عرصہ بعد عبداللہ بن عامر﷜ نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق﷜ کے حکم پر سیستان پر حملہ کیا ، نیمروز اور ہلمند کو فتح کرتے ہوئے قندہار پہنچ گئے۔

۲۳ ہجری میں افغانستان دینِ اسلام سے مشرف ہوا اور اس دور سے ہی اس ملک کے باسی اسلام کے سائے تلے زندگی گزار رہے ہیں، اسلام ان کی رگوں میں خون کی مانند گردش کررہا ہے اور اسلام ہی کی محبت ان کا سب کچھ ہے۔

اس جغرافیہ کے لوگ قدیم روایات پر مضبوطی کے ساتھ جمے ہوئے تھےاور مؤرخ استاد عبدالحی حبیبی کے مطابق افغانستان میں اسلام کے پھیلاؤ نے ایک صدی سے زیادہ وقت لے لیا، قبولیتِ اسلام کے بعد وہاں کےباسیوں نے دین کی رسی کو مضبوطی سےتھاما اور ایسا تھاما کہ دنیا کے سامنے اس ملک کو نہ ٹوٹنے والی چٹان اور نہ تسخیر کیا جانے والا قلعہ کی مانند بنا کر دکھا دیا۔

پہلی دو ہجری صدیوں میں افغانستان اوّل اموی اور اس کے بعد عباسی خلافت کے ساتھ مربوط رہا۔ تیسری صدی ہجری میں جب سلطنت عباسیہ کا سورج غروب ہوا اور اس کے ساتھ ہی باقی مستقل سلطنتوں کا سلسلہ وسیع ہوا ، تو افغانستان پر طاہری، صفاری اور ساسانی بادشاہوں کی حکومت کا دور آیا، چوتھی صدی ہجری کے نصف میں اس علاقہ پر غزنوی سلطنت کا قیام ہوا جس کی حدود مغربی ایران، وسطی ایشیا، ہند اور بحیرۂ عرب تک پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ افغانستان کی تاریخ کا ایک روشن دور تھا۔ غزنوی کے بادشاہوں نے نہ صرف ایک مضبوط سلطنت قائم کردی بلکہ ان ہی کے دور میں افغانستان کے راستے برصغیر میں اسلام کی دعوت اور فتوحات کا سلسلہ پھیل گیا ۔ سلطان محمود غزنوی ناصرف ایک سیاسی شخصیت تھے بلکہ عالم و عابد اور اسلام کی راہ کے سربکف مجاہد تھے۔ تاریخی روایات کے مطابق آپ﷫ کی زندگی کا بیشتر حصہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے ،گھوڑے کی پیٹھ پر گزرا ۔آپ﷫ جہاں ایک طرف مسلمانوں کے ایک سیاسی رہنما تھے تو دوسری طرف عوام کے دین کی حفاظت، باطل فرقوں کو لگام ڈالنا اور عوام کی اصلاح اور فکری رہنمائی کی طرف بھی متوجہ تھے۔

انہی جیسے صالح حکمرانوں کے سائے تلے ایک طرف اس ملک کے غازی اور مجاہدین فتوحات میں پیش پیش تھے تو دوسری طرف اس کے علماء اور ادیب علم اور ادب میں آگے تھے۔ قرونِ اولیٰ میں خراسان کے علماء نے احادیث جمع کرنے کے علاوہ علم التفسیر، فقہ، بلاغت، ادب، حکمت، طب اور باقی مروجہ علوم میں خدمات سرانجام دیتے ہوئے اسلامی تمدن اور تہذیب کی ترقی و احیاء میں مرکزی کردار ادا کیا۔

سلطنت غزنیہ کے سقوط کے بعد غوریوں، سلجوقیوں اور خوارزم کے بادشاہوں کی حکومتیں بھی افغانستان کی تاریخ کے روشن ادوار تھے، خصوصاً غوری سلطنت جو سلطنتِ غزنیہ کی پیروی کررہی تھی، ہند میں اس سلطنت نے اسلام کی دعوت کو پھیلانے اور اسلامی علم و تہذیب کے احیاء میں قلیدی کردار ادا کیا۔لیکن ساتویں صدی ہجری میں چنگیزخان کی یلغار نے اسلامی دنیا کے باقی حصوں کی مانند ہمارے ملک کو بھی سنگین نقصان پہنچایا ۔جس کی وجہ سے افغانستان اپنی مضبوط حیثیت سے محروم ہوگیا۔ اس حادثے کے کئی صدیوں بعد تک یہ ملک چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوا اور کبھی بڑی ہمسایہ سلطنتوں (ہند کے گورگانی، ایران کے صفوی اور وسطی ایشیاء کے شیبانی )کے سائے تلے رہا۔

دینِ اسلام کی مانند اس سرزمین کے باسیوں کی رگوں میں آزادی کا احساس بھی خون کی طرح گردش کررہا ہے، اس لیے تاریخ کی طوفانی موجوں کے ساتھ ساتھ آزادی کے حصول کے لیے ہردم کوشاں رہے۔ چنگیز، تیمور، بابری بادشاہت اور صفویوں کے خلاف ان کی مذاحمت اور تحریک اس دعوے کی گواہ ہیں ۔

بارہویں صدی ہجری میں افغانستان میں دو اہم سیاسی واقعات رونما ہوئے۔میرویس خان کی قیادت میں اٹھنے والے افغانیوں نے ۱۱۲۰ ھ میں قابض صفویوں کو شکست دے دی جس کے نتیجے میں نہ صرف افغانستان کے جنوبی اور مغربی علاقے فتح ہوئے، بلکہ قابض صفویوں کی حکومت جس کا سایہ دو صدیوں تک پورے علاقے پر رہا، بکھر گیا اور اس کے مرکز اصفہان پر افغانیوں کا جھنڈا لہرایا گیا۔

لیکن افغان عوام کی یہ آزادی تیس سال بعد داخلی نزاع اور نادر افشار کے حملے سے ختم ہوئی ۔ نادر افشار کے مرنے کے بعد ۱۱۶۰ھ میں دوسرا بڑا واقعہ رونما ہوا، وہ یہ کہ حالیہ افغانستان کے مؤسس احمد شاہ ابدالی نے قندہار میں ایک نئی آزاد حکومت کی بنیاد ررکھی، جو بہت تیزی کے ساتھ ایک خودمختار اسلامی سلطنت کی حیثیت سے ابھری اور جس کے سرحدات ایران کے مشہد سے لے کر مشرق میں سرہند ،جنوب کے بحیرہ عرب اور شمال کے وسط ایشیا تک پھیل گئیں۔ احمد شاہ ابدالی بھی سلطان محمود غزنوی کی مانند ایک عالم اور فاضل بادشاہ تھے۔ اس کی سلطنت کی سب سے نمایاں خصوصیت اللہ کی راہ میں جہاد ، مسلمانوں کی نصرت اور اسلام کی سربلندی تھا۔آپؒ نے ہند کی آخری اسلامی حکومت (سلطنت مغلیہ) کومرہٹوں کے ہاتھ سقوط ہونے سے بچایا اور ہند کے مشہور عالم دین حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی﷫ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ہند کے مسلمانوں کی نصرت فرمائی۔

افغانستان کی ذکر شدہ سلطنتیں باقی اسلامی دنیا میں واقع مستقل سلطنتوں کی مانند بعض خامیوں کے باوجود اسلامی حکومتیں تھیں۔اسلامی وحدت کو برقرار رکھنے کی خاطر بیشترعباسی اور عثمانی خلفاء کو عقیدت کی نظر سے دیکھتے تھے ۔مومن بادشاہ اپنے آپ کو امامت کبریٰ کے مقام پر دیکھتے اور سیاسی حاکمیت ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے عوام کی دینی رہنمائی بھی کرتے تھے۔ ہر سلطان بڑے فیصلے دینی علماء کے فتاویٰ اور مشورے کی بنیاد پر کرتا تھا ، ان کے لشکروں میں دینی علماء، صوفیا اور مصلحین کی خاص حیثیت تھی اور ان کو خاص ذمہ داریاں دی جاتی تھی۔ اجتماعی زندگی میں اسلامی عقیدے کے ساتھ وفاداری، دینی علم ، ادب اور ثقافت کو پھیلانا، دینی علماء، صوفیا اور مدرسین کو لوگ بڑے کی حیثیت سے دیکھنا، کفار کے خلاف جہاد، اپنے عوام کے دینی تشخص کی حفاظت، معاشرے کے اصلاح کی طرف توجہ، کمزور مسلمانوں کی نصرت اور اپنے فکرو عمل میں اسلام کو نافذ کرنا، یہ افغانستان کے سابقہ بادشاہوں کی وہ مشترک صفات ہیں جن کامتدین عوام کی حیثیت سے افغان قوم کی اجتماعی زندگی میں بہت اہم کردار ہے۔ لیکن حالیہ صدیوں کے عالمی انقلابات نے اسلامی دنیا کی مانند افغانستان کی حکومتوں کو بھی متاثر کردیا جس کی وجہ سے نئے بحران اور مصیبتیں کھڑی ہوئیں۔

احمد شاہ ابدالی کے دور کی اہم عالمی تبدیلیوں میں ایک یورپی استعمار کا پھیلاؤ اور اس کے بعد تیمور شاہ کے دور میں فرانس کا انقلاب۔یورپی استعمار ایک طرف مسلمانوں کی زمینیں ، سمندر اور مادی وسائل پر قبضہ کررہا تھا، تو دوسری طرف یورپ میں نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کے عنوان تلے نئی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں جس سے مسلمانوں کے فکری، اجتماعی اور سیاسی امور میں عظیم خطرات کھڑے ہو رہے تھے۔زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اس طوفان کی گرد افغانستان تک بھی آپہنچی۔ انگریز جنہوں نے مشرقی ہند میں اپنی کمپنیوں کے توسط سے مداخلت کا آغاز کردیا تھا، احمد شاہ ابدالی کے پوتوں کے دور میں افغانستان کی طرف بھی اپنے ہاتھ بڑھائے اور سدوزئی اور اس کے بعد محمد زئی کےحکمرانوں کےداخلی اختلافات نے ان کے مقاصد کی کامیابی کے لیے راہ ہموا کردی۔

انیسویں صدی کے آخری نصف میں افغانستان کی تاریخ میں پہلی بار سیاسی حکومتوں اور دینی طبقے کا راستہ جدا ہوا۔ ملک کے سیاسی حکام جو ماضی میں ہمیشہ اپنے تخت و تاج کی مانند اپنے عوام کے دینی تشخص، خودمختاری اور اپنی مقدسات کی حفاظت اپنا فرض سمجھتے تھے، اس بار صرف اپنے موروثی اقتدار کی حفاظت کی فکر میں لگ گئے اور اپنے ذاتی مقاصد کے لیے انگریز کے ساتھ دوستی کا راستہ اختیار کیا اور اسی طرح عوام کے دینی تشخص کی حفاظت اور آزادی کا داعیہ اٹھانے والا کوئی نہ بچا۔بالآخر دینی علماء اور عوام کے مذہبی طبقے نے اس ذمہ داری کو اٹھایا۔

۱۸۷۹ء میں انگریز کے ساتھ گندمک کے شرمناک معاہدے کے بعد افغانستان کی اکثر حکومتیں اپنے دینی اور تاریخی تشخص پر قائم رہنے کی بجائے، اغیار کے افکار اور اقدار کو ہمارے معاشرے میں نافذ کرنے اور اس کی ترویج کی کوششوں میں لگ گئے، لیکن اس کے مقابلے میں افغانستان کےمذہبی طبقے نے اپنے دینی مقدسات کے دفاع کے علم کو بلند رکھا ۔ حقیقت یہ ہے افغانستان کی گزشتہ ڈیڑھ صدی کے بحران کے عوامل میں سے سب سے بڑا عامل یہ رہاکہ پچھلی حکومتوں نے اپنے عظیم اسلاف غزنوی اور ابدالی وغیرہ کے نقوشِ پا کو فراموش کردیا ، اپنے دینی مقدسات سے منہ پیھرلیا اور اغیار کے نظریات و افکار کی ترویج کو اپنااصل ہدف سمجھ لیا،لیکن اس کے مقابلے میں افغانستان کے مذہبی طبقے نے اپنی عوام کے دینی تشخص کے دفاع اور ان کی فسق و فجور سے حفاظت کو اپنا دینی فریضہ سمجھ کر مقتدر طبقے کے انحراف کے خلاف مذاحمت جاری رکھی۔

امیر عبدالرحمٰن خان کے ساتھ ملا مشک عالم، غازی محمد جان خان، ملا عبدالکریم اندڑ، قندھار کے مولوی عبدالرحمن اور باقی مجاہدین کا اختلاف اس وجہ سے تھا کہ امیر عبدالرحمٰن نے گندمک کے معاہدے کی تائید کی تھی اور افغانستان کو ناختم ہونے والے انگریزی یلغار کے سپرد کردیا تھا۔ اس کے بعد امیر حبیب اللہ خان کے دورِ استبداد میں دینی مصلحین اور معززین مولانا محمد سرور واصف قندھاری، مولانا محی الدین افغان، مولوی عبدالرؤف خاکی سمیت باقی دردمند علماء اور مجاہدین نے انگریز کی ناختم ہونے والی یلغار، درباری فساد اور اجتماعی خرابی کے سامنے اصلاحی تحریک کا آغاز کردیا جس کی بالآخر انگریز کی حمایت اور مدد سے وقت کے حاکموں نے بے رحمانہ طریقے سے سرکوبی کی۔

امیر امان اللہ خان جس نے انگریز سے آزادی کے حصول ، اسلامی اخوت اور عدالت کی بنیاد پر حکومت بنانے کی آواز اٹھائی، افغانستان کے تمام مجاہد علمائے کرام اور مجاہدین نے مضبوط پشت پناہی کی، ان کی قیادت میں تین محاذوں میں انگریز سے لڑے اور آزادی حاصل کی، لیکن بعد میں جب امان اللہ خان مغرب کے افکار سے متاثر ہوا اور اصطلاحات کے عنوان تلے مغربی روایات کی ترویج شروع کردی ، تو علما ءاور ان کے مقتدی اس کے مخالف ہو گئے۔ امان اللہ خان کے خلاف پکتیا کے شہید عبداللہ کی تحریک، اسی طرح کابل میں شہید قاضی عبدالرحمٰن اور نور المشائخ فضل عمر مجددی کی مخالفت اور آخر میں حبیب اللہ کلکانی کی قیادت میں ایک بڑی تحریک کا قیام امان اللہ خان کے اسی انحراف کا نتیجہ تھا جس کی وجہ سے کل تک اس کی پشت پناہی کرنے والے اس کے مخالف بن گئے۔

نادر خان کی بعض سیاسی خامیوں کے ساتھ ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ افغان عوام کے دینی تشخص کی حفاظت کی طرف متوجہ تھے۔ آپ افغانستان کے نامور بادشاہوں میں متدین شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ نادر خان اور اس کے بھائیوں کے دورِ حکومت میں دینی طبقہ اور حکومت کے مابین تصادم کی مثال نہیں ملتی۔ لیکن جب اس کے بیٹے محمد ظاہر شاہ اور بھتیجے محمد داؤد خان برسرِ اقتدارآئے تو انہوں نے دوبارہ ماضی کے تلخ تجارب کو دہرایا۔ ملک میں یورپی لبرل ازم کی ترویج شروع کردی، کمیونیسٹ افکار کی توزیع کے لیے راہ ہموار کی جس کی وجہ سے ملک بھر میں مذہبی طبقے میں غیرتِ دینی کا احساس ایک بار پھر بیدا ر ہوا اور شاہی تخت کے خلاف مساجد و منابر سے اعتراضات کی صدائیں اٹھنے لگیں۔

ظاہر شاہ کی دورِ حکومت میں قندھار شہر میں سینما کی تعمیر کے خلاف دینی علماء کی سربراہی میں احتجاج ہوا جس کو زبردستی روک دیا گیا، اسی طرح جمہوریت بنے دس سال بیت گئے تھے کہ سیاسی پارٹیوں کو آزادی دے دی گئی۔ افغانستان کے علماء نے تنظیم’ خدام القرآن‘ ، ګهیځ اور ندائے حق روزنامہ کے ذریعے کمیونیزم اور بے دینی کے خلاف آواز اٹھائی، اگرچہ اس وقت کے حکومتی اہلکار آزادئ اظہار رائے کی بات کرتے تھے، لیکن ظاہر شاہ کی شاہی سلطنت کا جھکاؤ اہلِ دین کی بنسبت کمیونیزم کی طرف زیادہ تھا، کابل کی پلِ خشتی مسجد میں ہزاروں علمائے کرام کے پر امن احتجاج کے خلاف حکومتی اہلکاروں کا توہین آمیز رویہ اس کا ایک بڑا ثبوت ہے۔

داؤد خان کے دورِ اقتدار میں کمیونسٹ باقی دور کی نسبت زیادہ منصبِ اقتدار کے قریب ہوئے۔ اگرچہ سردار داؤد خان نے اپنے آخری دور میں کمیونزم کے خلاف سریع اقدامات اٹھائے لیکن اس وقت پانی سر سے گزر چکا تھا اور کمیونسٹوں نے مارشل لاء لگا کر غلبہ پالیا۔

سوشلسٹ انقلاب اور روس کی یلغار سے حق اور باطل کے درمیان فکری جنگ نے مسلح جنگ کی شکل اختیار کرلی اور کمیونزم کے خلاف جہاد کا آغاز ہوگیاجس میں دینی علماء کا اہم کردار رہا۔

کمیونزم کے خلاف افغان عوام کے جہاد کے دو مقاصد تھے، ملک سے روسی حملہ آوروں اور کمیونزم کی فکر کو مٹانا اور افغانستان میں ایک ایسے اسلامی نظام کا قیام عمل میں لانا جو مومن اور مجاہد عوام کے دینی تشخص کی نمائندگی کرے۔

روس کی شکست اور جہاد کی فتح کے بعد جہاد میں مصروف علمائے دین ایک بار پھر اپنی مساجد اور مدارس کی طرف لوٹ گئے اور نظامِ حکومت ان مجاہدین کے حوالے کیا جو خود کو عصری علوم سےآگاہ اور حکومت سازی میں ماہر سمجھتے تھے۔ لیکن حادثہ یہ پیش آیا کہ ان اقتدارسے محبت کرنے والے افراد نے جہادی مقاصد سے پیٹھ پھیر لی، حتیٰ کہ بیشتر اپنے اسلامی اور جہادی تشخص کو بھی بھول گئے۔ کل تک جو اسلامی اخوت کے نعرے لگاتے اس وقت قوم پرستوں کی مانند قومی، علاقائی اورلسانی تعصبات میں پڑگئے۔ مقدس جہادی مقاصد، ڈیڑھ کروڑ شہداء کی قربانیاں، مجاہدین اور مہاجر عوام کی امیدوں کو بھلا بیٹھے اور محض اقتدار کے حصول کو اپنا مقصد حیات بنالیا۔

چونکہ افغانستان کا تختۂ اقتدار ایک اور دعویدار زیادہ تھے اس لیے نوبت لڑائی تک آپہنچی، کل تک دینِ اسلام کی حفاظت کے دعوے کرنے والے ، کمیونیزم کے خلاف ایک محاذ کے ساتھی تھے اور اب اپنے مومن و مجاہد بھائی کو قتل کرنے کی خاطر کمیونسٹوں کے ساتھ معاہدے تک کیے اوررگروہی جنگ کی خونریز آگ بھڑکا دی۔

افغانستان کے دینی علماء گروہی جنگ سے کنارہ کش تھے، بلکہ بعض مسلسل ان کوششوں میں تھے کہ فریقین کے درمیان صلح ہوجائے۔ لیکن اقتدار کی خاطر لڑائی کرنے والے ہرگز کسی کی بات نہیں سن رہے تھے، یہاں تک کہ نہ صرف جہادی ثمرات کو نقصان پہنچا، بلکہ پورے ملک و قوم کا مستقل بھی خطرے میں پڑگیا۔ شہر تباہ ہوئے،قومی سرمایہ کی لوٹ مار ہوئی، ظلم، قتل وقتال اور فساد آسمان کو چھونے لگا اور عوام دن بدن تباہی کی طرف بڑھ رہی تھی۔

ماضی میں اگر افغانستان کا مذہبی طبقہ صرف دینی اقدار کی حفاظت کی خاطر میدان میں اترا ، تو اس بار عوام کے دینی و مادی اقدار دونوں خطرے میں تھے، لہذا دینی، عقلی، تاریخی اور ہر لحاظ سے یہ فرض بنتا تھا کہ عوام کے دینی تشخص کے محافظ (علماء، طالب علم، مجاہدین، قبائلی عمائدین اور مصلحین) ایک بار پھر لوگوں کی نجات کے لیے میدان میں اتریں۔ تباہی کے دہانے پر کھڑے افغانستان کو سقوط کے خطرے سے نجات دلائیں اور مطلقاً گمراہی اور زوال کی راہ پر چلنے والی عوام کی خوش بختی، اتحاد اور اسلامی نظام کی طرف رہنمائی کریں۔

ایسے ایک نورانی انقلاب اور عوامی بغاوت کی خاطر تمام تاریخی مقدمات بیان ہو گئے۔ لیکن تقدیر نے اس کارنامے کی سعادت ملا محمد عمر مجاہد کے نام لکھی تھی۔ ظلم و فساد کے عروج میں اللہ کی راہ کے مجاہد ملا محمد عمر نے امید کی شمع جلاتے ہوئے ظلم و فساد کو ختم کرنے کی آواز اٹھائی۔ افغانستان کے تقریباً تمام علماء، طالب علم اور مجاہدین آپ﷫ کے دست و باز بنے اور جہادی مقاصد کو پورا کرنے ، اسلامی حکومت کے احیاء اور عوام کے دینی تشخص کی حفاظت کی خاطر اس جہادی تحریک کا آغاز ہوا۔

مندرجہ بالا تاریخ سے ملا محمد عمر مجاہد کی تحریک اور امارت اسلامیہ کے بارے میں بنیادی سوالات کا بہت واضح جواب مل جاتا ہے کہ ملا محمد عمر مجاہد کی تحریک کس نظریے پر کھڑی ہوئی۔ وہ افغانستان کے سیاسی منظر نامے پر کہاں سے نمودار ہوئے اور کیوں نمودار ہوئے؟

افغان مسلمان عوام کی ایمانی غیرت و حمیت کو بیدار کرنے والا اور ایک اسلامی انقلاب بپا کرنے والا عظیم رہنما کون تھا؟ اس نے کیسے اٹھنے والے انقلاب کی رہنمائی کی؟ اسلام اور مسلمانوں کی خاطر کیا خدمات انجام دیں اور عالمی قوتوں کا کیا رد عمل رہا؟ آنے والی سطور ان سوالات سمیت دیگر بہت سے سوالات کے جوابات دینے میں آپ کی رہنمائی کریں گی۔

٭٭٭٭٭

Previous Post

قسم ربِ ذوالجلال کی! مجھے امیر المومنین سے محبت ہے!

Next Post

شیخ اسامہؒ کے کارہائے نمایاں

Related Posts

عمر ِثالث | ساتویں قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | دسویں قسط

26 ستمبر 2025
عمر ِثالث | ساتویں قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | نویں قسط

12 اگست 2025
عمر ِثالث | ساتویں قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | آٹھویں قسط

14 جولائی 2025
عمر ِثالث | ساتویں قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | ساتویں قسط

9 جون 2025
عمر ِثالث | پہلی قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | چھٹی قسط

26 مئی 2025
عمر ِثالث | پہلی قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | پانچویں قسط

14 مارچ 2025
Next Post
اہلِ حق اور اہلِ باطل کے درمیان دورانِ معرکہ مشاورت نہیں ہوتی!

شیخ اسامہؒ کے کارہائے نمایاں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version