خراسان میں القاعدہ کی مرکزی قیادت پر فائز رہنےاور دنیا کے مختلف جہادی محاذوں پر طویل عرصہ مصروفِ جہاد رہنے والےمجاہد عالمِ دین شہید شیخ عطیۃ اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ تحریر سن ۲۰۰۷ء میں انٹرنیٹ پر موجود ’انا المسلم فورم‘ پر ایک مباحثے کے دوران لکھی۔ اس تحریر سے جہاں امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد کی سیرت کے بعض اہم پہلو ؤں پر ر وشنی پڑتی ہے، وہیں اس سے امارتِ اسلامیہ افغانستان کے شرعی مواقف کا بھی اظہار ہوتا ہے ، اللہ پاک امارتِ اسلامی کے امراء و ذمہ داران کی حفاظت فرمائیں اور اقامتِ دین و نفاذِ شریعت کی راہ پر انہیں ثابت قدمی عطا فرمائیں، آمین۔ (ادارہ)
میرے محبوب بھائیو!
اس فورم پر مباحثے کے دوران ایک محترم بھائی نے یہ کہا کہ ہم امیر المومنین ملا محمد عمر حفظہ اللہ کا نام محض لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے لیتے ہیں۔ اللہ کی قسم! اس نے سچ نہیں کہا، اللہ اسے معاف فرمائیں! مجھے اس بھائی کی بات نے بہت تکلیف دی اور اسی لیے میں نے اس موضوع پر مختصراً کچھ لکھنے کے لیے قلم اٹھانےکا فیصلہ کیا۔
عزیز بھائیو!
میں اپنی کچھ سابقہ تحریرات میں یہ ذکر کر چکا ہوں کہ مجھے زندہ شخصیات کی تعریف میں کچھ لکھنا پسند نہیں کیونکہ ہم نے اپنے اسلاف سے یہی سیکھا ہے کہ انسان جب تک دنیا میں ہو تو اس بات کی حتمی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ وہ فتنے میں نہیں پڑے گا۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ عموماً علماء انہی صالحین کی سیرت و کردار پر تحریرات لکھتے ہیں جو دنیا سے جا چکے ہوں اور جن کے بارے میں ہمارا یہ گمان ہو کہ اللہ نے انہیں خیر وبھلائی والا خاتمہ نصیب فرمایا تھا۔ چنانچہ ہم ان کے محاسن کا تذکرہ کرتے ہیں اور ان کے اچھے اوصاف کا ذکر عام کرتے ہیں تاکہ ان کی عزت و تکریم کا کچھ حق ادا ہو سکے ، ان سے وفا نبھائی جا سکے اور اہل ایمان ان کی پاکیزہ سیرتیں پڑھ کر ان کے لیے دعا کریں اور ان کی خیر و بھلائی کی گواہی دیں ۔ نیز ایسی تحریرات کو پڑھ کر قارئین میں ان صالحین کے اچھے اعمال کی اقتدا کرنے اور ان جیسی خوبیاں اپنے اندر پیدا کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے اور یوں یہ تحریرات نسلِ نو کی تربیت کا ذریعہ بھی بنتی ہیں اور دعوت الی اللہ عام کرنے کا وسیلہ بھی۔اس کے برعکس زندہ شخصیات کے بارے میں میری کوشش ہوتی ہے کہ اول تو ان پر بات نہ کروں اور کبھی بات کی ضرورت پڑ جائے تو احتیاط اور اعتدال کے ساتھ ہی کروں۔ اسی لیے میں شیخ اسامہ حفظہ اللہ1 کی سیرت پر بھی اپنی تحریرات میں کچھ لکھنے سے ہاتھ روکتا رہا ہوں اور اگر کہیں اختصار سے کچھ لکھنا پڑا تو وہ بھی محض مسلمانوں کو ہمت و حوصلہ دلانے اور ا ن کے دلوں میں خیر و بھلائی کی امید پیدا کرنے کی غرض سے لکھا۔ پس اسی نیت کے ساتھ یہاں میں امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد (نصرہُ اللہ) 2 کے بارے میں بھی اپنی کچھ بکھری بکھری ، غیر مرتب یادداشتیں قلم بند کروں گا، شاید کہ وہ کسی کے لیے نفع کا باعث بن جائیں۔
جب امریکہ نے افغانستان پر حملے اور بالخصوص کابل و قندھار پر فضائی بمباریوں کا آغاز کیا تو امیر المومنین حفظہ اللہ نے اپنے محافظین کو جمع کیا اور ان کو یہ اختیار دیا کہ وہ چاہیں تو ان کے ساتھ رکیں اور چاہیں تو گھروں کو واپس چلے جائیں۔ آپ نے کہا کہ: ’’میں آپ میں سے کسی کو بھی ان مشکل حالات میں اپنے ساتھ رکنے پر مجبور نہیں کرنا چاہتا، آپ میں سے جو اپنی خوشی سے میرے ساتھ رکنا چاہے وہ رکے اور جو اپنے گھروں کی طرف واپس لوٹنا چاہے تو وہ واپس لوٹ جائے ، میری طرف سے مکمل اجازت ہے‘‘۔
جب طالبان کے بعض ذمہ داران نے ۱۱ ستمبر کے واقعات کے بعد شیخ اسامہ بن لادن سے ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ شیخ اسامہ نے ہماری بات نہیں مانی، تو امیر المومنین حفظہ اللہ نے اپنے سب ذمہ داران کے لیے یہ ہدایات جاری کر دیں کہ ’’آپ میں سے کوئی بھی اس موضوع پر ایک حرف تک زبان سے نہ نکالے‘‘! نیزآپ نے اپنے ساتھیوں کو اس کٹھن مرحلے میں صبر و ثبات کا مظاہرہ کرنے اور تقدیرِ الٰہی پر راضی رہتے ہوئے ان حالات کا سامنا کرنے پر ابھارا۔
امیر المومنین کے ایک چچا سن رسیدہ ہو چکے تھے۔ ایک مرتبہ امیر المومنین ان سے ملنے گئے اور پوچھا کہ:’’چچا جان! آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتائیے‘‘؟ تو آپ کے چچا نے کہا کہ:’’مجھے قرآن شریف کا ایک بڑے حجم کا مصحف درکار ہے جسےپڑھنا میرے لیے آسان ہو‘‘۔ یہ تھے امیر المومنین کے چچا جن کا اپنے اس بھتیجے سے جو پورے افغانستان کا حاکم تھا محض اتنا سا مطالبہ تھا کہ وہ ان کو ایسا بڑا قرآنی مصحف دے دے جس کو پڑھنا آسان ہو، کیونکہ بڑھاپے کے سبب ان کی نظر کمزور ہو چکی تھی اور وہ قرآن کی تلاوت میں دشواری محسوس کرتے تھے۔ سبحان اللہ!
مجھے بہت سے ساتھیوں نے یہ بات بتائی کہ امیر المومنین کی عاجزی اور انکساری کے سبب وہ پہلی ملاقات میں انہیں نہیں پہچان پاتےتھے اور مجلس میں موجود دیگر افراد اور امیر المومنین میں فرق نہیں کر پاتے تھے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس قوم کی سرشت میں ایسی عاجزی اور ایسے اعلیٰ اخلاق و خوبیاں ودیعت کر دی ہیں کہ جو اس مادہ پرستانہ دور میں کم ہی کسی قوم میں مجتمع نظر آتی ہیں۔ یقیناً یہ اللہ کا فضل ہے، وہ جسے چاہے اس سے نواز دے!
ملا بدین صاحب نے مجھے بتایا کہ امریکی حملے کے بعد جب امارت کا سقوط ہو رہا تھا اور ہم قندھار سے پسپاہونے والے تھے تو میں امیر المومنین ملا محمد عمر حفظہ اللہ سے ملنے گیا۔ انہوں نے میرے چہرے پر غم اور پریشانی کے اثرات دیکھے تو پوچھا کہ :’’ آپ کو کیا ہو ا ہے‘‘؟ تو میں نے کہا کہ: امارت کے سقوط کا غم ہے! اور اب تو قندھار کا سقوط بھی ہوا چاہتا ہے، کچھ بھی تو باقی نہیں بچا! یہ سن کر امیر المومنین نے فرمایا: ’’ایک وقت تھا جب ہمیں کوئی جانتا تک نہ تھا، اور ہم تو قندھار کے حاکم تھے اور نہ افغانستان ہمارا تھا۔ ہم نے کچھ بھی تو نہیں کھویا، صرف اتنا ہوا ہے کہ ہم اسی مقام پر واپس لوٹ آئے ہیں جہاں ہم پہلے تھے، تو بھلا اس میں پریشانی کی کیا بات ہے‘‘؟ اللہ اکبر! پاک ہے وہ ذات جو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہے زہد اور یقین کی دولت سے نواز دے!
لیبیا کے معروف مجاہد عالم دین شیخ ابو منذر ساعدی حفظہ اللہ اور دیگر کئی حضرات نے، جو امیر المومنین سے ملے ہیں اور قندھار میں ان کی زیارت کی ہے، مجھے امیر المومنین سے اپنی ملاقات کا حال بتایا۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ امیر المومنین کی قیام گاہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہ زمین پر اپنی افغانی چادر پھیلا کر اس طرح بیٹھے ہوئے ہیں گویا وہ کسی ریاست کے سربراہ نہیں بلکہ کوئی بالکل عام سے آدمی ہیں۔ آپ کے گھر کے بچے بھی آپ کے قریب ہی کھیل کود میں مصروف تھے اور ان کے لباس بھی ویسے ہی مٹی سے اٹے ہوئے تھے جیسے باہر سڑ ک پر گھومتے عام افغانی بچوں کے لباس! آپ کے بچوں او ر ایک عام افغانی شخص کے بچوں میں کوئی فرق نظر نہ آتا تھا۔ پس پاک وہ رب جو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہے عاجزی اور دنیا سے بے رغبتی کی نعمت سے مالا مال کر دے!
پاکستان کے علماء کا ایک بڑا وفد امیر المومنین سے ملاقات کے لیے قندھار گیا تاکہ ان سے بعض امور پر گفت و شنید اور مشاورت کر سکے۔ اس نشست کے موقع پر موجود ایک فرد نے بتایا کہ وفد بہت دیر تک بیٹھا رہا اور امیر المومنین کی ہیبت کی وجہ سے کسی کی ہمت نہیں ہو سکی کہ وہ ان سے بات شروع کرے۔ وفد نے اپنے میں سے ایک عالم کو بات کرنے کی ذمہ داری سونپی مگر ان کی بھی زبان اٹک گئی اور بالکل بات نہیں کر پائے۔ تقریباً پینتالیس منٹ اس حال میں گزرے کہ وفد امیر المومنین کے سامنے بالکل ساکت بیٹھا رہا۔ یہ اس امر کی محض ایک مثال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امیر المومنین کو کیسے عجیب رعب و دبدبے سے نواز تھا ۔ میرا گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آ پ کو یہ رعب آپ کی عاجزی، زہد اور ایمان کی بدولت عطا کیا تھا کیونکہ نہ تو آپ کے ساتھ محافظین اور درباریوں کی کوئی ایسی بڑی تعداد تھی جس سے رعب کھایا جائے، اور نہ ہی کوئی شاہانہ جاہ و حشمت تھی اور نہ ہی آج کے حکمرانوں کے یہاں مروجہ پروٹوکول میں سے کوئی شے!
جہاں تک امیر المومنین کی عرب ساتھیوں سے محبت و شفقت اور ان کے احترام و اکرام کا تعلق ہے تو اس پر جتنی بھی بات کریں کم ہے۔ میں نے سابقہ سطور میں ۱۱ ستمبر کے پس منظر میں شیخ اسامہ حفظہ اللہ کا جو واقعہ اس ذکر کیا وہ اس کی محض ایک مثال ہے۔ نیز ہمارے پاس ایسی مزید مثالوں کی کمی نہیں۔ اللہ تعالیٰ امیر المومنین کو ان کی اس شفقت کی بہترین جزا دے!
اسی طرح، آپ کی ایک نمایاں صفت آپ کی نرمی، رحمتِ قلبی اور عفو درگزر ہے۔ جو لوگ اُس عرصے میں افغانستان میں موجود تھے ان کو یقیناً ابو مبتسم نامی جاسوس کا قصہ یاد ہو گا۔ اس شخص کا تعلق شام سے تھا اور اس نے زندگی کا بیشتر حصہ عرب امارات میں گزارا تھا۔ وہاں اس کو امریکی خفیہ اداروں نے بھرتی کیا اور ایک مجاہد کی شکل میں افغانستان بھیجا۔ یہاں عرب ساتھیوں پر اس کی حقیقت منکشف ہو گئی اور انہوں نے اسے گرفتار کر لیا اور اس کا معاملہ امارت اسلامیہ کی عدالت کے سامنے پیش کیا جہاں اس کا جاسوس ہونا قطعی دلائل کے ساتھ ثابت ہو گیا اور اس نے خود بھی جاسوس ہونے کا اعتراف کر لیا۔ اسی دوران اس جاسوس کی ماں خلیج سے افغانستان پہنچی اور یہاں کئی دن اس حال میں گزارے کہ کبھی طالبان کے ایک ذمہ دار کے پاس جا کر روتی اور کبھی دوسرے کو جا کر ان سے لجاجت کے ساتھ درخواست کرتی کہ اس کے بیٹے کو معاف کر دیا جائے۔ ایک بار تو میں نے خود بھی مشاہدہ کیا جب میں القاعدہ کے مرکزی ذمہ داران میں سے ایک کے ساتھ قندھار میں طالبان کے ایک دفتر گیا تو وہاں ام مبتسم نے ہمارا دامن پکڑ لیا اور رونے لگی اور اپنا دکھڑا سنانے لگی۔ یہ خاتون وہاں آنے جانے والے ہر ذمہ دار کے ساتھ ایسا ہی کرتی تھی۔ امارت کے ذمہ داران اس خاتون سے حیاء کرتے اور اس کے سامنے سر جھکا لیتے یا نگاہیں پھیر لیتے اور نہایت نرمی سے پیش آتے۔ وہ اس کو ہمیشہ ایک ہی جواب دیتے کہ: ’’یہ معاملہ امیر المومنین کی طرف بھیجا جا چکا ہے اور ان شاء اللہ وہ بہتر فیصلہ کریں گے‘‘۔ میں نے اپنے ساتھ موجود بزرگ سے کہا کہ:’’میرے خیال میں امیر المومنین اس جاسوس کو معاف کر دیں گے، مجھے اس میں کچھ شک نہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ کسی عرب شخص کو قتل کرنے کا حکم دیں جب تک کہ ان کے پاس اسے بخشنے کی تھوڑی سی گنجائش بھی موجود ہو ‘‘! اور واقعتاً ایسا ہی ہوا، محض ایک دو دن بعد ہی امیر المومنین کا فیصلہ آ گیا …… آپ نے اسے معاف کر دیا!
امید ہے یہ چند بکھری بکھری سی مثالیں امیر المومنین کے کردار کی عظمت سمجھانے کے لیے کافی ہوں گی۔ یہ اس نیک صفت سربراہ کی معطر سیرت کے محض چند پہلوؤں کی سمت اشارہ تھا، اللہ ان کی نصرت فرمائے اور ان صالح اعمال کو ان کے نیکیوں کے پلڑے میں شامل کر دے، آمین! یہاں میں پھر سے یہ بات دہراتا ہوں کہ مجھے زندہ شخصیات کی تعریف لکھنا پسند نہیں، لیکن چونکہ اس فورم پر بحث کے دوران ایک بھائی نے ایسا تاثر دینے کی کوشش کی کہ ہم امیر المومنین کا ذکرِ خیر نہیں کرتے ، یا ان کا نام محض کسی مخصوص غرض کے لیے لیتے ہیں اس لیے جواباً یہ چند سطور لکھنا ضروری ہو گیا تھا۔ اللہ سے امید ہے کہ یہ سطور نفع کا باعث ثابت ہوں گی۔
رہ گئے امیر المومنین ( اللہ ان کی عزت میں اضافہ فرمائے) کی سیرت کے معروف ومشہور پہلو، تو ان سے ہر خاص و عام واقف ہی ہے، اس لیے یہاں سابقہ سطور میں ان کا ذکر نہیں کیا۔ مثلاً آپ کا بدھا کے بت کو تباہ کرنا، آپ کا علماء سے تعلق، آپ کا حکومتِ پاکستان کے ساتھ دو ٹوک موقف، آپ کا شیخ اسامہ کو کفار کے حوالے کرنے سے انکار کرنا، آپ کا پوست کی کاشت پر پابندی لگانا، وغیرہ۔ ان میں سے ایک ایک واقعہ ایسا ہے کہ اس کو تفصیل سے قلم بند کرنے اور آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔ امت کی زندگی ایسے ہی ابطال کے تذکروں سے ہے جن کے اعمال ان کی عظمت کے شاہد ہوں!
اسی طرح امیر المومنین کے بعض نادر کلمات بھی یاد رکھے جانے کے قابل ہیں ! یوں محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبان پر حق بات جاری کروا دی اور آپ کو نہایت فصاحت کے ساتھ کلمۂ حق کہنے کا ملکہ عطا کیا۔ اللہ نے آپ کو ایسا ایمانی نور، ایسا گہرا فہم اور ایسی عجیب بصیرت عطا کی جس کو الفاظ میں بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ جس طرح شیخ اسامہ کی وہ مشہور ’قسم‘ ہمارے سینوں میں ایمان و یقین کی بجلیاں بھر دیتی ہے کہ:
’’اس ذات کی قسم جس نے آسمانوں کو بلا ستون بلند کیا! امریکہ اور اس میں رہنے والے خواب میں بھی امن نہیں دیکھ پائیں گے جب تک ہمارے بھائیوں کو فلسطین میں حقیقی امن میسر نہ آ جائے اور جب تک تمام کافر افواج محمد عربی ﷺ کی سر زمین سے نکل نہ جائیں! ‘‘
بالکل اسی طرح، بلکہ اس سے بھی زیادہ ایمان و یقین امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ کے یہ تاریخی کلمات ہمارے سینوں میں بھر دیتے ہیں کہ:
’’میرے سامنے دو وعدے ہیں، اللہ نے فتح و نصرت کا وعدہ کیا ہے اور بش نے شکست وہزیمت کا۔ میں اللہ کے وعدے کو تھامے کھڑا ہوں اور عنقریب سب دیکھ لیں گے کہ دونوں میں سے کس کا وعدہ سچا تھا!‘‘
اسی طرح آپ کا یہ بلیغ جملہ بھی آج تک کانوں میں گونجتا ہے اور آپ کی ایمانی بصیرت کا پتہ دیتا ہے کہ:
’’بلا شبہ امریکہ ایک بڑا ملک ہے، لیکن اس کی عقل چھوٹی ہے اور وہ حقائق کا سامنا کرنے کی بجائے دھوکے میں مبتلا ہے۔‘‘
میں اللہ عز و جل کو اور اللہ کی تمام مخلوقات کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد سے بہت محبت کرتا ہوں ، اگرچہ مجھے ان کے دیدار کا شرف نصیب نہیں ہوا!اور یقیناً تمام معاملات اللہ ہی کی طرف سے ہیں اور اسی کی طرف لوٹتے ہیں!میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ امیر المومنین کو راہِ حق پر ثابت قدم رکھیں اور ہمیں اور انہیں حسنِ خاتمہ نصیب فرمائیں، آمین!
اے اللہ! جیسے تیرے اس بندے نے تیرے دین کی نصرت کی، تو اس کی نصرت فرما!
اے کریم ومنان! اے وہاب! اے رحمان ورحیم! تیرے اسے مجاہد بندے نے تیرے وعدے پر بھروسہ کیا اور تیری بات کی تصدیق کی اور سب کو چھوڑ کر تجھی سے امیدیں باندھ لیں…… پس اے اللہ! تو اس کو نامراد نہ لوٹا بلکہ اپنے فضل سے اس کی نصرت فرما!
اے اللہ! اگر تو نے اپنے اس بندے کی نصرت نہ کی تو تیری بہت سی مخلوق فتنے میں پڑ جائے گی، یقیناً تو جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، تو ہی ہمارا مولی ہے، پس ہماری مغفرت فرما اوررہم پر رحم فرما، یقیناً تو بہترین مغفرت فرمانے والا ہے، آمین!
آخر میں یہی کہوں گا کہ ہر اعتبار سے حقیقتاً کامل ذات تو بس اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ہے۔ باقی، اللہ کی تمام مخلوقات جہاں اپنے اندر خوبیاں اور کمالات رکھتی ہیں وہیں ان میں کچھ نہ کچھ کمزوریاں اور عیوب بھی ضرور پائے جاتے ہیں، لیکن ہمیں ہمارے دین نے محاسن کو اجاگر کرنا اور عیوب پر پردے ڈالنا سکھلایا ہے، اور بھلائی کی توفیق تو بس اللہ ہی دیتے ہیں۔ اللہ کی قسم ! میرا گمان ہے کہ ملا محمد عمر حفظہ اللہ کا شمار تاریخ کے عظیم کرداروں میں اور گزشتہ صدیوں کی نادرِ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے۔ انسانی آنکھ نے آپ جیسی شخصیات کم ہی دیکھی ہوں گی! اور بلا شبہ تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، نہ اس کے سوا کوئی الہٰ ہے اور نہ اس کے علاوہ کوئی رب!
الحمدللہ امیر المومنین اور ان کے تمام عرب و عجم ساتھی اپنے عہد پر قائم اور ان شاء اللہ راہِ حق پر ثابت قدمی سے گامزن ہیں، نہ کسی کا ساتھ چھوڑنا اور نہ کسی کی بے جا مخالفت ان کو ضرر پہنچا سکے گی یہاں تک کہ وہ اللہ کا فیصلہ آ جائے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ان کو مضبوطی بخشے، ان کی تکالیف و مشکلات دور کر دے، ان کی نصرت فرمائے، ان کے قدموں کو ثبات دے اور خاص اپنی طرف سے ان کی مدد فرمائے، یقیناً وہ بہترین صفات کا حامل اور اہلِ ایمان کی نصرت پر قادر ہے۔ آمین! والحمد للہ رب العالمین۔
٭٭٭٭٭
1 واضح رہے کہ یہ تحریر جس وقت لکھی گئی اس وقت تک شیخ اسامہ بن لادن رحمۃ اللہ علیہ حیات تھے۔
2 شیخ عطیہ کی شہادت شیخ اسامہ کی شہادت کے تین ماہ بعد ۲۲ اگست ۲۰۱۱ء میں ہوئی۔ شیخ کی شہادت کے وقت امیر المومنین ملا محمد عمر حیات تھے۔