بسم الله الرحمن الرحيم
الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم أما بعد!
برِّصغیر اور پوری دنیا میں بسنے والے اہل ایمان بھائیو!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ !
رب اشرح لي صدري ويسر لي أمري واحلل عقدة من لساني يفقهوا قولي
قال اللہ تعالیٰ:ﯚيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَﯙ
رمضان المبارک کی آخری گھڑیاں ہیں، اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ رمضان المبارک کے تمام فیوض و برکات سے ہم سب اہل ایمان کو ہمکنار کرے اور آنے والی عید سعید، عید الفطر کو برصغیر اور پوری دنیا میں موجو دمسلمانوں کے لیے مبارک کرے ، اللہ ماہ رمضان کی عبادات ودعاؤں کو امت کی اصلاح وبیداری اور جہاد ونصرتوں کا سبب ثابت فرمائے ،آمین یارب العالمین !
محترم اہل ایمان بھائیو!
اس عید پرہماری خوشی بلاشبہ دوبالا ہوجاتی اگر اہل ایمان ظلم کی چکی میں نہ پس رہے ہوتے اور اللہ کا دین مغلوب نہیں غالب ہوتا، مگر افسوس! ہماری آزمائش ہے کہ ایسا نہیں ہے ،آج امت کی اکثریت مظلومیت یا غفلت کی ایسی تاریک رات میں جی رہی ہے کہ جس کی نظیر شاید ہی کبھی ماضی میں دیکھی گئی ہو۔مسلمانان غزہ پر اسرائیل و امریکہ کی طرف سے پچھلے چھ ماہ سے زائد سے بدترین مظالم ڈھائے جارہے ہیں ،رمضان کے مہینے میں بھی نہ ان کا قتل عام رکا اور نہ ہی انہیں مطلوب خوراکی مواد غزہ کی پٹی میں جانے دیا گیا، یہاں تک کہ ایسا بھی ہوتا رہا کہ پانی پر سحری ہوئی اور پانی ہی پر افطاری کرکے اللہ کا شکر ادا ہوا۔ بدترین یہ کہ نہتے عوام ، بچوں و خواتین کوتو پہلے سے شہید کیا جارہاتھا ، اس ماہ میں ماؤں بہنوں کی عزتوں پر بھی ہاتھ ڈالا گیا اوریہ سب کچھ ، دلوں کو چیرنے والی یہ ساری اندوہناک خبریں دنیا بھرکو پہنچتی رہیں، مگر امت مسلمہ اس قابل نہیں ہوئی کہ اپنے بھائی بہنوں کی پکار پر لبیک کہہ کر ان کی کوئی مدد کرپائے، نتیجتاً یہود کو اہل غزہ کے خلاف کھلی چھوٹ حاصل رہی اورپھر جس طرح انہوں نے چاہا اہل ایمان پر مظالم کے پہاڑ توڑے۔
ظلم کی یہ کہانی صرف غزہ تک محدود نہیں ، ہندوستان میں مسلمانوں پر زندگی تنگ کرنے اور انہیں بدترین غلامی یا موت میں سے کسی ایک آپشن کو اپنا نے پر عرصہ دراز سے مجبور کیا جارہاہے، مساجدکومسمار کرنا اور اہل ایمان کو شہید کرنا روز کامعمول اب بن گیاہےاور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کھڑا کرنے میں جب انہیں کامیابی ہوئی تو آج(خاکم بدہن) ہزاروں مساجد کو مندروں میں تبدیل کرنے اور دارالعلوم دیوبند کو مسمار کرنے کے منصوبے کا بھی اب اعلان ہوچکا ہے ……افسوس یہ ہے کہ اہل ایمان کی نسل کشی کایہ ’صہیونی ہندتوا‘ منصوبہ عمل میں ڈھل کر آگے سے آگے بڑھ رہاہے، مگر ہندوستان کے اندر یا اس سے باہر پاکستان و بنگلہ دیش میں کہیں بھی اس کے خلاف کوئی تحریک نہیں اٹھ رہی ہے ، کوئی ایسی قوت برِّصغیر کے افق پر نہیں تشکیل پا رہی جس کو دیکھ کر ہندو اپنے عزائم سے پیچھے ہٹ جائیں اور مسلمانان ہند کادین اور دنیا محفوظ رہ جائے،اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح غزہ کی جنگ میں اسرائیل وامریکہ کوعرب افواج و حکام کا مکمل تعاون حاصل ہے ، بعینہ اسی طرح یہی تعاون برِّصغیر میں ہندوستان و امریکہ کو پاکستان و بنگلہ دیش کی افواج کی طرف سے غیر اعلانیہ یا اعلانیہ فراہم ہے ۔ جس طرح عالم عرب میں صہیونی عزائم کو کامیاب کرنے کے لیے عرب حکومتیں اپنے ہاں اسلام کے خلاف برسرپیکار ہیں اور معاشرے سے اسلام نکالنا اور کفر وفجور کو رائج کرناان کا مقصد بن گیاہے ، بالکل اسی طرح پاکستان اور بنگلہ دیش کی افواج وحکومتیں اپنے اپنے ہاں اسلام کے خلاف برسرجنگ ہیں اور دونوں کی یہ کوشش ہے کہ ان ممالک میں کوئی ایسی قوت نہ اٹھ کھڑی ہو ، جو اسلام کے نفاذ و احیاء کا باعث بن جائےاور جو ’ صہیونی ہندتوا‘ منصوبوں کے مقابل اہل اسلام کے دفاع و نصرت کاکام کہیں کر سکے۔پھر اس صہیونی جنگ میں مؤثر ترین اور بدترین کردار پاکستانی فوج کا ہے کہ یہ پچھلے پچیس سال سے امریکہ کی غلامی میں اسلام اورمجاہدین اسلام کے خلاف جبکہ صہیونی اتحاد کے دفاع میں بھرپور جنگ لڑ رہی ہے اور یہ اُن مجاہدین کے خلاف آپریشنوں کی ایک پوری تاریخ رکھتی ہے جو اہل اسلام اور مقدسات کے دفاع کی جنگ لڑرہے ہیں اور جنہوں نے پاکستان کے نظام باطل کے مقابل نفاذِ شریعت کا جھنڈا اٹھایا ہوا ہے۔ یہ پاکستانی جرنیل صہیونی غلامی میں ذلت کی کس آخری حد تک گرگئے ، اس کا انداز ہ اس سے کیا جاسکتاہے کہ امریکہ کو پاکستانی فوج کی اب تک کی ’قربانی ‘ قبول نہیں ہوئی ،بلکہ اس نے ان جرنیلوں سے اسرائیل کے ساتھ تعلق قائم کرنے کا مطالبہ بھی رکھ دیا۔’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘کے جرنیلوں اور سیاست دانوں نے اس میں بھی کوئی جھجک محسوس نہیں کی اور اسرائیل کے ساتھ بھی یہ تعلق استوار کیاگیا جس کے مظاہر صحافی اور سیاسی افراد پر مشتمل ایک وفد اسرائیل بھجوانے ، زرعی و طبی ٹیکنالوجی میں اسرائیلی یونیورسٹیوں کے ساتھ تحقیق و تعاون اور کرکٹ میچ میں فلسطین کے حق میں نعروں اور جھنڈوں پر پابندی لگانے کی صورت میں نظر آئے ۔ لہٰذا مقصود یہ ہے کہ ’صہیونیت و ہندتوا‘ کی اس عالمی جنگ میں ’ہماری‘ کہلانے والی افواج اسلام و اہل اسلام کے دفاع میں نہیں ، بلکہ ان کے خلاف دشمنان امت کی صف میں کھڑی ہیں، ہندوستان اور غزہ میں اہل اسلام جن مظالم سے گزر رہے ہیں ، اس میں ان افواج کا براہ راست حصہ موجود ہے ، اس لیے کہ یہی افواج امت مسلمہ کا دفا ع کرنے والے مجاہدین کے خلاف ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی ہیں۔
عزیز اہل ایمان بھائیو!
اسلام اور اہل اسلام کے خلاف یہ جنگ وسیع بھی ہے اورمؤثر بھی ہے ، اس کے اثرات برصغیراور عالم عرب دونوں میں واضح نظر آرہے ہیں ، اس جنگ کے مقاصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ نورِ اسلام بجھایا جائے اوراس کی جگہ ظلماتِ شرک و کفر کو غالب کیا جائے۔ ہندوستان سے اسلام نکال دینااور برصغیر بھر کو ہندتوا کی غلامی میں لانا اس کا مقصد ہے، مسجدِ اقصی کو (لاقدراللہ )مسمار کرنا، اس کی جگہ یہودی ہیکل قائم کرنا اور پھروسیع تر اسرائیل قائم کرکے دنیا بھرمیں شرک و فساد کی دجالی حکومت قائم کرنا پوری دنیا میں پھیلی اس جنگ کی منزل ہے ،ایسے میں جب اس جنگ اور اس کے مقاصد کا ذکر کیاجاتاہے تو کہاجاتاہے کہ نہیں، ایسا کبھی نہیں ہوگا ، یہ ناکام ہوں گے ، فلسطین نہ یہودیوں کا تھا اور نہ رہے گا، یہ اہل اسلام کا ہے اور ہوگا، اللہ کا دین غالب ہو گا اوراللہ کی نصرت ضرور آکر رہے گی ۔ یہ کہنا سب بجا ہے اور اس کے سچے ہونے میں ہمیں بھی رتی برابر شک نہیں۔ مگر اس سیاق وسباق میں دو گزارشات آپ کی خدمت میں رکھنا ضروری سمجھتاہوں ۔
اول یہ کہ یقیناً اللہ کی نصرت قریب ہے مگر یہ نصرت خود چل کر کبھی نہیں آیا کرتی ، اس کے لیے اہل ایمان نے اٹھ کر رخت سفر باندھناہوتاہے ، مسلمان خود اپنے آپ کو اس کے قابل بناتے ہیں تو یہ ان کے شامل حال ہوجاتی ہے۔ اللہ کی کتاب بتاتی ہے کہ یہ نصرت مشروط ہے ہمارے اٹھنے ، ہمارے کھڑے ہونے اور اللہ کی راہ میں جان ومال کی قربانی پیش کرنے کے ساتھ ، اللہ کا فرمان ہے ﯚيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْﯙاگر تم اللہ کے بنوگے ، اللہ کے دین پر عمل پیرا ہو گے ، اس کی شریعت کی پابندی کروگے ، اس کی خاطر اس کے دشمنوں کے خلاف لڑوگے ، قربانیاں دوگے تو پھر میں بھی تمہیں بے آسرا اور بے یارو مددگار نہیں چھوڑوں گا، بلکہ ایسے مومنین کی نصرت اللہ اپنے ذمہ لے لیتاہے ﯚوَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينﯙجب حقیقت یہی ہے تو پھر دیکھیے کہ ہم اپنےقلوب و اعمال کے ذریعہ امت مسلمہ سےنصرت الٰہی کو قریب کرنے والے ہیں یاالٹا اس نصرت کو اس سے دور کرنے والے ہیں ؟ ہمارا ہر وہ عمل جس کے کرنے یا چھوڑنے سے اللہ ناراض ہوجاتاہے ، وہ اس نصرت کو امت مرحومہ سے دور کرنے والا ہوتاہے ،ان اعمال میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑنا بھی اہم ہے ، کہ جب اس عمل کو چھوڑا جاتاہے اور اس کے باعث منکرات عام ہوجاتے ہیں تو اللہ کی معیت اور اس کی نصرت رخصت ہوجاتی ہے اور دشمنان امت کو آگے بڑھنے کا موقع مل جاتاہے ، اسی طرح اہم ترین عمل جس کے چھوڑنے سے نصرت ِ الٰہی چلی جاتی ہے وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے ۔ یہ وہ فرض ہے کہ جس کو جب نہیں نبھایا جاتا تو اللہ رب العزتﯚيُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًاﯙفرماکر دنیا میں عذاب کی وعید سنا تا ہے اور ایسی قوم کواپنی نصرت سے محروم کرکے اس کی جگہ کسی دوسری قوم کو لاکھڑاکرنے کی تنبیہ کرتاہے۔لہٰذا نصرت الٰہی قریب ہے مگر ہمیں اس کا حق دار بننے کے لیے محنت کرنی ہوگی اوراپنے قلوب وجوارح اور اقوال و اعمال سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم واقعی ایمان رکھتے ہیں اورغیر اللہ کے خلاف اللہ کے انصار بن کر اس کے دین کی نصرت کرتے ہیں۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ ، امت مسلمہ کی آزادی و نصرت اور اس کے مقدسات کے دفاع کی تڑپ جب ہمارے دلوں میں ہے اور اس کے لیے میدان جہاد میں قدم رکھنا بھی ہم ناگزیر سمجھتے ہیں تو پھر صہیونی غلام افواج کے سامنے مطالبات پیش کرنا، ان سے امت مسلمہ کی نصرت کی کوئی امید رکھنا یا اپنے جہاد وعمل کو ان کی اجازت کے تابع کرنا اس جہاد کا راستہ نہیں ہے،ایسا کرناالٹاصہیونیوں سے ہی دین اسلام کی نصرت طلب کرنے کے مترادف ہے۔ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا، اس کی دوستی اور دشمنی کا فیصلہ شریعت کرتی ہے اور اس کی تائید وحمایت اللہ کی خاطر ، اللہ کے لیے محبت و نفرت کے تابع ہوتی ہے ، نہ کہ وطن ، قوم یا گروہ اس کی بنیاد ہواکرتے ہیں۔ امت مسلمہ اور اس کے مقدسات کی آزادی اور غلبۂ اسلام کے لیے جہاد فرض عین ہے ، اور یہ جہاد ان صہیونی غلام افواج کے ساتھ تائید وہمدردی کاتعلق رکھ کر کبھی نہیں ہوگا ، بلکہ یہ تب ہی ہوپائے گا جب ان کے ساتھ براءت اور عداوت کا رویہ رکھاجائے۔جو فوج آج بھی مجاہدین اسلام کے خلاف جنگ اپنا فرض سمجھتی ہے اور خونِ مسلم بہاکر صہیونیوں سے اس غلامی کی قیمت وصول کر تی ہے ، ایسی فوج کو مسلمانوں کی فوج کہنے اور ان سے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف جہاد کی اپیلیں کرنے کی بجائے اس کے خلاف جنگ وجہاد فرض ہوجاتاہے ۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ رب کریم امت مسلمہ پر رحم فرمائے ، مجاہدین اسلام کو ہدایت اور اتفاق و اتحاد نصیب فرمائے۔ یا اللہ! جومجاہدین صہیونی فساد کے خلاف برسرپیکار ہیں ، فلسطین کے اندر یا اس سے باہر ، ان کی مدد فرما، ان کے نشانے ٹھیک ٹھیک بٹھا،اور انہیں امت مظلومہ کے سینوں کی ٹھنڈک کا ذریعہ بنا۔ اللہ سے دعا ہے کہ صہیونی غلام فوج کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کی مدد و نصرت فرمائے ، انہیں توفیق دے کہ اس غلام فوج کا شر اہل ایمان سے دور کردیں تاکہ زمین پر اللہ کا دین غالب ہونے کا راستہ ہموار ہوسکے ……یااللہ! ہماری مدد فرما ، رہنمائی فرما ،دشمنان امت کے خلاف قتال میں ہمیں استعمال فرما اوراپنی رضا اور امت مسلمہ کی نصرت و بیداری میں ہمارا خون قبول فرما ،آمین یا رب العالمین!
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین!
٭٭٭٭٭