آپ کا اصل نام ثناء اللہ تھا اور آپ کا تعلق شہر کراچی سے تھا۔ آپ جامعہ کراچی میں اپنی تعلیمِ فن و ہنر کو جاری رکھےہوئے تھے کہ جہاد فی سبیل اللہ کی دعوت آپ کے کانوں تک پہنچی۔ اس آفاقی دعوت کا پہنچنا تھا کہ آپ نےبلا ترد اس پکار پر لبیک کہا اور اپنے روشن مستقبل کو اپنے پاؤں سے کچلتے ہوئے، امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روشن مستقبل کے لیے نکل پڑے۔ دراصل آپ جان چکےتھے کہ جب تک اس امت کی ماؤں بہنوں کی عزتیں محفوظ نہیں، جب تک زمین پر قرآن و سنت کی بالادستی نہیں، جب تک شعائر اسلام محفوظ نہیں ، جب تک زمین پر کفر کی حاکمیت ختم نہیں ہوجاتی، جب تک ہر سمت اسلام کا بول بالا نہیں ہوجاتا ہے، جب تک یہ امت شریعت کی بہاریں نہیں دیکھ لیتی، اس وقت تک سکون و آرام کیسا؟
ایسے میں مکتب علم و فن کو جاری رکھنا کہاں کی عقل مندی؟ آپ اس امت کے مستقبل پر اپنا مستقبل قربان کر آئے کیونکہ کے یہ امت جسد واحد کی مانند ہے اس امت کے مستقبل سے وابستہ آپ کا مستقبل ہے، اس امت کا غم آپ کا غم بن گیا تھا، اس امت کے دکھ کو آپ اپنا دکھ سمجھتے ، اس امت کے زخموں کو آپ اپنے زخم جانتے:
عشق کا وعدہ ہم نے پورا اے رب غفار کیا
قرآن کو آنکھوں میں بسایا احمدؐ کو سالار کیا
پیش کیے ہر ایک نے دعوے ہم نے مگر کردار کیا
اک تھا خزینہ جاں سو اس کو تیری راہ میں باج کیا
ہم نے اس امت کے کل پر قرباں اپنا آج کیا
اچھےقد، مضبوط جسم، گوری رنگت کے مالک ثناء بھائی انتہائی بہادر اور نڈر انسان تھے۔ اسلحے سے بے پناہ محبت رکھنے والے تھے۔ شہرِ کراچی میں ہوتے ہوئے بھی آپ اپنا ذاتی پستول نائن ایم ایم اسٹوگر اپنے پاس رکھتے، یہاں تک کہ جب آپ نے سرزمینِ ہجرت کی جانب سفر شروع کیا تو یہ پستول آپ ساتھ لے کرآئے ۔ آپ کے سفر میں ایک دلچسپ واقعہ بھی پیش آیا جو مختصراً قارئین کی نذر کرتا ہوں ۔ سفر جہاد شروع کرنے سے پہلے ہر مجاہد کی طرح آپ کو بھی ضروری ہدایات دی گئی تھیں کہ امنیت(حفاظتی تدابیر) کے برخلاف کوئی چیز اپنے ساتھ سفر میں نہ رکھیں، مثلاً جہادی ترانے، جہادی ویڈیو، جہادی لٹریچر وغیرہ یا اس طرح کی کوئی اور چیز۔ خیر سفر شروع ہوا۔ جب آپ پنجاب میں داخل ہوئے تو ایک مقام پر چیک پوسٹ پر سخت تلاشی جاری تھی۔ نہ جانے آپ کو کیا شرارت سوجھی ، آپ نے امیر سفر کو بتایا کہ بھائی تلاشی سخت ہے۔ امیر صاحب بے چارے فوراً بولے بھائی آپ اپنے حواس قابو میں رکھیں اور یہ بتائیں آپ کے پاس کوئی ایسی چیز تو نہیں جس سے شک ہو کہ آپ مجاہد ہیں۔ تو ثناء بھائی بولے نہیں امیر صاحب آپ غم نہ کریں صرف نائن ایم ایم پستول ہے بمع گولیوں کے اور کچھ نہیں۔ یہ سننا تھا کہ امیر صاحب کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور ثناء بھائی کو ڈانٹتے ہوئے بولے بھائی آپ کو بتایا گیا تھا کہ ایسی چیز سفر میں نہ رکھیں، پھر آپ نے یہ کام کیوں کیا؟ ثناء اللہ بھائی بات سن کر مسکرانے لگے اور امیر صاحب کو بتانے لگے بھائی آپ غم نہ کریں یہ پستول لائسنس والا ہے ۔
ثناء بھائی غیرتِ ایمانی سے سرشار ایک پرعزم نوجوان تھے، جن کے دل میں اللہ رب العزت نے اپنے دین کی محبت بچپن ہی سے بھر رکھی تھی۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی آپ نے دعوت الی اللہ کی جدوجہد میں حصہ لینا شروع کر دیا ۔ آپ نوجوانوں کو برائی سے روکنے والے اور معروف کی دعوت دینے والے تھے۔ آپ کا شمار ان اہل ایمان میں ہوتا ہے جوامر بالمعروف و نہی عن المنکر کے آداب کی رعایت کرتے ہوئے برائی کو ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرتے تھے تاکہ ایمان کے اولین درجے پر فائز رہیں۔ مفہومِ حدیث ہے کہ نبیٔ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جب تم برائی ہوتے دیکھو تو اسے ہاتھ سے روکو کیونکہ یہ ایمان کا اعلیٰ درجہ ہے، اگر تم اسےہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ پاؤ تو اسے زبان سے روکو ، اگر اس کی طاقت بھی نہ ہو تو برائی کو دل میں برا جانو کیونکہ یہ ایمان کا کمزو ترین درجہ ہے ۔‘‘
آپ جس دینی طلبہ تنظیم سے وابستہ تھے تو اس کے ایک غیر رسمی یونٹ تھنڈر اسکواڈ کے فعال رکن تھے۔ آپ نے قومیت و عصبیت کی بنا پر ظلم کرتے کئی ایم کیو ایم کے غنڈوں سے نبٹا۔ جب تک آپ کراچی یونیورسٹی میں تھے اے پی ایم ایس او والے آپ کے نام سے بھی خوف کھاتے۔
ثناء اللہ بھائی کے ساتھ میدان جہاد میں وقت تو نہیں گزرا مگر جہاد سے پہلے کے تعلقات میں جتنا انہیں جانا پرکھا تو بہترین اخلاق، بلند عزم، جواں ہمت، خود اعتماد، بھر پور قوتِ فیصلہ، قربانی و ایثار کرنے والا پایا۔ جہاد فی سبیل اللہ کے راہیوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ قتال کے میدانوں میں قدم رکھیں اور انہیں بندوق تھمائی جائے تاکہ وہ عَدُو اللہ سے اپنے دین وملت کا انتقام لیں اور مسلم سرزمینوں کا دفاع کرتے ہوئے اپنی یہ قیمتی متاع اللہ رب العزت کی راہ میں وار دیں اور پھر وہ خود جنت کے بالاخانوں میں اڑتے پھریں۔ مگر ہر مجاہد فی سبیل اللہ کی یہ خواہش جلد پوری نہیں ہوتی بہت سے مجاہدین کو اس تمغۂ شہادت کو سینے پر سجانے کے لیے بہت جتن کرنے پڑتےہیں، کئی معرکوں سے گزرنا پڑتا ہے، بہت سی تکالیف و آزمائش کے امتحان پاس کرنے پڑتے ہیں، سالوں تلک سنگلاح پہاڑوں، گھنے جنگلوں، ویران دشتوں میں اس جامِ حسین کی خاطر سرگرداں رہنا پڑتا ہے، تب کہیں جا کر وہ حور عینا ریشمی رومال ہاتھوں میں لیے اس مجاہد کو بانہوں میں سمانے آتی ہے۔ ہاں بہت سےخوش نصیب ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جنہیں کوئی خاص محنت نہیں کرنی پڑتی بس ان کی ابتدائی آزمائش و قربانی ہی اللہ کے ہاں مقبول ہوتی ہے۔ ان میں اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں دنیا ہر سمت سے گھیرے ہوتی ہے دنیا کی ہر سہولت جنہیں میسر ہوتی ہے جو اپنے روشن مستقبل کی فکر میں مگن ہوتے ہیں مگر ربِّ کعبہ کی ایک پکار پر سب کچھ تج کے امت مسلمہ کے روشن مستقبل کی خاطر نکل پڑتے ہیں۔ بس ان کا یہی اصل امتحان ربِّ کعبہ کو خوش کرنے کا سبب ہوتا ہے۔ جبھی تو اللہ تعالیٰ بھی انہیں بہت زیادہ نہیں تھکاتے ، یہی وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جن کےبارے میں فرمایا گیا ہے کہ عمل کم کیا اور اجر خوب سمیٹا۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک شخص نبیٔ ملاحم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لوہے کی ٹوپی(جنگی ٹوپی) پہن کر حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں پہلے اسلام لاؤں یا قتال کروں؟ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا پہلے اسلام قبول کرو، چنانچہ اس شخص نے اسلام قبول کیا (پھر اسی وقت) اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہوئے شہید ہو گیا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عمل کم کیا اور اجر زیادہ پاگیا۔ (صحیح بخاری)
۱۱دسمبر ۲۰۰۸ء، بروز جمعرات بمطابق ۱۳ ذوالحجہ جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ امت اپنے جدِ امجد ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے لاکھوں جانور اللہ کی راہ میں قربان کر چکی تو کچھ عاشقانِ خدا اپنی جانوں کی قربانی دینے مقتل گاہ کی طرف دوڑ پڑے۔ قربانی کےجانور تو انہوں نے بھی ذبح کیے تھے مگر یہ لوگ یہ جان چکے تھے اس قربانی سے امت کے زخموں کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔ اگر اس امت محمدیہ کے دامن کو خوشیوں سے بھرنا ہے، اس امت کو غموں سے نجات دلانی ہے، اس امت کو تابندہ و رخشندہ مستقبل کی طرف لے جانا ہے تو اپنی عزیز ترین متاع اس رب العزت کی راہ میں قربان کرنی ہوگی جو ہر چیز سے واقف ہے۔
لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَىْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ(سورۃ آلِ عمران: ۹۲)
’’جب تک تم اپنی پسندیده چیز سے اللہ تعالیٰ کی راه میں خرچ نہ کروگے ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے، اور تم جو خرچ کرو اسے اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے۔‘‘
بھائی ثناء اللہ سمیت گلدستۂ جہاد کے چھ موتی جو کے بہت ہی انمول اور نایاب تھے، جن سے ان کے امرائے جہاد کو بہت سی امیدیں وابستہ تھیں، سب ہی راہِ جہاد کے نئے نئے شہسوار تھے۔ انہین جہاد میں ابھی بہت زیادہ وقت نہ گزراتھا اور شہادت کی طلب سبھی کے سینوں میں موجزن تھی۔ ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر شہادت کا متمنی تھا۔ ان میں چار تو دعوتی میدان میں بھی ایک ساتھ رہے تھے۔ یہ سب ساتھی دشمن سے بچتے ہوئے رات کےاندھیرے میں جنوبی وزیرستان کے علاقے اعظم ورسک میں ایک نئے مرکز میں منتقل ہوئے کہ یہاں انہوں نے ایک شرعی دورے میں شامل ہونا تھا۔ فضا میں گھومتے ڈرون طیاروں کو چلانے والی امریکی فورسز کو پاکستانی فوج کے کسی ایمان فروش جاسوس نے مخبری کی اور رات گیارہ سے بارہ بجے کے درمیان ڈرون طیارے نے ساتھیوں کے مرکز پر میزائل فائر کیے جس سے یہ مرکز ملبے کے ڈھیر میں بدل گیا اور اس میں موجود سب ساتھی اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ کیا ہی خوش نصیب ہیں کہ دنیا میں بھی ساتھ جیے اور شہادت بھی ایک ساتھ پائی۔ سبھی کے جذبے سچے تھے سبھی کی تڑپ دیدنی تھی، اللہ نے سبھی کو یک جا شہادت سے سرفراز کیا (نحسبہ کذالک واللہ حسیبہ)۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شہید کو شہید ہوتے وقت اتنی ہی تکلیف ہو تی ہے جتنی تم میں سے کسی کو چیونٹی کے کاٹنے سے درد ہوتا ہے ۔ (ترمذی)
اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ثناء اللہ بھائی سمیت تمام شہدا کو قبول فرمائیں اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائیں، ہمارے ان بھائیوں کے خون کوصبحِ نو کی آمد کا ذریعہ بنائیں، آمین !
٭٭٭٭٭