١٩٨٩ ءمیں کشمیر میں عوامی جہادی تحریک کی شروعات نے بھارتی سامراج کی بنیاد ہلا دی تھی ۔ کشمیری مجاہدین نے بھارت کی نیندیں اڑا دی تھیں اور حال یہ تھا کہ کہ بھارت کو کسی کشمیری پر بھی بھروسہ نہ تھا کہ وہ اس کا ساتھ دے گا۔ مستقبل میں نزدیک آتی شکست کو دیکھ کر بھارتی ہندو قابض فوج نے اپنی درندہ نما خصلتیں دکھانا شروع کیں اور اگلے کئی سال اس کی بہت سی مثالیں کشمیر میں دکھائی دیں۔
شروعات جنوری ١٩٩٠ میں ہوئی جب سرینگر کے گاؤ کدل میں قابض بھارتی فوج نے پچاس (۵۰)سے زائد مسلمانوں کا قتل عام کیا۔
٢١ جنوری ١٩٩٠ء کو کشمیر کے مرکزی شہر سرینگر میں اسلام اور آزادی کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے ایک جلوس نکالا گیا۔ اس میں سرینگر شہر کے کئی علاقوں کے لوگ شریک تھے۔ کچھ دن پہلے مشرک ہندو فوجی مجاہدین کو ڈھونڈنے کے بہانے سے سرینگر کے چوٹابازار علاقے میں لوگوں کے گھروں میں داخل ہوئے تھے اور مسلمان خواتین کی عصمت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کے علاوہ توڑ پھوڑ بھی کی تھی۔ غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں نے مشرک ہندو فوج کے خلاف جلوس کی صورت میں احتجاج کیا اور یہ جلوس اب سرینگر کے لال چوک کی طرف بڑھ رہا تھا۔ جلوس جیسے ہی لال چوک کے نزدیکی علاقے گاؤ کدل(پل) پر پہنچا تو پل کے دوسری طرف کھڑی ہندو فوج نے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی اور ایک کے اوپر ایک کلمہ گو مسلمان مرد اور خواتین دم توڑتے رہے۔ فائرنگ کے دوران ایک غیور جوان ہندو فوج کی LMG (لائٹ مشین گن)پر چڑھ گیا اور شجاعت کی عظیم مثال رقم کرکے جام شہادت نوش کر گیا۔ لوگ زخموں سے چیخ رہے تھے ، ایسے میں قابض ہندو فوجی نزدیک آئے اور جس جس کو زندہ پایا اس کے سر پر فائر کرکے اس کو شہید کر دیا۔ پل پر جوتوں اور چپلوں کا ڈھیر تھا اور قتل عام کی واضح صورت دور سے دکھ رہی تھی۔
اس قتل عام میں قریباً پچاس (۵۰)مسلمان مرد اور خواتین شہید ہوئے اور اور قریباً تین سو (۳۰۰)زخمی ہوئے۔ کشمیر کی تاریخ میں اس قتل عام کو گائو کدل قتل عام سے یاد کیا جاتا ہے۔
گاؤ کدل قتل عام کی خبر پورے جموں اور کشمیر میں پھیلی اور ہر علاقے میں لوگ سڑکوں پر احتجاج کرنے نکلے۔ ۲۵ جنوری ١٩٩٠ء کو شمالی کشمیر کے ہندوارہ میں بھی مسلمان سڑکوں پر نکل آئے اور گاؤ کدل کے شہدا کے حق میں اور بھارت کے خلاف نعرے لگائے۔ہندوارہ کے مختلف علاقوں سے لوگ جلوس کی صورت میں ٹاؤن کے مرکز کی طرف بڑھ رہے تھے۔ مرکز میں پہنچتے ہی قابض ہندو فوجی وہاں پہنچے اور لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ نہتے مسلمانوں نے پتھروں سے لڑنے کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا اور قریباً تیس (۳۰)مسلمان شہید اور اسّی (۸۰)کے قریب زخمی ہوئے۔ ہندو فوج نے گاؤ کدل کی ترتیب پھر سے ہندوارہ میں دہرائی اور فائرنگ کے بعد دیکھتے کہ جو زندہ بچا ہے اس کو شہید کر دیتے ۔
شمالی کشمیر میں سوپور ہمیشہ سے مجاہدین کا ایک اہم مرکز رہا ہے اور سوپور کے مسلمانوں نے ہمیشہ اپنی جان اور مال سے جہاد کی خدمت کی ہے۔ ٦ جنوری ١٩٩٣ء کو سوپور میں مجاہدین ہندو مشرک فوج پر ایک کارروائی کی جس میں کچھ ہندو فوجی مارے گئے اور مجاہدین کو دشمن کی ایک بندوق بھی بطورِ غنیمت ملی۔بزدل ہندو فوج نے اس کا انتقام مسلمان عوام سے لیااور آگ اور خون کی بارش برسا دی۔
کارروائی کے بعد مشرک ہندو فوج بوکھلا گئی اور نہتے لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ کی اور بازار میں میں آگ لگا دی۔ ہندو فوج نے ایک بس کو روک کر اس کے ڈرائیور سمیت باقی مسافروں کو شہید کر دیا۔ ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ بس میں موجود تھا، ہندو فوجیوں نے بس کے اندر جاکر گولیاں چلائی۔ اس شخص کی ٹانگ میں گولی لگی تھی جب اس نے اپنی بیوی کو دیکھا تو وہ شہید ہو چکی تھی ۔
ہندو فوج کی درندگی عروج پر تھی اور انہوں نے کئی مکانوں اور دکانوں پر گن پاؤڈر چھڑک دیا اور انہیں آگ لگا دی۔ قریباً چار سو (۴۰۰)دکانوں اور کاروباری ادارے اور ستّر (٧٠)کے قریب رہائشی مکان ہندو فوج کی لگائی آگ میں جل کر راکھ ہوگئے۔
ایک چشم دید گواہ اس منظر کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کو یہ منظر آج بھی خوف زدہ کر دیتا ہے جب اس نے ایک دکان میں ایک شخص کو جلتے ہوئے دیکھا……اس کے سر کو آگ لگی ہوئی تھی اور ایک ہندو فوجی افسر اپنے سپاہیوں سے کہہ رہا تھا کہ اس کو گولی مت مارو یہ جلد ہی مر جائے گا۔
ایک دکان سے دکان کے مالک اور اس کے ملازم کے جلے ہوئے جسد ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے ملے اور بہت کوششوں کے بعد بھی ان کو الگ نہ کر پائے اور بالآخر ان کو ایک ہی قبر میں دفن کر دیا گیا۔
اس پورے واقعے کو سوپور قتل عام کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس میں قریباً ساٹھ ( ٦٠) مسلمان شہید ، درجنوں زخمی ہوئے اور کئی کروڑ روپے کے کاروبار اور مکان جل کر تباہ ہوگئے۔
ہندو مشرک فوج کے ظلم و جبر اور درندگی کے مظاہراس سے پہلے اور خصوصاً اس کے بعدبھی دیکھنے کو ملتے رہے۔ جموں وکشمیر کا کوئی ایسا ضلع نہیں ہے جہاں پر ہندو مشرک فوج نے ظلم کا بازار گرم نہ کیا ہو۔ بنیادی طور پر اس بزدل فوج نے ہمیشہ ہی نہتے عوام پر اپنی ’بہادری‘ دکھائی ہے ، جب کہ مجاہدین کا سامنا کرنے سے یہ خوف کھاتے ہیں۔ کشمیر میں بہنے والے ملّتِ اسلام کے ہر فرد کے خون کا قصاص لینا مجاہدین پر فرض ہے۔ مومنین کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچانا ان پر قرض ہے۔ امّت مسلمہ کے بیٹوں پر یہ بھی فرض ہے کہ وہ ہر ممکن وسیلے سے اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کی نصرت کریں جو دس لاکھ سے زیادہ ہندو مشرک فوج کے محاصرے میں ظلم کا شکار ہے۔
٭٭٭٭٭