مولانا سعید اللہ شہید
دنیا میں ہر انسان ہی جدو جہد میں مگن ہے ہر کوئی اپنے مقصد کے حصول کے لیے کوشاں ہے، خاص کر نوجوانان دنیا بس اسی دوڑ میں مگن ہیں کہ کیسے ڈاکٹریٹ کا اعزاز حاصل کیا جائے، کوئی اس فکر میں غلطاں ہے کہ کیسے میکالے کے مکتب میں پہلی پوزیشن کا اعزاز اپنے نام کیا جائے، کوئی انجینئرنگ کی سند کے حصول کو زندگی کا سب سے بڑا اعزاز سمجھتا ہے تو کوئی بینک بیلنس، کوٹھی بنگلہ، کار کے حصول کے لیے مصروف عمل نظر آتا ہے، تو کوئی جاہ و منصب کو پانے کے لیے دوڑا پھرتا ہے۔ یہ بھاگ دوڑ ایسے ہی جاری رہتی ہے کہ یہ انسان موت کو لبیک کہہ جاتا ہے۔ یہ سب مقاصد و اعزازت تمغے و اسناد یہیں رہ جاتے ہیں۔ مگر انہی معاشروں میں رہنے والے کچھ ابطال امت ایسے بھی ہیں جو اس زندگی کے حقیقی مقصد سے آشنا ہو چکے ہیں، وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون کا مفہوم سمجھ گئے ہیں، ان کی زندگی بھی ایک مقصد کے حصول کے لیے ہوتی ہے، یہ لوگ بھی اک اعزاز کے حصول کے لیے جتن کیے جاتے ہیں مگر زمیں و آسماں جیسا فرق ہے انسانوں کی زندگی میں، بہت نمایاں فرق ہے مقاصد اور اعزازت میں، اور اس کے طریقہ کار میں۔ ان کی زندگیوں کا مقصد اعلائے کلمۃ اللّٰه کا قیام اور حتی لا تکون فتنۃ ہوتا ہے اور یہ لوگ جس اعزاز کو پانے کے لیے جہد مسلسل کرتے ہیں وہ شہادت کا اعزاز ہے، وہ تمغہ شہادت کا تمغہ ہے، وہ سند شہادت کی سند ہے، وہ گواہی خون جگر سے لکھی گئی گواہی ہے، یہ شہادت کی موت ہی ایک ایسا اعزاز ہے جو دنیا و مافیہا سے بہتر ہے، شہادت اک ایسی موت ہے جسے موت کہنا جائز نہیں، شہادت کی گواہی مجاہدین فی سبیل اللّٰه اپنے خون جگر سے دے جاتے ہیں جو آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہوتی ہے۔ ایسے ہی شہداء میں شامل ہمارے دو بہت ہی پیارے بھائی مولانا سعید اللّٰه اور حافظ عثمان بھی شامل ہیں ( جو کہ آپس میں بھی سگے بھائی ہیں)۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم اپنے ابتدائی عسکری تربیتی مراحل سے گزر رہے تھے، ایک دن صبح ریاضہ (ورزش) کرنے میں مصروف تھے کہ پہرے دار بھائی نے آکر بتایا کہ مہمان آئے ہیں۔ یہ سن کر سبھی تدریبی خوش ہوئے اور ایک دوسرے کو اشارے کرنے لگے کہ اللہ کی مدد آپہنچی۔ آج رگڑے میں کچھ کمی ہوگی۔ یہ ہماری خوش فہمی تھی، جو خوش فہمی ہی رہی۔ استاد جی نے ہماری طرف دیکھا اور مسکرائے ساتھ ہی امر جاری کیا کہ جبل استغفار (یہ انگور اڈہ میں ایک بہت اونچا پہاڑ ہے جہاں پہنچتے پہنچتے سب کی استغفار نکل جاتی ہے اسی لیے مجاہدین اسے جبل استغفار کہتے ہیں) کی زیارت کریں۔ یہ سن کر سب کے ہوش اڑ گئے کیونکہ عموماً یا تو مسیرہ (پیدل مارچ) ہوتا ہے یا ریاضہ ہوتا ہے آج مہمان کی خوشی میں دونوں کام کرنے پڑ رہے تھے۔
جبل استغفار سے واپسی پہ استاد جی نے تعارف کروایا کہ یہ عالم دین مولانا سعید اللہ ہیں جو اپنی علمی و تحقیقی مصروفیت سے وقت نکال کر محاذ پہ آئے ہیں۔ انہوں نے کچھ دن وہاں (خط اول) پہ گزارے اور کچھ دن یہاں رہیں گے اور بعد نماز ظہر درس بھی دیں گے۔ دن بھر ہم اپنی مصروفیت میں رہے، ظہر کی نماز کے بعد مولانا صاحب نے ایک مختصر مگر جامع درس دیا۔ انتہائی بہترین اور سادہ انداز میں فرضیت جہاد اور الحب فی اللہ البغض فی اللہ (اللہ کے لیے دوستی اور اللہ کے لیے دشمنی) کے موضوع پہ قرآن و حدیث کی روشنی میں بات کی۔ مولانا صاحب اپنے ساتھیوں (مجاہدین اور عام مسلمانوں) کے لیے ریشم کی مانند تھے۔ شاید شاعر نے انہی جیسے لوگوں کے لیے فرمایا:
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
مولانا صاحب نے اپنے درس کے دوران جہاں مجاہدین کو اسلام کے دشمنوں کی پہچان کروائی اور ان سے تعامل کا طریقہ سمجھایا وہیں خون مسلم کی عظمت و حرمت سے بھی آگاہ کیا۔
آپ کا اصل نام مولانا سعید اللہ تھا جبکہ مجاہدین میں آپ شیخ عاصم کے نام سے جانے جاتے تھے، آپ کا آبائی تعلق صوبہ خیبر پختون خواہ کا ضلع بالائی (اپر) دیر تھا۔ مولانا صاحب زخموں سے چور اس امت کا درد سینے میں لیے بے چین و بے قرار رہتے۔ آپ تقریباً ایک ہفتہ ہمارے پاس معسکر میں رہے مگر سوائے پہلے دن کے آپ رحمۃ اللہ کو مرکز میں نہیں دیکھا۔ ہر صبح جب ہم ریاضہ کر کے واپس آتے تو معلوم ہوتا کہ آپ رحمۃ اللّٰه پیدل ہی ان اونچے نیچے پہاڑوں ندی نالوں میں گھنٹوں سفر کر کے علماء کرام سے ملنے دعوتی و تبلیغی دورے پہ گئے ہوئے ہیں۔ آپ کبھی کھبی اپنے ساتھ سعد شہید (عمران نذیر) کو بھی لے جاتے تاکہ آپ مقامی علماء کرام کو فرضیت جہاد کا احساس دلائیں۔ آپ علماء کرام کو اس کڑے وقت میں ان کے کندھوں پہ پڑنے والی بھاری ذمہ داریوں کا احساس دلاتے کہ اگر اس امت کا نوجوان آج فرض کو بھول کر لہو و لعب کا شکار ہوگیا اور یہ امت ظلمت و غلامی کے گڑہوں میں گرتی چلی گئی تو اس کا جواب اللّٰه رب العزت کی بارگاہ میں جہاں وہ اہل ایمان جو اس فرض کے تارک ہوئے وہ ہیں، وہیں ان کی انگلیاں آپ کی طرف بھی اٹھیں گی ،یا اللّٰه ہمارے درمیان تو نے جن لوگوں کو علم سے بہرہ مند کیا تھا ان لوگوں نے اپنی ذمہ داریوں کا پاس نہ رکھا۔ یا اللہ ہماری اس گمراہی اور فرضیت جہاد سے غفلت کا سبب یہ علماء بھی ہیں کیونکہ انہوں نے سب کچھ جانتے بوجھتے بھی ہمیں نہیں سمجھایا، ہمیں نہیں بتایا۔ وہ کہیں گے اے اللہ تو ان سے بھی پوچھ کہ انہوں نے اپنا فرض منصبی کیوں نہیں ادا کیا؟
مولانا صاحب روس کے انخلاء کے بعد فتنہ و فساد پھیلانے والے خلقیوں اور شورویوں (سوشلسٹس) کے خلاف مصروف جہاد رہے۔ ۱۹۹۱ء میں گردیز کے مقام پہ ہونے والے ایک بڑے معرکے میں بھی شریک رہے۔
افغانستان میں روسیوں اور خلقیوں کے خاتمے کے بعد جاہ و منصب کی دوڑ شروع ہوئی یہاں تک کہ سبھی ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو گئے۔ قتل و غارت گری کا بازار شروع ہوا تو مولانا سعید اللہ نے اپنا دامن اس فتنے سے بچاتے ہوئے واپسی کی راہ لی اور پاکستان آگئے۔ یہاں رہ کر آپ نے علم کی پیاس بجھانی شروع کی، مگر جو روح ایک بار توپوں کی گھن گرج اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور راتوں کو اسلامی سرحدات کی نگہبانی کی عادی ہو گئی ہو اسے پھر کہاں کا قرار کہاں کا سکون ،بس ان کی روح بھی قتال فی سبیل الله کے میدانوں میں اترنے کو بے چین و بے قرار رہتی، آپ نے غزوہ ہند میں شامل ہونے کے لیے کشمیر کے محاذوں کی خبر لی۔ ۱۹۹۳ء میں آپ نے کشمیر کے میدان کا رزار کا رخ کیا۔ ایک جہادی تنظیم سے وابستہ ہوئے اور اسی سال آپ کی لانچنگ (داخلہ) وادی میں ہوئی جہاں آپ کم وبیش تین سال تک اپنے رب کی جنتوں کے حصول کے لیے کوشاں رہے، اور ہندو بنیے سے اپنی مظلوم ماؤں بہنوں بچوں بوڑھوں کا بدلہ لیتے رہے ۔
آپ رحمہ الله اپنی لانچنگ کا ایک واقعہ ذکرکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب مجاہدین لانچ ہوتے ہیں انہیں ایک گائیڈ (رہبر) دیا جاتا ہے۔ کشمیر میں رہبری کرنے والے کرائے کے لوگ ہوتے ہیں جو جہادی تنظیموں سے پیسے لےکر مجاہدین کو اس پار لے جاتے ہیں۔ ان کی نظر میں نہ تو رب کی رضا ہوتی ہے نہ ہی مجاہدین کا کوئی خیال ہوتا ہے اور بہت دفعہ یہ لوگ مجاہدین کو گھنے ویران جنگلوں اور بلند و بالا برفانی پہاڑوں میں تنہا چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ بہت سے گائیڈ تو انڈین آرمی سے ملے ہوئے بھی ہوتے ہیں۔ یہ ظالم گائیڈ اس مجاہد کو قتل تک کر دیتے ہیں جوچلنے میں تھوڑا کمزور ہو، جبکہ یہ جہادی تنظیمیں سب کچھ جاننے کے باوجود بھی ان گائیڈوں کو کچھ نہیں کہتیں بلکہ اگلی مرتبہ پھر انہی رہبروں کے ہاتھ دیگر مجاہدین کو بھیجا جاتا ہے۔ ہم تیس کے قریب مجاہدین تھے۔ جب بارڈر کراس کر کے اندر داخل ہوئے تو ایک مقام پہ پہنچ کر گائیڈ نے خیانت کی اور بھاگ گیا۔ کچھ دیر بعد انڈین آرمی نے اس علاقے کا کریک ڈاؤن (محاصرہ) کر لیا۔ مجاہدین اور انڈین آرمی کے درمیان جنگ شروع ہو گئی۔ یہ جنگ کیا تھی، مجاہدین ہر طرف سے محاصرے میں تھے ۔ راستوں سے واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے اکثر مجاہدین شہید ہو گئے۔ آپ کہتے ہیں کہ ایک گولی میری ٹانگ میں بھی لگی اور میں زخمی ہوگیا۔ دیکھا تو ایک مجاہد میری طرف بڑھ رہا ہے۔ میں نے دیکھا کہ وہ بالکل سلامت ہے تو میں نے ایک طرف کو دوڑ لگائی۔ نجانے کتنی دیر دوڑنے کے بعد ہم ان کے حصار سے نکلے تو میرے ساتھی نے رابطہ کر کے اس علاقے میں پہلے سے موجود ساتھیوں کو بلایا جو ہمیں اپنے ساتھ لے گئے۔ آپ بتاتے ہیں اس واقعے میں ہم دو کے علاوہ سب مجاہدین شہید ہوگئے۔ الله تعالیٰ نے ہمیں سلامت رکھا۔
جہاد کشمیر ہی کا ایک اور واقعہ آپ کچھ یوں سناتے ہیں کہ ہم ایک جگہ موجود تھے کہ علاقے میں موجود کسی ایمان فروش جاسوس نے جاسوسی کر کے انڈین آرمی کو اطلاع دی۔ آرمی نے پورے علاقے کا گھیراؤ کر لیا اور مجاہدین کو تسلیم ہونے کا کہا ۔مجاہدین نے جنگ شروع کی اور نکلتے رہے۔ اس جنگ میں ہمارے دو تین ساتھی شہید ہوئے جبکہ دیگر ساتھی نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ میں ابھی محاصرے میں تھا، یہ ایک پگڈنڈی تھی جس پر میں بھاگ رہا تھا، اس کے دائیں طرف اونچا پہاڑ اور دوسری طرف کھائی تھی۔ دشمن کا فائر میری طرف مسلسل آرہا تھا۔ رات کا اندھیر ا ہونے کی وجہ سے دشمن روشنی کے گولے بھی مسلسل فائر کر رہے تھے۔ ایک کے بعد ایک روشنی کا گولا فائر کرتے۔ جیسے ہی گولا فائر ہوتا تو دشمن کی فائرنگ بھی تیز ہوجاتی۔ آپ فرماتے ہیں کہ دشمن جب روشنی کا گولا فائر کرتا تو میں یا تو کسی اوٹ میں چھپ جاتا اور اگر قریب اوٹ نہ ہوتی تو میں لیٹ جاتا، جب روشنی ختم ہونے لگتی تو میں دوڑ لگا تا ۔ کافی بھاگنے کے بعد میں یہ راستہ طے کرنے میں کامیاب ہوا۔ دوسری طرف ایک دیوار تھی۔ میں نے بھاگتے ہوئے اس دیوار کو پھلانگا اور وہاں کچھ دیر بیٹھ گیا، پھر چلنے لگا۔ جب میں نسبتاً امن کی جگہ پہنچا تو میں نے اپنا حال دیکھا تو حیران رہ گیا۔ سارے کپڑوں میں جا بجا گولیوں کے سوراخ تھے۔ شلوار قمیص دونوں میں شاید ہی کوئی جگہ ہو جہاں گولیوں کے سوراخ نہ ہوں۔ اگر الله تعالیٰ کی نصرت شامل حال نہ ہوتی تو میرے بچ جانے کا کوئی امکان نہ تھا۔
۱۹۹۶ ءمیں آپ کشمیر سے غازی بن کر لوٹے۔ یہاں پھر آپ کو قرار نہ آیا۔ آپ کی جہادی روح میدانوں میں کود جانے کو ترستی رہی لیکن آپ نے اب کی بار جہاد کشمیر کا رخ نہیں کیا، کیونکہ آپ تین سال کے عرصے میں جہاد کشمیر کے نام پہ ہونے والی سیاست، اس میں فوج اور آئی ایس آئی کا مکروہ کردار بہت اچھی طرح سمجھ چکے تھے۔ آپ یہ جان چکے تھے کہ الله کی شریعت تو ان طواغیت کی محتاج نہیں ہے اسی لیے اب کی بار آپ نے حصول علم کو ترجیح دی اور مدرسے میں داخلہ لیا اور اپنے سینےکو قال الله و قال الرسول سے معطر کرنے لگے۔ آپ کو حصول علم سے بہت شغف تھا۔ آپ تقریباً ۸سال تک قرآن و سنت کا علم حاصل کرتے رہے۔ آپ نے ملتان میں مولانا نور الرحمن صاحب کے مدرسے سے دورہ حدیث مکمل کیا، اس کے بعد آپ نے اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے علوم دینیہ میں ماسٹرز کیا۔ یہاں رہ کر آپ کی ملاقات استاد احمد فاروق سے ہوئی۔ اسلامی یونیورسٹی میں حصول علم کے دوران ہی آپ عالمی جہاد سے وابستہ ہوئے۔ آپ رحمہ الله پختہ شخصیت کے مالک تھے، بلند اخلاق، تواضع، عاجزی وانکساری، زہد و تقویٰ آپ کی نمایاں صفات تھیں۔ آپ کو مطالعے کا بہت شوق تھا ۔آپ اکثر ساتھیوں کو علم حاصل کرنے کی ترغیب دیتے۔ آپ ایک دن میں ۵۰۰ صفحات کا مطالعہ کرتے۔ آپ وسیع سوچ و فکر کے مالک تھے، دین کا فہم بہت وسیع تھا، فقہ پہ آپ کی گرفت بہت مضبوط تھی، آپ استادوں کی عزت کرنے والے، چھوٹوں پہ شفقت کرنے والے تھے۔
آپ دین کا وسیع فہم رکھنے والے تھے ۔آپ نے ہی مجاہدین میں اس سوچ کو پروان چڑھایا کہ علم اور علماء کے بغیر آپ اپنے جہاد کو دوام نہیں دے سکتے کیونکہ میدان جہاد میں قدم قدم پہ نت نئے مسائل پیش آتے ہیں جن کے حل کے لیے آپ کو علم دین کی طرف توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ مولانا صاحب ہی کوششوں کا ثمر ہے کہ استاد احمد فاروق شہید نے مجاہدین کے لیے حصول علم کے معاملے پہ خصوصی توجہ دی اور باقاعدہ مجاہدین کی تشکیل کی کہ پاکستان جا کر علم دین حاصل کریں ۔ ان ہی مجاہدین میں ہمارے بھائی صلاح الدین شہید بھی شامل ہیں۔آپ نے مجاہدین کو سمجھایا کہ آپ کا جہاد جب ہی کامیاب ہو سکتا ہے جب آپ علماء کرام سے رابطے میں رہیں انہیں اپنے مقصد و ہدف سے آگاہ کریں اور ان سے راہنمائی لیں۔ میدان جہاد میں علماء کی موجودگی اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ ایک مجاہد کے لیے اسلحہ ضروری ہے ۔آپ دینی علوم میں کمال رکھتے تھے، مگر دجالی نظام کو سمجھنے میں آپ نے ڈاکٹر ابو خالدؒ کے علم سے بھی بھرپور استفادہ کیا۔
ڈاکٹر سربلند زبیر شہید (ڈاکٹر ابو خالد) ایک باعمل طبیب تھے۔ گہری سوچ و فکر کے حامل، جنہیں مجاہدین کا تھنک ٹینک کہا جاتا تھا۔ ابتدا میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے آپ کو پیش کیا کہ میں مجاہدین کو اس نظام کی حقیقت سمجھانے کو تیار ہوں۔ مولانا صاحب نے آپ کی شاگردی کی حامی بھری۔ آپ دو افراد، ایک استاد دوسرا شاگرد پورا پورا دن بیٹھ کر پڑھتے اور اس نظام باطل کے مفسدات پہ بات کرتے اور اس کا حل تجویز کرتے۔ آپ کی عاجزی کا یہ عالم تھا کہ بتانے والے بتاتے ہیں کہ جب آپ ابو خالد بھائی سے پڑھ رہے ہوتے تو اپنا پہلو بدلنے کے لیے بھی ان سے اجازت لیتے۔ جب آپ پوری طرح اس نظام کے فساد کو سمجھ گئے تو آپ نے استاد احمد فاروق شہید کو تحریض دی کہ علم کے حصول کے لیے دیگر مجاہدین کو بھی دورے کروائے جائیں۔ اس کے بعد بہت سے مجاہدین کو ڈاکٹر ابو خالد شہیدؒ نے دورے کروائے جن میں ڈاکٹر ارشد وحیدؒ، اسامہ ابراہیم غوریؒ اور دیگر ساتھی شامل تھے۔استاد احمد فاروق کا کہنا تھا کہ علم کی طرف رغبت مجھے مولانا سعید الله نے دلائی۔
آپ رحمہ الله سادگی پسند تھے۔ نیچے پاکستان میں رہتے ہوئے بھی ہوئے بھی سفر و حضر میں ایک جوڑا کپڑوں کا اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ ہاں البتہ کتابوں کی گٹھڑی آپ کے پاس ہوتی۔ ساتھی بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ کراچی سے سفر کر کے ہمارے گھر آئے تو میں نے دیکھا پراگندہ بال، غبار آلود چہرہ ہے۔ میں نے پوچھا کہ کہاں سے واپسی ہوئی تو کہنے لگے کہ کراچی سے آرہاہوں، کچھ علماء کرام سے ملاقاتیں کرنی تھیں، ساتھی کہتے ہیں یہ دوپہر تین چار بجے کا وقت تھا۔ میں نے پوچھا کھانا کھایا ہے؟ کہنے لگے نہیں۔ تو میں نے ان سے کہا کھانا تو ابھی گھر میں نہیں ہوگا، ہاں آپ بیٹھیں میں آپ کے لیے پیزا لےکر آتا ہوں۔ پیزا کا نام سن کر مولانا صاحب حیرت سے بولے کہ یہ کیا ہوتا ہے؟ ساتھی کہتے ہیں میں نے کہا یہ کھانے کی چیز ہے بس آپ انتظار کریں۔ جب میں پیزا لےکر آیا تو آپ پیزا دیکھتے ہی بولے یوں کہتے نا کہ روٹی پہ سالن لگا ہوا ہوتا ہے ۔
آپ رحمہ الله عسکریت میں بھی خوب کمال رکھتے تھے۔ ویسے عمومی طور پہ جنگوں میں نشانہ لےکر فائر کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ سنگل فائر کرنے والے بھی اس کا کوئی خاص خیال نہیں رکھتے مگر آپ کا کمال تھا آپ جنگوں میں بھی جھری جھپک سے فائر کرتے تھے۔ آپ نے خط اول پہ کینیڈین فوج اور افغان ملی آرمی پہ میزائل کارروائیوں میں حصہ لیا۔ اس کے علاوہ آپ نے پاکستانی فوج کے خلاف جنگ بھی کی۔ جنوبی وزیرستان وانا میں سال ۲۰۰۸ میں ہونے والی ایک بڑی کارروائی جو کہ تیارزہ کیمپ پہ تھی، میں بھی آپ شامل تھے۔
الله تعالیٰ شہداء کو پانچ ایسے اعزازات سے نوازتے ہیں جس سے الله نے نہ کسی نبی کو نوازا ہے اور نہ ہی کسی عامی کو۔ علامہ قرطبیؒ اپنی تفسیر میں یہ روایت نقل کرتے ہیں:
- تمام انبیاء کی روحیں ملک الموت قبض کرتا ہے حتیٰ کہ میری روح بھی وہ قبض کرے گا لیکن شہداء کی ارواح الله تعالیٰ اپنی خاص قدرت سے جیسے چاہے گا قبض کرے گا، فرشتوں کے حوالے نہیں کرے گا ۔
- تمام انبیاء کرام کو غسل دیا گیا اور مجھے بھی غسل دیا جائے گا لیکن شہداء کو غسل نہیں دیا جاتا ۔
- تمام انبیاء کرام کو موت کے بعد کفن پہنایا گیا، مجھے بھی موت کے بعد کفن پہنایا جائے گا، جبکہ شہداء کو کفن نہیں دیا جاتا بلکہ انہی کپڑوں میں دفنایا جائے گا۔
- جتنے بھی انبیاء فوت ہوئے سب کو مرنے کے بعد میت کے نام سے مردہ کا نام دیا گیا لیکن شہداء کو اموات نہیں کہا جاتا۔
- تمام انبیاء قیامت کے روز شفاعت کریں گے اور میں بھی شفاعت کروں گا جبکہ شہداء ہر وقت اور ہر دن شفاعت کریں گے۔تفسیر قرطبی جلد ۴ صفحہ ۲۷۷
شہادت آپ کی دلی تمنا تھی جس کے حصول کے لیے آپ سالہا سال سرگرداں رہے۔ شہادت کے اس جام کو ہونٹوں سے لگانے کے لیے کبھی آپ کشمیر کی برفانی چوٹیوں کو سر کرتے تو کبھی افغانی کہساروں میں اس کے پیچھے بھاگتے مگر رب کریم نے آپ کے لیے یہ اعزاز خطہ خراسان میں پنہاں رکھا تھا۔ یکم رمضان المبارک ۱۴۲۸ ہجری بمطابق اگست ۲۰۰۸ ،مجاہدین ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر ذکر الله اور تلاوت قرآن شریف میں مصروف تھے کہ فضا میں دندناتے ڈرون نے میزائل فائر کیے جن کا ہدف مجاہدین القاعدہ کا مرکز تھا۔ مرکز مکمل طور پہ تباہ ہو گیا۔ مرکز میں موجود چھ میں سے پانچ ساتھی فوراً ہی رب رحمان کی رحمتوں کے مستحق ٹہرے ، جبکہ آپ رحمہ الله شدید زخمی ہوگئے۔ آپ کا پورا بدن ہی زخموں سے چور تھا مگر جب ساتھی آپ کے پاس پہنچے تو آپ کی زبان اس وقت بھی الله کے ذکر سے تر تھی۔ ساتھیوں کی آواز سن کر آپ نے سب سے پہلے دیگر ساتھیوں کے بارے میں پوچھا، پھر اپنے چھوٹے بھائی عثمان کے بارے میں پوچھا، جب آپ کو معلوم ہوا کہ وہ شہید ہوگئے تو آپ نے یہ حدیث پڑھی: الله پاک ہے اور پاک چیزوں کو پسند کرتا ہے۔ آپ کے سر اور ٹانگوں پہ شدید زخم آئے تھے اس کے باوجود آپ کا صبر مثالی تھا ـ ہسپتال میں حاجی صابر آپ سے ملنے آئے تو آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (سورۃ الحشر: ۱۰)
’’اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئیں، جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال، اے ہمارے رب بیشک تو شفقت ومہربانی کرنے والا ہے۔‘‘
حاجی صابر عرب مجاہدین کے ذمہ دار تھے۔ آپ روس کے خلاف برسر پیکار رہے۔ روس کی شکست کے بعد آپ نے کشمیر کا رخ کیا۔ آزاد کشمیر کے جنگلوں میں آپ نے اپنا مرکز بنایا۔ ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ آئی ایس آئی کے کارندے آپ کے پاس آئے اور آپ سے پوچھا کہ کیاکرنے آئے ہو؟ آپ نے جواب دیا روسی بازی ہار چکے اب بھارت کی باری ہے تو آئی ایس آئی والے کہنے لگے کہ ٹھیک ہے ہم آپ کے ساتھ ہر طرح کی مدد کرنے کو تیار ہیں بس اک بات ہماری ماننی ہوگی ، آپ نے پوچھا وہ کیا ؟ تو کہنے لگے اسلحہ راشن ہر ضرورت ہم پوری کریں گے آپ جہاد کریں مگر امر اور پلاننگ ہماری ہو گی۔ جو ہم کہیں گے وہ کرنا ہوگا۔ تو آپ نے ان سے معذرت کی کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ آئی ایس آئی والوں نے آپ سے کہا یہ افغانستان نہیں ہے جو آپ چاہیں کرتے پھریں۔ آپ کو یہاں کام کرنے کی اجازت نہیں ،آپ اپنا مرکز بند کریں۔ مجبوراً حاجی صابر رحمہ الله کو اپنے کشمیری بھائیوں کی نصرت سے ہاتھ روکنا پڑا اور آپ واپس خراسان آگئے۔ واضح رہے کہ اس کے بعد اگلی بمباری انگور اڈہ میں ہوئی اور اس میں حاجی صاحب بھی شہید ہوگئے،نحسبہ کذالک والله حسیبہ۔
ڈاکٹر ابو خالد شہید نے پاکستان لے جانے کا مشورہ دیا۔ آپ کا کہنا تھا کہ سی ٹی اسکین کی ضرورت ہے جس کی یہاں سہولت میسر نہیں۔ آپ کو پاکستان بھیجا گیا۔ بنوں میں ایک مشہور ڈاکٹر کے پاس آپ کو لے جایا گیا تو اس نے اپنے فرائض سے خیانت کرتے ہوئے آپ کا علاج کرنے سے انکار کردیا۔ پھر آپ کو پشاور ہسپتال لے جایا گیا جہاں آپ کم وبیش ۱۰ دن تک زیر علاج رہے۔ ۱۱رمضان المبارک ۱۴۳۹ ہجری بمطابق کو ۱۱ستمبر ۲۰۰۸ بروز جمعرات کو رات ۱۱ بجے زخم دل جیت کر نقد جاں ہار گئے۔ آپ اپنے لہو سے یہ گواہی دے گئے کہ توحید کی حاکمیت اور رسالت کا نفاذ خون مانگتا ہے۔ چودہ صدیاں پیچھے ہٹ کر سب سے آگے جانا ہے تو خون کے دریاکو پار کرنا ہوگا۔ وہ دریا جو ہمارے اور ان کے خون سے بنے گا۔ شریعت کی بہاریں دیکھنی ہیں تو بیٹوں اور بھائیوں کو میدان جہاد میں لا ڈالنا ہو گا، ہنستے بستے گھروں سے اٹھ کر میدان میں آنا ہوگا۔
یقیناً کچھ الله کے پیارےایسے ہوتے ہیں جنہیں الله پاک کر کے اپنے پاس بلاتا ہے اور کچھ کو شہادت سے نوازتے ہی پاک کردیتا ہے جیسا کہ حدیث کا ایک ٹکڑا ہے کہ شہید کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے ، بس یہ الله تعالیٰ کی حکمت ہے جسے چاہتا ہے نوازتا ہے الله تعالیٰ آپ کی شہادت کو قبول فرمائیں، آمین۔
حافظ عثمان شہید
عثمان بھائی کا تعلق پاکستان کے صوبہ سرحد کے ضلع دیر کے ایک علمی و ادبی و جہادی گھرانے سے تھا آپ کے والد محترم یوسف صاحب عالم ربانی تھے انہیں الله پاک نے روس کے خلاف جہاد فی سبیل الله شروع کرنے کی سعادت نصیب فرمائی۔ آپ کے والد محترم السابقون و الاولون میں سے تھے۔ روس کے خلاف جہاد میں آپ کے والد محترم وجاھدوا باموالکم و انفسکم پہ عمل کرتے ہوئے شریک جہاد رہے۔ آپ کا گھر اس دور میں مجاہدین کے مرکز کا منظر پیش کرتا۔ بیسیوں مجاہدین آتے، بیسیوں افغانستان جاتے، ان سب کا کھانا رہنا سہنا و دیگر ضرویات آپ کے ذمہ ہوتیں۔ ان میں اکثر ایسے مجاہدین بھی آتے جو مالی طور پہ بہت کمزور ہوتے تو آپ کے والد محترم اپنے ذاتی مال سے ان کی ضروریات پوری کر کے انہیں داخل (افغانستان) پہنچانے کا انتظام کرتے۔ غرض یہ کہ آپ کا پورا گھرانہ ہی کسی نہ کسی طرح شریک جہاد رہا۔ الله پاک آپ تمام لوگوں کی اس سعی کو قبول فرمائیں اور آپ کے درجات بلند فرمائیں آمین ـ
عثمان بھائی کا اصل نام الیاس تھا۔ آپ حافظ قرآن تھے۔ جذبہ جہاد اور شوق شہادت آپ کو اپنے گھر سے ورثے میں ملا تھا۔ آپ اخلاص و صدق و وفا کے پیکر تھے۔ قربانی، ایثار، صبر واستقامت، ہمت و شجاعت آپ کی بہترین صفات تھیں۔ آپ الله کا تقویٰ اختیار کرنے والے تھے۔ اپنے دامن کو لغو و لایعنی کاموں اور باتوں سے ایسے بچاتے جیسے کہ کوئی عام انسان خاردار جھاڑیوں یا کانٹوں سے اپنا دامن بچاتا ہے۔ ہروقت ذکر و اذکار تلاوت قرآن پاک میں مصروف رہتے۔ آپ پابندی سے تہجد کا اہتمام کرتے ۔بارہا آپ کو اندھیری رات میں اپنے رب سے آہ وزاری کرتے ہوئے دیکھ۔ا یہ ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب فرشتے پہلے آسمان پہ آ کر منادی کرتے ہیں ہے کوئی الله سے مانگنے والا کہ الله اسے عطا کرے، ہے کوئی الله سے مغفرت طلب کرنے والا کہ الله اسے معاف کرے، ہے کوئی الله کی طرف آنے والا کہ الله اس کی طرف بڑھے؟ میرے عثمان بھائی ہر رات رو رو کر اس رب رحمان سے اس کی مغفرت اور رحمت کے ساتھ شہادت طلب کیا کرتے تھے۔ میدان جہاد میں رہنے والے جانتے ہیں کہ دن بھر کی مصروفیت کے بعد رات کو جاگنا اور اپنے رب کو منانا اتنا سہل نہیں، رب رحمان اپنے ایسے پاکیزہ بندوں کی آہ وازاری سنتے ہی،ں انہیں عطا کرتے ہیں۔ رب تعالیٰ نے عثمان بھائی کی فریاد بھی سن لی۔ ان پہ نظر رحمت کی اور انہیں شہادت جیسے اعلیٰ و ارفع اعزاز سے نوازا۔ اگست ۲۰۰۸ جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا سے چند کلومیٹر دور زڑی نور میں مجاہدین کے مرکز پہ ڈرون حملہ ہوا جس میں الله کے چھ پیارے بندے ،مولانا سعید الله، شفیق بھائی، حیدر بھائی، عبدالصبور بھائی،عبدالله بھائی اور عثمان بھائی زخم دل جیت کر رب کے مہمان بن گئے۔ یہ سبھی گوہر نایاب تھے،نحسبھم کذالک والله حسیبہ۔
ہم نے رسم محبت کو زندہ کیا زخم دل جیت کےنقد جان ہار کر
ہم سے بزم شہادت کو رونق ملی جانے کتنی تمناؤں کو مار کر
قید جاں سے گزرنے لگے جس سمے، عقل کہنے لگی اک ذرا سوچ لے
اس کی رحمت میں پہنچے تو دل بول اٹھا، تونے جو کچھ کیا اس کو دس بار کر
عموماً مجاہدین صرف کھانا پکانے کو خدمت شمار کرتے ہیں لیکن خدمت کے صحیح معنی راقم نے صرف عثمان بھائی میں دیکھے۔ مرکز کی صفائی ہو یا کھانا پکانا ہو آٹا گوندھنا ہو یا مرکز کے تعمیراتی کام ہوں، ساتھیوں کے کپڑے دھونے ہوں یا بازار سے سودا سلف لانا ہو، عثمان بھائی ہر کام میں پیش پیش رہتے بلکہ ہر کام خود کرتے۔ بھائی انتہائی پھرتیلے اور تیز تھے۔ ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ ان کے ہوتے ہوئے کسی اور کو کام کرنے کا موقع نہ ملتا اور اگر کوئی بھائی ان سے پہلے پہنچ کر کام کرنے لگتا تو انتہائی پیار سے اور غیر محسوس انداز میں اس سے کام اپنے ہاتھ میں لے لیتے۔ ایک مرتبہ اسی مرکز میں جس میں عثمان بھائی شہید ہوئے ان کے ساتھ کچھ دن رہنے کا موقع ملا۔ راقم فجر کی نماز اور اذکار سے فارغ ہو کر باورچی خانے گیا تاکہ ناشتے کی تیاری کی جاسکے تو فوراً عثمان بھائی آئے اور باتوں باتوں میں سارا کام مجھ سے لے لیا۔ جب مجھے احساس ہوا تو میں نے پوچھا، بھیا! یہ جگہ تو میری تھی؟ آپ مسکرا کر کہنے لگے، جی! یہ آپ کی جگہ تھی مگر اب میری ہے۔ میں عرض کیا کہ میں تو پراٹھے بنانا چاہتا ہوں۔ کہنے لگے کہ میں آپ کو۱یشلے کھلاؤں گا۔ میں بہت حیران ہوا کہ یار عجیب بھائی ہیں، مجھ سے کام بھی لے لیا اور اب کمک کرنے کا کہہ رہا ہوں تو کہہ رہے ہیں کہ آپ بس بیٹھ کر مجھ سے باتیں کریں۔ والله ان جیسا جذبہ خدمت بہت کم بھائیوں میں دیکھنے کو ملا ہے۔ ایک دن کی بات ہے کہ میں اپنے کپڑے دھونے میں مصروف تھا تو میرے پاس آئے اور کہنے لگے فاروق بھائی (استاد احمد فاروق شہید ) بلارہے ہیں۔ میں کپڑے ادھورے چھوڑ کر گیا۔ تقریباً گھنٹہ بھر بعد واپسی ہوئی تو دیکھا میرے کپڑے پاک صاف کر کے سوکھنے کے لیے رسی پہ لٹکائے گئے ہیں۔ پوچھنے پہ معلوم ہوا کہ موصوف سارا کام کرچکے ہیں۔ الله انہیں بہترین اجر سے نوازیں آمین۔ یہ وہی عثمان بھائی ہیں جن کا ذکر استاد جی اپنی ایک ویڈیو میں بھی کرتے ہیں۔
عثمان بھائی بے شمار خوبیوں کے مالک تھے بہادری میں اپنی مثال آپ تھے۔۲۰۰۸میں مجاہدین اسلحے بارود سے بھری گاڑی لےکر وانا سے انگور اڈہ جارہے تھے کہ راستے میں پاکستان آرمی کے کیمپ کے پاس گاڑی پنکچر ہو گئی۔ گاڑی وہیں روک کر دو بھائی اس کا ٹائر کھول کر بنانے کے لیے گئے جب کہ دو مجاہدین گاڑی کے پاس رک گئے۔ تھوڑی دیر میں دو فوجی آئے اور گاڑی کے پاس کھڑے عثمان بھائی اور عبد الشہید بھائی کو سلام کیااور کہنے لگے کہ یہاں اسلحے کی اجازت نہیں ہے تو عثمان بھائی بولے تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟ تو فوجی کہنے لگا کہ ہم آرمی کے لوگ ہیں، تو عثمان بھائی نے کہا کون سی آرمی ؟فوجی کہنے لگا، ہم پاکستان آرمی کے لوگ ہی۔ں یہ سن کر عثمان بھائی نے دونوں کو غصے سے کہا کہ تم شیطان کی آرمی کے لوگ ہو اور ہم الله کی آرمی کے لوگ ،الله کے سپاہی ہیں۔ یہ سن کر فوجی اپنا سا منہ لے کر واپس چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد دو پشتون فوجی آئے اور عثمان بھائی سے پشتو میں وہی باتیں کیں تو ان پشتون فوجیوں کو عثمان بھائی نے ٹھیک سے سنائیں کہ تم بے غیرت ہو، پشتون قوم کی پہچان تو ایمان اور قرآن ہے مگر تم نے اپنا ایمان بیچ کر غلامی کو پسند کیا، تمہیں شرم نہیں آتی کہ اس فوج کا تم حصہ ہو جس نے لال مسجد و جامعہ حفصہ میں ہماری بہنوں اور بھائیوں کو شہید کیا، قبائل میں بے گناہ عوام کا خون کیا ! والله فوجیوں میں جواب دینے کی ہمت نہ رہی اور اپنا سا منہ لے کر واپس چلے گئے۔
الحمدالله یہ ایک مجاہد کی شان ہے کہ الله تعالیٰ نے کس قدر خوف طاری کیا اس بزدل ظالم فوج پہ جو نہتے عوام، ضعیف خواتین، کمزور بوڑھوں اور معصوم بچوں پہ بے دھڑک چڑھ دوڑتی ہے، انہیں شہید کرنے اور ان پہ مظالم ڈھانے سے ذرا نہیں ہچکچاتی۔ اپنی چھاؤنی سے قریب ہوتے ہوئے اور پانچ چھ سو کی تعداد ہوتے ہوئے بھی ان کی یہ ہمت نہ ہوئی کہ یہ مجاہدین کو کچھ کہہ سکیں ۔
عثمان بھائی اپنے کردار و عمل سے ہمیں یہ پیغام دے گئے ہیں کہ مجاہد کی شان اشداء علی الکفار رحما ء بینھم میں ہے۔ ایک مجاہد کو کافر کے لیے شدید ہی ہونا چاہیے۔ ہر مسلمان کے ایمان کا تقاضہ یہی ہے کہ وہ کفار سے کسی بھی طرح کا تعاون نہ کرے اور نہ ہی ان لوگوں سے تعاون کرے جو یہود و نصاری سے دوستیاں کرتے ہیں اور ان کے دشمن کو اپنا دشمن اور ان کے دوست کو اپنا دوست قرار دیتے ہیں کیونکہ الله تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اے ایمان والو ! یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ ،یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں ، اور تم میں سے جو شخص ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہی جیسا ہوگا۔ بے شک الله ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘ (سورۃ المائدہ: ۵۱)
الله تعالیٰ سے دعا ہے وہ تمام شہداء کی شہادتوں کو قبول فرمائیں، ہمیں بھی عثمان بھائی جیسا اخلاص و تقویٰ عطا فرمائیں اور ہمیں حق کو حق کہنے اور باطل کو باطل کہنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔
٭٭٭٭٭