دن معمول کے مطابق گزرنے لگے۔ مجاہدین سمٹ گئے تھے۔ البتہ ان کے علاقے ابھی بھی جھنگ تک پھیلے ہوئے تھے۔ جہاں جہاں قبضہ ہوتا، وہاں شریعت نافذ ہوجاتی تھی اور وہاں کی عوام کافی خوش تھی۔ عبادہ نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ مجاہدین کے زیر انتظام علاقے اس کو ضرور دکھائے گا۔
رمضان کی آمد آمد تھی۔ سب زور و شور سے تیاریوں میں مصروف تھے۔
ابو بکر اکثر گھر سے باہر ہی رہتا۔ عبادہ البتہ مہینہ میں صرف پندرہ دن گھر میں رہتا اور کبھی تو پورے ایک ماہ کے لیے بھی چلا جاتا، اور پورے گھر کو اداس کر جاتا۔
٭٭٭٭٭
’’اف!…… کیا مصیبت ہے؟‘‘ عبادہ نے کوئی چوتھی بار اپنی تحریر پر بڑا سا کاٹا مارا۔ ’’ایک لائن نہیں لکھی جارہی!…… نور! تم تھوڑی دیر خاموش ہوجاؤ!‘‘
وہ زچ ہو کر بولا۔
’’عبادہ!…… میں تو پچھلے آدھے گھنٹے سے خاموش ہوں اور آپ کو ایک لائن لکھنے کی کوشش میں ناکام ہوتا دیکھ رہی ہوں!‘‘ نور کی پیشانی پر لکیریں ابھریں، ’’کوئی پریشانی ہے؟‘‘
عبادہ خاموش رہا۔ نور نے بھی خاموش رہنا ہی بہتر جانا۔ شاید وہ بتانا نہیں چاہتا تھا۔
’’نور!‘‘ آخر کافی دیر کی ناکامی کے باعث اس نے قلم اور کاغذ پرے پھینکا اور نور کی طرف متوجہ ہوا۔
’’جی؟‘‘
’’ایک بات بتانے لگا ہوں…… وعدہ کرو کسی کو نہیں بتاؤ گی!‘‘ عبادہ دھیمی آواز میں بولا۔ نور نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ’’ماما اور جیا کو بھی نہیں؟ ابوبکر کو بھی نہیں؟‘‘
’’ان شاء اللہ نہیں بتاؤں گی‘‘ انجانے خوف کے تحت نور کا دل بری طرح دھڑکنے لگا۔
’’میری جان خطرے میں ہے نور!…… مجھے شاید کچھ عرصہ کے لیے روپوش ہونا پڑے!‘‘ عبادہ کی بات سن کر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ ’’اصل میں ایک بہت قریبی ساتھی گرفتار ہوا ہے…… وہ ساتھی میرا اور ہمارے امیر صاحب کا مراسل تھا…… امریکی شاید امیر صاحب یا پھر مجھے پکڑنا چاہ رہے ہیں اور وہ چند دنوں میں ہی چھاپہ مار سکتے ہیں…… مگر تم نے یہ بات ماما کو ہر گز نہیں بتانی…… وقت آنے پر میں خود بتادوں گا!…… شاید ہمیں بارڈر کے قریب شفٹ ہونا پڑے…… تم رہ لو گی وہاں…… وہاں حالات کافی مشکل ہوتے ہیں!‘‘
نور کا حلق بالکل خشک ہورہا تھا۔ اس نے بمشکل اپنا سر ہلایا۔
’’زیادہ پریشان نہ ہونا! اس گھر میں ہم ابھی شفٹ ہوئے ہیں…… اس ساتھی کو اس گھر کا نہیں پتہ ان شاء اللہ…… اصل میں اس ساتھی کی گرفتاری سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ ہم دونوں کے پیچھے پڑ گئے ہیں!‘‘ عبادہ نے گویا اس کی تسلی کروانے کی کوشش کی۔
’’اچھا!‘‘ وہ جواب میں بس اتنا ہی کہہ پائی۔
’’اوہ نماز کا وقت ہوگیا ہے!‘‘ عبادہ نے گھڑی کی طرف دیکھا اور نماز کی تیاری کرنے لگا۔
٭٭٭٭٭
رات کے ایک بج رہے تھے۔ نور کروٹیں بدل بدل کر تھک گئی تھی مگر نیند ابھی بھی اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ جب آنکھیں بند کرتی تو اماں، بابا جانی، ہاجر، سعد اور مصعب کی شکلیں آنکھوں کے سامنے آنے لگتیں۔ اس نے ایک نظر گہری نیند سوتے عبادہ پر ڈالی۔ دل میں خیال آیا کہ اس کو جگا دے مگر پھر خیال جھٹک کر بستر سے اٹھی اور کمرے سے باہر نکل آئی۔ ٹیرس کا دروازہ کھلا تھا، چاند نظر آرہا تھا۔ اس کے قدم بے اختیار اس طرف اٹھ گئے۔ باہر ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا بالکل اس کے دل کی طرح۔ وہ وہیں بیٹھ گئی اور آسمان پر ستارے گننے لگی۔
٭٭٭٭٭
عبادہ کی آنکھ کھلی تو نور کو نہ پا کر وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ پھر خیال آیا کہ کہیں گئی ہوگی، ابھی آجائے گی۔ گھڑی رات کے ڈیڑھ بجا رہی تھی۔ اس نے کروٹ بدلی اور دوبارہ سوگیا۔
اب کی بار آنکھ کھلی تو ڈھائی بج چکے تھے اور نور ابھی بھی نہیں آئی تھی۔ عبادہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔
’’نور؟‘‘ اس نے دھیرے سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو اس نے جھٹکا کھا کر سر اٹھایا اور کرسی سے گرتے گرتے بچی۔
’’اوہ خدایا! میں تمہیں ڈرانا نہیں چاہتا تھا!‘‘ وہ بری طرح کانپ رہی تھی۔ عبادہ اس کے سامنے زمین پر ہی پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔
’’نور! کیا ہوا ہے؟ یہاں کیوں آگئی ہو؟‘‘ اس نے نرمی سے پوچھا۔ نور فوراً اپنے آنسو صاف کرنے لگی۔
’’مجھے اماں، بابا جانی، ہاجر، سعد اور مصعب یاد آرہے ہیں!…… مجھ سے سویا نہیں جا رہا تھا!‘‘ وہ پھر روتے ہوئے بولی۔ عبادہ نے خاموشی سے سر جھکا لیا۔ ’’عبادہ! پتہ ہے شیطان مجھے بار بار کیا سکھاتا ہے؟…… بار بار وسوسہ آتا ہے کہ اگر آپ جیسے نوجوان جہاد نہ کرتے اور شریعت کے نفاذ کا مطالبہ نہ کرتے تو میرے ماں باپ زندہ ہوتے!‘‘
’’اندر چل کر بیٹھو! میں تمہیں سب کچھ سمجھاتا ہوں!‘‘ عبادہ اٹھتے ہوئے بولا مگر نور نے اس کی قمیض پکڑ لی جس کی وجہ سے وہ اٹھ نہ سکا اور دوبارہ بیٹھ گیا۔
’’نہیں عبادہ! میں نے اندر نہیں جانا!…… میرے دل کو کچھ ہوتا ہے!‘‘ وہ مچل کر بولی۔
اچھا چلو ایک اور آئیڈیا آیا!‘‘ اچانک عبادہ کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ’’تم عبایا پہن کر آجاؤ!…… میں تمہیں سیر کروا کر لاتا ہوں!‘‘
’’اتنی رات کو؟‘‘ نور کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
’’تو کیا ہوا؟‘‘ وہ مسکرا کر کھڑا ہوگیا۔ ’’میں بھی کچھ فریش ہوجاؤں گا!‘‘
نور بھی چپل پہن کر کھڑی ہوگئی اور عبادہ کے پیچھے ہی اندر آگئی۔ عبادہ گاڑی کی چابی اٹھائے آہستہ سے سیڑھیاں اترنے لگا۔ اتنے میں نور بھی عبایا پہن کر آگئی۔
’’آہستہ اترو! ماما نہ جاگ جائیں!‘‘ عبادہ نے سرگوشی کی تو وہ بھی قدم آہستہ آہستہ اٹھانے لگی۔ اس کے چہرے پر اب رونق آچکی تھی۔
گاڑی میں بیٹھ کر عبادہ نے ہینڈ بریک کھول دی مگر گاڑی سٹارٹ نہ کی، مبادہ کوئی جاگ نہ جائے۔ ڈھلوان ہونے کی وجہ سے گاڑی آرام سے نیچے اتر گئی۔ گیٹ سے نکل کر عبادہ نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔ نور شیشہ کھول کر باہر دیکھنے لگی۔ رات کے اندھیرے میں ستارے چمک رہے تھے۔ سرد ہوا کے جھونکے نور کے جسم میں سنسنی دوڑانے لگے تو اس نے شیشہ بند کر دیا۔
’’کہاں جا رہے ہیں؟‘‘ نور نے عبادہ کی طرف رخ موڑا۔
’’کسی پارک میں چل کر بیٹھتے ہیں!‘‘ عبادہ پھر مسکرا کر بولا۔ اس کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ وہ آج شرارت کے موڈ میں ہے۔
’’مگر اگر کسی گارڈ شارڈ نے ہمیں دیکھ لیا؟ اگر پکڑے گئے تو؟‘‘ نور سہم کر بولی۔
’’خیر ہے…… کبھی کبھی خطرناک کام بھی کرلینے چاہیے!‘‘ عبادہ ہنس دیا۔
٭٭٭٭٭
گاڑی ایک پارک کے سامنے رک گئی۔ پارک کا دروازہ بند تھا۔ نور نے عبادہ کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر شرارت کے آثار تھے۔ اس نے نور کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا ور ایک جنگلے کی طرف بڑھ گیا۔ جنگلا زیادہ اونچا نہ تھا اور کوئی بھی آسانی سے پھلانگ سکتا تھا۔
’’چلو بھئی اس پر چڑھو!…… میں تمہارے پیچھے آتا ہوں! تم تو ویسے بھی بچپن میں درخت پر چڑھنے میں ماہر تھی!‘‘ عبادہ اس کو ہدایات دینے لگا۔
’’عبادہ؟ اگر ہم پکڑے گئے تو؟‘‘
’’ارے کونسا کوئی غلط کام کر رہے ہیں؟…… ویسے بھی کبھی کبھار بچپن کی یاد تازہ کرنے سے انسان تازہ دم ہوجاتا ہے!‘‘ وہ بدستور مسکرا رہا تھا۔
آخر نور ڈرتے ڈرتے جنگلے پر چڑھ کر دوسری طرف اتر گئی۔ عبادہ نے بھی فوراً اس کی پیروی کی اور پارک کے اندر کود گیا۔
’’چلو ایک طرف چل کر بیٹھتے ہیں اور تمہاری بات سنتے ہیں!‘‘ وہ دونوں چلتے ہوئے ایک نسبتاً چھپے ہوئے حصے کی طرف آگئے اور بینچ پر بیٹھ گئے۔
’’یہاں نہیں!…… نیچے!‘‘ نور بینچ سے اٹھ کر زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔ عبادہ بھی خاموشی سے زمین پر ہی بینچ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ گھاس ہلکی ہلکی نم تھی جس کی وجہ سے دونوں کے کپڑے بھی ذرا سے نم ہوگئے۔
’’اچھا تو تم یہ کہتی ہو کہ اگر جہاد نہ کرتے یا شریعت کا نعرہ نہ لگاتے تو حالات خراب نہ ہوتے اور امریکہ حملہ نہ کرتا، نہ تمہارے ماں باپ مرتے اور نہ باقی رشتہ دار شہید ہوتے؟‘‘ عبادہ اب موضوع کی طرف آگیا تھا۔
’’وسوسہ سا آتا ہے!‘‘ نور سر جھکا کر بولی۔
’’اچھا!…… دیکھو سب سے بنیادی بات تو ہے تقدیر پر ایمان…… ہم سب اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ جو کچھ اس دنیا میں ہوتا ہے وہ اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے اور موت کا ایک وقت مقرر ہے۔ نہ کوئی اس سے ایک لمحہ تاخیر کر سکتا ہے اور نہ جلدی!…… تمہیں تو شکر کرنا چاہیے کہ تمہارے رشتہ دار شہید ہوئے ہیں!‘‘
’’پھر ہم امریکیوں کو کیوں بلیم (الزام) کرتے ہیں؟‘‘ نورنے نہ سمجھتے ہوئے پوچھا۔ عبادہ اس کو خوشمگیں نگاہوں سے دیکھے گیا۔ وہ گربڑا گئی۔ ’’اوہ ہاں! میرا مطلب ہے کہ ہم امریکہ کو کیوں الزام دیتے ہیں اگر قسمت میں لکھا تھا تو؟‘‘ نور نے پورا جملہ اردو میں تبدیل کیا تو عبادہ مطمئن ہوگیا۔ دراصل اس کو اردو کے ساتھ انگریزی گڈمڈ کرنا بہت برا لگتا تھا اور وہ اس کو مرعوب ذہن کی علامت بتاتا تھا۔
’’دیکھو قاتل مقتول کو وقت سے پہلے موت نہیں دے سکتا…… مگر اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنا اختیار دیا ہے کہ وہ گناہ کو اختیار کرے یا ثواب کو…… مثال کے طور پر تم یہ بات اس طرح سمجھو کہ ایک انسان کی تقدیر میں موت کا ایک وقت مقرر ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو اس بات کا اختیار دیا ہے کہ آیا وہ خودکشی کرے یا اس کو قدرتی موت آجائے…… اور اگر وہ خودکشی کو اختیار کرے گا تو اس کو گناہ ملے گا!…… اسی طرح جو کسی کو قتل کرے اس نے اپنے اختیار کا غلط استعمال کیا ہے اور معاشرے میں انتشار کا باعث بنا ہے، اس لیے اس کو سزا ملے گی…… اسی طرح امریکہ جب ظلم کرے گا تو لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے…… یہ دنیا عالم ِ اسباب ہے…… یہاں بغیر سبب کے کام نہیں ہوتے!‘‘ عبادہ اس کونرمی سے سمجھانے لگا۔
’’اچھا یعنی جو لوگ قتل کرتے ہیں وہ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم اس شخص کو وقت سے پہلے موت دے سکتے ہیں حالانکہ یہ نہیں ہوتا بلکہ موت اپنے مقررہ وقت پر ہی آتی ہے!‘‘ نور نے سمجھتے ہوئے سر ہلایا۔
’’ہاں بالکل! میری بیگم تو کافی ذہین ہے!…… ایک ضروری بات…… تقدیر کے حوالے سے زیادہ کھود کرید اور بحث مباحثہ نہیں کرنا چاہیے…… دین میں منع ہے…… ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہی تقدیر پر ایمان نہ ہونا ہے…… جس کی وجہ سے لوگ بے چین ہوتے ہیں…… ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں…… خودکشیاں کرتے ہیں!…… البتہ ایک چیز ایسی ہے جو تقدیر کو بھی بدل سکتی ہے!…… اور وہ ہے دعا!‘‘ وہ بولا تو نور دھیرے سے مسکرا دی۔
’’چلو اب دوسری بات کی طرف آتے ہیں کہ…… اگر جہاد نہ ہو تو بتاؤں کیا ہوتا ہے؟…… بتاؤں میں کیوں جہاد پر آیا؟…… بتاؤں جہاد چھوڑنے کا کیا نتیجہ ہوتا ہے؟‘‘
’’جی بتائیں!‘‘
’’جہاد نہ ہو تو وہی ہوتا ہے جو آج کل مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے…… یعنی ہر جگہ مسلمان گائے بکریوں کی طرح ذبح ہورہے ہیں…… پوری دنیا میں مسلمانوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے!…… سب سے پہلی بات اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ﴿وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ ۚ فَاِنِ انْتَهَـوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ﴾ یعنی ان سے لڑتے رہو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورے کا پورا اللہ کے لیے ہوجائے۔ پھر اگر وہ باز آجائیں تو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو اللہ خوب دیکھ رہا ہے۔ [سورۃالانفال: ۳۹]…… چنانچہ معلوم ہوا کہ جہاد رک جائے تو ساری قیادت و سیادت کفر کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے جس کے نتیجے میں فتنہ یعنی کفر و شرک پھیلنے لگتا ہے!…… اسی آیت سے نفاذ شریعت کا مطالبہ بھی سمجھ میں آجاتا ہے…… بات خلافت کی آگئی ہے تو ایک چیز کلئیر کردوں…… یعنی واضح کردوں!‘‘ عبادہ کھسیا کر خاموش ہوگیا، نور بھی اس کی طرف دیکھ کر ہنس دی۔ ’’معذرت! منہ پر چڑھے الفاظ مشکل سے ہی ہٹتے ہیں…… اچھا تو میں کہہ رہا تھا کہ چونکہ دین اسلام کے اکثر حکام کا تعلق اسلامی خلافت سے ہے…… اس لیے خلافت نہ ہونے کی وجہ سے دو تہائی دین پر عمل کرنے سے مسلمان محروم رہ جاتے ہیں۔ اس لیے احکام نافذ کرنے کے لیے اور حدود اللہ کے نفاذ کے لیے خلافت کا قیام نہایت ضروری ہے…… اور جس طرح اللہ تعالیٰ کے احکام مسلمانوں پر جاری کرنا فرض ہے، اسی طرح خلافت قائم کرنا بھی مسلمانوں پر فرض ہے…… تاکہ یہی خلافت ان احکام کی سرپرستی کر کے انہیں نافذ کرے اور عملی نمونہ مسلمانوں کے سامنے قائم کرے۔ اسی وجہ سے قرآن و حدیث اور اجماع امت اور عقل سلیم سب اس بات پر متفق ہیں کہ قیام خلافت فرض اور واجب ہے……‘‘ وہ کچھ دیر سانس لینے کے لیے رکا پھر دوبارہ گویا ہوا، ’’صحیح مسلم میں ایک حدیث ہے کہ…… جو شخص ایسی حالت میں انتقال کر گیا کہ اس کی گردن میں کسی خلیفہ کی بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مر گیا……‘‘ اس کی بات سن کر نور کو جھرجھری سی آگئی۔ ’’مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اسلام کے احکام ایک ایک کر کے ٹوٹتے جائیں گے۔ جب ایک حکم ٹوٹ کر ہاتھ سے نکل جائے گا تو اس کے قریب دوسرے حکم کو پکڑ لیں گے اور سب سے پہلے جو حکم ٹوٹے گا وہ خلافت ہے اور سب سے آخر میں ٹوٹنے والا حکم نماز ہے…… خلافت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد آپﷺ کی تجہیز و تدفین سے پہلے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے خلیفہ کا چناؤ ضروری سمجھا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے قیام خلافت نہایت ضروری اور واجب ہے!‘‘ وہ خاموش ہو کر آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔ ’’آج مسلمانوں کی جو حالت زار ہے وہ خلیفہ نہ ہونے کی وجہ سے ہے…… ان کی بات میں کوئی وزن نہیں…… ان کے فیصلے ان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ…… سات سمندر پار دور دراز علاقوں سے کیے جاتے ہیں…… غلام آقا بن گئے، آقا غلام بن گئے…… ہر طرف فساد ہے، فتنے ہیں…… نہ ایمان محفوظ ہے، نہ دنیا، نہ جان و مال، نہ عزت و آبرو کی حفاظت ہے!……‘‘
’’مگر کیا خلافت حاصل کرنے کا واحد ذریعہ جنگ اور جہاد ہی ہے؟…… جمہوریت میں کیا حرج ہے؟…… اس کے ذریعے بھی تو اسلامی نظام لایا جاسکتا تھا؟‘‘ نور نے حیرت سے پوچھا۔
’’یہ سوال میری جہادی زندگی کا سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال ہے!‘‘ عبادہ مسکرایا۔ ’’میرا ایک ہی جواب ہوتا ہے…… اگر رسول اللہ ﷺ نے کوئی اور طریقہ بتایا ہوتا تو ہم وہی اختیار کرتے!‘‘
اچانک کہیں سے گارڈ کی سیٹی کی آواز سنائی دی اور وہ دونوں بے ساختہ نیچے ہوگئے۔ مگر گارڈ ان کو دیکھ چکا تھا۔
اوئے کون ہو تم دونوں؟‘‘ وہ زور سے چلایا اور پارک کا دروازہ کھولنے لگا۔
’’عبادہ! بھاگیں!‘‘ نور گھبرا کر بولی۔
’’کچھ نہیں ہوتا! ہم کوئی غیر قانونی کام تو نہیں کر رہے، عوامی پارک میں بیٹھے ہیں!‘‘ عبادہ اپنے ازلی بے پرواہ انداز سے مسکرا کر کھڑا ہوگیا۔ اتنے میں چوکیدار قریب آگیا تھا۔
’’اوئے کون ہو تم دونوں؟ اوئے بی بی! یہ تمہارے ساتھ آدمی کون ہے؟‘‘ چوکیدار دونوں کے چہروں پر ٹارچ کی روشنی ڈالنے لگا۔ نور کی خوف کے مارے زبان گنگ ہوگئی۔ عبادہ نے ایک نظر اس پر ڈالی پھر آگے بڑھا۔
’’بھئی!…… یہ میری وائف…… اہلیہ ہیں…… میرا نام عبادہ مرتضیٰ ہے! اور یہیں ہاؤس نمبر۲۳ میں رہتا ہوں!‘‘ عبادہ پُر اعتماد لہجے میں بولا تو چوکیدار کھسیانا سا ہوگیا۔
’’اوہ عبادہ صاحب یہ آپ ہیں؟ میں احمد گل ہوں، آپ کے محلے کا چوکیدار! معاف کردیں صاحب، میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔‘‘ وہ خفت سے بولا۔ اب کھسیانے کی باری عبادہ کی تھی۔ یہ تو اپنا جاننے والا نکلا تھا۔
’’آپ اندر کیسے آئے صاحب؟‘‘
’’جنگلا پھلانگ کر!…… ذرا بچپن کی یاد تازہ کرنے کا دل کر رہا تھا…… ورنہ آپ سے کہہ کر دروازہ کھلوا سکتے تھے!‘‘
چوکیدار ان کو سلام کر کے واپس مُڑ گیا۔ وہ دونوں بھی خاموشی سے اس کے پیچھے پارک سے نکل آئے اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔ چوکیدار دوبارہ تالا لگانے لگا۔ اس کے جاتے ہی دونوں کی ہنسی چھوٹ گئی اور وہ گاڑی کے شیشے چڑھا کر بے تحاشہ ہنسنے لگے۔
’’تمہیں کیا ہوگیا تھا؟ گھگی کیوں بندھ گئی تھی؟‘‘ عبادہ سٹیرنگ پر سر ٹکا کر ہنسنے لگا۔ ’’مجھے تو آج پتہ چلا ہے کہ تم چوکیداروں سے ڈرتی ہو!‘‘
’’کل پورے محلے میں مشہور ہوجائے گا کہ عبادہ صاحب اپنی بیوی کے ساتھ جنگلا پھلانگ کر رات کے تین بجے پارک میں بیٹھے تھے!‘‘ نور نے بھی شامل ہوتے ہوئے کہا۔ عبادہ کی ہنسی رک گئی۔
’’اوہو! پہلے کیوں نہیں یاد کرایا؟…… اس کو منع ہی کر دیتا!‘‘
نور ابھی بھی ہنسے جارہی تھی۔
’’اچھا اب کہاں چلنا ہے؟‘‘
’’اتنی بے عزتی کافی نہیں؟ ویسے بھی نماز کا وقت ہوگیا ہے!‘‘ نور مسکرا کر بولی تو عبادہ نے خاموشی سے سر ہلایا اور گاڑی چلا دی۔
’’وہ دیکھو صبح صادق!‘‘ اچانک عبادہ نے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ نور کا دل ہلکا پھلکا سا ہوگیا تھا۔ وہ افق پر نمودار ہوتی روشنی کی لکیر دیکھنے لگی۔
٭٭٭٭٭
عبادہ کمرے میں داخل ہوا تو نور کوئی کتاب پڑھنے میں مصروف تھی۔
’’السلام علیکم!‘‘
’’وعلیکم السلام!‘‘ نور نے چونک کر سر اٹھایا پھر دوبارہ کتاب میں غرق ہوگئی۔
’’نور! میں میل چیک کرنے جا رہا ہوں…… تم نے چلنا ہے؟‘‘ عبادہ نے الماری میں سے جیکٹ نکالتے ہوئے پوچھا۔
’’افطاری تک آجائیں گے؟‘‘
’’ہاں ان شاء اللہ!‘‘ عبادہ نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ابھی تو افطاری میں چار گھنٹے تھے۔
’’اچھا میں خالہ کو بتا کر آتی ہوں!‘‘ نور نے اٹھتے ہوئے کہا اور کمرے سے نکل گئی۔
٭٭٭٭٭
’’کوئی بھی میل نہیں آئی!‘‘ عبادہ نے لیپ ٹاپ بند کر دیا۔ نور کھڑکی سے باہر نظارے کرنے میں مصروف تھی کہ اچانک بجلی کا ایک کوندا سا ہوا۔
’’عبادہ! نیٹ ہے ناں؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’اس میں فیس بُک بھی ہوگی!…… اوہ خدایا مجھے پہلے کیوں خیال نہ آیا؟‘‘ وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ ’’ایک منٹ مجھے اپنا لیپ ٹاپ دکھائیں!‘‘
عبادہ نے لیپ ٹاپ اس کی طرف بڑھا دیا۔ نور نے فوراً نیٹ آن کیا اور فیس بُک کھول لی۔ مؤمنہ قریشی، منال قریشی، بسام قریشی، سب کو ہی فیس بُک استعمال کیے تین تین ماہ ہو چکے تھے۔ یعنی نئی جگہ جاکر انہوں نے فیس بُک استعمال کیا تھا۔ نور پُر جوش ہوگئی۔
’’مؤمنہ! میں نور ہوں! تم لوگ سب کہاں ہو؟‘‘
’’منال! تم لوگ سب کہاں ہو؟…… نور‘‘
سب کے اکاؤنٹس پر میسیج چھوڑ کر وہ انتظار کرنے لگی مگر کسی نے بھی جواب نہ دیا۔ مایوس ہو کر اس نے لیپ ٹاپ بند کر دیا۔ عبادہ نے گاڑی گھر کی طرف موڑ دی۔
نور کے اصرار پر عبادہ مسلسل چار دن تک گھر سے دور جاکر فیس بُک پر پیغام چیک کرتا رہا مگر کوئی بھی جواب نہ آیا۔ نور پھر مایوس ہوگئی۔
’’نور! کل ان شاء اللہ میں تمہیں مجاہدین کے علاقوں میں لے کر چلوں گا!‘‘ نور کو اداس دیکھ کر عبادہ نے اس کو خوش کرنا چاہا اور کامیاب بھی ہوگیا۔ نور فوراً خوش ہوگئی اور اگلے دن کے بارے میں پلان بنانے لگی۔
٭٭٭٭٭
نور کی تیاری دیکھ کر امینہ خالہ محبت سے مسکرا رہی تھیں۔ وہ کبھی اِدھر بھاگ رہی تھی، کبھی اُدھر کیونکہ عبادہ نے کہا تھا کہ اس کو وہاں ایک ہفتہ لگ سکتا تھا اس لیے پوری تیاری کر لے۔ وہ صبح صبح نہا دھو کر صاف ستھرے کپڑے پہن کر تیار ہوگئی تھی۔ ابوبکر آج صبح ہی امینہ خالہ کے پاس رہنے کے لیے پہنچ گیا تھا۔ عبادہ البتہ کل رات سے گھر نہ آیا تھا اور اب اس کے آنے کا انتظار ہو رہا تھا۔
’’خالہ! آپ بھی چلیں ناں!‘‘
’’بٹیا! مجھے گھر سے نکلنا اب بہت مشکل لگتا ہے!…… شاید بڑھاپے کی شروعات ہیں!‘‘ امینہ خالہ مسکرا دیں۔
’’تو پھر جیا! تم چلی چلو!‘‘ نور کسی نہ کسی کو ساتھ لے جانے پر مصر تھی۔
’’نہیں بھئی! میں بہت دیکھ چکی ہوں! تم جاؤ!‘‘
اتنے میں باہر کا دروازہ کھلا اور عبادہ اندر داخل ہوا۔
’’چلو چلیں! تیاری کرلی؟‘‘
نور نے اثبات میں سر ہلایا اور دونوں امینہ خالہ کو سلام کر کے باہر کی طرف بڑھ گئے۔
امینہ خالہ کے لب ہلنے لگے۔
’’فی امان اللہ! اللہ تعالیٰ تُو ہی اپنی حفاظت میں رکھنا!‘‘
٭٭٭٭٭
گاڑی شہر سے باہر نکلی اور جی ٹی روڈ سے ہوتی ہوئی موٹر وے پر چڑھ گئی۔ دھوپ کافی اچھی نکلی ہوئی تھی۔ نور پر غنودگی طاری ہونے لگی تو وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
’’عبادہ! آپ نے جہاد پر آنے کی وجہ مکمل نہیں کی!‘‘
’’اچھا!…… میں نے دو وجوہات تو تمہیں بتا دی تھیں…… ایک، تاکہ فتنہ یعنی کفر و شرک نہ پھیلے اور دوسرا اسلامی نظام کا قیام!‘‘ عبادہ وِنڈ سکرین پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔
’’اور میں نے پوچھا تھا کہ کیا اس کا واحد ذریعہ جہاد ہی ہے؟‘‘
’’آج کل کے دور میں بعض اسلامی ذہن رکھنے والے حضرات اور نیک نیتی سے اسلامی انقلاب کے داعی لیڈر جب دیکھتے ہیں کہ اقتدار میں آئے بغیر اسلامی نظام کی ترویج ناممکن ہے تو اس کا حل وہ یہ نکالتے ہیں کہ نیک شہرت رکھنے والے امیدوار انتخاب کے لیے نامزد کیے جائیں اور عوام میں اسلامی تعلیمات کا پرچار کر کے ایسے نیک نمائندوں کو ہر جگہ منتخب کروانے کی کوشش کی جائے…… مجھے افسوس ہے کہ میں اس بارے میں ان کی تائید نہیں کر سکتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ ووٹوں کے ذریعے نہ آج تک اسلام آیا ہے اور نہ آئندہ آسکتا ہے۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو انبیاء ؑ اس پُر امن ذریعہ انتقال اقتدار کو ضرور استعمال کرتے۔ بنی نوع انسانی کے لیے قرآم کریم اور حضورﷺ کی سنت سے بہتر دستور ملنا نا ممکن ہے!…… اور قرآن کریم کی تبلیغ کے لیے جو اَن تھک محنت و کوشش حضورﷺ نے فرمائی، دوسرا کوئی نہیں کر سکتا۔ آپﷺ کو جانثار اور مخلص پیروکاروں کی ایک جماعت بھی میسر تھی…… جو اسلام کے عملی نفاذ کے لیے صرف تبلیغ و اشاعت پر ہی انحصار نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی پوری زندگیاں اسی قالب میں ڈھال چکے تھے۔ صحابہ کی جماعت گویا قرآنی تعلیمات کا چلتا پھرتا نمونہ تھی۔ لیکن مکہ میں تیرہ سال کی اَنتھک کوششوں کے باوجود یہ تو نہ ہو سکا کہ حضورﷺ مکہ میں اسلامی ریاست قائم کرلیتے…… جبکہ مدینہ میں ہجرت اور جہاد کے فرض ہونے کے بعد ایک اسلامی ریاست قائم ہوگئی…… یہ تو اللہ تعالیٰ کا قانون ہے…… مجھے بتاؤ جب ایک بہترین دستور بھی موجود ہو اور اس کو عملاً نافذ کرنے والی جماعت بھی مثالی کردار کی مالک ہو، وہ تو اس دستور کو کثرت رائے سے نافذ نہ کرسکی…… آج اس دور میں یہ کیونکر ممکن ہے؟‘‘ عبادہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔ نور اثبات میں سر ہلانے لگی۔
’’باطل کبھی بھی حق کو آرام سے غلبہ نہیں پانے دے گا…… باطل کو دبانے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ اس کو مسلسل خوفزدہ اور دہشت زدہ رکھا جائے تاکہ ایک دفعہ ختم ہونے کے بعد دوبارہ اس میں سر اٹھانے کی طاقت نہ رہے…… اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے صرف رائے عامہ کو تبلیغ کے ذریعہ ہموار کرنا اور اس طرح اسلامی انقلاب برپا کرنا…… خام خیالی ہے!…… اس کے لیے ہجرت اور جہاد جیسے ذرائع اختیار کرنے پڑیں گے جیسا کہ انبیاء ؑ اور مجاہدین کا دستور رہا ہے!‘‘
’’ہوں! یہ بات تو صحیح ہے!‘‘ نور دھیرے سے بولی اور پھر کھڑکی سے باہر تیزی سے گزرتا منظر دیکھنے لگی۔
’’اور یہ بات تو تاریخ پر نظر رکھنے والا کوئی بھی عقل مند انسان سمجھ سکتا ہے کہ جب کسی نظام کی جگہ کوئی نیا نظام لیتا ہے تو اس کو دنیا میں اپنا مقام لڑ جھگڑ کر ہی منوانا پڑتا ہے……‘‘ عبادہ دوبارہ بولا تو نور نے اپنا رخ کھڑکی کی طرف سے موڑا اور عبادہ کو دیکھنے لگی۔ ’’کوئی آرام سے یہ نہیں کہتا کہ ہاں اس نئے نظام کو اپنا کر دیکھ لیتے ہیں…… پہلے سے نافذ نظام کے بدلنے کی صورت میں برسر اقتدار لوگوں کے مفادات خطرے میں پڑ جاتے ہیں…… اسلام کے علاوہ بھی پوری دنیا کی تاریخ ان مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ حتیٰ کہ کمیونزم، جمہوریت، فرنچ ریوولوشن، خلافت اسلامیہ کا سقوط، امیریکن ریوولوشن، برطانیہ کی کالونیوں کی آزادی حاصل کرنا، یہودیوں کا فلسطین میں صیہونی ریاست کا قیام، وغیرہ وغیرہ…… تاریخ میں جتنے بھی انقلابات آئے ہیں چاہے اسلامی ہوں یا کافروں کے…… کبھی جنگوں کے بغیر نہیں آئے کیونکہ کوئی بھی اپنی شہنشاہی کسی کو آرام سے نہیں دیتا بلکہ اس سے لڑ جھگڑ کر لینا پڑتا ہے! جب کوئی آپ کا حق دبا رہا ہو تو اس سے پیار محبت سے نہیں کہا جاتا بلکہ باغیرت انسان وہ کہلاتا ہے جو لڑ کر اپنا حق حاصل کرے!‘‘
’’تو کیا جمہوریت کے ذریعے اسلام نافذ نہیں ہو سکتا؟‘‘
’’نہیں جمہوریت تو اسلام کے متصادم ہے…… سب سے پہلے جمہوریت کے نظام کو دیکھ لو…… یہ تو سراسر کفریہ نظام ہے جو آج سے ہزاروں سال پہلے مشرک رومیوں نے ایجاد کیا تھا…… جمہوریت میں ووٹوں کے ذریعے فیصلے کیے جاتے ہیں…… یعنی اگر پاکستان کے ۵۱ فیصد عوام اسلام کے خلاف کوئی قانون نافذ کرنا چاہیں جبکہ ۴۹ فیصد یہ نہ چاہتے ہوں تو ۵۱ فیصد لوگوں کی بات مانی جائے گی چاہے وہ قانون اسلام کے جتنا مرضی خلاف ہو!…… دیکھو ہمارے ملکوں کے حالات یہ ہیں کہ عوام بھی مسلمان ہیں، حکمران بھی اسلام کا دعویٰ کرتا ہے لیکن نفاذ ِ اسلام کو ضروری نہیں سمجھتا بلکہ جو بھی اس سے اس کا مطالبہ کرتا ہے، اس کے خلاف ہو جاتا ہے…… اب دیکھنا یہ ہے کہ ایسے حکمران قرآن و سنت کی روشنی میں کس درجے کے مسلمان ہیں؟…… آیا متقی، پرہیزگار یا فاسق، فاجر یا پھر کافر؟ کیونکہ یہاں جرم صرف یہ نہیں کہ اسلامی قانون نافذ نہیں بلکہ اصل جرم یہ ہے کہ قانونِ اسلام کے مقابلے میں قانونِ انسان نافذ ہے…… الٰہی قانون کی جگہ انسانی قانون نے لے لی ہے…… ایک مثال سے سمجھو کی کوئی شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے بجائے نماز کسی اور طریقے سے پڑھنے لگے تو اس کا کیا حکم ہوگا؟…… وہ شخص چاہے پوری نماز عربی میں پڑھ لے، کچھ اس میں اپنی مرضی سے اردو یا انگریزی ملا دے تو اس کی نماز مکمل ہوجائے گی؟‘‘
’’نہیں!‘‘ نور اس کا نقطہ سمجھ کر مسکرا دی۔
’’میں چند آیات کے ترجمے تمہیں بتاتا ہوں:…… کیا آپ ان لوگوں کو نہیں دیکھتے، جو دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے ان قوانین کو مانا ہے جو آپ پر نازل کیے گئے ہیں اور آپ سے پہلے نازل شدہ ہیں، اس کے بعد وہ چاہتے ہیں کہ اپنے فیصلے طاغوت کے پاس لے جائیں، حالانکہ ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ طاغوت کا انکار کریں، حقیقت یہ ہے کہ شیطان چاہتا ہے کہ ان کو دُور گمراہی میں دھکیل کر رکھ دے۔‘‘
’’دوسری آیت سورۃ النساء کی آیت نمبر ۶۵ ہے:نہیں، (اے پیغمبر) تمہارے پروردگار کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک یہ اپنے باہمی جھگڑوں میں تمہیں فیصل نہ بنائیں، پھر تم جو کچھ فیصلہ کرو اس کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں، اور اس کے آگے مکمل طور پر سر تسلیم خم کردیں……‘‘
’‘اسی طرح سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ۴۴ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اور جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہی لوگ کافر ہیں…… اور اگلی آیت ہے: اور جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہی لوگ ظالم ہیں……‘‘
’’اف اللہ! یہ باتیں تو ہمیں کبھی معلوم نہ ہوئیں۔ صحیح کہتے ہیں ناں کہ ہر مصیبت بھی اللہ تعالیٰ کسی حکمت کے تحت بھیجتا ہے…… آج مجھ پر یہ آزمائش نہ آئی ہوتی تو میں یہاں کے بجائے کہاں ہوتی۔‘‘ نور نے بے ساختہ جھرجھری لی۔ وہ اب اس تصور سے ہی کانپ جاتی تھی۔
’’قصۂ مختصر، ان آیتوں کی وضاحت میں سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ محمد ابرہیم نے بہت تفصیلی فتویٰ دیا ہے:
اللہ تعالیٰ نے جب کسی حاکم کو قانون الٰہی کے خلاف فیصلہ کرنے پر کافر قرار دیا ہے تو وہ شخص یقیناً کافر ہے…… لیکن کفر کی دو اقسام ہیں…… ایک اعتقادی، دوسرا عملی……
پہلی قسم تو صریح کفر ہے۔ اس کی چند صورتیں ہیں:
اول: یہ کہ حاکم اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قانون کا بالکل انکار کردے۔ یہ شخص بلا اختلاف کافر ہوجاتا ہے……
دوم: یہ کہ حاکم اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دین کا انکار تو نہیں کرتا لیکن اس کا عقیدہ یہ ہے کہ زمانہ کے تغیر و تبدل اور حالات کے بدل جانے سے اللہ کے قانون کے مقابلے میں انسان کا وضع کردہ قانون زیادہ بہتر اور مناسب ہے، تو یہ شخص بھی کافر ہے۔
سوم: یہ کہ حاکم کا عقیدہ یہ نہیں کہ بندوں کا قانون اللہ کے قانون سے بہتر ہے مگر اس کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قانون بندوں کے قانون کے برابر ہے۔ یہ بھی کفر ہے۔
چہارم: یہ کہ ایک حاکم بندوں کے قانون کو اللہ تعالیٰ کے قانون سے بہتر بھی نہیں جانتا اور اس کے برابر بھی نہیں مانتا۔ ہاں وہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مقابلے میں بندوں کا قانون نافذ کرنا جائز ہے۔ یہ بھی کفر ہے……
پنجم: جس طرح بعض قبائل میں رواج کے تحت فیصلے کیے جاتے ہیں، یہ بھی جاہلیت کے قوانین ہیں، یہ بھی کفر ہے!‘‘ عبادہ کچھ دیر کے لیے خاموش رہا۔ نور حیرت سے اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ وہ یہ کیا بات کہہ رہا تھا!
’’کفر کی دوسری قسم وہ ہے جو انسان کو اسلام اور ایمان سے خارج نہیں کرتی بلکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق کفرِ اصغر ہے یعنی کفر دون کفر ہے۔ مثلاً ایک حاکم اللہ کے قانون کو برحق مانتا ہے لیکن خواہشِ نفسانی کی وجہ سے غفلت و بدبختی میں غوطہ کھا رہا ہے…… اللہ کے حکم کے بجائے بندوں کے ایجاد کردہ قوانین کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور اپنے آپ کو گناہ گار، خطا کار سمجھتا ہے…… تو یہ کفر تو نہیں البتہ معصیت، فسق اور ظالم ہے!‘‘ عبادہ وِنڈ سکرین پر نظریں ٹکائے ہوئے بولا۔
’’لیکن اس حاکم کو بھی مجبور کیا جائے گا کہ وہ شرعی نظام قائم کرے ورنہ جنگ ہوگی؟‘‘ نور نے پوچھا۔
’’بالکل!‘‘ عبادہ نے سر اثبات میں ہلا دیا۔ ’’میرے جہاد پر آنے کی تیسری وجہ امت ِ مسلمہ کی حالت ِ زار ہے…… افغانستان، شام، چیچنیا، بوسنیا…… جو نام میں بولوں، تم گنتی جاؤ……‘‘ نور اس کے کہنے پر انگلیوں پر گننے لگی۔ ’’مشرقی ترکستان، یعنی چین کا صوبہ سنکیانگ، کشمیر، برما، مشرقی تیمور، الجزائر، فلسطین، لیبیا، مصر، یمن، بنگلہ دیش، نائجیریہ، صومالیہ، ہندوستان، وسطی افریقہ، تاجکستان، نیپال، فرانس…… کتنے ملک ہوئے؟‘‘
اس نے نور کی انگلیوں کی طرف دیکھا۔ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے تھے۔
’‘بیس!‘‘
’’بیس ممالک!‘‘ عبادہ نے گہرا سانس بھرا۔ ’’کیا یہ کم ہیں؟‘‘
’’نہیں!…… مگر آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘
’’میں نے دنیا کے وہ ممالک تمہیں گنوائے ہیں جہاں پر کفر کی جانب سے مسلمانوں پر کسی نہ کسی انداز میں ظلم و ستم جاری ہے…… کہیں قتل عام کی صورت میں تو کہیں مسلمانوں پر مذہبی پابندیاں لگا کر اور کہیں تو مسلمانوں کے تشخص کو مجروح کرکے، جیسے روس نے اپنے زیر ِ تسلط مسلمان ملکوں پر کیا تھا!‘‘
’’اب تو اس میں پاکستان کو بھی شامل کرلیں!‘‘ نور دکھ سے بولی۔
’’ہاں! ہاں!…… پھر تو یہ اکیس ممالک ہوگئے…… سوچنے کی بات یہ ہے کہ ۴۹ مسلم ممالک کی حکومتیں ہونے کے باوجود کیا کبھی کسی حکمران نے مسلمانوں کو بچانے کے لیے کوئی سخت ردعمل دیا جس سے کفار ڈر جاتے؟…… اس کے برعکس کافروں کا ایک فرد بھی کہیں مر جائے تو پوری دنیا بلبلا اٹھتی ہے…… ہمارے مسلم حکمران تو امت کے لیے کچھ کیا کرتے، الٹا جن مٹھی بھر نوجوانوں نے یہ کوشش کی، انہیں ہی برا بنا دیا…… دہشت گرد! شدت پسند! وغیرہ وغیرہ…… تلوار کا جواب تلوار ہی سے ہوتا ہے…… کوئی شخص میرے گھر کی عزت پامال کرے، میرے بھائی کی جان، مال، آبرو سے کھیلے تو کیا میں اس مجرم کے گھر کے سامنے بینر (Banner) اٹھا کر پُرامن طریقے سے احتجاج کروں گا؟…… نہیں بلکہ اگر میں باغیرت انسان ہوں تو میری انسانی غیرت اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ میں اس شخص کا آگے بڑھ کر ہاتھ روکوں اور اس کو ایسا کڑا جواب دوں کہ وہ آئندہ ایسا کرنے کی ہمت بھی نہ کرے…… ہر شخص سے بات کرنے کے لیے اس کی زبان سیکھی جاتی ہے ناں؟‘‘ اس نے نور کی طرف دیکھا جو بغور اس کی بات سن رہی تھی۔
’’تو اس وقت بھی صورتحال کچھ یوں ہے کہ کفار ہمارے ساتھ تشدد کی زبان میں بات کر رہے ہیں…… پوری دنیا میں مختلف رُوپوں میں ظلم و ستم…… تلوار اور اسلحے، خوف و ہراس کے ذریعے ہمیں دبا رہے ہیں!…… اس لیے ہمیں بھی ان ہی کی زبان سیکھنا پڑے گی تاکہ ہم ان کو ان ہی کی زبان میں جواب دے سکیں۔‘‘
’’ہوں! اچھا پوائنٹ ہے!‘‘
’’چوتھی وجہ اللہ کا خوف اور فرض کی پکار…… اور اگر اس کو میں پہلی اور سب سے اصل وجہ کہوں تو صحیح ہوگا!‘‘ وہ مسکرایا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ اگر مسلمانوں کے کسی ملک یا علاقے پر کفار چڑھ دوڑیں تو اس علاقے والوں پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے…… جس زمین پر ایک دن بھی اسلام کا پرچم لہرایا ہو، اگر کفار کے ہاتھوں میں چلی جائے تو اس کے رہنے والے مسلمانوں پر جہاد فرض ِ عین ہوجاتا ہے اور ضرورت پڑنے پر اس کی سرحدوں سے ملنے والے مسلمان ملکوں پر بھی فرض ہو جاتا ہے…… گویا سپین کے سقوط کے ساتھ ہی پوری مسلم دنیا پر جہاد فرض ہوگیا تھا…… مسلمانوں کا کوئی ایک مرد یا عورت کفار کے نرغے میں چلی جائے تو پوری دنیا کے مسلمانوں پر اس کو چھڑانا اور جہاد کرنا فرض ِ عین ہوجاتا ہے!…… اور اس کو چھوڑنے والا ایسا ہی گناہ اور فسق میں مبتلاء ہوگا جیسے نماز چھوڑنے والا…… فرض ِ عین کی صورت میں غلام آقا کی اجازت کے بغیر، بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر، اولاد ماں باپ کی اجازت کے بغیر، مقروض قرض خواہ کی اجازت کے بغیر جہاد پر جا سکتا ہے!…… اوہ وہ دیکھو، شریعہ بارڈر آگیا!‘‘ عبادہ اچانک رک گیا۔
نور بے ساختہ آگے ہو کر بیٹھ گئی اور اپنا نقاب درست کرنے لگی۔ ان کی گاڑی ایک چوکی پر رک گئی۔ چوکی کے دونوں اطراف ہاتھوں میں کلاشن کوفیں تھامے مجاہدین گاڑیوں کی تلاشی لے رہے تھے۔
’’السلام علیکم!‘‘ عبادہ نے شیشہ نیچے کرکے مصافحے کے لیے ہاتھ باہر نکالا۔
’’اوہ امیر صاحب آپ؟ السلام علیکم! کیسے احوال ہیں؟‘‘ وہ گارڈ شاید اس کو پہچان گیا تھا۔
الحمدللہ ٹھیک ٹھاک ہیں!…… بھائی ذرا اپنی رفتار بڑھائیں تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو…… اور بلاوجہ کسی کو مت روکیں…… جب تک کسی پر شک نہ ہو!‘‘
’’صحیح!‘‘ وہ گارڈ کہتا ہوا دوسرے ساتھیوں کو عبادہ کی ہدایات پہنچانے چلا گیا۔ عبادہ نے گاڑی آگے بڑھا دی۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)