نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home عالمی منظر نامہ

خیالات کا ماہنامچہ | جنوری ۲۰۲۲

ذہن میں گزرنے والے چند خیالات

معین الدین شامی by معین الدین شامی
21 جنوری 2022
in جنوری 2022, عالمی منظر نامہ
0

 اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا نہایت فضل و احسان ہے جس نے ہمیں مسلمان بنایا، اپنے نبیؐ کے زمانے سے ساڑھے چودہ صدیوں بعد پیدا کیا، لیکن اس زمانے میں ملّا عمر، اسامہ بن لادن، اختر منصور اور ہبۃ اللہ اخندزادہ و ایمن الظواہری جیسوں سے نوازا، جنہوں نے اللہ کے دین کو قائم کرنے کی محنت اس طریق پر کی جس طریق پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے کی تھی۔

لاکھوں درود و سلام اور یہ لاکھوں کروڑوں چھوٹے چھوٹے عدد ہیں، اس سے کہیں زیادہ، جیسے اللہ کی شان ہے اسی کے مطابق درود و سلام ہمارے حبیب پر، جن کی مانگی گئی دعائیں ہمارے لیے اس دنیا میں بھی سہارا ہیں اور آخرت میں بھی باذن اللہ شفاعت کا سامان، صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

اللہ پاک ہمیں ایمان و جہاد پر استقامت دے، مرتے دم تک اور مرنا ہزار زندگیوں سے بہتر مرگِ شہیداں ہو کہ جسم و جاں فضا میں بکھر جائیں، کوئی ذرہ کوئی نہ پا سکے، آمین!

مفتی خالد بلتی کی شہادت


ماہِ جنوری ۲۰۲۲ء کے پہلے عشرے میں ایک محترم عالمِ دین اور تحریکِ طالبان پاکستان سے وابستہ ایک مجاہد قائد، مفتی خالد بلتی کو افغانستان کے صوبۂ ننگرہار میں شہید کردیا گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

مفتی خالد بلتی صاحب کی شہادت کا براہِ راست ذمہ دار پاکستان کا امریکی وفادار ادارہ آئی ایس آئی ہے جس نے اپنے ایک جاسوس و کرائے کے قاتل کے ذریعے مفتی صاحب کو شہید کروایا۔ مفتی صاحب شہید رحمہ اللہ، کئی سال بدنامِ زمانہ امریکی جیل باگرام میں قید رہے، جہاں طلبائے علمِ دین کا ایک بڑا حلقہ آپ کے گرد رہا اور مفتی صاحب شہید جیل میں بھی تدریسِ علمِ دین کی سنتِ امام ابنِ تیمیہؒ ادا کرتے رہے۔

ماضی میں مفتی صاحب رحمہ اللہ نے پشاور آرمی پبلک سکول کے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور اسی کارروائی کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد آپ ننگرہار ہی سے گرفتار ہو کر باگرام کے زندان میں ڈالے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ مفتی صاحب پر رحم فرمائیں اور ان کو اعلیٰ درجات سے نوازیں کہ اہلِ حق علمائے کرام کی اقتدا میں انہوں نے راقم الحروف کے ایک قریبی ساتھی کے سامنے باگرام جیل میں پشاور آرمی پبلک سکول کی کارروائی کی ذمہ داری بطورِ ترجمانِ تنظیم قبول کرنے کو اپنی خطا کہا تھا۔ نیز انہوں نے کہا تھا کہ یہ کارروائی سراسر غلط تھی اور میں اس میں جس حد تک بھی شریک رہا تو امیدوارِ مغفرت بھی ہوں شدید نادم بھی۔ باگرام جیل میں قید رہنے والے ساتھیوں کے مطابق جب بھی آرمی پبلک سکول پشاور کا ذکر آتا تو مفتی صاحب شدید نادم ہو جایا کرتے۔

بلاشبہ اہلِ حق کی شان تو یہی ہے کہ جب ان سے کوئی سہو ہو جاتا ہے تو وہ اس سے رجوع کرتے ہیں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کرتے۔

مفتی صاحب پاکستان میں نفاذِ نظامِ جمہوریت کے مخالف تھے اور نفاذِ اسلام کے لیے کوشاں تھے۔ نفاذِ شریعت ہی کی محنت اور اس کے لیے کوشش کے ’جرم‘ میں امریکی وفادار آئی ایس آئی نے آپ کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ مفتی خالد بلتی کی شہادت اسی انٹیلی جنس سازش کی ایک کڑی ہے جس میں ڈھائی سال قبل تحریکِ طالبان پاکستان کے ایک اور مرکزی قائد شیخ خالد حقانی رحمہ اللہ کو دھوکے سے کابل میں بلا کر شہید کیا گیا تھا اور قریباً اب سے ایک ماہ قبل تحریکِ طالبان پاکستان کے ایک اور مرکزی قائد مولوی فقیر محمد (حفظہ اللہ) پر پاکستانی ڈرون طیاروں نے افغانستان و پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بمباری کر کے شہید کرنے کی کوشش کی تھی۔اللہ پاک مفتی صاحب کی شہادت قبول فرمائیں اور ان پر رحم فرمائیں اور تمام مجاہدین و اہلِ دین کی حق کی جانب رہنمائی فرمائیں اور سب کو حق پر ثبات عطا فرمائیں، آمین!

جولین اسانج کی Extradition


گو کہ یہ خبر تھوڑی سی پرانی ہو چکی ہے، لیکن نیو ورلڈ آرڈر کے دوغلے معیارات، دراصل منافقت کو سمجھنے میں بہت ممد و معاون ہے۔

جولین اسانج (Julian Assange)کو ایک دنیاجانتی ہے، اگر کوئی نہیں جانتا تو وہ وکی لیکس کو تو جانتا ہی ہے، اسانج وکی لیکس کا بانی بھی ہے اور کلیدی کارکن بھی۔ وکی لیکس نے امریکہ اور دیگر بہت سی حکومتوں کے ایسے راز افشا کیے جو نیو ورلڈ آرڈر کی چنگیزیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ تقریباً گیارہ سال سے ایک یا دوسرے طریقے سے اسانج پابندیوں کا شکار ہے اور قریباً آٹھ نو سال سے قید یا نظر بندہے اور تقریباً پچھلے تین سال سے باقاعدہ برطانیہ کے زیرِ حراست ہے اور بدنامِ زمانہ بیل مارش جیل میں بند ہے۔

دو سال سے برطانیہ کی عدالتوں میںس اسانج کو extradite یا بطورِ ملزم امریکہ کے حوالے کیے جانے کا کیس چل رہا ہے اور ابھی مہینہ قبل پہلی بار برطانیہ کی عدلیہ نے اس بات پر رضامندی کا امکان ظاہر کیا ہے کہ اسانج کو extradite کر دیا جائے گا۔ اس extradition پر بات کرنے سے پہلے عالمی بدمعاش نظام کی ایک اور جھلک دکھانا ضروری ہے۔

اسانج ایک آسٹریلوی شہری ہے اور سنہ ۲۰۱۲ء میں اس نے ملک ایکواڈور (Ecuador) سے سیاسی پناہ کا مطالبہ کیا تھا اور ایکواڈور کی حکومت نے یہ سیاسی پناہ دینے پر رضا مندی کا اظہار کیا تھا۔ اسی رضا مندی کے نتیجے میں اسانج ۲۰۱۲ء سے ۲۰۱۹ء تک لندن میں موجود ایکواڈور کے سفارت خانے میں رہتا رہا۔

ایکواڈور کیوں؟ اس لیے کہ پڑوسی و بین الاقوامی استعماری قبضوں کے بعد ایکواڈور پر فوجی حکومتیں رہیں اور آج سے قریباً تیس سال قبل وہاں ’جمہور‘ کی حکمرانی آئی۔ ایکواڈور اپنے بعض مواقف کے سبب دنیا کے ان ممالک میں معروف ہے جہاں جدید حقوقِ انسانی کا خیال عموماً منافقت کے بغیر رکھا جاتا ہے۔ ایکواڈور کے ماضی کے متعلق تو فی الحال راقم کے لیے تحقیق کا موقع نہیں اور نہ ہی یہ حالاً ہمارا موضوع ہے۔ بہر کیف ایک بات اس کے ذیل میں اہم ہے اور اس ایک بات کے ذیل میں دو مزید باتیں۔

پہلی بات: عالمی نظام

دنیا میں ایک عالمی نظام نافذ ہے۔ یہ کس قدر مضبوط ہے اس کی ایک چھوٹی سی مثال تو حال کا افغانستان ہے کہ جہاں جدید پیمانوں کے اعتبار سے امن موجود ہے، بلکہ شاید دنیا کے پر امن ترین ممالک میں افغانستان کا شمار کیا جائے تو یہ اول ٹھہرے، لیکن عالمی نظام نے افغانستان پر قسم قسم کی بندشیں عائد کر رکھی ہیں۔ دراصل امریکہ افغانستان میں کسی قسم کی خوشحالی نہیں چاہتا اور دنیا کا عالمی نظام بنیادی طور پر امریکہ کے ماتحت ہے ورنہ اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل ارکان امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کے ذریعے دنیا پر قابض ہے۔ لہٰذا تسلیم کرنا اور سفارتی و تجارتی تعلقات قائم کرنا تو دور کی بات افغانیوں کا اپنی محنت سے کمایا دس ارب افغانی کرنسی کا سرمایہ اس عالمی نظام نے روک رکھا ہے۔ یہ عالمی نظام اولاً عسکری، ثانیاً معاشی اور ثالثاً سفارتی وسیاسی رابعاً غیر اخلاقی ہتھکنڈوں سے پوری دنیا کو کنٹرول کرتا ہے(غیر اخلاقی یعنی ذاتی سطح کی جاسوسی، بلیک میلنگ، رشوت وغیرہ، گو کہ ہم نے یہاں اس کا ذکر رابعاً کیا ہے اور رابعاً یہ ہوتا بھی ہے لیکن اکثر یہ پہلو پہلے تین پہلوؤں کے ساتھ ساتھ چلتا ہے اور دراصل یہ سارے ہی پہلو ایک دوسرے سے متعلق یا جڑے ہوئے ہیں)۔

ایکواڈور کی طرف آتے ہیں۔ ایکواڈور بھی اسی ’دنیا‘ نامی سیارے کا برِّ اعظم جنوبی امریکہ میں واقع ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ اس میں بھی انسان بستے ہیں، جن کی ضروریات بھی ہیں، جو غلطیاں یا جرائم بھی کرتے ہیں اور ان کے اصول جو بھی ہوں لیکن چونکہ یہ انسان ہیں اور ان پر نافذ نظام بھی خالق کا بنایا ہوا نہیں بلکہ ان کا اپنا ہی بنایا ہوا جمہوری نظام ہے تو یہ خود ہی اپنے اصول توڑتے ہیں اور نتیجتاً ان کا مواخذہ نہیں ہو سکتا کہ یہ مواخذے سے بچنے کے لیے کئی بار قانون ہی بدل دیتے ہیں۔

ذیلی باتیں

  1. ایکواڈور نے اسانج کو پناہ تو دے دی اور سات سال تک امریکی دباؤ بھی برداشت کیا لیکن آخر کار ایکواڈور کے صدر کا ایک معاشی کرپشن کا سکینڈل سامنے آیا اور صدر مورینو کی بعض متنازع تصاویر انٹرنیٹ پر آ گئیں۔ وکی لیکس پر اس کرپشن سکینڈل کو افشا کرنے کا الزام لگایا گیا اور پھر صدر مورینو نےوکی لیکس کے انکار کے باوجود کہا کہ اسانج نے سیاسی پناہ یا asylum کی شرائط کی خلاف ورزی کی ہے اور ایکوا ڈور کے داخلی معاملات میں مداخلت کی ہے اور اس سبب سے اسانج کو لندن میں واقع ایکواڈور کے سفارت خانے سے نکالا جاتا ہے، یوں اپریل ۲۰۱۹ء میں ایکوا ڈور کی حکومت نے رسماً میٹروپولیٹن پولیس جسے عرف میں سکاٹ لینڈ یارڈ کے نام سے جانا جاتا ہے ، کو سفارت خانے میں بلایا گیا اور اسانج کو ان کے حوالے کر دیا گیا۔

  2. مشہور و بدنامِ زمانہ عالمی اقتصادی ادارے ’آئی ایم ایف‘ (جو ملکِ پاکستان کو بھی چاٹ گیا ہے) کے اسی زمانے میں ایکواڈور کو قرض فراہم کرنے کے لیے مذاکرات چل رہے تھے۔ اس بات کا کوئی ثبوت تو نہیں(اور اس طرح کی باتوں کا ثبوت عموماً ہوتا بھی نہیں اِلّا یہ کہ کوئی ’اسانج‘ ایسی معلومات ہیک کر کے وکی لیکس کی صورت میں شائع کر دے) لیکن اسانج کی حوالگی کے بعد آئی ایم ایف کی ایکواڈور سے کامیاب ڈیل ہو گئی۔

یوں عالمی نظام دنیا کو کنٹرول کرتا ہے!

اب اپنے بنیادی موضوع یعنی اسانج کی extradition کی جانب آتے ہیں۔ امریکہ کیوں اسانج کو extradite کروا کے امریکہ لانا چاہتا ہے اور کیوں اس پر امریکہ میں مقدمہ چلانا چاہتا ہے؟ اس لیے کہ اسانج نے امریکی حکومت و فوج کی ہزاروں دستاویزات کو ہیک (hack)کر کے شائع کیا، اور ان دستاویزات میں جو راز تھے وہ خود امریکہ، اقوامِ متحدہ اور جنیوا کنونشن کے چارٹروں کی خلاف ورزی پر مبنی حقائق تھے۔ ان دستاویزات میں ایک ویڈیو بہت مشہور ہوئی اور وہ بغداد میں امریکی فوجیوں کی عام عراقیوں کے قتلِ عام کی ویڈیو ہے، جو خود امریکیوں ہی کی ۱۲ جولائی ۲۰۰۷ء کی ریکارڈ کردہ ہے ۔

اسانج کا تعلق کسی القاعدہ سے نہیں ہے، نہ ہی وہ کوئی روسی یا چینی انٹیلی جنس کا ایجنٹ ہے جو امریکہ کو بدنام کرنا چاہتا ہے، بلکہ وہ جمہوریت، آزادی، سول رائٹس جیسے حقوق کا علمبردار اور ان کے رائج کیے جانے کے لیے کوشش کرنے والا ایک انسانی حقوق کا کارکن اور آزادیٔ اظہار پر یقین رکھنے والا صحافی ہے۔لیکن حقوقِ انسانی اور اس کا چیمپئن امریکہ اسانج کا دشمن اس لیے ہے کہ اسانج نے اسی امریکہ اور اس کے عالمی نظام کی ایک بہت چھوٹی سی جھلک دنیا کو دکھائی ہے، اور حق وہ ہے جسے امریکہ حق کہے باقی سب باطل!

اسانج کو جواتنے عرصے تک برطانیہ کے ’عادلانہ‘ و ’فلاحی‘ نظام نے extradite نہیں کیا تھا تو اس کا سبب یہ تھا کہ اس کے وکلا کا کہنا یہ تھا کہ اسانج کی دماغی حالت ایسی نہیں کہ اسے امریکہ بھیجا جائے جہاں اس پر ’غداری‘ کا مقدمہ چلے گا اور نتیجتاً ایک سو پچھتر (۱۷۵) سال کی حبسِ انفرادی کی سزا (solitary confinement)اس کو سنائی جا سکتی ہے اور اس سزا کے دوران وہ خودکشی کا اقدام قانونی یا حکومتی جبر کے نتیجے میں کر سکتا ہے۔ اور اب جو دنیا کی مثالی ریاستوں میں سے ایک ریاست کے نظامِ عدل نے اسانج کو extradite کرنے پر رضا مندی کا اظہار کیا ہے تو وہ اس سبب سے ہے کہ امریکہ نے کہا ہے کہ اسانج کو humanely treat یعنی انسانی سلوک کیا جائے گا۔ جب سوال اٹھایا گیا کہ ’اگر برطانوی نظامِ عدل اس کو extradite کرنے کا امریکی مطالبہ پورا کرتا ہے اور امریکی عدالتیں اور انتظامیہ اس کے ساتھ humane سلوک ہی جو کرنا چاہتی ہیں تو کیا یہ آزادیٔ صحافت کے خلاف نہیں؟ اسانج تو ایک صحافی ہے جس نے بعض اخباری سٹوریز شائع کی ہیں؟‘۔ تو جواباً کہا گیا کہ ’(یہ آزادیٔ صحافت نہیں ہے)اسانج نے ڈیٹا چوری کیا ہے اور ثانیاً اس کو نشر کیا ہے!‘۔

اس بات سے چند مزید پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں:

  1. یعنی امریکہ اور اس کے خفیہ ادارے این ایس اے اور سی آئی اے اور امریکی کی سربراہی میں قائم فائیو آئیز جو دنیا جہان کے لوگوں کی خفیہ نگرانی کرتی ہیں بلکہ ابھی جب اسانج ایکواڈور کے سفارت خانے میں تھا تو سپین کی انٹیلی جنس ایجنسی نے امریکہ کی خاطر ایکواڈور کے سفارت خانے کے احاطے میں اسانج کی جاسوسی کرنے کے لیے مائیک اور کیمرے نصب کیے جن سے بنائی گئی ویڈیوز اور تصاویر بعداً منظرِ عام پر بھی لیک ہو کر آئیں۔ بلکہ جاسوسی کے لیے باتھ رومز میں بھی مائیک اور کیمرے نصب کیے گئے۔ امریکی ادارے این ایس اے نے اپنی ہی اتحادی جرمن چانسلر اینجلا مرکل کا سمارٹ فون ہیک کیا۔ اور یہ جو سب چیزیں نشر ہوئیں اور جو پہلے جاسوسی اور ڈیٹا کی چوریاں صرف انہیں کیسز میں کی گئیں وہ جرم نہیں، لیکن اسانج اگر امریکہ کی چنگیزیت اور بغداد میں قتل ہوتے معصوم بچوں کی ویڈو نشر کرے تو وہ مجرم؟

  2. ایک اور پہلو یہ ہے کہ امریکہ نے کہا ہے کہ وہ اسانج کو humanely treat کرے گا اور اسی پر برطانوی ججوں نے اسانج کو extradite کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ تو گویا امریکہ اسی بات سے یہ بھی تسلیم کر رہا ہے کہ وہ لوگوں کو inhumanely بھی treat کرتا ہے۔

  3. برطانوی جج کے عدالتی تبصرے سے معلوم ہوا کہ آزادیٔ اظہار و صحافت کی حدود ہیں۔ لیکن یہ کیا، کہ ان حدود کا تعلق اسی نظام کی بقا سے ہے؟جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے تو باقی دنیا چھوڑیے برطانیہ ہی سلمان رشدی کو رکھ لیتا ہے، اس کو اپنی شہریت دیتا ہے اور پھر ملکۂ برطانیہ اس کو ’سر‘ کا خطاب بھی دیتی ہے؟!

  4. یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ چونکہ اسانج جمہوریت اور انسانی حقوق کی بات مغربی معیارات پر ہی کرتا ہے تو اس کو یہ حق حاصل ہے کہ عدلیہ اس کے بارے میں فیصلے کرتے سوچتی ہے، حکومتیں اور نظام ’ہیومین‘ سلوک کو روا جانتے ہیں اور ساری دنیا کا میڈیا اور انسانی حقوق کے ادارے اس پر بات کرنا روا بلکہ اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں، لیکن دنیا میں ایک قیدی عافیہ صدیقی بھی ہے جس کو برہنہ کیا جاتا ہے، جسے امریکی انتظامیہ اور فوج کے اہلکار ریپ کرتے ہیں، اس لاغر اور نیم مردہ عورت پر جو شاید کھانا کھانے کے لیے اپنا ہاتھ بھی مشکل سے منہ تک لے جاتی ہے پر امریکی ایف بی آئی کے اہلکاروں کو قتل کرنے کی کوشش کے جرم میں پانچ کلو کی رائفل پہلے امریکی مسٹنڈے فوجیوں سے چھیننے اور پھر چھین کر ان پر حملہ کرنے کا جرم ڈال دیا جاتا ہے، پھر چھیاسی (۸۶) سال کی قید سنا دی جاتی ہے،لیکن ستم ظریفی ہے کہ یہاں نہ کوئی جج ہیں، نہ humane سلوک کے دعوے دار انتظامیہ و حکومت، نہ ہیومن رائٹس کے ادارے اور نہ ہی میڈیا؟!

صنفِ آہن در کاکُول و زنانِ شجاع در کابل و مزار


آئی ایس پی آر نے ایک ڈرامہ سیریل لانچ کر رکھا ہے ’صنفِ آہن‘ کے نام سے۔ بی بی سی کے مطابق یہ سات لڑکیوں کی کہانی ہے جو مختلف پسِ منظر سے تعلق رکھتی ہیں اور فوج میں شامل ہوتی ہیں۔ شاید ان کو صنفِ آہن اس لیے کہہ رہے ہیں کہ یہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کی سختیاں جھیلتی ہیں اور کمیشنڈ آفیسر بنتی ہیں۔

امریکہ اور اس کے ٹوڈیوں نے ایک اور ڈرامہ بھی شروع کر رکھا ہے لیکن یہ محض ٹی وی سکرینوں پر نہیں ہے سڑکوں پر بھی اس کا مظاہر ہ ہو رہا ہے۔ کابل اور مزارشریف کی سڑکوں پر کچھ مغرب پرست، حیا باختہ، غیرت سوختہ عورتیں ہر دوسرے دن نکلتی ہیں اور کہتی ہیں ’نان، کار، آزادی‘، نان یعنی روٹی، کار یعنی کام (گاڑی کا مطالبہ ابھی نہیں کر رہیں) آزادی یعنی مادر پدر آزادی۔ ان عورتوں کے لیے میڈیا اور سوشل میڈیا یہ عنوان درج کرتا ہے ’زنانِ شجاع در کابل‘ اور ’زنانِ شجاع در مزار‘ یعنی کابل و مزار شریف میں بہادر عورتیں۔

سوچ رہا ہوں، صنفِ آہن کون ہیں اور زنانِ شجاع کون؟

مسعود جنجوعہ کی اہلیہ ذہن میں آرہی ہیں۔ فیصل فراز کی والدہ، نوید بٹ کی اہلیہ، مدثر نارو کی ماں اور بچہ کہ جوان بیوی تو انتظار کرتے کرتے پہلے ہی دم توڑ گئی۔ جن چند عورتوں کے نام لکھے ہیں یہ تو چند ہی ہیں، ورنہ سرکاری اور بلا اختلاف اعداد و شمار جو لاپتہ افراد کے کمیشن نے جاری کیے ہیں وہ ڈھائی ہزار ہیں اور نواز شریف کے قریبی ساتھی مصدق ملک نے چند سال پہلے یہ تعداد پچاس گنا بتائی تھی ۔ یعنی کم از کم ڈھائی ہزار عورتیں بیوہ نہیں ہیں بیوہ سے بدتر ہیں(حقیقی تعداد لاکھ سے اوپر ہے)۔ ان عورتوں نے پچھلے پندرہ سولہ سال میں سڑکوں پر لاٹھیاں کھائی ہیں، آنسو گیس بغیر ماسک کے سہی ہے، اب تک سیکڑوں میل پیدل ریلیاں نکال چکی ہیں، سورج میں انہوں نے دھرنے دیے ہیں، سخت سردی میں بھی آج سے ٹھیک دس سال پہلے اسلام آباد میں انہوں نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے دو ماہ تک دھرنا دیا تھا۔ نفسیاتی طور پر بھی درجنوں امتحان انہوں نے پاس کیے ہیں، دماغ و نفسیات کے قوی ہونے کی اور کیا دلیل ہو گی کہ دس دس پندرہ پندرہ سال ہو گئے ان کے مَردوں کو لاپتہ ہوئے لیکن اب تک ان کا دماغ درست ہے، ان کو PTSD نہیں ہوا۔

تو صنفِ آہن کون ہیں؟ وہ سات یا زیادہ سے زیادہ سات صفر: ستّر(۷۰)جو پی ایم اے سے ’باقاعدہ‘ سال دو سال میں پاس ہورہی ہیں یا وہ ڈھائی لاکھ جو پی ایم اے سے پاس آؤٹ ہونے والوں کے ہاتھوں ’بے قاعدہ‘ سخت ترین جسمانی و نفسیاتی ٹریننگ سے پندرہ سال سے گزر رہی ہیں۔ ہاں بس پی ایم اے میں گورکھا پوزیشن بھی بنواتے ہیں، ان بے چاریوں نے بس یہی نہیں کیا!

پی ایم اے صنفِ آہن واقعی بناتا ہے!

پھر زنانِ شجاع ، بے حجاب ہو کر یہ پتلونیں اور جینز پہننے والیاں ہیں یا بیس سال میں افغانستان میں امریکیوں اور انہیں ’زنانِ شجاع‘ کے مردوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے ایک لاکھ سینتالیس ہزار مردوں اور بچوں کی بیویاں اور مائیں جنہوں نے سب غم سہے، لیکن اپنے ہر نئے پیدا ہونے والے بچے اور جس نئے مرد سے ایک بار بیو ہ ہونے کے بعد انہوں نے شادی کی تو اس کو بھی امریکیوں سے نمٹنے کو کہا اور گھر سے بنا آنسو بہائے ، گولیوں اور بارود سے بھرے جعبے ان کی کمر سے باندھ کر ان کو روانہ کیا؟

کوئی حسرؔت موہانی ہوتے تو اس طرح کے سیکڑوں شعر کہنے پر آج بھی مجبور ہوتے:

خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے1

سعودی عرب میں ہراسانی کے بڑھتے واقعات


(جنسی) ہراسانی کے واقعات کے اعداد و شمار نکالیں تو یو این ویمن، ورلڈ پاپولیشن ریویو اور سی این این ہیلتھ کی رپورٹوں سے اندازہ ہو گا کہ اس قسم کی ہراسانی میں دنیا کے ’ٹاپ‘ ممالک کون سے ہیں؟ یہ سب کے سب یا تو مغربی ممالک ہیں یا کفار کی غالب اکثریت والے ممالک یا مسلمان آبادیوں والے وہ ممالک جہاں مغربیت اور ہوس و شہوت پرستی وہاں کی حکومتوں اور مادر پدر آزاد میڈیاکے سبب اپنے عروج پر ہے، بدقسمتی سے مصر اور بنگلہ دیش۔ سعودی عرب کے اعداد و شمار نکالیں تو سعودی عرب کی ایک تہائی عورتیں ’تشدد‘ کا شکار ہیں، لیکن اولاً مذکور تین اداروں کے مطابق بھی وہاں (اس لفظ کے استعمال پر معذرت کے ساتھ) ’جنسی‘ ہراسانی کے اعداد و شمار تاحال باقاعدہ ریکارڈ شدہ نہیں ہیں اور جسے ’ڈومیسٹک وائلنس‘ کہا جاتا ہے تو وہ بھی وہ ہے جسے فالعیاذ باللہ میریٹل ریپ سے تعبیر کیا جاتا ہے [جس کے متعلق ’ماشاء اللہ‘ (انا للہ وانا الیہ راجعون) پاکستان میں آج کل ایک ڈرامہ بھی چل رہا ہے]یا (تادیب یا ظلم پر مبنی) خواتین کی مارپیٹ[ذہن میں واضح رکھیے کہ عورتوں کی مار پیٹ کا تعلق عربوں، عجمیوں یا اس کام میں زیادہ معروف پختونوں کی ’روایات‘ سے ہو سکتا ہے، اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور یہ فی الحال موقع بھی نہیں اور ہمارا موضوع بھی نہیں۔ ہاں جب میں نے پختونوں کا ذکر کر دیا ہے تو یہ ذکر بھی لازمی ہے کہ آج دنیا میں حقیقتاً اور واقعتاً عورتوں کو سب سے زیادہ حقوق دینے والے ملک و معاشرے (افغانستان) کی غالب اکثریت پختونوں ہی کی ہے اور عورتوں کو ان کے شرعی و انسانی حقوق دینے میں ان میں بھی سب سے بڑا نام ہبۃ اللہ اخندزادہ کا ہے جو پختونوں کے اصل مرکز ’قندھار‘ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان سب لوگوں کا امتیاز پختون ہونا نہیں بندۂ خدا و مسلمان ہونا ہے!]۔

لیکن پچھلے ڈیڑھ دو ماہ سے سعودی عرب میں اس مخصوص ہراسانی کے واقعات بھی رپورٹ کیے جا رہے ہیں۔ یاد آیا کہ عورتوں کے بے حجاب ہو کر یعنی خوب سرخی پاؤڈر مل کر گاڑی چلانے کی مہم چلانے والی ایک سعودی عورت کو بھی ایک حیوان نما مرد نے چند سال پہلے ایک ویڈیو میں اعلانیہ کہا تھا کہ تم مجھے مل جاؤ تو میں تمہیں (مخصوص)ہراس کروں گا۔ اس واقعے سے اب تک کہ جب سعودی عرب کے شہر ریاض میں ایک میوزیکل کانسرٹ اس سبب ملتوی کیا گیا ہے کہ وہاں بعض عورتوں کو (مخصوص) ہراس کیا گیا تھایا کیے جانے کا اندیشہ تھا،تو یہ سب واقعات کیوں شروع ہوئے ہیں؟

جس قدر عورت کو جنسِ بازار بنایا گیا ہے، جس قدر اس کے کپڑے اس سے چھینے گئے ہیں، جس قدر اس کی حیا پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے، جس قدر اس کو پروپیگنڈے کے زور سے کہا گیا ہے کہ تم جس قدر باہر نکلو اور جس قدر کم کپڑوں میں، عریاں انداز و زبان کے ساتھ بات کرو؍ فلرٹ کرو، اسی قدر یہ سب بڑھا ہے۔ جہاں ’عریانی ستر بن جاتا ہے‘ جس طرح جانوروں میں ستر ہوتا ہے تو اسی قدر جس نر کا جہاں زور آئے وہ اسی قدر کسی بھی مادہ سے منہ مار لیتا ہے (حالانکہ جانوروں پر تحقیق کرنے والے اس بات سے اتفاق نہیں رکھتے، بلکہ یہ بات سراسر غلط اور ظلم ہے سوائے خنزیر کے لیے، اب مغربی ہوس پرستی پر خنزیر احتجاج نہ شروع کر دیں!)۔

نیوٹن کا تیسرا قانون ہے غالباً، ہر عمل کا مساوی و متضاد ردِ عمل ہوتا ہے۔ سچے خدا کے سچے پیغمبرؐ کا قانونِ شریعت نہیں مانتے جس کو بعض لوگ فزکس وزکس سے جوڑ کر نعوذباللہ پیغمبر کہتے ہیں اسی کے سائنسی قانون سے کوئی بات حاصل کر لو۔ بھوکے کے سامنے خشک نانِ جو لاؤ گے تو بھی وہ کھائے گا، بھوکے مرد کے سامنے بے حجاب عورت لاؤ گے تو وہ بھی کھائے گا اور اولاً مذکور اداروں کے مطابق تو مجموعی طور پر ہراسانی کا شکار ہونے والوں میں بائیس فیصد تعداد مردوں کی ہے جن میں اکثر کو عورتیں ہراساں کرتی ہیں، یہ بھی جدید نظام کے سبب بھوکیاں ہوتی ہوں گی! فاعتبروا!!!

صوبہ خیبر پختون خوا میں بلدیاتی انتخابات


صوبہ خیبر پختون خوا میں بلدیاتی انتخابات کے ذریعے جو دینی سیاسی جماعت کو کامیابی ملی ہے تو اس پر دلی تمنا ہے کہ وہ اس کے بَل پر :

  • ملک میں اپنا اثر ورسوخ بڑھا کر غلبۂ اسلام کو اپنا ہدف بنائیں ؛

  • لوگوں کو شریعت کے نفاذ کے لیے تیار کریں ؛

  • اور اسلام وشریعت کے مخالفین کی نشاندہی عوام کو کروائیں۔

ماضی میں نہایت قابلِ احترام چند علمائے کرام نے اگر جمہوریت و انتخابات میں شمولیت کا جواز دیا اور خود بھی اگر شرکت کی تو ان کا مطمحِ نظر اس جمہوریت و انتخابات کو وقتی طور ایک آلے کے طور پر استعمال کرنا تھا، ان کا ہدف کبھی ایک لمحے کے لیے بھی جمہور کی حاکمیت اور نظامِ جمہوریت کا بقا نہ تھا کہ یہ نظریات و اہداف مغربی ہیں اسلامی نہیں۔

اللہ پاک رہنمائی فرمائیں کہ حالیہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے حضرات بھی جمہوریت کی مضبوطی کو اپنا ہدف قرار نہ دیں اور نہ ہی محض عوامی ترقی کو اپنا منشور، کہ یہ کام غیر دینی جمہوری جماعتیں بھی کر رہی ہیں۔ خدانخواستہ اگر دینی سیاسی جماعتیں بھی جمہوریت کی مضبوطی اور محض عوامی ترقی کو اپنا منشور بنائیں گی تو دینی و غیر جماعتوں میں کیا فرق رہ جائے گا؟

’پولیس کو یہ اختیار کون دیتا ہے کہ وہ عورتوں کو بھرے بازار میں مارے؟ ‘ بی بی سی


کوئٹہ کے کسی واقعے سے متعلق بی بی سی اردو کی ایک سٹوری ہے اور سوالیہ عنوان اوپر آپ نے پڑھ لیا ہے۔

جواب یہ ہے کہ سادی جی گَل اے، عورت کو مردوں کی طرح مساوی حقوق حاصل ہیں۔ مرد کا جسم اس کی مرضی اور عورت کا جسم اس کی مرضی۔ تو جس پولیس کو جس کسی نے مردوں کو بھرے بازار میں مارنے کا اختیار دیا ہے اسی نے عورتوں کو بھی مارنے کا اختیار دیا ہے!

ترکی اور صلیبی جنگ

طیب اردگان نے ایک خواب دیکھا، ملاحظہ ہو:

’’میں نے مسجد اقصیٰ کو خواب میں دیکھا۔ ایک بچے کی صورت میں آئی اور رو رہی تھی۔ مجھ سے کہنے لگی کہ مسلمانوں کو میرا سلام پہنچاؤ۔ ان سے کہنا کہ میں یہ فراق برداشت نہیں کر سکتی۔ اسلام کو مجھے اپنے آغوش میں لینے دو اور گلے لگنے دو۔‘‘

یہ خواب تھا، اب حقیقت دیکھیے۔

مجاہدینِ صومالیہ نے پچھلے دو سال سے اقصیٰ کو چھڑانے کے لیے ایک خصوصی مہم کا آغاز کر رکھا ہے۔ مجاہدینِ اہلِ عزم و ہمت نے اپنی اس مہم کا نام ’الْقُدْسُ لَنْ تُھَوَّدْ‘ رکھا ہے یعنی (مر جائیں گے لیکن )القدس کو کبھی یہود کا مرکز نہ بننے دیں گے۔ یہ مجاہدین بھی اور یمن تا برِّ صغیر کے مجاہدین بھی اپنے ہر قول و بیان کے بعد کہتے ہیں ’قادمون یا أقصیٰ!‘ اے اقصیٰ ہم تجھے پنجۂ یہود سے چھڑانے آ رہے ہیں۔ بلکہ وہ واقعہ بھی یہاں درج کردوں کہ پاکستان میں آئی ایس آئی کے ایک عقوبت خانے میں کسی مجاہد نے عقوبت خانے کی دیورا پر کھرچ کر لکھا تھا’قادمون یا أقصیٰ!‘ اور اسی عبارت کے نیچے ایک اور مجاہد نے لکھا تھا ’نحن رجال القاعدۃ‘، ہم القاعدہ سے وابستہ جواں مرد ہیں! یہاں ملا عمر اور اسامہ بن لادن کا ذکر نہیں کرتا، امت کا ہر مجاہد ہی صبح و شام اقصیٰ کی جانب فکر و عمل میں بڑھ رہا ہے۔ لیکن مجاہدینِ صومالیہ نے اس اقصیٰ کو چھڑانے کے لیے عملی مہم شروع کر رکھی ہے اور اب تک سیکڑوں سے زائد صلیبی صہیونی کافروں اور ان کے غلاموں کو جو یہود کی پہرہ داری کر رہے تھے قتل کر چکے ہیں اور یہ مہم دنیا کے ہر مجاہد کے دل کی آواز اور عمل کا سراپا ہے۔

اب مجاہدینِ صومالیہ کی بڑھتی پیش قدمی کو روکنے کے لیے پورا عالَمِ صلیب وصہیون حرکت میں ہے۔

 ترکی نے براہِ راست خود مجاہدینِ صومالیہ کے تعاقب کی غرض سے ماہِ جنوری ۲۰۲۲ءکے شروع میں اپنے ڈرون طیارے کی تجرباتی پرواز شروع کی ہے۔ جبکہ خبررساں ادارے ’Hiraan‘ کے مطابق دسمبر ۲۰۲۱ء کے شروع میں امریکی نواز و وفادار صومالی فوج کو ترکی نے اپنے ڈرون طیاروں کا پورا دستہ فراہم کیا تھا جو اس وقت صومالیہ کی فضاؤں میں اڑ رہا ہے۔

خواب کی تصویر پر یقین کیجیے یا حقیقت کی تصویر دیکھیے اور وہ انگریزی ضرب المثل یاد رکھیے کہ ’A picture speaks a thousand words!‘، ایک تصویر کی تاثیر ہزاروں الفاظ پر بھاری ہوتی ہے۔

کہا تو اقبالؒ نے مصطفیٰ کمال اتاترک کے بارے میں تھا، لیکن اب سوچیے کہ یہ کام کون کر رہا ہے:

چاک کر دی تُرکِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ2

٭٭٭٭٭


1 ویسے اگر حسرت موہانی مرحوم زندہ ہوتے تو وہ بھی لاپتہ ہوتے کہ ’تحریکِ ریشمی رومال‘ کے نامزد مجرموں میں انگریزی خفیہ اداروں نے ان کا نام بھی رپورٹوں میں درج کیا ہے۔ اور انہوں نے انگریزوں کی جیل بھی کاٹی تھی۔

2 نجانے یہاں ’سادہ‘ کون ہے، ’مسلم‘ کون، ’اور‘ کون اور ’عیار‘ کون؟

Previous Post

مدینہ مسجد

Next Post

دگرگوں ہے جہاں……

Related Posts

علاجے نیست
عالمی منظر نامہ

علاجے نیست

17 اگست 2025
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے!
عالمی منظر نامہ

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے!

17 اگست 2025
اخباری کالموں کا جائزہ | اگست ۲۰۲۵ء
عالمی منظر نامہ

اخباری کالموں کا جائزہ | اگست ۲۰۲۵ء

16 اگست 2025
خیالات کا ماہنامچہ | جولائی ۲۰۲۵ء
عالمی منظر نامہ

خیالات کا ماہنامچہ | اگست ۲۰۲۵ء

14 اگست 2025
اسرائیل اور امریکہ میں شیطان پرستی اور بچوں کا قتل
عالمی منظر نامہ

اسرائیل اور امریکہ میں شیطان پرستی اور بچوں کا قتل

14 جولائی 2025
اخباری کالموں کا جائزہ | جولائی ۲۰۲۵ء
عالمی منظر نامہ

اخباری کالموں کا جائزہ | جولائی ۲۰۲۵ء

13 جولائی 2025
Next Post

دگرگوں ہے جہاں……

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version