احبابِ کرام نے اس سال بھی صحابہ کی مدحت کرتے ایک ہفتہ سوشل میڈیا پر منایا۔ جن کی تعریف اللہ اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کی، ان کی تعریف بیان کرنا اور ذکر سعادت ہے اور ایں سعادت بزورِ بازو نیست! وما توفیقي إلا باللہ!
انہیؓ کے واسطے اور فیض سے، انہی کی محنت اور طریق سے دین ہم تک پہنچا ہے۔ کیسی خوش بختی ہے کہ پیدا ہوئے تو ماں باپ نے دو نام رکھے، اور دونوں صحابہ کے ناموں پر۔ ایک نام اہلِ بیت میں سے ایک جلیل القدر صحابی پر اور دوسرا امّی نے کہا کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت بڑے مجاہد کمانڈر تھے ان کے نام پر رکھا۔ یہ کوئی امتیاز نہیں، امت کی کروڑوں ماؤں اور کروڑوں باپوں نے اپنی اولاد کے نام ایسے ہی رکھے ہیں۔ امتیاز تو صحابہ کا ہے کہ ان کے کردار و عمل کی بلندی دیکھ کر ماں باپ اپنی اولاد کو ان بلند ناموں سے منسوب کرتے ہیں۔ ماں نے ہر رات کسی صحابی کی کہانی سنائی۔ شاید آج کے جدید دنیا میں غرق ماں باپ کے بچوں کے لیے سپر مین سے سپائڈر مین کے ’کامکس‘ تک میں اس قدر جاذبیت نہ ہوتی ہو جو ہمیں قصصِ صحابہ سے بفیضِ صحابہ بحمد اللہ حاصل ہو گئی۔ہم جماعت بچے ان دنوں ’Tekken‘ اور ’Conan the Adventurer‘کی باتیں کرتے تھے اور سکول کےپلے ایریا کے سلائڈ پر ہم دو تین بچے دوست ایک صحابہ کے قصوں کی محفل جماتے۔ یہاں نا انصافی ہو گی اگر طالب ہاشمی صاحب مرحوم کا ذکر نہ کروں، جن کی لکھی صحابہ کی سچی کہانیوں کی کتابیں مجھے ہر کھلونے اور تحفے سے زیادہ بچپن میں عزیز تھیں اور میں اپنے انگریزی تعلیمی ادارے میں اپنے جدید دوست بچوں کی کبھی ’برتھ ڈے پارٹیوں‘ میں جاتا تو بھی یہی کتابیں تحفہ دیا کرتا، یہ قیمتی ہی اتنی تھیں۔ لڑکپن کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ایک تبلیغی دوست جو شاید مجھ سے دس سال بڑے تھے، نے مولانا یوسف کاندھلوی رحمہ اللہ کی ’حیاۃ الصحابہ‘ سے آشنائی کروائی اور یہ کتاب مجھے لاکھوں دیگر نیاز مندوں کی طرح نہایت محبوب ہو گئی۔ اللہ پاک رحم فرمائے علامہ واقدی پر جن کی فتوح الشام کو میں نے بھی ہر قاری کی طرح ایسے ہی پڑھا جیسے میں ارضِ شام کے تمام معارک میں، صحابہ کے ساتھ ہی انہی کے لشکر میں کسی گھوڑے پر سوار ہوں۔ پھر مولانا فضل محمد صاحب دامت برکاتہم نے فتوح الشام کی جو تہذیب کی ہے، نیز مصرو عراق اور ایران کی فتوحات پر جو تالیفات کی ہیں وہ بھی علامہ واقدی کی محنت کا تسلسل ہیں۔
ابو ہمیں ہمارے بچپن سے وہ حدیث بطورِ شعار سناتے جس کا معنیٰ و مفہوم علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ دیگر روایات کی روشنی میں’صحیح‘ ہے: ’’أصحابي كالنجوم بأيهم اقتديتم اهتديتم‘‘، میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، جس کی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔ابو بکر و عمر، عثمان و علی رضی اللہ عنہم کی تو کیا ہی بات ہے کہ ان چاروں کا ذکر قبل از بعثتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسرائیلی روایات میں بھی ملتا ہے۔ ان کے علاوہ باقی چھ جو مبشر بالجنۃ ہیں: ابو عبیدہ ابن الجراح، عبد الرحمان بن عوف، سعد بن ابی وقاص، طلحہ بن عبید اللہ، زبیر ابن العوام اور سعید بن زید کیا ذی شان ہیں کہ ایک ایک کا نام نبی جی صلی اللہ علیہ وسلم نے لے کر فرمایا’’…… في الجنۃ!…… في الجنۃ!‘‘۔
اور کیا کہنے بلال کے کہ جن کے عشق و مستی میں زبان سے نکلا’اَحَد اَحَد‘ آج تک ان کے پیروکار گوانتانامو تا اڈیالہ و تہاڑ میں دہراتے ہیں، رضی اللہ عنہ۔ اور قربان جاؤں ابو سفیان بن حرب کے کہ جن کی ایک آنکھ غزوۂ طائف میں حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے شانہ بشانہ لڑتے شہید ہو گئی اور پھر آپؐ نے انؓ سے پوچھا کہ اگر چاہو تو میں اللہ سے دعا مانگوں اور تم کو اس دنیا میں یہ آنکھ واپس مل جائے اور چاہو تو جنت میں ایک آنکھ لے لینا اور ابو سفیان نے جنت کی آنکھ کو ترجیح دی، جو دوسری آنکھ بچی تھی وہ بھی جنگِ یرموک میں شہید ہو کرابوسفیانؓ سے پہلے جنت میں پہنچ گئی، رضی اللہ عنہ! حضرتِ ابو سفیان کی نذرشاعرِ جہاد احسن عزیز شہید کے یہ اشعار میرے پسندیدہ ترین اشعار میں سے ہیں جنہیں میں پڑھ پڑھ کر اور یاد کر کر کبھی نہیں تھکتا:
جیتا تھا بتوں کے لیے اب حق پہ فدا ہوں
تم میری محبت کا اِمالہ بھی تو دیکھو
’’احزاب‘‘ میں مطلوب تھا ’’یرموک‘‘ میں طالب
تاریک شبوں کا یہ اِزالہ بھی تو دیکھو
وہ دن بھی تھے یہ نور بجھانے کی تڑپ تھی
اب ماہِ مدینہؐ کا یہ ہالہ بھی تو دیکھو
پھر ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے بیٹے اور کاتبِ وحی حضرت امیر معاویہ کی شان کیسی بلند ہے، رضی اللہ عنہ، جسے عبداللہ ابنِ مبارکؒ نے بیان کیا:
’’ حضرت عبد اللہ ابن المبارکؒ سے سوال کیا گیا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ افضل ہیں یا حضرت عمر بن عبد العزیزؒ؟ سوال کرنے والے نے حضرت معاویہؓ اور حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا تقابل کرنا چاہا تھا، اور اس کے ذہن میں یہ رہا ہوگا کہ عمر بن عبدالعزیزؒ مقبول اور ہر نزاع سے پاک تابعی ہیں ، جب کہ حضرت معاویہ صحابی کی شخصیت متعدد نزاعات کی وجہ سے کچھ طبقات کے نزدیک نعوذ باللہ داغ دار ہے، حضرت عبد اللہ ابن المبارکؒ نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں جہاد کرتے ہوئے حضرت معاویہؓ کی ناک کے سوراخ میں داخل ہونے والا غبار بھی حضرت عمر بن عبد العزیزؒ سے افضل ہے !‘‘ (البدایۃ والنہایۃ)
قربان زید پر بھی اور ابنِ زید پر بھی کہ جن کے متعلق محبوبؐ نے فرمایا کہ مجھے اسامہ بھی محبوب اور اس کا باپ زید بھی، رضی اللہ عنہما!
حسن و حسین تو ایسے محبوب ہیں کہ جب ان میں سے کسی کو افضل الخلائق صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیٹھ پر سوار فرمایا اور کسی صحابی نے دیکھ کر کہا کہ کیسی اچھی سواری ہے ، تو میرے ماں باپ اس سواری (صلی اللہ علیہ وسلم) پر قربان، فرمایا: سوار بھی تو کیسا اچھا ہے! جب ایک ظالم نے حسین ابنِ علی کا سر کٹوا کر سامنے رکھا اور حسین رضی اللہ عنہ کے ہونٹوں پر اپنی چھڑی مارنے لگا تو ایک صحابی نے کہا کہ اللہ کی قسم میں نے ان ہونٹوں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹوں کو بوسہ لیتے دیکھا ہے! کیسے اعلیٰ نسب و نصیب والے تھے کہ نانا حضورؐ، ابا علیؓ اور ماں فاطمہ، سیّدۃ النساء اہل الجنۃ۔
آہ…… حضرتِ حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ جب چبایا گیا تو حضور کا کیا حال ہوا۔ اور جب جعفر بن ابی طالب کی شہادت کی خبر دینے حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود اسماء بنتِ عمیسؓ کے پاس گئے تو آپ کے آنسو بہتے جاتے تھے، وہ آنسو، مول جن کے جگ کے سب لعل و گہر نہ تھے، آپ نے اولادِ جعفر کو پیار کیا اور کہا کہ آج سے میں ان کے لیے مثلِ باپ ہوں۔
سیف من سیوف اللہ، خالد ابن الولید کو یاد نہ کریں، رضی اللہ عنہ۔یاسر و ابنِ یاسر عمار اور ان کی ماں سمیّہ کو نہ یاد کریں۔ ابو ایوب الانصاری، سعد بن معاذ و سعد بن عبادہ کو یاد نہ کریں۔ محمد بن مسلمہ اور ان کے ساتھی جنہوں نے ’افلحت الوجوہ…… یہ چہرے کامیاب رہیں ‘ کی بشارت پائی اور جواباً حضور کو بھی ’ووجہك یا رسول اللہ…… آپ کا چہرہ بھی کامیاب رہے‘ کہنے کی سعادت حاصل کی۔ وہ عکرمہ بن ابی جہل جن کے استقبال کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم یوں دل و جان سے اٹھے کہ حضور کے شانوں سے چادر بھی ڈھے گئی، رضی اللہ عنہ۔ وہ صہیب الرومی جنہوں نے اپنی ساری زندگی کی کمائی دے کر ایمان و اسلام کا سودا کیا اور جب ابی دحداح نے پورا باغ جنت کے ایک درخت کے بدلے بیچ دیا تو حضور نے فرمایا: ’ربح البیع…… کیسی نفع والی تجارت کی تم نے!‘ رضی اللہ عنہما۔ خبیب و خباب کو کوئی بھول سکتا ہے، ابو ذر کو کیسے بھولیں کہ جن سب نے مکے میں ماریں کھائیں، رضی اللہ عنہم اجمعین!
اور اپنی ماؤں میں سے خدیجۃ الکبریٰ طاہرہ کا ذکر نہ کروں کہ ان کی وفات کے برسوں بعد جب ان کا کوئی ہار حضورؐ کو نظر آیا تو غم سے آپ کی آنکھیں بہہ بہہ گئیں۔ عائشہ، جن کی تقدیس ربّ العالمین نے بیان کی اور حضور کو ایسی محبوب تھیں کہ پوچھنے والے نے پوچھا یا رسول اللہ لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ فرمایا ’عائشہ‘، کہا نہیں مَردوں میں، فرمایا ’أبوھا……اس کے والد!‘ اور فرمایا: ’فضل العایشۃ علی سائر النساء کفضل الثرید علی سائر الطعام…… عائشہ کو عورتوں پر ایسے فضیلت حاصل ہے جیسے کھانوں میں ثرید کو باقی کھانوں پر فضیلت!‘
اور میں قربان ان انصاریہ غامدیہ صحابیہ پر کہ جن سے گناہ ہو گیا تو خود کو سنگسار ہونے کے لیے پیش کر دیا، جب سنگسار ہوئیں تو ان کے خون کا چھینٹا کسی پر پڑا، جن پر پڑا وہ بولے کہ ناپاک ہے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر پورے مدینہ پر تقسیم کر دی جائے تو سب کے لیے کافی ہو جائے‘‘…… سوچیے مدینہ میں کون کون سی جلیل القدر ہستیاں رہا کرتی تھیں!!! رضی اللہ عنہا!
محض چند اصحاب کا ذکر یہاں آیا، پچاسیوں کا ذکر نہ ہو سکا اور ہزاروں کے نام شاید تاریخ کو بھی یاد نہیں……
مرے بھائیو ! یہ جو اسلام ہم تک آج پہنچا ہے
اسی دریائے آتش سے سفینے پار کر کر کے
اِنہی آہن کی برساتوں میں جانیں وارکر کر کے
ہمارے پاس پہنچا ہے انہی اسلاف کے ذریعے
اگر میں یہ چند سطریں آج لکھ رہا ہوں، یہ امت اگر مسلمان ہے اور ہم اگر جہاد سے منسوب اور خاتمہ بالخیر کے طالب ہیں تو یہ سب ہمیں صحابہؓ ہی کے ذریعے ملا ہے۔ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وفادار ہیں، جنہوں نے اپنی شیر خوار اولادوں کو ڈھال بنا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور انؐ کے دین کا دفاع کیا ……ہم بھی ان صحابہ کے وفادار ہیں۔ رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ!
وفا جس سے نبھاؤ گے اسی کے ساتھ جاؤ گے
یہ ہیں خوش خبریاں محبوبِؐ جاں کے ہم نشینوںؓ میں!
اللھم اجعلنا من أھل الصدق والوفاء والشھادۃ، آمین یا ربّ العالمین!
وصلی اللہ علی النبي وعلى آله وأصحابه أجمعين!
٭٭٭٭٭