نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ، اَمَّا بَعْدُ
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
حق تعالیٰ شانہٗ ارشاد فرماتے ہیں کہ جنّت ان متقین بندوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں فراغت میں بھی اور تنگی میں بھی، اور غصّے کو ضبط کرنے والے اور لوگوں کی خطاؤں کو معاف کرنے والے ہیں اوراللہ تعالیٰ ایسے نیکوں کو محبوب رکھتا ہے۔
تفسیر اَلسَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ
حَالَۃُ یُسْرٍ وَّحَالَۃُ عُسْرٍ قَالَہُ ابْنُ عَبَّاسٍ وَاَصْلُ السَّرِّ الْحَالَۃُ الَّتِیْ تَسُرُّ وَالضَّرِّ الْحَالَۃُ الَّتِیْ تَضُرُّ.
پس سرّاء ہر وہ حالت ہے جو خوش رکھے اور ضرّاء ہر وہ حالت ہے جو بوجہ ضرر غمگین رکھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قلیل وکثیر جو بھی میسّرہوتا تھا انفاق کی سعادت حاصل کرتے تھے۔ چناں چہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ایک انگور کا دانہ صدقہ کرنا بھی مروی ہے، اور بعض سلف نے ایک پیاز صدقہ کی ہے، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے’جہنم سے بچو اگرچہ کھجور کا ٹکڑا ہی ہو ‘، یعنی اس کو صدقہ کرنے سے عار نہ سمجھو اور صدقہ کرو اگرچہ ظلف مُحرق (جلا ہو اکُھر) ہو۔
غضب اور غیظ کے ضبط کرنے اور ان رذائل کی اصلاح سے قبل حق تعالیٰ شانہٗ نے انفاق کی شان بیان فرمائی۔ یہ تمام جملے اگرچہ خبر یہ ہیں لیکن قرآن ارشاد اور اصلاح کے لیے نازل ہوا ہے اس لیے ہر خبر یہ میں انشائیہ مضمر ہوتا ہے یعنی یہ شان ہر مسلمان اپنے اندر پید اکرے۔
گیارہویں پارے میں حق تعالیٰ شانہٗ نے ارشاد فرمایا:
خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَ تُزَکِّیْہِمْ بِہَا
علّامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ رُوح المعانی میں فرماتے ہیں:اس آیت سے صدقہ وخیرات کا طہارتِ انفاس وقلوب میں خاص ربط کا پایا جانا معلوم ہوتا ہے۔ چناں چہ فرماتے ہیں’اِنَّمَا ہِیَ کَفَّارَۃٌ لِّذُنُوْبِہِمْ وَتُرْفَعُ مَنَازِلُہُمْ مِنْ مَّنَازِلِ الْمُنَافِقِیْنَ اِلٰی مَنَازِلِ الْاَبْرَارِ الْمُخْلِصِیْنَ.‘
پس کظمِ غیظ سے قبل انفاق فی السرّاء والضرّاء کی آیت سے ربط معلوم ہوگیا۔
کَظْمِ غَیْظ کی لغوی تشریح
اب اصل موضوع پر عرض کیا جاتا ہے کہ علّامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ کظم کی لغوی تشریح فرماتے ہیں ’اَصْلُ الْکَظْمِ شَدُّ رَأْسِ الْقِرْبَۃِ عِنْدَ امْتِلَائِھَا.‘۔
یعنی مَشک جب پانی سے بھر جاتی ہے تو اس کا منہ بند کرنے کے لیے رسّی سے باندھتے ہیں، اسی طرح جب غصّے سے تمام بدن کی رگوں کا خون گرم ہوگیا اور غصّہ خوب بھرگیا تو اندیشہ ہے منہ سے چھلک جائے اس لیے اس کو ضبط کرنے کا نام کظم رکھا گیا۔ غیظ کے معنیٰ ناگوار بات پر طبعی ہیجان کے ہیں۔
غیظ اور غضب کا فرق
رُوح المعانی میں علّامہ آلوسی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ غیظ وغضب کا فرق یہ ہے کہ غضب کے ساتھ یقینی انتقام کا ارادہ ہوتا ہے اور غیظ کے لیے ایسا نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ غیظ وغضب دونوں لازم وملزوم ہیں۔ مگر غضب کی نسبت حق تعالیٰ کے ساتھ درست ہے اور غیظ کی نسبت نہیں۔
وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ کی تفسیر
اَلْمُتَجَرِّعِیْنَ لِلْغَیْظِ الْمُمْسِکِیْنَ عَلَیْہِ عِنْدَ امْتِلَاءِ نُفُوْسِہِمْ مِنْہُ فَلَایُنْقِمُوْنَ مِمَّنْ یُّدْخِلُ الضَّرَرَعَلَیْہِمْ وَلَا یُبْدُوْنَ لَہٗ مَا یَکْرَہُ بَلْ یَصْبِرُوْنَ عَلٰی ذٰلِکَ مَعَ قُدْرَتِہِمْ عَلَی الْاِنْفَاذِ وَالْاِنْتِقَامِ وَہٰذَا ہُوَ الْمَمْدُوْحُ.
غصّہ اور غیظ کا تلخ گھونٹ پی جاتے ہیں اور اس کو پوری طرح ضبط کرتے ہیں جس وقت کہ ان کے نفوس غیظ سے بالکل بھر جاتے ہیں، پس نہیں بدلہ لیتے اس شخص سے جوان کو نقصان پہنچاتا ہے اور نہ ظاہر کرتے ہیں اپنی تکلیف کو بلکہ وہ انتقام لینے کی قدرت رکھتے ہوئے بھی صبر کرتے ہیں اور یہی مقام قابلِ مدح ہے۔
غصہ اور غضب اور غیظ کو ضبط کرنے پر
انعامات اوربشارتیں احادیثِ نبوی کی روشنی میں
علّامہ آلوسی رحمۃاللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں اس مقام پر چند حدیثوں کی روایات نقل فرمائی ہیں:
حدیث نمبر۱
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ مَرْفُوْعًا مَنْ کَظَمَ غَیْظًا وَہُوَ یَقْدِرُ عَلٰی اِنْفَاذِہٖ مَلَأَ اللہُ تَعَالٰی قَلْبَہٗ اَمْنًا وَّاِیْمَانًا.
جو شخص غصّے کو پی جائے اور وہ غصّے کو نافذ کرنے کی یعنی بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہو تو حق تعالیٰ شانہٗ اس کے قلب کو امن اور ایمان سے بھردیں گے۔
حدیث نمبر۲
عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ کَظَمَ غَیْظًا وَّہُوَ قَادِرٌ عَلٰی اَنْ یُّنْفِذَہٗ دَعَاہُ اللہُ تَعَالٰی عَلٰی رُؤُ وْسِ الْخَلَا ئِقِ حَتّٰی یُخَیِّرَہُ اللہُ تَعَالٰی مِنْ اَیِّ الْحُوْرِ شَاءَ.
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے غصّے کو ضبط کرلیا باوجود بدلہ لینے کی طاقت کے، اللہ تعالیٰ میدانِ محشر میں تمام مخلوق کے سامنے اعلان فرمائیں گے کہ تم جس حور کو چاہو پسند کرلو۔
حدیث نمبر۳
اَخْرَجَ ابْنُ جَرِیْرٍ عَنِ الْحَسَنِ اَنَّ اللہَ تَعَالٰی یَقُوْلُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لِیَقُمْ مَنْ کَانَ لَہٗ عَلَی اللہِ اَجْرٌ فَلَا یَقُوْمُ اِلَّا اِنْسَانٌ عَفَا.
اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اعلان فرمائیں گے: وہ شخص کھڑا ہوجائے جس کا اللہ تعالیٰ کے ذمہ کوئی اجر ہو پس نہیں کھڑا ہوگا مگر وہ شخص جس نے کسی کو معاف کیا ہوگا۔
حدیث نمبر۴
وَاَخْرَجَ الطَّبْرَانِیُّ عَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ سَرَّہٗ اَنْ یُّشْرَفَ لَہُ الْبُنْیَانُ وَتُرْفَعَ لَہُ الدَّرَجَاتُ فَلْیَعْفُ عَمَّنْ ظَلَمَہٗ وَیُعْطِ مَنْ حَرَمَہٗ وَیَصِلْ مَنْ قَطَعَہٗ.
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو یہ بات خوش کرے کہ اس کے لیے بلند مکان ہو جنّت میں اور اس کے درجات بلند ہوں پس اُس کو چاہیے کہ معاف کرے اُس کو جو اس پر ظلم کرے اور عطا کرے اس کو جو اس کو محروم کرے اور صلہ رحمی کرے اس سے جو اُس سے قطع رحمی کرے۔
چناں چہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کمالِ حسن موقع عفو سیّد الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ ہے حَتّٰی قَالَ حِیْنَ رَاٰہُ قَدْ مُثِّلَ بِہٖ لَاُمَثِّلَنَّ بِسَبْعِیْنَ مَکَانَکَ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا شہید کو دیکھ کر فرمایا کہ آپ کے بدلے میں سترکافروں کے ساتھ یہی معاملہ کروں گا۔ لیکن جب آیت نازل ہوئی کہ آپ بدلہ اتنا ہی لے سکتے ہیں جتناکہ ظلم ہوا ہے فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ اور اگر آپ صبر کریں تو یہ آپ کے لیے خیر ہے۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی خیر کو اختیار فرمایا اور قسم کا کفارہ ادا فرمایا۔
حکایت
مَا اَخْرَجَہُ الْبَیْہَقِیُّ اَنَّ جَارِیَۃً لِعَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہ جَعَلَتْ تَسْکُبُ عَلَیْہِ الْمَاءَ لِیَتَہَیَّأَ لِلصَّلٰوۃِ فَسَقَطَ الْاِبْرِیْقُ مِنْ یَّدِھَا فَشَجَّہٗ فَرَفَعَ رَأْسَہٗ اِلَیْہَا فَقَالَتْ:اِنَّ اللہَ تَعَالٰی یَقُوْلُ:وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ، فَقَالَ لَہَا: قَدْ کَظَمْتُ غَیْظِیْ، قَالَتْ: وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ، قَالَ: قَدَ عَفَا اللہُ تَعَالٰی عَنْکِ، قَالَتْ: وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ،قَالَ اِذْہَبِیْ فَاَنْتِ حُرَّۃٌ لِوَجْہِ اللہِ.
علّامہ آلوسی رحمہ اللہتعالیٰ فرماتے ہیں: احسان سے مراد بِاَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ حدیث شریف میں احسان کی تعریف یہی ہے کہ اس طرح عبادت کرو گویا تم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو کیوں کہ اگر تم نہیں دیکھتے ہو تو حق تعالیٰ تو تمہیں دیکھ رہے ہیں۔ پس گویا کہ تم بھی دیکھ رہے ہو۔ یہ ترجمہ حضرت گنگوہی رحمۃاللہ علیہ کا ارشاد فرمودہ ہے جیساکہ احقر نے اپنے شیخ حضرت پھولپوری رحمۃاللہ علیہ سے سُنا ہے، یعنی فاء کو تعلیلیہ فرمایا ہے۔
روایتِ مذکورہ کا ترجمہ یہ ہے کہ حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ کو ان کی جاریہ (باندی) وضو کرارہی تھی کہ لوٹا ان کے اوپر گرگیا اور وہ زخمی ہوگئے اور غصّےسے حضرت نے سر اٹھایا تو اس جاریہ نے پڑھا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’اور وہ لوگ غصّے کو پی جاتے ہیں‘۔ آپ نے فرمایا: ’میں نے اپنا غصّہ پی لیا‘۔ پھر پڑھا:’اور وہ لوگ لوگوں کی خطاؤں کو معاف کردیتے ہیں‘۔فرمایا :’اللہ تعالیٰ تجھے معاف فرماویں‘۔ پھر پڑھا: ’اور اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو محبوب رکھتے ہیں‘۔ فرمایا: ’جا تجھے آزاد کردیا اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے‘ ۔
حکایت
حضرت صدیقِ اکبررضی اللہ عنہ اپنے بھانجے یا خالہ زاد بھائی حضرت مِسطح رضی اللہ عنہ سے جو جنگِ بدر لڑنے کے سبب بدری صحابی کہلاتے تھے ناراض ہوگئے تھے جس کی وجہ واقعۂ افک ہے اور صدیقِ اکبررضی اللہ عنہ نے حلف اٹھایا کہ میں ان پر اب کچھ خرچ نہ کروں گا یعنی تعاونِ مالیہ سے احتراز پر قسم کھالی جیساکہ روح المعانی میں حضرت آلوسی رحمۃ اللہ علیہ ج: ۱۸،ص: ۱۲۵ پر تحریر فرماتے ہیں:
اِنَّ اَبَابَکْرٍ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حَلَفَ لَمَّا رَأٰی بَرَائَۃَ ابْنَتِہٖ اَنْ لَّایُنْفِقَ عَلٰی مِسْطَحٍ شَیْئًا اَبَدًا وَّکَانَ مِنْ فُقَرَاءِ الْمُہَاجِرِیْنَ الْاَوَّلِیْنَ الَّذِیْنَ شَہِدُوْا بَدْرًا وَّکَانَ بْنُ خَالَتِہٖ وَقِیْلَ ابْنُ اخْتِہٖ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فَنَزَلَتْ: وَلَایَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَ السَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْۤا اُولِی الْقُرْبٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ الْمُہٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللہُ لَکُمْ وَ اللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کو حق تعالیٰ شانہٗ نے تنبیہ فرمائی کہ اے صدیق! آپ ان کو معاف کردیں۔ کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ تم ہمارے بندے کو معاف کردو اور اس کے عوض میں ہم تمہاری خطاؤں کو روزِ محشر معاف کردیں اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللہُ لَکُمْ اَیْ بِمُقَابَلَۃِ عَفْوِکُمْ وَاِحْسَانِکُمْ اِلٰی مَنْ اَسَاءَ اِلَیْکُمْ۔
یعنی جس نے تمہارے ساتھ معاملۂ ایذا رسانی اور حقوق تلفی کی تم اس کے ساتھ عفو ودرگزر اور احسان کرو تو اس کے مقابلے میں ہم تم کو یہ انعام دیں گے کہ ہم تمہاری خطاؤں کو معاف کردیں گے۔
وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ اَیْ مُبَالِغٌ فِی الْمَغْفِرَۃِ وَالرَّحْمَۃِ مَعَ کَمَالِ قُدْرَتِہٖ سُبْحَانَہٗ عَلَی الْمُؤَاخَذَۃِ وَکَثْرَۃِ ذُنُوْبِ الْعِبَادِ الدَّاعِیَۃِ اِلَیْہَا.
یعنی اللہ تعالیٰ کی مغفرت ورحمت نہایت وسیع ہے باوجودیکہ ان کو مواخذہ پر کمالِ قدرت ہے اور باوجود کثرت معاصیٔ عباد کے جو سبب ہیں مواخذہ اور عذاب و عقوبت کے۔
وَفِیْہِ تَرْغِیْبٌ عَظِیْمٌ فِی الْعَفْوِ وَ وَعْدٌ کَرِیْمٌ بِمُقَابَلَتِہٖ کَأَنَّہٗ قِیْلَ اَلَاتُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللہُ لَکُمْ فَہٰذَا مِنْ مُّوْجِبَاتِہٖ.
اس میں ترغیبِ عظیم ہے کہ انسان دوسروں کی خطاؤں کو معاف کر کے حشر کے دن اپنی معافی کا سامان کرلے۔ چناں چہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے حلف اٹھایا اور فرمایا: خدا کی قسم! ہم محبوب رکھتے ہیں کہ ہماری مغفرت حق تعالیٰ فرمادیں اور آپ نے حضرت مسطح رضی اللہ عنہ پر احسان اور انفاق پھر جاری فرمادیا بلکہ پہلے سے دُونا احسان شروع کردیا۔
وَفِی الرُّوْحِ اَنَّ اَبَابَکْرٍ لَمَّا سَمِعَ الْاٰیَۃَ قَالَ بَلٰی وَاللہِ یَا رَبَّنَا اِنَّا لَنُحِبُّ اَنْ تَغْفِرَلَنَا وَاَعَادَ لَہٗ نَفَقَتَہٗ، وَفِیْ رِوَایَۃٍ اَنَّہٗ صَارَ یُعْطِیْہِ ضِعْفَیْ مَاکَانَ یُعْطِیْہِ اَوَّلًا.
حضرت آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس آیت سے حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی بہت بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ نے ان کو اولی الفضل میں یقیناً داخل فرمایا: لِأَنَّہٗ دَاخِلٌ فِیْ اُولِی الْفَضْلِ قَطْعًا وَحْدَہٗ اَوْمَعَ جَمَاعَۃِ سَبَبِ النُّزُوْلِ وَلَا یَضُرُّ فِیْ ذٰلِکَ عُمُوْمُ الْحُکْمِ لِجَمِیْعِ الْمُؤْمِنِیْنَ کَمَا ہُوَالظَّاہِرُ،اور اس آیت سے یہ حکم تمام مؤمنین کے لیے ہے۔ جو بھی اپنے عزیز و اقارب کی خطاؤں کو معاف کرکے ان پر احسانات کو جاری رکھے گا اس کی خطاؤں کو حق تعالیٰ شانہٗ روز محشر اس عمل کے صلے میں معاف فرمادیں گے۔
حکایت
ایک مرتبہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رحمہ اللہ اپنے ایک ملازم کو ڈانٹ رہے تھے اور وہ معذرت کررہا تھا۔ شیخ نے فرمایا: تم باربار مجھے ستاتے ہو اور اسی قسم کی خطاؤں کو باربار کرتے ہو آخر میں تمہارا کتنا بھگتوں ،شیخ کے پاس اس وقت حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمۃاللہ علیہ جو شیخ کے حقیقی چچا تھے بیٹھے تھے، کان میں چپکے سے فرمایا: مولانا! اتنا اس کا بھگت لو جتنا اپنا کل بھگتوانا ہے۔ یعنی حق تعالیٰ سے جس قدر معافی چاہتے ہو اسی قدر یہاں خوب ان کی مخلوق کی خطاؤں کو عفو کرکے ان پر احسان کرلو۔
حکایت
حضرت حکیم الامّت تھانوی رحمۃاللہ علیہ نے ایک وعظ میں فرمایا کہ ایک شخص تھا۔ اس کی بیوی نے اس کے کھانے میں نمک بہت تیز کردیا۔ اس کو بہت غصّہ آیا لیکن سوچا کہ اگر ہماری لڑکی سے ایسی خطا ہوجاتی تو ہم اپنے داماد سے کیا معاملہ پسند کرتے؟ یہی کہ وہ معاف کردے اور اگر جوتا بازی کرتا تو ہم کو رنج ہوتا۔ پس یہ بھی کسی کی بیٹی ہے اور میں بھی کسی کا داماد ہوں اور حق تعالیٰ کی بندی ہے بس معاف کردیا۔ جب انتقال ہوگیا تو ایک بزرگ نے اس کو خواب میں دیکھا اور دریافت کیا کہ کیا معاملہ تیرے ساتھ ہوا؟ کہا: حق تعالیٰ نے باوجود ہماری نالائقیوں کے فرمایا کہ تو نے ہماری فلاں بندی پر غصہ ضبط کرکے اس کو سزا نہ دی اور معاف کردیا اس کے بدلے میں ہم تجھے سزادیے بغیر معاف کرتے ہیں۔
حکایت
ایک صاحب رات بارہ بجے روتے ہوئے آئے اور کہنے لگے کہ میں نے غصّے میں بیوی کو تین طلاق دے دی اور اب میں بھی رو رہا ہوں، بیوی بھی رو رہی ہے اور چھوٹے چھوٹے بچے بھی رو رہے ہیں۔ پورا گھر جہنم بن گیا ہے اب بتایئے میں کیا کروں؟ میں نے کہا:آپ جایئے کسی مفتی صاحب سے رجوع کیجیے۔ غصّےمیں پاگل ہونے کا یہی انجام ہوتا ہے۔
حکایت
حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ اپنے مریدین کے ساتھ سفر کررہے تھے اوپر سے کسی نے کوڑا پھینک دیا۔ آپ نے فرمایا: الحمدللہ۔ لوگوں نے کہا: یہ کیا موقع ہے الحمدللہ کا؟ فرمایا: جو سر کہ معاصی کے سبب آگ برسانے کے قابل تھا اس پر اگر راکھ برسائی گئی تو کیا یہ شکر کا موقع نہیں ہے؟
خدا رحمت کندایں عاشقانِ پاک طینت را
غصّےکے علاج میں چند احادیثِ مبارکہ
حدیثِ اوّل
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے ارشاد فرمایا: جس نے عرض کیا تھا کہ مجھے کچھ وصیت فرمایئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غصّہ مت کیا کرو ۔اس شخص نے کئی مرتبہ اس سوال کو دہرایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مرتبہ یہی فرمایا کہ غصّہ مت ہوا کر۔
تشریح: ملّاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ، ج: ۹، ص:۳۰۵ پر فرماتے ہیں کہ غصہ شیطان کے اثرات کا نتیجہ ہوتا ہے جس کے سبب انسان عقل کا توازن کھو بیٹھتا ہے اور صورتاًاور سیرتاً وہ حدِّ اعتدال سے نکل جاتا ہے اس لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے اس کو اہمیت (دینے سے)سے منع فرمایا۔
حدیثِ دوم
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کسی شخص کو غصّہ آوے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جاوے پس اس کا غصہ چلا جائے تو خیر ورنہ لیٹ جاوے۔
تشریح: بیٹھنے کے بعد بھی اگر غصہ نہ جائے تو لیٹنے کا حکم کیا حکمت رکھتا ہے؟ احقر عرض کرتا ہے کہ غصہ ایک حال ہےاور عرض ہے جو غصّہ کرنے والے کے تمام خون میں جوش مارتا ہے اور انتقام لینے کے لیے آگے بڑھانے پر مار پیٹ کے لیے جوش دلاتا ہے۔ پس بیٹھ جانے سے غصّہ بھی بیٹھ جاتا ہے اور لیٹ جانے سے غصّہ بھی لیٹ جاتا ہے کیوں کہ حال اور محل اور عرض اور جوہر کا ایسا ہی تعلق ہوتا ہے، پس کھڑے ہونے پر وہ غصہ والا جس قدر انتقام مار پیٹ سے قریب تھا کہ صرف قدم بڑھانا تھا اب بیٹھ جانے سے وہ ایک منزل دور ہوگیا یعنی منزلِ قعود میں آکر منزلِ قیام سے دور ہوگیا۔ پھر اگر غصّہ نہ گیا تو لیٹ جانے سے غصہ کا انتقام دو منزل دور ہوگیا۔ منزلِ رقود سے منزلِ قعود پھر منزلِ قیام اس طرح دو منزل دور ہوگیا اب اگر مارپیٹ کے لیے وہ ارادہ کرے تو اُس لیٹے ہوئے کو بیٹھنا پڑے گا پھر کھڑا ہونا پڑے گا۔
اس طرح حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے غصّے والے کی ہیئت کو بدلتے ہوئے انتقامی اور انفاذِ غضب کی ہیئت سے کافی دور فرمایا۔
سبحان اللہ! کیا شان رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم کی ہے۔ بزرگوں کی دعاؤں اور برکتوں سے یہ بات احقر کی سمجھ میں آئی ہے۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ اور نہ جانے کیا کیا اسرار ہوں گے۔
نوٹ:احقر نے اس تحریر کے بعد ملّاعلی قاری رحمۃاللہ علیہ کی مرقاۃ میں بھی یہی حکمت درج پائی فَالْحَمْدُ لِلہِ تَعَالٰی عَلٰی ذٰلِکَ التَّوَافُقِ بِالْاَکَابِرِ مگر یہ کہ دو حکمتیں اور لکھی ہیں ایک یہ ہے کہ بیٹھنے اور لیٹنے سے بتدریج زمین سے قریب ہوگا اور زمین میں حلم اور تواضع ہے۔ اس کے اثر سے ترفّع اور غضب کے شعلۂ نار سے جس کا مرکز بلندی پر ہے بُعد اور دُوری ہوگی۔ دوسرے یہ کہ بیٹھنے اور لیٹ جانے سے تواضع کی شان پیدا ہونے میں اعانت ہوگی۔
حدیثِ سوم
فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ پہلوان اور بہادر وہ نہیں ہے جو اپنے دشمن کو شکست دے دے۔اصل میں پہلوان وہ ہے جو اپنے غصّے پر قابو پالے (اور بے جا طور پر اس کو استعمال نہ کرے)۔
حدیثِ چہارم
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بندے کے لیے کوئی گھونٹ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس غصّے کے گھونٹ سے افضل نہیں جو غصّے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔
حدیثِ پنجم
اور ارشاد فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے: بے شک غصّہ ایمان کو اس قدر بگاڑ دیتا ہے جس طرح ایلوا شہد کو ۔
حدیثِ ششم
ارشاد فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ غضب شیطان کے اثر سے یعنی اس کے وسوسے سے ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے پس جس پر غصّےکا اثر ہوجاوے وضو کرلے۔
حدیثِ ہفتم
ارشاد فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے: جو اپنی زبان کی حفاظت کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے عیوب کو چھپالیں گے اور جو اپنا غصّہ ضبط کرے گا(اور مخلوق پر نافذ نہ کرے گا) اللہ تعالیٰ اپنے عذاب کو قیامت کے دن اس سے ہٹالے گا اور جو معذرت کرنے والے کا عذر قبول کرے گا اللہ تعالیٰ اس کا عذر قبول فرمائیں گے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ ربّ العالمین!
(ماخوذ از: روح کی بیماریاں اور ان کا علاج)
٭٭٭٭٭