شیخِ مکرم، استاد اسامہ محمود حفظہ اللہ نے یہ سلسلۂ مضامین ’اصحاب الاخدود‘ والی حدیث کو سامنے رکھ کر تحریر کیا ہے۔ (ادارہ)
حدیث میں اس جگہ پہنچے تھے کہ :
’’بادشاہ کا وزیر ، جو نابینا ہو گیاتھا، نوجوان کے پاس بہت سارے قیمتی تحائف لےکر حاضر ہوا اور مطالبہ کیا کہ مجھے شفادیں تو بدلے میں یہ سب کچھ لے لیں ۔ نوجوان نے( تحائف لینے سے انکار کیا اور) کہا’إِنِّي لَا أَشْفِي أَحَدًا إِنَّمَا يَشْفِي اللَّهُ فَإِنْ أَنْتَ آمَنْتَ بِاللَّهِ دَعَوْتُ اللَّهَ فَشَفَاكَ فَآمَنَ بِاللَّهِ فَشَفَاهُ الله‘۔’میں کسی کو شفا نہیں دیتا، شفا اللہ دیتاہے ، اگر تم اللہ پر ایمان لاؤ تو میں تمہارے لیے دعا کروں گا ، اللہ(چاہے تو ) تمہیں شفا دے دے گا ‘، وزیر ایمان لے آیا اور اللہ نے اسے شفا عطا فرمائی ۔‘‘
ہدایت کی نشانی
نعمتِ ہدایت کی ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ یہ جس کو نصیب ہو ، اس کے دل میں حب ِ دنیانہیں رہتی، اُسے دنیاوی مال ومتاع ، منصب و مرتبہ اور نمودو نمائش کی پھر پرواہ نہیں ہوتی ہےاور وہ بس اللہ کی رضا اوراس کی مخلوق کی ہدایت ہی کو اپنا مقصدِ اول رکھتاہے ۔جبکہ دوسری طرف جنہیں صبح و شام حقیر ’متاع قلیل ‘ کی فکر کھاتی ہے ،وہاں دین داری دنیا کے تابع ہوتی ہے ، اگر تو دنیا کے ساتھ دین چلتاہے تو اچھی بات ہے مگر جہاں دنیا اور دین کا ٹکراؤ آگیا ، وہاں دین چھوڑ کر دنیا کو ترجیح دی گئی،تویہ( والعیاذ باللہ )ہدایت سے محرومی کی نشانی ہے ۔ دنیا کے ساتھ کسی کا کیا تعامل ہے؟ اس کی نظر میں اس کا کیا مقام اور دل میں کیا مرتبہ ہے؟ خالق سے تو کوئی کیا چھپ سکتاہے ، مخلوق کے سامنے بھی یہ واضح ہوجاتا ہے اور یہی ایسا پیمانہ ہے کہ جو دوسروں کو بھی بتاتاہے کہ کوئی کتنا راہ ہدایت پر ہے اور کتنا اس سے دورہے۔ ملکہ بلقیس نے بھی جب سلیمان علیہ السلام کی حقیقت جاننا چاہی تو انہیں قیمتی تحائف بھجوائے اور کہا ﴿ وَإِنِّي مُرْسِلَةٌ إِلَيْهِمْ بِهَدِيَّةٍ فَنَاظِرَةٌ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُونَ﴾1۔مفسر ابن ابی حاتم رحمہ اللہ لکھتے ہیں ’’ بلقیس کے مطابق سلیمان(علیہ السلام ) اگر دنیاداربادشاہ ہوئے تو مال انہیں محبوب ہوگا اوریہ تحائف قبول کرلیں گے ،لیکن اگر وہ واقعی اللہ والے ہوئے تو ان چیزوں کی انہیں حاجت نہیں ہوگی، اور وہ بس ایک ہی خواہش کریں گے کہ ہم ان کے دین میں داخل ہوں اور اس دین کی پیروی کریں‘‘۔ یہاں اس حدیث میں نوجوان نے بھی تحائف کی طرف التفات نہیں کیا بلکہ ایمان کا مطالبہ کیا۔شیخ ابوقتادہ (حفظہ اللہ)کہتے ہیں کہ شفا کے لیے وزیر کا ایمان لانا ضروری نہیں تھا ، اس لیے کہ دم و دعا توکسی کافر کے حق میں بھی اثر کرسکتی ہے،جیسا کہ سورۂ فاتحہ کے دم کے متعلق صحابی ٔ رسول کا مشہور واقعہ ہے،مگر یہ نوجوان چونکہ داعی تھا،اس کے نزدیک خطرناک ترین بیماری ، کفر و گمراہی کی بیماری تھی اور بدترین محرومی ایمان وہدایت سے محرومی تھی ، اس لیے اس نے یہ موقع ضائع نہیں کیا ۔ ایک یہ راہ ہدایت پر چلنے والوں کاکردارہے کہ اس میں قدم قدم پر اللہ کی رضا کی فکر رہتی ہے، خلق خدا کی ہدایت کے لیے دل تڑپتا ہے اور اس کارِ عبادت میں دنیاکو رتی برابر اہمیت نہیں دی جاتی ہے اور دوسرا راہ ِ گم کردہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والے بدنصیبوں کا کردار ہے کہ جہاں اصل مقصد دنیا ہوتا ہے اوردین اس کے حصول کے ایک وسیلے کی جگہ لیتاہے ۔دنیا اگر مل رہی ہو، تو چاہے اس کے گرد کفر وطغیان کے مظاہر ہوتے ہوں ، اس کے ماتھے پر شکن تک بھی نہیں پڑتی ، بلکہ اپنی دنیا بچانےاوربڑھانے کے لیے حق کے مقابل باطل تک کا ساتھ بھی دے دیتاہے۔
امت محمدﷺ کا فتنہ
آپ ﷺ کا فرمان مبارک ہے ’’إِنَّ لكُلِّ أُمَّةٍ فِتْنَةً، وَإِنَّ فِتْنَةَ أُمَّتِي الْمَالُ‘‘ ’’ہر امت کےلیے ایک فتنہ ہوتاہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے ‘‘۔آج یہ فتنہ ہر سُو نظر آرہاہے ، اور شاید کہ تاریخ انسانی میں اس کو ایسی گھیرائی (وسعت ) اور اثرپذیری پہلے کبھی نہیں ملی ہو جتنا کہ آج کے اس ’ماڈرن‘ دور میں اسے ملی ہے۔ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فتنوں سے ڈرایا کہ عمل کرو اس سے پہلے کہ وہ وقت آئے جب فتنے اندھیری رات کی طرح برسیں ، ایک شخص صبح مسلمان ہوگا اور شام کو کافر ہوگا ، شام کو مسلمان ہوگا اورصبح کا فر ہوگا ، اور وجہ اس کی یہ بیان فرمائی کہ ’’يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا ‘‘ ، ’’آدمی اپنا دین دنیاکی تھوڑی سی متاع کے عوض بیچ ڈالے گا‘‘2۔دنیا کا فتنہ انتہائی خطرناک ہے ، حدیث میں حلوۃ اور خضرۃ اسے کہا گیا ہے ، یعنی خوش ذائقہ بھی ہے اور دیکھنے میں بھی بڑاپرکشش ہے ۔حق کی طرف آنے میں شیطان دنیا کی رغبت دلاکر رکاوٹ ڈالتاہے تاکہ بندہ دنیا کی طرف متوجہ ہو ، اس کی طرف جھکے اور اللہ کی عبادت سے محروم ہو ، یا دوسری صورت میں جو موجود دنیا ہے ، اس کی محرومی سے ڈراتاہے کہ دینی تقاضوں پر عمل کروگے توموجود دنیا بھی ختم ہوجائے گی ، اہل حق کے خلاف یہ ترغیب اور ترھیب حکومتوں کابھی ہتھیارہے، غالباً امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کاقول ہے کہ کوڑوں (تشدد و عقوبت )کی آزمائش تو اپنی جگہ ہے مگر توڑوں کا امتحان اس سے کہیں زیادہ نازک ہے، یعنی لفافوں یا تھیلوں میں مال کے ذریعہ جوایمان اور کردار کی قیمت لگائی جاتی ہے ، وہ کہیں زیادہ خطرناک ہے ۔
بچاؤ کا ہتھیار کیاہے؟
یہ ہتھیارزہد ہے ، دنیا سے بے رغبتی ہے ، دنیا کی اصل حقیقت نظر میں رکھنا اور دل کے اندر اس کی محبت کوجگہ نہیں دینا ہے…… اور یہ ہتھیار بھی تب ہی ہاتھ آتاہے جب اللہ کے سامنے کھڑے ہونے اور جزا و سزا پانے کا یقین ہو اور دنیا کی حقیر، معیوب اور عارضی سازوسامان کے مقابل جنت کی دائمی ، لازوال اور بے مثال نعمتوں پر نظر ہو……یہ زہد و یقین ہی وہ ہتھیار ہیں کہ جن کے سبب صبر و شکر کی حالت اللہ عطا کرتاہے اورپھر فتنوں کا مقابلہ آسان ہوجاتاہے ، آپ ﷺ کافرمان مبارک ہے ’’صَلاَحُ أَوَّلِ هَذِهِ الأُمَّةِ بِالزُّهْدِ وَاليَقِينَ وَيَهْلِك آخِرُهَا بِالْبُخْلِ وَالأَمَلِ‘‘’’اللہ نے اس امت کے پہلے لوگوں کی اصلاح؍بھلائی زہد اور یقین کے سبب فرمائی اور اس امت کے بعد میں آنے والے لوگ بخل اور بے عمل امیدوں کے سبب برباد ہوئے‘‘۔ اللہ کاحق ہے کہ دل بس اسی کی محبت سے آباد ہو اور زندگی کا ہرلمحہ اس کی اطاعت وخوشنودی میں بسر ہو، جبکہ یہ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک دل دنیا کی محبت سے خالی نہ ہو، امام شافعی رحمہ اللہ کے مطابق جس کا دعویٰ ہو کہ اس کے دل میں اللہ کی محبت بھی ہے اور دنیا کی محبت بھی تو وہ جھوٹاہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے منقول ہے کہ جس طرح آگ اور پانی کاملاپ ناممکن ہے اس طرح ایک دل میں اللہ کی محبت اور دنیا کی محبت ناممکن ہے ۔بیشک رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہے ، آپﷺ نے دنیاکو کتنی اہمیت دی، اس کے مال و متاع کو اپنی ذات کے لیے کتنا استعمال کیا؟ یقیناً کوئی بھی اس درجہ تک نہیں پہنچ سکتا، مگر حقیقت یہی ہے کہ کوئی بھی عالمِ حق ، داعیٔ دین یا مجاہد راہِ حق پر استقامت نہیں دکھا سکتا جب تک وہ دنیا کے ساتھ تعامل کے معاملے میں رسول اللہﷺ کو اپنے لیے نمونۂ عمل نہ بنائے۔ آپﷺ نے پوری زندگی ایسی گزاری کہ کبھی زکوٰۃ کے نصاب کے بقدرمال تک بھی اپنے پاس نہیں رکھا، اور دنیا سے انتقال کر گئے تو ایسی صورت میں کہ چراغ میں تیل تک نہیں تھا اور ام المومنین کو وہ قرض لینا پڑا ۔ کتنے شب و روز ایسے گزر جاتے کہ آپ ﷺ کے گھر میں آگ نہیں جلتی اور صرف کھجور اور پانی پر گزارا ہوتا۔ایک دفعہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپﷺ کی حالت دیکھی کہ آپ کھجور کی چٹائی زمین پر بچھائے اس پر لیٹے ہیں اور آپ کے جسم مبارک پر اس کے نشان بنے ہوئے ہیں ، تو آپؓ روئے اور کہا کہ قیصر و کسریٰ تو عیاشیاں کریں اور اللہ کے رسول ﷺ کی یہ حالت ہے ، اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَهُمُ الدُّنْيَا وَلَنَا الآخِرَةُ‘‘ ، ’’کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ ان کے لیے یہ دنیا ہو اور ہمارے لیے آخرت ہو ‘‘۔
دنیامقصود نہیں،مقصود کا ذریعہ
جب دل میں اللہ کی محبت ہوتو پھر دنیا استعمال کی جاتی ہے مگربس اس قدر اور اس لیے کہ اس سے آخرت میں فائدہ ہو۔ایسے میں مقصود دنیا نہیں ہوتی ہے بلکہ مقصود اللہ کی رضا ہوتی ہے اور دنیا اتنی استعمال ہوتی ہے کہ اس کے ذریعے مقصود تک پہنچا جاسکے اور یہی زہد کی حقیقت ہے ۔حضرت تھانوی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ دنیا بمثل (دریا یاسمندر کا) پانی ہے، اگر یہ دل سے باہر ہو تو سفر خیر کے ساتھ تمام ہوتاہے اور منزل مل جاتی ہے ،لیکن اگر یہ دل میں داخل ہو جائے تو جس طرح کشتی کے اندر پانی داخل ہونے سے کشتی غرق ہوجاتی ہے ،دنیا کی محبت دل میں داخل ہونے سے حبِّ الٰہی نکل جاتا ہے اورانسان غرق ہوجاتاہے ۔
جب دل میں خالص اللہ کی محبت ہو اور فکرِ آخرت ہی بندے کو لاحق ہو ،تو پھر دنیا کی خاطر کوئی ایسا عمل نہیں ہوگا جو اللہ کو ناپسند ہو ۔پھر نہ انفرادی زندگی میں بغض و حسد ہوگا اور نہ ہی اجتماعی و تحریکی زندگی میں تعصب اور ظلم ، کہ ان تمام امراض کا سبب آخرت کے مقابل دنیا کو ترجیح دینا ہے، اور یہی دنیا کی محبت ہے ، اس لیے کہ دنیا کی محبت محض مال کی محبت قطعاً نہیں ہے ، جاہ کی محبت اس میں بدرجۂ اتم شامل ہے ، بلکہ اپنے آپ کو برتردکھانے کی خواہش مال کی محبت سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہے اور اس خواہش ہی کے سبب پھر اقوال میں بھی ظلم ہوتاہے اور افعال میں بھی ۔اللہ نے اہل جنت کی تعریف ہی یہ کی ہے کہ وہ نہ دنیا میں برتری چاہتے ہیں اور نہ ہی فساد کرتے ہیں: ﴿ تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ ﴾ 3۔
طرز عمل ٹھیک کرنے کی ضرورت
نوجوان نے کہا شفا میں نہیں دیتا، شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ دیتاہے ، میرا کام اسباب استعمال کرنا ہے ، نتائج اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔ یہی راہ ہدایت پر چلنے والوں کا طریقہ ہے ، وہ اللہ کی رحمت کی نسبت اللہ کی طرف ہی کرتے ہیں ، رزق ، شفا، معاشی استحکام ، امن و امان ، چین و سکون اور خوشحالی ، یہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہیں ، وہ ان چیزوں کا وعدہ نہیں کرتے ہیں بلکہ ان چیزوں کے حصول کے لیے اللہ نے جو اسباب مقرر کیے ہیں ، اُن اسباب کے استعمال کا خود اپنے آپ کو بھی پابند کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی انہیں عمل میں لانے کا تقاضہ کرتے ہیں ، ان اسباب میں اول و اہم اللہ کی اطاعت ہے ، اللہ پر ایمان ہے اور اللہ کے ساتھ اپنا تعلق جوڑنا ہے ۔اس کے بعد مادی اسباب و ذرائع کی باری آتی ہے ۔ جہاں تک نتائج کا تعلق ہے تو وہ اللہ کے پاس ہیں اور جب مخلوق ان اسباب کو اچھے طریقے سے عمل میں لاتی ہے تو پھر اللہ انعام کے طورپر یہ نتائج بھی عطا کرتاہے ۔ افسوس ہے کہ نئی تہذیب اور جمہوری سیاست کے سبب جو کام بندوں نے کرنا تھا ، اس کی طرف نہ دھیان ہے اور نہ دعوت ہے ، اور جو اللہ کاکام ہے ، اُس کے وعدے عوام کے ساتھ کیے جاتے ہیں ۔ اپنی اور قوم کی ذمہ داری یہ تھی کہ سب اللہ کی طرف لوٹیں اور اللہ کی شریعت کی پیروی کریں ، پھر اللہ نے جو مادی اسباب مقرر کیے ہیں ، انہیں بھی بروئے کار لائیں، مگر افسوس کہ ان فرائض کو عمل میں نہیں لایا جاتا ( جزوی یا کلی طورپر ) ، یا اللہ کی طرف رجوع اور اس کی اطاعت کے بغیر محض مادی ذرائع پر بھروسہ کیا جاتاہے اور پھر خوشحالی اور ترقی کے وعدے کیے جاتے ہیں ، گویا کہ نتائج بھی جیسے نعوذ باللہ ان کے ہاتھ میں ہوں ،کفار کے ساتھ تو اللہ گزارہ کرتاہے کہ یہ دنیا ان کی جنت ہے مگر جن کا دعوی ایمان کا ہو ، انہیں کیوں کر ایسے چھوڑا جائے ، لہٰذا نتیجہ یہ ہے کہ ہر آئے دن ہماری بدحالی اور تنزل میں اضافہ ہوتاہے۔ ضروری ہے کہ کم ازکم دینی تحریکات اس معاملے میں اپنا طرزِ عمل ٹھیک کریں اور وہ قوم کو وہ راستہ بتائیں جو واقعی خوشحالی کا راستہ ہے ۔
اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے ، دنیا کی حقیقت ہمارے دلوں میں بٹھائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کے ساتھ اس کی حقیقت کے مطابق تعامل کریں۔
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
1 ’’ اور میں ان کے پاس ایک تحفہ بھیجتی ہوں، پھر دیکھوں گی کہ ایلچی کیا جواب لے کر واپس آتے ہیں ؟ ‘‘(سورۃ النمل: ۳۵)
2 «بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا، أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا، يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا»
3 ’’ وہ آخرت والا گھر تو ہم ان لوگوں کے لیے مخصوص کردیں گے جو زمین میں نہ تو بڑائی چاہتے ہیں، اور نہ فساد، اور آخرت انجام پرہیزگاروں کے حق میں ہوگا۔ ‘‘(سورۃ القصص: ۸۳)