یہ تحریر یمن کے ایک مجاہد مصنف ابو البراء الاِبی کی تصنیف’تبصرة الساجد في أسباب انتكاسۃ المجاهد‘ کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے ایسے افراد کو دیکھا جو کل تو مجاہدین کی صفوں میں کھڑے تھے، لیکن آج ان صفوں میں نظر نہیں آتے۔ جب انہیں تلاش کیا تو دیکھا کہ وہ دنیا کے دیگر دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟یہ تحریر ان سوالوں کا جواب ہے ۔(ادارہ)
تیسری وجہ: مرجفین کی افواہیں اور مخذلین کی حوصلہ شکنی
امام ابن النحاس نے فرمایا:
”امیر [حوصلہ شکنی کرنے والے] مخذل کو لشکر میں شامل ہونے سے منع کرے۔ اگر وہ شامل ہو جائے تو اسے واپس کر دے۔ اگر وہ لڑ بھی لے تو وہ [غنیمت وغیرہ میں سے] کسی چیز کا مستحق نہ ہو گا ۔ امام شافعی اور اما م احمد کے ہاں اگر وہ کافر کو قتل بھی کر دے تب بھی کافر کے سلب [لوٹے ہوئے مال] کا مستحق نہ ہو گا۔
مخذل وہ ہوتا ہے جو لوگوں کو ڈرائے کہ دشمن کی تعداد بہت ہے، ہمارے گھوڑے کمزور ہیں، ان کے مقابلے میں ہم بے بس ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اور مرجف بھی اسی کے ہم معنی ہے، جو افواہیں پھیلاتا ہے۔ مثلاً کہتا ہے کہ فلاں لشکر آ رہا ہے، یا فلاں طرف سے دشمن کو مدد پہنچ گئی ہے، یا فلاں جگہ پر انہوں نے کمین لگائی ہے، وغیرہ وغیرہ۔“
سیر [اسلامی جنگ] کی کتابوں میں آتا ہے کہ حضرت خالدؓ بن ولید کو یرموک کے موقع پر ایک شخص نے کہا: ’’رومی کتنے زیادہ ہیں اور مسلمان کتنے کم‘‘، تو حضرت خالدؓ بن ولید نے فرمایا: ”تم نے بہت برا کہا۔ لشکر کثرت تعداد کے سبب نہیں جیتتا، الٹا ہمت ٹوٹ جانے (خذلان) سے ہارتا ہے۔“
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَ اِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اِلَّا غُرُوْرًا۰۰۱۲ وَ اِذْ قَالَتْ طَّآىِٕفَةٌ مِّنْهُمْ يٰۤاَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوْا١ۚ وَ يَسْتَاْذِنُ فَرِيْقٌ مِّنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُيُوْتَنَا عَوْرَةٌ١ۛؕ وَ مَا هِيَ بِعَوْرَةٍ١ۛۚ اِنْ يُّرِيْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا۰۰۱۳
’’یاد کرو وہ وقت جب منافقین اور وہ سب لوگ جن کے دلوں میں روگ تھا صاف صاف کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اُس کے رسولؐ نے جو وعدے ہم سے کیے تھے وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھے ۔ جب اُن میں سے ایک گروہ نے کہا کہ “اے یثرب کے لوگو، تمہارے لیے اب ٹھہرنے کا کوئی موقع نہیں ہے، پلٹ چلو” جب ان کا ایک فریق یہ کہہ کر نبیؐ سے رخصت طلب کر رہا تھا کہ “ہمارے گھر خطرے میں ہیں” حالانکہ وہ خطرے میں نہ تھے، دراصل وہ (محاذ جنگ سے) بھاگنا چاہتے تھے۔ ‘‘ [الاحزاب: 12-13]
امام قرطبی فرماتے ہیں:
”یہ آیتیں تب نازل ہوئیں جب طعمہ بن ابیرق ، ابن قشیر اور دیگر کوئی ۷۰؍ افراد نے خندق کے دن کہا تھا: [آپ ﷺ] کیسے ہمیں کسریٰ اور قیصر کے خزانوں پر قبضہ کرنے کے وعدے کر رہے ہیں جبکہ ہم میں سے کوئی شخص قضائے حاجت کے لیے بھی نہیں جا سکتا۔“
استاذ سید قطب اپنی تفسیر فی ظلال القرآن میں فرماتے ہیں:
”ان لوگوں، یعنی منافقین کو، قدموں کو ڈگمگا دینے والی آزمائش اور سانس گھوٹنے والی سختی میں موقع مل گیا کہ وہ اپنے اندر چھپی خباثت بھی اگل دیں اور انہیں کوئی ملامت بھی نہ کر سکے۔ انہیں موقع ملا کہ وہ حوصلہ توڑیں ، ہمتیں پست کریں، اللہ اور اس کے رسول کے وعدے میں شک اور بد ظنی پیدا کریں۔ جبکہ انہیں تسلی تھی کہ اس موقع پر ہمیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ کیونکہ بظاہر صورت حال حوصلہ شکنی اور شک پھیلانے میں مدد دے رہی تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ ان کا اپنا آپ اور ان کے جذبات ان کی منطقی حقیقت کے مطابق ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔ کیونکہ ہیبت ناک صورت حال نے ان پر سے وہ پتلا پردہ بھی ہٹا دیا تھا جس سے وہ خوشنما نظر آنے کی کوشش کرتے تھے۔ اور ان کی جانوں کو ایسا ڈرایا تھا کہ ان کا ڈگمگاتا ہوا ایمان مزید نہ ٹہر سکا! اس حالت میں انہوں نے اپنے حقیقی جذبات ظاہر کر دیے، بغیر کسی ملمع سازی کے!
ایسے منافق اور مرجف ہر جماعت میں پائے جاتے ہیں جن کا سختی کے موقع پر ویسا ہی موقف ہوتا ہے جیسا کہ ان کے مذکورہ بالا ساتھیوں کا گزرا۔
یہ ہر زمانے میں بار بار ظاہر ہونے والا معاملہ ہے۔ نسل در نسل اور جماعت در جماعت۔ انہوں نے اہل مدینہ کو شہ دی کہ وہ صفوں کو چھوڑ کر اپنے گھروں کو واپس لوٹیں۔ اس دلیل کی بنا پر کہ ان کا جنگی حالت میں خندق کے سامنے ایسے ٹھہرے رہنے کا کوئی جواز اور ضرورت نہیں، جبکہ پیچھے ان کے گھروں کو خطرہ لاحق ہے۔ یہ خبیث پکار دلوں میں کمزور ترین جگہ سے داخل ہوتی ہے، عورتوں اور بچوں پر ڈر کے راستے سے۔
جبکہ خطرات نے گھیرا ہوا ہے اور سختی زوروں پر ہے، اور گمانو ں کا طوفان ایسے برپا ہے کہ رکنے کا نام نہیں لیتا! اور ان میں سے ایک گروہ نبیﷺ سے اجازت مانگتا ہے (کہ ہمارے گھر خطرے میں ہیں)۔ گھروں کا بغیر حفاظت کے دشمن کے نرغے میں ہونے کو دلیل بنا کر اجازت مانگی۔
یہاں قرآن اصل حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کی دلیل اور عذر کو یہ کہہ کر مسترد کر دیتا ہے (حالانکہ وہ خطرے میں نہ تھے)۔ اور انہیں جھوٹ، چالبازی، بزدلی اور فرار کی اس حالت میں رنگے ہاتھوں پکڑ لیتا ہے (در اصل وہ جنگ سے بھاگنا چاہتے ہیں)۔“
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَاِنْ رَّجَعَكَ اللّٰهُ اِلٰى طَآىِٕفَةٍ مِّنْهُمْ فَاسْتَاْذَنُوْكَ لِلْخُرُوْجِ فَقُلْ لَّنْ تَخْرُجُوْا مَعِيَ اَبَدًا وَّ لَنْ تُقَاتِلُوْا مَعِيَ عَدُوًّا١ؕ ۰۰۸۳
’’پھر اگر خدا تم کو ان میں سے کسی گروہ کی طرف لے جائے اور وہ تم سے نکلنے کی اجازت طلب کریں تو کہہ دینا کہ تم میرے ساتھ ہرگز نہیں نکلو گے اور نہ میرے ساتھ (مددگار ہوکر) دشمن سے لڑائی کرو گے۔‘‘ [التوبہ: 83]
امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں فرمایا:
”یہ دلالت کرتا ہے کہ ڈگمگانے والے (مرجف) کو جنگ میں لے جانا جائز نہیں۔“
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
”اور اس طرح جب [تاتاری] دشمن آیا تب منافقین میں سے ایسے بھی تھے جنہوں نے کہا: چونکہ اسلامی ریاستیں اب نہیں کھڑی ہو رہی اس لیے تاتار کی دولت میں شامل ہو جانا چاہیے۔ اور بعض افراد نے کہا: شام کی سرزمین اب قابل رہائش نہ رہی، اس لیے ہمیں یہاں سے منتقل ہو جانا چاہیے۔ چاہے حجاز کی طرف ہو، یمن کی طرف ہو یا مصر کی طرف۔ بعض نے کہا: مصلحت اس میں ہے کہ ہم ان کے سامنے تسلیم ہو جائیں جیسے عراق والے تسلیم ہوئے اور ان کی حکومت کے تابع ہو گئے۔ اس سانحہ میں بھی یہ تین باتیں کہی گئیں جیسا کہ اس سے پہلے کہی گئی تھیں۔ اس طرح منافقین کے ایک گروہ اور بیمار دل والوں نے اہل دمشق کو خصوصاً اور اہل شام کو عموماً کہا: اس زمین پر اب تمہارا ٹھہرنے کا موقع نہیں۔“
شیخ الاسلام نے یہ بھی فرمایا:
”اس فتنے میں لوگ تین گروہ میں بٹ گئے۔ طائفہ منصورہ کا گروہ؛ یعنی کہ مفسد قوم سے جہاد کرنے والے، مخالف گروہ؛ یہ وہ [منافق] لوگ تھے اور ان کی طرف داری کرنے والے اسلام سے منسوب عقل سے فارغ لوگ، اور مخذل گروہ؛ جو جہاد چھوڑ کر بیٹھ گئے اگرچہ ان کااسلام درست تھا۔ تو ہر شخص دیکھے آیا وہ طائفہ منصورہ میں سے ہے، طائفہ خاذلہ میں سے ہے یا مخالفہ میں سے، کیوں کے چوتھی قسم کوئی نہیں۔ اور جان لے کہ جہاد میں دنیا اور آخرت کی خیر ہے اور اس کے چھوڑنے میں دنیا و آخرت کا خسارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
قُلْ هَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَاۤ اِلَّاۤ اِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ١ؕ ۰۰۵۲
’’کہہ دو آیا تم ہمارے حق میں دو بھلائیوں میں سے ایک کے منتظر ہو۔‘‘ [التوبہ : 52]
یعنی کہ یا فتح و نصرت اور یا شہادت اور جنت کے۔ پس مجاہدین میں سے جو زندہ رہ جائے تو وہ باعزت ہے۔ اس کے لیے دنیا میں بھی اجر ہے اور آخرت میں بہترین اجر ہے۔ اور جو مر گیا یا قتل ہوا تو اس کا ٹھکانہ جنت ہے۔“
امام ابن قدامہ المغنی میں لکھتے ہیں:
”امیر اپنے ساتھ مخذل کو نہ لے جائے۔ مخذل وہ ہے جو لوگوں کو جنگ سے مایوس کرتا ہے اور قتال، جہاد اور جنگ پر نکلنے سے انہیں روکتا ہے۔ مثلاً کہتا ہے: گرمی یا سردی بہت سخت ہے، سفر بھی سخت ہے، اور ایسے لشکر کے ہاتھوں شکست کھانا کوئی بعید نہیں، اسی طرح کی دیگر باتیں۔
اور نہ ہی مرجف کو لے جائے۔ یہ وہ شخص ہے جو کہتا ہے کہ مسلمانوں کا سریہ ہلاک ہو گیا، ان کے لیے اب کوئی کمک نہیں، وہ کفار کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ کافروں کو قوت، کمک اور صبر حاصل ہے، ان کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا، اور ایسی دیگر باتیں کرے۔
اور نہ ایسے شخص کو ساتھ لے جائے جو جاسوسی کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرے اور کفار کو مسلمانوں کے کمزور پہلو دکھائے، ان کی خبریں لکھ کر بھیجے، ان کی کمزور یاں بتائے، ان کے جاسوسوں کو پناہ دے۔
اور نہ ہی ایسے شخص کو ساتھ لے جائے جو مسلمانوں کے درمیان دشمنی پیدا کرے اور فساد پھیلائے۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَّلٰكِنْ كَرِهَ اللّٰهُ انْۢبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَ قِيْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِيْنَ۰۰۴۶لَوْ خَرَجُوْا فِيْكُمْ مَّا زَادُوْكُمْ اِلَّا خَبَالًا وَّ لَاۡاَوْضَعُوْا خِلٰلَكُمْ يَبْغُوْنَكُمُ الْفِتْنَةَ١ۚ ۰۰۴۷
’’لیکن خدا نے ان کا اُٹھنا (اور نکلنا)پسند نہ کیا تو ان کو ہلنے جلنے ہی نہ دیا اور (ان سے) کہہ دیا گیا کہ جہاں معذور بیٹھے ہیں تم بھی ان کے ساتھ بیٹھے رہو۔ اگر وہ تم میں (شامل ہوکر) نکل بھی کھڑے ہوتے تو تمہارے حق میں شرارت کرتے اور تم میں فساد ڈلوانے کی غرض سے دوڑے دوڑے پھرتے۔‘‘ [التوبہ:46- 47]
اور کیونکہ یہ لوگ مسلمانوں کے لیے نقصان کا باعث ہیں اس لیے امیر پر لازم ہے کہ انہیں منع کرے۔ اور اگر ان کے ساتھ ایسا کوئی شخص نکلے تو اسے نہ غنیمت میں حصہ دے اور نہ انعام دے چاہے وہ مسلمانوں کے ساتھ بظاہر مدد کرتا نظر آئے۔ کیونکہ ممکن ہے کہ وہ ایسا منافقت میں کر رہا ہو جبکہ اس پر حجت تمام ہو چکی ہے۔ اس لیے وہ محض نقصان ہی ہے، اور وہ غنیمت میں سے کسی چیز کا مستحق نہیں۔“
حافظ ابن کثیر نے (شقحب کے) واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی تاریخ البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے:
”لوگوں کے درمیان تاتاریوں کے ساتھ جنگ کرنے کے حکم کے بارے میں بحث ہوئی، کہ یہ قتال کس حکم کے تحت ہے؟ کیونکہ وہ اسلام ظاہر کرتے ہیں۔ پھر وہ امام پر باغی بھی نہیں کیونکہ وہ کبھی اس کی اطاعت میں داخل ہی نہیں ہوئے تھے کہ اب مخالفت کر رہے ہوں۔ تو شیخ تقی الدین ابن تیمیہ نے فرمایا:
’’در حقیقت یہ خوارج کی طرح ہیں جنہوں نے حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے خلاف خروج کیا۔ ان کا موقف تھا کہ وہ ان دونوں سے زیادہ خود حکمرانی کے حقدار ہیں۔ اور یہ گروہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ وہ حق قائم کرنے میں مسلمانوں سے زیادہ حقدار ہیں۔ نیز مسلمانوں کو ان کے گناہوں اور ظلم کی وجہ سے برا بھلا کہتے ہیں، جبکہ وہ خود اس سے کئی گنا زیادہ محرمات کے مرتکب ہیں۔ پس علماء اور لوگ ان کو سمجھ گئے۔‘‘
اور شیخ ابن تیمیہ لوگوں سے یہ کہتے تھے:
’’اگر تم مجھے ان کی طرف پاؤ اور میرے سر پر قرآن کریم کا نسخہ بھی ہو تو مجھے قتل کر دینا۔‘‘
تب جا کر لوگوں میں تاتاریوں کے خلاف لڑنے کی جرأت پیدا ہوئی اور ان کے دل اور نیتیں مضبوط ہوئیں، وللہ الحمد۔‘‘
چوتھی وجہ: مجاہدین کو صحیح طرح نہ سمجھ پانا
اس کی ایک صورت یہ ہے کہ جو شخص جہاد کے ساتھ نیا نیا جڑتا ہے وہ مجاہدین کو ایسے فرشتے تصور کرتا ہے جن سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوتی اور اگر ہوئی تو گویا یہ جہاد کے منافی ہے۔ حالانہ مجاہدین بھی تو انسان ہیں۔ غلط بھی کرتے ہیں اور اچھا بھی۔ ہم ان کے بارے میں یہ گمان ضرور کرتے ہیں کہ ان کی اچھائیاں ان کی غلطیوں سے زیادہ ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان میں کوئی غلطی سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ مجاہدین میں غلطیاں ہوتی ہیں چاہے بڑی ہوں یا چھوٹی، کم ہوں یا زیادہ۔ کیونکہ یہ بھی تو دیگر انسانوں کی طرح انسان ہیں۔
اب جب کوئی جوان یہ تصور لے کر مجاہدین میں داخل ہو گا تو یقیناً اسے غلطیاں دیکھ کر جھٹکا لگے گا۔ اس صورت حال سے اس کی زندگی میں تناؤ پیدا ہوتا ہے جو کہ اس پر منفی اثر مرتب کرتا ہے۔ اور اس وجہ سے وہ جہاد چھوڑ بیٹھتا ہے۔ خصوصاً اگر غلطی بڑوں کی طرف سے ہو۔
مجاہدین کے بعض افراد کی طرف سے غلطی سرزد ہونے کا مطلب جہاد کا غلط ہونا نہیں ہے۔ مجاہدین کو نصیحت بھی محبت کے ساتھ دوستانہ طریقے سے ہونی چاہیے تاکہ جہاد کا انکار کرنے والے مخذل اس نصیحت کو جہاد سے متنفر کرنے کے لیے نہ استعمال کر پائیں۔
مجاہدین دیگر افراد کی طرح انسان ہیں۔ ان سے برائی بھی ہوتی ہے اور اچھائی بھی۔ انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کے سوا کسی کو عصمت حاصل نہیں، اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن جب بھی غلطیوں کا تذکرہ کرنے کی ضرورت پڑے تو انتہائی احتیاط برتنی چاہیے۔ نصیحت کرنی ہو تو فقط مخصوص دائرے میں کریں۔ عام منبروں پر نہ ہو تاکہ اس نصیحت کو جہاد اور مجاہدین پر انکار نہ سمجھا جائے۔ دشمنان دین اور دشمنان دعوت و جہاد کا یہ خاص ہدف ہوتا ہے کہ عام منبروں پہ ان غلطیوں کے ذکر کو بار بار پیش کریں۔ تاکہ وہ سچے داعیوں کو ختم کرنے کے لیے اور جہاد اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے دینی فریضہ کو ختم کرنے کے لیے اپنے شاطرانہ منصوبہ میں اس پہلو سے فائدہ اٹھائیں۔
مجاہدین کی خطاؤں کے بارے میں بولنے کے انجام پر توجہ نہ دینے سے ایک بڑا مفسدہ پیدا ہوتا ہے۔ امت کو جہاد کے ذریعے جگانے سے روکنے میں ایسا بولنے والا اپنے آپ کو دشمنان دین کے ساتھ کھڑا دیکھے گا اور کبھی نہ جانتے ہوئے اپنے آپ کو کافر اور منافق طواغیت کی صف میں کھڑا کر دے گا۔
آیئے دیکھیں کہ قرآن مجید مجاہدین کی غلطیاں کیسے درست کرتا ہے۔ جب غزوۂ احد میں تیر انداز رسول اللہ ﷺ کے حکم پر ڈٹے نہ رہے اور میدان جنگ میں اتر آئے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں ہر حال میں اپنی جگہ پر ٹھہرنے کا حکم دیا تھا اور کافرینِ قریش کے ساتھ جنگ ختم ہونے سے پہلے انہیں منع کیا تھا کہ وہ میدان جنگ میں اتریں، لیکن انہوں نے تیزی دکھائی اور جنگ ختم ہونے سے پہلے ہی میدان میں اتر آئے، پھر جب ہار گئے تو انہوں نے پوچھنا شروع کیا: ہم کیوں ہارے؟
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اَوَ لَمَّاۤ اَصَابَتْكُمْ مُّصِيْبَةٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَيْهَا١ۙ قُلْتُمْ اَنّٰى هٰذَا١ؕ قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۰۰۱۶۵
(بھلا یہ) کیا (بات ہے کہ) جب (اُحد کے دن کافر کے ہاتھ سے) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ (جنگ بدر میں) اس سے دوچند مصیبت تمہارے ہاتھ سے ان پر پڑچکی ہے توتم چلا اٹھے کہ (ہائے) آفت (ہم پر) کہاں سے آپڑی؟ کہہ دو کہ یہ تمہاری ہی شامت اعمال ہے (کہ تم نے پیغمبر کے حکم کے خلاف کیا) بےشک خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ [آل عمران: 165]
اس آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان مجاہدین کی غلطی تو بیان کی لیکن نہ ان کی ثقاہت پر جرح کی اور نہ ان کی نیتوں پر شک کیا۔ کیونکہ ان افراد کا نصرتِ اسلام میں ایک بڑا کردار تھا۔ نقد کے معاملے میں اسلامی منہج بیک وقت متوازن اور معروضی ہے۔ سرزنش کرنا اور ہر خطا کار کی غلطی بیان کرنا اسلامی فرض ہے، لیکن یہ خطا اس خطا کار کی بے شمار نیکیوں کے درمیان معاف کر دینی چاہیے۔ امام ابن القیم اس نکتہ پر بہت توجہ دیتے تھے اور نبی اکرم ﷺ کی اس حدیث سے استدلال کرتے تھے:
أقيلوا ذوي الهيئات عثراتهم
”صاحب حیثیت کی لغزشوں سے در گزر کرو۔“
اس طرح صاحب قدر و منزلت و غیرت کی غلطیوں کے ساتھ تعامل کے منہج میں توازن پیدا ہوتا ہے۔
کیا آپ نے سنا ہے کہ احد میں شریک کسی بھی صحابی نے اپنے بھائی کو عار دلایا کہ وہ میدان جنگ سے بھاگا۔ اور پھر پوری زندگی اسے عار دلاتا رہے کہ اے بھگوڑے، جیسا کہ آج کل ہوتا ہے۔
ہم پر [(یمن کے شہر) مکلا سے] پسپائی کے ڈیڑھ سال گزر گئے اور آج تک بیمار ذہن پسپائی کی یاد دلاتے رہتے ہیں۔ کاش وہ شریعت نافذ کرنے اور دیگر بھلائی کے کاموں کی تعریف بھی کیا کریں۔ نہیں! دراصل انہیں پیچھے رہ جانے والے اموال اور ہوٹلوں اور ایئر کنڈیشنوں پر حسرت ہے۔
ہمیں آج بھی احزاب کی جنگ کا سامنا ہے۔ تو آیئے احزاب اور امت کے خلاف ان کے حملے پر باتیں کریں۔ ہم ان کا مقابلہ کیسے کریں، انہیں شکست دینے کے لیے کیا منصوبے بنائیں، کیسے فتح یاب ہوں۔
مجاہدین معصوم نہیں ہیں۔ ان میں صالح افراد بھی ہیں اور دیگر بھی۔ بلکہ ممکن ہے کہ ان کا امیر فجار میں سے ہو۔ پھر بھی یہ جہاد چھوڑنے کی وجہ نہیں بن سکتا۔ یہاں تک کہ اہل سنت نے اس مسئلے کو اپنے منہج کے اصول اور عقائد کی بحثوں میں ذکر کیا ہے، کہ جہاد قیامت تک ہر نیک اور فاجر امیر کے ساتھ جاری رہے گا ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ اپنے فتاویٰ میں فرماتے ہیں:
”چنانچہ اہل سنت و جماعت کے اصول میں سے ہر نیک اور فاجر کے ساتھ جنگ لڑنا شامل ہے۔ اللہ اس دین کی تائید فاجر شخص سے بھی کرتا ہے۔ اور ایسی قوموں سے جنہیں خیر و بھلائی نصیب نہیں۔ جیسا کہ پیغمبر پاک ﷺ نے ہمیں بتایا۔ کیونکہ اگر جنگ صرف فاجر امیر کے ساتھ ہی ممکن ہو، یا ایسے لشکر کے ساتھ جن کی اکثریت فاجر ہے تو اب دو باتوں میں ایک ممکن ہے۔ یا تو ان کے ساتھ جہاد چھوڑ دیا جائے، جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ دین و دنیا کے اعتبار سے ان سے زیادہ بدتر لوگ قابض ہو جائیں گے۔ اور یا فاجر امیر کا ہی ساتھ دیا جائے، جس سے دونوں فریق میں سے بدتر کو دفع کیا جا سکے اور اسلام کے اکثر احکام نافذ ہو سکیں، اگرچہ تمام نافذ نہ بھی ہوں۔ اس حالت اور اس طرح کی تمام حالتوں میں یہی واجب ہے، بلکہ خلفائے راشدین کے بعد جتنا بھی جہاد ہوا، وہ اکثر اسی صورت پر تھا۔
نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا:
الخيل معقود في نواصيها الخير إلى يوم القيامة: الأجر والمغنم
”تا قیامت گھوڑوں کی پیشانیوں سے خیر بندھا ہوا ہے: اجر بھی اور غنیمت بھی۔“
یہ حدیث شریف اسی حدیث کے معنی پر دلالت کرتی ہے جو سنن ابو داؤد میں موجود ہے۔ کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
الغزو ماض منذ بعثني الله إلى أن يقاتل آخر أمتي الدجال لا يبطله جور جائر ولا عدل عادل.
”جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے اس وقت سے جہاد جاری ہو چکا ہے یہاں تک کہ میری امت کے آخری لوگ دجال کے خلاف لڑ نہ لیں۔ اس دوران نہ کسی ظالم کا ظلم اور نہ کسی عادل کا عدل اسے روک سکے گا۔“
نیز رسول اللہ ﷺ سے کافی روایات میں آیا ہے کہ :
لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين على الحق، لا يضرهم من خالفهم إلى يوم القيامة.
”میری امت میں سے ایک گروہ حق پر ثابت رہے گا۔ انہیں تا قیامت مخالفت کرنے والے کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔“
ان کے علاوہ وہ تمام دلیلیں بھی موجود ہیں جن پر عمل کرنے پر اہل سنت و جماعت کے تمام گروہ متفق ہیں کہ نیک و بد تمام امراء کے ساتھ جہاد کرنا چاہیے بر خلاف رافضہ اور خوارج کے جو کہ سنت و جماعت سے خارج ہیں۔
نبی اکرم ﷺ نے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی خبر دی کہ :
سيلي أمراء ظلمة خونة فجرة، فمن صدقهم بكذبهم وأعانهم فليس مني ولست منه، ولا يرد على الحوض، ومن لم يصدقهم بكذبهم ولم يعنهم على ظلمهم فهو مني وأنا منه وسيرد على الحوض.
”میرے بعد ظالم، خائن اور فاجر حکمران آئیں گے۔ جو شخص ان کے جھوٹ کو تسلیم کرے اور ان کی مدد کرے تو نہ وہ مجھ میں سے ہے اور نہ میں اس میں سے۔ اور نہ ہی وہ میرے حوض پر آئے گا۔ اور جو ان کے جھوٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کرے اور ان کے ظلم میں ان کی مدد نہ کرے تو وہ شخص مجھ میں سے ہے اور میں اس میں سے اور وہ حوض پر آئے گا۔“
تو اگر انسان کو اس پورے معاملے کا احاطہ ہو جائے کہ نبی اکرم ﷺ نے قیامت تک حکمرانوں کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم بھی دیا ہے اور ظالموں کے ساتھ ان کے ظلم میں مدد نہ کرنے کا بھی، تو اسے معلوم ہو گا کہ درمیانہ راستہ جو کہ خالص دینِ اسلام ہے وہ یہ ہے کہ: جس کے خلاف جہاد کرنا چاہیے، جیسا کہ یہ قوم ہے جس کے بارے میں سوال کیا گیا ہے،اس کے خلاف ہر اس امیر اور گروہ کے ساتھ مل کر جہاد کیا جائے جو اسلام کے ان سے زیادہ پاسدار ہوں۔ نیز جس گروہ کے ساتھ جہاد کرے ان کی اللہ تعالیٰ کی کسی بھی نا فرمانی میں مدد نہ کرے، بلکہ فقط اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں ان کی اطاعت کرے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں اطاعت نہ کرے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی میں کسی بھی مخلوق کی اطاعت کرنا باطل ہے۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)