ہر مصنف،مؤلف،لکھاری،ناقل و مؤرخ کا انداز بیاں مختلف ہوتا ہے،پھر ہر شعبۂ دین سے تعلق رکھنے والے احباب اسے اپنے انداز سے خوبصورت بناکر اذہان میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں،اور دین کے کسی ایک شعبے کی جانب سعیٔ صحابہ کو کھینچتے ہیں(جوکہ ظلم برآں ہیں)۔
لیکن……
صحابۂ کرامؓ کی سوانح پر مشتمل دستاویزی کتب کے مطالعے کے بعدیہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کی اشاعت کی راہ میں ان کی کیا اور کیسی خدمات ہیں؟ حالات کی حد درجہ ناسازگاری کے باوجود اسلام کو عروج واستحکام بخشنے میں ان کا کردار کیا ہے؟ اسلامی شریعت کے عملی نفاذ میں خود ان کی جانب سے عملی اطاعت کس نوعیت اور کس درجے کی تھی؟ کفار کے تعاقب، مصائب کی گہما گہمی، اسباب و وسائل کے یکسر فقدان اور دشمنوں کی شدید مخالفت کے باوجود اسلام کو ایک مضبوط اور ٹھوس پلیٹ فارم بنانے میں ان کا کیا کردار رہا ہے؟ مزاحمت اور رد عمل کے کیا اسلوب تھے؟ دعوت و تبلیغ کے کیا مناہج تھے؟ خطرات کے اژدحام، دشمنوں کی شدت انگیزیوں اور بھرپور اقدامات کے باوجود مسلمان اور اسلام محفوظ کیونکر رہا؟ ان سوالوں کے جوابات صحابہ کی بہترین اور مثالی زندگی کے مطالعاتی غور و فکر کے بعد واضح ہوجاتی ہے۔
سچ یہ ہے کہ صحابۂ کرامؓ کی خدمات، جرأت اور ہمت، ان کی دانائی، دانشمندی اور لیاقت، اسلام سے محبت، غایت درجہ الفت اوراس کے تئیں جذبۂ فداکاری اور اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لیے ہمہ تن پیشی وانہماک؛ دعوت کی راہ میں حائل قوتوں سے جنگ و مزاحمت اور دشمن طاقتوں سے اپنا لوہا منوانا اور ہر پہلو سے ایک فولادی، مستحکم اور ناقابل تسخیر پہاڑ ثابت ہونا اور ایسے ایسے کارنامے انجام دینا جن پر عقول انسانی آج تک دنگ ہیں ایسی روایتی یا عام سی افسانوی کہانی نہیں یا ایسا کوئی تصوراتی خاکہ نہیں کہ جس کی سچائی و صداقت پر سوالیہ نشان لگایا جاسکے۔
جن چودہ صدیوں میں جتنی تصانیف اسلام کی اشاعت اور اس کے بقا و تحفظ کے عنوان سے معرض وجود میں آئیں وہ سب کی سب، صحابۂ کرامؓ کی خدمات جلیلہ اور بہترین کارکردگیوں کا واضح اعتراف ہیں، واقعہ نگاروں نے ایسے بے شمار تذکرے کتابیں اور تصانیف تحریر کی ہیں جو صحابۂ کرامؓ کے کردار اور ان کے مقام کے تعیین و انتخاب میں بدیہی دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دراصل معروضہ اور مقصد یہ ہے کہ صحابۂ کرامؓ کی تمام تر خدماتِ جلیلہ کے باوجود، مسلم طبقے میں صحابۂ کرامؓ کے تئیں اعتقادی حوالے سے وہ عملی استحکام نہیں جو ایک مسلم کے دل میں ہونی چاہیے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ حضرات جن کی انتھک جدوجہد اور تعاون کے بعد اسلام کو ایک وسیع اور عالمگیر فضا ملی انہیں ہی فراموش کردیاگیا اور ان کی خدمات کو ذہول و نسیان کے خانے میں ڈال دیاگیا جو مسلم قوم کے لیے کسی بدترین المیہ سے کم نہیں۔
آج کی تاریخ میں امت مسلمہ کا موجودہ بحران اور اس کی ناقابل تدارک پسماندگی کے جو بھی اسباب ہوں اور جیسے بھی محرکات و مضمرات ہوں وہ ایک المیہ ہے۔ دراصل آئیڈیل ہدف کی تعیین، ان تمام المناک مراحل کا سدباب ہے۔ آج اگر ہم صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مبارک زیست کے اصول اور حیات گزاری کے اسلوب کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک لائحۂ عمل تیار کریں گے اور اسے برتیں گے تو عین ممکن ہے کہ مسلم کمیونٹی کے لیے دن بدن پیدا ہونے والے مسائل کی شیطانی رفتار، تھم جائے اور امت مسلمہ کی پسماندگی چھٹتی نظر آئے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم صحابۂ کرام کی زندگی کی طرف ایک بار دوبارہ مڑکر دیکھیں اور ان کی جدوجہد سے لبریز تاریخ کے انقلابی گوشوں کو مشعل راہ بنائیں، ہوسکتا ہے؛ بلکہ عین ممکن ہے کہ امید کے امکانات روشن ہوں گے، ہمیں اپنے مسائل سے چھٹکارا ملے گا اور کھوئی ہوئی عظمت رفتہ پھر دوبارہ ہمیں مل جائے گی۔
اور یہ بعید نہیں!!!
چودہ سو سالہ تاریخ شاہد ہے، کہ صحابۂ کرامؓ کو جنہوں نے اپنا آئیڈیل بنائے رکھاتاریخ نے ان کا تذکرہ جلی حروف سے کیا، اور صحابہؓ کو اپنا آئیڈیل ماننے والے اور ان کے نقوش کو مشعل راہ بنانے والے خود بھی آج ہمارے دلوں میں ایک آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
کیوں نہ ہم بھی آج سے یہ عہد کرلیں……کہ ہم بھی صحابۂ کرامؓ کو اپنا آئیڈیل بنائیں!
پھر نہ تو ہمارا ذہن خلشفار کا شکار ہوگا، اور نہ آئیڈیالوجیکل وار(نظریاتی جنگ) ہم پر اثر کرے گی، نہ عالم کفر کی ایٹمی قوت ہمارے سامنے کوئی وقعت رکھےگی، نہ ہم مسلکی اختلافات کا شکار ہوں گے، نہ ہماری قوت منتشر ہوگی، اور نہ ہم قومیت و وطنیت جیسے بتوں کی پوجا کریں گے، اور نہ ہم دین اسلام کے علاوہ کسی نظام کے فریب میں آکر اس کا حصہ بنیں گے(چاہے وہ نظام:سیکولرازم،نیشنل ازم،بادشاہت یا جمہوریت ہو)، اور نہ ہم خوارج کی طرح امت کی اجتماعیت کو پارہ پارہ کریں گے (جیسا کہ ہمارے زمانے کے خوارج داعش نے امت کے بچے کھچے شیرازے کو بکھیرا، اور امت کے بہترین لوگوں کو سستے اور وہمی دلائل کی بنا پر شہید کر ڈالا)۔
یہ سب کچھ تب ممکن ہوگا، جب ہم ذہنی اعتبار سے منہج اہل سنت کو اپنے اذہان و اجسام پر لاگو کریں گے۔ اللہ تعالی ہمیں صحابۂ کرامؓ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں!!!