نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد
فاعوذ بالله من الشیطان الرجیم بسم ﷲ الرحمن الرحیم
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (سورۃ النور:۵۵)
’’ تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں، ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں ضرور زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گا، جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو بنایا تھا، اور ان کے لیے اس دین کو ضرور اقتدار بخشے گا جسے ان کے لیے پسند کیا ہے، اور ان کو جو خوف لاحق رہا ہے، اس کے بدلے انہیں ضرور امن عطا کرے گا۔ (بس) وہ میری عبادت کریں، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور جو لوگ اس کے بعد بھی ناشکری کریں گے تو ایسے لوگ نافرمان ہوں گے ۔ ‘‘
سب سے اہم واَقدم فریضہ
تلاوت شدہ آیت کریمہ کے ضمن میں ابھی تک جو معروضات پیش کرچکا ہوں آپ کو اندازہ ہوچکا ہوگا کہ مذکورہ آیت اور کئی دیگر آیات مبارکہ میں بار بار ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ کو لازمی قرار دیا گیا ، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مومن اور مسلم حقیقی طور پر اس وقت تک مومن او رمسلمان کہلوانے کا حقدار نہیں جب تک ایمان و اسلام کے دعوے کے ساتھ اعمالِ صالحہ پر گامزن اور معاصی سے اجتناب نہ کرے۔مسلمان کو اپنی زندگی انہی مقدس مقاصد کی تکمیل کے لیے وقف کرنی ہوگی۔ رحمۃ للعالمین، سردار دو عالم ﷺکی حیات مقدسہ انہی مقاصد کی تعلیم و تبلیغ میں صرف ہوئی۔ یہی اہم فریضہ جو صحابہ ؓ آپؐ کے بعد خلافت و امارت کے منصب جلیلہ پر فائزہوئے انہوں نے بھی حضورؐ کے مقررہ اصولوں کے مطابق احسن طریقہ سے ادا کردیا۔
اطاعت کی برکتیں
وہ مختصر جماعتِ مہاجرین وانصار ، اللہ اوررسول ؐ کی ہر بات ماننے کے ایسے عادی بن چکے تھے کہ ایمان وعمل صالح کے نتیجہ میں جوبشارتیں ، ان کو دی جاتیں ان کا یقین محکم ہوجاتا کہ ان اعمال کے نتیجہ میں آخرت کی رحمت، مغفرت او رجنت الفردوس کا ملنا تو یقینی ہے بلکہ نہ صرف آخرت، دنیا ہی میں ان دونوں کی بدولت بڑی بڑی نعمتیں مثلاً سلطنت ، امانت، خلافت اور عزت وغیرہ کا حاصل ہونا بھی یقینی امر ہے۔ اور یہی پھر ہوا بھی۔ جس قوم کی معاشرے میں کوئی قدرومنزلت اور عزت نہ تھی تمام شوکتیں ان کے ہاتھ میں آگئیں۔
صحابہ کرامؓ کا مقدس مشن
اسی دور کی وہ قومیں جو ان کے سامنے شیربن کر ان کو ہروقت للکار رہی تھی وہ ان کے سامنے لومڑی اور گیڈر سے بھی کمزور بن کر قدموں میں جھک گئیں۔ امت کے طبقۂ علیا سے تعلق رکھنے والے اس خدا پرور، دوریش اور فقیر منش مختصر جماعت صحابہ کا مقصد دوسری اقوام سے عزت و دولت چھیننا نہ تھا بس صرف ایک ہی مدعاتھا کہ خود بھی دینِ متین کے عامل بن جائیں اور لوگوں سے بھی یہی مطالبہ تھا کہ نیک، متقی اور صرف اللہ کے عبادت کرنے والے بن جاؤ، نہ ان کو اقتدار کی طلب اور نہ بڑے سے بڑے عہدے کی خواہش و لالچ تھی۔
صحابہ کرامؓ کے شب روز
ھم باللیل رھبان وبالنھار فرسان کا لقب پانے والے ساری ساری رات نماز ، ذکر، دعاؤں اور خالق کائنات کے حضور رو رو کر گزارتے۔خشیت الٰہی سے ان کے قلوب معمور و منور تھے۔ راتیں اس کیفیت میں اور دن ایک نڈر اور بہادر سپاہی کی طرح اعلائے کلمۃ اللہ کی سربلندی کے لیے گھوڑے کی پشت پر گزارتے۔ اخلاق محمدیؐ اوراعلیٰ کردار کو لے کر جب میدان عمل میں نکلے تواس راستہ میں جو مفسد اور باطل قوت رکاوٹ بن کر زورآزمائی کی کوشش کرتی خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتی اور اس کا نام و نشان ہی مٹ جاتا۔
صحابہ کرام کی مجاہدانہ عظمتِ شان
حضرت عمرؓ کا دور خلافت ہے مسلمانوں نے اپنے جوش ایمانی اور اطاعت ربانی کے باعث طاقت و حکومت کے نشے میں مدہوش قیصروکسریٰ یعنی روم و ایران کی عظیم الشان حکومتوں کو شکست دے کر ان کا نشہ وغرور پاش پاش کردیا۔ تاریخ کوئی ایسی مثال پیش نہیں کرسکتی کہ ایک طرف چند صحرانشین اور درویش جن کے پاس روایتی اور وقتی ہتھیار بھی نہیں۔دوسرے طرف لاکھوں کی تعداد میں حاکمانِ کسریٰ کی تنخواہ دار فوج، ظاہری آلات و اسباب حرب سے مالا مال…… شدید جنگ ہوئی، مسلمان غازیوں ، مجاہدوں اور صحابہ کی کل تعداد قریباً ۳۰ ہزار ، ایرانیوں کا لشکر تین لاکھ نفوس پر مشتمل اور ہر قسم کے اسلحہ سے لیس، قیادت گورنر خراسان کے بیٹے رستم جو نہایت شجاع اور جنگی امور کاماہر تھا، کے ہاتھ میں تھی۔اہل فارس کو مذہبی غیرت کا جوش دلا کر ان میں اتحاد واتفاق پیدا کرنے کی کوشش کی۔ مجاہدین کے پاس وردی تک نہیں۔ کسی کے پاس صرف لمبا کرتہ اور کسی کے ہاتھ میں خنجر۔ چند کے ہاتھوں میں تلوار اور بعض نیزے اٹھائے ہوئے تھے۔ نہ غذا کا باقاعدہ انتظام ہے اور نہ اسلحہ و خوراک وغیرہ کے رسد کے ذرائع و وسائل۔ اپنے سروں کو ڈھانپنے کیلیے پگڑیاں بھی تمام غازیوں کومیسر نہ تھیں، جس کے پاس پگڑی نہ تھی تو سرپر رسی باندھی ہوئی تھی۔ وہ صرف ایمان اوراللہ و رسول کی اطاعت و محبت سے بھرپور ہوکرمیدان ِ کارزار میں لاکھوں ایرانیوں کی یلغار کا مقابلہ کرنے آئے تھے۔ لاکھوں فارسی …… صحابہ اور مجاہدوں کے چند ہزار پرمشتمل لشکر جرار کا سامنا کرتے ہی ان میں بھگڈر مچ گئی۔ صحابہ شیروں کی طرح ایرانیوں پر حملہ آور ہوئے۔دشمن نے ان کا مقابلہ کرنے کی بجائے میدان جنگ سے بھاگنا شروع کردیا۔
صحابۂ کرام کی اخلاقی بلندیاں
اس زمانے کا نامور اور مشہور جنگو اور پہلوان رستم اپنے لاکھوں فوجیوں کو بلیوں اور چوہوں کی طرح بھاگتے ہوئے دیکھ کر حیرانی وپریشانی کی حالت میں اپنے ماتحت کمانڈروں سے اپنی شکست کی وجوہات پوچھ رہاتھا کہ ہماری لاکھوں کی فوج جن کے پاس ہر قسم کا اسلحہ ، وسائل، ظاہری قوت وسطوت موجود ہے اور مقابلہ میں چند ہزار ظاہری بے یارومددگار، وسائل جنگ سے محروم ، کمزور عرب بدوؤں کے سامنے ٹھہرنے کی بجائے کیوں راہ فرار اختیار کررہے ہیں۔ رستم کے ماتحتوں نے اپنی جان بخشی کی شرط پر اور نئی تہذیب کے دلدادہ مسلمانوں کے لیے عبرت اور سبق حاصل کرنے کے لیے بے شمار راز پوشیدہ ہیں برملا اقرار کیا کہ وہ بھی انہی مختصر جماعتِ صحابہ و مسلمانوں کے کردار و اخلاق کو اپنا کر فارس جیسے عظیم اسلام دشمنوں کا تیاپانچا کرسکتے ہیں……رستم پہلوان کے زیرکمان لڑنے والے جنگجوئو ں نے واضح اقرار کیا کہ یہی بے سروسامانی کی حالت میں لڑنے والے عنقریب تمہارے پورے ملک پر قبضہ کرنے والے ہیں۔سلطنت فارس کے لشکر ہر محاذ پر شکست سے دوچار ہو جائیں گے ان کی طاقت وقوت پاش پاش ہوجائے گی۔ کیونکہ اخلاق عالیہ ، امانت ودیانت، شفقت و محبت اپنے رب کی اطاعت ، زہدو تقویٰ جیسے اوصاف سے مالا مال ہوکر ان لڑنے والوں کی تقدیر میں یقیناً فتح ہی فتح ہوگی۔ یہ ایسی عجیب و غریب مخلوق ہے۔ کہ دن بھر دشمن کے مقابلہ میں لڑتے ہیں۔ رات بھر اپنے خالق ومالک کے آگے آہ وزاری میں اس سے مدد کے طلبگار رہتے ہیں۔عاجزی و انکساری میں یہ لوگ بے مثال ہیں۔ اپنی طاقت اور قوت کے نشے میں مبتلا رہنے کی بجائے اپنے رب سے فتح و نصرت کے طلبگار ہیں۔ ان کی برکت سے بے آب و گیاہ اور اجڑے ہوئے علاقے آباد اور سرسبز ہوجاتے ہیں۔ کسی غیر کی عورت کو بدنظر سے دیکھنے کا تو ان کے ہاں تصور نہیں۔ ان کے مقابلہ میں تیری فوج اخلاقی قوت سے بالکل عاری، امانت و دیانت کا ان کے ہاں ذکر تک نہیں۔ شراب نوشی و زنا ان کا محبوب مشغلہ ، لوٹ مار اور دوسروں کے اموال پر قبضہ کرکے اسے شیرِ مادر کی طرح حلال سمجھتے ہیں۔ جس علاقہ میں داخل ہوجاتے ہیں ہنستے بستے اور سرسبز و شاداب علاقے کھنڈرات میں تبدیل ہوکر لوگوں کے باغات اورفصل بنجر و بے آب و گیاہ ہوجاتے ہیں۔ اب خود موازنہ کرلو کہ فتح تمہاری ہوگی، یا ایمان صالحہ کے فولادی اسلحہ سے لیس ان دوریشوں کی ہوگی؟ اور پھر وعدۂ ربانی کا ایفا کرتے ہوئے یہی ہوا۔ عظیم سلطنت فارس کے لاکھوں فوجیوں کو شکست اس کے جانے پہچانے پہلوان جرنیل رستم کو تیسرے معرکہ میں موت کے گھاٹ اتا رکر اس کی موت کے ساتھ اپنی کرسی اور اقتدار اوردنیا پر غلبہ پر غرور حاصل کرنے والوں کے خواب ان فقرا کے ہاتھوں چکنا چور ہوکر ایرانی سلطنت کا خاتمہ ہوا۔ شاہان کسریٰ کی مملکت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے۔
اسلامی سلطنت کی وسعتیں
مکہ وجزیرۃ العرب آنحضرت کے زمانہ میں فتح ہوئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں فارس ، شام ، مصر، دمشق و دیگر اہم علاقوں میں اسلام کے جھنڈے سربلند ہوکر کفر کے درختوں کی بیخ کنی شروع کردی گئی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی امارت میں یہ فتوحات بام عروج پرپہنچیں۔ اپنے اپنے وقت اور علاقوں کے ان بڑے بڑے فرعونوں کے سیم وزر سے بھرے ہوئے خزانے، دین کے نام پر اپنا سب کچھ قربان کرنے والوں کے قبضہ میں آکر فقرا ومساکین او رحاجت مندوں کے دروازوں پر لے جا کر ان میں تقسیم کر دیے گئے۔حضرت عثمان غنی ذی النورین مسند نشین خلافت ہوئے۔ ان کے دور خلافت میں اسلامی مملکت کی سرحدات مزید پھیلتی گئیں۔الجزائر و مراکش کے موجودہ ممالک جن کو افریقہ میں شمار کیا جاتا تھا۔ سپین کے بعض حصے ، قبرص و طبرستان او رکئی اور علاقے ان ہی کے سربراہی میں فتح ہوکر اسلامی سلطنت کا حصہ بن گئے۔
صحابہ ؓ حق و انصاف کے علمبردار تھے
اپنے سے کئی گنا طاقتور اور بڑی حکومتوں سے ٹکر لے کر فتوحات حاصل کرنے کی وجہ یہی تھی کہ وحیٔ الٰہی کی روشنی میں ان کی ایسی تربیت او رنفوس کا تزکیہ ہوا کہ وہ زہد اور تقویٰ کا مجسمہ بن گئے۔ عفت، امانت، خوفِ خدا، ایثار و قربانی میں اپنی مثال آپ تھے۔ حکومت اور عہدے کی حرص و لالچ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ اللہ کے قانون کے مطابق لوگوں کے فیصلے کرتے تھے، حق وانصاف کے ایسے علمبردار تھے کہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی حق و انصاف کا دامن ترک کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔
امت کے لیےلائحۂ عمل
اللہ کے اٹل فیصلے کے مطابق فتح و شکست ، عزت و ذلت کے اپنے اپنے اسباب و عوامل ہیں۔جس نے جس راہ کو اختیار کیا نتیجہ اسی کے مطابق حاصل ہوگا۔ ارشاد باری ہے:
اِنْ يَّنْصُرْكُمُ اللّٰهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ وَاِنْ يَّخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِيْ يَنْصُرُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِھٖ وَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ (سورۃ آل عمران:۱۶۰)
’’ اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں، اور اگر وہ تمہیں تنہا چھوڑ دے تو کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرے ؟ اور مومنوں کو چاہیے کہ وہ اللہ ہی پر بھروسہ رکھیں۔ ‘‘
کاش اگر ہم اللہ کے صحیح بندے بن جائیں تو ہرلمحہ و گھڑی اللہ کی امداد شامل رہے گی۔ جب اللہ کسی کا معاون بن جائے ، تو پھر سمندر ودریا ، جنگل و پہاڑ بھی اس کے حکم سے مسخر ہوجاتے ہیں۔ بادلوں پر بھی انہی کا حکم چلتا ہے۔ اشارہ کرتے ہی اللہ کے حکم پر بارش برسنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔عقیدہ مسلمان کا مضبوط ہوجاتاہے کہ حضورؐ کی ارشاد کردہ دعا : اللھم لامانع لما اعطیت ولا معطی لما منعت ’’ یا اللہ جو نعمت(عظمت وعزت) تو دے دے اس کو روکنے والا کوئی نہیں او رجو نعمت تو منع کردے (روک دے) اس کو دینے والا کوئی نہیں‘‘ کا ظہور ووقوع یقینی ہے، شرط یہ کہ اپنے آپ کو خالق ومالکِ کون و مکان کی عبادت کے لیے وقف کردیں اور اپنے اعمال و زندگیوں کو قرآن و حدیث کی حدودوقیود کے اندر گزاریں۔ مسلمانوں کی عظمتِ گزشتہ پراگر ایک نظر ڈالیں اوراپنے پیغمبر کی پیشن گوئیوں کا مطالعہ کریں کہ آج بھی مسلمانوں کی رہی سہی جو سلطنتیں قائم ہیں۔وہ حضورؐ کی پیشن گوئیوں کی حقانیت اور اللہ کی جانب سے نیک عمل کرنے والے ایمان کے زیور سے آراستہ مسلمانوں سے وعدہ کرنے ہی کا صلہ اور نتیجہ ہے۔
اصلاح احوال کی طرف توجہ کی ضرورت ہے
اس دور میں مسلمان کلمۂ شہادت کے علمبردار بن کر بھی اپنے ہرفعل و قول میں اللہ سے کیے ہوئے وعدوں میں نافرمانی پر اصرار کرتے چلے جارہے ہیں۔اصلاح احوال کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے شکوہ بھی اسی رب سے کررہے ہیں جس کے بتائے ہوئے صراط مستقیم سے بھٹک کر کفری طاقتوں کی دوستی اور سایوں میں سکون تلاش کررہے ہیں۔ عجیب تضاد ہے۔موجودہ ہمارے اعمال و گفتار کی موجودگی میں یہ کہنا کہ رب کائنات نے اپنی رحمت ومدد روک دی ہے اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنا او رجان بوجھ کر اپنے زوال اور بیماریوں کے اسباب سے آنکھیں چرانے کا ایسا المیہ ہے جس کے انجام میں مسلمان قدم قدم پر عذاب الٰہی کو مزید دعوت دینے کے مرتکب ہورہے ہیں۔
صحابہ کی امتیازی شان رجوع الی اللہ
ایک وہ مقدس وروحانی دور تھا کہ جب کوئی آفت، مصیبت، اور خطرے کی گھڑی آتی وہ پاکیزہ نفوس فوراً رجوع الی اللہ کرکے آفات کے ازالہ کے لیے خدا ہی کو یاد کرتے ، کبھی انہوں نے ظاہری اسباب و علل پر اعتماد نہیں کیا۔ خشوع و خضوع، عجزو انکساری کے اظہار کے ساتھ ہی اللہ کی رحمت کا نزول شروع ہوجاتا، غزوۂ احد کے پُرخطر موقع پر آنحضرتؐ نے اللہ ہی سے غالب آنے اور فتح حاصل کرنے کے لیے آہ وزاری سے دعا کی جس کا نتیجہ فتح کی صورت میں نکلا۔
’’حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ غزوۂ بدر کے موقع پر دعا فرمارہے تھے ’یا اللہ میں تجھ سے تیری امان چاہتا ہوں۔ او رتیرے وعدے کا پورا کرنا چاہتا ہوں‘۔ حضرت ابوبکرنے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا کہا یا رسول اللہ ﷺ بس فرمائیے (کافی ہے) آپ نے اپنے رب سے آہ وزاری او ر گڑگڑانے کیساتھ جو دعا فرمائی یہی فتح و کامیابی کے لیے کافی ہے۔ جس کے بعد آپ ﷺ اطمینان و مسرت سے (زرہ پہنے ہوئے) یعنی مسلح ہوکر خیمہ سے باہر آکر اور بلند آواز سے اسی وقت نازل ہونے والی آیت پڑھ رہے تھے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ عنقریب کفار کی یہ جماعت شکست کھا کر اور سامنے آنے کی بجائے پیٹھ پھیر کر بھاگ جائی گی۔‘‘
صرف اسی ایک ہی واقعہ میں آج کے زوال پذیر اور پسے ہوئے مسلمانوں کی مذہبی و قومی سربلندی و عروج کے لیے ایک ایسا بیش قیمت نسخۂ اکسیر اور دعوت موجود ہے کہ اسے اپنا کر کفار واغیار کی سازشوں او رریشہ دوانیوں سے بچ سکتے ہیں اور وہ یہی ہے کہ سختی اور مصائب کے موقع پر ہم خدافراموشی اور خود فراموشی کو ترک کرکے رجوع الی اللہ ، عجزوبندگی ، خودداری ، اور اللہ کے رسول کے وعدوں پر کامل بھروسہ واعتماد، عمل صالح ، خشیت الٰہی ، مجاہدۂ نفس جیسے اوصاف حمیدہ پرعمل پیرا ہوکر مسلمان اپنی گم کردہ عظمت ومقام کو دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں۔
مالک ِکون ومکان ہم او رآپ سب کو اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق نصیب فرماویں، آمین!
٭٭٭٭٭