شیخ الاسلام ابنِ تیمیہؒ فرماتے ہیں:
’’یہ بات تواتر سے عوام و خواص کے نزدیک ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خصوصی تعلق تھا۔ اور ان تینوں حضرات کو آپﷺ کا قرب و اختصاص حاصل تھا اور ان تینوں کے آپﷺ کے ساتھ رشتے ہیں۔ دو کی صاحبزادیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں تھیں۔ اور ایک کے نکاح میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں تھیں۔اور کہیں اس کا ذکر نہیں آتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مذمّت کرتے تھے، یا ان پر لعنت کرتے تھے۔ بلکہ معروف یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت کرتے تھے اور ان کی تعریف فرماتے تھے۔اب دو حا ل سے خالی نہیں، یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ یہ تینوں حضرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ظاہراً و باطناً صالح، وفادار،سلیم العقیدہ اور صحیح العقل تھے۔ یا یہ کہ وہ تینوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد استقامت پر نہیں تھے، اور (معاذاللہ)دین سے منحرف تھے۔ دوسری صورت میں اگر اس حالت اور انحراف کے باوجود ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تقرب حاصل تھا، تو دو میں سے ایک بات ماننی پڑے گی۔ یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے حالات کا علم نہیں تھا، یا علم تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم (معاذ اللہ ) مداہنت کرتے تھے۔ ان دونوں صورتوں میں سے ہر صورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان پر بڑا دھبّہ اور بہت بڑا اعتراض ہے۔
یہ تو وہی بات ہو گی جو شاعر نے کہی ہے:
فإن کنت لا تدري فتلك مصیبۃ
وإن کنت تدري فالمصیبۃ أعظم
اور اگر یہ کہا جائے کہ آپ ﷺ کی زندگی تک تو وہ راہِ راست پر تھے، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اپنی امّت کے خواص اور اکابر اصحاب کے بارے میں بڑا دھوکہ اور ناکامی ہوئی۔ جس شخص کو اپنے بعد کی اطلاعیں دی گئی تھیں اور جس نے اپنے بعد ہونے والے واقعات کی خبر دی، اس کو اتنی بات نہیں معلوم تھی کہ اس کے اخص خواص اس طرح منحرف ہو جائیں گے۔ اور احتیاط کاتو یہی تقاضا تھا کہ امّت کو آپ ﷺ اس کی خبر دے جاتے، تاکہ وہ غلطی سے کہیں ان کو خلیفہ نہ بنا لیں اور جس شخص سے یہ وعدہ کیا گیا کہ اس کا دین تمام ادیان پر غالب ہو گا، اس کے اکابر و خواص کیسے مرتد ہو سکتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسی باتوں سے روافض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر بہت بڑا اعتراض کرتے ہیں۔ حضرت امام مالکؒ نے صحیح فرمایا کہ دراصل روافض نے رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی کو مطعون کرنا چاہا تاکہ لوگ کہیں کہ برے آدمی تھے، اس لیے ان کے برے ساتھی تھے۔ اگر اچھے آدمی ہوتے تو ان کے ساتھی بھی اچھے ہوتے، اسی لیے اہلِ علم کا قول ہے کہ رفض زندقہ کی ایک سازش ہے۔‘‘1
فضائلِ صحابہؓ قطعی و متواتر ہیں
امام ابن تیمیہؒ صحابۂ کرام کی عدالت کو اسلام کی ایک اہم بنیاد مانتے ہیں اور ان کو ان کی صداقت و ثقاہت پر بڑا یقین ہے۔ وہ ان کو اسلام کی تعلیم کا سچا نمونہ اور رسول اللہ ﷺ کی تربیت اور فیضِ صحبت کا بہترین نتیجہ تسلیم کرتے ہیں،ان کے نزدیک صحابۂ کرام کے فضائل ایسے قطعی اور متواتر ہیں ، اور قرآن مجید کی ایسی صریح نصوص و آیات سے اور ایسی صحیح احادیث و روایات سے ثابت ہیں کہ وہ کسی تاریخی روایت یا کسی غریب و شاذ حدیث سے مشکوک نہیں ہو سکتے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’جب کتاب و سنّت اور نقلِ متواتر سے صحابۂ کرامؓ کے محاسن و فضائل ثابت ہو چکے ہیں، تو یہ درست نہیں کہ وہ ایسی منقولات سے ردّ ہو جائیں جن میں سے بعض منقطع، بعض محرّف ہیں، اور بعض ایسی روایات ہیں جن سے ان ثابت شدہ حقائق پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اس لیے کہ یقین، شک سے زائل نہیں ہوا کرتا، ہم کو کتاب و سنّت اور اپنے پیشروؤں کے اجماع اور ان کی مؤید اور متواتر روایات اور عقلی دلائل سے اس بات کا یقین ہو چکا ہے کہ صحابۂ کرام انبیا علیہم السلام کے بعد افضل الحق تھے، اس یقینی و متواترچیز پر ان امور کا اثر نہیں پڑ سکتا جو مشکوک و مشتبہ ہیں، چہ جائیکہ جن کا باطل ہونا ظاہر ہو چکا ہے۔‘‘2
امام ابنِ تیمیہؒ اس کے قائل نہیں کہ صحابۂ کرام انبیاء علیہم السلام اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح معصوم تھے، ان سے گناہ کا صدور ہو ہی نہیں سکتا تھا، لیکن وہ اس کے ضرور قائل ہیں کہ امّت کے تمام لوگوں میں وہ سب سے زیادہ عادل، خدا ترس، صادق القول، امین اور راست باز تھے۔ اگر ان سے غلطیاں یا گناہ ہوئے تو اس کے مقابلے میں ان سے ایسے اعمالِ حسنہ اور خدا اور رسول ﷺ کو راضی کرنے والے کام ہوئے، جو ان سیّئات کا کفارہ بن گئے۔ اور بہر حال ان کے حسنات اور اعمال کا پلّہ ان کی تقصیرات پر بھاری ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکسی کے بھی گناہوں سے معصوم ہونےکے قائل نہیں، چہ جائیکہ خطاء فی الاجتہاد کے بھی قائل نہ ہوں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَالَّذِي جَاء بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ لَهُم مَّا يَشَاءُونَ عِندَ رَبِّهِمْ ذَلِكَ جَزَاء الْمُحْسِنِينَ لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا وَيَجْزِيَهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ (سورۃ الزمر:۳۳–۳۵)
’اور جو سچی بات لایا اور جس نے اس کی تصدیق کی وہی پرہیزگار ہیں، ا ن کے لیے جو کچھ وہ چاہیں گے، ان کے ربّ کے پاس موجود ہو گا، نیکوکاروں کا یہی بدلہ ہے تاکہ اللہ ان سے وہ برائیاں دور کر دے جو انہوں نے کی تھیں اور اللہ ان کو ان کا اجر دے، ان نیک کاموں کے بدلے میں جو وہ کیا کرتے تھے۔‘
دوسری جگہ فرماتے ہیں:
أُوْلَئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَنَتَجاوَزُ عَن سَيِّئَاتِهِمْ فِي أَصْحَابِ الْجَنَّةِ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ(سورۃ الاحقاف: ۱۶)
’یہی وہ لوگ ہیں جن سے ہم وہ نیک عمل قبول کرتے ہیں جو انہوں نے کیے اور بہشتیوں میں شامل کر کےان کے گناہوں سے درگزر کرتے ہیں۔ یہ اس سچے وعدے کے مطابق ہے جو ان سے کیا گیا تھا‘۔‘‘
صحابۂ کرام ؓ کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی
وہ کہتے ہیں کہ ان بشری لغزشوں اور کوتاہیوں کے باوجود جو انسانیت کا لازمہ ہیں، مجموعی حیثیت سے انبیاء علیہم السلام کے علاوہ افرادِ انسانی کا کوئی مجموعہ اور انسانوں کی کوئی نسل صحاب کرامؓ سے بہتر سیرت و کردار کی نظر نہیں آتی۔ اگر ان کی زندگی میں کہیں کہیں کچھ ہلکے سے دھبّے اور داغ نظر آتے ہیں تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے سفید کپڑے میں کہیں کچھ تھوڑی سی سیاہی نظر آ جائے، یہ عیب چینوں کا قصور ہے کہ انہیں اس کپڑے میں سیاہی کا نقطہ تو نظر آیا، اور اس کپڑے کی سفیدی نظر نہ آئی، دوسری جماعتوں کا تو حال یہ ہے کہ ان کا سارا نامۂ اعمال سیاہ نظر آتا ہے۔ کہیں کہیں سفیدی نظر آتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ صحابۂ کرام اخیارِ امّت ہیں۔ امّتِ محمدی ﷺ میں کوئی ایسا گروہ نہیں ہے جو ان سے زیادہ ہدایت او ر دینِ حق پر مجتمع اور تفرق و اختلاف سے دور ہو، ان کی زندگی میں کوئی نقص کی بات بھی نظر آتی ہے، تو اگر اس کا کسی دوسری امت کے حالات سے مقابلہ کیا جائے تو اس کے مقابلے میں اس کی کوئی حقیقت معلوم نہیں ہوتی۔ غلطی اس شخص کی ہے جس کو سفید کپڑے کی تھوڑی سی سیاہی تو نظر آتی ہے مگر سیاہ کپڑے کی تھوڑی سی سفیدی نظر نہیں آتی، یہ بڑی نادانی اور بڑا ظلم ہے۔ اگر ان اکابر کا اپنے ہم مرتبہ لوگوں سے مقابلہ کیا جائے تو پھر ان کی فوقیت اور ان کی ترجیح ظاہر ہو۔ باقی یہ کہ کوئی شخص اپنے دل میں کوئی خیالی تصویر بنائےیا کوئی معیار تجویز کرے جس کو اللہ نے پیدا ہی نہ کیا ہو، تو اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ ایک شخص اپنے دل میں ایک امام معصوم کا تصور قائم کر لیتا ہے، ایک شخص ایک اور ایسے امام کا تصور قائم کرتا ہے جس میں اور معصوم میں کوئی فرق نہیں، اگرچہ اس کو صاف صاف معصوم نہیں کہتا۔ اور وہ تجویز کرتا ہے کہ عالم کو یا شیخ کو یا امیر کو یا بادشاہ کوایسا ہی ہونا چاہیے۔ اور خواہ وہ کیسا ہی کثیر العلم، کیساہی دیندار صاحبِ محاسن ہو، اور اس کے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ نے کیسے ہی خیر کے کام کرائے ہوں، لیکن یہ تجویز کرتا ہے کہ اس کو ایسا کامل العلم ہونا چاہیے کہ اس پر کوئی چیز پوشیدہ نہ ہو، اور وہ کسی بھی مسئلہ میں غلطی نہ کرے۔ وہ بشریت کے لوازم اور خصائص سے پاک ہو۔ کبھی اس کو غصّہ نہ آتا ہو……تو اس کا کوئی علاج نہیں، بلکہ بہت سے لوگ تو ان ائمہ کے متعلق وہ تجویز کرتے ہیں جو انبیاء تک کے لیے تجویز نہیں کرتےہیں……‘‘3
امام ابنِ تیمیہؒ اس پر بڑا زور دیتے ہیں کہ جس شخص کی ساری تاریخ پر نظر ہو گی، اور اس نے مختلف قوموں، امّتوں اور ملّتوں کے حالات پڑھے ہوں گے ، اور مختلف انسانی جماعتوں کا تجربہ کیا ہو گا، اس کو اس بات کا یقین ہو جائے گا کہ صحابۂ کرام سے زیادہ متحد، حق کا پیرو، فتنہ اور افتراق سے نفور اور نفسانیت اور دنیا داری سے دور کوئی جماعت نہیں گزری، وہ لکھتے ہیں:
’’فمن استقراء اخبار العالم فی جمیع الفرق تبین لہ انّ لم یکن قطّ طائفۃ اعظم اتفاقا علی الھدی والرشد والبعد عن الفتنۃ والتفرق والاختلاف من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، الذین ھم خیر الخلق بشھادۃ اللہ لھم بذلک اذ یقول تعالیٰ (کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر و تومنون باللہ).‘‘
’’جس شخص نے دنیا کے تمام فرقوں کے حالات و واقعات کا اہتمام سے مطالعہ کیا ہے اور ان کے حالات کا تتبع کیا ہے، وہ جانتا ہے کہ کوئی گروہ ایسا نہیں گزرا جو ہدایت و رشد پر صحابہ کرام ؓسے زیادہ مجتمع اور تفرق و اختلاف سے ان سے زیادہ دور ہو۔ ان صحابہ کرام ؓ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے شہادت دی ہے کہ وہ اس کی مخلوق میں سب سے بہتر ہیں۔ وہ فرماتا ہے کہ ’تم وہ بہترین امّت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو‘۔‘‘
مسلمانوں میں جو کچھ خیرہے صحابۂ کرام ؓ کی برکت ہے
امام ابنِ تیمیہؒ یہ بالکل صحیح فرماتے ہیں کہ اس وقت مسلمانوں کے پاس علم و دین کا جو کچھ سرمایہ ہے، خیر و برکت کا جو کچھ ذخیرہ ہے، شعائرِ اسلام کی بلندی، اسلام کی اشاعت، عملِ خیر کے جو کچھ محرکات اور جو کچھ توفیقِ خیر ہے، اور سچ پوچھیے تو عالم میں اس وقت جو کچھ صلاح و خیر نظر آ رہی ہے، وہ سب صحابہ کرام ؓ کی جانفشانیوں، اخلاص، علوِ ہمت، ایثار اور قربانیوں کا نتیجہ اور ان کے نفوسِ قدسیہ کی برکت و نورانیت ہے۔ امام ابنِ تیمیہؒ بڑے جوش سے لکھتے ہیں:
’’واما الخلفاء والصحابۃ فکل خیر فیہ المسلمون الی یوم القیامۃ من الایمان والاسلام والقراٰن والعلم و المعارف والعبادات و دخول الجنۃ والنجاۃ من النار، وانتصارھم علی الکفار و علو کلمۃ اللہ‑ فانما ھو ببرکۃما فعلہ الصحابۃالذین بلغوا الدین و جاھدوا فی سبیل اللہ۔ و کل مومن اٰمن باللہ فللصحابۃ رضی اللہ عنھم علیہ فضل الی یوم القیامۃ۔ و کل خیر فیہ الشیعۃ وغیرھم فھو ببرکۃ الصحابۃ۔ وخیر الصحابۃ تبع لخیر الخلفاءالراشدین فھم کانوااقوم بکل خیرفی الدین والدنیامن سائر الصحابۃ۔‘‘
’’اس وقت سے لے کر قیامت تک مسلمانوں کے پاس جو کچھ خیر ہے مثلاً ایمان و اسلام، قرآن، علوم و معارف، عبادات،دخولِ جنت اور جہنم سے نجات، کفار پر غلبہ، اللہ کے نام کی بلندی، وہ سب صحابۂ کرام کی کوششوں کی برکت ہے، جنہوں نے دین کی تبلیغ کی اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا۔ جو مومن بھی اللہ پر ایمان لایا، اس پر صحابۂ کرامؓ کا احسان قیامت تک رہے گا۔اور شیعہ وغیرہ کو بھی کچھ خیر حاصل ہےتو وہ بھی صحابۂ کرامؓ کی برکت سے۔ اور صحابۂ کرام کی خیر خلفائے راشدین کی خیر کے تابع ہے، اس لیے کہ وہ دین و دنیا کی ہر خیر کے ذمہ دار و سرچشمہ تھے۔‘‘
٭٭٭٭٭
1 منہاج السنۃ: ج۴، ص۱۲۳
2 حصّہ ۳، ص۲۰۹
3 منہاج السنۃ، حصہ ۳