نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مقدس ترین طبقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بلاواسطہ فیض یافتہ اور تربیت یافتہ لوگوں کا ہے جن کا اصطلاحی لقب صحابۂ کرام ہے ، رضی اللہ عنہم اجمعین۔ خدا اور رسول نے من حیث الطبقہ اگر کسی گروہ کی تقدیس کی ہے تو وہ صرف صحابۂ کرام کا طبقہ ہے۔ ان کے سوا کسی طبقے کو من حیث الطبقہ مقدس نہیں فرمایا کہ طبقے کے طبقے کی تقدیس کی ہو۔ مگر اس پورے کے پورے طبقے کو راشد و مرشد، راضی و مرضی، تقی القلب، پاک باطن، مستمر الطاعت، محسن و صادق، اور موعود بالجنۃ فرمایا۔ پھر ان کی عمومی مقبولیت و شہرت کو کسی خاص قرن اور دور کے ساتھ مخصوص اور محدود نہیں رکھا بلکہ عمومی گردانا۔ کتبِ سابقہ میں ان کے تذکروں کی خبر دے کر بتلایا کہ وہ اگلوں میں بھی جانے پہچانے لوگ تھے اور قرآن کریم میں ان کے مدائح و مناقب کا ذکر کرکے بتلایا کہ وہ پچھلوں میں بھی جانے پہچانے ہیں اور قیامت تک رہیں گے جب تک قرآن کریم رہے گا۔ زبانوں پر، دلوں میں ہروقت کی تلاوت میں پنج وقتہ نمازوں میں، خطبات و موعظت میں، مسجدوں میں اور معبدوں میں، مدرسوں اور خانقاہوں میں، خلوتوں اور جلوتوں میں، غرض جہاں بھی اور جب بھی اور جس نوعیّت سے بھی قرآنِ کریم پڑھا جاتا رہے گا، وہیں ان کا چرچا اور اُمت پر ان کا تفوّق نمایاں ہوتا رہے گا بس بلحاظِ مدح و ثنا وہ اُمّت میں یکتا و بے نظیر ہیں جن کی انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بعد اوّل و آخر کوئی نظیر نہیں ملتی۔ مگر علمائے دیوبند نے اپنے اس مسلک میں جو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی بابت عرض کیا گیا، رشتہ اعتدال کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور کسی گوشہ سےبھی اس میں افراط و تفریط اور غلو کو آنے نہیں دیا۔
مثلاً وہ اس عظمت و جلالت کے معیار سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں تفریق کے قائل نہیں کہ کسی کو لائق محبت سمجھیں اور کسی کو معاذاللہ لائقِ عداوت سمجھیں۔ کسی کی مدح میں رطب اللسان ہوں اور العیاذ باللہ کسی کی کی مذمت میں، یا تو انہیں سب و شتم اور قتل و غارت کرنے پر اتر آئیں اور ان کا خون بہانے میں بھی کسر نہ چھوڑیں اور یا پھر ان میں سے بعض کو نبوت سے بھی اونچا مقام دینے پر آجائیں۔ انہیں معصوم سمجھنے لگیں حتیٰ کے ان میں سے بعض کو حلولِ خداوندی ماننے لگیں۔
علماء دیوبند کے مسلک پر یہ سب حضراتِ مقدسین تقدس کے انتہائی مقام پر ہیں۔ مگر نبی یا خدا نہیں۔ بلکہ بشریت کی صفات سے متصف، لوازمِ بشریت اور ضروریاتِ بشری کے پابند ہیں، مگر عام بشر کی سطح سے بالاتر کچھ غیر معمولی امتیازات بھی رکھتے ہیں۔ جو عام بشر تو بجائے خود ہیں۔ پوری امت کے اولیائے کرام بھی ان مقامات تک نہیں پہنچ سکے۔ یہی وہ نقطۂ اعتدال ہے جو حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں دیوبند نے اختیار کیا ہوا ہے۔ ان کے نزدیک تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم شرفِ صحابیّت اور صحابیّت کی بزرگی میں یکساں ہیں اس لیے محبت و عظمت میں بھی یکساں ہیں۔ البتہ ان میں باہم فرقِ مراتب بھی ہے، لیکن یہ فرق چونکہ نفسِ صحابیت کا فرق نہیں اس لیے اس سے نفسِ صحابیت کی محبت و عقیدت میں بھی فرق نہیں پڑسکتا۔
پس اس مسلک میں ’’اَلصَّحَابَةُ كُلُّهُم عَدُوٗلُ‘‘ٗ (صحابۂ کرام سب کے سب عادل تھے) کا اصول کارفرما ہے جو اس دائرے میں اہل السنۃ والجماعۃ کے مسلک کا جو بعینہ مسلک علماء دیوبند ہے اوّلین سنگِ بنیاد ہے۔
اسی طرح علماء دیوبند ان کی اس عمومی عظمت و جلال کی وجہ سے انہیں بلا استثناء نجومِ ہدایت مانتے ہیں اور یہ کہ بعد والوں کی نجات انہی کی علمی و عملی اتباع کے دائرے میں محدود ہے لیکن انہیں شارع تسلیم نہیں کرتے کہ حق تشریع ان کے لیے ماننے لگیں اور یہ کہ وہ جس چیز کو چاہیں حلال کردیں اور جسے چاہیں حرام بنادیں۔ ورنہ نبوت اور صحابیت میں فرق باقی نہیں رہ سکتا۔ پس وہ امتی تھے مگر نبوت کے مخلص ترین جاں نثار خادم تھے جن کی بدولت دین اپنے پیروں پر کھڑا ہوا اور اس نے دنیا میں قدم جمائے اس لیے وہ سب کے سب مجموعی طور پر مخدوم العالم اور خیرالخلائق بعد الانبیاء ہیں، ہاں مگر یہ حضرات اس مسلک کی رُو سے گو شارع تو نہ تھے مگر فانی فی الشریعت تھے۔ شریعت ان کا اوڑھنا بچھونا بن گئی تھی اور وہ اس میں گم ہو کر اس کے درجۂ کمال پرآگئے تھے جو مدار اطاعت ہوتا ہے اس لیے علمائے دیوبند انہیں شریعت کے بارے میں عیاذاً باللہ خائن یا متساہل یا بدنیت یا حب جاہ و جلال کا اسیر کہنے کی معصیّت میں مبتلا نہیں۔ ان کے نزدیک یہ سب مقدسین، دین کی روایت کے راوی اوّل، دینی درایت کے مبصّرِ اول، دینی مفہومات کے فہیم اوّل اور پوری امت کے مربّئ اول حسب فرمودہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُمّت کے حق و باطل تھے جن کی رُو سے فرقوں کے حق و باطل کا سراغ لگایا جاسکتا ہے۔ اگر ان کی محبّت و عظمت دل میں ہے اور بلااستثناء ہے تو وہ فرقہ حقّہ کا فرد ہے۔ اور اگر ذرا بھی ان کی عظمت و عقیدت میں کمی یا دل میں ان کی نسبت سے سوئے ظن ہے تو اسی نسبت سے وہ فرقہ ناجیہ سے الگ ہے۔ پس حق و باطل کے پرکھنے کی پہلی کسوٹی ان کی محبت و عظمت اور ان کی دیانت اور تقوائے باطن کا اعتراف اور ان کی نسبت قلبی اذعان و اعتماد ہے، اس لیے جو فرقہ بھی بلا استثناء انہیں عدولِ و متقن مانتا ہے وہی حسب ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم فرقہ حقہ ہے اور وہ الحمدللہ اہل السنۃ والجماعۃ ہیں۔ اور جو ان کے بارے میں بدگمانی یا بدزبانی کا شکار ہے تو وہی حقانیت سے ہٹا ہوا ہے۔ اس لیے شریعت کے باب میں ان کے بارے میں کسی ادنیٰ دخل و فصل کا توہّم پورے دین پر سے اعتماد اٹھادیتا ہے اگر وہ بھی معاذاللہ دین کے بارے میں راہ سے اِدھر اُدھر بھٹکے ہوئے تھے تو بعد والوں کے لیے صراطِ مستقیم پر ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور پوری اُمّت اوّل سے آخر تک ناقابل اعتبار ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس لیے حسب مسلکِ علمائے دیوبند جہاں وہ منفرداً اپنی اپنی ذوات کے لحاظ سے تقی و نقی اور صفی و دنی ہیں وہیں بحیثیت مجموعی امت کی نجات بھی انہی کے اتباع میں منحصر ہے اور وہ بحیثیت قرن خیر من حیث الطبقہ پوری امت کے لیے نبی علیہ السلام کے قائم مقام اور معیارِ حق تھے۔ پس جیسے نبوت کا منکر دائرۂ اسلام سے خارج ہے ایسے ہی ان کے اجماع کا منکر بھی دائرۂ اسلام سے خارج ہے حتیٰ کہ ان کا تعامل بھی بعض ائمۂ ہدایت کے یہاں شرعی حجت تسلیم کیا گیا ہے۔ اس لیے جذباتی رنگ سے انہیں گھٹانا بڑھانا یا چڑھانا اور گرانا جس طرح عقل و نقل قبول نہیں کرتی اسی طرح علمائے دیوبند کا جامع عقل و نقل مسلک بھی قبول نہیں کرسکتا۔ علمائے دیوبند ان کی غیر معمولی دینی عظمتوں کے پیش نظر انہیں سرتاج اولیاء مانتے ہیں مگر ان کے معصوم ہونے کے قائل نہیں البتہ انہیں محفوظ من اللہ مانتے ہیں جو ولایت کا انتہائی مقام ہے۔ جس میں تقویٰ کی انتہاء پر بشاشت ایمان جوہر نفس ہوجاتی ہے اور سنت اللہ کے مطابق صدورِ معصیت عادۃً ناممکن ہوجاتا ہے۔ ذالک اذا خالط بشاشۃ القلوب ۔اس مقام کے تقاضا سے ان کا تقوائے باطن ہمہ وقت ان کے لیے مذکر رہتا ہے۔ پس معصوم نہ ہونے کی وجہ سے ان میں معصیت کا امکان تھا مگر محفوظ من اللہ ہونے کی وجہ سے ان میں معصیت کا صدور اور ذنوب کا اقدام نہ تھا۔ پھر اس طبقہ میں یہ امکانی معصیت کا احتمال بھی بیرونی عوارض یا طبیعت کی حد تک تھا، قلبی دواعی کی حد تک نہ تھا کیونکہ ان کے قلوب کی تطہیر اور ان کے تقویٰ کے پرکھےپر کھائے ہونے کی شہادت قرآن کریم دے رہا ہے۔ اس لیے اگر عوام صحابۂ کرام میں سے کسی سے ابتدائی منزل میں طبعاً کوئی لغزش سرزد بھی ہوئی تو جیسا کہ وہ قلبی داعیہ یا گناہ کے کسی ملکہ سے جو دل میں جڑ پکڑے ہوئے ہو، سرزد شدہ نہ تھی ایسے ہی اس کا اثر بھی ان کے قلبی ملکات و احوال، یا باطنی تقویٰ تک نہ پہنچ سکتا تھا۔ اس لیے ایسی اتفاقی لغزش سے بھی ان کی باطنی بزرگی جس کی خداتعالیٰ نے شہادت دی ہے متہم نہیں ٹھہر سکتی۔
پس ان مقدسین میں کمال زہد و تقویٰ اور کمالِ فراست و بصیرت کی وجہ سے جذباتِ معصیت مضمحل اور دواعئ طاعت مشتعل تھے۔ معصیت سے وہ ہمہ وقت بیگانہ تھے اور طاعتِ حق میں یگانہ۔ ایمان و تقویٰ ان کے قلوب میں مزیّن اور کفر و فسوق ان کے باطن میں مبغوض تر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے دیوبند انہیں غیر معصوم کہنے کے باوجود بوجہ محفوظیت دین کے بارے میں قابل تنقید و تبصرہ نہیں سمجھتے، کہ بعد والے انہیں اپنی تنقیدات کا ہدف بنالیں بلکہ آپ کی باہمی تنقید کو (جس کا انہیں حق تھا) نقل کرنے میں بھی رشتۂ ادب کو ہاتھ سے چھوڑدینا جائز نہیں سمجھتے۔ چہ جائیکہ ان کے باہمی تنقید و تبصرہ کے فعل سے اُمّت ما بعد کو ان پر تنقید کرنے کا حقدار سمجھتے بلکہ ان کی پاکدامنی اور تقوائے قلب کے منصوص ہوجانے کے دین کے معاملات میں ان کی لغزش تابحدِّ خطا رہ جاتی ہے۔ معصیت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی لیے ان کے مشاجرات اور باہمی نزاعات میں خطاء و صواب کا تقابل ہے، حق و باطل و معصیّت کا نہیں۔ اور سب جانتے ہیں کہ مجتہد خاطی کو بھی اجر ملتا ہے نہ کہ زجر۔ پس ان کے باہمی معاملات میں (جو کہ نیک نیتی اور پاک نفسی پر مبنی تھے) حسبِ مسلکِ علماء دیوبندنہ بدگمانی جائز ہے اور نہ بدزبانی۔ یہ توجیہہ کا مقام ہے نہ کہ تنقید کا۔ تِلٗكَ دِمَآءٌ طَهَّرَاللهُ عَنْهَا اَیدِینَا فَلَا نُلَوثُ بِهَا اَلسِنَتِنَا (عمر بن عبدالعزیزؒ)۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد کوئی طبقہ بحیثیت طبقے کے مقدس نہیں کہ پورے طبقہ کو پاک باطن اور بلا استثناء عدول کہا جائے لیکن پھر بھی اس اُمت مرحومہ کا کوئی قرن اور کوئی دور مصلحوں، ہادیوں، مجددوں اور مقدسین سے خالی نہیں رہا۔ اور ائمۂ ہدایت، ائمۂ علوم اور ائمۂ کمالاتِ ظاہر و باطن کی کمی نہیں رہی۔ علماء دیوبند کے مسلک میں ان تمام جواہرفرد افراد کی عظمت و جلالت یکساں ہے خواہ وہ مجتہد مطلق ائمہ ہوں یا مجتہد فی المذہب، راسخین فی العلم ہوں یا ائمہ فنون، محدثین ہوں یا فقہاء، عرفاء ہوں یا حکمائے اسلام سب کی قدرومنزلت ان کے یہاں ضروری ہے۔ کیونکہ ان وارثانِ نبّوت صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی طبقہ نسبتِ ایمان و اسلام کا محافظ رہا اور کوئی نسبتِ احسان و عرفان کا۔ بالفاظِ دیگر ایک علمائے ظواہر کا رہا اور ایک علمائے بواطن کا۔ اور یہ دونوں طبقے تا قیامِ قیامت اپنے طبعی فرق و تفاوت کے ساتھ باقی رہیں گے۔ اس لیے حسبِ مسلکِ علمائے دیوبند اعتقاد و استفادہ کی یہ اعتدالی صورت بھی ان سب طبقات مابعد کے ساتھ قائم رہے گی۔ فرق اتنا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے پورے طبقے کے ساتھ یہ عظمت یکسانی سے قائم تھی کہ وہ سب کے سب عدول اور متقن مانے ہوئے تھے۔ لیکن بعد والوں میں متقن بھی ہیں اور غیر متقن بھی، اس لیے طبقۂ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں تو موافقت کے سوا کسی مخالفت کا سوال ہی نہ تھا لیکن طبقاتِ ما بعد میں چونکہ وہ قرنِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی خیریتِ مطلقہ اور خیریّتِ عامہ قائم نہیں رہی، گو جنسِ خیر منقطع بھی نہیں لیکن اس لیے ان میں عدول و غیر عدول دونوں قسم کے افراد ہوتے رہے اس لیے موافقت کے ساتھ مخالفت اور اتفاق کے ساتھ اختلاف کا پہلو بھی قائم رہا۔ مگر علمائے دیوبند نے اس موافقت و مخالفت اور اتفاق و اختلاف کے دونوں ہی پہلوؤں میں رشتۂ اعتدال کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا نہ موافقت میں غلو کیا نہ مخالفت میں۔ نہ کسی کو بے وجہ سامنے رکھ کر اس کے مقابلہ میں کوئی مستقل محاذ بنایا اور نہ بے وجہ کسی کو گروہی یا فرقہ واری انداز سے اپنا کر اس کی مدح وثناء ہی کو مستقل موضوع قرار دیا، شخصیتوں کی عظمت کے اقرار کے ساتھ ان کے صواب کو صواب کہا اور خطاء کو خطاء۔ اور پھر خطاء کا وہ علمی عذر بھی پیش نظر رکھا جو ایک اچھی اور مقدّس شخصیّت کی خطا میں پنہاں ہوتا ہے۔ نیز اس خطاء پر اس کی ساری زندگی کو خاطئانہ قرار دینے کی غلطی نہیں کی۔ البتہ اگر یہ اعتذار ان کی زندگی سے مفہوم نہ ہوسکا تو خطاء کو اچھالنے یا شخصیت کو مطعون کرنے کی بجائے اس خطاء کی حد تک معاملہ خدا کے سپرد کرکے ذہنی یکسوئی پیدا کرلی۔ اسے خوامخواہ ہدف بنا کر شخصیّتوں کو مجروح و مطعون کرنے کی کوشش نہیں کی، جیسا کہ ارباب غلو اور اصحابِ علویا اہلِ خلو کا طریقہ رہا ہے۔ بالخصوص اس دورِ فتن میں جس کا خاص امتیازی نشان ہی علم و فہم اور حلم کی بجائے یا غلو کا غلبہ ہے جو حدود شکنی ہے یا علو کا زور ہے جو کبرو نخوت ہے اور یا خلو کا دباؤ ہے جو جہالت کا استیلاء ہے اور یہ تینوں ظلم و جہل کے شعبے ہیں علم و عدل کے نہیں۔ اور علماء دیوبند کے مسلک کی بنیاد علم و عدل پر ہے ، ظلم و جہل پر نہیں۔
اس لیے اس میں نہ غلو ہے اور علو ہے اور نہ خلو۔ چنانچہ ابھی آپ پڑھ چکے ہیں کہ ذاتِ بابرکات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور ذواتِ قدسیہ صحابۂ کرام کے بارے میں اس کا مسلک عدل و اعتدال سے پُر اور رعایتِ حدود پر مبنی ہے۔ غلو اور علو پر مبنی نہیں۔
(ماخوذ از: مسلکِ علمائے دیوبند)
٭٭٭٭٭