بھارت کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت بی جے پی جو آج کل بر سرِ اقتدار بھی ہے، نے اپنی سابقہ اینٹی مسلم پالیسیوں کے تسلسل میں ریاستِ کرناٹک میں ایک اور پابندی لگائی اور وہ پابندی یہ تھی کہ کوئی (خاتون)طالبِ علم، تعلیمی اداروں میں حجاب یا برقع اوڑھ کر تعلیم حاصل نہیں کر سکتی۔
جنوبی ہندوستان کی ریاست کرناٹک میں پچھلے برس کے دسمبر میں حجاب میں ملبوس طالبات کو کلاس میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی گئی، جس کے نتیجے میں وہ کلاس کے باہر ہی سیڑھیوں پر بیٹھ گئیں اور اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کی خاطر مستقل ادارے میں حاضر ہوتی رہیں۔ ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے کچھ عرصے بعد کرناٹک ہی کے ایک دوسرے تعلیمی ادارے میں ہندو طلبہ نے زعفرانی ٹوپیاں اور رومال پہن کر احتجاج کیا کہ اگر مسلمان لڑکیاں یونیفارم کے اصول کے برخلاف حجاب پہن کر کلاسز اٹینڈ کریں گی تو وہ بھی اپنے مذہبی رنگ کو اوڑھ پہن کر کالج میں آیا کریں گے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بھارت کی نوجوان ہندو نسل میں گزشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں دو ایپس (apps)جو بے حد مقبول ہوئیں وہ سُلّی ڈیلز (Sulli Deals) اور بُلّی بائی(Bulli Bai) تھیں۔ ان ایپس میں مسلمان خواتین کی تصویریں حاصل کر کے ڈالی گئیں اور یوں اظہار کیا گیا گویا یہ ایپ ان خواتین کی نیلامی کرتا ہے۔ یعنی اگر آپ کو تفریحِ طبع کے لیے کسی فاطمہ، صائمہ یا ملالہ کی ضرورت ہے تو بولی لگائیے، یہ ایپ your Bulli Bai of the day کے لیے ۱۰۰ کے قریب آپشنز فراہم کرتا ہے۔ مسلمانوں کی جانب سے احتجاج پر یہ ایپس بند کر دی گئیں لیکن پچھلے ڈیڑھ سال کے عرصے میں مختلف ناموں کے ساتھ تین سے زائد دفعہ اس قسم کی ایپس منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ جن کا مقصد یہ ہے کہ اس مذاق کو عام کیا جائے اور معمول کا حصّہ بنایا جائے۔ نیز ساتھ ہی مسلمان عورتوں کو بھارت میں اپنی اوقات سمجھانا بھی ہے، کہ بھارتی معاشرے میں انہیں کیا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔جبکہ تیسری اور سب سے اہم بات، یہ ہندو کا وہ خواب ہے جس کے سبز باغ اپنی نوجوان نسل کو دکھا کر وہ جلد از جلد اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنا چاہتا ہے۔
موضوع کی طرف لوٹتے ہیں……کرناٹک کے کالج میں ہندو طلبہ کی جانب سے اس مظاہرے کے دوران جتنی بھی مسلمان طالبات حجاب میں ملبوس کالج پہنچیں اور اندر داخل ہونا چاہا، انہیں اجازت نہ دی گئی اور گیٹ بند کر دیے گئے۔ ذرا دیر بعد حالات کچھ بہتر محسوس ہوئے تو چند طالبات کو اندر آنے کی اجازت دی گئی۔ انہی طالبات میں مسکان خان بھی شامل تھیں۔ پوری دنیا میں مشہور ہونے والی مسکان کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ تنہا چلتی چلی آ رہی ہیں جبکہ ان کے پیچھے زعفرانی رومال گلے میں ڈالے ، ’جے شری رام‘ اور برقع مخالف نعرے لگاتے، ہندو بلوائیوں کا ایک پورا ہجوم چلا آ رہا ہے۔ آخر اچانک مسکان پلٹتی ہیں اور پوری قوّت سے چلّا کر ان طلبہ کو جواب دیتی ہیں اور زور زور سے اللہ اکبر کے نعرے لگاتی ہیں، جس کے بعد انتظامیہ کے لوگ انہیں اندر لے جاتے ہیں۔
کرناٹک میں ہندو اور مسلمان طلبہ کے مابین اس بڑھتے ہوئے تنازع کے سبب پوری ریاست کے تعلیمی اداروں کو تین دنوں کے لیے بند کر دیا گیا۔ اس دوران فریقین اپنا معاملہ اعلیٰ عدلیہ کے پاس لے گئے اور حجاب پر عائد پابندی کو کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ اس دوران دنیا بھر کا میڈیا کرناٹک کی جانب متوجہ ہو گیا جہاں ایک جانب مسلمان طالبات کا موقف یہ ہے کہ حجاب ان کا دینی شعار ہے اور ان کے بنیادی حقوق میں سے ہے۔ وہ ہمیشہ سے حجاب اوڑھتی چلی آئی ہیں اور تعلیمی اداروں میں داخلےسے قبل بھی انہیں کبھی حجاب مخالف کسی شق یا شرط سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ بعض طالبات کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں میں آج بھی اساتذہ و انتظامیہ کو ان کے حجاب سے کوئی مسئلہ درپیش نہیں، البتہ بلوائیوں کی جانب سے جس مخالفت کا انہیں سامنا ہے وہ ان کے لیے غیر متوقع اور پریشان کن ہے، کیونکہ ان طلبہ کے ساتھ ایک ہی ادارے میں انہوں نے ایک طویل عرصہ گزارا ہے اور اب بھی، ہندو طلبہ کے ان مظاہروں میں اداروں میں تعلیم حاصل کرتے طلبہ سے زیادہ باہر کے افراد نظر آتے ہیں۔
دوسری جانب ہندو سوسائٹی اور حکومتی موقف یہ ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کی کسی قسم کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی۔ طالبات کو تعلیم سے نہیں بلکہ حجاب سے روکا جا رہا ہے جو ان کے بقول اداروں کے ماحول کو خراب کرنے کا سبب بنتا ہے۔ نیز اس کے ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ بھارت میں ہندو اکثریت کے باوجود ہندو مغلوب ہیں اوراقلیتیں ان کو دبانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر یہ برقع اور حجاب ہے کیا اور اس پر اتنا بڑا مسئلہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟ اس کے مصالح و مفاسد کیا ہیں؟ اور کیوں مسلمان قوم کے لیے یہ برقع اکثر ہی سببِ تنازع بن جاتا ہے؟
برقع وہ ڈھیلا ڈھالا لباس ہے جو خواتین کے پورے جسم کو ڈھانپ لیتا ہے جبکہ حجاب سر اور بالوں کو ڈھانپنے والے کپڑے(سکارف؍دوپٹہ وغیرہ) کو کہا جاتا ہے۔ گو کہ یہ ہر رنگ، طرز اور تراش خراش کے اعتبار سے بے شمار انواع و اقسام میں پایا جاتا ہے اس کےباوجود کالا رنگ سب سے زیادہ مقبول ہے اور کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ یوں تو زمانۂ قدیم سے دنیا کی بہت سی اقوام و مذاہب میں خواتین کا اپنے سر اور جسم کو ڈھانپنا شرافت اور عالی نسبی کی علامت سمجھا جاتا تھا، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ مذاہب کے اعتبار سے بھی برقع محض اسلام تک محدود نہیں۔ بلکہ ایران کی فارسی شیعہ خواتین، اسماعیلی و بوہری مذاہب کی خواتین، عیسائیت میں خود کو چرچ کے لیے وقف کر دینے والی عورتیں جنہیں نَن کہا جاتا ہے، اور حتیٰ کہ یہودیت کے الٹرا آرتھوڈوکس فرقے (حرضی فرقہ؍Haredi؛ جن کا دعویٰ ہے کہ وہی اصل یہودی تعلیمات کے امین ہیں) سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی خود کو سر تا پا کالے برقعے میں مستور رکھتی ہیں۔
اس سب کے باوجود اسلامی برقع شاید دنیا کا متنازع ترین لباس ہے۔ شریعتِ اسلامی کے حکم کے باعث مسلمان خواتین میں برقع کے ذریعے اپنے جسم کو ڈھانپنے اور غیر مردوں کی نظروں سے بچانے کا اہتمام کرنا عام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
یاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا (سورۃ الاحزاب: ۵۹)
’’اے نبی ! تم اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادریں اپنے (منہ کے) اوپر جھکا لیا کریں اس طریقے میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی، تو ان کو ستایا نہیں جائے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔‘‘
برقع پہننے کا رواج صدیوں سے جاری ہے۔ صدیوں سے مسلمان خواتین یہ لباس پہنتی چلی آ رہی ہیں اور اس کے ساتھ اپنی صنف و طبقے سے منسوب تمام فرائض و ذمّہ داریوں سے عہدہ برآ ہو رہی ہیں۔ یہ لباس ان کے لیے کبھی اس طرح باعثِ آزار نہیں بنا جیسا کہ اکیسویں صدی میں اس کو بنایا جا رہا ہے۔ تو آخر دنیا کو برقع اور برقع پہننے والیوں سے کیا شکایت ہے؟ یہ تجزیہ کرنے کے لیے ہمیں دیکھنا ہو گا کہ برقع و حجاب کو کن لوگوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے ۔ بنیادی طور پہ برقع کی مخالفت کرنے والوں کو دوقسمو ں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
مسلم اکثریتی ممالک میں حجاب و برقع کی مخالفت
مسلم اقلیتی ممالک میں حجاب و برقع کی مخالفت
مسلم اکثریت کے مقابل برقعے کی مخالفت
مسلم اکثریت والے معاشرے میں برقع و حجاب سے نفرت و عداوت کا علَم ان مسلمان خواتین کے ہاتھ میں ہے جنہیں مسلمان عوام ’’آزاد و مغرب نواز‘‘کا خطاب دیتے ہیں جبکہ مغرب انہیں ’’ماڈریٹ و روشن خیال مسلمان‘‘کے طور پہ جانتا ہے۔
برقعے پر ان کے اعتراضات کا دارو مدارفیمن ازم (تحریک حقوق و آزادیٔ نسواں)کے بیانیے پر ہوتا ہے۔ برقع ہماری تہذیب و رواج کا حصّہ نہیں، یہ عربوں کی تہذیب ہے ۔ یہ مرد و عورت کے درمیان تفریق کی علامت ہے۔ یہ عورتوں پر جبر ہے، ان کے حقوق غصب کرنے والا، اور ان کی آواز دبانے کی علامت ہے۔ برقع عورت کو آزادی سے محروم کر کے چار دیواری میں مقید کر دیتا ہے، گھر اور بچوں کا خانہ اس کے سپرد کرتا ہے اور یوں مرد باہر آزاد پھرتا ہے جبکہ برقعے میں ملبوس و مقید، بے چاری عورت ترقی و تجدید کی راہوں میں مردانہ وار آگے بڑھنے سے محروم کر دی جاتی ہے۔
پھر چاہے یہ پاکستان جیسے اسلام کی بنیاد پر حاصل کیے گئے ملک کی خواتین ہوں، جو اگلے ماہ آپ کو اسلام آباد و لاہور کی سڑکوں پر کپڑے اتار کر گھومنے کی آزادی کا مطالبہ کرتی نظر آئیں گی، اور ساتھ میں یہ بھی چاہیں گی کہ ان کی اس برہنگی کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جائے، کوئی ’’شیم!، شیم!‘‘(shame) کے نعرے بھی نہ لگائے۔
یا افغانستان جیسے روایت پرست اور سخت رسوم و رواج کا حامل معاشرہ ہو، جہاں مردوں کے لیے بھی ننگے سر گھومنا باعثِ عار سمجھا جاتا ہے، وہاں آپ کو کوئی نہ کوئی پروانہ خلیل یا تمنا زریابی کابل کی شاہراہوں پر برقع نذرِ آتش کرتی نظر آہی جائیں گی، کیونکہ یہ برقع شعائرِ اسلام میں سے ہے جو عورت سے عفّت و حیا کا تقاضا کرتا ہے۔
یا سعودی عرب جیسا ملک، جو حرمین شریفین اور پیغمبرِ برحق محمد مصطفیٰ (علیہ الف صلاۃ والسلام) کی نسبت سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے روئے زمین پر سب سے زیادہ مقدس و محترم جگہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہاں بھی اب برقعے اور عفت و عصمت کو ترک کر کے ہفتہ ہفتہ بھر مخلوط میوزیکل کانسرٹس منائے جاتے ہیں، اورخواتین کے لیے نیا مژدہ یہ ہے کہ اب وہ مکّہ و مدینہ کے درمیان ٹرین بھی چلا سکا کریں گی۔
مسلم اقلیتی معاشرے میں برقعے کی مخالفت
مسلم اقلیت والے معاشروں میں برقعے کی مخالفت درجِ ذیل اعتراضات کی بنیاد پر کی جاتی ہے:
برقع مذہبِ اسلام کی علامت ہے اور سیکولر ممالک عوامی جگہوں پر بالخصوص تعلیمی اداروں اور دفاتر وغیرہ میں کسی قسم کی مذہبی وابستگی کے اظہار کی اجازت نہیں دیتے۔ لہٰذا برقعے، صلیب، یا کسی بھی قسم کی مذہبی علامت پر پابندی ہے۔
کئی ممالک دہشتگردی کا بہانہ کرتے ہوئے ایسے ہر لباس کو ممنوع قرار دے چکے ہیں جس سے انسان کا پورا چہرا اور جسم چھپ جائے، مثلاً کئی افریقی ممالک جیسے کانگو، چاڈ، مالی وغیرہ اور یورپی ممالک میں نیدر لینڈز اور جرمنی وغیرہ شامل ہیں۔
برقع عورت کی ترقی کی راہ میں حائل ہے، فیمن ازم کا یہ بیانیہ بھی بکثرت استعمال کیا جاتا ہے۔
برقع ماحول کی خرابی کا سبب بنتا ہے۔ جیسے کم لباسی مردوں کے لیے فتنہ بن جاتی ہے، اسی طرح ضرورت سے زیادہ ڈھکا ہونا بھی ان کے لیے فتنہ پیدا کرتا ہے۔
ان اعتراضات کو حجّت بنا کر مسلم اقلیت والے معاشروں میں بتدریج برقع و حجاب کے خلاف قانون سازی کی جاتی ہے۔ ابتدا میں مخصوص عوامی جگہوں پر حجاب اوڑھنے سے منع کیا جاتا ہے اور پھر تدریجاً یہ پابندی برقع و حجاب اوڑھنے والی خواتین کو ہر میدانِ زندگی سے خارج کرتاچلا جاتا ہے۔ اس کی ایک بہترین مثال فرانس ہے۔یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد فرانس میں پائی جاتی ہے، اور فرانس ان اولین ممالک میں شامل ہے جنہوں نے حجاب کے خلاف قانون سازی کی۔ فرانس میں ۲۰۰۰ء کی دہائی کے آغاز میں ہی سر پر حجاب اوڑھنا سرکاری تعلیمی اداروں اور دفاتر میں غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا(اور اس وقت نائن الیون کے واقعات بھی رونما نہیں ہوئے تھے جن کو بنیاد بنا کر اسلام کے خلاف عالمی جنگ کا باقاعدہ آغاز کیا گیا، یعنی اسلام کے خلاف فرانس کے صلیبی اقدامات کو اس سے سمجھا جا سکتا ہے)۔تب سے لے کر آج تک یہ پابندی دبے پاؤں معاشرتی زندگی کے ہر رخ پہ چھاتی چلی گئی ہے۔ آج سے محض تین سال قبل، حجاب اوڑھنے والی ماؤں پر اپنے بچوں کے ساتھ سکول ٹرپس پر جانے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ اور محض چند دن قبل، ایک نیا بِل پیش کیا گیا جو مقابلے کے کھیلوں میں حجاب اوڑھنے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
ہر قسم کی معاشرتی و عوامی زندگی سے خارج کر نے والے ان قوانین کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے گویا فرانس میں حجاب کو قدامت پرستی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور اس سے نفرت کی جاتی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے……بلکہ پچھلے دنوں جب فرانس کے مشہورِ زمانہ فیشن میگزین ووگ (Vogue) نے جُولیا فاکس کی پیرس میں ہونے والے haute couture show میں ہیڈ سکارف اوڑھ کر شریک ہونے والی تصویر شائع کی تو اسےزبردست خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے عنوان دیا: ’’Yes to the head scarf!‘‘ ۔
سو یقین کیجیے کہ مسئلہ ہیڈ سکارف سے نہیں ! مسئلہ ہیڈ سکارف اوڑھنے والی عائشہ و فاطمہ سے ہے۔آج یہی منظر نامہ بھارت میں سجایا جا رہا ہے۔ ٹیسٹر (tester) کے طور پہ پہلے ایک ریاست کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ مسلمان جو پہلے ہی معاشی و معاشرتی طور پر بھارت کے پسماندہ طبقات میں شامل ہیں، انہیں گویا چناؤ کااختیار دے دیا گیا ہے: ’’دین چنو گے یا دنیا میں آگے بڑھنا؟ ‘‘، ’’گھر واپسی یا NRC؟‘‘۔ معاملہ آج ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔ ایک بار پھر مسلمانوں نے اپنی امیدیں بھارت کے آئین و قانون اور اعلیٰ عدلیہ سے لگا رکھی ہیں۔ مگر ہمیں نجانے کیوں جرمنی کی مروۃ شربینی بار بار یاد آتی ہیں جنہیں ان کے حجاب کی بنیاد پر ایک انتہا پسند جرمن شخص نے پارک میں اپنی تنگ نظری اور تعصب کا نشانہ بناتے ہوئے ان کی تذلیل و تحقیر کی ۔ معاملہ عدلیہ تک پہنچا اور فریقین کو عدالت میں طلب کیا گیا۔ چند ہی پیشیوں کے بعد مروہ شربینی کو عدالت میں کھڑے کھڑے اس شخص نے چاقو کے وار کر کر کے شہید کر دیا۔ ان کے شوہر انہیں بچانے آئے تو ان پر بھی چاقوسے حملہ کیا۔ کیا اس شخص کو سزا ملی؟ اپنے کیے کا بھگتان بھگتنا پڑا؟ تو شاید آپ جانتے نہیں……ایسا کام یقیناً کوئی ذہنی طور پہ ناکارہ و بیمار شخص ہی کر سکتا ہے……کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ذہنی مفلوج ہونا ہی اتنی بڑی سزا ہے کہ اس کے بعد کوئی دوسری سزا دینے کی کیا تُک رہ جاتی ہے؟ ہاں! اس شخص کے شر سے مزید لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اسے کسی محفوظ جگہ پر بند رکھنا ضروری ہے، مگر کتنے عرصے کے لیے، اس کا فیصلہ جرمنی کے یہ عزت مآب ادارے ہی کریں گے جو اپنی چھت کے نیچے کھڑی ایک مظلوم عورت کو تحفظ فراہم نہ کر سکے۔
بھارت کس روش پر چل رہا ہے، یہ بات پوری دنیا کے سامنے اظہر من الشمس ہے۔وہ عالمی ادارے جو افغانستان میں لڑکیوں کے لیے ثانوی تعلیم کے بعض……معدودے چند……اداروں کی بندش پر چیں بجبیں ہیں اور چوں چوں کا مربّہ بنے بیٹھے ہیں، ہر دوسرے دن یا اقوامِ متحدہ میں کوئی قرارداد پاس کرتے ہیں یا عالمی برادری کو افغانستان کی تصاویر دکھا دکھا کر وہاں بچیوں کی تعلیمی صورتحال کی بدحالی کے نقشے کھینچتے ہیں، اور جو کہتے ہیں کہ ہم کسی صورت افغانستان کو اس صورتحال میں نہیں چھوڑ سکتے……انہیں کرناٹک میں تعلیم کی خاطر التجا و فریاد کرتی، منت سماجت کرتی لڑکیاں نظر نہیں آتیں، جو کتنے ہفتوں سے سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہیں کہ میرا حجاب میرا مسئلہ ہے، میرا شعار ہے، اس کو بنیاد بنا کر مجھ سے تعلیم کا حق مت چھینو!
ایک بار پھر ثابت ہوا کہ مسئلہ بچیو ں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا نہیں ہے……بلکہ مقصود ان سے اسلام کا عطا کردہ زیورِ حیا و عفّت چھیننا ہے۔چاہے وہ افغانستان جیسے ڈھکے چھپے معاشرے میں انہیں مغربی طرز کی آزادی کے حصول کے لیے اکسا کر حاصل کیا جائے یا کرناٹک جیسے اکیسویں صدی سے ہم آہنگ، تیز رفتارمعاشرے میں، ان سےتعلیم کی خاطر حجاب ترک کرنےکا مطالبہ کر کے کیا جائے!
مگر دنیا کو جان لینا چاہیے……بھارت کو اور اس کے حامی و مددگار ہر دشمنِ اسلام کو سمجھ لینا چاہیے……کہ ہم مسلمان ہیں۔ اور مسلمان جو اللہ کا خوف دل میں بسا لیتا ہے تو پھر کسی دوسرے سے نہیں ڈرتا۔ سر کٹ جائے تو کٹ جائے، مگر باطل کے سامنے جھکتا نہیں ہے۔ پھر چاہے پیلے رومال گلے میں ڈالے، بغلیں بجاتے اور تالیاں پیٹتے لڑکوں کا پورا ہجوم ہی کیوں نہ ہو……ایک نہتی لڑکی ڈٹ جاتی ہے اور جے شری رام کے سب نعروں کو اس کی ایک تکبیر بھی کافی ہوتی ہے……اللہ اکبر!!
مسلمان بھارت میں اقلیت میں ہیں، مسلمان آج بھارت میں نسلی تفریق و امتیاز کا سامنا کر رہے ہیں……وہ برما جیسی نسل کشی کے دہانے پر کھڑے ہیں……بھارت کی انتہا پسند ہندُتوا تحریک سالوں کی منصوبہ بندی کو اب آخری مرحلے میں اتار رہی ہیں……مگر یہ بات بھارت کے ہر بزدل و مکّار ہندو کو سمجھ لینی چاہیے……کہ ہم مسلمان ہیں……وہ مسلمان جنہوں نے صدیوں تم پر حکومت کی……اور ہم یونہی تمہارے سامنے ہتھیار نہیں ڈال دیں گے۔ ہم لڑیں گے اور آخری سانس تک لڑیں گے……کیونکہ ہماری ہر بچی مسکان خان ہے!
وما توفیقي إلّا بالله. وآخر دعوانا أن الحمد للہ ربّ العالمین.
وصلی اللہ علی نبینا وقرۃ أعیننا محمد وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین.
٭٭٭٭٭