بسم اللہ والحمدللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ
دنیا بھر میں بسنے والے میرے مسلمان بھائیو!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میری خواہش ہے کہ اپنے اس بیان کو اپنی مسلمان بہنوں، بالخصوص اُن بہنوں کے لیے مختص کروں جو حجاب کی حامل ہیں۔
اے میری بہنو!
آپ سے مخفی نہیں ہے کہ آج ہماری امت پر ہر طرف سے دشمن حملہ آور ہے ۔ عسکری ، سیاسی، نظریاتی ، ثقافتی ، تعلیمی اور اقتصادی میدانوں سمیت ہر ہر میدان میں ایک خطرناک جنگ ہے جو ہمارے اوپر مسلط کی گئی ہے۔ اس جنگ کا سبب یہ ہے کہ امتِ مسلمہ عصرِ حاضر کے اُس نظامِ ظلم کے سامنے بڑ اخطرہ ہے جس کے ذریعے دنیا کے بڑے مجرمین یہاں حاکم بنے بیٹھےہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ امتِ مسلمہ کے رگ و پے میں آج ا نتہا درجے کا ضعف سرایت کر گیا ہے اور شریعت ِ اسلامی کوبھی عملاً متروک کر دیاگیا ہے مگر اس کے باوجود بھی حقیقت یہ تھی ، ہے اور رہے گی کہ یہ امت ہی مجرمین کے عالمی نظام ظلم کے لیے عظیم خطرہ ہے ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ امتِ مسلمہ خالص توحید والی امت ہے جبکہ نظامِ عالَم کی یہ سرغنہ اقوام مشرک ہیں ، ا ن میں سے اکثر نے مٹی کے بتوں کی پوجا تو آج چھوڑدی ہے، مگر حقیقت میں یہ آج بھی اہل شرک ہی ہیں ۔ ماضی کے بت کدے آج بھی آباد ہیں بس ان میں بت پہلے سے مختلف رکھ دیےگئےہیں ۔ جو آج غالب ہے اسی کی خواہشِ نفس کی پوجا کی جاتی ہے۔ لذات اور مادی منفعت آج کے بت ہیں اور ان بتوں کے خمیر میں لادینیت، قوم پرستی اور طاقت ور (ممالک) کی پرستش بھی گُندھی ہوئی ہے۔
پس امتِ مسلمہ عفت ،پاکیزگی اور شائستگی والی امت ہے، جبکہ یہ اقوام شہوت کے گرد گھومتی ہیں ،یہی شہوات کو پیدا کرتی ہیں اور پھر انہی کی تجارت کرتی ہیں۔ امتِ مسلمہ جہاد فی سبیل اللہ کرنے والی امت ہے، جبکہ یہ اقوام چوری ، ڈاکے اور غاصبانہ قبضے کی خاطر لڑتی ہیں اورپھر ان رذائل کو قومی مفاداور ملکی استحکام کا نام دیتی ہیں ۔
اسلام اور اہل اسلام کے خلاف ان اقوام کی صدیوں سے مسلسل جاری اس جنگ سے ان مجرمین نے سیکھ لیا ہے کہ امتِ مسلمہ کے اندر موجود عظیم طاقت کے اسباب، اس کا عقیدہ اور اس کی شریعت ہیں ۔پس یہ ہر طرح کی کوشش کرتے ہیں کہ امتِ مسلمہ سے اس کا یہ عقیدہ چھین لیں یا شریعتِ مطہرہ سے اسے دور کردیں اوریہی وجہ ہےکہ اس امت کے خلاف نظریات و افکار اور تعلیم و اعلام(میڈیا) کے میدان میں بھی یہ مسلسل برسرپیکار ہیں۔یہ چاہتے ہیں کہ ہم عقیدۂ توحید چھوڑبیٹھیں۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا (سورۃ البقرۃ: ۲۱۷)
’’ اور یہ (کافر) تم لوگوں سے برابر جنگ کرتے رہیں گے، یہاں تک کہ اگر ان کا بس چلے تو یہ تم کو تمہارے دین سے پھیر دیں۔ ‘‘
ان کی چاہت ہے کہ ہم سیکولر، لادین اور ملحد بنیں یا نصاریٰ ، سوشلسٹ اورمنافع خور سرمایہ پرست …… ہم جو مرضی چاہیں بن جائیں لیکن بس ایک اللہ کی عبادت کرنے والے حقیقی مسلمان ہم نہ رہیں ۔ ان کی کوشش ہے کہ ہم عفت وحیا اورطہارت وشائستگی کو دور پھینکیں اور شہوات و لذات کے پُر فتن اور گندے سمندر میں ایسے ڈوب جائیں کہ جہاں پھر بدترین جانور بن کر کسی قسم کے دین واخلاق اوراصول و مبادیات کالحاظ نہ ہو ، اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
وَاللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْكُمْ وَيُرِيدُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الشَّهَوَاتِ أَنْ تَمِيلُوا مَيْلًا عَظِيمًا(سورۃ النساء: ۲۷)
’’ اور خدا تو چاہتا ہے کہ تم پر مہربانی کرے اور جو لوگ اپنی خواہشوں کے پیچھے چلتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم سیدھے راستے سے بھٹک کر دور جا پڑو ۔‘‘
اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ آدم علیہ السلام سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَيَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَفَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْآتِهِمَا (سورۃ الاعراف: ۱۹–۲۰)
’’ اور اے آدم ! تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں رہو، اور جہاں سے جو چیز چاہو، کھاؤ۔ البتہ اس (خاص) درخت کے قریب بھی مت پھٹکنا، ورنہ تم زیادتی کرنے والوں میں شامل ہوجاؤ گے۔ پھر ہوا یہ کہ شیطان نے ان دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا، تاکہ ان کی شرم کی جگہیں جو ان سے چھپائی گئی تھیں، ایک دوسرے کے سامنے کھول دے ۔‘‘
يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ يَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ (سورۃ الاعراف: ۲۷)
’’ اے آدم کے بیٹو اور بیٹیو ! شیطان کو ایسا موقع ہرگز ہرگز نہ دینا کہ وہ تمہیں اسی طرح فتنے میں ڈال دے جیسے اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکالا، جبکہ ان کا لباس ان کے جسم سے اتر والیا تھا، تاکہ ان کو ایک دوسرے کی شرم کی جگہیں دکھا دے۔ اور وہ اور اس کا جتھہ تمہیں وہاں سے دیکھتا ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ ان شیطانوں کو ہم نے انہی کا دوست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔ ‘‘
وہ (کفار)ہمیں یہ سب اس لیے بناناچاہتے ہیں کہ ہم انہیں مشرک ، فاسق ،فاجر اور شہوات کی بندگی کرنے والے ذلیل چور لٹیرے ڈاکوؤں کے طور پر نہ دیکھیں ،بلکہ ان کے ان تمام تر جرائم ورذائل کے باوجودبھی ان کے مطیع ا ور فرمانبردار غلام بن کر رہیں۔
یہ کس قدر تعجب اور حیرانگی کی بات ہےکہ جس نے جاپان پر ایٹم بم گرایا، جو ویتنام میں پچاس لاکھ انسانوں کا قاتل ہے ، جس نے ہماری زمینوں پر ناجائز قبضہ کیا، جس نے خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ کیا ، جو ہمارے قلب میں اسرائیل کاخنجر گھونپنے کا مرتکب ہے، جس نے ہماری امت کو پچاس ٹکڑوں میں بانٹ دیا ، جو ہماری ثروت و دولت پر ڈاکہ ڈال رہا ہے، بلکہ جس نے پوری انسانیت کے وسائل پر قبضہ کیا ہے ، جو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اس پورے کرۂ ارض تک کی ماحولیات کو تباہ کررہا ہے اور جو ہمارے اوپر مسلط ہر جابر و فاسد شخص کی تائید ومدد کرتا ہے……کیا یہ عجیب نہیں ہے کہ یہی ظالم اور مجرم آج ہمیں انسانی حقوق ، تہذیب اور عدل و انصاف کی باتیں بتا رہا ہے؟
کیا یہ عجیب نہیں ہے کہ جس نے پوری دنیا پر ، تمام اقوامِ عالم پر صرف پانچ مجرمین (ویٹو پاورز ) کی ’قانونی‘ آمریت قائم کی ہے ، آج وہی ہمیں جمہوریت و مساوات کی بات بھی کرتا ہے؟کیا یہ عجیب نہیں کہ جو خاتون کو اس کے حجاب سے منع کرتے ہیں ، وہی آج ہم سے آزادیٔ نسواں کی باتیں بھی کررہے ہیں؟یہ وہ پوری جنگ ہے جو ہمارے خلاف لڑی جارہی ہے اور اے میری مسلمان بہن آپ اس جنگ کے خط اول پر کھڑی ہیں!یہ ہم سے اور اے میری مسلمان بہن آپ سے یہ چاہتے ہیں کہ آپ اپنے دین پر عمل ، اپنی عفت و حیا اور اپنا حجاب و حسن اخلاق سب کچھ چھوڑ پھینکیں۔یہ چاہتے ہیں کہ آپ اللہ کے شعائر کی تعظیم نہ کریں،آپ اللہ کے اوامر کی اطاعت اور اس کے ذریعے اس کی قربت حاصل نہ کریں، ان کا مطالبہ ہے کہ آپ اپنی عبادت، دین اور حجاب کے ذریعے اللہ کی رضا مت ڈھونڈیں اور اللہ کی بندی بن کر اس کی محبت حاصل نہ کریں۔یہ بس صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ دین دشمن ملحدہ اور ہر اخلاق وا صول سے عاری بن کر رہ جائیں۔ یہ ظالم یہ سب کچھ اس لیے چاہتے ہیں کہ انہیں علم ہے میری بہن کہ آپ اسلامی معاشرے کی ایک مضبوط ستون ہیں، آپ ماں ، بہن ، خالہ ، پھوپھی ، بیوی اور بیٹی ہیں۔آپ ہی اسلامی معاشرے کو اس کے اندر سے مضبوط کرتی ہیں۔آپ تربیت کرتی ہیں ،نئی نسل کوپالتی ہیں،اس کی رہنمائی کرتی ہیں اور اس کے سامنے نمونۂ عمل بن کر مثالیں پیش کرتی ہیں ۔آپ صبر کرتی ہیں اور صبر دلاتی ہیں ، دلاسہ دیتی ہیں اور دین و جہادپر تحریض دلاتی ہیں ۔
کتنی مائیں ایسی ہیں کہ جن کے جگر گوشے شہید ہوئے، قید کیے گئے یا غائب کروائے گئے اور انہوں نے صبر کیا اور دوسروں کو صبر دلایا۔کتنی بیویاں ایسی ہیں کہ جن کے شوہر اللہ کی راہ میں غائب کیے گئے ، شہید ہوئے ، قیدی بنے یا جلاوطن کیے گئے اوریہ بیویاں، باپ اور ماں دونوں بن کر پورے خاندان کی تربیت کرتی ر ہیں اور دوسروں کے لیے مثال بنی ر ہیں۔کتنی بیویاں ایسی بھی ہیں جو اپنے مہاجر اور جلاوطن شوہر کے ساتھ دارِ ہجرت میں ساتھ دے رہی ہیں ۔ انہوں نے راحت و سہولت کی زندگی پر تنگی و اجنبیت ، اہل وعیال اور پیاروں کے ساتھ معیت والی زندگی پر ترکِ وطن کو ترجیح دی ہے اور یوں اہل و عیال ، مال و مکان اور امن وامان کے لحاظ سے مستقل خوف اور غیریقینی کی زندگی آج بھی گزار رہی ہیں۔ ان میں سے اکثر ایسی بھی ہیں کہ جنہوں نےعیش و عشرت کی زندگی چھوڑدی اور آج دشت و بیابان میں خانہ بدوشوں کی طرح غربت و بیگانگی کی حالت میں جی رہی ہیں۔پھر ان مہاجرات میں سے کتنی ہیں جو بیوہ ہوئیں، یتیموں کابوجھ بھی ان کے سر پر پڑا ، علاقہ بدر بھی کی گئیں، قید میں ڈالی گئیں، زخمی کی گئیں اور شہید بھی کی گئیں۔
کتنی مائیں ، بیویاں اور بیٹیاں ایسی ہیں جو اپنے فرزندوں ،شریک حیات اور والد کو خوشی خوشی جہاد میں نکلنے کے لیےرخصت کر رہی ہیں حالانکہ وہ نہیں جانتیں کہ زندگی میں دوبارہ کبھی ان پیاروں کا چہرہ بھی دیکھ سکیں گی یا نہیں؟
کتنی بہنیں ایسی ہیں جو اپنے مردوں کو ظلم و طغیان سے عبارت نظام کے خلاف احتجاج پر نکلنے کے لیے تحریض دیتی ہیں، حالانکہ انہیں علم ہوتا ہے کہ ان کے مرد زخمی ہوسکتے ہیں ، قیدی بن سکتے ہیں یا شہید ہوسکتے ہیں ۔
ان بہنوں میں سے کتنی ایسی بھی ہیں کہ جن کےمرد جب قید ہوئے تو انہوں نے چٹان بن کرصبر کیا،فراق اور خاندان کی مسئولیت کا بوجھ ِ گراں بھی اپنے کمزور کندھوں پر اٹھارکھااور جب اپنے مردوں کے پاس جیل میں ملنے گئیں تو ان مردوں کاغم تو ہلکا کیا، انہیں حوصلہ دےکر ان کی جرأت و بہادی میں تو اضافہ کیا مگر اپنے اُن دکھوں اورغموں کو اُن سے چھپالیا جن سے یہ خود گزر رہی ہیں۔کتنی، کتنی اور کتنی ہی ایسی بہنیں ہیں اور بلاشبہ ہماری امت میں ایسی بہنوں کی مثالیں لاکھوں میں ہیں!
اے ہماری عزیز بہنو! ایمان ویقین ، صبرو رضا ، نفس و مال سے جہاد ، دنیا کی راحت و امیدوں کا خون کرنےاور اپنا عیش و عشرت قربان کرنےکے میدان میں ہم نے آپ کو انتہائی اعلیٰ مثالیں قائم کرتے دیکھا ہے۔
اے میری عظیم بہنو! آپ امت کے خلاف اس جنگ میں دشمن کے اولین اہداف میں سے ہیں!
اے میری محترم بہنو!
ان کی کوشش ہے کہ جو وسائل ان کےپاس ہیں، ان سے کسی نہ کسی طرح آپ کے ایمان و یقین کوختم کردیں۔جسمانی ،فکر ی ، اعلامی اور نفسیاتی کون سا میدان ہے کہ جس میں یہ تم پر زیادتی کرنے کے لیے تمہارے خلاف بڑھ نہیں رہے ہیں ۔
پس ثابت قدم رہیے، صبر کیجیے اور حق کی خاطر ڈٹی رہیے۔اللہ ہی سے مدد مانگتی رہیےاوراس طویل و عظیم سفر میں آپ کا زادِ راہ اللہ پر یقین ہو ، شکر، صبر و رضا، ذکر و دعا اور اللہ مالک السماوات والارض کے سامنے تواضع ہو ……وہ اللہ کہ جو جب ’کُن‘ کہے تو’ فیکون‘ سب کچھ ہو جاتا ہے۔ہم سب کمزور اور گناہ گار ہیں لیکن رحمتِ الٰہی سے پر امید ہیں ، وہ ذات کہ جب اس سے معافی مانگی جائے اور اس کی طرف پلٹا جائے تو وہ معاف کردیتی ہے اورجب اس سے مدد مانگی جائے تو وہ مدد کرتی ہے۔پس ہم میں سے کوئی تھوڑا سا بھی راہِ حق سے اگر پھسل گیا، کوئی تھوڑا سا بھی اس طوفان کے رخ میں چلنے لگا، یا تھوڑا سا بھی شبہات اور شہوات کے زیرِ اثر آگیا تو فوراً اسے توبہ کرنی چاہیے، جلدی اسے اللہ سے مدد مانگنی چاہیے اور اس سے ہی ہدایت طلب کرنی چاہیے۔
وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (سورۃ یوسف: ۲۱)
’’ اور خدا اپنے کام پر غالب ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا فرمان ہے:
إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا (سورۃ الاحزاب: ۳۵)
’’ بیشک فرمانبردار مرد ہوں یا فرمانبردار عورتیں مومن مرد ہوں یا مومن عورتیں، عبادت گزار مرد ہوں یا عبادت گزار عورتیں، سچے مرد ہوں یا سچی عورتیں، صابر مرد ہوں یا صابر عورتیں، دل سے جھکنے والے مرد ہوں یا دل سے جھکنے والی عورتیں ، صدقہ کرنے والے مرد ہوں یا صدقہ کرنے والی عورتیں، روزہ دار مرد ہوں یا روزہ دار عورتیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد ہوں یا حفاظت کرنے والی عورتیں، اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد ہوں یا ذکر کرنے والی عورتیں، ان سب کے لیے اللہ نے مغفرت اور شاندار اجر تیار کر رکھا ہے۔ ‘‘
وآخر دعوانا أن الحمدُ للہ رب العالمین.
وصلی اللہ علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وسلم.
٭٭٭٭٭