نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home آخرت

إشراط الساعۃ | چوتھا درس

انور العولقی by انور العولقی
2 مارچ 2022
in آخرت, فروری 2022
0

لغوی اعتبار سے ’ساعۃ ‘سے مراد ہے ’گھنٹہ‘ یا ’گھڑی‘، إشراط الساعۃ کا لغوی مطلب ہے (قیامت کی) گھڑی کی علامات یا نشانیاں۔یہ نشانیاں وہ واقعات یا دنیا کی وہ صورتحال ہے جو قیامت سے پہلے کسی سنگِ میل کی طرح، ایک ایک کر کے پیش آئیں گی، اور دیکھنے والے جان سکیں گے کہ ہر علامت کے ساتھ وہ قیامت سے قریب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

قیامت کب آئے گی؟ یہ کسی کو معلوم نہیں۔ یہ علم الغیب ہے جس کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کے پاس نہیں۔ حتیٰ کہ انبیا اور فرشتے بھی نہیں جانتے کہ قیامت کب وقوع پذیر ہو گی۔ اسی لیے مشہور حدیث، حدیثِ جبریلؑ میں حضرت جبریلؑ کے اس سوال پر کہ قیامت کب واقع ہو گی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ’اس کے بارے میں جس سے پوچھا جا رہا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا‘۔ یعنی ہم دونوں کو علم نہیں کہ قیامت کب واقع ہو گی۔ لیکن رسول اللہﷺ نے ہماری رہنمائی کے لیے قیامت کی بہت سی نشانیاں بیان کی ہیں۔

علاماتِ قیامت ایک ایسا موضوع ہے جس سے متعلقہ احادیث میں صحت کے اعتبار سے بہت تنوع پایا جاتا ہے۔ اس لیے صحیح احادیث تک پہنچنے کے لیے کتابوں کے ایک انبار میں سے بہت احتیاط اور دقت سے گزرنے اور تحقیق کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔یہ ایک بے حد محنت طلب کام ہے، لیکن الحمدللہ کے اس موضوع پر بھی کتب موجود ہیں جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے، جن میں ابنِ کثیرؒ اور دیگر علما کی کتب شامل ہیں۔ ہم نے ان دروس میں ایک عالم یوسف الوابل کی کتاب ’الصحیح من اشراط الساعۃ‘کو بنیاد بنایا ہے جنہوں نےاحادیث کی مستند کتب سے صرف صحیح احادیث کو لیتے ہوئے قیامت کی ۵۰ سے زائد علامات بیان کی ہیں۔

علامات کی اقسام

قیامت کی نشانیوں میں سے بعض تو ایسے واقعات ہیں جو صرف ایک ہی دفعہ وقوع پذیر ہو سکتے ہیں۔ جب وہ واقع ہو جاتے ہیں تو ان کے بارے میں کوئی شک و شبہ یا ابہام باقی نہیں رہ جاتا کہ یہ نشانی نظر آ گئی ہے۔ مثلاً رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ حجاز سے ایک آگ نکلے گی جس کی روشنی شام تک پہنچے گی، اور تم رات کے وقت اونٹوں کی گردنیں بھی دیکھ سکو گے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو جب پیش آئے تو ہر شخص اسے پہچان لے کہ یہ واقعہ پیش آ چکا ہے۔

لیکن بعض علامات ایسی ہیں جو ایک سے زیادہ دفعہ پیش آ سکتی ہیں۔ یا یوں بھی ہو سکتا ہے کہ ایسا محسوس ہو کہ یہ نشانی پوری ہو چکی ہے جبکہ حقیقت میں اس کا ظہور نہ ہوا ہو۔ مثلاً، ایک علامت ہے ’یکثر الحرج ‘، قتل و غارت گری کا عام ہو جانا۔اگر ہم آج کے اپنے حالات پر نظر ڈالیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے گویا کہ یہ نشانی پوری ہو چکی ہے، مگر ممکن ہے کہ ابھی صورتحال مزید بگڑ جائے۔ یہ ایسی علامات ہیں جو ظاہر تو ہوتی ہیں مگر اپنی پوری شدت کے ساتھ ان کا اظہار نہیں ہوتا۔ ایک مخصوص وقت میں یہ ایک حد تک ظاہر ہوتی ہیں، اور پھر بتدریج ان کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

اور بعض علامات ایسی ہیں جو ایک دوسرے کی مکمل ضد ہیں۔ مثلاً ایک علامت جو بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ امن پھیل جائے گا، جبکہ ایک دوسری علامت یہ ہے کہ بے امنی اور انتشار پھیل جائے گا۔ چونکہ یہ علامتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ایک ہی وقت میں پیش نہیں آئیں گی۔ لہٰذا ممکن ہے کہ یہ واقعاتی اعتبار سے مختلف زمانوں میں وقوع پذیر ہوں گی۔

علاماتِ قیامت

  1. بعثتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم

قیامت کی پہلی نشانی رسول اللہ ﷺ کے پیغام کی دنیا میں آمد ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بعثت انا والساعۃكهاتين، (میری بعثت اور قیامت ان دو کی طرح ہیں، اور اپنی انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی کو ملا کر اشارہ فرمایا)۔ یعنی اگر زمین کی پشت پر بنی نوعِ انسان کی تاریخ سے موازنہ کریں ، تو نبی کریم ﷺ قیامت سے ایسے قریب ہیں جیسے یہ دو انگلیاں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ آخر الزماں میں بھیجے گئے، یعنی اگر یوں کہا جائے کہ زمین پر انسانی تاریخ کی میعاد ایک دن ہے، تو رسول اللہ ﷺ اس دن کی سہ پہر میں بھیجے گئے جس کے فوراً بعد شام ہے، یعنی غروبِ آفتاب اور دن کا اختتام ہے۔

  1. رسول اللہﷺ کی رحلت

بخاری کی ایک حدیث میں حضرت عوف بن مالکؓ سے مروی ہےکہ وہ فرماتے ہیں کہ ’’أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوکَ وَهُوَ فِي قُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ فَقَالَ اعْدُدْ سِتًّا بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ مَوْتِي……‘‘، میں نے غزوہ تبوک میں رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضری دی اور وہ چمڑے کے ایک خیمہ میں تشریف فرما تھے، ارشاد فرمایا کہ یاد کرلو قیامت برپا ہونے سے پہلے چھ باتیں معرض وجود میں آئیں گی،(جن میں سے پہلی ہے) میری رحلت……(دیگر پانچ کا ذکر آگے آئے گا)۔

رسول اللہ ﷺ کی رحلت قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے، اور یہ امت ِ مسلمہ کے ساتھ پیش آنے والا سب سے بڑا سانحہ ہے۔ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تمہیں کبھی کوئی مشکل یا مصیبت در پیش ہو تو میرے انتقال کی مصیبت کو یاد کر لینا۔ دنیا کی ہر مشکل ، پریشانی اور مصیبت، رسول اللہ ﷺ کی دنیا میں معیت کو کھو دینے کی مصیبت کے سامنے ہیچ ہے۔

ترمذی کی ایک روایت میں حضرت انس بن مالکؓ سے منقول ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ’جس دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں داخل ہوئے تھے اس دن ہر چیز روشن ہوگئی تھی اور جس دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوا اس دن ہر چیز تاریک ہوگئی۔ ہم نے ابھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دفن کرنے کے بعد ہاتھوں سے خاک بھی نہیں جھاڑی تھی کہ ہم نے اپنے دلوں کو اجنبی پایا (یعنی دلوں میں ایمان کا وہ نور نہ رہا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں تھا) ۔ نبی کریم ﷺ کی محض موجودگی بھی صحابہ کرامؓ کے لیے بہت خاص اہمیت رکھتی تھی۔ جیسے ہی وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے، انہوں نے شدت سے محسوس کیا کہ اب ان کی زندگی کا بہت خاص گوشہ رخصت ہو گیا ہے۔

  1. یروشلم کی فتح (فتحِ بیت المقدس)

یہ علامت سیدنا عمر ابن الخطابؓ کے زمانے میں ظاہر ہوئی۔ حضرت ابو عبیدہؓ بن الجراح کی قیادت میں مسلمانوں کے لشکر نے یروشلم کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ اہلِ شہر جانتے تھے کہ وہ مقابلے کی سکت نہیں رکھتے، لہٰذا جلد یا بدیر انہیں ہتھیار ڈالنے ہی ہوں گے۔انہوں نے حضرت ابو عبیدہ ؓ کو پیغام بھیجا کہ وہ تسلیم ہونے کے لیے تیار ہیں لیکن وہ بیت المقدس کی اہمیت کے پیشِ نظر، اس کی چابیاں مسلمانوں کے خلیفہ کے حوالے کریں گے۔ یہ پیغام جب حضرت عمرؓ تک پہنچا تو آپ ؓ نے صحابہ کی شوریٰ سے مشورہ کیا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے……کیا یروشلم جانا چاہیے یا مدینہ میں ہی رہنا چاہیے؟ بعض صحابہ نے خطرے کے پیشِ نظر مدینہ میں ٹھہرنے کا مشورہ دیا اور بعض نے یہ مشورہ دیا کہ اللہ پر توکل کر کے جانا چاہیے۔

سیدنا عمر بن الخطابؓ اپنے غلام کے ساتھ اس سفر پر نکل کھڑے ہوئے۔ ان کے پاس ایک ہی اونٹ تھا جس پر وہ باری باری سواری کرتے تھے۔ کچھ دیر عمرؓ سوار ہو جاتے ، پھر غلام سواری کرتا اور پھر وہ دونوں اونٹ کو سستانے کا موقع دینے کے لیے پیادہ پا چلتے۔ جب یروشلم پہنچے تو اس وقت اونٹ پر سوار ہونے کی غلام کی باری تھی۔وہ اونٹ پر سوار تھا اور خلیفۃ المسلمین پیدل ساتھ چل رہے تھے۔ راستے میں کیچڑ کا ایک جوہڑ آ گیا جس کو پار کیے بغیر گزرنا ممکن نہ تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے کپڑے سمیٹے اور جوہڑ سے گزر گئے۔ کیچڑ کے چھینٹے آپ کے کپڑوں اور ٹانگوں پر لگ گئے۔یہ سب اہلِ یروشلم کے سامنے ہو رہا تھا۔ حضرت ابو عبیدہؓ نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کے خلیفہ کے لیے اس طرح اہلِ یروشلم کے سامنے آنا کچھ مناسب نہیں ۔ اس لیے نہیں کہ امیر میں عاجزی و انکساری نہیں ہونی چاہیے۔ بلکہ اس لیے کہ رومیوں کا تعلق ایک ایسے معاشرے سے تھا جہاں قائدین اور بڑے لوگ ہمیشہ محافظین و مصاحبین کے حلقے میں رہتے تھے اور انہیں یہ خیال آیا کہ مسلمانوں کے خلیفہ کا یہ عجز و فقر دیکھ کر رومی مسلمانوں کے امیر کے ساتھ ان کے شایانِ شان برتاؤ نہ کریں گے۔

یہ وہ وقت تھا کہ روئے زمین پر عمر بن الخطابؓ سے بڑھ کر کوئی قابلِ عزت و شرف نہ تھا ۔سو حضرت ابو عبیدہؓ نے انہیں بعض مشورے دیے جس پر سیدنا عمرؓ نے حضرت ابو عبیدہؓ کے سینے پر ضرب لگائی اور فرمایا: ’’مجھے تم سے یہ توقع نہیں تھی۔ہم لوگ زمین میں ذلیل و خوار تھے، ہم کچھ بھی نہ تھے جب اللہ نے اسلام کے ذریعے ہمیں عزت اور شرف بخشا۔اگر ہم اسلام کے علاوہ کسی چیز میں عزت تلاش کریں گے، تو اللہ ہمیں ذلیل و خوار کر دے گا‘‘۔

یعنی عزت و شرف اور سعادت اس میں نہیں کہ آپ کے ساتھ مصاحبین و حاشیہ نشین کتنے ہیں، پروٹوکول کی گاڑیوں کا کاروان کتنا بڑا ہے، اور کتنا پیسہ اسراف و تبزیر میں لگایا ہے۔ ہماری عزت و شرف اسلام میں ہے، نہ کہ تن پر پہنے کپڑوں میں۔ اس وقت بادشاہِ وقت عمر بن خطابؓ کے تن پر موجود لباس میں ۱۴ پیوند لگے ہوئے تھے۔ سیدنا ابو عبیدہؓ سے آپ ؓ کی گفتگو دراصل یہ سکھاتی ہےلوگوں کے دلوں میں عزت و ہیبت اللہ رب العزت ڈالتے ہیں۔ اگر ہم لوگوں کو مرعوب و متاثر کرنے کے لیے کوئی بھی دوسرا سطحی طریقہ اپنائیں گے تو اللہ تعالیٰ ہماری عزت ختم کر دیں گے۔

اور سبحان اللہ ……عمر ؓ نے صحیح فرمایا تھا۔جب اہلِ یروشلم نے آپؓ کو اس حلیے میں دیکھا تو لوگ رونے لگے۔ لوگ آپؓ کو دیکھنے کے لیے اپنے مکانوں کی چھتوں پر چڑھے ہوئے تھے۔ انہوں نے آپؓ کا تذکرہ سن رکھا تھا مگر آپؓ کو کبھی دیکھا نہیں تھا۔اسلام کی سادگی دیکھ کر انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آ رہا تھا۔انہوں نے شہر کی چابیاں حضرت عمرؓ کے حوالے کر دیں۔ ابنِ کثیرؒ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ ان (اہلِ یروشلم )کی کتابوں میں اس شخص کا ذکر موجود تھا جو بیت المقدس کی چابیاں ان سے لے گا، اور اس کی نشانیوں میں ایک نشانی یہ تھی کہ اس کے لباس میں ۱۴ پیوند لگے ہوں گے۔

  1. طاعون

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’…مُوْتَانٌ يَأْخُذُ فِيکُمْ کَقُعَاصِ الْغَنَمِ……‘‘ ،[ یکدم (یکایک) سے مرنا ، یہ وبا تم میں اس طرح پھیلے گی جس طرح بکریوں میں یکایک مرنے کی بیماری پھیل جاتی ہے]۔ اس سے مراد طاعون ہے۔ یہ ۱۸ ھ میں ، فتحِ بیت المقدس کے بعد شام میں تیزی سے پھیل گیا ۔ یہ بے حد تباہ کن مصیبت تھی جو مسلمانوں پر نازل ہوئی اور ۲۵۰۰۰ سے زائد مسلمان اس کا لقمہ بن گئے۔ان میں بہت سے جلیل القدر صحابہؓ جیسے حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ اور معاذ بن جبلؓ بھی شامل تھے۔ مگر رسول اللہ ﷺ کی بشارت کے مطابق، طاعون مومن کے لیے ایک نعمت کی مانند ہے، کیونکہ طاعون کے باعث وفات پانے والا شہادت کا رتبہ پاتا ہے۔

  1. کثرتِ مال

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسْتِفَاضَةُ الْمَالِ حَتَّی يُعْطَی الرَّجُلُ مِائَةَ دِينَارٍ فَيَظَلُّ سَاخِطًا (سرمایہ داری کی کثرت ،یعنی اگر کسی کو سو اشرفیاں دی جائیں تب بھی وہ خوش نہ ہو)۔یعنی مال کی ایسی کثرت ہو گی کہ سو دینار (سونے کی ایک خاص مقدار)کوئی شے سمجھے ہی نہ جائیں گے۔ یہ نشانی کسی حد تک حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے زمانے میں نظر آئی۔ اس کے ذیل میں کئی قصّے اور روایات بیان کی جاتی ہیں۔ مثلاً ایک روایت یہ ہے کہ افریقہ سے سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ کے پاس کچھ رقم بھیجی گئی۔ آپؒ نے پوچھا:’’یہ کیاہے؟ افریقہ سے یہ رقم مجھے کیوں بھجوائی جا رہی ہے؟ یہ رقم جس علاقے سے لی گئی ہے، وہیں کے فقرا میں تقسیم کر دو‘‘۔ یعنی لوگوں سے جمع شدہ مال مرکزی حکومت کو نہیں بھجوایا جاتا تھا۔ بلکہ مقامی حکومت کے پاس جو مال اکٹھا ہوتا وہ مقامی مدّات و مصارف پر ہی استعمال ہوتا۔ آپؒ کو بتایا گیا کہ جس علاقے سے یہ مال آیا ہے، وہاں اب کوئی فقیر یا حاجت مند نہیں ہے۔ تو آپؒ نے حکم دیا کہ رقم واپس بھجوا دی جائے اور اسے سڑکیں بنانے اور غلام آزاد کرانے پر خرچ کیا جائے۔ اسی طرح آپ کے زمانے میں یمن سے زکوٰۃ بھیجی گئی، آپؒ نے وہ بھی واپس بھجوا دی اور یہی حکم دیا۔ مال کی یہ کثرت و فراوانی اس لیے تھی کہ اللہ نے ان لوگوں کے رزق میں برکت عطا کی تھی۔

مگر اس نشانی سے یہ بھی مرا ہو سکتی ہے کہ آخر الزماں میں پوری دنیا میں مال و دولت کی کثرت و فراوانی ہو گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک وقت آئے گا جب زکوٰۃ دینے والا زکوٰۃ لے کر نکلے گا لیکن کوئی اس سے لینے والا نہ ہو گا۔ مال کی کثرت ہو گی اور ہر شخص خوشحال ہو گا۔

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: تَقِيئُ الْأَرْضُ أَفْلَاذَ کَبِدِهَا أَمْثَالَ الْأُسْطُوَانِ مِنْ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ فَيَجِيئُ الْقَاتِلُ فَيَقُولُ فِي هَذَا قَتَلْتُ وَيَجِيئُ الْقَاطِعُ فَيَقُولُ فِي هَذَا قَطَعْتُ رَحِمِي وَيَجِيئُ السَّارِقُ فَيَقُولُ فِي هَذَا قُطِعَتْ يَدِي ثُمَّ يَدَعُونَهُ فَلَا يَأْخُذُونَ مِنْهُ شَيْئًا۔ (زمین اپنے کلیجے کے ٹکڑوں کی قے کر دے گی سونے اور چاندی کے ستونوں کی طرح۔ قاتل آکر کہے گا اسی کی وجہ سے میں نے قتل کیا تھا اور قطع رحمی کرنے والا کہے گا میں نے اسی کی وجہ سے قطع رحمی کی، چوری کرنے والا آئے گا تو کہے گا اسی کی وجہ سے میرا ہاتھ کاٹا گیا پھر وہ سب اس کو چھوڑ دیں گے، وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لیں گے)۔

اسی طرح احادیث میں آتا ہے کہ دریائے فرات سے سونے کا ایک پہاڑ ظاہر ہو گا۔مگر اس کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کی تاکید ہے کہ اگر تم اسے پاؤ تو اسے چھوڑ دو، کیونکہ اس کی طرف بڑھنے والے ہر سو میں سے ننانوے قتل کر دیے جائیں گے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں، مجھے تمہارے بارے میں فقر کا اندیشہ نہیں ، بلکہ مجھے یہ ڈر ہے کہ تم اس دنیا پر ایک دوسرے سے مسابقت کرنے لگو گے اور یہ تمہیں تباہ کر دے گا‘‘۔ یعنی رسول اللہﷺ کو ہمارے بارے میں جو خطرہ لاحق تھا وہ مادّی و دنیاوی فائدے حاصل کرنے کی دوڑ میں شریک ہونے کا تھا۔اگر ہم اس مقابلے کا حصّہ بنتے ہیں تو یہ چیز ہمیں تباہ کر دے گی۔ آج دنیا میں جو فقر و غربت نظر آتی ہے، اس کی وجہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ ان کی غیر منصفانہ تقسیم اور ظلم و زیادتی ہے۔ اگر آپ دنیا پر نظر ڈالیں، تو معلوم ہو گا کہ وسائل پر انحصار نہیں کیا جاتا۔بلکہ سب سے بڑا سرمایہ خود انسان کی اپنی ذات ہے۔ مثال کے طور پر سیلیکون ویلی(Silicon Valley) جیسی جگہ لے لیں۔وہاں مٹی کے سوا کچھ بھی نہیں۔مگر روئے زمین پر اس سے زیادہ دولت مندو مالدار جگہ اور کوئی نہیں۔ وہاں کوئی تیل کے ذخائر نہیں پائے جاتے، نہ سونا نہ چاندی، کوئی قابلِ ذکر زراعت بھی نہیں……وہاں جو ’مال‘ یا ’سرمایہ‘ ہے وہ (human resource)یعنی انسان خود ہے۔

بدقسمتی سےمسلم دنیا میں ہمارے پاس بہت سے وسائل ہیں، مگر ہمارے پاس انہیں بروئے کار لانے کی صلاحیت و قابلیت نہیں ہے۔اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک ہمیں برکت عطا نہیں کریں گے جب تک ہم کاروبار و اقتصاد کے قوانین و معاملات میں شریعت کے بتلائے اصولوں کی پاسداری نہیں کریں گے۔ ایک شخص کے پاس پیسہ ہو سکتا ہے، لیکن اگر اس کے پیسے میں برکت نہ ہو تو ایسے مال میں کوئی خیر نہیں ۔

  1. فتنہ و فساد کا زمانہ

مسلم کی ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: ’’بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا کَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ ……‘‘ (ان فتنوں کے ظاہر ہونے سے پہلے جلد جلد نیک اعمال کرلو جو اندھیری رات کی طرح چھا جائیں گے……) اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي کَافِرًا أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ کَافِرًا يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنْ الدُّنْيَا‘‘۔یہ وہ وقت ہو گا جب صبح آدمی ایمان والا ہوگا اور شام کو کافر ،یا شام کو ایمان والا ہوگا اور صبح کافر اور (یہ اس لیے ہو گا کہ وہ معمولی سے)دنیوی نفع کی خاطر اپنا دین بیچ ڈالے گا۔

امام احمد بن حنبلؒ بھی یہی حدیث نقل کرتے ہیں اور اس کی تشریح میں حضرت حسن البصریؒ فرماتے ہیں:’’ خدا کی قسم! میں نے یہ لوگ دیکھے ہیں۔ یہ شکل اور وجود رکھتے ہیں، مگر ان کے ذہن خالی ہیں۔ جسم موجود ہیں مگر روح نہیں ہے۔ جیسے پروانے آگ کے گرد جمع ہوتے ہیں اور مکھیوں کو حرص و ہوس کھینچ لاتا ہے۔یہ لوگ دو درہم کے عوض بکنے کے لیے تیار ہوتے ہیں، حتیٰ کہ ایک شخص ایک بکری کی معمولی سی قیمت کے بدلے اپنا دین و ایمان بیچنے پر تیار ہوتا ہے‘‘۔حضرت حسن البصریؒ نے یہ بات زمانۂ تابعین میں فرمائی، میں سوچتا ہوں کہ اگر وہ آج زندہ ہوتے تو کیا کہتے!

مسند احمد کی ایک دوسری روایت میں، اس حدیث پر یہ اضافہ ملتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنْ الْقَائِمِ وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنْ الْمَاشِي وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنْ السَّاعِي فَکَسِّرُوا قِسِيَّکُمْ وَقَطِّعُوا أَوْتَارَکُمْ وَاضْرِبُوا بِسُيُوفِکُمْ الْحِجَارَةَ فَإِنْ دُخِلَ عَلَی أَحَدِکُمْ فَلْيَکُنْ کَخَيْرِ ابْنَيْ آدَمَ۔ (ان فتنوں میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا (اس وقت) اپنی کمانیں توڑ دینا اور کمانوں کے چلے کاٹ دینا، اپنی تلواریں پتھروں پر مار کر کند کرلینا اور اگر تم میں سے کسی کے پاس کوئی گھس آئے اور (مارنے لگے) تو وہ سیدنا آدم ؑکے دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل) میں سے بہتر کی طرح ہوجائے)۔اس سے مراد یہ ہے کہ حق و باطل اس طرح خلط ملط ہو جائے گا کہ ان میں تفریق کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ہر چیز(یعنی نظریات و تصورات) سیاہ و سفید (black and white)نظر آنے کے بجائے، سرمئی (grey)نظر آئیں گے۔ ایسے وقت میں جب صحیح و غلط کی تمیز مشکل ہو جائے گی اور سب خلط ملط ہو جائے گا، نبی کریمﷺ ہمیں پیچھے ہٹنے کی، فتنوں سے دور چلے جانے کی تلقین کرتے ہیں۔ جو جتنا دور ہو گا، وہ قریب والے سے اتنا بہتر ہو گا۔ بیٹھنے والا، کھڑے ہونے والے سے، کھڑا ہونے والا، چلنے والے سے…… ان فتنوں میں شامل ہونے سے جس قدر بچ سکیں، بچنا چاہیے۔حتیٰ کہ گھر میں بند ہو کر رہنا پڑے، تو بھی ان فتنوں سے بچنے کے لیے گھر میں رہنا اچھا ہے۔ اور اگر کوئی گھر میں ہی گھس آئے، تو آدمؑ کے بیٹوں میں سے بہتر بیٹے کی طرح ہوجانا۔ قابیل نے ہابیل کو قتل کیا،جبکہ ہابیل نے اپنے بھائی کو کہا:’’اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھائے گا، تو بھی میں تجھ سے لڑائی نہ کروں گا‘‘۔ لیکن یہ نصیحت آج کے لیے نہیں ہے۔ یہ ان فتنوں اور آزمائشوں کے لیے ہے جب حالات انتہائی سخت ہوں گے اور حق و باطل میں تفریق و تمیز کرنا بے حد مشکل ہو جائے گا۔

اگر فتنوں کی بات کی جائے تو بہت سے ایسے ہیں جو واقع ہو چکے ہیں، اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو تا حال وقوع پذیر نہیں ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے مشرق کی طرف اشارہ کیا (جب آپﷺ مدینہ میں تھے) اور فرمایا ’’إِنَّ الْفِتْنَةَ هَا هُنَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَا هُنَا مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ‘‘(فتنے یہاں ہیں، جہاں سے شیطان کا سینگ نمودار ہوتا ہے)۔لہٰذا یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض بہت بڑے اور مشکل فتنے مدینہ کے مشرق سے ظاہر ہوئے۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ سب ہی فتنے مشرق سے ظاہر ہوں گے، لیکن بہت سے فتنوں کا مصدر و ماخذ مدینہ کے مشرق میں ہو گا۔ مثلاً: بہت سے گمراہ فرقوں کا ظہور مشرق سے ہوا، سیاسی شورشیں اور بد امنی مشرق سے پیدا ہوئیں، فتنۂ تاتار (منگولوں کی یورش) مشرق سے آئی، دجال کا ظہور مشرق سے ہو گااور یاجوج ماجوج بھی وہیں سے ظاہر ہوں گے۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

[یہ سلسلۂ مضامین نابغۂ روزگار مجاہد و داعی شیخ انور العولقی شہید رحمۃ اللہ علیہ کے انگریزی میں ارشاد کیے گئے سلسلۂ دروس ’Al-Aakhirah – The Hereafter‘ کا اردو ترجمہ ہیں، جو بِتوفیق اللہ، قسط وار مجلّہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ میں شائع کیے جا رہے ہیں ۔ ]

Previous Post

شہادت کی قبولیت کی شرائط | ۴

Next Post

قصہ دو باغ والے کا

Related Posts

موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | چھبیسواں درس

26 ستمبر 2025
موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | پچیسواں درس

14 اگست 2025
موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس

14 جولائی 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | تئیسواں درس

9 جون 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | بائیسواں درس

25 مئی 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | اکیسواں درس

14 مارچ 2025
Next Post

قصہ دو باغ والے کا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version