نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home حلقۂ مجاہد

شہادت کی قبولیت کی شرائط | ۴

احمد فاروق by احمد فاروق
2 مارچ 2022
in حلقۂ مجاہد, فروری 2022
0

تیسری صفت، مُحْتَسِبٌ… رسولﷺ فرماتے ہیں؛ تیسری صفت یہ ہے کہ تم محتسب ہو۔ محتسب کسے کہتے ہیں؟ علامہ نوویؒ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ہے مُخْلِصٌ لِلّٰہِ تَعٰالیٰ… محتسب سے مراد ہے کہ اللہ کے لیے مخلص ہو جاؤ۔ محتسب کہتے ہیں اس کو جس کی نگاہ ثواب کے اوپر ہو، جس کی نگاہ اللہ کی رضا کے اوپر ہو، جس کی نگاہ اُن سارے انعامات کے اوپر ہو جس کا اللہ نے وعدہ کر رکھا ہے۔ جو اپنے آپ کو ریا سے دور رکھتا ہو، جو اپنے آپ کو مالِ غنیمت اکٹھا کرنے کی ہی نیت کرلینے سے دور رکھتا ہو، دنیا میں مال وجاہ کمانے کی نیت سے دور رکھتا ہو، جس کو مقصود صرف یہ ہو کہ اللہ اور بس اللہ راضی ہوجائے۔ تو یہ اخلاص جو ہے یہ تیسری صفت ہے۔ شہید وہ ہے اللہ کے ہاں اور اُس کے سارے گناہ معاف ہوں گے جو مخلص ہو، جس کا سارا عمل اللہ کے لیے خالص ہو۔ تو پیارو! یہ آسان کام تو نہیں ہے، شہادت پانا واقعتاً بہت مشکل کام ہے، اس لیے کہ اخلاص پیدا کرنا بہت مشکل کام ہے، ریا سے بچنا بہت مشکل کام ہے، اور اگر ریا ہوگا تو علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں، تو پھر اُس سے کیا ہوتا ہے؟ ریا کے نتیجے سے، فَلَا یَکُونُ عِبَادَۃً… اُس کا جہاد عبادت نہیں رہے گا۔ بات صرف قبولیت ہی کی نہیں ہے، اگلی بات سنیں، وہ کیا کہتے ہیں؛ بلکہ وہ ایک مصیبت بن جائے گی جو جہاد کرنے والے کو ہلاک کر دے گی، ہلاکت کا باعث بنے گا جہاد اُس مجاہد کی جس کا اخلاص اُس کے ساتھ موجود نہ ہو۔ یعنی دو صورتیں ہو سکتی ہیں؛ یا وہ شرکِ اکبر میں مبتلا ہوگا، صریح شرک کرے گا اور اس کی وجہ سے کفر میں مبتلا ہوگا اور سارا عمل ضائع ہو جائے گا۔ اور یا پھر ریاکاری کی وجہ سے اُس کا عمل غیر خالص ہو جائے گا اور وہ بھی شرکِ اصغر ہے۔ اور نتیجہ کیا ہوگا کہ اُس کا انجام جہنم میں جانا ہوگا، اُس مجاہد کا، اُس قتل کیے جانے والے کا انجام جہنم میں جانا ہوگا۔ کیسے؟ جیسا کہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی حدیث میں آتا ہے۔

پیارو! اور کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے، وہ ایک حدیث آپ کے سامنے پوری سنا دیتا ہوں۔ وہ ایک حدیث بہت ہے ہمارے دلوں کو جھنجھوڑنے کے لیے اور یہ سمجھانے کے لیے کہ اخلاص کا معاملہ کتنا اہم ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث ہے، شفعی العسبعی جو ہیں وہ راوی ہیں، کہتے ہیں کہ وہ داخل ہوئے مدینہ کی مسجد میں، مسجدِ نبویﷺ میں، تو انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص کے اِردگرد بہت سے لوگ اکٹھے ہیں، تو انہوں نے پوچھا یہ کون ہے؟ تو لوگوں نے کہا کہ یہ صحابئ رسول ابو ہریرہؓ ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں اُن کے قریب ہوا، حضرت ابو ہریرہؓ کے، یہاں تک کہ اُن کے بالکل سامنے جاکر بیٹھ گیا۔ وہ لوگوں کو حدیثیں سنا رہے تھے، بات کر رہے تھے لوگوں سے۔ توجب آپؓ خاموش ہوگئے اور تنہا رہ گئے تو میں نے اُن سے کہا؛ کہ میں اپنے حق کا واسطہ دے کے آپ کو کہتا ہوں کہ مجھے کوئی ایسی حدیث سنائیں جو آپ نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنی ہواور آپ نے اُس کو ذہن نشین بھی کیا ہو اور اُس کا علم بھی آپ کے سینے میں محفوظ ہو۔ تو حضرت ابوہریرہؓ نے فرما یا کہ ہاں میں ایسا کروں گا یعنی تمہارا یہ مطالبہ پورا کروں گا۔ میں تمہیں ایک ایسی حدیث سناؤں گا جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے خود سنی اور میں نے اُس کو اپنے سینے میں بھی محفوظ کیا اور اپنے علم میں بھی لایا اور اپنی عقل میں بھی محفوظ رکھا۔ یہ کہہ کے حضرت ابوہریرہؓ بے ہوش ہوگئے اور تھوڑ ی دیر کے لیے بے ہوش ہی رہے، پھر آپؓ کو ہوش واپس آیا۔ کہتے ہیں کہ پھر فرمایا حضرت ابوہریرہؓ نے، کہ میں تمہیں ایک حدیث سناؤں گا جو مجھے رسول اللہ ﷺ نے سنائی، اس حال میں سنائی تھی کہ میں اور وہ اِس گھر میں اکیلے تھے، میں اور اللہ کے رسولﷺ، اور ہم دونوں کے علاوہ اس گھر میں کوئی موجود نہیں تھا۔ اور پھر حضرت ابوہریرہؓ یہ کہہ کر بے ہوش ہو گئے۔ اور پھر تھوڑی دیر بعد آپؓ ہوش میں آئے، اور اپنے چہرے کو آپؓ نے ہاتھوں سے ملا اور پھر کہا کہ میں تمہیں حدیث سناتا ہوں، میں تمہیں حدیث سناتا ہوں جو مجھے خود رسول اللہ ﷺنے سنائی، اس طرح کہ میں اور وہ اِس گھر میں اکیلےتھے اور ہمارے سوا کوئی موجود نہیں تھا۔ اور پھر بری طرح چکرا کر آپؓ اپنے چہرے کے بَل گر پڑے، بے ہوش رہے اور کافی دیر اسی حالت میں رہے۔ اور پھر آپؓ کو ہوش آیا اور فرمایا کہ اللہ کی نبی ﷺ نے فرمایا؛ کہ جب قیامت کا دن آئے گا تو اللہ تعالیٰ بندوں کی طرف نازل ہوں گے تاکہ اُن کے درمیان فیصلہ فرمائیں، اور سب انسان گھٹنوں کے بَل بیٹھے ہوئے ہوں گے۔ سب سے پہلے جس کو بلایا جائے گا وہ ایک ایسا شخص ہوگا جس نے قرآن کو اکٹھا کیا، یعنی عالم تھا، قرآن کو سینے میں جمع کیا، اور ایک ایسا شخص ہوگا جو اللہ کے رستے میں مارا گیا، اور ایک ایسا شخص ہوگا جس نے بہت سا مال اکٹھا کیا، بہت مال والا تھا، سخی تھا۔ تو پہلے اللہ تعالیٰ اُس عالم سے مخاطب ہوں گے، اُس قاری سے مخاطب ہوں گے۔ اللہ فرمائیں گے؛کیا میں نے تجھے علم نہیں بخشا تھا اُس چیز کا جو میں اپنے نبی پہ نازل کی، یعنی دین کا علم نہیں بخشا تھا؟ تو وہ عالم کہے گا کہ اے میرے رب! یقیناً تُو نے ایسا ہی کیا تھا۔ تو اللہ پوچھیں گے کہ جو علم تیرے پاس تھا اُس پہ تُو نے کتنا عمل کیا؟ تووہ عالم کہے گا کہ میں دن رات اُس علم کو سینے میں لیے کھڑا رہتا تھا یعنی اُسی علم میں مصروف رہتا تھا، سیکھتا بھی تھا، سکھاتا بھی تھا۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے؛ تُو جھوٹ کہتا ہے، اور فرشتے کہیں گے کہ تُو جھوٹ کہتا ہے۔ اللہ فرمائیں گے کہ تُو تو بس یہ چاہتا تھا کہ یہ کہا جائے کہ فلاں بڑا عالم ہے، تو وہ تو دنیا میں کہہ لیا گیا۔ پھر صاحب ِ مال کو لایا جائے گا۔ اللہ فرمائیں گے؛ کیا میں نے تجھے اتنا مال نہیں دیا تھا کہ تجھے کسی کی حاجت نہیں رہی تھی؟ تو وہ کہے گا ربّی! ایسا ہی تھا۔ تو اللہ پوچھیں گے کہ جو میں نے مال دیا تھا تُو نے اُس کے ساتھ کیا کیا؟ تو وہ کہے گا کہ اللہ! میں اُس سے صلہ رحمی کرتا تھا، صدقہ کیا کرتا تھا۔ تو اللہ کہیں گے؛ تُو جھوٹ کہتا ہے، اور فرشتے کہیں گے کہ تُو جھوٹ کہتا ہے۔ اللہ فرمائیں گے کہ تُو تو یہ چاہتا تھا کہ کہا جائے کہ فلاں آدمی بہت سخی ہے، اور یہ کہہ لیا گیا دنیا میں۔ پھر اُس کو لایا جائے گا، الفاظ پہ غور کریں، جو اللہ کے رستے میں مارا گیا ہو۔ پھر اُس سے پوچھا جائے گا؛ کیوں مارا گیا تُو؟ کس کام کے لیے؟ تو وہ کہے گا؛ اے اللہ! تیرے رستے میں مجھے جہاد کا حکم دیا گیا تھا، تو میں لڑتا رہا یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔ تو اللہ کہیں گے؛ تُو جھوٹ کہتا ہے، اور فرشتے کہیں گے کہ تُو جھوٹ کہتا ہے۔ اور اللہ فرمائیں گے کہ تُو تو بس یہ چاہتا تھا کہ کہا جائے کہ فلاں بہت شجاع ہے، تو یہ دنیا میں کہہ لیا گیا۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ یہ کہہ کے رسول اللہ ﷺ نے میرے گھٹنے پہ ہاتھ مارا اور کہا کہ ابو ہریرہ! یہ وہ تین پہلے بندے ہوں گے جن کے اوپر جہنم کی آگ کو بھڑکایا جائے گا۔

پیارو! حدیث یہاں رکتی نہیں ہے۔ حضرت طلحہؓ بن حکیم کہتے ہیں کہ وہ سیّاف تھے، وہ حضرت معاویہؓ کے دربان تھے، تو ایک شخص اُن کے پاس آیا اور اُس نے اُن کو حضرت ابوہریرہؓ کی یہ روایت سنائی۔ تو حضرت معاویہؓ نے فرمایا کہ جب ان تینوں کے ساتھ یہ ہو گیا تو باقیوں کے ساتھ کیا معاملہ ہو گا، اور پھر حضرت معاویہؓ اتنا روئے، اتنا روئے کہ ہم سمجھے کہ ہلاک ہو جائیں گے رو رو کے۔ تو ہم نے کہا کہ یہ بندہ ہمارے پاس بہت بڑی خبر لایا ہے، بہت عجیب حدیث سنائی ہے۔ پھر حضرت معاویہؓ اپنی اُس حالت سے واپس لوٹے، اپنے چہرے کو ملا اور کہا؛ اللہ اور اس کے رسولﷺ سچ کہتے ہیں کہ جو دنیا کی زندگی اور اُس کی زینت چاہتا ہے، ہم اُس کو دنیا میں ہی سب کچھ دے کے فارغ کر دیتے ہیں اور دنیا میں اُن کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جائے گی، اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں بس آگ ہے اور جتنے اعمال انہوں نے کیے وہ سب ضائع ہو گئے، اور جو کچھ انہوں نے کیا وہ سب کا سب باطل ہو گیا۔

تو پیارو! یہ تیسری شرط ہے اللہ کے ہاں اپنی شہادت قبول کر وانے کی اور اپنے اعمال قبول کروانے کی کہ انسان مخلص ہو، ورنہ اتنے بڑے بڑے اعمال بھی هَبَاءً مَّنْثُوْرًا ہوجائیں گے، دھول بنا کر اڑا دیے جائیں گے، کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔

چوتھی شرط جو رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں، وہ یہ کہ، مُقْبِلٌ غَيْرُ مُدْبِر… کہ چوتھی شرط یہ ہے شہادت کی قبولیت کی کہ انسان آگے بڑھ رہا ہو، پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہ ہو، آگے بڑھنے والوں میں سے ہو۔ کیا مطلب ہوا؟ مطلب یہ ہو اکہ جس طرح قرآن یہ کہتا ہے کہ جو شخص میدانِ جہاد سے پیٹھ پھیر کے بھاگے، قتال کے وقت منہ پھیر کے بھاگے، تو قرآن یہ بتاتا ہے کہ یہ ایسا عجیب کبیرہ گناہ ہے جس کے اوپر انسان اللہ کی لعنت کا اور اللہ کے غضب کا مستحق ہوتا ہے، اللہ کے غضب میں ہر طرح سے گھِر جاتا ہے۔ اتنی شدت اور اتنی وعید اس لیے بتائی گئی اس مسئلہ کے اوپر کہ جو ایک بندہ بھی میدان سے پیچھے ہٹتا ہے ناں، تو وہ پورے پورے لشکروں کو اکھاڑنے کا باعث بنتا ہے، اور ایک بندے کی استقامت، ایک کا آگے بڑھنا، ایک کا جرأت دکھانا پورے پورے لشکروں کو ثابت قدمی عطا کرتا ہے۔ تو اس لیے کسی کو بھی پیچھے ہٹنے کی اجازت نہیں ہے، جو پیچھے ہٹے گا وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوگا۔ تو شہادت اُس کی قبول نہیں ہے کہ جو پیچھے بھاگتے بھاگتے جا رہا تھا اور غلطی سے اُس کو کوئی چیز آکے لگ گئی۔ شہادت اُس کی قبول ہے جو مُقْبِلٌ غَيْرُ مُدْبِر… تاکید کے ساتھ کہا گیا کہ جو آگے بڑھ رہا ہو، بات یہاں پہ بھی پوری ہو سکتی تھی، کہا غَيْرُ مُدْبِر، پیچھے نہ ہٹ رہا ہو، واپسی کی طرف نہ رجوع کر رہا ہو۔ تو یہ صفت مطلوب ہے اور ظاہر سی بات ہے، انسان غور کرے تو اس کی سب سے اعلیٰ صورت فدائی حملہ ہی سمجھ میں آتی ہے، کیونکہ وہ بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ اپنے ہدف تک اور اپنے دشمن تک پہنچ جاتا ہے۔

ایک اور حدیث یہ کہتی ہے کہ سب سے افضل شہادت اُس شخص کی ہے، سب سے افضل مقتول وہ ہے، سب سے افضل مجاہد وہ ہے، کہ جس کا حال یہ ہو کہ جب کبھی وہ کہیں سے کوئی جنگ کی آواز سنتا ہے یا جہاں کہیں وہ خطرے کی آواز سنتا ہے، بھاگتا نہیں ہے اُس سے، اُس کی طرف اُڑ کے اپنے گھوڑے کی پیٹھ پہ سوار ہوتا ہے اور لپکتا ہے اُس خطرے والی جگہ کی طرف، وہ خطروں کی طرف جاتا ہے، خطروں سے دور نہیں جاتا۔ کیوں جاتا ہے؟ موت اور قتل کی تلاش میں جاتا ہے، وہ متلاشی ہوتاہے کہ کہیں اُس کو شہادت مل جائے، وہ متلاشی ہوتا ہے کہ اُس کو وہ جگہ مل جائے جہاں پہ وہ اپنے ٹکڑے کر وا سکے اور اللہ کو راضی کر سکے، اپنی جان کو اپنے ہاتھ کے اوپر لیتے ہوئے پھر رہا ہوتا ہے۔

تو یہ وہ شہادت ہے جو اللہ کے ہاں سب سے افضل ہے۔ کہ انسان خود موت کے پیچھے جائے، موت اُس کے پیچھے پیچھے نہ آرہی ہو۔ یہ چوتھی صفت ہے کہ انسان پیچھے بھاگتے ہوئے نہ ماراجائے، آگے بڑھتے ہوئے مارا جائے۔ اور جتنی زیادہ جو اس میں استقامت دکھائے گا، جتنی زیادہ مضبوطی سے اور جتنی زیادہ استقامت کے ساتھ دشمن کا سامنا کرے گا، جتنا دشمن کی طرف بڑھنے والا، اللہ کی خاطر خطروں کو قبول کرنے والا ہوگا تو اتنا زیادہ وہ اللہ کے یہاں محبوب ہوگا، اتنی زیادہ اُس کی شہادت عند اللہ مقبول ہوگی۔ تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو فرض احتیاط ہے انسان وہ بھی چھوڑ دے، لیکن جنگ جو ہے وہ ایک دیوانگی کی جگہ ہے اور دیوانگی کے ساتھ ہی یہ سارے مراحل طے ہو سکتے ہیں۔ اسے اللہ کی محبت کی دیوانگی کہیں یا اُس کی جنت تک پہنچنے کی دیوانگی کہیں۔ تو بعض جگہوں پہ تھوڑ اسا عقل کو سائیڈ پہ رکھنا پڑتا ہے ورنہ کام نہیں ہوتے ہیں۔

تو یہ چوتھی شرط ہے شہادت کی قبولیت کی کہ مُقْبِلٌ غَيْرُ مُدْبِر… کہ وہ آگے بڑھنے والے ہوں، پیچھے ہٹنے والے نہ ہوں۔ علامہ نوویؒ فرماتے ہیں کہ غالباً یہ جو دونوں لفظ ساتھ ساتھ آگئے کہ آگے بڑھے، پیچھے نہ ہٹے، تو یہ تاکید اس لیے آگئی تاکہ اس تعریف سے وہ لوگ نکل جائیں جو کبھی آگے بڑھتے ہیں، کبھی پیچھے ہٹتے ہیں، اور اس میں صرف وہی لوگ شامل رہیں بس جو آگے ہی بڑھتے چلے جاتے ہیں، بریکیں جن کی فیل ہیں۔

تو پیارے بھائیو! کبھی نہ کبھی کمزوری دل میں آجائے، میدان کے اندر دل کے اندر کوئی کمزوری آجائے، انسان ہے انسان میں کمزوری آسکتی ہے، لیکن قدم اکھڑ جائیں اور وہ دوسروں کے قدم بھی اکھاڑنے کا باعث بن رہے ہوں، وہ پیچھے بھاگنا شروع کردے، ہٹنا شروع کردے، گرفتاریوں سے پریشان ہو جائے، بمباریوں سے پریشان ہو جائے، شہادتوں سے پریشان ہو جائے اور اُس کے قدم اکھڑ جائیں، تو یقیناً وہ اللہ کی ناراضگی کا باعث بنے گا اور اپنی شہادت کو، اُس کے بعد مل بھی جائے تو وہ خطرے میں ڈالے گا۔

تو یہ چار شرطیں ہیں، جس کے اندر یہ پوری ہوں گی وہ عند اللہ شہید کہلائے گا۔ چار شرطیں ہم نے کیا کہیں:

۱۔ وہ اللہ کے رستے میں لڑ رہا ہو

۲۔ وہ صابر ہو

۳۔ مخلص ہو

۴۔ آگے بڑھ رہا ہو، پیچھے ہٹنے والا نہ ہو

جس میں یہ چار صفات پائی جائیں گی بِإذنِ اللہ، اُس کی شہادت اللہ کے یہاں مقبول ہوگی۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

Previous Post

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | چوتھی قسط

Next Post

إشراط الساعۃ | چوتھا درس

Related Posts

سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | سولھواں درس

26 ستمبر 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چھتیس (۳۶)

26 ستمبر 2025
نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری
حلقۂ مجاہد

نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری

17 اگست 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: پینتیس (۳۵)

14 اگست 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | پندرھواں درس

12 اگست 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | چودھواں درس

14 جولائی 2025
Next Post

إشراط الساعۃ | چوتھا درس

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version