نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | چوتھی قسط

ابو البراء الابی by ابو البراء الابی
2 مارچ 2022
in حلقۂ مجاہد, فروری 2022
0

یہ تحریر یمن کے ایک مجاہد مصنف ابو البراء الاِبی کی تصنیف’تبصرة الساجد في أسباب انتكاسۃ المجاهد‘ کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے ایسے افراد کو دیکھا جو کل تو مجاہدین کی صفوں میں کھڑے تھے، لیکن آج ان صفوں میں نظر نہیں آتے۔ جب انہیں تلاش کیا تو دیکھا کہ وہ دنیا کے دیگر دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟یہ تحریر ان سوالوں کا جواب ہے ۔(ادارہ)


پانچویں وجہ: مربی اور داعیوں کی طرف سے غلط تربیت

مربیوں سے مراد وہ داعی بھائی جو مجاہد نوجوانوں کی شرعی دورہ جات ، معسکرات اور تدریب وغیرہ جیسی سرگرمیوں میں نگرانی کرتے ہیں۔

تربیت میں غلطی کے کئی پہلو ہو سکتے ہیں۔ جن میں سے چند یہ ہیں:

  • مجاہد کے روحانی پہلو کی تربیت پر توجہ نہ دینا۔ اس کے ایمان اور اللہ سے تعلق کو قوی کرنے کی جستجو نہ کرنا۔ بلکہ بسا اوقات مربی کو دیکھتے ہیں کہ وہ مجاہدین کے ساتھ بکثرت ہنسی مذاق کرتا ہے۔ یا نظموں، ترانوں، لطیفوں اور کہانیوں جیسی اشیاء فراہم کرتا ہے جس سے مجاہد کا وقت گزر جائے۔ ایسے کرنے سے مجاہد کی تربیت انہی چیزوں پر ہوتی ہے۔ اور وہ روحانی اور ایمانی پہلو سے غافل ہو جاتا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم بیشتر مجاہد جوانوں کو قرآن سے زیادہ جہادی ترانوں کا رسیا پاتے ہیں۔ صبح شام ترانے سنتے رہتے ہیں، سفر میں ہوں یا مرکز میں۔

  • مجاہد کے علمی پہلو پر توجہ نہ دینا۔ اسے تعلیم دینے اور علم اور اہل علم کے ساتھ محبت پیدا کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علم کے میدان میں داخل ہونا، چاہے استادی ہو یا شاگردی، اللہ تعالیٰ کے دین پر ثابت قدم رہنے اور الٹے پاؤں پھر جانے سے بچنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔

  • مجاہد کو مفید اور علمی کتب پڑھنے کی ترغیب نہ دینا۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

وَ لَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّقْضٰۤى اِلَيْكَ وَحْيُهٗ وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا [سورۃ طہ : 114]

اور قرآن کی وحی جو تمہاری طرف بھیجی جاتی ہے اس کے پورا ہونے سے پہلے قرآن کے (پڑھنے کے) لیے جلدی نہ کیا کرو اور دعا کرو کہ میرے پروردگار مجھے اور زیادہ علم دے۔

امام ابن قیم ﷫ فرماتے ہیں:

”علم کی منزلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ اس سے مزید حاصل کرے۔“

مزید فرمایا:

”علم کے عاشق دیگر اشیاء کے عاشقین سے زیادہ علم کی محبت اور طلب رکھتے ہیں۔ ان میں سے اکثر خوبصورت ترین چہرہ دیکھنے سے بھی علم سے نہیں پھرتے۔“

بعض جوان ایسے ہیں کہ اگر ان سے پوچھا جائے کہ تم نے کتنی کتابیں پڑھیں؟ یہ نہیں کہ آج، اس ہفتے یا اس مہینے میں کتنی پڑھیں، بلکہ سال بھر میں ؟تو جواب ملتا ہے کہ بمشکل ایک صفحہ پڑھا ۔ مکمل کتاب کی بات تو درکنار۔ یہ سوال میں نے خود پوچھے ہیں اور اسی قسم کے جواب ملے ہیں۔ بلکہ بسا اوقات یہ جواب ان کی طرف سے ملتا ہے جنہیں داعی گردانا جاتا ہے۔

  • مجاہد کے اخلاقی پہلو کی طرف توجہ نہ دینا۔ کئی مربی اخلاق کو بلند کرنے اور مہذب کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس طرح زیر تربیت مجاہدین بد اخلاق بن جاتے ہیں۔ اور اس میں شک نہیں کہ بد اخلاقی بالآخر جہاد چھوڑنے پر منتج ہوتی ہے۔

اگر کسی شخص سے بری بات سرزد ہو تو اسے خود اپنے آپ کا محاسبہ کرنا چاہیے ۔ اور آئندہ وہ اپنے آپ کو مجبور کرے کہ اس سے برے اخلاق سرزد نہ ہوں۔ اپنے نفس کے ساتھ بھلائی پر انعام اور برائی پر سزا کا اصول اپنائے۔ اگر ’جی‘اچھا کرے تو اسے آرام دے، تازہ دم کرے اور کچھ وقت مباح کاموں میں صرف کر دے۔ اور اگر ’جی‘برا کرے او رکوتاہی سرزد ہو تو اس کے ساتھ سختی اور سنجیدگی کا معاملہ برتے۔ اور بعض چیزیں جو ’جی‘طلب کرتا ہے اس سے اپنے آپ کو روکے۔

ابن المقفع نے کہا: تم نفس کے ساتھ ایسا درست معاملہ کرو جس سے تم خیر کے قابل بن جاؤ۔ اگر تم ایسا کرو گے تو خیر خود آ کر تجھے ڈھونڈے گا جیسا کہ پانی سیلاب کو ڈھلوان کی طرف کھینچ لے جاتا ہے۔

  • جہاد میں نئے شامل ہونے والے نوجوان کے ساتھ مطلوبہ تدریج نہ برتنا۔ ممکن ہے کہ مربی مجاہد کے ساتھ ایسی سختی برتے جو اسے جہاد سے متنفر کر دے۔ اور ممکن ہے کہ اسے لا پرواہی اور بد نظمی کا عادی بنا دے۔ یہ بھی جہاد چھوڑنے کا ایک سبب ہے۔

چھٹی وجہ: انحطاط کا موضوع جوانوں کے سامنے نہ پیش کرنا

شر کو جاننا اس سے بچنے کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ عربی شاعر کہتاہے کہ :

”میں شر کو اپنانے کی خاطر نہیں بلکہ اس سے بچنے کی خاطر شر کو معلوم کرتا ہوں۔ کیونکہ جسے خیر اور شر کی تمیز نہ ہو وہ شر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔“

حضرت حذیفہ نے فرمایا:

كان الناس يسألون الرسول صلى الله عليه وسلم عن الخير، وكنت أسأله عن الشر، مخافة أن يدركني.

”لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے بارے میں پوچھتے تھے اور میں شر کے بارے میں اس ڈر سے کہ مجھ پر آ نا جائے۔“ [متفق علیہ]

اور ایک مشہور قول یہ بھی ہے کہ:

ہر چیز کے بر عکس سے چیز کی خوبصورتی ظاہر ہوتی ہے۔ اور ہر چیز کے بر عکس سے ہی چیزوں کی پہچان ہوتی ہے۔

حضرت عمرؓ فاورق نے فرمایا:

إنما تنقض عرى الإسلام عروة عروة من أناس نشأوا في الإسلام لا يعرفون الجاهلية.

”اسلام کی گرہیں ایک ایک کر کے ان لوگوں کے سبب کھلتی ہیں جو اسلام میں پیدا ہوئے ، وہ جاہلیت کو نہیں جانتے۔“

جب حضرت عمرؓ بن الخطاب کو یہ خبر پہنچی کہ صبیغ بن عسل نامی ایک شخص مدینہ پہنچا ہے جو کہ قرآن کی متشابہ آیات کے بارے میں پوچھتا رہتا ہے۔ تو حضرت عمرؓ نے اسے بلا بھیجا۔ اور اس کے لیے کھجور کی شاخیں تیار کر لیں۔ جب وہ شخص داخل ہوا اور بیٹھا تو حضرت عمرؓ نے دریافت کیا : تم کون ہو؟ اس نے کہا : میں اللہ کا بندہ صبیغ ہوں۔ تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: اور میں اللہ کا بندہ عمر ہوں۔ اس کی طرف اشارہ کیا اور اسے کھجور کی شاخوں سے مارنے لگے۔ یہاں تک کہ سر زخمی ہو گیا۔ اور اس کے چہرہ پر خون رسنے لگا۔ اس نے کہا : اے امیر المؤمنین! کافی ہے۔ اللہ کی قسم جو میرے دماغ میں تھا اب وہ نہیں رہا۔ (آجری نے الشریعہ میں ذکر کی ہے)

کیونکہ اشکال دفع کرنا رفع کرنے سے آسان ہے۔ اس لیے اس سے قبل کہ وہ شخص اپنا زہر پھیلائے، اسے مارا تاکہ اس کے سر کا زہر نکل جائے۔

علامہ ابن القیم ﷫ (قاعدہ جلیہ ) کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں:

”اللہ تعالی نے فرمایا:

وَ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ وَ لِتَسْتَبِيْنَ سَبِيْلُ الْمُجْرِمِيْنَ [سورۃالانعام: 55]

’’اور اس طرح ہم اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں )تاکہ تم لوگ ان پر عمل کرو) اور اس لیے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے۔‘‘

وَ مَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ يَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ وَ سَآءَتْ مَصِيْرًا [سورۃ النساء:115]

’’اور جو شخص سیدھا رستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالف کرے اور مومنوں کے رستے کے سوا اور رستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور(قیامت کے دن) جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے۔‘‘

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی کتاب میں مومنوں کا راستہ بھی تفصیل سے بیان کیا ہے اور مجرموں کا راستہ بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اور اِن کا انجام کار بھی تفصیل سے بیان کیاہے۔ اُن لوگوں کے اعمال اور اِن لوگوں کے اعمال بھی۔ اُن لوگوں کے دوست اور اِن لوگوں کے دوست بھی۔ اُن لوگوں کو توفیق عطا کرنا اور اِن لوگوں کو رسوا کرنا بھی۔ اور وہ اسباب جن کے سبب اُن لوگوں کو توفیق حاصل ہوئی اور وہ اسباب جن کے سبب وہ لوگ رسوا ہوئے۔ سبحانہ وتعالیٰ نے دنوں معاملے اپنی کتاب میں واضح فرما دیے۔ ان پر سے پردہ ہٹایا اور انہیں خوب خوب بیان کیا ہے۔ یہاں تک کہ بصیرت اسے روشنی اور تاریکی کی بصارت کی طرح دیکھتی ہے۔

اللہ، اس کی کتاب اور اس کے دین جاننے والے مومنوں کا راستہ تفصیلاً جانتے ہیں۔ اور مجرموں کا راستہ بھی تفصیلاً جانتے ہیں۔ اس طرح ان کے لیے دونوں راستے جدا نظر آنے لگے۔ جیسے کہ راہ گیر کو اپنی منزل کا راستہ بھی واضح نظر آتا ہے اور ہلاکت کا راستہ بھی۔

صحابہؓ لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والے، دوسروں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے اور انہیں سب سے زیادہ نصیحت کرنے والے تھے۔ وہ راہنما اور ہادی تھے۔ اس لیے صحابہؓ بعد میں قیامت تک آنے والے تمام لوگوں میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ کیونکہ وہ گمراہی ، کفر ، شرک اور ہلاکت کے راستے میں پلے بڑھے اور تفصیلاً اسے جان لیا۔ پھر پیغمبرﷺ آئے تو انہیں اندھیروں سے ہدایت اور اللہ کے صراط مستقیم کی طرف نکال دیا۔ اس طرح وہ سخت تاریکی سے نکل کر مکمل روشنی میں داخل ہوئے، شرک سے نکل کر توحید میں، جہالت سے نکل کر علم میں، فساد سے نکل کر رشاد میں، ظلم سے نکل کر عدل میں، حیرانی اور اندھے پن سے نکل کر ہدایت اور بصائر میں داخل ہوئے۔ اس طرح انہیں بخوبی ادراک ہوا کہ ان کے ہاتھ کتنا آیا اور انہیں کتنا حاصل ہوا ۔ اور وہ کتنے میں تھے۔ کیونکہ ہر چیز کے بر عکس سے چیز کی خوبصورتی ظاہر ہوتی ہے، اور ہر چیز کے بر عکس سے ہی چیزوں کی پہچان ہوتی ہے۔ اس لیے وہ جس حالت میں پہنچے اس میں ان کی رغبت اور محبت بڑھ گئی۔ اور جس حالت سے نکلے اس سے ان کی نفرت اور بغض بھی بڑھ گیا۔ وہ توحید، ایمان اور اسلام سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے تھے۔ اور ان کے الٹ سے سب سے زیادہ بغض کرنے والے تھے۔ انہیں راستہ کا تفصیلاً علم تھا۔

رہے جو صحابہؓ کے بعد آئے تو ان میں سے ایسے بھی تھے جو اسلام ہی میں پلے بڑھے اس لیے انہیں اسلام کے مخالف کی تفصیل معلوم نہ تھی۔ اس لیے ان پر مومنین کے راستے اور مجرمین کے راستے کی بعض تفاصیل خلط ملط ہو گئیں۔ کیونکہ خلط ملط تب ہوتاہے جب دونوں راستے یا ان میں سے کسی ایک کا علم کمزور ہو جائے۔ جیسا کہ حضرت عمرؓ بن الخطاب نےے فرمایا:

”اسلام کی گرہیں ایک ایک کر کے ان لوگوں کے سبب کھلتی ہیں جو اسلام میں پیدا ہوئے ، وہ جاہلیت کو نہیں جانتے۔“

یہ حضرت عمر کے علم کا کمال ہے۔

اس لیے جسے مجرموں کا راستہ معلوم نہ ہو اور واضح نہ ہو۔ یا اسے شک ہوا کہ ان کا کچھ راستہ مومنوں کا راستہ ہے۔ جیسا کہ اس امت میں اعتقاد، علم اور عمل کے بہت سے معاملات میں واقع ہوا ہے۔ یہ معاملات مجرموں ، کفار اور پیغمبروں کے دشمن کے راستے میں سے ہیں۔ جو انہیں نہیں پہچانتا اس نے اسے مؤمنوں کے راستے میں شامل کر لیا ہے اور اس کی طرف دعوت دی اور اس کے مخالفت کرنے والے کو کافر گردانا۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حرام کردہ کو حلال کیا۔ جیسا کہ جہمی، قدری، خارجی ، رافضی اور ان جیسے بہت سے اہل بدعت نے کیا۔ جنہوں نے بدعت گڑھ ڈالی اور اس کی طرف دعوت دی اور مخالف کو کافر قرار دیا۔

ساتویں وجہ: مجاہد جوانوں سے جدا رہنا

مسلمان کی زندگی میں اصل بھلائی کے فروغ کے لیے میل ملاپ اور باہمی تعاون ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى١۪ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ ۝[سورۃ المائدہ:2]

’’نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو۔‘‘

اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

المسلم الذي يخالط الناس ويصبر على أذاهم خير من المسلم الذي لا يخالط الناس ولا يصبر على أذاهم

’’وہ مسلمان جو لوگوں کے ساتھ میل ملاپ رکھتا ہے اور ان کے تکلیف رسانی پر صبر کرتا ہے وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو میل ملاپ نہیں رکھتا اور نہ ان کی طرف سے اذیت پر صبر کرتا ہے۔‘‘ [بروایت ترمذی، صحیح بحوالہ البانی]

حدیث میں مذکور اذیت سے مراد فقط نفسیاتی اور جسمانی اذیت نہیں ہے جو انسان کو اس کی دنیاوی زندگی میں پہنچتا ہے۔ بلکہ اس میں دینی اذیت بھی شامل ہے۔ یعنی کہ انسانی کی دینی کیفیت کو جو ضرر پہنچائے۔ اسے دین کے معاملہ میں فتنہ میں مبتلا کرے ۔ یا عبادت گزاری میں خلل ڈالے۔ دیگر احادیث میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ ہے کہ انسان لوگوں سے اس لیے بھاگتا ہے کہ وہ اپنے دین کے معاملے میں فتنے میں نہیں پڑنا چاہتا۔

سلفِ امت نے یہ بخوبی سمجھا۔ اس لیے وہ جمعیت کے ساتھ رہے۔ اور جمعیت کو پسند کیا اور اس پر تاکید کی۔ امام خطابی حضرت وہیب بن ورد ﷫ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:

”میں نے وہب بن منبہ سے کہا: میں لوگوں سے عزلت اختیار کرنا چاہتا ہوں۔

تو انہوں نے فرمایا:

تمہیں لوگوں کی ضرورت ہے اور لوگوں کو تمہاری۔ تمہیں ان سے کام پڑتا ہے اور انہیں تم سے۔ البتہ تم ان میں سننے والے بہرے بن جاؤ۔ دیکھنے والے اندھے بن جاؤ۔ بولنے والے گونگے بن جاؤ۔“

سلف صالح اپنے بھائیوں کے معاملہ میں کبھی بھی لا پرواہی نہیں برتتے تھے۔ ان کی حالت یہ تھی کہ وہ بھائیوں کو نماز کی سی اہمیت اور عظمت دیتے تھے۔ چنانچہ حضرت محمد بن واسع ﷫ نے فرمایا:

”دنیا میں میرے لیے کوئی لذت کی چیز باقی نہیں رہی۔ فقط نماز با جماعت اور بھائیوں سے ملاقات۔“

حسن بصری ﷫ فرماتے ہیں:

”زندگی میں بس تین چیزیں باقی رہ گئی ہیں: ایک بھائی جس کے ساتھ رہنے سے تمہیں خیر پہنچے ۔ اور جب تم راستے سے ہٹنے لگو تو تمہیں سیدھا کر دے۔ اور اتنا سامان زندگی جس میں تم کسی اور پر منحصر نہ ہو۔ اور جماعت کے ساتھ نماز جس میں سہو سے تم بچ جاؤ اور اس کا اجر تمہیں مل جائے“۔

نیز انہوں نے مؤمن کے بارے میں فرمایا:

”وہ آئینہ ہے۔ اگر اسے کوئی چیز نا پسند نظر آئے تو اسے درست کرتا ہے، سیدھا رکھتا ہے اور صحیح رخ پر ڈالتا ہے۔ اور ظاہری اور خفیہ اس کی حفاظت کرتا ہے۔“

حضرت علیؓ بن ابی طالب فرماتے ہیں:

”گروہ کا گدلا ہونا اکیلے کے اجالا ہونے سے بہتر ہے۔“

امام ابن قیم ﷫ بدائع الفوائد میں فرماتے ہیں:

”(بے جا میل ملاپ ) ایسا مشکل مرض ہے جو ہر شر کو کھینچ لاتا ہے۔ میل ملاپ اور معاشرت نے کتنی نعمتیں لوٹیں اور کتنی دشمنیاں بوئیں۔ اور دل میں کتنی کدورتیں پیدا کیں کہ بڑے پہاڑ ختم ہو جاتے ہیں لیکن یہ دلوں سے نہیں نکلتیں۔ بے جا میل ملاپ میں دنیا اور آخرت کا نقصان ہے۔ بندہ کو چاہیے کہ حاجت کے مطابق ہی میل میلاپ رکھے۔ لوگوں کو اس حوالے سے چار گروہ میں تقسیم کرے۔ اگر وہ کسی گروہ کو دوسرے میں شامل کرے گا اور دونوں کے درمیان فرق نہیں جانے گا تو اس شر میں پڑ جائے گا۔

ایک گروہ : جس کا میل ملاپ خوراک کی طرح ہے جس سے دن رات میں چھٹکارا نہیں۔ جب اس کی ضرورت پوری ہو جائے تو چھوڑ دے۔ اور جب ضرورت پڑے تو مل لے۔ ہمیشہ یہی حال رہے۔ یہ سرخ گندھک سے بھی زیادہ نایاب ہیں ۔ یہ اللہ کو پہچاننے والے علماء ہیں۔ اللہ کے احکام کو جاننے والے اور اللہ کے دشمن کی چالوں سے باخبر۔ وہ دلوں کے امراض اور ان کا علاج جانتے ہیں۔ اللہ ، اس کے رسول اور لوگوں کے ساتھ نصیحت کرنے والے ہیں۔ اس قسم کے لوگوں میں پورا کا پورا منافع ہے۔“

انسان جتنی بھی عزلت کی کوشش کر لے مکمل عزلت تو پھر بھی ممکن نہیں۔ دوسروں کے احتیاج کی وجہ سے میل ملاپ کی ضرورت پڑ ہی جاتی ہے چاہے کم کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ایک دوسرے کا محتاج بنایا ہے۔ اور ایک دوسرے کی خدمت کے لیے مسخر کیا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ رَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا [سورۃ الزخرف: 32]
’’ہم نے ان میں ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کردیا اور ایک کے دوسرے پر درجے بلند کیے تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لے۔‘‘

مکمل عزلت جائز نہیں۔ کیوں کہ اس سے حقوق ضائع ہوتے ہیں۔ جیسا کہ گھر والوں اور رشتہ داروں پر خرچ کرنے کا حق۔ نیز اس سے بعض واجبات اورسنتیں بھی رہ جاتی ہیں۔ جیسے کہ صلۂ رحمی، مسلمانوں کی مدد اور با جماعت نماز کی ادائیگی۔

شرعی واجب یہ ہے کہ ہم اللہ کے احکام کے مطابق زندگی بسر کریں۔ چنانچہ جہاں بھی شریعت کا حکم کا تقاضا میل ملاپ کا ہو تو یہی بہتر ہے۔ اور جہاں حکم شریعت کا تقاضا عزلت ہو تو وہاں یہی بہتر ہے۔ اس طرح میل ملاپ اور عزلت دونوں ایک صحیح شرعی ہدف کے حصول کا ذریعہ بن جائیں گے۔ اور تزکیۂ نفس پر اچھا اثر پڑے گا۔

لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ پورا وقت لوگوں کے ساتھ گزارے۔ بلکہ مؤمن کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ ہر دن ایسا وقت مقرر کرے جس میں وہ اللہ کے ساتھ خلوت میں ہو۔ نبی اکرم ﷺ ان سات افراد کا تذکرہ کرتے ہوئے جو قیامت کے دن اللہ کے سائے میں ہوں گے، یہ بھی فرمایا:

ورجل ذكر الله خاليا ففاضت عيناه
”اور ایسا شخص جو خلوت میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرے تو اس کے آنسو بہہ جائیں۔“

گویا ذکرُ اللہ کے لیے خلوت پر ہمیں ابھارا۔ نبی اکرم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کے ذریعے سالانہ خلوت کا بھی اہتمام کرتے تھے۔ جب وہ لوگوں کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے لیکن ان کے ساتھ گفتگو تقریباً نہ ہوتی تھی اور اعتکاف کو چھوڑ کر ان کے ساتھ مشغول نہ ہوتے تھے۔ اللہ تعالی نے پیغمبر ﷺ کو اللہ کی طرف کٹنے کا حکم بھی دیا ہے:

وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا [سورۃ المزمل: 8]
’’تو اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرو اور ہر طرف سے بےتعلق ہو کر اسی کی طرف متوجہ ہوجاؤ۔‘‘

تبتیل کا مطلب ہر چیز سے بے تعلق ہو کر جڑ جانا ہے۔ یہ بے تعلقی جسمانی کے بجائے روحانی بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن تزکیۂ نفس کے راستے پر پہلا قدم رکھنے والے کے لیے لوگوں سے جسمانی بے تعلقی کے بغیر روحانی بے تعلقی نہیں کر سکتا۔ اس لیے اسے جسمانی بے تعلقی کو زیادہ وقت دینا ہو گا جس سے اسے بہت فائدہ ہو گا۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

Previous Post

معرکۂ حجاب

Next Post

شہادت کی قبولیت کی شرائط | ۴

Related Posts

سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | سولھواں درس

26 ستمبر 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چھتیس (۳۶)

26 ستمبر 2025
نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری
حلقۂ مجاہد

نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری

17 اگست 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: پینتیس (۳۵)

14 اگست 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | پندرھواں درس

12 اگست 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | چودھواں درس

14 جولائی 2025
Next Post

شہادت کی قبولیت کی شرائط | ۴

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version