سورۂ کہف میں دو باغ والے کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ یہ وہ واقعہ ہے جس سے ہم کو روزمرّہ کی زندگی میں پہلے قصے سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے، اگر اصحاب کہف کا صدّیوں اور برسوں میں پیش آتا ہے تو یہ قصہ تقریباً ہر جگہ اور ہر وقت ہمارے سامنے آتا ہے اور بار بار دہرایا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو ہر اعتبار سے خوش نصیب اور اقبال مند تھا۔ آسائش و خوشحالی کے سارے سامان اس کے لیے مہیا تھے، اس کے پاس انگور جیسے لطیف و مرغوب پھل کے دو باغ تھے۔ ان کے چاروں طرف کھجور کے دلنواز درخت تھے، جنہوں نے ان کو اپنے گھیرے میں لے لیا تھا۔ درمیان میں کاشت کے قطعے بھی تھے۔ یہ ایک متوسط درجہ کی زندگی کے لیے سعادت و مسرت کی آخری منزل تھی، اور متوسط طبقہ اور درمیانی معیار زندگی ہی اکثر دنیاوی معاملات میں معیار و پیمانہ ہے۔ لیکن اس دولت مند اور خوشحال کی سعادت اور کامیابی کا سارا انحصار محض ان باغات کے وجود تک محدود نہ تھا بلکہ سارے اسباب و وسائل اس کے لیے مسخر تھے۔ اور یہ دونوں باغ اپنی بہترین پیداوار دے رہے تھے۔
كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ اٰتَتْ اُكُلَهَا وَلَمْ تَظْلِمْ مِّنْهُ شَـيْــــًٔـا وَّفَجَّرْنَا خِلٰلَهُمَا نَهَرًا(سورۃ الکہف : ۳۳)
’’پس ایسا ہوا کہ دونوں باغ پھلوں سے لد گئے، پیداور میں کسی طرح کی کمی نہ ہوئی اور ہم نے ان کے درمیان (آب پاشی کے لیے) ایک نہر جاری کر دی تھی۔‘‘
غرض اس طرح سعادت و کامرانی کی پوری تکمیل ہو چکی تھی۔ اور آرام و راحت کے سارے اسباب نہ صرف موجود بلکہ ارزاں و فراواں تھے۔ اس موقع پر اس شخص کے اندر وہ مادی مزاج اپنا رنگ دکھاتا ہے جو ہمیشہ اہل حکومت، جاگیرداروں، قومی لیڈروں، صنعت کاروں، کارخانہ داروں اور فوجی طاقت رکھنے والوں میں ظاہر ہوتا رہا ہے۔ اس کے اندر وہ شدید مادی رجحان پیدا ہوتا ہے جو ایمانِ معرفت صحیحہ اور تربیت کا پابند نہیں۔ وہ اپنی ساری خوشحالی اور خوش بختی کو اپنے علم و لیاقت اور اپنی ذہانت و محنت کی طرف منسوب کرتا ہے جس طرح اس سے پہلے قارون نے کیا تھا اور کہا تھا:
اِنَّمَآ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰي عِلْمٍ عِنْدِيْ (سورۃالقصص: ۷۸)
’’یہ سب کچھ تو مجھے اس علم کی بِنا پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے۔‘‘
وہ اپنے اس دوست پر فخرکرتا ہے جس کو یہ مرادیں حاصل نہ تھیں اور بڑی صراحت بلکہ ناروا جسارت سے کہتا ہے:
اَنَا اَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَّاَعَزُّ نَفَرًا(سورۃالکہف: ۳۴)
’’دیکھو تم میں سے میں زیادہ مال دار ہوں اور میرا جتھا بھی بڑا طاقتور جتھا ہے۔‘‘
وہ اپنے اقتدار و قوت کے سرچشمہ میں اور دولت و خوشحالی کے اس مرکز میں اس طرح داخل ہوتا ہے کہ نہ اس کو اپنی خبر ہوتی ہے نہ اپنے رب کی۔ نہ غیبی اسباب اور ارادۂ الٰہی کی جو سات آسمان سے اپنا فیصلہ صادرکرتا ہے اور انسان اور اس کی ملکیت بلکہ انسان اور اس کے قلب کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے نفس پر علمی و عملی ، اخلاقی و عقلی ہر لحاظ سے ظلم کرتا ہے، یہ کور چشم مادی ذہنیت اس کی زبان سے اعلان کرواتی ہے کہ اب نہ اس کو زوال ہے، نہ اس کے باغات کو۔ وہ حشر و نشر کا انکار کرتا ہے، اور بڑے پھوہڑ پن اور غایت درجہ حماقت کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ یہ کامیابی و خوشحالی ابدی و لافانی ہے۔ دنیا و آخرت (اگر آخرت ہو) کسی جگہ ختم ہونے والی نہیں۔
وَدَخَلَ جَنَّتَهٗ وَهُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ قَالَ مَآ اَظُنُّ اَنْ تَبِيْدَ هٰذِهٖٓ اَبَدًا وَمَآ اَظُنُّ السَّاعَةَ قَاۗىِٕمَةً(سورۃ الکہف: ۳۵، ۳۶)
’’پھر وہ (یہ باتیں کرتے ہوئے) اپنے باغ میں گیا، اور وہ اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کر رہا تھا، اس نے کہا میں نہیں سمجھتا کہ ایسا شاداب باغ کبھی ویران ہو سکتا ہے۔ مجھے توقع نہیں کہ (قیامت کی) گھڑی برپا ہو ۔‘‘
وہ سمجھتا ہے کہ اس کا شمار ان معدودے چند خوش نصیب و کامراں افراد انسانوں میں ہے، جن سے اقبال کبھی منہ نہیں موڑتا اور قسمت کبھی بے وفائی نہیں کرتی اور جو ہمیشہ اور ہر جگہ سعادت اور عزت کے بامِ عروج پر نظر آتے ہیں۔
وَّلَىِٕنْ رُّدِدْتُّ اِلٰى رَبِّيْ لَاَجِدَنَّ خَيْرًا مِّنْهَا مُنْقَلَبًا(سورۃ الکہف: ۳۶)
’’اور اگر ایسا ہوا بھی کہ میں اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا گیا تو (میرے لیے کھٹکا ہے؟) مجھے ضرور وہاں بھی اس سے بہتر ٹھکانا ملے گا۔‘‘
اس طرح کے لوگ ہمیشہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایمان، عمل صالح اور محنت و کاوش کی کیا ضرورت ہے، یہ ان کی فطری اور وہبی سعادت ہے جو ہر وقت ان کو شاد کام و بامراد رکھ سکتی ہے۔
اس کے دوست کی چشمِ بصیرت اللہ تعالیٰ نے حق و ایمان کے لیے کھول دی ہے۔ اس کو معرفتِ الٰہی اور اس کے صفات و افعال کے علم کی لازوال دولت حاصل تھی، وہ جانتا تھا کہ صرف وہی اس کائنات میں تصرفات کرنے والا ہے، اور اسباب کا خالق ہے، اور جب چاہے حالات کو پلٹ سکتا ہے۔ اس نے اس کی اس بات پر اعتراض کیا اور اس کے اس مادہ پرستانہ طرزِ فکر کی کھل کر مخالفت کی۔ اس کو اصل و حقیقت اور آغاز سے آگاہ کیا۔ یہ وہ سخت اور سنگین حقیقت ہے، جس کو یہ ظاہر پرست اور اپنے کو خوش نصیب سمجھنے والے ہمیشہ فراموش کرنا چاہتے ہیں اور اس کے تذکرہ سے دور بھاگتے ہیں۔
قَالَ لَهٗ صَاحِبُهٗ وَهُوَ يُحَاوِرُهٗٓ اَكَفَرْتَ بِالَّذِيْ خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوّٰىكَ رَجُلًا(سورۃالکہف: ۳۷)
’’یہ سن کر اس کے دوست نے کہا، اور باہم گفتگو کا سلسلہ جاری تھا، ’کیا تم اس ہستی کا انکار کرتے ہو جس نے تمہیں پہلے مٹی سے اور پھر نطفے سے پیدا، اور پھر آدمی بنا کر نمودار کردیا؟‘۔‘‘
متکبر اور مغرور اشخاص کے لیے اس بات کا سننا کتنا شاق و ناگوار ہے، اس کا اندازہ ہم کر سکتے ہیں۔ اس نے کہا کہ وہ اس کے بالکل دوسرے رخ پر ہے اور دوسرے رجحان کا حامل ہے، اور وہ ہے اللہ تعالیٰ پر ایمان۔
لٰكِنَّا۟ هُوَ اللّٰهُ رَبِّيْ وَلَآ اُشْرِكُ بِرَبِّيْٓ اَحَدًا(سورۃ الکہف: ۳۸)
’’لیکن میں تو یقین رکھتا ہوں کہ وہی اللہ میرا پروردگار ہے، اور میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔‘‘
پھر اس نےاس کو وہ بنیادی اور اصولی حقیقت یاد دلائی جس کے گرد پوری سورۂ کہف گردش کر رہی ہے اور اس جگہ انگلی رکھی جو اس طرح کے لوگوں کی کمزوری و دکھتی رگ ہوتی ہے۔ اس نے کہا کہ دیکھنے کی چیز اسبابِ ظاہری نہیں بلکہ وہ خالق و مالک ہے جس کے ہاتھ میں ان سارے اسباب و وسائل کی ڈور ہے۔ اور یہ سامانِ راحت اور اسبابِ عیش جن پر وہ خوش و نازاں ہیں، نہ اسباب کی کارگزاری ہے، اور نہ خود اس کی دستکاری یا عقل و ذہانت کی کارفرمائی، وہ اللہ کی حکمت و قدرت کا نتیجہ ہے، جس نے ہر چیز کو بہترین طریقے پر بنایا ہے۔ وہ بڑی حکمت اور نرمی کے ساتھ اس کو خدا کی قدرت کے اعتراف اور اس کی نعمت کے شکر کی طرف متوجہ کرتا ہے۔
وَلَوْلَآ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاۗءَ اللّٰهُ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ(سورۃالکہف: ۳۹)
’’اور پھرجب تم اپنے باغ میں آئے (اور اس کی شادابیاں دیکھیں) تو کیوں تم نے یہ نہ کہا کہ وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔ اس کی مدد کے بغیر کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘
’’ماشاء اللہ لاقوۃ الّا باللہ‘‘ دراصل اس سورۃ کی روح اور سارے قصہ کی جان ہے۔ چنانچہ خدائے تعالیٰ نے اپنے نبی کو اور آپ کے ساتھ قرآن شریف پڑھنے والے کو اس کی ترغیب دی ہے کہ وہ اپنا سارا معاملہ اور ساری طاقت و صلاحیت کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دے اور مستقبل کے ہر ارادے اور نیت کو اس کے سپرد اور اس کی مشیت کے ساتھ مشروط اور وابستہ رکھے۔
وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ اِنِّىْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ وَاذْكُرْ رَبَّكَ اِذَا نَسِيْتَ وَقُلْ عَسٰٓي اَنْ يَّهْدِيَنِ رَبِّيْ لِاَقْرَبَ مِنْ هٰذَا رَشَدًا(سورۃالکہف: ۲۳، ۲۴)
’’اور کوئی بات ہو، مگر کبھی ایسا نہ کہو میں کل اسے ضرور کر کے رہوں گا۔ الّا یہ سمجھ لو، ہوگا وہی جو اللہ تعالیٰ چاہے گا، اور جب کبھی بھول جاؤ تو اپنے پروردگار کی یاد تازہ کر لو۔ تم کہو امید ہے میرا پروردگار اس سےبھی زیادہ کامیابی کی راہ مجھ پر کھول دے گا۔‘‘
اور ہر موقع پر دل سے ان شاء اللہ اور ماشاء اللہ کہتا ہو۔
جو شخص ہر فضل و کمال کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہو اور ہر نیت میں خداتعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہو اور اس کے فضل وکرم کا امیدوار ہو، وہ اسباب ظاہری مادیت اور مادہ پرستوں کے سامنے اپنا سر کیسے جھکا سکتا ہے، اور نفس اور نفسانی ارادے کے ہاتھ میں اپنی زمام کار کیسے دے سکتا ہے؟
’’ماشاءاللہ اور ان شاء اللہ‘‘ بظاہر دو بڑے ہلکے پھلکے لفظ ہیں اور اکثر ان کا استعمال بغیر سوچے سمجھے کیا جاتا ہے اور اس کے پیچھے کوئی احساس اور شعور نہیں ہوتا، لیکن درحقیقت یہ دونوں بڑے وزنی، بڑے گہرے اور معانی و حقائق سے لبریز بول ہیں۔ اور اندھی مادیت نفس اور ارادۂ انسانی پر بھروسہ اور اعتماد پر کاری ضرب لگاتےہیں۔
مادی تہذیب اپنے وسائل اور ذرائع قوت پر حد سے بڑھے ہوئے اعتماد میں ممتاز ہیں۔ یہ مادی حکومتیں اپنے عمرانی و اقتصادی منصوبوں کا برابر اعلان کرتی رہتی ہیں جو قدرت کی ہم آہنگی اور موسموں کے تغیرات سے تعلق رکھتی ہیں، وہ بڑی قطعیت کے ساتھ اس کی مدت اور اس کا حجم متعین کرتی ہیں اور یہ طے کرتی ہیں کہ وہ اتنے سال کے اندر اتنی پیداوار ضرور پیدا کرنے لگیں گی اور ان کے ملک خودکفیل ہو جائیں گے اور بیرونی امداد پر ان کا انحصار ختم ہو جائے گا۔ لیکن ارادۂ الٰہی ان کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیتا ہے، کبھی قحط سے واسطہ پڑتا ہے، کبھی سیلابوں سے، کبھی بارش بہت تاخیر سے ہوتی ہے، کبھی اس قدر مسلسل کہ کھڑی کھیتیاں غرقاب ہو جاتی ہیں۔ ایسے قدرتی حوادث اور جان و مال کے مصائب سامنے آتے ہیں، جو حاشیۂ خیال میں نہ آسکتے تھے۔ غرض کہ ان کے سارے اندازے غلط اور منصوبے ناکام ہو جاتے ہیں۔
یہ ’’ان شاء اللہ‘‘ دراصل ہماری انفرادی زندگی کے چھوٹے اور حقیر کاموں، سرسری ملاقاتوں اور سفروں یا محض تاریخ کے تعین کے لیے نہیں ہے، بلکہ ان تمام اجتماعی کاموں اور عظیم منصوبوں پر حاوی ہے۔ جو پوری قوم کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس لیے ان سب چیزوں کو (بشمول جدوجہد) اسباب و وسائل کی اہمیت اور قرآن و سنّت، اسوۂ نبویﷺ اور عمل صحابہؓ کی روشنی میں تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت کے اس یقین کے ماتحت ہونا چاہیے کہ فیصلہ کن اور بالاتر اور اول وآخر چیز بہرصورت ارادۂ الٰہی ہے۔ اس آیت میں :
وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ اِنِّىْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ
’’اور کوئی بات ہو، مگر کبھی ایسا نہ کہو’میں کل اسے ضرور کر کے رہوں گا‘، الّا یہ سمجھ لو، ہوگا وہی جو اللہ تعالیٰ چاہے گا۔‘‘
صرف ایک فرد مخاطب نہیں ہے بلکہ ہر زمانے کا معاشرہ ، تمام حکومتیں، ادارے اور جماعتیں اور تحریکیں مخاطب ہیں اور ان سب سے اس کے اہتمام و التزام کا مطالبہ ہے۔ یہ ہر اس اسلامی معاشرہ کی روح ہے جس میں ایمان اچھی طرح سرایت کر چکا ہو اور اس تہذیب کی روح اور جوہرِ حیات ہے جو ایمان بالغیب کی بنیاد پر قائم ہوا اور یہی وہ خطِ فاضل ہے جو مادی تمدن اور ایمانی تمدن کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔
یہ صاحبِ ایمان ساتھی اس کو متنبہ کرتا ہے کہ قسمتوں کا الٹ پھیر اور خوش نصیبی اور بدنصیبی کی یہ تقسیم، ابدی اور ناقابل شکست نہیں، زمامِ کار اور تصرف واقتدار کا اختیار خالقِ کائنات کے ہاتھ سے چھوٹ نہیں سکا وہ اب بھی اس کا مالک ہے۔ خوش نصیب بدقسمت ہو جاتا ہے، اور بدقسمت خوش نصیب، مالدار غریب ہو سکتا ہے اور غریب مالدار بھی۔ اس لیے اگر حالات پلٹ جائیں تو اس میں تعجب نہ ہونا چاہیے۔
اِنْ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْكَ مَالًا وَّوَلَدًا فَعَسٰي رَبِّيْٓ اَنْ يُّؤْتِيَنِ خَيْرًا مِّنْ جَنَّتِكَ وَيُرْسِلَ عَلَيْهَا حُسْـبَانًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَتُصْبِحَ صَعِيْدًا زَلَقًا اَوْ يُصْبِحَ مَاۗؤُهَا غَوْرًا فَلَنْ تَسْتَطِيْعَ لَهٗ طَلَبًا (سورۃ الکہف ۳۹،۴۰،۴۱)
’’اگر تو مجھے مال اور اولاد میں اپنے سے کم تر پا رہا ہے تو بعید نہیں کہ میرا رب مجھے تیری جنت سے بہتر عطافرمادے، اور تیری جنت پر آسمان سے کوئی آفت بھیج دے جس سے وہ صاف میدان بن کر رہ جائے یا اس کا پانی زمین میں اُتر جائے اور پھر تو اسے کسی طرح نہ نکال سکے۔ اور آخر کار یہی ہوا۔ خدا کی بھیجی ہوئی ایک آندھی آئی اور دیکھتے دیکھتے یہ لہلہاتا ہوا گلزار چٹیل میدان بن گیا۔ اب اس مست و بے خود شخص کو ہوش آیا۔‘‘
وَاُحِيْطَ بِثَمَرِهٖ فَاَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلٰي مَآ اَنْفَقَ فِيْهَا وَھِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰي عُرُوْشِهَا وَيَـقُوْلُ يٰلَيْتَنِيْ لَمْ اُشْرِكْ بِرَبِّيْٓ اَحَدًاوَلَمْ تَكُنْ لَّهٗ فِئَةٌ يَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَمَا كَانَ مُنْتَصِرًاهُنَالِكَ الْوَلَايَةُ لِلّٰهِ الْحَقِّ هُوَ خَيْرٌ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ عُقْبًا (سورۃ الکہف: ۴۲،۴۳،۴۴)
’’اور پھر دیکھو ایسا ہی ہوا کہ اس کی دولت (بربادی کے) گھیرے میں آگئی۔ وہ ہاتھ مل کر افسوس کرنے لگا کہ ان باغوں کی درستگی پر میں نے کیا کچھ خرچ کیا تھا (وہ سب برباد ہوگیا) اور باغوں کا یہ حال ہوا کہ ٹٹیاں گر کے زمین کے برابر ہو گئیں۔ اب وہ کہتا ہے، اے کاش میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا اور دیکھو کوئی جتھا نہ ہوا کہ اللہ کے سوا اس کی مدد کرتا اور نہ خود اس نے یہ طاقت پائی کہ بربادی سے جیت سکتا! یہاں سے معلوم ہو گیا کہ فی الحقیقت سارا اختیار اللہ ہی کے لیے ہے وہی ہے جو بہتر ثواب دینے والا ہے اور اسی کے ہاتھ بہتر انجام ہے۔‘‘
یہ باغ والا اس طرح مشرک نہ تھا۔ جس طرح عام مشرکین ہوتے ہیں، قرآن کے کسی نص یا اشارہ سے اس کا ثبوت نہیں ملتا، اس کے برعکس قرآن کے اسلوب اور اندازِ کلام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ پر ایمان رکھتا تھا۔
وَّلَىِٕنْ رُّدِدْتُّ اِلٰى رَبِّيْ لَاَجِدَنَّ خَيْرًا مِّنْهَا مُنْقَلَبًا
’’اور اگر ایسا ہوا ہوا بھی کہ میں اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا گیا تو (میرے لیے کھٹکا ہے؟ مجھے ضرور) وہاں بھی ا س سے بہتر ٹھکانہ ملے گا۔‘‘
پھر اس کا وہ شرک کیا تھا جس پر اس نے کفِ افسوس ملا اور ندامت کا اظہار کیا۔
يٰلَيْتَنِيْ لَمْ اُشْرِكْ بِرَبِّيْٓ اَحَدًا
’’اے کاش! میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا۔‘‘
وہ ظاہری بات جس میں اشکال کی کوئی وجہ نہیں یہ ہے کہ اس نے اسباب میں شرک اختیار کیا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ اس کی ساری خوشحالی و دولت کا سرچشمہ یہی اسباب ظاہری ہیں اور یہ انہیں کا ثمرہ اور احسان ہے اس نے اللہ تعالیٰ کو فراموش کر دیا اور اس کے تصرف اور تاثیر کا منکر ہو گیا۔
یہی وہ شرک ہے جس میں موجودہ مادی تہذیب مبتلا ہے، اس نے طبعی مادی اور فنی اسباب اور ماہرین فن (Specialists) کو خدا کا درجہ دے رکھا ہے۔ عہد حاضر کے انسان نے اپنی پوری زندگی ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دی ہے، وہ سمجھتا ہے کہ زندگی اور موت، کامیابی و ناکامی، اقبال و ادبار، خوش نصیبی و بدنصیبی سب ان کے ہاتھ میں ہے۔ اسباب مادی، کائناتی قوتوں اور نیچر کی یہ پرستش و تقدیس اور اہلِ اختصاص اور ماہرینِ فن پر اعتمادِ کلّی اور ان کو خدا کا درجہ پر رکھنا ایک نئی وثنیت اور نیا شرک ہے۔ اس نے قدیم بت پرستی کے ذخیرہ میں جس کا ترکہ اس کے پاس اب بھی محفوظ ہے اور جس کے ماننے والے اور چاہنے والے اب بھی بکثرت موجود ہیں، ایک نئی قسم کی بت پرستی کا اضافہ کیا ہے، جو ایمان اور عبدیت کی حریف ہے اور یہ وہی وثنیت ہے، جس کو سورۂ کہف نے چیلنج کیا ہے، اور جس سے وہ پوری طرح برسرِ پیکار ہے۔
قرآن مجید اس دنیا کی زندگی کو اس کھیتی سے تعبیر کرتا ہے جو جلد ہی مٹنے والی اور خال میں مل جانے والی ہے:
وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِيْمًا تَذْرُوْهُ الرِّيٰحُ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا(سورۃالکہف: ۴۵)
’’اور (اے پیغمبر) انہیں دنیا کی زندگی کی مثال سنا دو، اس کی مثال ایسی ہے جیسے (زمین کی روئیدگی کا معاملہ) آسمان سے ہم نے پانی برسایا اور زمین کی روئیدگی اس سے مل جل کر اُبھر آئی (اور خوب پھلی پھولی) پھر کیا ہوا یہ کہ سب کچھ سوکھ کر چورا چورا ہو گیا، ہوا کے جھونکے اسے اُڑا کر منتشر کر رہے ہیں! اور کون سی بات ہے جس کے کرنے پر اللہ قادر نہیں؟‘‘
٭٭٭٭٭