بات کہاں سے شروع کی جائے اور کہاں ختم؟ قرطبہ سے شروع کریں اور میسور تک پہنچیں تو تاریخ کا ہر ورق لہو لہو ہے۔ غزہ تا سرینگر ایک ہی کہانی ہے، ایک سے اسباب ہیں اور ایک ہی حل۔
ایام منانے کی رِیت مغرب سے آئی ہے، جس کو نافذ مغرب ہی کے نیو ورلڈ آرڈر نے کیا ہے1۔ ہمیں کسی کے خلوص پر کوئی شبہ نہیں ہے، لیکن انہی ایام میں ایک یومِ کشمیر بھی ہے۔ منانے والوں کی کثیر تعداد کے اخلاص پر بھی کوئی شک نہیں۔ لیکن بے روزگار آدمی محض یومِ بے روزگاری نہیں مناتا، مزدور، یومِ مزدور کو بھی محنت کرتا ہے، نعرے اور جلسے پیٹ بھرنے کو کام نہیں آتے۔ کچھ کشمیر کی صورتِ حال کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
ایک کروڑ مسلمانوں کا مسکن ، گلگت بلتستان، لداخ اور جموں و کشمیر جسے ماضی میں کشمیر اور آج جس کے صرف جموں و کشمیر کے حصوں کو چاہے وہ اِس پار (پاکستان) میں شامل ہوں یا اُس پار (مقبوضہ ) ہوں، کشمیر کہتے ہیں۔ یہاں درجنوں اقوام صدیوں سے بستی ہیں۔ یہاں اسلام کی دعوت حضرت عبد الرحمٰن بلبل شاہؒ لے کر پہنچے اور اس دعوتِ دین کا نفاذ بعد میں آنے والے سبھی مسلمان سلاطین نے اپنے جہاد و انتظام سے کیا۔ یہ خطہ دارالاسلام بنا رہا یہاں تک کہ سکھوں نے اس علاقے پر قبضہ کیا اور بعد میں انہی کی روحانی و جسمانی اولادوں نے چند روپوں میں اس سر زمین کا سودا کیا اور ہندو بھگوا دہشت گردوں کا یہاں قبضہ ہو گیا۔ آزاد قبائل کے پابندِ شریعت مہاجر مجاہدوں نے مقامی انصار مجاہدوں کی صدا پر لبیک کہا، جو علاقہ آج آزاد کشمیر کہلاتا ہے، انہیں مردانِ غیرت و حمیت کے جہاد و قتال کے سبب ’آزاد‘ ہوا۔ یہی انصار و مہاجر مجاہدین سری نگر تک جا پہنچے اور سری نگر ائیر پورٹ کا قبضہ سنبھال لیا۔ پاکستانی اداروں کی پالیسی نے ان مجاہدین کو آج سے ستّر برس قبل ’Abandon‘ کیا اور پاکستان فوج میں شامل فوجی جنہوں نے ملکی پالیسی پر ملتِ اسلام کو ترجیح دی ان مہاجر و انصار مجاہدوں کے ساتھ ڈٹے رہے، ان سبھی مجاہدوں اور فوجیوں میں سے کچھ شہید ہوئے اور کچھ کے پاس آزاد کشمیر میں واپس آنے کے سوا کوئی چارہ نہ بچا۔میر جعفر و میر قاسم کی تاریخ چند سالوں کی تھی ہمارے میروں کی تاریخ، کشمیر سے بے وفائی پر آٹھویں دِہائی میں داخل ہے ، اللّٰہ کرے کہ یہ کلنک کا ٹیکہ صدی کا ’تمغہ‘ حاصل نہ کر پائے!
کشمیر میں ظلم بڑھا اور اس ظلم کے خلاف نہتے کشمیریوں نے چالیس سال تک پتھروں سے مزاحمت کی۔ پھر آج سے تیس برس سے کچھ زائد قبل چند جوانوں نے سرفروشی کی قسم کھائی اور اس راستے کو اختیار کیا جس کو مالکِ کائنات نے اپنا راستہ، فی سبیل اللّٰہ، جہاد قرار دیا۔ یوں کشمیر میں تاریخِ حریت و حمیت کے ایک نئے باب کا اضافہ ہوا۔ اِس پار بیٹھے وردی و بے وردی سیاست دانوں نے جہادِ کشمیر میں اپنی ہند دشمن قومی پالیسی کی بقا دیکھی اور اس جنگ کو تزویراتی بنیادوں پرکمک فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا۔اس پالیسی و منصوبے کے تحت حکمرانوں نے سیاسی و سفارتی فوائد سمیٹے اور جہادِ کشمیر کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ ان حکمرانوں کی شرانگیزی سے اللّٰہ ﷻ جو خیر الماکرین ہے، نے امتِ مسلمہ میں عموماً اور اہلِ پاکستان و ہند میں خصوصاً ایک جہادی بیداری کے اسباب بہم فرمائے۔ عرب مہاجر مجاہدین جنہوں نے اپنے انصار افغان مجاہدوں کے ساتھ مل کر روس کو توڑا تھا، کشمیر پہنچے۔ لیکن جرنیلی عہدوں پر فائز امریکی وفاداروں نے ان کو جہادِ کشمیر میں حصہ نہ ڈالنے دیا، کچھ واپس پلٹے اور چند زندانوں کا شکار ہوئے۔ قبل از نائن الیون جہادِ کشمیر کی کامیابی میں بنیادی رکاوٹ جرنیلی پالیسیاں بایں معنیٰ تھیں کہ انہوں نے جہادِ کشمیر کو ’کنٹرولڈ‘ رکھا۔ اسلحہ دیا، لیکن اتنا جس سے مزاحمت کنٹرولڈ رہے، ٹریننگ دی لیکن اپنی پالیسی میں مقید، ساتھ ہی مجاہدین کی صفوں میں ایسے عناصر بھی داخل کرنے کی کوشش کی جنہوں نے جہادِ کشمیر کو کنٹرولڈ رکھنے کی سعی کی2۔ بعد از نائن الیون جہادِ کشمیر کے ساتھ ان امریکی وفادار حکمرانوں نے کیا کیا تو اس کا اظہار امریکیوں کے خاص وفادار جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ان الفاظ میں کیا:
’’نائن الیون کے واقعے نے اصطلاحات کو مکمل تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ ہم نائن الیون سے پہلے اور بعد میں ایک ہی طریقۂ کار پر کاربند نہیں رہ سکتے۔ جو تحریکیں نائن الیون سے پہلے آزادی کی جد و جہد کہلاتی تھیں، نائن الیون کے بعد وہ کچھ اور ہیں۔ ہم ابھی بھی سمجھتے ہیں کہ کشمیر کی تحریک، آزادی ہی کی جد و جہد ہے، لیکن جب آپ کو اس پر کہیں سے کوئی مدد نہ ملے تو آپ کو اپنے معاملات میں سدھار لانا پڑتا ہے۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں ہے کہ ہم نے تحریکِ آزادیٔ کشمیر کی حمایت ترک (abandon)کر دی ہے کیونکہ یہی ہمارے قومی مفاد میں ہے!‘‘3
’لاالٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ‘ کی بنیاد پر قائم ہونے والے ملکِ پاکستان کی افواج کے بنیادی افسروں سے لے کر جنرل و مارشل و ایڈمرل کے عہدوں تک پر فائز لوگوں کا فرض تو یہ تھا (اور ہے) کہ رشتۂ لا الٰہ الا اللّٰہ کو خونی لکیر کے اس پار اور اس پار تقسیم نہ ہونے دیتے، قبل و بعد از نائن الیون کی امریکی تعریف برائے ’ٹیرر ازم‘ کو تسلیم نہ کرتے بلکہ کشمیری مجاہدین کی مدد و کمک کرتے اور یہاں سے وہاں جانے والے ہجرت و جہاد کے راہیوں کا راستہ بند نہ ہونے دیتے۔ لیکن للاسف، یہ نہ ہوا۔ بلکہ امریکہ جب اس خطے سے دم دبا کر فرار ہو رہا تھا (اور اب ہو چکا ہے) تو پچھلے دو سال (۲۰۲۰–۲۱ء) سے پاکستان کی جانب سے بلا تفریق تمام جہادی تنظیموں پر moratorium یعنی جنگی وسائل، خوراک اور پیسوں کی رسد پر بندش ہے۔ اور یہ بندش وہ نہیں کہ جو نائن الیون کے بعد ریاستی و حکومتی سطح پر لگائی گئی بلکہ جو سپلائی لائن ادنیٰ صورت میں تنظیموں کی جانب سے جاری تھی اس کو بھی مکمل بند کر دیا گیا۔ یہ سب اسی عرصے میں ہوا جب دفعہ 370 اور 35A کے خاتمے کے بعد بھگوا دہشت گرد حکومتِ ہند نے کشمیر کا ’سراپا‘ جغرافیے سے لے کر دین تک بدلنے کے عملی اقدامات کیے۔
دوسری طرف تحریکِ آزادیٔ کشمیر جس کا مساوی عنوان جہادِ کشمیر ہے کو کچلنے کے لیے حکومتِ ہند نے متعدد خفیہ و غیر خفیہ تحقیقاتی کمیشن بٹھائے، رپورٹیں ثم پالیسیاں مرتب کیں۔ سنگ باز مرابط نوجوانوں سے مجاہد کمانڈروں برہان مظفر وانی، سبزار احمد بھٹ، مفتی ہلال اور ذاکر موسیٰ و عبد الحمید للہاری تک شہید کیے گئے۔ داخل کشمیر میں حالیہ صورتِ حال (اگست ۲۰۱۹ء تا دسمبر ۲۰۲۱ء) پر برطانوی ادارے ’سٹوک وائٹ لمیٹڈ‘ کی جنوری ۲۰۲۲ء میں شائع کردہ رپورٹ ’India’s war crimes in Kashmir | Violence, dissent and the war on terror‘ انہی حقائق سے پُر ہے۔ادارے ’سٹوک وائٹ‘ نے اپنے سروے اور تحقیقات ایک محدود پیمانے پر کیں اور صرف اسی ایک ادارے نے گزشتہ دو سالوں میں دو ہزار (۲۰۰۰)سے زائد جنگی جرائم اور ناحق تعذیب و تشدد کے واقعات دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ محفوظ کیے جن میں ہماری مسلمان کشمیری ماؤں، بہنوں اور بہو بیٹیوں کے ساتھ انفرادی و اجتماعی عصمت دری کے واقعات بھی شامل ہیں، إنّا لله وإنّا إليه راجعون!
اس رپورٹ کے مندرجات کے مطابق ایک حیران کن امر یہ بھی ہے کہ گرفتار کیے گئے کشمیری نوجوانوں سے کئی بار اسرائیلی انٹیلی جنس ادارے’موساد‘ کے ایجنٹوں نے تفتیش کی جن کا رنگ و زبان مغربی تھا۔یہ اسرائیلی یہودی انٹیلی جنس افسر کشمیری نوجوانوں پر براہِ راست بدترین جسمانی تشدد میں بھی ملوث رہے۔اس وقت بھارت کے اسرائیل کے ساتھ سالانہ عسکری اخراجات ایک کھرب ڈالر سے متجاوز ہیں۔ بھارتی فوج نے لداخ و کشمیر کے علاقوں کی جاسوسی کرنے کے لیے اسرائیلی دفاعی فورسز سے بیس (۲۰)کروڑ ڈالر کے اجارے پر چار (۴) ہیرون (Heron) ڈرون طیارے حاصل کیے ہیں۔ بھارتی ائیر فورس کے پاس اس وقت پچھتر (۷۵) ہیرون ڈرون طیارے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ مودی سرکار نے بھارتی بَرّی فوج کے لیے چالیس (۴۰) کروڑ ڈالر کی مالیت سے دس (۱۰)عدد ہیرون ڈرون طیارے بھی اسرائیل سے خریدے ہیں۔ ’دی ڈیفنس پوسٹ‘ کے مطابق بھارت دو (۲) عدد امریکی ساختہ مسلح MQ-9 Predator ڈرون طیارے بھی امریکہ سے خریدنے والاہے4۔یہ ہے بھارتی ظلم و ستم، اندھیر نگری اور آئندہ کی جنگ کی تیاری کی عموماً پچھلے چند سالوں اور خصوصاً دو سالوں کی ایک جھلک اور دوسری طرف ریاست و حکومتِ پاکستان کا پچھلے دو سالوں سے moratorium بھی ہمارے سامنے ہے۔ اس moratorium کے سبب کشمیر میں ہندو فوج کو بہت زیادہ تیاری کرنے کا موقع ملا اوریوں محض پچھلے چار ماہ میں ہندو بھگوا فوج کے جارح اقدامات کے سبب جموں و کشمیر میں مجاہدین کی ایک تہائی (1/3) قوت ختم کی جا چکی ہے، حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل ونعم المولیٰ ونعم النصیر!
بھارتی دہشت گردی کی ایک نمایاں تصویر ریاستِ میسور (جس کا نام بدل کر کرناٹک کر دیا گیا) میں تعلیمی اداروں میں مسلمان عفیفات کے حجاب پر پابندی ہے، جس پر پچھلے تین ماہ سے ریاستِ کرناٹک میں مستقل مظاہرات جاری ہیں۔ آج ہندوستان کے حالات اس درجے پر پہنچ چکے ہیں کہ نام نہاد ’سیکولر‘ ریاست کا بد نما چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے، عقیدۂ ہندُتوا پوری طرح سے ظاہر و باہر ہے اور اس ریاست کے اس چہرے کے ساتھ ایک اور حقیقت کو بھی ’سلطنتِ خداداد میسور‘ میں سلطان حیدر علیؒ کی پوتی اور سلطان فتح علی ٹیپو شہیدؒ کی بیٹی ’مسکان‘نے کھول دیا ہے۔ امتِ مسلمہ کی بیٹی ’مسکان‘ نے تنِ تنہا بھگوا بھیڑیوں کے جتھے کو محض اپنے نعرۂ تکبیر سے شکست دی۔ ایک طرف گنیش و ہنومان جیسے کروڑوں خداؤں کو پوجنے والے چالیس (۴۰)سے زائد غنڈے اور ایک طرف نہتی نہیں، اللّٰہ کی وحدانیت و عظمت والے نعرۂ تکبیر سے ’مسلح‘ مسکان۔ امتِ مسلمہ کی بیٹی اور شجاعت میں ملتِ اسلامیہ کے مجاہد بیٹوں جیسی مسکان نے اپنے عزم و عمل سے ثابت کیا کہ ہندو دنیا کی بزدل ترین قوم ہے، جو کمزور کو مارتی اور طاقت ور کو پوجتی ہے! اوراگر چالیس غنڈے، ڈنڈوں سے مسلح اور بھگوا چادروں کو گھماتے بھی کسی مسلمان کا گھیراؤ کریں تو ان کو اپنے عزم و عمل سے شکست دی جا سکتی ہے۔ ایک مسکان نے یہ ثابت کیا کہ اگر قوتِ ایمان کے ساتھ ایک مسلمان لڑکی اگر چالیس گنا دشمن کا مقابلہ کر سکتی ہے تو ہندوستان کے چوتھائی ارب (پچیس کروڑ سے زائد) مسلمان بھی تیاری، حکمتِ عملی اور صف بندی کے ساتھ چار گنا بڑے (ایک ارب) دشمن کو شکست دے سکتے ہیں۔
آج امریکی و بھارتی و اسرائیلی ورلڈ آردڑ کے خلاف جاری جنگ من حیث المجموع پوری امت کی جنگ ہے اور امت کے ہر ہر فرد کو اس جنگ میں اپنی استطاعت کے بقدر کہیں جان و مال سے، کہیں زبان و بیان سے اور کچھ نہ ہو تو نیک جذبات اور دعاؤں کے ساتھ باطل کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ پھر برِّ صغیر کے مسلمانوں پر تو پاکستانی، بنگلہ دیشی، ہندوستانی و کشمیری کی تفریق کے بغیر خاص کر اس جنگ کو لڑنا فرضِ عین ہے ۔ اکھنڈ بھارت کا مقابلہ برِّ صغیر کی سلطنتِ اسلامیہ کی بحالی کی کوشش کرنے والے علمائے کرام و مفکرین و اہلِ دانش اور داعیان و مجاہدین ہی کر سکتے ہیں۔ اہلِ برِّ صغیر کو درج ذیل چند اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے:
پاکستان و بنگلہ دیش میں بستے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ہر طریقے کو بروئے کار لاتے ہوئے اہالیانِ کشمیر و ہند کی نصرت کریں۔ اس ضمن میں جہاں تک ہو سکے تو شخصی و اجتماعی طور پر مجاہدینِ کشمیر کی رسد و کمک کا سامان جمع کریں اور تنظیموں اور اداروں میں موجود صالح عناصر کو تلاش کر کے ان کے ذریعے سالوں سے بند سپلائی لائن کو بحال کریں۔ یاد رکھیے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی بہترین نصرت کی ایک شکل مجاہدینِ کشمیر کو مضبوط کرنا ہے، بلاشبہ کشمیر ابوابِ غزوۂ ہند میں سے ایک اہم باب ہے۔
پاکستان و بنگلہ دیش میں بستے مسلمانوں پر اہلِ کشمیر و ہند کی عملی نصرت کے ساتھ ساتھ متوازی طور پر یہ بھی لازم ہے کہ اپنے اپنے ملکوں میں دعوت الیٰ اللّٰہ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، اعداد و تیاری برائے جہاد فی سبیل اللّٰہ اور نفاذِ شریعتِ محمدی (علی صاحبہا ألف صلاۃ وسلام) کی محنت انفرادی سطح پر اپنے گھروں سے لے کر اجتماعی سطح پر معاشروں میں اقتدار کے ایوانوں تک شریعتِ مطہرہ کے بتائے ہوئے سلف و خلفِ صالحین کے طریقے کے مطابق کریں۔اس کام کے لیے مساجد و مدارس کو آباد کیا جائے، علمائے کرام سے انفرادی و اجتماعی زندگی کے معاملات میں شریعت کا حکم جاننے کے لیے رجوع کا رجحان پیدا کیا جائے اور صالح نوجوانوں کے ایسے گروہ تشکیل دیے جائیں جو شریعتِ مطہرہ کی رعایتوں کے مطابق معاشرے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے اسوۂ پیغمبری کا احیا کریں۔
مسلمان ہندوستان میں بستے ہوں یا دنیا کے کسی بھی کونے میں، مسلمان کی اصل اور پہلی شناخت ’لا الٰہ الا اللّٰہ‘ ہے۔ وطن سے محبت یقیناً فطری امر ہے لیکن اگر اللّٰہ اور اس کے رسولؐ اور اسلام کے تقاضوں سے پہلے وطن سامنے آ جائے تو ’ہے ترکِ وطن سنتِ محبوبِؐ الٰہی‘۔ اگر وطن کا تقاضا یہ ہو کہ ہندو ’بھائی بہنوں‘ کے ساتھ امن و آشتی سے رہا جائے تو حکمِ دین پہلے دیکھا جائے اور یہ یاد رکھا جائے کہ ابھی چند دہائیاں قبل بوسنیا کے مسلمانوں کے ساتھ کیا بیتی؟ بوسنیا کے مسلمان کافروں کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے، مشترکہ کاروبار اور معاشرتی تعلقات تھے، امن و آشتی تھی اور ان کے درمیان بظاہر محبت و پیار ایسا تھا کہ وہاں کے کافر مرد مسلمان عورتوں کو اور وہاں کے مسلمان مرد کافر عورتوں کو ڈیٹ (date) کرتے تھے اور گرل فرینڈز اور بوائے فرینڈز کی اولادیں بھی تھیں، لیکن جب مسلمانوں پر حملہ کیا گیا تو یہی ایک دوسرے کو ڈیٹ کرنے والے اور دوست یار ہی تھے جنہوں نے پہلے پہل بوسنیائی مسلمانوں کے گلے کاٹے اور پیٹوں میں اپنے خنجر اتارے اور غاصب فوج کے سامنے اپنے ’پارٹنرز‘ گولیوں سے بھوننے کے لیے پیش کر دیے۔ آج ہندوستان میں بھی یہی ہو رہا، کہیں مسجدوں کو مندروں میں بدلا جا رہا ہے، کہیں لَوْ جہاد کی لغو بات ہے، کہیں اپنے ہی نعرۂ تکبیر بلند کرنے کے بجائے سیکولر نعروں کی تحریض دلا رہے ہیں (حالانکہ ایک مسکان کے نعرۂ تکبیر نے ہی چالیس گنا بڑے دشمن کے چھکے چھڑا دیے)، کہیں سول رائٹس، آئین کی بالادستی اور ہائی کورٹوں سے امیدیں وابستہ ہیں۔ لیکن امرِ حقیقی یہ ہے کہ ہندو ہمارے خلاف تیاری کر چکا ہے، ہندوستان کے گلی گلی محلے محلے میں آر ایس ایس کے غنڈے تیار کیے جا رہے ہیں۔
اصول ہمارا یہی رہے کہ جو ہمیں نہ چھیڑے ہم بھی اس کو کچھ نہ کہیں اور جو ہمیں چھیڑے تو پھر ہم اس کو نہ چھوڑیں اور اس کے لیے منظم تیاری اور صف بندی کی جائے۔ جو چھوٹا بڑا ہتھیار جمع کیا جا سکے کیا جائے۔ بندوقیں اور پستولیں مہیا نہ ہوں تو چھوٹے بڑے چاقو، زنجیریں، ہتھوڑے اور ڈنڈے تیار رکھے جائیں۔ خود بھی اور خاص کر اپنی خواتین کو ذاتی دفاع (self defence) کی تربیت دی جائے۔
دلوں میں شہادت کا جذبہ پیداکیا جائے، ظاہر ہے شہادت سے بڑھ کرکوئی سعادت نہیں اور اپنے دین وایمان ، اہل و عیال اور مسلمانوں کے دفاع میں جان دینا افضل شہادت ہے ۔
دنیا بھر میں الحمدللہ جگہ جگہ میادین ِ جہاد گرم ہیں ،یہاں غلبۂ دین اور مظلوموں کی نصرت کے لیے مجاہدینِ اسلام برسر پیکار ہیں، دفاعِ امت کے اس ہر اول دستے ، ان ابطالِ اسلام سے آپ لاتعلق مت رہیے ۔ضروری ہے کہ ان میدانوں میں آپ بھی شریک ہوں اور تحریک ِ جہاد کی نصرت و تائید میں آپ کا بھی بھرپور حصہ ہو۔آپ کا قریب ترین میدان ، جہادِ کشمیر ہے ،اس جہاد میں آپ جان ومال سے شریک ہوں۔ تحریکِ جہاد میں آپ کی یہ شمولیت اور کسی بھی سطح پر آپ کی شرکت ہندوستان بھر میں اسلام اور مسلمانوں کی تقویت کا ان شاءاللّٰہ سبب بنے گا ۔
(ہندوستان میں بلا کو چند دن مزید ٹالنے کے لیے )جمہوری و سیکولر طریقوں سے اگر کوئی وقتی فائدہ حاصل کیا جا سکے تو فبہا ورنہ ان طریقوں نے پچھلی سات دہائیوں میں ہمیں کمزور کیا ہے، ہماری قوت چھینی ہے لیکن ہمیں دیا کچھ نہیں ہے، یہ سب طریقے آزمائے ہوئے ہیں:
- نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو مِرے آزمائے ہوئے ہیں
- نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
مذکورہ بالا نقاط پر زیادہ سے زیادہ اتفاق و اتحاد پیدا کرنے کی اور ان تمام امور کو مکمل نظم وضبط کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کی جائے۔
کشمیری مسلمان، جن کے رگ و پے میں جہاد و رباط رچا بسا ہے، جن کے خون میں غیرتِ ایمانی دوڑتی ہے اور جنہیں ماؤں نے حمیتِ اسلامی کا دودھ پلایا ہے پر لازمی ہے کہ صبر و استقامت کے ساتھ جہاد فی سبیل اللّٰہ پر ڈٹے رہیں۔ مجاہدین کی شہادتیں اور گرفتاریاں ان کے عزم کو متزلزل نہ ہونے دیں۔ لاک ڈاؤن، کرفیو، تعذیب خانے ، انکاؤنٹر اور رات کے چھاپے ان کے قدموں میں لرزہ پیدا نہ کریں۔
مجاہدینِ کشمیر کے لیے ضروری ہے کہ وہ مزید باریک بینی کے ساتھ اپنی جنگی حکمتِ عملی طے کریں، دوست، دشمن اور منافق کرداروں کو سمجھیں اور ان سب کرداروں کے ساتھ ان کی حیثیت کے مطابق معاملہ کریں۔ شریعتِ مطہرہ کی روشنی میں مسلمانوں اور مجاہدین کے لیے بالکل روا ہے کہ اسلام دشمنوں کے باہمی بغض و عناد اور مفادات کے ٹکراؤ سے فائدہ اٹھائیں ، لیکن جو بات شریعت کی واضح مخالفت اور تباہی کا قطعی راستہ ہے وہ یہ ہے کہ مجاہدین خود کو، اپنے خفیہ امور کو، اپنے راستوں اور اہداف کو ، اور اپنے فیصلوں کو کسی اور فکر و نظریۂ جہاد میں مخالف فریق کے حوالے کر دیں۔
جس قدر ہو سکے تنظیموں کے درمیان کسی دشمن یا دشمن کی آلۂ کار ایجنسی کے مفادات کو در نہ آنے دیں، بلکہ تنظیموں کا تعلق وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْبرِّ وَالتَّقْوَىکے قرآنی اصول پر ہو اور جان و ناموس فدا کرنے والے مجاہدینِ عالی قدر اور جہادی تنظیمیں ہی ہیں جو اس اصول پر سب سے زیادہ عمل پیرا ہوتی ہیں کہ ان کے یہاں اگر کوئی مفاد ہوتا ہے تو بس اللّٰہ کے دین اور امتِ مسلمہ کی خیر کا۔
مجاہدینِ کشمیر ’آزاد جہاد‘ کی پالیسی کو اپنائیں اور اپنے فیصلے پوری آزادی و استقلال کے ساتھ محض شریعت کی روشنی میں کریں۔ غزوۂ ہند کے ہراول دستے تمام تنظیموں اور جماعتوں میں موجود مجاہدینِ کشمیر ، پوری یکسوئی ، تندہی اور قوت سے بھارتی فوج اور حکومت پر ضرب لگائیں، جس سے دشمن کی معیشت، افرادی قوت اور سامانِ حرب کا شیرازہ بکھر جائے اور اسی عمل پر کشمیر کے مجاہدینِ عالی قدر استقامت بھی اختیار کریں۔
امتِ مسلمہ کے نہایت اہم محاذ، کشمیر میں بر سرِ جہاد مجاہدین کا پوری دنیا میں موجود اپنے مسلمان بھائیوں سے مضبوط رابطہ ہونا چاہیے، جس سے مجاہدینِ کشمیر دنیا کے مختلف خطوں میں برپا جہادی بیداری کے ثمرات سے مستفید ہو سکیں۔
برِّ صغیر میں بستے اہلِ ایمان کو غم زدہ اور شکستہ پا نہ ہونا چاہیے کہ ہم سے ہمارے اللّٰہ کا وعدہ ہے:
وَلاَ تَهِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (سورۃ آلِ عمران: ۱۳۹)
’’ اور(اے مسلمانو!) ہمت نہ ہارو اور غمگین نہ ہو اور تم ہی غالب و سربلند رہو گے اگر تم مومن ہو !‘‘
کوئی کشمیر میں ہونے والی شہادتوں، رسد و کمک کی کمی ، ہندوستان میں پابندیوں اور گرفتاریوں سے نہ ڈرے کہ برِّ صغیر میں اسلام کا غالب ہونا لوحِ محفوظ میں درج ہے۔ بھارت ماتا کے برہمنوں، راجوں اور حکمرانوں نے عن قریب زنجیروں میں کسا جانا ہے اور اس جہادِ ہند و سندھ میں حصہ ڈالنے والوں کے لیے جہنم سے آزادی کی بشارت ہمیں ہمارے حبیب سیّد الاولین والآخرین نے دی ہے، صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔
اللّٰہ اور اس کے رسولِ برحق (علیہ ألف صلاۃ وسلام) کے وعدے بھی ہیں اور عطا کردہ بشارتیں بھی، لیکن بات یہ ہے کہ ان وعدوں کے نتائج اور بشارتوں کو حاصل کرنے کے لیے ہم کیا کر رہے ہیں؟
گفتار نہیں گھر سے نکلنے کا سمے ہے
الفاظ سے یہ چاک کہاں پہلے سِلا ہے
جمہوری دجل چھوڑ کے تلوار اٹھا لو
شمشیر میں دم توڑتی امت کی جِلا ہے
اللھم وفقنا كما تحب و ترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وأرضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!
٭٭٭٭٭
1 عموماً قومی و بین الاقوامی طور پر ایام دو قسم کے منائے جاتے ہیں۔ اول ایشوز (issues)جو نان ایشوز (non-issues)قرار دے دیے گئے ہیں، انہیں نان ایشو ہی رکھنے کے لیے اور دوئم نان ایشوز کو ایشو بنانے کے لیے۔مغرب نے ماں کے جسم کو بھی اور اس کی روح کو بھی پامال کیا، پھر ہر سال لاکھوں ڈالر Mother’s Day پر قربان کیے جاتے ہیں۔ باپ(جس کردار نے انسانیت کے یومِ پیدائش سے اب تک معاشرے کو سنبھال رکھا ہے)کی حیثیت کالعدم کرنے کے لیے پدر شاہی نظام(patriarchy) کا خاتمہ کے نعرے ابھی آنے والے مہینے مارچ کی آٹھ تاریخ کو سنائی دیں گے اور یہی نعرہ زن کہیں چند دنوں اور کہیں چند ہفتوں بعد Father’s Day منائیں گے۔ جدید دنیا کے باپوں نے وَن نائٹ سٹینڈ کے بعد ماؤں کو امید سے چھوڑ کر اور ماؤں نے بچوں کو قبل از پیدائش اور کہیں بعد از پیدائش گرایا ہو گا اور دنیا Children’s Day منا رہی ہوگی۔Valentine’s Day کی تاریخ کو رہنے دیجیے، یہ عیسائی ہے یا یہودی، اب تو بہر حال عالمی ہے۔ محبت کو شہوت اور شہوت بھی اسفل، بے جا و بے حکمت کے ماتحت کر کے دنیا سرخ ہو جاتی ہے، کروڑوں ڈالر اس دن سرخ گلابوں، چاکلیٹوں، غباروں اور ٹیڈی بیئروں کی نذر ہو جاتے ہیں اور جو ڈالر بچ جاتے ہیں وہ محرمات کو پامال کرنے کے بعد مانعِ اولاد ادویہ پر صرف ہو جاتے ہیں۔ پھر عورتوں کا دن ہے، اس دن کے مقاصد، منشور اور نعرےعورت کو حیوان نما مردوں کی سر تا پاخواہشات کے سپرد کر دینے کا دوسرا عنوان و متن ہیں۔ ان چند سطروں میں ہم نے یہی ثابت کیا ہے کہ ان چند ایشوز میں سے بعض نان ایشو ہیں اور ایشوز نان ایشو ، گویابے تکی جگالی، ڈھاک کے تین پات، وہی ٹائیں ٹائیں فِش! پانی کو کہیے کہ تم فضا میں ہوا کے شانہ بشانہ اڑا کرو اور ہوا کو کہیے کہ تم سمندر میں رہا کرو!
2 اس کنٹرولڈ مزاحمت‘ کو سمجھنے کے لیے مجاہدِ اسلام شیخ افضل گورو شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تصنیف ’آئینہ‘ بہت ممد و معاون ہے۔
3 فوجی افسران کی ایک محفل میں گفتگو، جسے آئی ایس پی آر نے فلم بند کیا اور فوج میں موجود بعض مجاہد ساتھیوں نے القاعدہ برِّ صغیر کے ذمہ داران تک پہنچایا، نشر کردہ ’ادارہ السحاب برِّ صغیر‘۔
4 India to Finalize MQ-9 B Predator Drone Acquisition, The Defense Post (July 2021)
https://www.thedefensepost.com/2021/07/30/india-predator-drones-acquisition