شفاعتِ عظمیٰ
آج ہم شفاعت کا باب شروع کریں گے۔ شفاعتl دو قسم کی ہے:
- شفاعتِ عظمیٰ
- شفاعتِ صغریٰ
یعنی بڑی اور چھوٹی شفاعت۔ بڑی شفاعت یعنی شفاعتِ عظمیٰ کی اجازت صرف اور صرف نبی کریم ﷺ کو دی جائے گی اور یہ ایک شفاعت ہوگی جب کہ اس کے علاوہ بہت سی دیگر چھوٹی شفاعتیں بھی نبی کریم ﷺ کو دی جائیں گی اور ان کے علاوہ صالحین کو بھی دی جائیں گی مثلاً شہید کی شفاعت۔ان شاء اللہ ہم شفاعت کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کریں گے مگر فی الوقت ہم محض شفاعت عظمیٰ کی بات کرتے ہیں۔
شفاعت عظمیٰ نبی کریم ﷺ کے واسطے سے کی جانے والی کل انسانیت کے حق میں وہ بڑی شفاعت ہے کہ جس کے بعد لوگوں کا حساب کتاب شروع کیا جائے گا۔
قیامت کے دن، جو کہ پچاس ہزار برس طویل ہوگا، سورج لوگوں کے سروں پر ہوگا، شدید گرمی ہوگی اور لوگ اس گرمی میں کھڑے کھڑے پسینے سے شرابور ہورہے ہوں گے۔ سکوت طاری ہوگا، اللہ رب العزت لوگوں سے کلام نہ فرماتے ہوں گے اور لوگ سوائے کھڑے ہونے کے کچھ کرنے پرقادر نہ ہوں گے۔ نیز و ہ بھوک، پیاس اور تھکاوٹ سے نڈھال ہوں گے۔ پھر لوگ انبیا سے کہیں گے کہ اللہ رب العزت سے حساب کتاب شروع کرنے کی درخواست کریں اور کہیں گے کہ بس حساب کتاب شروع ہوجائے خواہ اس کے نتیجے میں ہمیں جہنم کی آگ میں ہی کیوں نہ ڈال دیا جائے، اس انتظار سے ہم بے حال ہیں اور عاجز آچکے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے حدیثِ شفاعت میں فرمایا، حدیث شفاعت کی بہت سی روایتیں بخاری و مسلم شریف اور دیگر کتب احادیث میں موجود ہیں، ہم یہاں بخاری شریف کی روایت ذکر کرتے ہیں:
’’ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺْ کی خدمت میں گوشت لایا گیا اور دستی کا حصہ آپ کو پیش کیا گیا۔ چونکہ آپ کو دستی کا گوشت بہت پسند تھا، اس لیے آپ نے اس میں سے لقمہ لیا پھر آپ نے فرمایا: قیامت کے دن میں لوگوں کا سردار ہوں گا۔ کیا تمہیں علم ہے کہ یہ کس وجہ سے ہوگا؟ اللہ تعالیٰ تمام اگلے پچھلے لوگوں کو ایک چٹیل میدان میں جمع کر دے گا۔ اس دوران میں پکارنے والا سب کو اپنی آواز سنائے گا اور ان سب پر اس کی نظر پہنچے گی، سورج بالکل قریب آ جائے گا، چنانچہ لوگوں کو غم اور تکلیف اس قدر ہوگی جو ان کی طاقت سے باہر اور ناقابل برداشت ہوگی۔ لوگ آپس میں کہیں گے کہ تم دیکھتے نہیں کہ ہماری کیا حالت ہوگئی ہے؟ کیا کوئی ایسا مقبول بندہ نہیں جو اللہ کے حضور تمہاری سفارش کرے؟ پھر وہ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ حضرت آدم کے پاس جانا چاہیے، چنانچہ سب لوگ حضرت آدم کے پاس حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: آپ سب انسانوں کے باپ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور اپنی طرف سے خصوصیت کے ساتھ آپ میں روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا، اس لیے آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش کریں۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس مصیبت میں مبتلا ہیں؟ حضرت آدم فرمائیں گے: بلاشبہ آج کے دن میرا رب انتہائی غیظ و غضب میں ہے۔ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک نہیں ہوا اور نہ آئندہ کبھی ہوگا۔ میرے پروردگار نے مجھے درخت سے روکا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی، نفسی نفسی (اس لیے مجھے تو اپنی فکر ہے۔ میں اپنی جان کی حفاظت چاہتا ہوں)، لہٰذا تم کسی اور کے پاس جاؤ۔ تم نوح کے پاس جاؤ۔ چنانچہ سب لوگ حضرت نوح کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: اے نوح! آپ سب سے پہلے پیغمبر ہیں جو اہل زمین کی طرف مبعوث ہوئے اور اللہ نے آپ کو ’ شکر گزار بندے‘ کا لقب دیا۔ آپ ہی ہمارے لیے اپنے رب کے حضور سفارش کردیں۔ کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ ہم کس حالت میں پہنچ چکے ہیں؟ (حضرت نوح ) فرمائیں گے: بلاشبہ میرا رب آج بہت غضب ناک ہے۔ اس سے پہلے وہ کبھی ایسا غضب ناک نہیں ہوا اور نہ اس کے بعد ہی اس طرح غضب ناک ہوگا۔ اللہ نے مجھے ایک دعا کی قبولیت کا یقین دلایا تھا جو میں نے اپنی قوم کے خلاف کرلی تھی۔ نفسی، نفسی، نفسی۔ آج مجھے اپنی ہی فکر ہے، لہٰذا تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ، ہاں! حضرت ابراہیم کے پاس جاؤ، چنانچہ سب لوگ حضرت ابراہیم کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: اے ابراہیم! آپ اللہ کے نبی اور اس کے خلیل ہیں اور اہل زمین میں منتخب شدہ ہیں، لہٰذا آپ اپنے رب کی بارگاہ میں ہماری سفارش کریں۔ کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ ہم کس مصیبت میں مبتلا ہیں؟ حضرت ابراہیم فرمائیں گے: آج میرا رب بہت غضب ناک ہے۔ اتنا غضب ناک نہ وہ پہلے ہوا تھا اور نہ آج کے بعد ہوگا۔ میں نے تین خلاف واقعہ باتیں کی تھیں۔ نفسی، نفسی، نفسی۔ مجھے تو اپنی فکر ہے۔ تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ، ہاں حضرت موسٰی کے پاس جاؤ، چنانچہ سب لوگ حضرت موسیٰ کے پاس حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: اے موسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی طرف سے رسالت اور آپ سے گفتگو کرنے کی فضیلت دی۔ آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش کردیں۔ کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ ہم کس مصیبت میں مبتلا ہیں؟ حضرت موسیٰ کہیں گے: آج اللہ تعالیٰ بہت غضب ناک ہے۔ اتنا غضب ناک تو وہ نہ پہلے کبھی ہوا تھا اور نہ آئندہ کبھی ہوگا۔ میں نے ایک شخص کو قتل کردیا تھا جس کے قتل کا مجھے حکم نہیں دیا گیا تھا: نفسی، نفسی، نفسی۔ بس مجھے آج اپنی فکر ہے۔ میرے علاوہ تم اور کسی کے پاس چلے جاؤ، ہاں! حضرت عیسٰی کے پاس جاؤ، چنانچہ سب لوگ حضرت عیسٰی کے پاس آ کر عرض کریں گے: اے عیسٰی! آپ اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم پر ڈالا تھا اور آپ اللہ کی طرف سے روح ہیں۔ آپ نے بحالت بچپن گود میں رہتے ہوئے لوگوں سے باتیں کی تھیں۔ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش کریں۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حالت میں ہیں؟ حضرت عیسٰی فرمائیں گے: آج میرا رب بہت غصے میں ہے۔ وہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضب ناک ہوا نہ آئندہ اس جیسا غضب ناک ہوگا۔ آپ اپنی کسی لغزش کا ذکر نہیں کریں گے۔ صرف یہ کہیں گے: نفسی نفسی، میں اپنی جان کی حفاظت چاہتا ہوں۔ میرے علاوہ تم اور کسی کے پاس جاؤ، ہاں! تم حضرت محمد ﷺ کے پاس جاؤ، چنانچہ سب لوگ حضرت محمد ﷺ کے پاس حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: اے محمد ﷺ! آپ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کر دیے ہیں۔ آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش کردیں۔ آپ خود ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ ہم کس حالت میں ہیں؟ آخرکار میں خود آگے بڑھوں گا اور عرش کے نیچے پہنچ کر اپنے رب کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنے تعریفی کلمات اور حسن ثنا کے دروازے کھول دے گا جو اس نے مجھ سے پہلے اور کسی پر ظاہر نہیں کیے تھے۔ پھر کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیں اور سوال کریں آپ کو عطا کیا جائے گا۔ آپ سفارش کریں آپ کی سفارش قبول کی جائے گی، چنانچہ میں اپنا سر اٹھا کر عرض کروں گا: امتی یارب امتی یارب، اے میرے رب! میری امت، اے پروردگار! میری امت ۔‘‘
آپ ﷺ کسی جگہ مدعو تھے اور کھانا تناول فرما رہے تھے۔ دستی کا گوشت آپ ﷺ کے ہاتھ میں تھا جو کہ آپ ﷺ کو بہت مرغوب تھا، آپ نے اس گوشت میں سے لقمہ لیا اور فرمایا کہ قیامت کے دن میں (اولین و آخرین سب) لوگوں کا سردار ہوں گا: پھر آپ ﷺ خاموش ہوگئے اور صحابہ بھی خاموش ہوگئے: تب نبی کریم ﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ تم پوچھو گے نہیں کہ کیوں؟ صحابہؓ نے دریافت کیا کیوں یا رسول اللہ؟ فرمایا کیونکہ قیامت کے دن لوگ تھکے ہوئے، ہلکان اور بہت برے حال میں ہوں گے اور اس حال کو پہنچ کو پھر وہ حضرت آدم کے پاس جائیں گے اور ان سے کہیں گے کہ اے آدمؑ! آپ تو تمام نوع انسانی کے باپ ہیں، آپ تو وہ ہیں کہ جنہیں اللہ رب العزت نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے، آپ تو وہ ہیں کہ جن کے اندر اللہ رب العزت نے اپنی روح میں سے پھونکا، آپ ہی وہ ہیں کہ جنہیں اللہ رب العزت نے فرشتوں سے سجدہ کروایا……تو کیا آپ ہمارے لیے آج کے دن اللہ رب العزت سے درخواست نہیں فرمائیں گے؟آدمؑ فرمائیں گے کہ آج کے دن اللہ رب العزت غضب ناک ہیں اور اللہ رب العزت آج سے پہلے کبھی اس قدر غضب ناک نہیں ہوئے اور نہ ہی آج کے بعد اس طرح غضب ناک ہوں گے۔ میں نے درخت کا پھل کھالیا تھا جو کہ مجھے نہیں کھانا چاہیے تھا۔ تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ: تم نوحؑ کے پاس چلے جاؤ۔
آدمؑ فرمائیں گے کہ میں اس ذمہ داری کا اہل نہیں، میں یہ نہیں کرسکتا کیونکہ میں نے ایک گناہ کیا ہے، تم نوحؑ کے پاس جاؤ۔پس لوگ نوح کے پاس چلے جائیں گے اور کہیں گے کہ اے نوحؑ! آپ بنی نوع انسان کی طرف اللہ رب العزت کےپہلے پیغمبر ہیں، اور آپ وہ ہیں کہ جنہیں اللہ رب العزت نے بچایا۔ کیا آپ ہمارے لیے درخواست نہ کریں گے؟ نوحؑ فرمائیں گے کہ میں نے اپنی قوم کے حق میں بد دعا کی تھی، میں تمہارا یہ کام نہیں کرسکتا۔کسی اور کے پاس چلے جاؤ: ابراہیمؑ کے پاس جاؤ۔پس لوگ ابراہیم کے پاس چلے جائیں گے۔
سبحان اللہ! دیکھیے قیامت کے دن لوگ اپنے تمام بادشاہوں، امرا، وزرا، صدور سب کو بھول جائیں گے، جانتے ہیں کہ اس دن وہ ان کے کچھ کام نہیں آسکتے، جب کہ دنیا میں یہی لوگ ان کے سامنے سجدے کرتے تھے اور ان کے سامنے ہاتھ پھیلاتے تھے، اور ان کے غلام بنے ہوئے تھے۔قیامت کے دن وہ جانتے ہیں کہ یہ لیڈران ان کے لیے کچھ خیر نہیں بہم پہنچا سکتے۔ اور وہ کہ جن سے دنیا میں وہ دور بھاگتے تھے، یعنی انبیاء اللہ، دنیا میں وہ ان سے اور ان کے احکام سے دور بھاگتے تھے، جیسا کہ آج لوگ نبی کریم ﷺ کی تعلیمات سے دور بھاگتے ہیں، لیکن قیامت کے دن وہ انہی کی جانب لپکیں گے کیونکہ وہ جانتے ہوں گے کہ یہی لوگ ہیں جو اللہ کے سامنے ان کی سفارش کرسکتے ہیں۔ یہ دنیا میں اللہ کے ترجمان تھے اور یہی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے سفارش کرسکتےہیں۔
پس لوگ حضرت ابراہیم کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ اے ابراہیم! اللہ رب العزت نے آپ کو اعزاز بخشا، آپ ہی وہ ہیں کہ جنہیں اللہ رب العزت نے اپنا خلیل اپنا دوست بنایا، کیا آپ آج ہمارے لیے سفارش نہ فرمائیں گے؟ ابراہیمؑ فرمائیں گے میں نے تین مرتبہ جھوٹ بولا لہٰذا میں یہ کام نہیں کرسکتا…… نفسی نفسی، ان سے پہلے بھی ہر نبی نے یہی کہا ہوگا، نفسی نفسی، موسیؑ کے پاس جاؤ۔
ضمناً یہ کہ ابراہیمؑ نے تین جھوٹ کا ذکر فرمایا اور ہم ’حیات انبیاء ‘ دروس کے سلسلے میں ذکر کر چکے ہیں کہ یہ معروف معنوں میں جھوٹ نہیں ہیں۔ مگر انبیاء کی حساسیت اتنی زیادہ ہے کہ انہیں اپنے اعمال میں شک رہتا ہے اور وہ اللہ سے اس پر استغفار کرتے رہتے ہیں اور اپنے آپ کو گنجائش نہ دیتے ہوئے یہی سمجھتے ہیں کہ ہم سے گناہ سرزد ہوا۔ جب ہم نماز پڑھتے ہیں اور اپنی پوری کوشش کرکے بہترین نماز پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر پھر بھی ہمیں یہ فکر کرنی چاہیے کہ اس میں ضرور کمی بیشی ہوگئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم سلام پھیرتے ہی استغفار کرتے ہیں۔ گو ابراہیم نے جھوٹ نہیں بولا تھا مگر وہ پھر بھی محسوس کرتے تھے کہ ان سے تین مرتبہ جھوٹ کا گناہ سرزد ہوا ہےاور اسی وجہ سے وہ خود کو اس قابل نہیں سمجھتے تھے کہ وہ انسانوں کے لیے شفاعت کا فریضہ انجام دے سکیں گے۔ اسی وجہ سے انہوں نے لوگوں کو موسیٰ کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔
لوگ موسی کے پاس اپنا مسئلہ لے کر آئیں گے تو وہ فرمائیں گے کہ مجھ سے ایک قتل سرزد ہوا تھا۔
ان سے وہ قتل غلطی سے ہوا تھا مگر قیامت کے دن ان کی حساسیت اتنی زیادہ ہوگی کہ وہ یہ سمجھیں گے کہ انہوں نے جو درست کام کیے وہ بھی شاید غلط طریقے سے کردیے ہیں۔ ایسا عمل جو جائز ہو یا جس کی گنجائش ہو یوم حشر کے خوف کی وجہ سے اپنے ایسے اعمال پر بھی انسان پریشان ہوگا۔ پس موسی فرمائیں گے کہ میں نے ایک شخص کو قتل کیا ہے، نفسی نفسی، عیسی کے پاس جاؤ۔
پس لوگ حضرت عیسی کے پاس جائیں گے اور عرض کریں گے کہ آپ تو وہ ہیں کہ اللہ رب العزت نے اپنی روح میں سے آپ کے اندر پھونکا، کیا آپ آج قیامت کے دن ہماری سفارش نہیں کریں گے؟ کیا آپ اللہ رب العزت سے درخواست نہیں کریں گے کہ آج کے دن ہماری مدد فرمائیں؟ عیسی اپنے کسی گناہ کا ذکر نہیں فرمائیں گے مگر کہیں گے نفسی نفسی، محمد ﷺکے پاس جاؤ۔
پس لوگ محمد ﷺ کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ آپ خاتم النبیین ہیں۔ اور آپ تو وہ ہیں کہ جن کی تمام اگلی پچھلی خطائیں اللہ رب العزت نے معاف فرما دی ہیں، وَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ، آپ ﷺ اس حال میں دنیا سے تشریف لے گئے کہ آپ کی تمام خطائیں معاف کی جاچکی تھیں، آپ کے اعمال نامے میں سرے سے کوئی گناہ تھا ہی نہیں۔لوگ آپ ﷺ سے درخواست کریں گے اور کہیں گے کہ کیا آپ ہمارے لیے سفارش نہیں فرما سکتے؟
آپ ﷺ وہ واحد ہستی ہوں گے جو کہیں گے امتی امتی! میری امت! میری امت! اور آپﷺ بھاگیں گے حتی کہ اللہ رب العزت کے عرش کے سائے تلے پہنچ جائیں گے اور سجدہ فرمائیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
ثُمَّ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ مَحَامِدِهِ وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَی أَحَدٍ قَبْلِي
’’ اللہ تعالیٰ اپنی حمد و تعریف کا ایسا طریقہ مجھ پر منکشف فرمائے گا جو اس سے قبل کسی کو نہیں بتایا گیا ۔‘‘
یعنی نبی کریم ﷺ سجدے میں گر کر اللہ رب العزت کی ایسی حمد و ثنا بیان فرمائیں گے جو اس سے پہلے کبھی نہ بیان کی گئی ہوگی۔ اور پھر اللہ رب العزت آپ ﷺ سے فرمائیں گے:
يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَکَ سَلْ تُعْطَهْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ
’’ اے محمد! اپنا سر اٹھائیں اور سوال کریں آپ کو عطا کیا جائے گا، آپ سفارش کریں آپ کی سفارش قبول کی جائے گی‘‘۔
آپ ﷺ فرمائیں گے: امتی امتی! میری امت! میری امت!
یہ آپ ﷺ کی شفاعت ہوگی اپنی امت کے لیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ قَدْ دَعَا بِهَا فَاسْتُجِيبَ فَجَعَلْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ (صحیح بخاری)
’’ہر نبی کی ایک دعا قبول ہوتی ہے، چنانچہ انہوں نے دعا کی اور مقبول بھی ہوگئی (لیکن) میں نے اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ کرلی ہے‘‘۔
کل انسانیت کے حق میں اس شفاعت کا حق صرف آپ ﷺ ہی کو عطا کیا گیا اور آپ ﷺ کی یہ شفاعت، شفاعت عظمیٰ کہلاتی ہے جس کے بعد حساب کتاب شروع ہوگا اور اس کے بعد ہی لوگوں کو ان کے اعمال نامے عطا کیے جائیں گے اور ہر فرد اپنے اعمال کا جواب دہ ہوگا۔
اس کے علاوہ بہت سی دیگر شفاعتیں ہیں جنہیں شفاعتِ صغریٰ کہا جاتا ہے۔
وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی صحبہ وسلم
٭٭٭٭٭