قیامت کے دن گناہ گار مسلمانوں کے احوال
مال دار اور فضول خرچ لوگ
عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ تَجَشَّأَ رَجُلٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ کُفَّ عَنَّا جُشَائَکَ فَإِنَّ أَکْثَرَهُمْ شِبَعًا فِي الدُّنْيَا أَطْوَلُهُمْ جُوعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ (جامع ترمذی)
’’ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے سامنے ڈکار لی تو آپ نے فرمایا: اپنی ڈکار کو ہم سے دور رکھو کیونکہ دنیا میں زیادہ پیٹ بھر کر کھانے والے قیامت کے دن سب سے زیادہ بھوکے رہیں گے ۔‘‘
إِنَّ الْمُکْثِرِينَ هُمْ الْمُقِلُّونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا مَنْ أَعْطَاهُ اللَّهُ خَيْرًا فَنَفَحَ فِيهِ يَمِينَهُ وَشِمَالَهُ وَبَيْنَ يَدَيْهِ وَوَرَائَهُ وَعَمِلَ فِيهِ خَيْرًا (صحیح مسلم)
’’ بےشک زیادہ مال والے ہی قیامت کے دن کم (مایہ ) ہوں گے، سوائے ان کے جن کو اللہ نے مال عطا فرمایا اور انھوں نے اسے دائیں، بائیں اور آگے ، پیچھے اڑا ڈالا(خرچ کیا) اور اس میں نیکی کے کام کیے۔‘‘
نیز ایک اور حدیث ہے جو مذکورہ حدیث کے معنی کو مزید واضح کرتی ہے:
الْأَکْثَرُونَ هُمْ الْأَسْفَلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا مَنْ قَالَ بِالْمَالِ هَکَذَا وَهَکَذَا وَکَسَبَهُ مِنْ طَيِّبٍ (ابن ماجہ)
’’ جو لوگ بہت مال دار ہیں انہی کا درجہ قیامت کے دن سب سے پست ہوگا مگر جو کوئی مال اس طرف اور اس طرف لٹائے اور حلال طریقے سے کمائے۔‘‘
یعنی اس وعید سے صرف وہ محفوظ ہیں جنہوں نے مال حاصل بھی حلال طریقے سے کیا ہو اور اسے خرچ بھی نیکی کے کاموں میں کیا ہو۔
کیا مال دار ہونا بری بات ہے؟
مال فی نفسہ کوئی بری چیز نہیں ہے۔ بلکہ قرآن میں اللہ پاک نے اسے خیر کہا اور گزشتہ حدیث میں نبی کریم ﷺ نے اسے خیر ہی فرمایا۔ اور خیر کا معنی اچھی چیز ہے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ نے جو طیبات تمہیں عطا کیے ہیں ان میں سے خرچ کرو۔ اللہ نے اسے طیب، زینت اور خیر سے تعبیر کیا ہے۔ پس مال بذات خود اچھی چیز ہے اور نعمت ہے مگر یہ برا صرف اس وقت ہوجاتا ہے جب اسے غلط طریقے سے استعمال کیا جائے۔ یہ تو ایک وسیلہ ہے جسے علم، صحت اور رزق کی دیگر قسموں کی طرح اچھے کاموں کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور برے کاموں کے لیے بھی۔ مگر ہمیں ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مال کو مسلسل پاک کرتے رہنا چاہیے تاکہ یہ طیب ہی رہے۔ اور پاک کرنے کا طریقہ اسے نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا ہے۔ بعض معروف صحابہ کرام بہت مال دار تھے۔ حضرت عثمان بن عفان امیر ترین مسلمانوں میں سے تھے۔حضرت عبدالرحمان بن عوف بھی امیر ترین مسلمانوں میں سے ایک تھے اور اس مال کے ہوتے ہوئے بھی انہوں نے عشرہ مبشرہ میں مقام پایا۔ حضرات زبیر بن عوام، ابو بکر و عمر بھی اچھے خوشحال لوگوں میں شامل تھے، مگر وہ جانتے تھے کہ مال کو کہاں اور کیسے استعمال کرنا ہے۔ اسی طرح بعض انبیا بھی مال دار تھے مثلاً حضرت داؤد اور سلیمان ۔
الغادر : دغاباز
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَمَعَ اللَّهُ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرْفَعُ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَائٌ فَقِيلَ هَذِهِ غَدْرَةُ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ (صحیح مسلم)
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :جب اللہ اگلے اور پچھلے لوگوں کو قیامت کے دن جمع فرمائے گا تو ہر عہد شکن کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔‘‘
جس شخص نے بدعہدی کی ہوگی وہ اس حال میں قیامت کے دن تمام مخلوق کے سامنے ظاہر ہوگا کہ اس نے اپنی بدعہدی کا جھنڈا اٹھا رکھا ہوگا۔
ایک اور حدیث ہمیں یہ بتاتی ہے کہ یہ جھنڈا اس کی پشت کی جانب ہوگا اور وہ اس کے ساتھ چلتا پھرتا ہوگا۔ جس کی بدعہدی جتنی بڑی ہوگی اس کا جھنڈا اتنا ہی لمبا چوڑا ہوگا۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے اس جھنڈے کی بابت فرمایا کہ علی قدر غدرۃٍ، یعنی اس کی بدعہدی کے بقدر اس کے جھنڈے کا قد ہوگا۔
اسی طرح مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے:
لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَائٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرْفَعُ لَهُ بِقَدْرِ غَدْرِهِ أَلَا وَلَا غَادِرَ أَعْظَمُ غَدْرًا مِنْ أَمِيرِ عَامَّةٍ
’’ عہد شکنی کرنے والے ہر شخص کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا جو اس کی بدعہدی کے بقدر بلند کیا جائے گا۔ سنو ! کوئی عہد شکن اس سے بڑھ کر نہیں جو خلق اللہ کا حاکم ہو کر بدعہدی کرے ۔‘‘
امیر عامہ کون ہوتا ہے؟ خلیفہ یا عوام الناس کا امیر۔ یہ بدترین بدعہدی ہے کیونکہ عوام الناس کا یہ حاکم ہر ایک کو دھوکہ دیتا ہے۔بدعہدی ، دھوکے اور دغا کی سب سے بڑی مثال فلسطین کو یہود کے ہاتھ بیچ ڈالنا ہے۔یہ غدر کی سب سے واضح مثال ہے۔ وہ لوگ کہ جن کا اس زمین پر کوئی حق نہ تھا، انہوں نے اس مقدس سرزمین کو نہایت کم قیمت پر یہود کے حوالے کردیا، کم قیمت اس لیے کہ یہود سے کبھی بھی زیادہ کی توقع نہیں رکھی جاسکتی، بہت کم قیمت پر انہوں نے فلسطین بیچ دیا اور امت کے ساتھ سب سے بڑا دھوکہ کیا۔
الغلول
الغلول کا صریح معنی تو غنائم کی چوری ہے۔جب غنائم اکٹھے کیے جائیں اور کوئی ان میں سے کچھ چرا لے تو اسے الغلول کہا جاتا ہے۔ مگر وسیع تر معنی میں الغلول کسی بھی ایسی چیز کو اٹھانے یا اس پر قبضہ جمانے کو کہا جاتا ہے جو اس شخص کی اپنی ملکیت نہ ہو۔ یا کسی بھی ایسی چیز کا اٹھانا جسے نہیں اٹھایا جانا چاہیے۔ اس کی سزا اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں بیان فرمائی ہے:
﴿ وَمَنْ يَّغْلُلْ يَاْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ثُمَّ تُوَفّٰي كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ﴾ (سورۃ آل عمران: ۱۶۱)
’’ اور جو کوئی خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن وہ چیز لے کر آئے گا جو اس نے خیانت کر کے لی ہوگی، پھر ہر شخص کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔‘‘
اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس کسی نے اونٹ چرایا ہوگا وہ قیامت کے دن اسے گردن پر اٹھائے حاضر ہوگا اور جس کسی نے گائے چرائی ہوگی وہ اسے اٹھائے ہوئے حاضر ہوگا اور جس کسی نے بکری چرائی ہوگی وہ قیامت کے دن اسے اٹھائے ہوئے حاضر ہوگا۔
مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺنے ایک شخص کو عامل زکوۃ مقرر فرمایا۔ عامل زکوۃ ، مسلمانوں کی زکوۃ اکٹھی کرنے والے کو کہتے ہیں۔ نبی کریم ﷺعاملین زکوۃ مقرر فرماتے اور انہیں مملکت کے مختلف حصوں میں بھیجتے۔ ان لوگوں کے پاس لوگوں کے مال سے زکوۃ وصول کرنے کا اختیار ہوتا تھا۔ وہ لوگوں کے مویشیوں میں سے زکوۃ کے مویشی لیتے اور لوگوں کے اموال میں سے بھی زکوۃ وصول کرتے۔ مذکورہ شخص کو نبی کریم ﷺ نے زکوۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ جب وہ واپس آیا تو آپ ﷺکے حوالے زکوۃ کا مال کیا اور کہا کہ یہ آپ کے لیے ہے اور یہ (مزید مال) مجھے بطور تحفہ ملا ہے۔ آپ ﷺ فوراً اٹھے اور منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں کسی کو زکوۃ وصول کرنے کے لیے روانہ کروں اور وہ واپس آکر یہ کہے کہ یہ مال آپ کا ہے اور یہ میرا ہے۔ اگر وہ اپنے والدین کے گھر بیٹھا رہے تو پھر دیکھے کہ اسے کتنے ہدایا موصول ہوتے ہیں۔اس شخص کو ہدایا کیوں ملے؟ اس کے مقام کی وجہ سے ، تاکہ وہ زکوۃ وصول کرتے ہوئے ان کے ساتھ نرمی برتے اور انہیں رعایت دے۔کہنے کو تو یہ تحفہ ہوتا ہے مگر درحقیقت یہ رشوت ہے جو ہدیہ کہہ کر دی جاتی ہے۔فرمایا:
مَا بَالُ الْعَامِلِ نَبْعَثُهُ فَيَأْتِي يَقُولُ هَذَا لَکَ وَهَذَا لِي فَهَلَّا جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ فَيَنْظُرُ أَيُهْدَی لَهُ أَمْ لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَأْتِي بِشَيْئٍ إِلَّا جَائَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَحْمِلُهُ عَلَی رَقَبَتِهِ إِنْ کَانَ بَعِيرًا لَهُ رُغَائٌ أَوْ بَقَرَةً لَهَا خُوَارٌ أَوْ شَاةً تَيْعَرُ (صحیح بخاری)
’’ عامل کا کیا حال ہے کہ ہم اس کو بھیجتے ہیں تو وہ واپس آکر کہتا ہے کہ یہ تمہارا اور یہ میرا ہے (جو مجھے تحفہ میں ملا ہے) تو کیوں نہیں اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر بیٹھتا پھر دیکھتا کہ کیا اسے تحفہ بھیجا جاتا ہے یا نہیں! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! جو عامل جو کچھ بھی رکھے گا، تو قیامت کے دن وہ چیز اس پر سوار ہوگی، اگر وہ اونٹ رکھے گا تو اس کی گردن پر سوار ہوگا اور وہ بولتا ہوگا، اگر گائے ہوگی تو وہ بولتی ہوگی، یا بکری ہوگی تو وہ بولتی ہوگی ۔‘‘
ہدیہ کون وصول کر سکتا ہے؟
یہ نکتہ وضاحت طلب ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر آپ کسی مسئولیت کے مقام پر ہوں تو آپ ہدایا وصول نہیں کرسکتے۔آپ کسی بھی مقام پر ہوتے ہوئے ہدایا وصول کرسکتے ہیں لیکن تب جب وہ ہدیہ آپ کو کسی ایسی رعایت اور سہولت کے حصول کی نیت سے نہ دیا جارہا ہو جو تحفہ دینے والے کا حق نہ ہو۔ محض اس تحفے کی وجہ سے اگر آپ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے اس شخص پر کوئی احسان کرتے ہیں تو یہ تحفہ رشوت بن جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص محض آپ کی محبت میں آپ کو کوئی تحفہ دے تو اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ کس مقام پر ہیں، آپ کےلیے اسے وصول کرنا جائز ہے۔اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیوں نہ وہ اپنے گھر بیٹھا رہتا اور پھر دیکھتا کہ اسے یہ تحفے ملتے ہیں یا نہیں۔یقیناً اسے گھر بیٹھے یہ تحفے نہ ملتے، ان کی وجہ تو محض اس کا عامل زکوۃ ہونا تھا تاکہ وہ ان کے لیے گنجائش پیدا کرے اور ان کے ساتھ زکوۃ کی وصولی میں رعایت کرے۔
غاصب الارض: زمین پر ناجائز قبضہ کرنے والا
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَخَذَ مِنْ الْأَرْضِ شَيْئًا بِغَيْرِ حَقِّهِ خُسِفَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَی سَبْعِ أَرَضِينَ (صحیح بخاری)
’’ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جو شخص تھوڑی سی زمین بھی ناحق لے لے گا، اسے قیامت کے دن سات زمینوں تک دھنسا دیا جائے گا ۔‘‘
ذو الوجھین : دو رخا شخص
ایسا شخص جو کسی سے ایک چہرے کے ساتھ ملتا ہے اور دوسرے سے مختلف چہرے کے ساتھ۔ یا ایک ہی شخص سے کبھی ایک چہرے کے ساتھ ملتا ہے اور کبھی دوسرے۔
نبی کریم ﷺنے فرمایا:
تجدون شر الناس يوم القيامة ذا الوجهين الذي يأتي هؤلاء بوجه وهؤلاء بوجه (متفق عليه)
’’ قیامت کے دن سب سے بدتر شخص وہ ہوگا جو( فتنہ انگیزی کی خاطر) دو منہ رکھتا ہے (یعنی منافق کی خاصیت وصفت رکھتا ہے) کہ وہ ایک جماعت کے پاس آتا ہے تو کچھ کہتا ہے دوسری جماعت کے پاس آتا ہے تو کچھ کہتا ہے۔‘‘
ایک اور حدیث میں ہے:
من كان ذا وجهين في الدنيا كان له يوم القيامة لسانان من نار (مشکوۃ)
’’ جو شخص دنیا میں دو رویہ ہوگا، قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی دو زبانیں ہوں گی۔‘‘
چہرہ تو تبدیل نہیں ہوتا، زبان ہی تبدیل ہوتی ہے۔ دو چہروں والے کی دراصل زبانیں دو ہوتی ہیں جو موقع کی مناسبت سے الفاظ و انداز بدل لیتی ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اسلام ادب و اخلاق سکھاتا ہے اور ہیرا پھیری اور کج روی کو پسند نہیں کرتا۔اسلام امانت اور راست بازی کا سبق دیتا ہے مگر اس کا معنی بد اخلاقی اور درشت گوئی نہیں ہے۔ دو رخا نہ ہونے کا یہ معنی نہیں ہے کہ جو ہمارے دل میں آئے وہ ہم کہیں اور منہ پھٹ اور درشت گو بن جائیں۔ ہمارے معاشرے میں کھردرے لب و لہجے میں کہے گئے یہ جملے عام ہیں کہ بھئی میں تو سچی بات کروں گا، چاہے کسی کو اچھی لگے یا بری ، یا ہم تو ہر بات منہ پر کہنے کے عادی ہیں، اور یہ کہہ کر ادب و اخلاق سے ہاتھ اٹھا لیا جاتا ہے۔اسلام امانت، دیانت اور راست بازی کا سبق دیتا ہے۔
عوام سے گریز کرنے والے حکمران
مَنْ وَلَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ شَيْئًا مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ فَاحْتَجَبَ دُونَ حَاجَتِهِمْ وَخَلَّتِهِمْ وَفَقْرِهِمْ احْتَجَبَ اللَّهُ عَنْهُ دُونَ حَاجَتِهِ وَخَلَّتِهِ وَفَقْرِهِ (ابو داؤد)
’’ اللہ تعالیٰ نے جس کسی کو مسلمانوں کے کسی معاملے کا والی اور ذمہ دار بنادیا ہو ، پھر وہ ان کی ضروریات ، حاجت مندی اور فقیری میں ان سے ملنے سے گریز کرے ( حجاب میں رہے ) تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے حجاب فرما لے گا جب کہ وہ ضرورت مند ہوگا ، محتاج ہوگا اور فقیر ہوگا ۔‘‘
اللہ تعالیٰ اگر کسی کو عوام الناس پر مسئول بنائیں اور وہ عوام پر اپنے دروازے بند کرلے، ان سے ملاقات نہ کرے اور لوگوں کی وہ حاجات پوری نہ کرے جن کے پورا کرنے کی ذمہ داری اس نے قبول کی ہے تو قیامت کے دن جب اسے اللہ کی ضرورت ہوگی اس وقت اللہ اس کی مدد نہیں فرمائیں گے۔کیونکہ دنیا میں یہی اختیار اللہ نے اسے دیا تھا مگر اس نے لوگوں کی مدد نہیں کی تھی لہٰذا قیامت کے دن اللہ رب العزت ان لوگوں کی طرف سے بدلہ لیں گے اور اس شخص کی مدد نہیں فرمائیں گے۔
اسلامی خلافت میں ہمارے خلفاء اور ان کے مقرر کردہ مسئولین کے دروازے عوام کے لیے کھلے رہتے تھے۔مثلاً ایک شخص مصر سے والیٔ مصر حضرت عمرو بن العاص کے بیٹے کی شکایت لے کر آیا۔ وہ مدینہ پہنچا اور سیدھا حضرت عمر بن خطاب سے ملنے آگیا۔حضرت عمر کسی محل یا عالی شان مکان میں، پہرے داروں کے نرغے میں تو رہتے نہیں تھے کہ ان سے ملنا مشکل ہوتا، بلکہ ایسے گھر میں رہتے تھے جس کا دروازہ تک نہ تھا۔ داخلی دروازے کی جگہ ایک پردہ لٹک رہا تھا جسے ہٹا کر کوئی بھی گھر میں داخل ہوسکتا تھا۔لوگ امیر المومنین کو باہر سے آواز دیتے، اجازت ملنے پر گھر کے اندر داخل ہوجاتے۔ان سے ملنا اتنا آسان تھا۔ شاہ فارس کے ماتحت کئی چھوٹے بادشاہ بھی تھے، ان میں سے کوئی ایک بادشاہ کسی پیغام رسانی کے سلسلے میں ایک مرتبہ مدینہ آیا۔ لوگوں سے دریافت کیا کہ تمہارے خلیفہ کہاں ملیں گے؟ لوگوں نے بتایا کہ اپنے گھر یا مسجد میں ملیں گے۔ وہ ان کے گھر گیا تو وہاں ان کو نہ پایا، پھر مسجد میں دیکھا، وہاں بھی وہ اسے نہیں ملے تو لوگوں سے دوبارہ پوچھا کہ تمہارے خلیفہ کہاں ملیں گے؟ ایک شخص نے ایک درخت کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ وہ شخص جو درخت کے نیچے سو رہا ہے وہی ہمارے خلیفہ ہیں۔ فارس کا یہ بادشاہ حضرت عمر کے قریب گیا ،جب کہ صحرا میں درخت کے نیچے وہ سو رہے تھے، اور ان کے چہرے کو دیکھ کر ششدر رہ گیا اور بولا حَکَمْتَ فَعَدَلْتَ فَأمِنْتَ فَنِمْتْ، آپ نے عادلانہ حکومت کی اسی لیے آپ پرسکون ہیں اور سوسکتے ہیں۔اس نے خلیفۃ المسلمین کا مقابلہ شاہان فارس سے کیا ہوگا جن کے لیے اس آزادی کے ساتھ باہر جانا اور یوں سوجانا ناممکن تھا۔ لیکن عمر بن خطاب اس سکون اور آزادی کے ساتھ بے خوف ہو کر بغیر محافظوں کے اس لیے سو سکتے تھے کہ انہوں نے کسی پر ظلم نہیں کیا تھا اور عدل و انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا تھا۔
لوگوں کی حاجات سے دور بھاگنا اور انہیں پورا کرنے سے گریز کرنا جرم ہے۔چونکہ ہم ظلم و جبر کے تحت رہے ہیں لہٰذا ہم قیادت کے معنی ہی بھول چکے ہیں، ہمیں قیادت و رہنمائی کی تعریف نئے سرے سے متعین کرنی چاہیے۔ ہمارے حکمران اگر کوئی خیرکا کام کرتے ہیں تو ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور یہ بھول جاتے ہیں کہ جو انہوں نے کیا وہ ان کی ذمہ داری اور ان کا فرض ہے۔ وہ اچھے کام کرکے لوگوں پر احسان نہیں کررہے بلکہ یہ ان کو کرنے ہی چاہییں کیونکہ یہ ان کی ذمہ داری ہے اور اسی کام کے لیے انہیں مقرر کیا گیا ہے۔اور جب وہ کچھ غلط کرتے ہیں تو ہم دم سادھ کر بیٹھ جاتے ہیں گویا ان حکمرانوں کو اپنے عوام کے استحصال کا حق حاصل ہے۔ اسلام میں حکمرانی رعیت کی مسئولیت کا دوسرا نام ہے۔ کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہوگا۔حکمرانوں کو یہ مقام دیا ہی اس لیے گیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری ادا کریں، پس انہیں وہ ذمہ داری ادا کرنی ہی چاہیے کہ اسی کی ان سے توقع رکھی جاتی ہے۔اور جب وہ ذمہ داری ادا نہ کریں تو انہیں ہٹا دینا چاہیے اور کبھی یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ان کے پاس ملک یا عوام کی ملکیت ہے۔ الأرض والعباد لرب العباد، زمین اور انسان سب کے سب بندوں کے رب کی ملکیت ہیں۔ یہ وہ تصور ہے جس سے صحابہ واقف تھے اور ان کے دلوں میں یہ زندہ امر موجود تھا مگر ہم نے اسے بھلا دیا ہے۔ پس عمر بن خطاب ایک دن منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا: سنو اور اطاعت کرو۔حضرت سلمان فارسی جو متقی صحابہ میں سے تھے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا، نہ ہم سنیں گے اور نہ ہم اطاعت کریں گے۔ حضرت عمرنے دریافت فرمایا: کیوں؟ کہا کہ آپ نے ہم سب کو ایک کپڑا یا لباس دیا اور اپنے لیے دو رکھ لیے! کپڑے کے یہ ٹکڑے مال فے کے طور پر مدینہ لائے گئے تھے۔ پس عمر بن خطاب نے ہر صحابی کو کپڑے کا ایک ٹکڑا دیا۔ لیکن جب عمرمنبر پر کھڑے ہوئے تو سلمان فارسی نے دیکھا کہ انہوں نے اس طرح کے دو کپڑے پہن رکھے ہیں، لہٰذا انہوں نے اس بابت سوال کیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ کو دو کپڑے ملیں اور ہمیں ایک ایک۔عمر نے جواب نہیں دیا بلکہ اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر کو حکم دیا کہ کھڑے ہوجائیں اور ان کو جواب دیں۔ پس عبداللہ بن عمرنے واضح کیا کہ ہم سب کو کپڑے کا ایک ایک ٹکڑا ملا تھا، لیکن چونکہ میرے والد طویل القامت ہیں اور ایک ٹکڑے سے ان کا لباس نہیں بن سکتا لہٰذا میں نے اپنے حصے کا کپڑا بھی اپنے والد کو دے دیا۔ مگر آج ہماری زمینوں پر بھی قبضہ ہے، ہمارے وسائل پر بھی قبضہ ہےاور ہم انسانوں پر بھی قبضہ ہے مگر ہم نے اس حالت کو قبول کر رکھا ہے۔ حالانکہ اب یہ معاملہ کپڑے کے ایک ٹکڑے تک محدود نہیں ہے، بلکہ بطور امت ہم مقبوضہ ہیں، ہماری زمینیں تقسیم کردی گئی ہیں اور یہ ظلم ہے اور ان ظالموں سے اللہ رب العزت قیامت کے دن کلام نہیں فرمائیں گے۔
محتاجی کے بغیر سوال کرنے والا
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَأَلَ وَلَهُ مَا يُغْنِيهِ جَائَتْ مَسْأَلَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ خُدُوشًا أَوْ خُمُوشًا أَوْ کُدُوحًا فِي وَجْهِهِ (ابن ماجہ)
’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے پاس اتنا کچھ تھا کہ اسے (سوال سے) مستغنی کر دے، پھر بھی اس نے سوال کیا تو قیامت کے دن اس کا سوال اس کے چہرے میں خراشوں اور زخموں کی صورت میں ظاہر ہوگا ۔‘‘
جو شخص بقدر کفایت مال رکھنے کے باوجود لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے اور خود کو محتاج ظاہر کرتا ہے وہ قیامت کے دن اس حال میں پیش ہوگا کہ ذلت کے طور پر اس کے چہرے پر نشانات ہوں گے جو واضح کریں گے کہ یہ بھیک مانگتا تھا۔
اسلام لوگوں میں قدر و منزلت اور عزت اور شرف دیکھنا چاہتا ہے مگر دوسری طرف اسلام اس بات کی رعایت بھی رکھتا ہے کہ کبھی کسی شخص کو فقر و فاقہ کا سامنا ہوجائے تو وہ کسی سے سوال کرکے اپنی ضرورت پوری کرلے اور ایسی صورت میں لوگوں کو اس کی مدد کرنی چاہیے اور یہ مدد ان پر واجب ہے۔ کوئی شخص اگر اضطراری حالت کو پہنچ جائے اور سوال کرے تو اسلام لوگوں پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ اس شخص کی مدد کی جائے۔لیکن جس شخص کے پاس بقدر کفایت ہو اور وہ پھر بھی مانگے تو یہ مانگنا اس کے لیے ذلت کا سبب ہوگا کیونکہ اس کا مانگنا ضرورت سے نہیں بلکہ حرص اور لالچ کی وجہ سے ہے جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پسند نہیں فرمایا۔
جھوٹا خواب بیان کرنے والا
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ تَحَلَّمَ بِحُلْمٍ لَمْ يَرَهُ کُلِّفَ أَنْ يَعْقِدَ بَيْنَ شَعِيرَتَيْنِ وَلَنْ يَفْعَلَ وَمَنْ اسْتَمَعَ إِلَی حَدِيثِ قَوْمٍ وَهُمْ لَهُ کَارِهُونَ أَوْ يَفِرُّونَ مِنْهُ صُبَّ فِي أُذُنِهِ الْآنُکُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (صحیح بخاری)
’’ جس نے ایسا خواب بیان کیا جو اس نے دیکھا نہ ہو تو اسے جَو کے دو دانوں کو قیامت کے دن جوڑنے کے لیے کہا جائے گا اور وہ اسے ہرگز نہیں کرسکے گا (اس لیے مار کھاتا رہے گا) اور جو شخص دوسرے لوگوں کی بات سننے کے لیے کان لگائے جو اسے پسند نہیں کرتے یا اس سے بھاگتے ہیں تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا ۔‘‘
عام طور پر لوگوں کو خوابوں پر بہت اعتبار ہوتا ہے لہٰذا بہت سے لوگ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے، مثلاً کسی کو طیش دلانے کے لیے، اپنا مقام و مرتبہ بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کے لیے یا اپنے کسی عمل کا جواز پیش کرنے کے لیے گھڑ گھڑ کر خواب بیان کرتے ہیں۔ یہ گناہ ہے اور اس کی پاداش میں قیامت کے دن ایسے شخص کو وہ کام دیا جائے گا جو وہ ہرگز نہ کرسکےگا۔
لوگوں کی ٹوہ لگانے والے کے کانوں میں قیامت کے دن پگھلا ہوا سیسہ انڈیلا جائے گا، کیونکہ اس نے لوگوں کا حق خلوت و رازداری پامال کیا۔ حق رازداری یا پرائیویسی ایسا حق ہے جو اسلام نے انسانوں کو دیا ہے۔ اسلام نے کسی کی غیبت کرنے یا ٹوہ لگانے کی ہرگز اجازت نہیں دی خواہ جو کچھ وہ کررہے ہوں وہ گناہ ہو یا غلط ہو، پھر بھی کسی کے پاس یہ حق نہیں کہ ان کی جاسوسی کرتا پھرے۔ اگر کوئی اپنے گھر کے اندر شراب بھی پیتا ہو، جو کبیرہ گناہ ہے، پھر بھی ہمارا کوئی حق نہیں کہ اس کی رازداری کا پردہ چاک کریں اور اس کی ٹوہ لگائیں۔ جو گناہ وہ اپنے گھر میں پوشیدہ ہوکرکررہا ہو اس کا معاملہ اس شخص کے اور اس کے رب کے درمیان ہے، ہمارے اوپر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور اللہ رب العزت قیامت کے دن خود اس سے نمٹ لیں گے۔
لیکن اگر کوئی سڑک پر نکل کر شراب پینے لگے تو اس پر حد جاری ہوگی کیونکہ وہ جہاراً معصیت کا مرتکب ہوا۔خلفائے راشدین کے دور میں ایسے (منافق یا دیگر) لوگ موجود تھے جو اپنے گھروں میں چھپ کر شراب نوشی کرتے تھے مگر ان پر اس لیے سزا نافذ نہیں کی گئی کہ انہوں نے کبھی بھی علی الاعلان یہ کام نہیں کیا۔
اسلام گناہوں کی تشہیر کو پسند نہیں کرتا۔ کوئی خلوت میں گناہ کرتا ہے تو ممکن ہے اللہ کبھی اس کو توبہ کی توفیق دے دیں ورنہ اللہ کے اختیار میں ہے کہ چاہے اسے سزا دیں یا اسے معاف کردیں۔معاف کرنے اور سزا دینے کا اختیار سراسر اللہ رب العزت ہی کے پاس ہے۔
وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی صحبہ وسلم
٭٭٭٭٭