قیامت کے دن متقین صالحین کے احوال
لوگوں کی حاجت روائی کرنے والے
ان لوگوں کا حال کہ جو لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور ان کی حاجت روائی کرتے ہیں:
مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ کُرْبَةً مِنْ کُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ کُرْبَةً مِنْ کُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ (صحیح مسلم)
’’ جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا۔‘‘
یہ بھی ایک ایسا معاملہ ہے کہ جسے ہم ہیچ سمجھتے ہیں، یعنی دوسروں کی مدد کی قدر اور اہمیت۔ بعض مرتبہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دین محض چند رکعتوں اور چند روزوں کا نام ہے اور اس کے علاوہ لوگوں کے ساتھ جیسا چاہے معاملہ رکھو، مسئلہ نہیں ہے۔ چوری، لوٹ کھسوٹ، دھوکہ دہی، زبان درازی کر کے بھی ایک انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ مومن ہے۔ انسان کے اعمال پر اس کے دوسرے انسانوں کے ساتھ تعامل کا بہت اثر پڑتا ہے۔ بعض لوگ محض دوسرے لوگوں سے اچھے تعامل اور اچھے اخلاق کی وجہ سے جنت میں داخل کیے جائیں گے۔ اس بارے میں بہت سی احادیث ہیں جن کا ہم نے پہلے ذکر کر رکھا ہے۔ اگر کوئی شخص دنیا میں کسی کی مصیبت یا تکلیف دور کرنے میں مدد کرتا ہے تو اللہ اس کے لیے آخرت کی بہت سی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور فرما دیں گے۔ نبی کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ:
وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ (صحیح مسلم)
’’ اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا ۔‘‘
گناہوں کی پردہ پوشی کیونکر کی جائے
عورۃ وہ چیز ہے کہ جس کے لیے آپ نہیں چاہتے کہ کوئی اور اس کو دیکھے۔ اسی لیے انسان کی شرم گاہ کو بلکہ جسم کے ہر اس حصے کو عورۃ کہا گیا ہے جسے کسی دوسرے کے سامنے کھولنا جائز نہیں ہے ۔اسی طرح عورۃ میں اور بھی چیزیں شامل ہیں جو انسان دوسروں کے سامنے نہیں ظاہر کرنا چاہتا، مثلاً انسان کے گناہ۔ ایک انسان گناہ کرتا ہے مگر اسے دنیا سے چھپا کر رکھنا چاہتا ہے۔ مثلاً یہ ممکن ہے کہ کوئی نمازی مسلمان ہو اور اس کے دل میں ایمان ہو مگر وہ شراب کی لت میں مبتلا ہو، جو کہ ایک کبیرہ گناہ ہے۔ اس کے باوجود وہ شخص اللہ سے محبت رکھتا ہو اور اس پر ایمان رکھتا ہو اور اپنی کمزوری سے واقف ہو۔ وہ اس بری لت میں مبتلا ہو، جانتا ہو کہ یہ ایک مصیبت ہے، اور اللہ سے معافی کا خواستگار ہو اور وہ لوگوں سے اپنی اس کمزوری کو چھپاتا ہو۔ کسی شخص کو کسی طرح اس انسان کی اس کمزوری کا علم ہو جائے اور وہ اس کی تشہیر نہ کرے بلکہ اس کے راز کو راز ہی رہنے دے، اس کی پردہ پوشی کرے تو قیامت کے دن اللہ رب العزت اس کے کسی راز کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔ ہم سب ہی کے اعمال، خیالات یا ارادوں میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہوتا ہے جس پر ہم دوسروں کو مطلع نہیں کرنا چاہتے اور ہم اپنے اس گناہ پر مصر نہیں ہوتے بلکہ اللہ سے اس کی معافی کے خواستگار ہوتے ہیں۔ پس اگر ہم اپنے کسی بھائی کے عیب کی پردہ پوشی کریں گے تو اللہ قیامت کے دن ہمارے راز کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک حرام عمل یا بات کو چھپایا جائے؟ کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ کبیرہ گناہ کو کیسے چھپایا جا سکتا ہے کہ جس کے ارتکاب پر حد بھی ہے؟ اسلام میں حدود کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے کو عام ہو جانے والے ان گناہوں سے پاک کیا جائے جو افراد پر اثر انداز ہو سکتے ہوں۔ گناہ کی اس پردہ پوشی میں بہت بڑی حکمت ہے۔ گناہ اس وقت خطرناک ہو جاتا ہے کہ جب وہ عام ہو جائے، لیکن اگر وہ گناہ عام نہ ہو بلکہ کسی کا ذاتی فعل ہو اور لوگوں پر اثر انداز نہ ہوتا ہو تو وہ معاشرے کے لیے خطرہ نہیں ہے۔ ایک شخص خلوت میں ، اپنے گھر میں چھپ کر، لوگوں کے سامنے ظاہر کیے بغیر گناہ کر رہا ہے تو اس کا نقصان دوسرے لوگوں کو نہیں ہے، نقصان تو تب ہوتا ہے کہ جب وہ شخص اس گناہ کو علانیہ کرنا شروع کر دے اور دیگر لوگ بھی اس گناہ کی جانب متوجہ ہو جائیں۔ عام لوگوں کے دل و ذہن میں شراب پینے کا خیال نہیں آتا، لیکن اگر کوئی ان کے سامنے علانیہ شراب پیے، بل بورڈز پر شراب کے اشتہار لگے ہوں، بڑی بڑی کمپنیاں شراب بنا رہی ہوں، تو لوگ ضرور اس کی طرف متوجہ ہوں گے۔ لیکن جب ایک شخص خلوت میں ایک گناہ کر رہا ہے اور لوگوں کو اس کا علم نہیں ہے تو ممکن ہے کہ وہ کسی دن توبہ کر لے اور دوبارہ اس گناہ کے قریب نہ پھٹکے، وہ گناہ اس کے لیے قصہ پارینہ ہو کر رہ جائے اور وہ توبہ کے بعد ایک نئی گناہ سے پاک زندگی شروع کرے۔ معاملہ تب خطرناک ہو جاتا ہے کہ جب گناہ عام ہو جائے۔ نبی کریم ﷺْ نے فرمایا:
لَمْ تَظْهَرْ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ قَطُّ حَتَّی يُعْلِنُوا بِهَا إِلَّا فَشَا فِيهِمْ الطَّاعُونُ وَالْأَوْجَاعُ الَّتِي لَمْ تَکُنْ مَضَتْ فِي أَسْلَافِهِمْ (ابن ماجہ)
’’ جس قوم میں فحاشی اعلانیہ ہونے لگے تو اس میں طاعون اور ایسی ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان سے پہلے لوگوں میں نہ تھیں ۔‘‘
اس حدیث میں واضح طور پر فحاشی کے عام ہونے کے ساتھ وعید سنائی گئی ہے۔ میں اس نکتے کی مزید وضاحت کرتا ہوں، اور یہ ایسا اصول ہے کہ جسے چھوٹی سے چھوٹی چیز پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ (سورۃ النور: ۱۹)
’’ یاد رکھو کہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بےحیائی پھیلے، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘
بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں بارے ہے کہ جو ٹوہ لگاتے ہیں لوگوں کے گناہوں کی اور پھر معاشرے میں ان کی تشہیر کرتے ہیں۔ ’تمہیں پتا ہے کہ فلاں نے کیا کیا؟‘، ’جانتے ہو فلاں جگہ کیا ہوا؟‘، اور وہ ان خبروں کو پورے معاشرے میں یہ کہہ کہہ کر پھیلا دیتے ہیں۔ لوگوں کے گناہوں کی تشہیر بجائے خود فساد پھیلانے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ بالخصوص اخلاقی گناہ مثلاً زنا جیسی چیزوں کے بارے میں بہت زیادہ بات کرنا اور چھپی ہوئی باتوں کو عام کرنا معاشرے میں فساد پھیلانے کا باعث ہوتا ہے۔ گناہ کی جو بات لوگوں کے ذہنوں میں عام نہ ہوئی ہو اس کا تذکرہ نہیں کرنا چاہیے۔
قیامت کے دن حساب کتاب کا عمومی اصول یہ ہو گا کہ انسان فرداً فرداً اللہ رب العزت کے سامنے پیش ہوں گے، ﴿ وَكُلُّهُمْ اٰتِيْهِ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فَرْدًا﴾، تمام مخلوق، جن و انس اس کا مشاہدہ کر رہے ہوں گے اور اللہ رب العزت سب کے سامنے اس شخص سے دریافت فرمائیں گے کہ کیا تم نے یہ اور یہ گناہ کیا تھا، پس اس کے تمام گناہ ظاہر ہو جائیں گے۔
يَوْمَىِٕذٍ تُعْرَضُوْنَ لَا تَخْفٰى مِنْكُمْ خَافِيَةٌ (سورۃ الحاقۃ: ۱۸)
’’ اس دن تمہاری پیشی ہو گی، تمہاری کوئی مخفی سے مخفی بات بھی چھپی نہیں رہے گی۔‘‘
لیکن بعض لوگ ایسے ہوں گے کہ جنہیں اللہ رب العزت طلب فرمائیں گے اور نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت نیچے تشریف لائیں گے اور عین اس شخص کے کندھوں کے قریب اور پھر اس سے خفیہ طور پر اس کے گناہوں کی بابت دریافت فرمائیں گے اور اس گفتگو کا علم کسی دوسرے کو نہیں ہو سکے گا۔ اور پھر اللہ رب العزت اس شخص سے فرمائیں گے کہ میں نے تمہارے گناہوں کا دنیا میں بھی پردہ رکھا اور میں آج بھی تمہارے گناہوں کی پردہ پوشی کروں گا۔ اللہ رب العزت کی اس رحمت کو پانے کا ایک ذریعہ دوسروں کے گناہوں کی پردہ پوشی ہے۔ اور یہ ولا تجسسوا ہی کی تشریح ہے۔
اللہ رب العزت نے قرآن میں حکم دیا ہے کہ دوسروں کی ٹوہ نہ لگاؤ، ان کی جاسوسی نہ کرو۔ ہم میں سے ہر ایک کی ذات میں بہت کچھ ایسا ہے کہ جس کی ہمیں فکر کرنی چاہیے، پس یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم دوسروں کی زندگیوں میں جھانک جھانک کر وہ ڈھونڈیں کہ جس کی انہیں فکر ہے۔ البتہ جب آپ کسی گناہ کو اعلانیہ ہوتے دیکھیں تو پھر منکر کو روکنا آپ کی ذمہ داری بنتی ہے۔ علانیہ گناہ کو ہوتے دیکھ کر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم آپ پر لاگو ہوتا ہے۔ لیکن اسلام ٹوہ لگانے، کن سوئیاں لینے، تجسس کرنے، بلا ضرورت تفتیش و تحقیق کرنے کا نام نہیں ہے۔ اسلاف کی نصیحت ہے کہ انسان اپنے کام سے کام رکھے۔ ’آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لا یعنی باتوں میں نہ پڑے‘۔ اور پھر مذکورہ حدیث کے آخر میں نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں:
وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ (صحیح مسلم)
’’ اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے ۔‘‘
اور سلسلہ احادیث صحیحہ کی ایک حدیث میں ہے کہ:
’’اگر تم اپنی بھائی کی غیر موجودگی میں اس کی نصرت کرو گے تو اللہ رب العزت قیامت کے دن تمہاری نصرت فرمائیں گے۔‘‘
آپ چند لوگ کسی جگہ اکٹھے ہیں اور آپ میں سے کوئی ایک صالح بھائی وہاں موجود نہیں ہے۔ لوگ اس کی غیبت کرنے لگتے ہیں اور ایسے میں آپ اپنے اس بھائی کا دفاع کرتے ہیں جو اپنے دفاع کے لیے وہاں موجود نہیں ہے۔ جو شخص اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس کا دفاع کرے، اس کی مدد کرے تو اللہ قیامت کے دن اس کا دفاع فرمائیں گے، اس کی نصرت فرمائیں گے اور اس وقت اس کی مدد فرمائیں گے جب اسے ضرورت ہو گی۔
ہمارے ایسے بھائی یا ہمارے علماء جن کے تقویٰ کے بارے میں ہم یقین رکھتے ہوں، جب ان کی غیبت کی جائے یا ان کو برا بھلا کہا جائے تو ہمیں ضرور ان کا دفاع کرنا چاہیے مگر اس دفاع کو تعصب نہیں بننا چاہیے۔ کسی شخص کا دفاع محض اس کی شخصی حیثیت کی وجہ سے نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس وجہ سے ہونا چاہیے کہ وہ حق پر ہے۔ اگر کوئی شخص محض ان لوگوں کا دفاع کرتا ہے جن کی رائے سے وہ اتفاق رکھتا ہے، جو اس کی جماعت کے ہیں، چاہے وہ حق پر ہوں یا غلط ہوں، وہ محض ان کے اپنے آپ یا اپنی جماعت سے منسوب ہونے کی وجہ سے ان کا دفاع کرتا ہے تو یہ تعصب ہے۔ دفاع ہر اس شخص کا کیا جانا چاہیے جو خواہ کسی اور گروہ اور کسی اور جماعت سے تعلق رکھتا ہو مگر آپ کو اس کے تقوی کا اس کی صالحیت کا یقین ہو۔ اور یہی بات نبی کریم ﷺ نے ذیل کی حدیث میں فرمائی ہے:
انْصُرْ أَخَاکَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا (صحیح بخاری)
’’ تم اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ۔‘‘
یہ اسلام سے قبل، عربوں کے جاہلی دور کا اصول تھا کہ اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ درست رستے پر ہو یا غلط۔ اگر میرے قبیلے کے کسی آدمی نے کوئی غلط کام کیا ہے تو میں پھر بھی اس کی مدد کروں گا کیونکہ وہ میرا اپنا ہے۔ اگر اس نے کوئی قتل کیا ہے اور دوسرے قبیلے کے لوگ اس کو قتل کرنے آئیں تو میں آنے والوں سے اپنے بھائی کے لیے قتال کروں گا ۔
صحابہ نے جب نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک سے یہ بات سنی تو حیران رہ گئے کیونکہ یہ تو دور جاہلیت کے تعصب کی باتیں تھیں اور نبی کریم ﷺ کیونکر اس جاہلی تعصب کو پسند فرما سکتے ہیں۔
آپ ﷺ نے یہی بات بیان فرمائی مگر اس کا دوسرا مفہوم لیا۔ یعنی جب تمہارا بھائی مظلوم ہو تو تم اس پر ظلم کرنے والے کا ہاتھ روکو اور اسے بتاؤ کہ وہ غلط کر رہا ہے اور اپنے بھائی سے اس تکلیف کو دور کر کے اس کی مدد کرو۔ اور اگر تمہارا بھائی ظالم ہو تو تم اس کا ہاتھ روک کر اس کی مدد کرو۔ پس جاہلی دور کی ایک کہاوت یا اصول کو اسلام نے نیا معنی دے دیا۔
عدل و انصاف
ہم نے امام عادل اور ان کے عدل کا ذکر کیا۔ مگر عدل کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو صرف حکمران ہی کر سکتا ہے۔ بلکہ عدل ایسی چیز ہے کہ جو ہم سب کو عمل میں لانی چاہیے کیونکہ ہم میں سے ہر شخص ہی کسی نہ کسی درجے میں مسئول ہوتا ہے لہٰذا اسے اپنی مسئولیت میں عدل و انصاف کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ ہم نے ذکر کیا تھا کہ عدل ہی اس کائنات کا اصول ہے اور اسی پر زمین و آسمان قائم ہیں۔ اور جب بھی عدل و انصاف کا پلڑا غیر متوازن ہو گا تب بالیقین سب کچھ غلط ہونا شروع ہو جائے گا۔ اور عدل کا اجر بہت زیادہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الْمُقْسِطِينَ عِنْدَ اللَّهِ عَلَی مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ عَنْ يَمِينِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ وَکِلْتَا يَدَيْهِ يَمِينٌ الَّذِينَ يَعْدِلُونَ فِي حُکْمِهِمْ وَأَهْلِيهِمْ وَمَا وَلُوا (صحیح مسلم)
’’ انصاف کرنے والے رحمن کے دائیں جانب اور اللہ کے نزدیک نور کے منبروں پر ہوں گے اور اللہ کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں یہ وہی لوگ ہوں گے جو اپنے فیصلوں، اپنے اہل و عیال اور جن کے یہ ذمہ دار ہیں ان کے معاملے میں عدل کرتے ہیں ۔‘‘
جو بھی فیصلہ کرنے کے مقام پر ہو، خواہ وہ قاضی ہو، ثالث ہو یا کسی بھی معاملے میں اسے حکم بنایا جائے اور وہ اس میں انصاف سے کام لے تو قیامت کے دن وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ اس کے دائیں ہاتھ ہو گا۔ اور یہی اجر ان کے لیے بھی ہے جو اپنی اہل و عیال اور اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں انصاف سے کام لیتے ہیں۔
ہم انصاف کا خوب ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، اس کی اہمیت بھی جانتے ہیں مگر ممکن ہے کہ ہم خود کبھی کسی ایسی صورت حال کا سامنا کریں کہ جس میں ہم سے انصاف کی توقع ہو تو ہم بے انصافی کر جائیں۔
سب سے زیادہ بے انصافی اہل و عیال کے مابین ہوتی ہے۔ بچوں کے معاملات میں، بیوی کے ساتھ سلوک میں، چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ رویے میں، یہ وہ دائرہ ہے کہ جس میں بہت زیادہ بے انصافی کی جاتی ہے۔ لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح انصاف کا اجر بہت زیادہ ہے اسی طرح بے انصافی کا وبال بھی بہت زیادہ ہے۔ اس لیے کہ ہم جانتے ہیں کہ شدید ترین سزاؤں میں سے ظلم کی سزا بھی ہے۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اس کے اور مظلوم کی بد دعا کے بیچ کوئی چیز حائل نہیں ہے، خواہ وہ مظلوم کافر ہی کیوں نہ ہو۔ نبی کریم ﷺ نے بالخصوص بیان فرمایا کہ مظلوم کی بد دعا اور اللہ رب العزت کے بیچ کوئی چیز حائل نہیں ہو سکتی، وہ دعا ضرور اللہ پاک قبول فرمائیں گے خواہ وہ بد دعا کرنے والا مظلوم کافر ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ رب العزت مظلوم کی دعا ضرور سنیں گے۔ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ ہم میں سے ہر ایک کا ذمہ داری یا مسئولیت کا ایک مخصوص دائرہ ضرور ہوتا ہے۔ اور جب اس دائرے میں انسان کو اختیار حاصل ہوتا ہے تو اس اختیار کا غلط استعمال بہت مرغوب نظر آتا ہے۔ جس کے پاس جس قدر اختیار ہوتا ہے اتنا ہی اس کو اس کے استحصال سے رغبت ہوتی ہے۔ بالخصوص جب کسی مخالفت کی توقع بھی نہ ہو۔ لہٰذا بچے اور کمزور ظلم کرنے والے کے لیے آسان شکار ہوتے ہیں۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی ظلم غیر ملحوظ نہیں رہے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ضرور بالضرور ظالم سے اس کے ظلم کا حساب لیں گے اور اسے اپنے ظلم کی قیمت چکانی پڑے گی۔ اور اللہ رب العزت کسی بھی چیز کو نظر انداز نہ فرمائیں گے ورنہ تو یہ خود ہی بے انصافی ہو جائے گی۔ اللہ رب العزت کا ایک نام العدل ہے۔ اللہ رب العزت کا عدل اس قدر ہے کہ وہ جانوروں میں بھی قائم ہو گا اور انہیں بھی اپنا معاملہ درست کرنا پڑے گا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر عمل کا قصاص ہو گا حتی کہ بکریوں کے مابین بھی۔ حدیث میں آتا ہے کہ اگر دنیا میں سینگوں والی بکری نے بغیر سینگوں والی بکری پر ظلم کیا ہو گا تو اللہ رب العزت قیامت کے دن بغیر سینگوں والی بکری کو بدلہ دلوائیں گے۔ لہٰذا ہمیں اپنے خاندانوں میں، اپنے اہل و عیال میں اور اپنے دائرہ کار میں ضرور عدل و انصاف سے کام لینا چاہیے۔
الشہداء والمرابطون
شہداء تو وہ ہیں جنہوں نے فی سبیل اللہ اپنی جانیں قربان کیں۔ جبکہ رباط کا لفظ رَبَطَ سے نکلا ہے اور اس کا معنی ہے کسی چیز کو باندھنا۔ رباط وہ جگہ ہے جہاں کوئی چیز باندھی جاتی ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ یہ وہ فوجی چوکی ہے جو اس مقام پر بندھے ہوئے دشمن کا انتظار کر رہی ہے یا اس علاقے کی حفاظت کر رہی ہے۔ پس فوج کا مرکز یا مستقر رباط کہلاتا ہے۔ جس وقت جنگ نہ ہو رہی ہو مگر فوج کسی علاقے کی حفاظت کے لیے وہاں متعین ہو یا متوقع دشمن کی آمد کی منتظر ہو تو یہ رباط کہلاتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ شہید کے بعض منفرد فضائل ہیں: ایک یہ کہ خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی اللہ رب العزت اس کے تمام گناہ معاف فرما دیں گے۔ یہ پہلا اعزاز ہے۔ دوسرا یہ کہ شہید جنت میں اپنا مقام دیکھ لے گا۔ تیسرا یہ کہ شہید عذاب قبر سے بچا لیا جائے گا۔ اور وہ الفزع الاکبر، سب سے خوف ناک دن کی دہشت سے محفوظ رہے گا۔ اور فی الوقت ہم انہی لوگوں کی بات کررہے ہیں جو اس دہشت ناک دن خوف سے امن دیے جائیں گے۔ اللہ رب العزت نے یوم قیامت کو الفزع الاکبر، سب سے دہشت ناک دن قرار دیا ہے، کیوں؟ کیونکہ اس روز ہر ایک اپنے عمل کا حساب دے گا۔ اپنے گناہوں سے ہر ایک ڈرے گا کیونکہ اس دن اس کی سزا متعین کی جائے گی اور اس کا ہر عمل ہر ایک کے سامنے ظاہر ہو جائے گا۔ اور اس دن اللہ رب العزت شہید کو اس خوف سے مامون کر دیں گے۔ کیوں؟ کیونکہ شہید کے تو سارے گناہ پہلے ہی معاف ہو چکے ہیں لہٰذا اللہ رب العزت قیامت کے دن اسے اطمینان اور سکون عطا فرمائیں گے۔ پانچواں یہ کہ اللہ رب العزت اس کے سر پر وقار کا تاج رکھیں گے جو انہیں مخلوق میں ایک معزز مقام عطا کرے گا اور اس تاج کا ایک ہیرا دنیا و مافیہا سے زیادہ قیمتی ہے۔ اور جنت کی بہتّر حوروں سے اس کا نکاح کیا جائے گا اور ساتواں یہ کہ وہ اپنے اقربا میں سے ستّر افراد کی شفاعت کر سکیں گے۔
شفاعت کا معنی یہ ہے کہ کسی شخص کے لیے کوئی سزا متعین کر دی گئی ہو گی مگر پھر وہ شخص جسے اللہ رب العزت شفاعت کا اختیار دیں گے اس شخص کی شفاعت کرے گا اور اس کی سزا کی معافی کی سفارش کرے گا۔ شہید کو اللہ رب العزت ستّر افراد کی شفاعت کی اجازت مرحمت فرمائیں گے۔
پس شہادت اللہ رب العزت کی رحمت ہے، یہ ضیاع نہیں ہے، نقصان نہیں ہے، خسارہ نہیں ہے۔ اللہ کے رستے میں کسی کا شہید ہو جانا رحمت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ ﴿وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاۗءَ﴾ ۔ اللہ شہید کو چھانٹ لیتے ہیں، منتخب فرماتے ہیں، ایسا نہیں ہے جو چاہے وہ اس رحمت سے مستفید ہو جائے، بلکہ یہ اللہ رب العزت کا انتخاب ہوتا ہے کہ کس کو اس بلند مقام سے نوازنا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے رباط سے متعلق فرمایا کہ ایک دن کا رباط ایک سال کے روزوں سے بہتر ہے۔ نیز آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی بھی مرابط فی سبیل اللہ ہوتے ہوئے مرا تو وہ الفزع الاکبر کے دن خوف سے بچا لیا جائے گا۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو رباط کی حالت میں طبعی موت سے مر جائیں۔ یعنی الفزع الاکبر کی وحشت سے صرف وہ مامون نہیں رہیں گے جو رباط کی حالت میں دشمنوں کے ہاتھوں قتل کیے جائیں، بلکہ وہ بھی اس اعزاز کے حق دار ہوں گے جو حالت رباط میں وفات پا گئے۔ نیز نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ان کی قبروں میں اللہ رب العزت ان کے لیے رزق اور جنت کی ہوائیں عطا فرمائیں گے اور وہ قیامت کے دن تک اپنے رباط کے اس عمل کا اجر پاتے رہیں گے۔ یعنی ان کی وفات یا شہادت سے ان کا عمل تو رک جائے گا مگر ان کا اجر منقطع نہیں ہو گا بلکہ قیامت کے دن تک اس میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ نیز نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يُکْلَمُ أَحَدٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَنْ يُکْلَمُ فِي سَبِيلِهِ إِلَّا جَائَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَاللَّوْنُ لَوْنُ الدَّمِ وَالرِّيحُ رِيحُ الْمِسْکِ (صحیح بخاری)
’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو شخص بھی اللہ کے راستے میں زخمی ہوا اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ اس کے راستے میں کون زخمی ہوا ہے، وہ قیامت کے دن اس طرح سے آئے گا کہ اس کے زخموں سے خون بہہ رہا ہو گا، رنگ تو خون جیسا ہو گا لیکن اس میں خوشبو مشک جیسی ہو گی ۔‘‘
پس یہ وہ نشانی ہو گی جو قیامت کے دن انہیں ممیز کرے گی۔
اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ قَاتَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فُوَاقَ نَاقَةٍ فَقَدْ وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ (ابو داؤد)
’’ اگر کسی نے اونٹنی کو دوبارہ دوہنے کے وقفہ کے برابر بھی قتال کیا تو اس کے لیے جنت واجب ہے ۔ ‘‘
اونٹنی کا دودھ دوہنے میں چند منٹ ہی لگتے ہیں، اور اگر کوئی شخص محض اتنی سی دیر کے لیے بھی اللہ کے راستے میں لڑے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی۔
نیز فرمایا نبی کریم ﷺ نے:
وَمَنْ جُرِحَ جُرْحًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ نُکِبَ نَکْبَةً فَإِنَّهَا تَجِيئُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ کَأَغْزَرِ مَا کَانَتْ لَوْنُهَا لَوْنُ الزَّعْفَرَانِ وَرِيحُهَا رِيحُ الْمِسْکِ (ابو داؤد)
’’ اور جو اللہ کے راستہ میں لڑتا ہوا زخمی ہو جائے یا کسی اور وجہ سے زخمی ہو جائے تو وہ زخم قیامت کے دن اللہ کے حضور پیش ہو گا اس حال میں کہ اس کا رنگ زعفران جیسا ہو گا اور مشک خوشبو جیسی ہو گی ۔‘‘
یہ چند احادیث تھیں قیامت کے دن مجاہدین، شہداء اور مرابطین کے احوال کے حوالے سے۔
الکاظمون الغیظ
اب ان لوگوں کا ذکر ہے جو اپنا غصہ پی جاتے ہیں۔ غصہ انسان کے دل کے اندر ایک بہت شدید احساس کا نام ہے۔ اور انسان اس غصے کو نہ نکالے تو یہ بہت تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کا خون کھول رہا ہے اور انسان کی جسمانی اور عضویاتی حالت تبدیل ہو جاتی ہے اور یہ بہت ہی قوی احساس ہے بالخصوص تب جب انسان بہت شدید غصے میں ہو۔ غصہ کی وجہ سے انسان نا معقول حرکات کرتا ہے اور مشتعل ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس قابل ہو کہ وہ اپنے غصے پر قابو پائے اور اسے دبا لے، تو غصے کا احساس تو موجود رہے گا مگر وہ اس پر قابو پائے اور اسے پی جائے اور اسے نافذ نہ کرے تو ایسے شخص کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ کَظَمَ غَيْظًا وَهُوَ قَادِرٌ عَلَی أَنْ يُنْفِذَهُ دَعَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَی رُئُوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّی يُخَيِّرَهُ اللَّهُ مِنْ الْحُورِ الْعِينِ مَا شَائَ (ابو داؤد)
’’ جو شخص غصہ پی جائے جبکہ وہ اس پر عمل درآمد کی قدرت رکھتا ہو تو اللہ اسے قیامت کے دن بر سر مخلوق بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ جنت کی حورعین میں سے جسے چاہے منتخب کر لے۔‘‘
بعض مرتبہ انسان غصے کو نافذ کرنے کی حالت میں نہیں ہوتا، جب وہ کمزور ہوتا ہے اور جب وہ اپنے غصے کا اظہار نہ کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ مگر یہ حدیث ان کو مخاطب ہے جن کے پاس قوت و اختیار ہو اور وہ اپنے غصے کو نافذ کر سکتے ہوں، انتقام لے سکتے ہوں اور پھر بھی غصہ پی جائیں۔ اللہ رب العزت قیامت کے دن ایسے شخص کو تمام مخلوق کے سامنے بلائیں گے، اس کا نام لے کر پکاریں گے اور پھر اسے اختیار دیں گے کہ جس حور کو چاہے پسند کر لے۔ یہ صرف ایک مرتبہ غصہ دبانے کا اجر ہے۔ مشقت کے بقدر ہی اجر ہوتا ہے۔ بعض مرتبہ غصہ دبانا حقیقتاً بہت مشکل ہو جاتا ہے بالخصوص تب جب کہ ایک شخص کا مزاج ہی غصیلا ہو اور اسے جلد غصہ آ جاتا ہو اور حالات و واقعات اس کے غصے کو بھڑکا دیں اور وہ بھرپور طریقے سے اپنا غصہ نکالنے پر قادر ہو لیکن پھر بھی وہ غصہ پی جائے تو اس کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ اور اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں متقین کی درج ذیل صفات بیان فرمائی ہیں:
الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ فِي السَّرَّاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ ۭ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ ﴾ (سورۃ آل عمران: ۱۳۴)
’’ یہ وہ لوگ ہیں جو فراغت اور تنگی (دونوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘
متقین کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے غصے کو دبا لیتے ہیں۔ متقی وہ ہوتا ہے کہ اللہ کی نگرانی کا احساس جس کو مستحضر رہے۔ غصہ ور، مشتعل اور درشت گو مومن نہیں ہوتا۔نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کی ایسی تربیت فرمائی تھی کہ وہ معاف کرنے والے تھے۔ وہ لوگوں کو معاف کر دیا کرتے تھے۔ وہ حق کے لیے لڑتے تھے مگر جہاں وہ انتقام پر قادر ہوتے وہ معاف کر دیتے تھے اور یہ بہت بڑا وصف ہے۔ گو اسلام آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت کے قانون کے ذریعے بدلے کا حق دیتا ہے مگر پھر اس سے بلند مرتبہ معاف کر دینے کا ہے۔ اپنا حق لینا اسلام میں جائز ہے مگر معاف کر دینا مستحب اور مستحسن ہے اور یہ اختیاری ہے۔ اگر کوئی شخص معاف کرتا ہے تو پھر اس کے لیے بڑا اجر ہے۔ عدالت میں جا کر کسی کو معاف کرنے پر مجبور کرنا کسی طور صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ اختیاری چیز ہے اور انصاف کہتا ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک۔
فضل المؤذنین (اذان دینے والے کا اجر)
مسلم شریف کی ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
الْمُؤَذِّنُونَ أَطْوَلُ النَّاسِ أَعْنَاقًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ
’’ قیامت کے دن مؤذن، لوگوں میں سب سے زیادہ لمبی گردنوں والے ہوں گے۔‘‘
یہ اس لیے ہو گا تاکہ وہ سب سے طویل القامت اور علیحدہ دکھائی دیں اور یہ ان کا اجر ہے۔ اذان نماز کی پکار ہے لہٰذا اس کا اجر بہت زیاد ہ ہے۔
ایک اور حدیث جو نبی کریم ﷺ نے عبدالرحمان بن صعصعہ سے بیان فرمائی، یہ ایک بدوی صحابی تھے اور وہ چرواہے تھے۔ یہ حدیث بخاری شریف میں منقول ہے:
إِنِّي أَرَاکَ تُحِبُّ الْغَنَمَ وَالْبَادِيَةَ فَإِذَا کُنْتَ فِي غَنَمِکَ أَوْ بَادِيَتِکَ فَأَذَّنْتَ بِالصَّلَاةِ فَارْفَعْ صَوْتَکَ بِالنِّدَائِ فَإِنَّهُ لَا يَسْمَعُ مَدَی صَوْتِ الْمُؤَذِّنِ جِنٌّ وَلَا إِنْسٌ وَلَا شَيْئٌ إِلَّا شَهِدَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
’’میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں بکریوں اور جنگل میں رہنا پسند ہے، اس لیے تم جب اپنی بکریوں کے ہمراہ جنگل میں رہو اور نماز کے لیے اذان دو تو بلند آواز سے اذان دیا کرو، اس لیے کہ مؤذن کی آواز کو جو کوئی جن و انس یا اور کوئی سنے گا تو وہ اس کے لیے قیامت کے دن گواہی دے گا۔‘‘
وہ لوگ کہ جن کے بال اسلام میں سفید ہوئے
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ شَابَ شَيْبَةً فِي الْإِسْلَامِ کَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ (جامع ترمذی)
’’ جو اسلام میں بوڑھا ہو جائے، تو قیامت کے دن یہ اس کے لیے نور بن کر آئے گا ۔‘‘
بعض مرتبہ ہمیں اپنے بالوں کا سفید ہو جانا اچھا نہیں لگتا کیونکہ یہ بڑھتی عمر کی نشانی ہے مگر نبی کریم ﷺ نے اسے مومن کے لیے اعزاز کا باعث بتایا۔ نیز فرمایا:
لا تنتفوا الشيب فإنه نور المسلم من شاب شيبة في الإسلام كتب الله له بها حسنة وكفر عنه بها خطيئة ورفعه بها درجة (مشکوۃ)
’’ سفید بالوں کو نہ چنو کیونکہ بڑھاپا (یعنی بالوں کا سفید ہونا) مسلمانوں کے لیے نورانیت کا سبب ہے، جو شخص حالت اسلام میں بڑھاپے کی طرف قدم بڑھاتا ہے یعنی جب کسی مسلمان کا ایک بال سفید ہوتا ہے تو اس کی وجہ ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور اس کی ایک خطا کو محو کر دیتا ہے اور اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے ۔‘‘
بعض مرتبہ لوگ سفید بالوں کو نکال دیتے ہیں بالخصوص جب جو جوانی میں ظاہر ہونے لگیں۔ آپ ﷺ نے انہیں نکالنے سے منع فرمایا کیونکہ یہ قیامت کے دن نور ہوں گے اور اللہ رب العزت ہر سفید بال کے بدلے اجر عطا فرمائیں گے۔
وضو کرنے والے
إِنَّ أُمَّتِي يُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ غُرًّا مُحَجَّلِينَ مِنْ آثَارِ الْوُضُوئِ فَمَنْ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ يُطِيلَ غُرَّتَهُ فَلْيَفْعَلْ(صحیح بخاری)
’’ میری امت کے لوگ قیامت کے دن بلائے جائیں گے جبکہ وضو کے نشانات کی وجہ سے ان کی پیشانیاں اور ہاتھ پاؤں چمکتے ہوں گے۔ اب جو کوئی تم میں سے اپنی چمک بڑھانا چاہے تو اسے بڑھائے۔ ‘‘
غر اور تحجیل گھوڑوں کے اوپر دو نشانا ت ہوتے ہیں۔ غر گھوڑے کے ماتھے پر اور محجلین گھوڑے کے پاؤں پر موجود نشان کو کہتے ہیں۔ عرب ان نشانات کو گھوڑوں کی خوبصورتی کی علامت سمجھتے تھے۔ ان الفاظ کا لغوی معنی خوبصورتی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور قیامت کے دن یہ خوبصورتی وضو کے ذریعے ملے گی۔
ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ جہاں تک وضو کا پانی پہنچتا ہے اللہ رب العزت مومن کے ان اعضا کو قیامت کے دن زیور پہنائیں گے۔
ایک اور حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ قبرستان تشریف لے گئے اور فرمایا:
السَّلَامُ عَلَيْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللَّهُ بِکُمْ لَاحِقُونَ وَدِدْتُ أَنَّا قَدْ رَأَيْنَا إِخْوَانَنَا (صحیح مسلم)
’’ سلامتی ہو تم پر مومنوں کے گھر، ہم بھی انشاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں میں پسند کرتا ہوں کہ ہم اپنے دینی بھائیوں کو دیکھیں ۔‘‘
صحابہ حیران ہوئے اور کہا کہ کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم تو میرے صحابی ہو، میرے ساتھی ہو، میرے بھائی تو وہ ہیں جو ابھی نہیں آئے۔ یعنی باقی وہ ساری امت جن کو نبی کریم ﷺ نے نہیں دیکھا،ہم ان شاء اللہ نبی کریم ﷺ کے بھائی ہیں۔ پھر صحابہ نے دریافت کیا:
کَيْفَ تَعْرِفُ مَنْ لَمْ يَأْتِ بَعْدُ مِنْ أُمَّتِکَ يَا رَسُولَ اللَّهِ
’’ آپ ﷺ اپنی امت کے ان لوگوں کو اے اللہ کے رسول ! کیسے پہچانیں گے جو ابھی تک نہیں آئے ؟ ‘‘
آپ نے فرمایا:
أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا لَهُ خَيْلٌ غُرٌّ مُحَجَّلَةٌ بَيْنَ ظَهْرَيْ خَيْلٍ دُهْمٍ بُهْمٍ أَلَا يَعْرِفُ خَيْلَهُ قَالُوا بَلَی يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَإِنَّهُمْ يَأْتُونَ غُرًّا مُحَجَّلِينَ مِنْ الْوُضُوئِ وَأَنَا فَرَطُهُمْ عَلَی الْحَوْضِ
’’ بھلا تم دیکھو اگر کسی شخص کی سفید پیشانی والے سفید پاؤں والے گھوڑے سیاہ گھوڑوں میں مل جائیں تو کیا وہ اپنے گھوڑوں کو ان میں سے پہچان نہ لے گا صحابہ کرام نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺنے فرمایا کہ وہ لوگ جب آئیں گے تو وضو کے اثر کی وجہ سے ان کے چہرے ہاتھ اور پاؤں چمکدار اور روشن ہوں گے اور میں ان سے پہلے حوض پر موجود ہوں گا ۔‘‘
ہم اللہ رب العزت سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں نبی کریم ﷺ کے ساتھ حوض کوثر پر اکٹھا فرمائے۔
وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی صحبہ وسلم
٭٭٭٭٭