نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home آخرت

موت وما بعد الموت | بائیسواں درس

قیامت کے دن متقین صالحین کے احوال

انور العولقی by انور العولقی
25 مئی 2025
in آخرت, اپریل و مئی 2025
0

قیامت کے دن متقین صالحین کے احوال

آج ہم حال الاتقیاء، یعنی قیامت کے دن محفوظ و مامون رہنے والے متقین کے احوال کے حوالے سے بات کریں گے کہ وہ کون لوگ ہیں؟ ہم ان لوگوں سے شروع کریں گے جن کا ذکر اللہ رب العزت نے قرآن میں فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں:

﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓى ۙ اُولٰۗىِٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ؀ ۙ لَا يَسْمَعُوْنَ حَسِيْسَهَا ۚ وَهُمْ فِيْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَ ؀ ۚ لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَتَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ۭ ھٰذَا يَوْمُكُمُ الَّذِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ﴾ (سورۃ الانبیاء: ۱۰۱ تا ۱۰۳)

’’(البتہ) جن لوگوں کے لیے ہماری طرف سے بھلائی پہلے سے لکھی جاچکی ہے، (یعنی نیک مومن) ان کو اس جہنم سے دور رکھا جائے گا۔ وہ اس کی سرسراہٹ بھی نہیں سنیں گے، اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اپنی من پسند چیزوں کے درمیان رہیں گے۔ ان کو وہ (قیامت کی) سب سے بڑی پریشانی غمگین نہیں کرے گی، اور فرشتے ان کا ( یہ کہہ کر) استقبال کریں گے ( کہ) یہ تمہارا وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔‘‘

الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ

الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ سب سے بڑے خوف، دہشت اور پریشانی کا نام ہے۔ اور یہ یومِ قیامت کا نام ہے کیونکہ یوم حشر کے دن سے بڑا دہشت ناک دن کوئی نہ ہو گا۔ اللہ رب العزت ان لوگوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ عظیم خوف انہیں پریشان نہیں کرے گا۔ اس دن وہ غمگین، پریشان، نادم اور حزین نہیں ہوں گے بلکہ وہ اس دن محفوظ و مامون ہوں گے۔ کیوں؟ ایک ایسے وقت میں کہ جب لوگ دہشت زدہ ہوں گے، خوفزدہ ہوں گے، گھبرائے ہوئے ہوں گے اس وقت یہ لوگ کیونکر محفوظ و مامون ہوں گے اور انہیں کوئی خوف اور غم لاحق نہیں ہو گا۔ اس کا جواب ہمیں قرآن و سنت سے ملتا ہے۔

  1. حشر کے دن سے ڈرنے والے

ان میں سے پہلی قسم کے لوگ وہ ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

﴿ اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِيْرًا﴾ (سورۃ الدھر: ۱۰)

’’ ہم تو ڈرتے ہیں اپنے رب کی طرف سے ایک ایسے دن سے جس کی اداسی بڑی ہولناک ہو گی۔‘‘

عبوس الوجہ یعنی یوم حشر ایسا دن ہو گا کہ جس دن چہروں پر غم چھایا ہوا ہو گا اور غم کے آثار چہروں پر واضح ہوں گے۔ ابن عباس ﷢ کہتے ہیں کہ قمطریرا کا معنی طویل ہے، کہ یہ دن بہت طویل ہو گا۔ اور قتادہ ﷫کہتے ہیں کہ اس کا معنی شدید ہے یعنی یہ بہت سخت دن ہو گا۔ پس یوم حشر نا صرف ایک طویل دن ہے بلکہ یہ تکالیف اور مشکلات سے بھرپور ہے اور یہ ایسا دن ہے کہ جس دن لوگوں کے چہروں پر غم و حزن اور مایوسی چھائی ہو گی۔

یہ متقین جب دنیا میں ہوں گے تو لوگوں سے کہتے ہوں گے کہ﴿ اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِيْرًا ﴾ ہم اس دن سے ڈرتے ہیں، یعنی وہ دنیا میں ہی اس دن کے خوف سے ڈرتے رہے اور یہی وجہ ہے کہ آخرت کے دن اللہ رب العزت نے انہیں اس خوف سے مامون کر دیا۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے:

قال الله عز وجل وعزتي وجلالي لا أجمع لعبدي أمنين ولا خوفين، إن هو آمنني في الدنيا أخفته يوم أجمع عبادي، وإن هو خافني في الدنيا آمنته يوم أجمع عبادي. (کنز العمال)

’’ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم ! میں اپنے بندے کے لیے دو خوف اور دو امن جمع نہیں کروں گا۔ اگر وہ دنیا میں مجھ سے بے خوف رہا تو میں اسے اس دن ڈراؤں گا جس میں میں بندوں کو جمع کروں گا اور اگر وہ دنیا میں مجھ سے ڈرا تو میں اسے اس دن بے خوف کر دوں گا جس دن بندوں کو جمع کروں گا ۔‘‘

لہٰذا اگر کوئی دنیا میں رہتے ہوئے یوم قیامت کا خوف نہیں رکھتا ہو گا تو آخرت کے دن اسے ڈرنا ہو گا اور اگر کوئی دنیا میں آخرت کے دن سے ڈرتا رہے تو وہ قیامت کے دن محفوظ و مامون ہو گا۔ اور ظاہر ہے کہ یہ بہت بہتر ہے کہ انسان دنیا میں ڈرتا رہے۔ اگر کسی نے کوئی گناہ کیا ہے تو دنیا میں توبہ کر کے اسے دھو لینا بہت آسان ہے بنسبت آخرت میں اس سے پاک ہونے کے، کیونکہ آخرت میں گناہوں کی پاکی کے گیارہ سے زیادہ طریقے ہیں۔ مختصراً یہ کہ اگر کسی نے گناہ کیا ہو تو اللہ رب العزت اس کے گناہ کو دنیا میں اس پر گزرنے والی تکالیف کے ذریعے دھو دیں گے مثلاً بیماری، مسائل، حادثات، معاشی پریشانیاں، ان سب کے ذریعے انسان کے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ اگر یہ کافی نہ ہوں گناہوں کی معافی کے لیے تو پھر سکرات الموت کی سختی بعض گناہوں کی معافی کا سبب بنتی ہے۔ اگر اس کے ذریعے بھی انسان گناہوں سے پاک نہ ہو سکے تو پھر قبر میں سزا دی جائے گی اور اس وقت تک یہ زیادہ شدید اور زیادہ مشکل ہو چکی ہو گی۔ یہ بھی کافی نہ ہوا تو قیامت کے دن کی ہولناکی اور اس سے بھی سارے گناہ معاف نہ ہوئے تو گناہوں کے بقدر جہنم کی آگ، کیونکہ گناہوں کا دھلنا ضروری ہے ورنہ اللہ رب العزت کسی ایسے شخص کو جنت میں داخل نہ فرمائیں گے جو گناہوں سے مکمل طور پر پاک نہ ہوا ہو۔ جنت میں کوئی آلودگی بھی قابل قبول نہ ہو گی لہٰذا انسان کو جنت میں داخلے کے لیے گناہوں سے پاک ہونا ہو گا۔ انسان کو پاکی کے اس پورے عمل کے ذریعے اپنے اعمال کی قیمت چکانی ہو گی۔ دنیا میں اپنے گناہ معاف کروانا بہت آسان ہے کیونکہ انسان کو اس کے لیے کچھ بھی نہیں کرنا پڑے گا سوائے توبہ کے۔ اور دنیا میں جو تکلیف بھی انسان اٹھائے گا وہ آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہو گی جیسا کہ اللہ رب العزت نے فرمایا:

﴿فَمَآ اَصْبَرَھُمْ عَلَي النَّارِ ﴾ (سورۃ البقرۃ: ۱۷۵)

’’ چنانچہ (اندازہ کرو کہ) یہ دوزخ کی آگ سہنے کے لیے کتنے تیار ہیں ۔‘‘

کوئی بھی جہنم کی تکلیف اور اذیت برداشت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ لہٰذا جتنی جلدی انسان اپنے گناہوں سے خلاصی حاصل کر لے اتنا ہی بہتر ہے اور دنیا میں یہ بہت آسان ہے۔ وہ لوگ جن کے لیے اللہ رب العزت نے خیر اور بھلائی کا وعدہ کیا ہے انہوں نے آخرت کے دن کا خوف دنیا ہی میں محسوس کیا، وہ دنیا میں اس سے ڈرے تو آخرت کے دن اللہ رب العزت انہیں امن عطا فرمائیں گے۔

میرا مشاہدہ یہ ہے کہ آخرت کے بارے میں ہمیں بہت کم آگاہی حاصل ہے۔ ہم اس سے بے پروا ہیں اور ہماری اس طرف بالکل توجہ نہیں ہے۔ سبحان اللہ! مجھے لگتا ہے کہ آخرت کا معاملہ جتنا صحابہ پر اثر کرتا تھا اس کا ایک فیصد بھی ہم پر اثر نہیں کرتا۔ وہ حقیقتا ً آخرت کا خوف رکھتے تھے۔ جب بھی نبی کریم ﷺ آخرت کا ذکر فرماتے تو صحابہ کرام ﷢رو پڑتے اور اللہ رب العزت سے ملاقات کا دن ہمیشہ ان کے دلوں اور ذہنوں میں مستحضر رہتا۔

حضرت عمر بن عبد العزیز، ان کے ہاتھ میں وہ سب کچھ تھا کہ جس کی تمنا دنیا کر سکتی ہے۔ وہ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت، اور دنیا کی اس وقت واحد سپر پاور خلافت اسلامیہ کے سربراہ تھے، خلیفہ تھے اور وہ جس چیز کے چاہتے مالک بن سکتے تھے۔ ان کی اہلیہ فاطمہ بنت عبد الملک فرماتی ہیں کہ ایک روز وہ سونے کے لیے بستر پر تشریف لائے اور وہ سونا چاہتے تھے مگر اچانک وہ اپنے بستر میں کانپنا شروع ہو گئے اور اٹھ بیٹھے اور پھر صبح تک روتے رہے اور نہیں سو سکے۔ کہتی ہیں کہ میں نے ان کے رونے کی وجہ دریافت کی تو فرمایا: ’مجھے اس دن کی یاد نے تڑپا دیا کہ جس دن مجھے بتایا جائے گا کہ یا جنت میں چلے جاؤ اور یا جہنم میں چلے جاؤ‘۔ اس دن کی یاد نے انہیں رلا دیا اور سونے نہیں دیا کہ جو فیصلے کا دن ہو گا اور جس دن ان کی ابدی قسمت کا فیصلہ ہو گا کہ انہوں نے جنت میں جانا ہے یا جہنم میں۔ صحابہ اور سلف صالحین کا خوف آخرت بجائے خود بھی ایک عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی سزا کا خوف خود ایک عبادت ہے۔ ابن قیم ﷫ فرماتے ہیں کہ ہمارے دو پنکھ ہونے چاہییں: رجا یعنی امید کا اور دوسرا خوف کا۔ جہاں ایک طرف ہمیں اللہ کی رحمت اور مغفرت سے پر امید رہنا چاہیے وہیں دوسری طرف یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ رب العزت کی سزا بہت شدید ہے۔ اگر ایک پنکھ دوسرے سے آگے بڑھ جائے یا دوسرے کا راستہ کاٹنے لگے تو پرندہ کبھی اڑ ہی نہیں سکے گا۔ اگر امید کا پہلو حاوی ہوجائے تو انسان نیک اعمال میں ٹال مٹول کرنے لگے گا اور یہی سوچتا رہے گا کہ اللہ تو غفور ہے رحیم ہے وہ میرے تمام گناہ معاف فرما دے گا اور یوں نیکیوں کے معاملے میں سست پڑتا جائے گا۔ یہ غیر متوازن رویہ ہے۔ اسی طرح اگر خوف زیادہ حاوی ہو جائے تو وہ انسان کو مایوسی کی طرف لے جاتا ہے کہ اللہ رب العزت کا عذاب تو بہت شدید ہے، اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے لہٰذا مجھے کوئی امید ہی نہیں رکھنی چاہیے اپنے بچاؤ کی، اور یوں وہ عمل کا دروازہ اپنے اوپر بند کر دے گا۔ یہ بھی غیر متوازن رویہ ہے۔ یہ دونوں رویے دو انتہاؤں پر ہیں۔ ابن قیم ﷫ فرماتے ہیں کہ ہمیں ان میں توازن رکھنا ہو گا۔ ایک ہی وقت میں اللہ کی رحمت و مغفرت کی امید بھی ہو اور اللہ کی سزا کا اللہ کی پکڑ کا خوف بھی ہو۔ اور اللہ کے خوف میں یہ ترقی مجاہدے سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ ایک سعی مسلسل ہے کہ جب انسان اپنی آخرت کو مستحضر رکھتا ہے اسے یاد رکھتے ہوئے عمل کرتا ہے تو اللہ رب العزت کا خوف دل میں نشو ونما پاتا ہے۔

  1. عرش الہی کے سائے تلے جگہ پانے والے

الذین يُظِلُّهُمْ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ ، وہ لوگ کہ جنہیں اللہ رب العزت سایہ فراہم فرمائیں گے اس دن جب کہ اس کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا۔

یوم حشر پچاس ہزار برس طویل ہے۔ نہایت مشکل اور گرم دن۔ سورج جس دن سوا نیزے پر گا۔ اس روز کہیں کوئی سایہ دار چیز نہ ہو گی، نہ کوئی عمارت، نہ پہاڑ نہ درخت۔ زمین بالکل ہموار ہو گی اس دن اور اس میں کوئی اونچ نیچ اور ٹیڑھ نہ ہو گی اور نہ ہی کہیں کوئی سایہ ہو گا سوائے عرش الہی کے سائے کے۔ اور یہ سایہ مخصوص لوگوں کو میسر ہو گا۔ ایسا نہیں ہے کہ عرش کے سائے تلے کوئی بھی پناہ لے سکے گا بلکہ اس میں صرف وہی لوگ داخل کیے جائیں گے جن کے لیے اللہ رب العزت اجازت مرحمت فرمائیں گے۔ اور یہ کون لوگ ہوں گے جنہیں اللہ رب العزت عرش کے سائے تلے اکٹھا فرمائیں گے؟نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمْ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ الْإِمَامُ الْعَادِلُ وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ رَبِّهِ وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللَّهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ أَخْفَی حَتَّی لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ وَرَجُلٌ ذَکَرَ اللَّهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ (صحیح بخاری)

’’ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات قسم کے آدمیوں کو اپنے سایہ میں لے گا جس دن کہ اس کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا، امام عادل اور وہ جوان جس نے اپنی جوانی اللہ کی راہ میں صرف کی ہو اور وہ آدمی جس کا دل مسجد میں اٹکا ہوا ہے اور وہ دو آدمی جو آپس میں اللہ کے لیے محبت کریں، جب جمع ہوں تو اسی کے لیے اور جب جدا ہوں تو اسی کے لیے اور وہ جسے کوئی منصب و جمال والی عورت اپنی طرف بلائے اور وہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور وہ جو پوشیدگی سے اس طرح صدقہ کرے کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا دیا اور وہ شخص جس نے اللہ کو تنہائی میں یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔‘‘

  1. امامِ عادل

ان سات لوگوں میں سے پہلا امام عادل ہے۔ شرح صحیح مسلم میں النووی فرماتے ہیں کہ حدیث میں سب سے پہلے امام عادل کا ذکر کیا گیا۔ کیونکہ امام عادل کا نفع ہر ایک کو پہنچتا ہے۔ اور ہر ایک عادل حکمران کے انصاف سے مستفید ہوتا ہے۔ کیونکہ حکمران مسلمان رعایا کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے اور دنیا میں انسان کو امن فراہم کرنے والی سب سے بڑی چیز انصاف ہے۔ انصاف وہ سب سے بڑی چیز ہے جو لوگوں کو امن، سکون، راحت اور آرام دے سکتی ہے۔ ہم انصاف کی اہمیت کو ہیچ سمجھتے ہیں۔ ابن تیمیہ ﷫ فرماتے ہیں کہ آسمان و زمین عدل پر قائم ہیں۔ عدل و انصاف کی بدولت دنیا میں لوگوں کی زندگی خوش حال، صحت بخش، محفوظ اور مامون ہو سکتی ہے۔ جب حکمران عادل ہوتا ہے تو پور امعاشرہ پرامن ہو جاتا ہے اور اسی کی وجہ سے امام عادل کو اللہ رب العزت قیامت کے دن امن عطا فرمائیں گے۔ اس امام عادل نے دنیا میں لوگوں کی زندگیاں محفوظ و مامون بنائیں تو اللہ رب العزت قیامت کے دن اسے محفوظ و مامون رکھیں گے۔ مگر ہم اس صفت کو ہیچ سمجھتے ہیں۔ اس کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے ہم اس کے بارے میں مزید بات بھی کریں گے۔

  1. اللہ کی راہ میں جوانی لگانے والا

حدیث میں جس دوسرے شخص کا ذکر ہے وہ ایسا جوان ہے کہ جو اللہ کی عبادت میں بڑا ہوا۔ بعض مرتبہ جوانی میں لوگ اللہ کے دین کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہوتے اور اس کو ہلکا سمجھتے ہیں یا اس کا مذاق اڑاتے ہیں مگر جب ان کی عمر بڑھتی ہے تو ان کا اللہ کے دین سے تعلق بھی پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ یہ کوئی عمومی اصول نہیں ہے کہ نوجوان نسل ساری کی ساری دین سے بے پروا ہی ہو گی بلکہ بہت سے نوجوان دین کے معاملے میں سنجیدہ بھی ہوتے ہیں اور اللہ کا دین نوجوانوں کے کندھوں ہی پر مستحکم ہوتا ہے۔ نوجوان عموماً دین کے لیے غیر سنجیدہ ہوتے ہیں اور پختہ عمر کو پہنچنے کے بعد دین کو سنجیدگی سے لیتے ہیں، لیکن ایسا نوجوان جو اپنی جوانی میں بھی گمراہ نہ ہوا ہو اور راستے سے نہ بھٹکا ہو اللہ رب العزت اس کو آخرت کے دن اپنے عرش تلے سایہ فراہم فرمائیں گے۔ کیونکہ اس جوان نے استقامت دکھائی اور وہ شیطان کے بہکاوے میں نہیں آیا اور برائی کی جانب مائل نہیں ہوا ۔ پس اللہ رب العزت اس کی استقامت کا اجر اس کو قیامت کے دن اپنے عرش کا سایہ فراہم کر کے دیں گے۔

  1. جس کا دل مسجد میں اٹکا رہے

تیسرا وہ شخص ہے کہ جس کا دل اللہ کے گھروں یعنی مساجد میں اٹکا رہے۔ یہ وہ شخص ہے جو ہمیشہ مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص جہاں بھی جاتا ہے وہاں مساجد کے بارے میں دریافت کرتا ہے کہ مسجد کہاں ہے، میں نے مسجد جانا ہے۔ سفر کے دوران بھی ایسے لوگوں کو مسجد کی تلاش ہوتی ہے، جب وہ کہیں منتقل ہوتے ہیں تب بھی قریب ترین مساجد تلاش کرتے ہیں اور جب وہ اپنے گھروں میں ہوتے ہیں اور نماز کا وقت ہو جائے تو وہ مسجد جانے کے لیے تڑپتے ہیں، انہیں مسجد کی طرف جانا زبردستی نہیں محسوس ہوتا ، وہ اسے ایک ایسا ناگوار فرض نہیں سمجھتے کہ جسے کندھے سے انسان ایسے اتارے گویا کوئی ناگوار بوجھ اتار پھینکا ہو، بلکہ وہ دل کی پوری آمادگی کے ساتھ مسجد جاتے ہیں ، انہیں مساجد سے محبت ہوتی ہے اور ان کے دل اس محبت سے معمور ہوتے ہیں۔ النووی کہتے ہیں کہ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ مسجد میں نماز پڑھنا پسند کرتے ہیں نہ کہ مسجد میں رہنا چاہتے ہیں۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ بس مسجد میں جا کر وہیں بیٹھ رہیں۔ حضرت عمر بن خطاب ﷜ ایک مرتبہ مسجد میں ایسے وقت میں تشریف لائے جب کہ نماز کا وقت نہیں تھا بلکہ کام کاج کا وقت تھا۔ دیکھا کہ لوگوں کا ایک گروہ وہاں بیٹھا ہے۔ آپ نے وہاں بیٹھنے کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ ہم متوکلین ہیں لہٰذا ہم مسجد میں رہیں گے۔ آپ ﷜ نے اپنی چھڑی اٹھائی اور ان سے کہا کہ تم جانتے ہو کہ آسمان سے سونے چاندی کی بارش نہیں ہو گی ، تمہیں خود ہاتھ پیر ہلا کر اپنا رزق ڈھونڈنا ہو گا۔ اسی طرح ایک مرتبہ نبی کریم ﷺمسجد میں تشریف لے گئے تو کسی صحابی کو وہاں پایا۔ آپ ﷺ نے ان کی وہاں موجودگی کا سبب دریافت فرمایا۔ اگر مسجدوں میں رہنا مطلوب ہوتا تو آپ ﷺ ان سے ان کے وہاں ہونے کی وجہ نہ دریافت فرماتے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے غموں نے گھیرا ہے ۔ پس نبی کریم ﷺ نے انہیں یہ دعا تعلیم فرمائی ۔

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ غَلَبَةِ الدَّيْنِ وَقَهْرِ الرِّجَالِ

’’ اے اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں رنج و غم سے اور میں تجھ سے پناہ مانتا ہوں عاجزی اور سستی سے اور میں پناہ چاہتا ہوں کم ہمتی اور بخل سے اور میں پناہ چاہتا ہوں قرض کے بوجھ سے اور لوگوں کے قہر سے۔ ‘‘

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ حدیث جس میں عرش کے سائے کی بشارت ہے اس میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو مسجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی سے محبت رکھتے ہیں نہ کہ مسجد میں رہنے سے۔

بعض لوگ مسجد اس طرح جاتے ہیں گویا کوئی بوجھ اتارنے جا رہے ہوں اور ہر وقت مسجد نہ جانے کے لیے عذر تراشتے رہتے ہیں۔ جبکہ بعض لوگوں کو مسجد سے محبت ہوتی ہے۔ خواہ وہ مسجد سے دور بھی رہتے ہوں پھر بھی وہ مسجد میں حاضر ہوتے ہیں اور کبھی شکایت نہیں کرتے۔ وہ طویل سفر کر کے مسجد آتے ہیں، فجر اور عشاء کی نماز میں بھی حاضر ہوتے ہیں اور کسی کو انہیں مسجد جانے کے لیے راضی نہیں کرنا پڑتا، کسی کو ان سے مسجد جانے کے معاملے پر بحث نہیں کرنی پڑتی۔ وہ دور بھی رہتے ہوں تو مسجد میں حاضر ہوتے ہیں کیونکہ انہیں مسجد سے اور نماز با جماعت سے محبت ہوتی ہے۔ مگر بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مسجد سے بہت قریب رہتے ہیں مگر پھر بھی وہ کبھی مسجد میں حاضر نہیں ہوتے اور ہمیشہ مسجد جانے سے بچنے کے لیے عذر تراشتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ ان کے دل مساجد کی محبت سے خالی ہوتے ہیں۔ اور یہی بات حدیث میں نبی کریم ﷺ سے منافقین کے بارے میں منقول ہے، جس کا مفہوم ہے کہ اگر انہیں کہا جائے کہ کھجوروں کی فصل تیار ہوئی ہے اور مسجد میں مفت تقسیم کی جا رہی ہے تو وہ ضرور مسجد کی جانب لپکیں گے۔ یہی سوال ہمیں اپنے آپ سے بھی پوچھنا چاہیے۔ جب کبھی بھی ہمیں مسجد جانا مشکل لگے تو ہمیں اپنے آپ کو اسی پیمانے پر پرکھ کر دیکھنا چاہیے۔ اگر آپ کو یہ معلوم ہو کہ ہر مرتبہ مسجد میں با جماعت نماز ادا کرنے کے بدلے آپ کو دو ہزار روپے ملیں گے، تب کیا آپ مسجد جانا چاہیں گے؟ اگر ہاں تو اس کے مطلب ہے کہ آپ مسجد نہ جانے کے لیے جتنے عذر پیش کرتے رہے ہیں وہ محض بہانے ہیں، لیکن اگر اس پیشکش کے باوجود بھی مسجد جانا آپ کے لیے مشکل ہے تو ہو سکتا ہے کہ آپ کے پاس مسجد نہ جانے کا کوئی واقعی عذر موجود ہو۔ میرا یہ خیال ہے کہ ہر نماز کی ادائیگی پر دو ہزار روپے ملنے کا یقین ہو تو ہر مسجد ہر نماز کے وقت نمازیوں سے بھری ہوئی ہو گی، اللہ رب العزت اس جنت کا وعدہ کرتے ہیں جس کی وسعت آسمان و زمین کے برابر ہے،اللہ رب العزت اپنے عرش کے سائے تلے پناہ دینے کا وعدہ کرتے ہیں، اس دن کہ جب کوئی اور سایہ میسر نہ ہوگا، پھر کیا بہتر ہے؟ دوہزار روپے یا قیامت کے دن عرش الہی کا سایہ؟

  1. محض اللہ کے لیے باہم محبت رکھنے والے لوگ

چوتھے وہ دو لوگ ہیں جو محض اللہ کے لیے باہم محبت رکھتے ہیں، آپس میں ملتے ہیں تو اللہ کے لیے اور جدا ہوتے ہیں تو اللہ کے لیے، کوئی دنیوی مفاد، کوئی کاروبار یا ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کرنا ان کی محبت کی بنیاد نہیں ہوتا۔ ان کی محبت کی بنیاد تقویٰ، عالی اخلاق اور اعلیٰ صفات ہوتی ہیں۔ یہ ہے اللہ کے لیے محبت۔ اور پھر حدیث کہتی ہے کہ اسی محبت کی بنیاد پر وہ اکٹھے ہوتے ہیں اور اسی کے لیے جدا ہوتے ہیں، یعنی وہ غیبت، جھوٹ، لغو گپ شپ کے لیے اکٹھے نہیں ہوتے، وہ مسلمانوں کے خلاف منصوبے بنانے اور سازشیں گھڑنے کے لیے اکٹھے نہیں ہوتے بلکہ وہ صرف اور صرف اللہ کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں، یہ موسی وہارون ﷩کی اخوت جیسا ہے:

﴿ كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيْرًا؀ وَّنَذْكُرَكَ كَثِيْرً؀ ﴾ (سورۃ طہ: ۳۳، ۳۴)

’’ تاکہ ہم کثرت سے آپ کی تسبیح کریں۔ اور کثرت سے آپ کا ذکر کریں۔‘‘

یہ وجہ تھی کہ موسیٰ ﷤نے اپنے بھائی ہارون ﷤کا ساتھ چاہا۔ یا پھر یہ اخوت ہے حضرت سلمان فارسی ﷜اور حضرت ابو الدرداء ﷜ کی باہم اخوت جیسی، کہ ان کے اکٹھا ہونے کی بنیاد اللہ کی محبت تھی۔ یا عبداللہ بن مسعود﷜ کی طرح کہ جنہوں نے صحابہ سے کہا کہ ھیا بنا نؤمن ساعۃ ، آؤ قیامت پر ایمان کی تجدید کریں۔ وہ کسی دنیوی مقصد کے لیے اکٹھے نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کے اجتماع کا مقصد محض اللہ رب العزت کی محبت تھی۔ اور اسی کی وجہ سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ انہیں اجر سے نوازیں گے اور قیامت کے دن انہیں سایہ فراہم فرمائیں گے ۔

بہت سی احادیث ہیں جن میں اللہ کے لیے محبت کا ذکر ہے۔ آپﷺ نےفرمایا :

الْمُتَحَابُّونَ فِي اللَّهِ فِي ظِلِّ الْعَرْشِ يَوْ الْقِيَامَةِ (مسند احمد)

’’ اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے قیامت کے دن عرش الہٰی کے سائے میں ہوں گے۔‘‘

ایک اور حدیث میں ہے:

إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَيْنَ الْمُتَحَابُّونَ بِجَلَالِي الْيَوْمَ أُظِلُّهُمْ فِي ظِلِّي يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلِّي (صحیح مسلم)

’’ اللہ قیامت کے دن فرمائے گا: کہاں ہیں آپس میں محبت کرنے والے؟ میرے جلال کی قسم ! آج کے دن میں ان کو اپنے سائے میں رکھوں گا کہ جس دن میرے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہو گا ۔‘‘

 

یہ احادیث بھی اسی معنی کی تائید کرتی ہیں جو ہم نے ذکر کیا۔

  1. جسے کسی صاحب منصب و جمال عورت نے ورغلایا اور اس نے انکار کیا

پانچواں وہ شخص ہے جسے کسی صاحب منصب و جمال عورت نے ورغلایا اور اس نے انکار کیا اور کہا کہ میں اللہ کا خوف رکھتا ہوں۔ اس کی بہترین مثال سیدنا یوسف ﷤ہیں۔ ان کو ورغلانے والی نا صرف انتہائی خوب صورت عورت تھی بلکہ وہ غلام تھے اور وہ عورت ان کے مالک کی بیوی تھی لہٰذا اختیار اور جمال دونوں میں یکتا تھی۔ پھر بھی حضرت یوسف ﷤نے اسے انکار کیا اور اس کی پاداش میں جیل گئے۔ اگر کسی شخص کو کوئی ایسی عورت دعوت گناہ دے جو حسب نسب والی بھی ہو اور شکل و صورت بھی اچھی ہو تو محض اس کو انکار کر دینے کا وہ ایک لمحہ اس شخص کو پچاس ہزار سال تک کے لیے عرش الہی کے سائے کی ضمانت دے دیتا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ یہ آسان نہیں ہے۔ محض یہ چھوٹا سا جملہ کہہ کر انکار کرنا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، بہت مشکل ہے۔ اور اللہ رب العزت مشقت کے بقدر اجر عطا فرماتے ہیں۔ یہ بہت مشکل کام ہے لہٰذا اللہ رب العزت جو الکریم ہیں وہ بدلے میں نہایت بڑا اجر عطا فرماتے ہیں۔ یہ قطعاً آسان نہیں ہے کہ انسان ایسے موقع پر انکار کرے جب کہ تمام عوامل اس کے خلاف جا رہے ہوں۔ شیطان اس کے خلاف ہے اور اس عورت کی شان و شوکت کو بڑھا چڑھا کر اس کے سامنے پیش کرتا ہے، پھر اس پر مستزاد یہ کہ وہ عورت کسی قسم کا اختیار بھی رکھتی ہو اور اس شخص کو نقصان پہنچانے پر قادر ہو، اس مشکل صورت حال میں انکار کا اجر بھی بہت عظیم ہے۔ یہی اصول کسی بھی مشکل تر صورت حال پر لاگو ہوتا ہے، مشکل جتنی شدید ہو گی، اجر بھی اتنا ہی عظیم ہو گا۔

  1. خفیہ صدقہ کرنے والا

چھٹا وہ شخص ہے کہ جس نے اتنے خفیہ طریقے سے صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ تک کو معلوم نہ ہو سکا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔ یہ حدیث صدقے کی اس قسم کا ذکر کر رہی ہے جسے خفیہ صدقہ، یا پوشیدہ خیرات کہتے ہیں۔

صدقہ دو قسم کا ہوتا ہے: صدقۃ العلن اور صدقۃ السّر؛ یعنی علانیہ صدقہ اور خفیہ صدقہ، اور ان دونوں کے لیے اجر ہے۔

امام النووی ﷫ کہتے ہیں کہ جہاں تک زکوۃ کا تعلق ہے تو بہتر ہے کہ وہ علانیہ ادا کی جائے۔ علانیہ زکوۃ ادا کرنے کا اجر خفیہ ادا کرنے سے زیادہ ہے۔ کیوں؟ کیونکہ زکوۃ اسلام کا ایک ستون ہے اور لوگوں کے لیے اس کی تذکیر ضروری ہے، لہٰذا اس کا علانیہ ادا کیا جانا بہتر ہے۔ جبکہ وہ کہتے ہیں کہ نفلی صدقات کا خفیہ اد اکیا جانا بہتر ہے۔ یہ کوئی مستقل اصول نہیں ہے۔ بعض مواقع پر نفلی صدقات کا بھی علانیہ ادا کیا جانا مستحسن ہے مثلاً ایسے موقع پر کہ جب دوسرے لوگوں کو بھی اسے دیکھ کر تحریض ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مواقع پر نبی کریم ﷺ نے علانیہ صدقہ طلب کیا۔ ایک معروف واقعہ وہ ہے کہ جب بعض بدو نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور وہ انتہائی غریب تھے۔ نبی کریم ﷺ نے لوگوں کو صدقہ کی تحریض دی تو ایک انصاری صحابی دو بوریاں لے کر آئے۔ ایک میں خوراکی مواد تھا اور دوسری میں کپڑے اور دیگر سامان۔ انہوں نے یہ دونوں بوریاں سب کے سامنے نبی کریم ﷺ کے سامنے پیش کیں اور ان کو دیکھ کر لوگ اٹھ اٹھ کر اپنے گھروں سے سامان لا کر صدقہ کرنے لگے حتی کہ خوراکی اور دیگر سامان کا ڈھیر لگ گیا۔ تب نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس کسی نے اسلام میں کسی اچھے کام کا اجرا کیا، اسے اس کا اجر ملے گا اور ان سب کا اجر بھی اسے قیامت تک ملتا رہے گا جنہوں نے اسے دیکھ کر وہ اچھا کام شروع کیا۔

ایک اور واقعہ غزوہ تبوک کا ہے کہ نبی کریم ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور پکارتے رہے کہ کون ہے جو صدقہ دے؟ اور ہر مرتبہ پکارنے پر حضرت عثمان غنی ﷜ صدقہ دیتے، وہ آتے صدقہ دیتے اور پھر مزید لینے کے لیے جاتے اور پھر آتے اور صدقہ دیتے یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ آج کے بعد عثمان ﷜ جو بھی کریں وہ انہیں نقصان نہیں پہنچائے گا۔ عثمان غنی ﷜ نے اس قدر صدقہ کیا کہ اللہ رب العزت نے ان کے لیے دائمی معافی کا اعلان فرما دیا کہ آئندہ بھی وہ جو کچھ کریں انہیں اس کا نقصان نہیں ہو گا اور اللہ رب العزت ان کی ہر خطا معاف فرما دیں گے۔

مگر حدیث میں صدقہ کی دوسری قسم یعنی صدقۃ السر کا ذکر ہے اور انسان کو صورت حال کو دیکھتے ہوئے دونوں طرح کا صدقہ کرنا چاہیے۔ جہاں لوگوں کو تحریض دینے کی ضرورت نہ ہو وہاں غیر ضروری طور پر اپنے صدقہ کا اظہار نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایسے خفیہ کرنا چاہیے کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو۔ یہ محاورتاً کہا جاتا ہے اور اس کا معنی یہی ہے کہ کسی کو اس کی خبر نہ ہو۔ اور اس کی مثال ہمارے بہت سے اسلاف کا طرز ہے کہ جو ضرورت مندوں کے دروازوں پہ صدقہ رکھ جاتے تھے اور ان لوگوں کو بالکل خبر نہ ہو پاتی تھی کہ کون ان کی مدد کر رہا ہے۔ اور اس صدقے کا حال تب کھلتا جب وہ بزرگ وفات پا جاتے کہ ان کی وفات کے بعد وہ مدد ملنا بند ہو جاتی۔

  1. جس کی آنکھیں تنہائی میں اللہ کو یاد کر کے اشک بار ہوئیں

اور ساتواں وہ شخص ہے جو تنہائی میں اللہ رب العزت کو یاد کرتا ہے اور اس کی آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں۔ تنہائی میں اللہ کا ذکر کرنے والا کہ اللہ کی محبت اور اس کے خوف کی وجہ سے اس کی آنکھوں سے آنسو نکلیں۔ چونکہ یہ عمل تنہائی کا ہے تو یقیناً اخلاص کے ساتھ ہے کسی نمود و نمائش اور ریا کے لیے نہیں ہے۔ پس اللہ رب العزت اس کے اخلاص کا اجر قیامت کے دن اسے اپنے عرش کے سائے تلے جگہ عطا فرما کر دیں گے۔

تو یہ ہیں وہ سات لوگ جنہیں اللہ رب العزت قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے تلے مجتمع فرمائے گا،ہم دوبارہ ان کا ذکر کرتے ہیں:

  1. امام عادل ،
  2. وہ جوان جس نے اپنی جوانی اللہ کی راہ میں صرف کی ہو ،
  3. وہ آدمی جس کا دل مسجد میں اٹکا ہوا ہے ،
  4. وہ دو آدمی جو آپس میں اللہ کے لیے محبت کریں، جب جمع ہوں تو اسی کے لیے اور جب جدا ہوں تو اسی کے لیے ،
  5. وہ جسے کوئی منصب و جمال والی عورت اپنی طرف بلائے اور وہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں ،
  6. وہ جو پوشیدگی سے اس طرح صدقہ کرے کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا دیا ،
  7. اور وہ شخص جس نے اللہ کو تنہائی میں یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

محض یہی مذکور لوگ نہیں ہیں جو عرش الہی کے سائے تلے اکٹھے ہوں گے بلکہ کچھ اور قسم کے لوگ بھی اس سائے سے مستفید ہوں گے، اب ہم ان کا ذکر کرتے ہیں:

  1. مقروض کے لیے آسانی پیدا کرنے والا

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا أَوْ وَضَعَ عَنْهُ أَظَلَّهُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ (صحیح مسلم)

’’ جو آدمی کسی تنگ دست کو مہلت دے یا اس سے اس کا قرض معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا‘‘۔

المعسر ایسے شخص کو کہتے ہیں جو معاشی مشکلات کا شکار ہو۔ اگر کسی شخص کا کسی تنگ دست پر کوئی قرض ہو تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی کسی تنگ دست کو مہلت دے یا اس سے اس کا قرض معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا۔ کیونکہ معاشی مشکلات لوگوں کے لیے بہت پریشانی کا باعث ہوتی ہیں بالخصوص عیال دار اور ایسے لوگوں کے لیے جن کے اوپر بھاری ذمہ داریاں ہوں۔ معاشی مشکل ایک مصیبت ہوتی ہے۔ ایسے شخص کو کوئی اپنا قرض معاف کر دے یا اس کو مہلت دے دے کہ جب پیسے آ جائیں تو میرا قرض لوٹا دینا تو چونکہ وہ دنیا میں اس انسان کے لیے آسانی پیدا کرتا ہے لہٰذا آخرت کے دن اس کے لیے آسانی پیدا فرمائیں گے اور اسے اپنے عرش کے سائے تلے جگہ عطا فرمائیں گے۔ عرش الٰہی کا سایہ یا ان کے لیے ہے کہ جنہوں نے دنیا میں تکالیف اور مشکلات کا سامنا کیا اور یا پھر ان کے لیے ہے کہ جنہوں نے دنیا میں اللہ کے بندوں پر آسانیاں پیدا کیں۔ امام عادل لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے، اسی طرح خفیہ صدقہ دینے والا بھی لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرتا ہے، جبکہ وہ شخص کہ جسے با اثر اور حسین عورت دعوت گناہ دے اور وہ انکار کر دے وہ دنیا میں مشکل سہہ کر آیا ہے، پس ان سب لوگوں کو اللہ قیامت کے دن آسانی عطا فرمائیں گے۔

یہ ایک اور مثال تھی ان دیگر لوگوں کی کہ جنہیں قیامت کے دن عرش الہی کا سایہ میسر ہوگا۔

(جاری ہے ان شاء اللہ)

Previous Post

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | آٹھویں قسط

Next Post

ارضِ پاکستان پر بھارتی جارحیت کی بابت

Related Posts

موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | پچیسواں درس

14 اگست 2025
موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس

14 جولائی 2025
عمر ِثالث | ساتویں قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | ساتویں قسط

9 جون 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | تئیسواں درس

9 جون 2025
اِک نظر اِدھر بھی | اپریل و مئی 2024
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | اپریل، مئی 2025

27 مئی 2025
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چوتھی قسط

27 مئی 2025
Next Post

ارضِ پاکستان پر بھارتی جارحیت کی بابت

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version