إشراط الساعۃ
ذیل میں ہم ان فتنوں کا بنظرِ مختصر جائزہ لیں گے جو پیش آ چکے ہیں۔
فتنے کی ابتدا
قتلِ عثمانؓ
بخاریؒ کی ایک روایت میں سیدناحذیفہ ؓ بن یمان اور سیدنا عمر بن الخطابؓ کے مابین گفتگو کا ذکر ہے۔فرماتے ہیں کہ ’’کُنَّا عِنْدَ عُمَرَ فَقَالَ أَيُّکُمْ يَحْفَظُ حَدِيثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتْنَةِ کَمَا قَالَ؟ قَالَ فَقُلْتُ: أَنَا۔ قَالَ: إِنَّکَ لَجَرِيئٌ، وَکَيْفَ قَالَ؟ قَالَ قُلْتُ :سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَنَفْسِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ يُکَفِّرُهَا الصِّيَامُ وَالصَّلَاةُ وَالصَّدَقَةُ وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيُ عَنْ الْمُنْکَرِ۔ فَقَالَ عُمَرُ: لَيْسَ هَذَا أُرِيدُ، إِنَّمَا أُرِيدُ الَّتِي تَمُوجُ کَمَوْجِ الْبَحْرِ۔ قَالَ فَقُلْتُ: مَا لَکَ وَلَهَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ؟ إِنَّ بَيْنَکَ وَبَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا! قَالَ: أَفَيُکْسَرُ الْبَابُ أَمْ يُفْتَحُ؟ قَالَ قُلْتُ: لَا بَلْ يُکْسَرُ۔ قَالَ: ذَلِکَ أَحْرَی أَنْ لَا يُغْلَقَ أَبَدًا۔ قَالَ فَقُلْنَا لِحُذَيْفَةَ هَلْ کَانَ عُمَرُ يَعْلَمُ مَنْ الْبَابُ؟ قَالَ نَعَمْ، کَمَا يَعْلَمُ أَنَّ دُونَ غَدٍ اللَّيْلَةَ، إِنِّي حَدَّثْتُهُ حَدِيثًا لَيْسَ بِالْأَغَالِيطِ۔ قَالَ فَهِبْنَا أَنْ نَسْأَلَ حُذَيْفَةَ مَنْ الْبَابُ، فَقُلْنَا لِمَسْرُوقٍ سَلْهُ فَسَأَلَهُ فَقَالَ: عُمَرُ۔
ہم حضرت عمر ؓ کے پاس تھے تو انہوں نے پوچھا کہ تم میں سے کون ہے جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فتنوں کے بارے میں حدیث زیادہ یاد ہے؟ میں نے کہا: ’میں ہوں ‘۔آپؓ نے فرمایا: ’تو بہت جرأت مند ہے اور وہ حدیث کیسی ہے؟ ‘۔میں نے کہا:’ میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا ،آپ ﷺ فرماتے تھے ’’آدمی کے گھر والوں اور اس کے مال اور اس کی جان اور اولاد اور پڑوسی میں فتنہ ہے اور ان کا کفارہ روزہ، نماز، صدقہ، نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے منع کرنا ہیں‘‘۔ تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا:’ میں نے ان کا ارادہ نہیں کیا، بلکہ میرا مقصود وہ فتنے ہیں جو سمندر کی موجوں کی طرح آئیں گے‘۔ میں نے کہا:’ اے امیر المومنین! آپ کو اس سے کیا غرض ہے ،بیشک آپ کے اور ان فتنوں کے درمیان ایک بند دروازہ ہے‘۔ حضرت عمر ؓ نے دریافت فرمایا:’ اس دروازے کو توڑا جائے گا یا کھولا جائے گا؟‘ میں نے کہاکہ ’نہیں بلکہ اسے توڑا جائے گا‘۔ عمر ؓ نے فرمایا:’ اگر ایسا ہے تو پھر کبھی بند نہ کیا جاسکے گا‘۔
راوی کہتے ہیں ہم نے حضرت حذیفہ ؓ سے پوچھا، ’کیا حضرت عمر ؓ اس دروازے کے بارے میں جانتے تھے ؟‘،انہوںؓ نے کہا ،’جی ہاں !وہ اسی طرح جانتے تھے جیسا کہ وہ کل کے آنے سے پہلے رات کو جانتے تھے اور میں نے ان کو ایک حدیث بیان کی جو غلط الروایات سے نہ تھی‘۔ پھر ہم حضرت حذیفہ ؓ سے دروازے کے بارے میں پوچھنے سے خوفزدہ ہوئے تو ہم نے مسروق ؒسے کہا کہ تم ان سے پوچھو۔ انہوں نے پوچھا تو حضرت حذیفہ ؓ نے کہا : (دروازہ) عمر ؓ ہیں۔
سیدنا عمر الفاروقؓ اس امّت اور فتنوں کے درمیان ایک دروازہ تھے۔ ان کے زمانے میں امن و استحکام تھا، کہیں فتنہ و فساد نہیں تھا، وہ اسلام کے پھیلنے اور مستحکم ہونے کا زمانہ تھا۔آپؓ کی شہادت کے بعد وہ دروازہ جس نے فتنوں کو روک رکھا تھا، وہ کھل گیا اور فتنوں کو داخل ہونے کا موقع مل گیا۔
حضرت سیدنا عمر الفاروقؓ کے بعد سیدنا عثمان بن عفان ؓ مسلمانوں کے خلیفہ بنے۔ ان دونوں حضرات کی موت قتل کے نتیجے میں واقع ہوئی۔ مگر قتلِ عثمانؓ اور قتلِ عمرؓ میں فرق یہ تھا کہ عمرؓ کو ایک کافر و مشرک نے قتل کیا، ایک دشمنِ اسلام نے قتل کیا جبکہ عثمانؓ کو اسلام کا نام لینے والوں نے اسلام کے نام پر قتل کیا ۔اس وجہ سے مسلمانوں کے مابین تفرقہ و نا اتفاقی کا دروازہ کھل گیا۔
حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں بعض ایسے واقعات پیش آئے جو مسلمانوں کے لیے ایک فتنہ تھے، آزمائش تھے۔ ان فتنوں کے نتیجے میں بعض مسلمان اکٹھے ہوئے اور سیدنا عثمان ؓ کے گھر کا گھیراؤ کر لیا۔ وہ آپؓ سے مسندِ خلافت دستبردار ہونے کا مطالبہ کرنے لگے۔ احادیث میں وارد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَا عُثْمَانُ إِنَّهُ لَعَلَّ اللَّهَ يُقَمِّصُکَ قَمِيصًا فَإِنْ أَرَادُوکَ عَلَی خَلْعِهِ فَلَا تَخْلَعْهُ لَهُم’’۔حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: ’اے عثمان ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک قمیص (یعنی خلافت) پہنائیں، اگر لوگ اسے اتارنا چاہیں تو مت اتارنا۔ سیدنا عثمانؓ اس فرمان کی غرض و غایت نہیں سمجھتے تھے۔ لیکن جب لوگوں نے آپؓ سے خلافت چھوڑنے کا مطالبہ کیا تو آپؓ سمجھ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو خلافت عطا فرمائی تھی، اور اب یہ لوگ چاہتے تھے کہ آپؓ اسے چھوڑ دیں، لہٰذا حضرت عثمانؓ نے انکار کر دیا۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ، آپؓ نے ان لوگوں سے جنگ و مقابلہ کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ حضرت علی بن ابی طالبؓ اور آپؓ کے بیٹے ، حسنؓ و حسینؓ……سیدنا عثمانؓ کی حفاظت کر رہے تھے۔ سیدنا علیؓ نے حضرت عثمانؓ سے اجازت طلب فرمائی کہ آپ ہمیں حکم دیں، ہم ان (محاصرین)سے لڑائی کریں گے۔عثمانؓ نے فرمایا:’’’میں اپنی جان کی خاطر خون کا ایک قطرہ بھی بہانا پسند نہیں کرتا۔ میں نہیں چاہتا کہ میری جان کی حفاظت کے لیے کسی کو قتل کیا جائے‘‘۔حضرت عثمانؓ نے حضرت علیؓ کو جنگ کی اجازت نہیں دی۔ حضرت علیؓ اپنے بیٹوں کے ساتھ حضرت عثمان ؓ کے گرد پہرہ دیتے رہے۔ آخر کار حملہ آور عثمانؓ کے گھر کے اندر گھس آئے۔ یہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں مدینہ میں پھیلے ہوئے تھے اور انہوں نے حضرت عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ بالآخر یہ اندر گھس آئے اور انہوں نے حضرت عثمانؓ کو قتل کیا اور فتنوں کا ایک طویل سلسلہ جاری کر دیا۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمانؓ کی شہادت کی پیشن گوئی فرمائی تھی۔ ایک بار جب آپﷺ سیدنا ابوبکرؓ و عمرؓ اور سیدناعثمانؓ کے ساتھ احد پہاڑ پر کھڑے تھے کہ وہ ہلنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے پہاڑ سے فرمایا کہ’’اے احد! ٹھہر جا، تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں‘‘۔
جنگِ جمل
حضرت عثمانؓ کے قتل کے بعد مسلمانوں کے درمیان کوئی خلیفہ نہیں تھا۔ بعض مسلمان حضرت علیؓ کے پاس آئے اور آپ کی بیعت کرنا چاہی۔ مگر حضرت علیؓ نے بیعت لینے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ مسلمانوں کی شوریٰ کا انتظار کرو یہاں تک کہ وہ مل کر کوئی فیصلہ کر لیں۔ان لوگوں نے حضرت علیؓ سے کہا کہ عثمانؓ کو قتل کیا جا چکا ہے، فتنہ پھیل رہا ہے اور عثمانؓ کے قاتل عالمِ اسلام میں پھیلتے جائیں گے اور مسائل بڑھتے چلے جائیں گے۔ اور وہ حضرت علیؓ سے اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ سیدنا علیؓ کو خلیفہ بننے پر راضی کر لیا۔ مسلمانوں کو ایک قائد کی ضرورت تھی جو انہیں جوڑتا اور متحد کرتا۔لہٰذا ان لوگوں نے اور حضرت زبیرؓ و طلحہؓ نے حضرت علیؓ کی بیعت کر لی۔
قاتلینِ عثمانؓ اب حضرت علیؓ کے لشکر میں شامل ہو گئے، وہ سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں تھے، وہ پورے لشکر میں پھیل گئے اور مدغم ہو گئے۔حضرت عثمانؓ کی مظلومانہ شہادت کے بعد حضرت طلحہؓ، زبیرؓ اور حضرت ام المومنین عائشہؓ سیدنا عثمانؓ کے قتلِ ناحق کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔ حضرت عثمانؓ کے یہ قاتلین بھی حضرت علیؓ کے پاس آئے اور ان سے حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کے لیے عدالت قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ ’’حتی یطالب اولیاءه بدمہ…‘‘۔ یعنی قصاص کا مطالبہ مقتول کے اولیاء کا حق ہے۔ اولیاء سے مراد انسان کے قریب ترین رشتہ دار ہیں۔ شریعتِ اسلامی کے مطابق، اگر کوئی شخص قتلِ عمد کا شکار ہو جائے، تو اس کے قریب ترین عزیز و اقارب انصاف و قصاص کا مطالبہ کرتے ہیں۔اور یہ انہی کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ بدلے میں مقتول کو قتل کی سزا دلوائیں یا دیت کی ادائیگی پر راضی ہو جائیں۔ یعنی یہ حق و اختیار خالصتاً خاندان و اعزا کا ہے، عدالت یا حکمران کا نہیں۔
حضرات طلحہؓ، زبیرؓ اور ام المومنین حضرت عائشہؓ نے حضرت علیؓ کا یہ جواب قبول کیا اور ان سے متفق ہو گئے۔ اس وقت تک معاملہ صحیح رخ پر چل رہا تھا، حالات معمول پر تھے۔ مگر رات کے دوران ، حضرت عثمانؓ کے قاتل جو حضرت علیؓ کے لشکر میں مدغم ہو چکے تھے، ان میں سے بعض نے حضرت طلحہؓ، زبیرؓ اور حضرت عائشہؓ کے لشکر پر حملہ کر دیا۔ حضرت طلحہؓ، زبیرؓ اور عائشہؓ اتنے بڑے لشکر کے ساتھ وہاں حضرت علی سے جنگ و قتال کرنے کے ارادے سے نہیں آئے تھے، بلکہ وہ تو انصاف طلب کرنے آئے تھے۔ مگر جب رات کے دوران یہ حملہ ہوا تو حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ یہ سمجھے کہ علیؓ نے ان پر حملہ کیا ہے اور یہ جنگ شروع ہو گئی۔ مگر یہ ایک بے حد مختصر لڑائی تھی۔بالآخر حضرت علیؓ صورتحال پر قابو پانے اور سب کو یہ بتانے میں کامیاب ہو گئے کہ حملہ ان کی جانب سے نہیں کیا گیا، اور ایک بار پھر جانبین کے درمیان صلح اور اتفاق رائے پیدا ہو گیا۔
عن ابى رافع ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لعلى ابن ابي طالب, انه سيكون بينك و بين عائشة امر. قال انا يا رسول الله؟ قال نعم, قال انا يا رسول الله؟ قال نعم, قال فانا اشقاهم يا رسول الله!, قال: لا ولكن اذا كان ذلك فارددها الى مأمنها“۔
مسند احمد کی ایک روایت کے مطابق حضرت علی بن ابی طالبؓ کو نبی کریم ﷺ نے خبردار کیا تھا کہ ممکن ہے کہ تمہارے اور عائشہ کے مابین کچھ (معاملہ) پیدا ہو جائے، اس پر حضرت علیؓ نے پوچھا کہ کیا میرے (اور امّ المومنین کے مابین؟)، نبیﷺ نے فرمایا ’ہاں‘۔ آپؓ نے پھر پوچھا ’کیا میرے (اور امّ المومنین کے مابین؟)، آپﷺ نے فرمایا : ’ہاں‘۔ اس پر حضرت علیؓ نے کہا:’ پھر تو میں لوگوں میں سب سے بد نصیب ہوں۔ تو نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ، ’’نہیں، بلکہ جب ایسا ہو تو عائشہ کو بحفاظت واپس پہنچا دینا‘‘۔جنگِ جمل کے موقع پر حضرت علیؓ حضرت عائشہؓ کے پاس تشریف لے گئے اور اپنے لشکر کے بعض قابلِ اعتماد و ذمّہ دار ساتھیوں کے ہمراہ انہیں بحفاظت واپس مدینہ پہنچا دیا۔ یہ اس پیشن گوئی کی تکمیل تھی جو نبی کریمﷺ کی زبان مبارک سے ارشاد ہوئی تھی۔
جنگِ صفین
یہ ایک بہت بڑا فتنہ تھا۔بخاری و مسلم سے مروی ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: ’’لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی تَقْتَتِلَ فِئَتَانِ عَظِيمَتَانِ وَتَکُونُ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ وَدَعْوَاهُمَا وَاحِدَةٌ‘‘۔ قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ دو عظیم جماعتوں کے مابین جنگ وجدل نہ ہوجائے اور ان کے درمیان ایک بہت بڑی لڑائی ہوگی اور دونوں کا دعویٰ ایک ہوگا (کہ ہم رضائے الٰہی اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد کر رہے ہیں)۔ ایک ہی دعوے اور ایک ہی مقصد کے لیے دو گروہ کیسے جنگ کر سکتے ہیں؟ بالعموم تو جنگ اور نزع وہیں پیدا ہوتا ہے جہاں رائے اور مقاصد میں ضد اور مقابلہ ہو۔ مگر یہاں اس حدیث کا مصداق جنگِ صفین کو اس لیے کہا جا رہا ہے کیونکہ واقعہ کچھ یوں ہوا کہ قاتلینِ عثمانؓ ہزاروں کی تعداد میں حضرت علیؓ کے لشکر میں شامل تھے۔ حضرت امیر معاویہؓ جو حضرت عثمان ؓ کے قریبی رشتہ دار اور ولی تھے، نے حضرت عثمانؓ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے حضرت علیؓ سے قاتلینِ عثمان کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ میں ضرور حوالے کروں گا، لیکن پہلے مجھے اپنی خلافت (یعنی حاکمیت و اختیار) قائم کرنے کے لیے تمہاری بیعت کی ضرورت ہے۔ جب تک تم اور تمام مسلمان میری خلافت کی بیعت نہیں کرتے، اور مجھے تمام مسلمانوں پر اختیار حاصل نہیں ہو جاتا، تب تک میں قاتلینِ عثمان کو تمہارے حوالے نہیں کر سکتا۔
حضرت علیؓ کا موقف درست تھا۔ قاتلینِ عثمانؓ ہزاروں کی تعداد میں تھے اور آپؓ کے لشکر میں پھیلے ہوئے تھے۔ اگر آپؓ اس حالت میں جبکہ آپؓ کو تمام مسلمانوں کی متفقہ حمایت حاصل نہ تھی، اتنے بڑے گروہ کو پکڑنے کی کوشش کرتے توایک بہت بڑا فتنہ بپا ہو جاتا، جس کا سدِ باب کرنا اس کمزوری کی حالت میں نہایت مشکل ثابت ہوتا۔ مسلمان متحد و متفق ہونے کے بجائے مزید تقسیم و انتشار کا شکار ہو جاتے۔ مگر حضرت معاویہؓ نے اس سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ جب تک آپ عثمانؓ کے قاتلوں کو میرے حوالے نہیں کریں گے، تب تک میں آپ کی بیعت نہیں کروں گا۔ یہ حضرت امیر معاویہؓ کا ایک اجتہاد تھا جو درست نہ تھا۔ لیکن ایک غلط اجتہاد کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت امیر معاویہؓ نبی کریم ﷺ کے صحابی اور کاتبِ وحی نہ تھے۔رسول اللہ ﷺ نے نہ صرف قرآنِ کریم کی کتابت کا عظیم کام ان کے سپرد کیا تھا بلکہ وہ رشتہ میں امّ المومنین امّ حبیبہ بنت ابی سفیان کے بھائی ہونے کے ناتے رسول اللہ ﷺ کے برادرِ نسبتی بھی تھے۔
حضرت علیؓ اور ان کے ساتھیوں کا موقف درست تھا۔ اس کی ایک علامت یہ بھی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمّار بن یاسرؓ سے فرمایا تھا کہ تقتلك فئة الباطل، تمہیں زیادتی کرنے والا گروہ قتل کرے گا۔ حضرت عمّار بن یاسرؓ حضرت علیؓ کے لشکر میں شامل تھے اور مخالف لشکر ، یعنی حضرت امیر معاویہؓ کے لشکر کا ہاتھوں قتل ہوئے۔
الخوارج
حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے مابین جنگ کے دوران، حضرت علیؓ کو بالا دستی حاصل تھی۔حضرت امیر معاویہ کے لشکر کی حالت اس قدر دگر گوں ہو گئی کہ بالآخر انہوں نے اپنے نیزوں کے ساتھ قرآن مجید کے مصاحف باندھ لیے ، جس پر حضرت علیؓ نے جنگ روک دی۔حضرت علیؓ کے لشکر میں ایسے لوگ موجود تھے جن کا مفاد جنگ اور قتل و غارت گری سے وابستہ تھا، اور وہ جنگ جاری رکھنا چاہتے تھے۔ ان میں بااثر افراد بھی تھے، جیسے قبیلوں کے سردار، جو اس مسئلے کو بھڑکانے اور ہوا دینے کی کوشش میں مصروف تھے۔ یہ لوگ کہنے لگے کہ علی کیسے اپنا ہاتھ روک سکتے ہیں؟ یہ اللہ کا حکم ہے! علیؓ انسانوں کی رائے کو اللہ کے حکم پر ترجیح دے رہے ہیں۔
ابتدا میں، ان لوگوں نے علیؓ پر ایک غلطی کا ارتکاب کرنے کا الزام لگایا۔اور یہ لوگ اس انتہا تک جا پہنچے کہ آخر میں حضرت علیؓ پر کفر کا الزام لگایا۔ حضرت معاویہؓ کو یہ لوگ پہلے ہی کفر کا مرتکب قرار دے چکے تھے۔ یہ لوگ حضرت علیؓ کے لشکر سے نکل گئے اور یہیں سے انہوں نے اپنا نام ’خوارج ‘ پایا۔ خوارج سے مراد نکل جانے والے یا علیحدہ ہو جانے والے لوگ ہیں۔ حضرت علیؓ نے ان لوگوں سے گفتگو و مذاکرات کرنے کے لیے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو بھیجا۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ ان میں سے چار ہزار کو قائل کر کے واپس لانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے باوجود ایک کثیر تعداد اپنی فکر اور نظریے پر قائم رہی اور یہی لوگ فرقۂ خوارج کی شروعات ثابت ہوئے۔
خارجی فکر کے بیج رسول اللہﷺ کے زمانے میں بھی موجود تھے۔خوارج کی بنیادی صفت ان کی شدت و انتہا پسندی ہے۔بخاری ؒ حضرت ابو سعید الخدریؓ سے مروی ایک حدیث ذکر کرتے ہیں: أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقْسِمُ قِسْمًا أَتَاهُ ذُو الْخُوَيْصِرَةِ وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اعْدِلْ فَقَالَ وَيْلَکَ وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ قَدْ خِبْتَ وَخَسِرْتَ إِنْ لَمْ أَکُنْ أَعْدِلُ فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ائْذَنْ لِي فِيهِ فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ فَقَالَ دَعْهُ فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ يُنْظَرُ إِلَی نَصْلِهِ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْئٌ ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَی رِصَافِهِ فَمَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْئٌ ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَی نَضِيِّهِ وَهُوَ قِدْحُهُ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْئٌ ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَی قُذَذِهِ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْئٌ قَدْ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ آيَتُهُمْ رَجُلٌ أَسْوَدُ إِحْدَی عَضُدَيْهِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ أَوْ مِثْلُ الْبَضْعَةِ تَدَرْدَرُ وَيَخْرُجُونَ عَلَی حِينِ فُرْقَةٍ مِنْ النَّاسِ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ فَأَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَشْهَدُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَاتَلَهُمْ وَأَنَا مَعَهُ فَأَمَرَ بِذَلِکَ الرَّجُلِ فَالْتُمِسَ فَأُتِيَ بِهِ حَتَّی نَظَرْتُ إِلَيْهِ عَلَی نَعْتِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي نَعَتَه۔
’’حضرت ابوسعید الخدریؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ مال تقسیم کر رہے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ذوالخویصرہ ،جو قبیلہ بنی تمیم کا ایک شخص تھا، حاضر ہوا۔ اس نے کہا ’’یا رسول اللہ ! انصاف کیجیے !‘‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: ’’تیری خرابی ہو اگر میں انصاف نہ کروں گا تو کون ہے جو انصاف کرے گا ؟ اگر میں انصاف نہ کروں تو بہت ناکام و نامراد ہوں گا‘‘۔ حضرت عمر ؓنے عرض کیا کہ ’’یا رسول اللہ ! مجھ کو اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں‘‘۔ فرمایا:’’ اس کو رہنے دو، اس کے چند ساتھی ایسے ہیں جن کی نمازوں کو دیکھ کر تم اپنی نمازوں کو حقیر سمجھو گے۔ اور ان کے روزوں کے سامنے اپنے روزے کو کمتر ۔وہ قرآن کی تلاوت کریں گے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا،(یعنی قرآن ان کے اعمال میں نظر نہیں آئے گا۔ آپ انہیں قرآن پڑھتے سنیں گے اور یہ بہترین تلاوت کرنے والے ہوں گے، مگر ان کے قلب و روح قرآن سے خالی ہوں گے)۔ یہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح کمان سے تیر نکل جاتا ہے، اس کے پکڑنے کی جگہ دیکھی جائے تو اس میں کوئی چیز معلوم نہ ہوگی۔ اس کے پر دیکھے جائیں تو ان میں کوئی چیز معلوم نہ ہوگی۔ اس کے پر اور پکڑنے کی جگہ کے درمیانی مقام کو دیکھا جائے تو اس میں کوئی چیز دکھائی نہ دے گی حالانکہ وہ گندگی اور خون سے ہو کر گزرا ہے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک سیاہ آدمی ہوگا، اس کا ایک مونڈھا عورت کے پستان یا پھڑکتے ہوئے گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہوگا، جب لوگوں میں اختلاف پیدا ہوگا تو یہ ظاہر ہوں گے۔ ‘‘
بعض اوقات تیر اپنے ہدف کو اس زور سے جا کر لگتا ہے کہ وہ سیدھا ہدف سے آر پار ہو جاتا ہے۔ وہ اتنی تیزی سے گزرتا ہے کہ خود اس کے اوپر خون کا کوئی دھبّہ بھی باقی نہیں رہتا۔ مراد یہ ہے کہ یہ خوارج اپنی شدت پسندی میں دین سے اتنی تیزی سے نکل جاتے ہیں کہ انہیں یاد بھی نہیں رہتا کہ کب یہ خود دین سے خارج ہو گئے ہیں۔ یہ لوگ کبر و غرور اور کرختگی میں ذوالخویصرہ کے مانند ہیں جس کے کبر کا یہ عالم تھا کہ وہ وقت کے نبی کو انصاف کرنے کا حکم دیتا تھا۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے حضرت عثمانؓ کو قتل کیا ، صحابہؓ کے درمیان جنگوں کا سبب بنے، اور جب انہوں نے مسلمانوں کے درمیان امن اور اتفاق پیدا ہوتے دیکھا، تو یہ لوگ نکل کر علیحدہ ہو گئے۔
حضرت علیؓ کے لشکر سے علیحدہ ہونے والے ان لوگوں کو نبی کریم ﷺ کی حدیث میں مذکور افراد کا مصداق کیوں قرار دیا جاتا ہے؟ کیونکہ حدیث کے راوی حضرت ابوسعیدؓ کہتے ہیں کہ میں اس امر کی شہادت دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے اور یہ کہ حضرت علیؓ بن ابی طالب نے ان لوگوں سے جنگ کی ہے۔ میں ان کے ساتھ تھا، انھوں نے حکم دیا وہ شخص تلاش کر کے لایا گیا، میں نے اس میں وہی خصوصیات پائیں جن کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بارے میں بیان فرمایا تھا۔ (یہ وہ شخص تھا جو گہرے رنگ کا حامل تھا اور اس کا ایک مونڈھا عورت کے پستان کی مانند تھا، یعنی اس میں کوئی ہڈّی نہیں تھی)۔
خوارج نے حضرت علیؓ سے کہا کہ تم نے حکمِ الٰہی سے دغا کی ہے۔ ان کے اس الزام پر حضرت علیؓ نے انہیں چند رعایتیں دیں اور فرمایا کہ ’میں تمہیں مسلمانوں کے ساتھ مساجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دیتا ہوں، جب مسلمانوں میں اموالِ غنیمت تقسیم ہوں گے تو تمہیں بھی تمہارا حصّہ دوں گا اور میں تم سے کوئی تعرض نہ کروں گا جب تک تم مسلمانوں سے کوئی تعرض نہیں کرتے‘۔حضرت علیؓ کی اس فراخدلانہ پیشکش کے باوجود خوارج نے مسلمانوں کا پیچھا نہیں چھوڑا۔
صحابیٔ رسولﷺ حضرت خباب بن ارتؓ کے بیٹے اپنی اہلیہ کے ساتھ عراق میں سفر کر رہے تھے کہ راستے میں خوارج نے انہیں روک لیا۔ انہوں نے ایک صحابی کا بیٹا ہونے کے طور پر اپنی شناخت کرائی۔ خوارج نے ان سے سوال کیا کہ تم کس کے ساتھ ہو؟ انہوں نے جواب دیا:’میں تمہارے خلاف نہیں ہوں، مگر میں حق کے ساتھ ہوں‘۔ انہوں نے حضرت خباب بن ارتؓ کے بیٹے کو قتل کر دیا۔ ان کی اہلیہ اس وقت حاملہ تھیں، خوارج نے ان کی اہلیہ کا پیٹ چاک کر کے اندر موجود بچّے کو قتل کر دیا اور پھر ان کی اہلیہ کو بھی قتل کر دیا۔اس واقعے کے بعد حضرت علیؓ نے ان کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا۔ کیونکہ انہوں نے اسی شرط پر اب تک خوارج کو چھوٹ دے رکھی تھی، کہ جب تک وہ مسلمانوں کو تنگ نہیں کرتے، حضرت علیؓ بھی ان سے جنگ نہیں کریں گے۔ لیکن پھر ایک صحابیٔ رسولﷺ کے بیٹے اور ان کی اہلیہ کے اس بہیمانہ قتل پر انہوں نے خوارج کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔
جنگِ نہروند
جنگِ نہروند میں حضرت علیؓ نے خوارج کو شکست دی اور ان کی ایک بڑی تعداد کو قتل کر دیا۔ مذکورِ بالاحدیث کے راوی، حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ علیؓ نے ہمیں حکم دیا کہ جاؤ اور اس شخص کو تلاش کرو جس کا حلیہ نبی کریمﷺ نے بیان فرمایا تھا۔ حضرت ابو سعیدؓ فرماتے ہیں کہ ہمیں وہ شخص لاشوں میں پڑا مل گیا اور میں نے اس بعینہ انہی خصوصیات کا حامل پایا جو نبی کریمﷺ نے بیان فرمائی تھیں۔اس علامت سے یہ معلوم ہوا کہ نبیﷺ کی حدیث میں مذکور افراد وہی تھے جن سے حضرت علیؓ نے جنگ کی۔
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ ان کو قتل کرنے والے کے لیے بہت عظیم اجر کا وعدہ ہے۔ رسول اللہﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا : لَئِنْ أَدْرَکْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ، اگر میں ان کو پاتا تو انہیں قوم عاد کی طرح قتل کرتا (صحیح مسلم)۔
قومِ عاد کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا تھا۔ مکمل طور پہ ختم کر دیا گیا تھا، گویا وہ کبھی تھے ہی نہیں۔ اس قومِ خوارج کے لیے نبی کریم ﷺ نے یہ سزا کیوں تجویز کی؟ اس لیے کیونکہ خوارج کی ذہنیت سے ما سوائے انہیں مکمل طور پہ ختم کر دینے کے، کسی طرح معاملہ نہیں کیا جا سکتا۔ایسی انتہا کو پہنچی ہوئی شدت پسندی سے دلیل و حجت سے بات نہیں کی جا سکتی۔ یہ لوگ خون بہانا چاہتے ہیں اور امن پر کبھی راضی نہیں ہوتے۔ اگر آپ ان کو اکیلا چھوڑ دیں اور ان سے تعرض نہ کریں، تو بھی وہ آپ کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔
خوارج کے باعث مسلمانوں کے درمیان بے شمار مسائل پھیلے۔ فتنوں میں سے بعض بڑے فتنے ان کی پیداوار تھے۔ محدّثین کہتے ہیں کہ ان کا کبھی ایسے خوارج سے سابقہ نہیں پڑا جو حدیث گھڑتے ہوں۔ اہل السنۃ میں سے بہت سے لوگوں نے حدیث وضع کی، مگر خوارج کبھی جھوٹ نہیں بولتے، لہٰذا وہ احادیث بھی وضع نہیں کرتے۔ مگر ان کے دماغ انتہائی ضدّی ہوتے ہیں اور یہ خون بہانے اور قتل و غارت گری کو بہت ہلکا سمجھتے ہیں۔
فتنۂ خوارج کوئی وقتی فتنہ بھی نہیں تھا جو صرف اس دور تک محدود ہوتا۔رسول اللہﷺ نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ جب بھی ان کی ایک نسل ختم ہو گی، ایک دوسری نسل پیدا ہو جائے گی یہاں تک کہ دجّال کا وقت آ جائے۔رسول اللہﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ خوارج کی پیدائش کا یہ سلسلہ کسی مستقیم طریق پر نسل در نسل جاری رہے گا۔ بلکہ یہ عالمِ اسلام کے مختلف حصّوں میں، مختلف زمانوں میں پیدا ہوتے اور ختم کیے جاتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی فکر ایسی ہے کہ یہ کسی بھی خطے میں طویل عرصہ خود اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے۔ اگر بیرونی طاقتیں انہیں ختم نہ بھی کریں تو یہ بالآخر آپس میں لڑ مر کر خود اپنے آپ کو تباہ کر لیتے ہیں۔ پھر یہی انتہا پسندی کی فکر نئے لوگوں کے ذہنوں میں جگہ بنا لیتی ہے ، وہ آپس میں اور دیگر مسلمانوں سے لڑتے ہیں، ان کا بھی خون بہاتے ہیں اور اپنا بھی یہاں تک کہ بالآخر ایک دوسری نسل اپنے آپ کوختم کر لیتی ہے۔
یمن میں ایک کہاوت ہے’’اسے لڑنے کے لیے کوئی نہ ملا، سو وہ اپنے ہی لوگوں سے لڑ پڑا‘‘۔ یہی خوارج کی ذہنیت ہے۔
عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَنْشَأُ نَشْئٌ يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ کُلَّمَا خَرَجَ قَرْنٌ قُطِعَ قَالَ ابْنُ عُمَرَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ کُلَّمَا خَرَجَ قَرْنٌ قُطِعَ أَکْثَرَ مِنْ عِشْرِينَ مَرَّةً حَتَّی يَخْرُجَ فِي عِرَاضِهِمْ الدَّجَّالُ
حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :’’ایک قوم پیدا ہوگی جو قرآن کو پڑھیں گے اور قرآن ان کے نرخرے سے تجاوز نہیں کرے گا، جب بھی وہ ابھریں گے کاٹ دئیے جائیں گے،( حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب کبھی وہ ابھریں گے کاٹ دئیے جائیں گے (اور ایسا) بیس مرتبہ سے زیادہ ہوا) یہاں تک کہ ان کی جماعت میں سے دجال خروج ہوگا‘‘۔(ابن ماجہ)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ یہ لوگوں میں سب سے برے ہیں۔ کیونکہ یہ کفار و مشرکین سے متعلقہ آیات لیتے ہیں اور انہیں مسلمانوں پر چسپاں کر دیتے ہیں۔یہ مسلمانوں پر کفر کے ارتکاب کا الزام لگاتے ہیں۔ اور یہ ان کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک ہے کہ یہ مسلمانوں کی تکفیر کرنے میں بہت جلدی سے کام لیتے ہیں۔
قتلِ حسینؓ بن علیؓ
رسول اللہ ﷺ کو ایک دفعہ حضرت جبرئیلؑ نے تھوڑی سی سرخ مٹی پیش کی اور فرمایا کہ آپ کے نواسے قتل کیے جائیں گے، اور یہ اس علاقے کی مٹی ہے جہاں انہیں قتل کیا جائے گا۔ حضرت حسینؓ کو کربلا میں شہید کیا گیا۔ حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد آپؓ کے بیٹے حضرت حسنؓ نے چھ ماہ کی مختصر سی مدت کے لیے مسندِ خلافت سنبھالی، مگر پھر مسلمانوں کی وحدت کے لیے چھوڑ دی۔ حضرت حسنؓ کے بعد، لوگوں نے حضرت حسینؓ کی بیعت کر لی، اور عراق کے بعض قبیلوں نے آپؓ کی مدد و نصرت کا وعدہ کیا۔
اس وعدے کے بھروسے پر حضرت حسینؓ اپنے خاندان، یعنی اہلِ بیت کے ایک بڑے گروہ کے ساتھ عراق تشریف لے گئے، جہاں بنو امیّہ کے یزید بن معاویہ کے ایک لشکر سے آپؓ نے جنگ کی۔ وہ قبائل جنہوں نے مدد و نصرت کا وعدہ کیا تھا، انہوں نے بے وفائی کی اور آخر میں میدانِ جنگ میں حضرت حسینؓ اہلِ بیت میں سے اپنے چند جانثاروں کے ساتھ تنہا رہ گئے۔وہ تب تک لڑتے رہے یہاں تک کہ ان کا آخری فرد تک میدانِ جنگ میں لڑتا ہوا شہید ہو گیا۔ وہ سب قتل کر دیے گئے۔ میدانِ کربلا رسول اللہ ﷺ کے خاندان کی سب سے بڑی قتل گاہ ثابت ہوئی۔ یہ امّتِ مسلمہ کی تاریخ کا سیاہ ترین باب تھا کہ امّت کے افراد نے خود رسول اللہﷺ کے خاندان کے ساتھ یہ سلوک کیا۔
یزید بن معاویہ ہی کے دورِ خلافت میں مدینہ میں بھی مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ کئی دنوں تک یہ قتلِ عام جاری رہا جس میں انصار اور ان کی اولاد کو بے دریغ قتل کیا گیا۔رسول اللہﷺ نے اسی بارے میں فرمایا تھا کہ میں مدینہ کے گھروں پر آزمائشوں کی بارش ہوتے دیکھ رہا ہوں۔
جھوٹے نبیوں کا فتنہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ’’لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی يَنْبَعِثَ دَجَّالُونَ کَذَّابُونَ قَرِيبٌ مِنْ ثَلَاثِينَ کُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ‘‘۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تقریباً تیس دجال اور کذاب نکلیں گے، ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے ‘‘۔
اگر ہم ان تمام لوگوں کو شمار کریں جو دورِ نبویﷺ سے لے کر آج تک(یعنی گزشتہ ۱۴۰۰ برس میں) اس امت میں نبوت کے دعویدار رہے ہیں، تو ہمیں تیس سے زیادہ افراد ملیں گے۔ حدیث کی تشریح و توضیح کرنےوالے علما کہتے ہیں کہ حدیث میں تیس جھوٹے دعویداروں سے مراد تیس ایسے لوگ ہیں جو اپنے اس جھوٹے دعوےکے نتیجے میں قدرے مناسب تعداد میں متبعین کا گروہ بنانے میں کامیاب ہو گئے، اور اپنے اس دعوے کی بنا پر مشہورو معروف ہوئے۔ یہاں وہ دیوانے لوگ مراد نہیں جو یہاں وہاں ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور نبی ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں نبوت کے جھوٹے دعویداروں میں سب سے زیادہ مشہور ہونے والے دو لوگ تھے، ایک مسیلمہ کذاب، اور دوسرا یمن میں اسود عنسی۔ان دونوں کا ظہور نبی خاتم المرسلینﷺ کی زندگی کے آخری دور میں ہوا۔
مسیلمہ کذاب قبیلہ بنو حنیفہ کے بدؤوں میں سے تھا۔یہ یمامہ کے علاقے کا ایک بڑا قبیلہ تھا۔ قبائلی عصبیت اس کا سب سے بڑا ہتھیار تھا۔ اس نے دعوی کیا کہ جیسے محمد رسول اللہﷺ قریش سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ شہری لوگ ہیں، اسی طرح میں بنو حنیفہ کا مسیلمہ ہوں اور ہم بدّو لوگ ہیں۔ گویا محمدﷺ شہریوں کے نبی ہیں اور مسیلمہ دیہاتیوں کا۔ آپ دیکھیں گے کہ یہ جھوٹے نبی ہمیشہ لوگوں کو مختلف پر فریب طریقوں سے گمراہ کرتے ہیں۔ مسیلمہ لوگوں کی نفسیات سے واقف تھا، وہ جانتا تھا کہ بدّؤوں میں قبائلی عصبیت انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ سو اس نے اسی چیز سے فائدہ اٹھایا۔ اس کا ایک قریبی ساتھی بر سرِ عام یہ کہا کرتا تھا کہ ’’بنو حنیفہ کا جھوٹا بھی قریش کے سچے سے بہتر ہے‘‘۔ اس کے پیروکاروں میں سے بھی بہت سوں کو علم تھا کہ مسیلمہ کا دعوی جھوٹا ہے، حتی کہ اس کا قرآن بھی مضحکہ خیز تھا۔
یہ بھی قرآن کا ایک معجزہ ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ ذہین اور قابل لوگ، جو شاعری میں بھی اچھے ہوتے ہیں، وہ بھی جب قرآن کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایسا نتیجہ برآمد ہوتا ہے جو ناقابلِ یقین حد تک خراب اور خستہ ہوتا ہے۔
عرب کے سب سے مشہور و معروف اور فصیح و بلیغ شعراء میں شمار ہونے والے ایک نابینا شاعر نے ایک بار دعوی کیا کہ وہ بھی قرآن سی شاعری کر سکتا ہے۔ وہ انا کا مارا ایک مغرور و متکبر انسان تھا۔ کچھ عرصے بعد لوگوں نے اس سے پوچھنا شروع کیا کہ تمہارے قرآن کا کیا ہوا جس کا تم نے وعدہ کیا تھا؟ تو اس نے جواب دیا کہ ’’تم وہ بات بھول جاؤ، وہ میرے بس کی بات نہ تھی‘‘۔
مسیلمہ کذاب کے متبعین کی تعداد ہزاروں اور لاکھوں میں تھی۔یہ ایک بہت بڑا فتنہ تھا، اور اس فتنے کے شعلے حضرت ابوبکر الصدیقؓ کے زمانے تک بجھائے نہ جا سکے۔ آپؓ کے زمانے میں یمامہ میں بالآخر مسیلمہ کے خلاف ایک نہایت خونریز اور فیصلہ کن جنگ لڑی گئی، جس میں مسلمانوں کی جانب سے لڑنے والوں میں سے حفاظِ قرآن کی ایک بڑی تعداد شہید ہو گئی۔ مسیلمہ بالآخر حدیقہ یعنی باغ والی جنگ کے نام سے مشہور ہونے والے معرکے میں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوا۔
حفاظ کرام کی اتنی بڑی تعداد میں شہادت ہی قرآن مجید کے جمع اور کتابی شکل میں محفوظ کرنے کی بنیادی وجہ ثابت ہوئی۔ حضرت ابوبکرؓ نے قرآن مجید کے تمام حصّوں کو اکٹھا کرنے کا کام شروع کیا اور یہ کام حضرت عثمانؓ کے زمانے میں جا کر پایۂ تکمیل کو پہنچا۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ أُتِيتُ بِخَزَائِنِ الْأَرْضِ فَوُضِعَ فِي کَفِّي سِوَارَانِ مِنْ ذَهَبٍ فَکَبُرَا عَلَيَّ فَأَوْحَی اللَّهُ إِلَيَّ أَنْ انْفُخْهُمَا فَنَفَخْتُهُمَا فَذَهَبَا فَأَوَّلْتُهُمَا الْکَذَّابَيْنِ اللَّذَيْنِ أَنَا بَيْنَهُمَا صَاحِبَ صَنْعَائَ وَصَاحِبَ الْيَمَامَةِ
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں ایک دن سو رہا تھا کہ مجھے دنیا کے تمام خزانے دے دیے گئے، پھر میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن رکھے گئے، جو مجھ پر شاق گزرے، تو مجھے وحی کی گئی کہ ان پر پھونک مارو، میں نے پھونک ماری تو وہ غائب ہوگئے تو میں نے اس کی تعبیران دو کذابوں سے کی، جن کے درمیان میں ہوں، یعنی صنعاء والا (عنسی) اور یمامہ والا (مسیلمہ)۔
مسیلمہ کذاب نے نبوت کی ایک دوسری دعویدار عورت ، جس کا نام سجّاح تھا، سے شادی کر لی تھی۔ دونوں کے متبعین کچھ عددی حیثیت رکھتے تھے، یہ شادی بھی سیاسی وجوہات کی بنا پر ہوئی۔ جب مسیلمہ قتل ہو گیا تو سجّاح سمجھ گئی کہ نبوت کے اس دعوے میں اس کے لیے کوئی فائدہ نہیں رکھا، لہٰذا وہ اپنے دعوے سے تائب ہو کر دوبارہ مسلمان ہو گئی۔اسود عنسی کو یمن میں ا س کے محل کے اندر فیروز نامی ایک شخص نے قتل کر دیا اور یوں وہ بھی اپنے انجام کو پہنچا۔ان کے علاوہ ایک شخص طلیحہ اسدی تھا۔ اس نے بھی نبوت کا دعوی کیا مگر بعد میں اسلام قبول کر لیا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد اس نے ایک اچھے مسلمان کی زندگی گزاری۔کہا جاتا ہے طلیحہ یا مسیلمہ، ان میں سے کسی ایک سے جب قرآن کی تلاوت کرنے کو کہا جاتا تو وہ ایسی آیات سناتا جن میں کھانے پینے کا ذکر ہوتا۔ یہاں تک کہ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ہم نہیں جانتے کہ فرشتہ تمہارے دل کے لیے وحی لاتا ہے یا تمہارے معدے کے لیے۔
المختار بن عبید الثقفی نے بھی نبوت کا جھوٹا دعوی کیا۔ جدید زمانے میں قادیانیت کا بانی، مرزا غلام احمد قادیانی کو بھی ان تیس میں شمار کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس نے بھی نبوت کا جھوٹا دعوی کیا اور پیروکاروں کی ایک اچھی خاصی تعداد اکٹھی کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ نبوت کےیہ دعوے شریعت کی رو سے کافر ہیں، اور پاکستان(جہاں مرزا قادیانی کا ظہور ہوا) کی حکومت و قانون کے مطابق بھی قادیانیت کفر ہے۔
صلی اللہ علی سیدنا محمد، وعلی آلہ وصحبہ وسلم!
[یہ سلسلۂ مضامین نابغۂ روزگار مجاہد و داعی شیخ انور العولقی شہید رحمۃ اللہ علیہ کے انگریزی میں ارشاد کیے گئے سلسلۂ دروس ’Al-Aakhirah – The Hereafter‘ کا اردو ترجمہ ہیں، جو بِتوفیق اللہ، قسط وار مجلّہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ میں شائع کیے جا رہے ہیں ۔ ]