احقر محمد اختر عفا اللہ تعالیٰ عنہ عرض کرتا ہے کہ اس زمانے میں اہلِ تقویٰ، اہلِ دین، اہلِ اصلاح اور جُملہ سالکینِ طریق کے لیے تباہی کا سامان فتنۃُ النساء سے زیادہ فتنۃ الامارد ہے۔ اور چونکہ فتنۃ الامارد میں ظاہری موانع کم ہیں، اس لیے نفس کو شیطان جلد اس فتنے میں مبتلا کردیتا ہے۔ اور اکثر نامحرم عورتوں کی بدنگاہی تک کا مجرم بناتا ہے۔ حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں۔
۱۔ غیر محرم عورت یا مرد (خوبصورت نوجوان) سے کسی قسم کا علاقہ (تعلق) رکھنا، خواہ اس کو دیکھنا یا دل خوش کرنے کے لیے اس سے باتیں کرنا، تنہائی میں اس کے پاس بیٹھنا، یا اس کے دل کو خوش کرنے کے لیے اپنے لباس کو سنوارنا اور کلام کو نرم کرنا۔ میں سچ عرض کرتا ہوں کہ اس تعلق سے جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور جو مصائب پیش آتے ہیں، ان کو میں تحریر کے دائرے میں نہیں لا سکتا۔
۲۔ عشقِ مجازی عذابِ الٰہی ہے۔ جس طرح دوزخ میں موت اور زندگی کے درمیان انسان پریشان ہوگا (لا يموت فيها ولا يحيیٰ)، اسی طرح بدنظری کے بعد انسان عشقِ مجازی میں مبتلا ہوکر تڑپتا رہتا ہے، سکون کی نیند سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ دنیا اور دین دونوں تباہ ہوں گے اور آخر کار پاگل خانے میں داخل ہوگا۔ پاگل خانے میں آج کل نوے فیصد عشق مجازی کے مریض ہیں جو وی سی آر، سینما، ٹی وی، اور ناول پڑھ کر پاگل ہوئے ہیں۔
۳۔ بدنظری کے بعد عشق مجازی میں مبتلا ہو کر ا گر گناہ کی نوبت آگئی تو فاعل اور مفعول دونوں ہمیشہ کے لیے ذلیل ہوجاتے ہیں (ایک دوسرے سے نظر کبھی نہ ملا سکیں گے)۔ اور جس طرح شفیق باپ چاہتا ہے کہ میرے بیٹے عزت سے رہیں، کسی بدفعلی میں ذلیل نہ ہوں، تو اللہ تعالیٰ کی رحمتِ غیرمحدود بھی یہی چاہتی ہے کہ میرے بندے کسی ذلیل فعل سے حقیر اور رسوا نہ ہوں اور تقویٰ کے ساتھ رہ کر باعزت زندگی گزاریں اور حلال پر اکتفا کریں اور حرام سے صبر کریں۔ اور جب اہلِ دنیا دنیا کی لذتوں سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں تو میرے خاص بندے میری عبادت اور میرے ذکر کی لذت سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں اور یہ ٹھنڈک دائمی ہے، دُنیا والوں کی ٹھنڈک ہزاروں بلاؤں سے گھِری ہوئی اور فانی ہے۔
احقر کے دو شعر ہیں:
دشمنوں کو عیشِ آب و گل دیا
دوستوں کو اپنا دردِ دل دیا
ان کو ساحل پر بھی طغیانی ملی
مجھ کو طوفانوں میں بھی ساحل دیا
اسی لیے خواجہ صاحب فرماتے ہیں:
ڈال کر ان پر نگاہِ شوق کو
جان آفت میں نہ ڈالی جائے گی
حُسنِ فانی پر اگر تو جائے گا
یہ منقش سانپ ہے ڈس کھائے گا
مولانا اسعداللہ صاحب محدث مظاہر العلوم سہارن پور خلیفہ حضرت حکیم الامت مجدد الملت تھانویؒ فرماتے ہیں:
عشق بتاں میں اسعد کرتے ہو فکرِ راحت
دوزخ میں ڈھونڈتے ہو جنت کی خوابگاہیں
حُسنِ فانی پر حضرت مرشدنا و مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم نے خانقاہِ گلشن اقبال میں یہ شعر سنایا:
دورِ نشاط چل بسا گردش جام ہوچکی
ساقیا گلعذار کی ترکی تمام ہوچکی
احقر محمد اختر عفا اللہ تعالیٰ عنہ عرض کرتا ہے کہ بدنظری کرنے والے پر حضورﷺ کی بد دعا ہے۔ لعن الله الناظر والمنظور اليه…… اللہ تعالیٰ لعنت فرمائے بدنظری کرنے والے پر اور جو بدنظری کی دعوت دے یعنی جو بے پردہ پھرے اس پر بھی۔ اولیا کی بددعا سے ڈرنے والے سیدالانبیاءﷺ کی بد دعا سے ڈریں۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔
چند دن کا حُسن جادو کی طرح پاگل کرتا ہے پھر کچھ ہی دن میں چہرے کا جغرافیہ بدل جاتا ہے اور بڑھاپے میں تو نقشہ ہی عجیب ہوتا ہے۔ احقر کا اسی فنائے حُسن پر یہ شعر ہے:
ادھر جغرافیہ بدلا اُدھر تاریخ بھی بدلی
نہ اُن کی ہسٹری باقی نہ میری ہسٹری باقی
ایک پرانا شعر یاد آیا:
کسی خاکی پہ مت کر خاک اپنی زندگانی کو
جوانی کر فدا اس پر کہ جس نے دی جوانی کو
اس خطرناک مرض سے کتنے جوانوں کی زندگی تباہ ہوگئی۔ احقر کے اشعار ہے:
سنبھل کر رکھ قدم اے دل! بہارِ حسنِ فانی میں
ہزاروں کشتیوں کا خون ہے بحرِ جوانی میں
وہ جوانانِ چمن اور ان کا ظالم بانکپن
دیکھتے ہی دیکھتے سب ہوگئے دشت و دمن
بدنظری کے بارے میں جو آیت نازل ہوئی کہ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ…… اور اللہ تعالیٰ تمہاری بدنگاہیوں کی تمام مصنوعات سے باخبر ہے۔ احقر کا شعر ہے:
جو کرتا ہے تُو چھپ کے اہلِ جہاں سے
کوئی دیکھتا ہے تجھے آسماں سے
حق تعالیٰ نے بدنگاہی کے فعل اور عمل کو صنعت سے کیوں تعبیر فرمایا، اس میں کیا حکمت ہے۔ بات یہ ہے کہ بدنگاہی کرنے والا اپنے دل میں معشوق کے لیے اپنی مختلف تمناؤں کا فیچر (تصویر) بناتا ہے۔ خیالی پلاؤ میں کبھی بوسہ لیتا ہے، کبھی سینے سے لگاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اسی وجہ سے مختلف صنعتوں سے باخبر ہونے کو حق تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ علامہ آلوسی سید محمود بغدادی (مفتی بغداد) اپنی تفسیر رُوح المعانی میں اس آیت کی تفسیر چار عنوانات سے ارشاد فرماتے ہیں:
۱۔ باجالۃ النظر: تمہارا نظر گھما گھما کر بدنگاہی کرنے سے اللہ تعالیٰ باخبر ہیں۔
۲۔ باستعمال سائر احواس: بدنگاہی کرنے والا تمام حواسِ خمسہ سے حرام لذت لینے کی کوشش شروع کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی ہر حرکت سے با خبر ہے۔ یعنی دیکھنے (باصرہ)، سننے (سامعہ)، چکھنے (ذائقہ)، چھونے (لامسہ)، سونگھنے (شامہ)، ہر وقت کے استعمال کو خدا دیکھ رہا ہے۔
۳۔ بتحریک الجوارح: اور اللہ تعالیٰ بدنظری کرنے والے کے تمام اعضاء کی حرکات سے باخبر ہے۔ یعنی محبوب مجازی کو حاصل کرنے کے لیے یہ ہاتھ پاؤں اور جُملہ اعضاء جس طرح استعمال کرتا ہے سب خدا دیکھ رہا ہے اور باخبر ہے۔
۴۔ بما یقصدون بذلك: اور بدنگاہی کرنے والے کا اس بدنگاہی سے جو آخری مقصد ہے یعنی بدفعلی اس سے بھی اللہ با خبر ہے۔ اس جملۂ خبریہ میں جملۂ انشائیہ پوشیدہ ہے۔ یعنی سخت پٹائی ہوئی اور سخت سزا دی جائے گی۔
احقر کو تمام زندگی میں بہت کثیر تعداد میں بدنگاہی اور عشق مجازی کے مریض ملے اور سب نے یہی کہا کہ زندگی تلخ، نیند حرام، بے چینی، موت کی آرزو، خودکشی کے خیالات، صحت خراب، دل میں گھبراہٹ، دل و دماغ کمزور، کسی کام میں جی نہیں لگتا۔ میں نے ہمیشہ یہی عرض کیا کہ عشق مجازی اور غیرُ اللہ کو دل دینے کا یہی عذاب ہے اور یہ شعر احقر اس قسم کے پریشان حالوں کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔
ہتھوڑے دل پہ ہیں مغزِ دماغ میں کھونٹے
بتاؤ عشق مجازی کے مزے کیا لوٹے
اصلاحِ عشق مجازی کے سلسلے میں احقر کے چند اشعار اور ملاحظہ ہوں:
نہیں علاج کوئی ذوقِ حسن بینی کا
مگر یہی کہ بچا آنکھ بیٹھ گوشے میں
اگر ضرور نکلنا ہو تجھ کو سُوئے چمن
تو اہتمام حفاظت نظر ہو توشے میں
ان کا چراغ حسن بجھا یہ بھی بجھ گئے
بلبل ہے چشم نم گلِ افسردہ دیکھ کر
یہ حسین جو آج زمین پر چل پھر رہے ہیں ایک قبر میں مٹی ہونے والے ہیں۔ مرنے کے بعد قبر کھول کر دیکھو گے تو صرف مٹی ہی نظر آئے گی۔ اگر اس سے پوچھو کہ اے مٹی تیرا کون سا حصہ گال تھا اور کون سا حصہ بال تھا اور کون سا حصہ آنکھ تھا تو وہاں صرف مٹی ہی ملے گی۔ پہچان نہ سکو گے کہ کون سی مٹی آنکھ تھی، کون سی ناک تھی، کون سی گال تھی۔ اللہ تعالیٰ نے امتحان کے لیے مٹی پر ڈسٹمبر کردیا ہے کہ کون اس ڈسٹمبر پر مرتا ہے اور کون حکمِ پیغمبر پر جان دیتا ہے۔ اگر یہ نقش و نگار اور چمک دمک مٹی پر نہ ہوتی تو پھر امتحان ہی کیا ہوتا اس لیے ڈسٹمبر سے دھوکہ نہ کھائیے، بہت سے سالک اس سے دھوکہ کھاکر تباہ ہوگئے اور اللہ تک نہ پہنچ سکے۔ میرا شعر ہے:
میر مارے گئے ڈسٹمپر سے
ورنہ مٹی کی حقیقت کیا تھی
لہٰذا ایسی فانی چمک دمک سے کیا دل لگانا۔ فنائیتِ حُسن پر احقر کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
کسی گلفام کو کفنا رہا ہوں
جنازہ حسن کا دفنا رہا ہوں
لگانا دل کا ان فانی بتوں سے
عبث ہے، دل کو یہ سمجھا رہا ہوں
شیریں لبی کے ساتھ وہ شیریں دہن بھی تھا
آغوشِ موت میں وہی زیرِ کفن بھی تھا
بلکہ مرنے سے پہلے ہی وقت گزرنے کے ساتھ جب چہرے سے نمک جھڑ جاتا ہے اور ناک نقشے کا جغرافیہ بگڑ جاتا ہے۔
اور کمر جُھک کے مثلِ کمانی ہوئی
کوئی نانا ہوا، کوئی نانی ہوئی
ان کے بالوں پہ غالب سفیدی ہوئی
کوئی دادا ہوا، کوئی دادی ہوئی
تو عشق کا بھی جنازہ نکل جاتا ہے اور عاشقانِ مجازی اپنے ہاتھوں سے اپنے عشق کا جنازہ دفن کرکے نہایت حسرت و ندامت سے بھاگتے ہیں۔ اس حقیقت پر احقر کے دو شعر:
ان کے چہرے پہ کھچڑی داڑھی کا
ایک دن تم تماشہ دیکھو گے
میر اس دن جنازہ الفت کا
اپنے ہاتھوں سے دفن کردو گے
اس لیے محبت کے قابل صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس کے حسن و جمال پر کبھی زوال نہیں بلکہ ہر لمحہ اس کی ایک نئی شان ہے۔ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ…… حق تعالیٰ کی ذات سے ان کی صفات کا انفکاک و انفضال محال ہے۔ برعکس دنیا کے حسینوں کا حُسن ہر لمحہ علیٰ معرض الزوال ہے۔ یہ اجسام قبروں میں اُترنے والے ہیں، کالے بال سفیدی سے بدلنے والے ہیں، کمریں جھکنے والی ہیں، آنکھوں سے کیچڑ بہنے والا ہے، چہروں کے نور سے دُھواں اُٹھنے والا ہے۔ کہاں زندگی ضائع کرتے ہو۔
احقر کے چند شعر ملاحظہ ہوں:
آج کچھ ہیں کل اور کچھ ہوں گے
حُسنِ فانی سے دل لگانا کیا
میر مت مرنا کسی گلفام پر
خاک ڈالو گے انہیں اجسام پر
سانپ جاتا ہےتو لکیر چھوڑ جاتا ہے لیکن حُسن کا سانپ اس طرح جاتا ہے کہ حُسن کے آثارونشانات کی ایک لکیر بھی باقی نہیں رہتی اس وقت عشاق مجازی حیرت زدہ ہوکر ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔
حُسنِ رفتہ کا تماشہ دیکھ کر
عشق کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے
حسین صورتوں کا انجام سامنے رہے تومجاہدہ آسان ہوجائے۔ احقر کا ایک اور شعر ہے:
ان کے پچپن کو ان کے بچپن سے
پہلے سوچو تو دل نہیں دو گے
اور فنائیتِ حسن کا یہ مراقبہ تو نفس کو بہلانے کے لیے ہے تاکہ ایسی عارضی و فانی چیز کی طرف مائل نہ ہو لیکن فنائیتِ حسن کے سبب حسن سے باز رہنا یہ تو بندگی کا نہایت گھٹیا درجہ ہے۔ اس کے معنیٰ تو یہ ہوئے کہ اگر ان حسینوں کا حسن فانی نہ ہوتا تو نعوذ باللہ ہم ان سے دل لگا لیتے۔ لہٰذا عبدیت و بندگی کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ ہم یوں کہیں کہ اے اللہ آپ کی محبت اور آپ کی عظمت اور آپ کے جو ہم پر احسانات ہیں ان کا حق تو یہ ہے کہ اگر قیامت تک ان حسینوں کے حُسن پر زوال نہ آئے اور ان کے حُسن کی آب و تاب یوں ہی باقی رہے تب بھی ہم ان کی طرف نظر اُٹھا کر نہ دیکھیں گے۔ کیونکہ جس خوشی سے آپ ناخوش ہوں، آپ کی ناخوشی کی راہوں سے جو خوشی حاصل ہوتی ہے، وہ لعنتی خوشی ہے۔ میرا ہی شعر ہے:
ہم ایسی لذتوں کو قابلِ لعنت سمجھتے ہیں
کہ جن سے رب مرا اے دوستو ناراض ہوتا ہے
اور گناہ کی ذرا سی دیر کی لذت میں ہزاروں کلفتیں اور ہزاروں غم پوشیدہ ہیں۔ گناہ کا ارادہ اس اسکیم کا نقطۂ آغاز ہے جس کے بعد دل میں چین و سکون کا خواب بھی نہیں آسکتا۔
ہر عشقِ مجازی کا آغاز برا دیکھا
انجام کا یا اللہ کیا حال ہوا ہوگا
اس لیے کہ دل میں مردار آیا اور دل مردہ ہوا۔ یہ حسین ایک دن مردہ ہونے والے ہیں۔ اس وقت اگرچہ زندہ ہیں لیکن چونکہ حادث و فانی ہیں لہٰذا جب یہ دل میں آئیں گے تو حدوث و فنا کے اثرات کے ساتھ آئیں گے۔ ایسے قلب میں تعلق مع اللہ کی لذت و حلاوت نہیں رہ سکتی۔ مثلاً ایک کمرے میں آپ لوگ کھانا کھا رہے ہوں، مزے مزے کے کھانے لگے ہوں کہ اتنے میں ایک جنازہ آگیا اور اسی کمرے میں رکھ دیا گیا تو بتائیے اب کھانے کا مزہ آئے گا۔ اسی طرح جب دل میں مُردہ آگیا تو تعلق مع اللہ کا مزہ باقی نہیں رہ سکتا۔ اللہ ایسے قلب میں نہیں آتا جس میں غیرُ اللہ کی بدبُو اور غلاظت بھی ہو۔ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحبؒ فرماتے ہیں:
نہ کوئی راہ پاجائے نہ کوئی غیر آجائے
حریم دل کا احمد اپنے ہر دم پاسباں رہنا
اسی لیے اہلُ اللہ ہر وقت اپنے قلب کی نگرانی کرتے ہیں کہ نفس کہیں سے کوئی حرام لذت نہ چُرالے۔ اس لیے وہ ایسی صورتوں کو بھی قریب نہیں آنے دیتے جن سے احتیاط واجب ہے۔ اس نفس کو تو تھوڑا سا غم ہوتا ہے لیکن اس غم کے فیض سے ان کا دل ہر وقت مست و سرشار اور حق تعالیٰ کے قُربِ عظیم سے مشرف رہتا ہے۔ احقر کا شعر ہے:
مرے ایام غم بھی عید رہے
ان سے کچھ فاصلے مفید رہے
جب آفتاب نکلنے والا ہوتا ہے تو مشرق کا پورا اُفق سرخ ہوجاتا ہے، یہ علامت ہوتی ہے کہ آفتاب طلوع ہونے والا ہے۔ اسی طرح جو شخص اپنی حرام آرزوؤں کے خون سے اپنے دل کے آفاق کو لال کرتا ہے اس دل میں حق تعالیٰ کے قُرب کا آفتاب طلوع ہوتا ہے۔ احقر کے چند شعر ہیں:
وہ سرخیاں کہ خونِ تمنا کہیں جسے
بنتی ہیں شفق میں مطلع خورشید قرب کی
مرا انجامِ الفت میر تم بھی دیکھتے جانا
مری ویرانیاں آباد ہیں خونِ تمنا سے
مگر خونِ تمنا سے جو بنتی ہے شفق احمر
انہیں آفاق سے دل میں طلوع خورشید حق ہوگا
برعکس جو لوگ نظر کی حفاظت نہیں کرتے بالآخر عشق مجازی میں مبتلا ہو کر برباد ہوتے ہیں اور ان کو دنیا ہی میں جس قدر پریشانی کا عذاب ہوتا ہے وہ خود عاشق مجاز ہی محسوس کرتا ہے۔ اور انجام کار کیا ہوتا ہے، کتنے لوگ بجائے اللہ کے اس معشوق کا نام لیتے لیتے مر گئے اور کلمہ نصیب نہ ہوا۔ اس لیے حضرات مشائخ کرام نے فرمایا ہے کہ سالک کے لیے عورتوں اور بے ریش لڑکوں سے میل جول زہر قاتل ہے۔ شیطان جب گمراہی کے ہر رستے سے مایوس ہوجاتا ہے تو صوفیوں کو عورتوں اور لڑکوں کے چکر میں پھنسانے کی کوشش کرتاہے۔ اس کا یہ حربہ اتنا بڑا ہے کہ جو اس کے چکر میں آیا اس کا راستہ بالکل مارا گیا کیونکہ دوسرے گناہوں سے اتنی دوری اللہ تعالیٰ سے نہیں ہوتی جتنی اس گناہ سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر جھوٹ بول دیا یا غیبت کرلی یا جماعت کی نماز چھوڑ دی تو مثلاً اللہ تعالیٰ سے چالیس ڈگری قلب کا انحراف ہوا پھر توبہ کرلی اور دل پھر اللہ کی طرف متوجہ ہوگیا لیکن اگر کسی صورت کے عشق میں مبتلا ہوگیا تو قلب کا اللہ تعالیٰ سے ۱۸۰ ڈگری کا انحراف ہوتا ہے، قلب کا قبلہ ہی بدل جاتا ہے۔ اب اگر نماز میں کھڑا ہے تو وہ حسین سامنے ہے، تلاوت کررہا ہے تو وہ سامنے ہے، ذکر کررہا ہے تو وہی صورت سامنے ہے۔ قلب کا رُخ اللہ تعالیٰ سے پھر کر ایک گلنے سڑنے والی لاش کی طرف ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ سے اتنا بعد کسی گناہ سے نہیں ہوتا جتنا عشقِ صورت سے ہوتا ہے۔ شکاری جس چڑیا کا شکار کرنا چاہتا ہے اس کے پروں میں گوند لگا دیتا ہے جس سے وہ اڑ نہیں سکتی اور آسانی سے شکار کرلیتا ہے۔ اسی طرح شیطان جب دیکھتا ہے کہ کوئی سالک بہت تیزی سے اللہ کے راستہ میں ترقی کررہا ہے، ہر گناہ سے بچ رہا ہے تو کسی صورت کے عشق میں مبتلا کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے بالکل محروم کردیتا ہے۔
لہٰذا کتنی ہی حسین صورت سامنے آجائے ہر گز اس کی طرف گوشۂ چشم سے بھی نہ دیکھیں۔ اس وقت نابینا بن جائیے، آنکھوں میں روشنی ہوتے ہوئے روشنی سے دست بردار ہوجائیے۔ احقر کا شعر ہے:
جب آگئے وہ سامنے نابینا بن گئے
جب ہٹ گئے وہ سامنے سے بینا بن گئے
کیا اس ارحم الراحمین کو اس بات پر پیار نہیں آئے گا کہ میرا بندہ میری دی ہوئی روشنی کو کس امانت سے خرچ کررہا ہے۔ جہاں دیکھنے سے میں راضی ہوتا ہوں وہاں دیکھتا ہے، جہاں میں ناراض ہوتا ہوں وہاں اپنی روشنی کو استعمال نہیں کرتا۔ مجھ کو راضی کرنے کے لیے اپنی آرزوؤں کا خون کررہا ہے، اپنے دل کو میرے لیےغمگین کررہا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی ایسے دل کا پیار لے لیتی ہے۔ احقر کا شعر ہے:
مرے حسرت زدہ دل پر انہیں یوں پیار آتا ہے
کہ جیسے چوم لے ماں چشمِ نم سے اپنے بچے کو
ایسے ویران ٹوٹے ہوئے دل میں اللہ آجاتا ہے اور اس دل پر خوشیاں برسا دیتا ہے۔
دلِ ویراں پہ میرا شاہ برساتا ہے آبادی
سمجھ مت میر ان کی راہ میں مرنے کی بربادی
میرے شیخ اول حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ہرے بھرے درخت کے پاس آگ جلا دو تو اس کے تروتازہ پتے مُرجھا جاتے ہیں اور دوبارہ بہت مشکل سے ہرے بھرے ہوتے ہیں۔ سال بھر کھاد پانی دو تب کہیں جاکر دوبارہ تازگی آتی ہے۔ اسی طرح ذکروعبادت اور صحبتِ اہلُ اللہ سے قلب میں جو انوار پیدا ہوئے، اگر ایک بدنظری کرلی تو باطن کا ستیا ناس ہوجاتا ہے۔ قلب میں دوبارہ ایمانی حلاوت اور ذکرُ اللہ کے انوار بحال ہونے میں بہت وقت لگتا ہے۔ بدنگاہی کی ظلمت بہت مشکل سے دور ہوتی ہے، بہت توبہ و استغفار گریہ و زاری اور بار بار حفاظت کے اہتمام کے بعد کہیں قلب کو دوبارہ حیاتِ ایمانی ملتی ہے۔
احقر عرض کرتا ہے کہ ہم سے جو گناہ نہیں چھوٹ رہے ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ ہم اپنی ہمت کو استعمال نہیں کررہے ہیں۔ اگر گناہ چھوڑنا ناممکن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ وَذَرُوْا ظَاهِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَهٗ (یعنی ظاہری گناہ بھی چھوڑو اور باطنی گناہ بھی چھوڑو) کا حکم نہ دیتے۔ یہ حکم دینا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم میں گناہ چھوڑنے کی استطاعت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کوئی ایسا حکم نہیں دیتے جو ہماری طاقت سے باہر ہو، لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم اپنے نفس کی موافقت و حمایت کررہے ہیں جس کو آجکل کی زبان میں کہتے ہیں کہ نفس کا فیور کر رہے ہیں اسی لیے گناہوں کے فِیور (بخار) میں مبتلا ہیں۔ حالانکہ نفس ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے اور اس کی دشمنی کی خبر دینے والے مخبرِ صادق سید الانبیاءﷺ ہیں۔ ارشاد فرماتے ہیں: ان اعداء عدوك فی جنبيك (تمہارا سب سے بڑ ادشمن تمہارے پہلو میں ہے)۔
بتائیے! آپ کا دشمن اگر آپ کو مٹھائی پیش کرے تو آپ اسے قبول کرلیتے ہیں یا فوراً کھٹک جاتے ہیں کہ خدا خیر کرے کہیں اس مٹھائی میں کچھ زہر نہ ملادیا ہو۔ لیکن افسوس نفس دشمن ہمیں بدنگاہی کی ذرا سی لذت دکھاتا ہےاور ہم اس کو فوراً قبول کرلیتے ہیں حالانکہ بظاہر تو یہ لذت پیش کررہا ہے لیکن حقیقت میں سزا کا انتظام کررہا ہے۔ بدنظری کے بعد آخرت کا عذاب تو الگ ہے، دنیا ہی میں دل بے چین ہوجاتا ہے، اس کی یاد میں تڑپے گا، نیندیں حرام ہوں گی اور اللہ سے دوری کے عذاب میں مبتلا ہوگا۔ بدنظری کا گناہ نہایت حماقت کا گناہ ہے۔ کچھ ملنا نہ ملانا مفت میں دل کو تڑپانا۔ بتائیے! پرائے مال پر نظر کرنا حماقت ہے یا نہیں۔ دیکھنے سے کیا وہ چیز مل جائے گی، جو چیز ملنے والی نہیں اسے دیکھ کر دل کو تڑپانا بے وقوفی ہے یا نہیں۔ اور بالفرض اگر مل بھی جائے تب بھی چین نہیں مل سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نا خوشی کی راہوں سے جو خوشی درآمد ہوتی ہے اس کے اندر غم پریشانی اور بے چینی کے سیکڑوں سانپ اور بچھو ہوتے ہیں۔ اللہ کو ناراض کرکے چین کا خواب دیکھنا انتہائی بے وقوفی اور گدھا پن ہے کیونکہ اللہ خوشی اور غم کا خالق ہے۔ جو بندہ اللہ تعالیٰ کو خوش رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے گناہ سے بچنے کا غم برداشت کرتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے اپنے دل کو ناخوش کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس کے دل کو خوش رکھتے ہیں، بغیر اسبابِ خوشی کے اس کے دل میں خوشیوں کا سمندر موجیں مارتا رہتا ہے۔ ایسی خوشی اس کو عطا فرماتے ہیں جو بادشاہوں نے خواب میں نہیں دیکھی اور جو اللہ کو ناراض کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی زندگی کو تلخ کردیتے ہیں۔
حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا… جو میری یاد سے اعراض کرے گا میں اس کی زندگی تلخ کردوں گا۔
جو لوگ عشق مجازی میں مبتلا ہیں اور اس جال سے نکلنا چاہ رہے ہیں لیکن نکل نہیں پارہے ہیں وہ اگر یہ چھ کام کرلیں تو ان شاء اللہ تعالیٰ نجات پا جائیں گے۔
۱۔ اللہ نے جو ہمت عطا فرمائی ہے اس سے کام لیں۔
۲۔ اللہ تعالیٰ سے عطائے ہمت کی دعا کریں۔
۳۔ خاصانِ خدا سے بالخصوص اپنے دینی مربی یا دینی مشیر سے عطائے ہمت کی دعا کرائیں۔
۴۔ ذکرُ اللہ کا اہتمام کریں۔
۵۔ اسبابِ معصیت یعنی حسین صورتوں سے قلباً و قالباً دوری اختیار کریں۔
۶۔ اور کسی اللہ والے کی صحبت میں آنا جانا رکھیں اور ان سے اصلاحی تعلق قائم کریں۔
بہرحال کیسی ہی بری حالت ہو یا کیسے ہی بُرے تقاضے دل میں پیدا ہوتے ہوں مایوس نہ ہوں۔ یہ محبت کا مادہ تو بڑی اچھی چیز ہے بشرطیکہ اس کا استعمال صحیح ہو۔ جس انجن میں پٹرول زیادہ ہوتا ہے وہ جہاز کو بہت تیزی سے لے اُڑتا ہے بشرطیکہ اس کا رُخ صحیح کردیا جائے اگر کعبہ کی طرف رُخ کردیا تو منٹوں میں کعبہ پہنچادے گا لیکن اگر جہاز کا رُخ مندر کی طرف کردیا تو اتنی ہی تیزی سے مندر پہنچا دے گا۔ عشق کا مادہ تو پٹرول ہے اگر کسی اللہ والے کی صحبت سے، ذکرُاللہ کی کثرت سے اس کا رُخ صحیح کردیا جائے تو ایسے لوگ اتنی تیز رفتاری سے اللہ کا راستہ طے کرتے ہیں کہ غیر اہلِ محبت وہاں برسوں میں بھی نہیں پہنچ پاتے۔ چنانچہ بعض رندان بادہ نوش جب اللہ کی طرف آئے تو ایک آہ میں اللہ تک پہنچ گئے۔ جس تیز رفتاری سے وہ حُسنِ مجازی کی طرف بھاگ رہے تھے اتنی ہی تیز رفتاری سے وہ اللہ کی طرف اُڑ گئے۔ ان کے آہ و نالے، گریہ و زاری، ندامت و شکستگی، اور اللہ والے صاحبِ نسبت پر ان کی وارافتگی و آشفتگی نے ان کو ایک لمحہ میں فرش سے عرش پر پہنچا دیا۔ ایسے لوگوں کے لیے احقر کا شعر ہے:
خوبرویوں سے ملا کرتے تھے میر
اب ملا کرتے ہیں اہلُ اللہ سے
مت کرے تحقیر کوئی میر کی
رابطہ رکھتے ہیں اب اللہ سے
٭٭٭٭٭