قیدیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیجیے
دشمن کے قیدیوں کا معاملہ مسلمانوں کے امیر کے اختیار میں ہے، نبی کریمﷺ نے قیدیوں کے ساتھ چار قسم کابرتاؤ کیا ہے۔ آپﷺ نے بدر کے دن نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کو گرفتاری کے بعد قتل کردیا اور غزوۂ بدر میں گرفتار باقی تمام قیدیوں کو فدیے کے عوض رہا کردیا، آپﷺ نے ثمامہ بن اثال کو گرفتاری کے بعد بغیر کسی عوض و بدلہ کے رہا کردیا اور حضرت سلمہ بن الاکوعؓ کی باندی کے تبادلے میں مسلمانوں کے قیدیوں کو رہا کروایا۔
فَاِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتّىٰٓ اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَاِمَّا مَنًّـا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَاۗءً حَتّٰى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَا
’’اور جب ان لوگوں سے تمہارا مقابلہ ہو جنہوں نے کفر اختیار کر رکھا ہے، تو گردنیں مارو، یہاں تک کہ جب تم ان کی طاقت کچل چکے ہو، تو مضبوطی سے گرفتار کرلو، پھر چاہے احسان کر کے چھوڑ دو ، یا فدیہ لے کر، یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار پھینک کر ختم ہوجائے۔‘‘ (سورۃ محمد: ۴)
یعنی کے دینِ اسلام کے علاوہ کوئی دین باقی نہ رہ جائے، اور مجاہدؒ کا قول ہے کہ جب تک عیسیٰ علیہ السلام کا زمین پر نزول نہ ہو، حسنؒ کہتے ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کی عبادت نہ کی جائے، تب تک اسیروں کے ساتھ ان تین قسم کا سلوک ہوگا۔
امام قرطبیؒ کہتے ہیں کہ مَنًّـا اور فِدَاءً کے ساتھ قتل کا ذکر نہیں آیا ، کیونکہ ان کے قتل کا ذکر آیت کے شروع میں ہوگیا ہے، کہ ان کی گردنیں مارو۔ تفسیر میں آیا ہے کہ یہ آیت محکم ہے اور امام کے پاس ہر حال میں یہ اختیا ر ہے کہ وہ قیدی کے ساتھ کیسا برتاؤ کرے، اس کو قتل کردے، فدیے کے عوض اور اس کے تبادلے کی صورت میں مسلمانوں کو رہا کیا جائے یا بغیر کسی عوض کے رہا کردے۔
قاضی کو امیر کا وکیل سمجھا جاتا ہے۔ مجاہدین اگر دشمن کے افراد کو قید کرلیں، تو جب تک قاضی ان کے بارے میں فیصلہ جاری نہ کردے، اپنی مرضی سے اس کو سزا نہ دے، مطلب یہ ہے کہ مجاہدین کو چاہیے کہ قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ تشدد، بھوک، پیاس، دھوپ اور سردی کے ذریعے ان کو تکلیف نہ دی جائے۔
سیرۃ ابن ہشام نے نقل کیا ہے، کہ جب بدر میں مشرکین پکڑے گئے تو نبی کریمﷺ نے اپنے صحابہ کرامؓ کو ان کے ساتھ نیک سلوک کی نصیحت فرمائی۔
جب صحابہ کرامؓ نے بنی حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اثال کو گرفتار کیا اور مسجدِ نبوی کے ایک ستون کے ساتھ اس کو باندھ دیا، تاکہ نبی کریمﷺ اس کے بارے میں فیصلہ کریں۔ صبح جب آپﷺ مسجد تشریف لائے تو دیکھا کہ ثمامہ کو ستون کے ساتھ باندھا ہے، تو آپﷺ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ تم نے کس کو گرفتار کیا ہے؟
صحابہؓ نے جواب دیا ، یا رسول اللہ! ہم نہیں جانتے۔
تو نبی کریمﷺ نے فرمایا: یہ ثمانہ بن اثال ہے، آپ اپنے قیدی کے ساتھ نیک سلوک کریں۔ پھر آپﷺ گھر لوٹ گئے اور فرمایا: جو خوراک گھر میں موجود ہے اس کو جمع کریں اور ثمامہ بن اثال کے لیے بھجوا دیں۔ اس کے بعد آپﷺ نے حکم دیا کہ میرے اونٹنی سے دودھ دوہا جائے اور صبح و شام ثمامہ کو پیش کیا جائے۔ اس کے بعد نبی کریمﷺ ثمامہ کے پاس تشریف لائے اور اس سے فرمایا، اے ثمامہ! تمہارے پاس کیا ہے؟
اس نے جواب دیا، میرے پاس خیر (خیرخواہی) ہے، اگر آپ نے مجھے قتل کردیا، تو ایک قاتل کو قتل کیا (میں نے آپ کے ساتھیوں کو قتل کیا تھا، تو اس کے قصاص میں قتل کردیا جاؤں گا)، اگر آپ میرے ساتھ نیکی کریں گے ( مجھے معاف کریں) تو ایک شکر گزار کو معاف کریں گے (میں آپ کا شکریہ ادا کروں گا)، اور اگر مال کا ارادہ ہو تو جتنا چاہیے اتنا میں دے دوں گا۔
نبی کریمﷺ ثمامہ کے پاس دو دن بعد دوبارہ تشریف لائے اور فرمایا، اے ثمامہ تمہارے پاس کیا ہے؟
اس نے جواب دیا: میرے پاس اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں جو میں آپ کو بتا چکا ہوں۔ اس کے بعد پہلے ذکر کی گئی باتوں کو دہرایا۔ نبی کریمﷺ واپس چلے گئے اور اگلے دن دوبارہ تشریف لائے اور گزشتہ روز کی طرح آپﷺ اور اس کے درمیان سوال و جواب ہوئے۔ نبی کریمﷺ نے اپنے صحابہ کرامؓ کی طرف دیکھا اور فرمایاِ: ثمامہ کو چھوڑ دو۔ صحابہؓ نے اسے رِہا کردیا، حالانکہ ثمامہ نے نبی کریمﷺ کے قتل کا ارادہ کیا تھا، صحابہ کو شہید کیا تھا، لیکن نبی کریمﷺ نے تمام صحابہ کے درمیان اعلانیہ اس کا خون ہدر قرار دے دیا۔
ثمامہ بن اثال رہائی کے بعد جب مسجد نبوی سے نکلے تو واپس لوٹے اور ایمان لے آئے۔ (صورمن حیاۃ الصحابہ)
صحابہ کرامؓ ثمامہ بن اثال کے ساتھ نیک سلوک سے پیش آئے، سوائے ان چار دنوں کے جس میں اسے باندھا تھا، تاکہ فرار نہ ہو یا صحابہ کو نقصان نہ پہنچائے۔ لہٰذا مجاہدین کو چاہیے کہ قیدیوں پر تشدد نہ کریں، بلکہ ان کے لیے صرف باندھنا جائز ہے یا ایک کمرے میں قید کرلیں تاکہ فرار نہ ہو یا مجاہدین کو نقصان نہ پہنچائے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا
اور وہ اللہ کی محبت کی خاطر مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ (سورۃ الانسان: ۸)
یعنی وہ نیک افراد جو اپنی بھوک کے باوجود اپنے حصے کا کھانا مساکین، یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں۔ تفسیر طبری میں آیا ہے کہ، اسیر سے مراد دارالحرب کا وہ حربی کافر ہے جو بزورِ قت گرفتار ہوا ہو، یا اس سےمراد وہ شخص ہے جو اہلِ قبیلہ سے ہو اور حق کی کوتاہی میں گرفتار ہوا ہو۔ تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان نیک افراد کی تعریف کی ہے جو ان تین قسم کے افراد کو کھانا کھلاتے ہیں۔
اہلِ قبیلہ میں وہ قیدی بھی شامل ہیں جنہوں نے جرائم کا ارتکاب کیا ہو، لہٰذا ان کو بھی قاضی کے حکم سے ماقبل سزا نہ دی جائے اور جب ان کو قیدخانے میں منتقل کرنا ہو تو اس وقت بھی اچھے اخلاق سے پیش آئیں اور ان کو باعزت طریقے سے منتقل کریں۔
بنی قریظہ کے قیدیوں کے حوالے سے نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے:
جب موسمِ گرما میں دوپہر کے وقت گرمی کی شدت زیادہ ہوگئی، تو نبی کریمﷺ نے بنی قریظہ کے بارے میں فرمایاِ، کہ ان پر اس دن کی گرمی اور اسلحے کی گرمی جمع نہ کرو، ان کو قیلولہ (دوپہر کے وقت آرام و استراحت) کے ذریعے آرام دو، تاکہ ان کی گرمی دور ہو۔ دوسری روایت میں منقول ہے، کہ ان کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ، ان کو قیلولہ کرواؤ اور پانی پلاؤ۔ بنی قریظہ پر قتل کا حکم جاری ہوا تھا، لیکن نبی کریمﷺ نے اس کے باوجود بھی ان کے ساتھ نیک برتاؤ کا حکم دیا۔
(وما علینا إلّا البلاغ المبین!)