نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home تزکیہ و احسان

دِل کی حفاظت

کینہ، بغض، حسد، عجب اور تکبر جیسی بیماریوں کے متعلق جامع درس

احسن عزیز by احسن عزیز
31 جولائی 2022
in تزکیہ و احسان, مئی تا جولائی 2022
0

الحمد للہ والصلٰوۃ والسلام علی رسول اللہ

قال اللہ تعالیٰ:

اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا (سورة بنی اسرائيل : ۳۶)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے…… اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ بیشک کان اور آنکھ، وَالْفُؤَادَ اور دل، كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ یہ جتنے ہیں یہ سبھی، كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا ان ساروں سے سوال کیا جائے گا۔

کان،آنکھ اور دل…… اللہ تعالیٰ نے تین جوارح کا اس میں تذکرہ کیا ہے۔ کان سے ہم اچھی اور بری بات سنتے ہیں اور سن سکتے ہیں۔ آنکھوں سے اچھی اور بری چیز دیکھ سکتے ہیں اور دل میں ہم اچھے اور برے خیالات کو جگہ دے سکتے ہیں۔ جو ظاہری اعمال ہيں ان کے بارے میں تو ہر کوئی جانتا ہے، انسان کے جسم کے ہاتھ پاؤں،آنکھ کے بھی اعمال ظاہری ہیں، کان کے بھی اعمال ظاہری ہیں۔ لیکن یہاں پہ ایک اور بات اللہ تعالیٰ نے فرمائی دل کے بارے میں، فُؤَادَ…… دل کی بھی پوچھ ہوگی۔ کچھ اعمال ایسے ہیں جو اعمالِ قلب ہیں، قلب کے اعمال ہیں۔ عام طور پہ انسان کی نظر ظاہری اعمال پہ بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن قلب کے جو اعمال ہیں اس کے اوپر نظر نہیں ہوتی۔ تو یہ جو صوفیا ہیں اور اصلاحی سلسلے ہیں یہ قلب کی اصلاح پہ بہت زور دیتے ہیں اور قلب کے اعمال کو درست کرنے کی طرف بہت توجہ دیتے ہیں۔

قلب کے اعمال کیا ہیں؟ قلب کے اچھے اور برے اعمال، مثلاًبرائیوں کو اگر ہم لیں تو کسی مسلمان سے کسی بات میں حسد کرنا، یہ قلب کا عمل ہے۔ کسی سے بغض رکھنا، نفرت کرنا، یہ قلب کا عمل ہے۔ دل میں کینے کو پرورش دینا، یہ قلب کے اعمال میں سے ہے۔ سوئےظن کرنا کسی مسلمان کے خلاف، بے جا بدگمانی کرنا، یہ قلب کے اعمال میں سے ہے۔ جہاں جوارح کے اعمال برے ہیں، اسی طرح قلب کے جو برےاعمال ہے اُن کی اصلاح کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ عام طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ ہم اپنے ظاہری اعمال کو درست کریں۔ گناہوں سے بچیں، آنکھ کوئی گناہ نہ کرے، کان کوئی گناہ نہ کریں، ہاتھ کوئی گناہ نہ کریں، قدم گناہ کی طرف چل کر نہ جائیں۔ تو اس طرف تو مسلمانوں کی توجہ ہوتی ہے۔ لیکن قلب کے اعمال کی طرف توجہ نہیں ہوتی۔ تو دل کے اوپر ہمیشہ نظر رکھنی چاہیے۔ دل بادشاہ ہے انسان کا۔ دل جو ہے انسان کو چلاتا ہے۔ دل جس طرف رُخ کرے، جس طرف انسان کو لے جانے کے لیے ارادہ کرلے، فیصلہ کرلے، انسان اس کے پیچھےچل پڑتا ہے۔ جہاں پہ دل کسی نیک کام کی ٹھان لے تو اس کے لیے انسان چل پڑتا ہے۔ حتیٰ کے اس نیک کام کےلیے اپنی جان بھی دے دیتا ہے۔ چونکہ اس کے دل نے یہ ارادہ کرلیا تھا کہ میں نے یہ نیک کام کرنا ہے چاہے اس میں میری جان چلی جائے۔ اور ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو برے کام کا ارادہ کریں دل میں اور اس کے پیچھے وہ لوگ چل پڑتے ہیں اور بعض اوقات اس کے لیے اپنی جان بھی دے دیتے ہیں۔ چاہے وہ یک لخت دے دے اپنی جان یا چاہے وہ رفتہ رفتہ اپنے آپ کو ہلاکت کی طرف لے جائے۔ تو انسان کا دل جو ہے وہ طرح طرح کی وادیوں میں بھٹکتا ہے، طرح طرح کے خیالات اس میں آتے ہیں۔ تو بندۂ مومن کا یہ کام ہے کہ وہ اپنے ظاہری اعمال کے ساتھ اپنے دل کے اعمال پر بھی نظر رکھے۔

نبی کریمﷺ کی جو تعلیمات ہیں…… آپ دیکھیے ایک چھوٹی سی حدیث ہے جس میں فرمایا کہ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی کبر (تکبر) ہوگا، وہ جنت میں نہیں جاسکے گا۔ تو ذرہ برابر کبر کتنا ہوتا ہے اور تکبر اتنی بڑی چیز ہے، اتنی بری چیز ہے کہ وہ انسان کو جنت سے محروم کردیتا ہے۔ اپنے آپ کو بڑا سمجھنا، اپنے آپ کو برتر سمجھنا۔

نبی کریمﷺ کے پاس یعنی دیوانے، مجنون لوگ یا کمزور لوگ، لونڈیا ں، غلام، کنیزیں، ایسے لوگ آتے تھے اور اپنے مسائل بیان کرتے تھے اور مدد کا تقاضافرماتے تھے اور آپ اُٹھ کے چل پڑتے تھےان کی مدد کے لیے۔ کبھی کسی کو یہ نہیں کہا کہ تمہاری یہ حیثیت نہیں کہ میں تمارے ساتھ بات کروں یا میری وہ حیثیت نہیں کہ میں تمہاری بات کو سنوں۔ اسی طرح ایک دیوانی سی سادہ لوح عورت آئی اور اس نےکہا کہ میں نے الگ سے بات کرنی ہے، نبیﷺ نے اُٹھ کے اس کی بات سنی اور کہا کہ جہاں تم کہو گی وہاں میں تمہاری بات سنوں گا۔ حمار کے اوپر بیٹھ جاتے تھے۔ گدھے کی سواری جو ہے وہ عام تھی، رواج تھا اس معاشرے میں، تو کبھی تکبر نہیں فرمایا کہ گدھا جو ہے وہ اس لائق نہیں کہ میں اس پر سوار ہوں۔ نبی کریمﷺ کی یہ شان تھی۔

حضرت عمرؓ اپنے بارے میں کہہ رہے ہیں بھری مجلس میں کہ میں وہ ہوں کہ بکریاں چرانے پہ جس کا باپ اسےمارا کرتا تھا۔ یعنی اپنی عاجزی کا وہ لوگ اظہار کرتے تھے کہ ہماری اوقات جو ہے وہ ایک بندے سے زیادہ نہیں ہے۔ لیکن کیا اس عاجزی کے اظہار کرنےکی وجہ سے کبھی کم ہوگئی تھی ان کی شان؟ کبھی کم نہیں ہوئی اور اسی عجز اور انکساری کی وجہ سے ان میں بے پناہ صبر پیدا ہوگیا تھا۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ بھری مجلس میں ایک آدمی نے ان سے کہا کہ آپ حرام کی اولاد ہیں، تو امام ابو حنیفہ نے بڑے تحمل سے اس کو جواب دیا کہ نہیں میرے ماں باپ کے جو نکاح کے گواہ ہیں، وہ زندہ ہیں۔ اس نے کہا، اچھا مجھے بتاؤ وہ کون ہیں؟ تو امام ؒ چل پڑے، وہ آدمی بھی پیچھے پیچھے چل پڑا اور وہ گر گیا۔ امام نے پیچھے مڑکے دیکھا تو وہ مرچکا تھا۔ فرمایا؛ اس کو میرے صبر نے ماردیا۔ تو جس بندےکے اندر انکساری ہوگی، عجز ہوگا، تو اس کے اندر لا محالہ صبر اور تحمل بھی پیدا ہوگا۔

اب دنیا کے معاملات اور کاروبارِ زندگی جو ہے وہ رواں دواں رہتا ہے جب صبر ہو۔ جب صبر نکل جائے، تحمل ختم ہوجائے توسارے کاموں میں رکاوٹیں آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ نیکی اور ہدایت پہ ہونے کے باوجودبے صبری انسان کے اعمال میں اور اس کی زندگی کے معمولات میں رکاوٹ پیدا کردیتی ہے۔

تو بات ہورہی تھی دل کے اعمال پہ، تو دل کے اوپر ہمیشہ نظر رکھنی چاہیےکہ دل میں کسی کے لیے کینہ اور بغض تو نہیں ہے، دل میں کسی کو حقیر تو نہیں جانتا، دل میں اپنے آپ کو عجب کا شکار تو نہیں کیا کہ میں دوسروں سے برتر ہوں اور میں جو ہوں دوسروں سے اعلیٰ ہوں اور میں جو ہوں زیادہ مقرب ہوں اللہ کا، میں زیادہ عبادت گزار ہوں اور میں نے زیادہ خدمت کی ہے۔ تو ہمیشہ اس چیز پر نظر رکھیں کہ اگر اللہ نے مجھے کوئی خوبی دی ہےتو وہ میرے اپنے کسب سے نہیں ہے، وہ اللہ کی دَین ہے اللہ کی عنایت ہے۔

اور عنایت ابتلا (آزمائش) ہوتی ہے۔ جوبھی نعمت ہے وہ ابتلا ہے۔ اور نجانے جو اللہ نے مجھے نعمت دی ہے، جو میں نے کوشش کی ہے یا جس چیز میں مجھے اللہ تعالیٰ نے باقیوں پر مجھے فضیلت دی ہے، پتا نہیں وہ میرے لیے جنت کا ذریعہ ہے یا جہنم کا ذریعہ ہے، یہ تو نہیں معلوم۔ ایک بندے کو اللہ تعالیٰ نے بہت حسین و جمیل بنایا ہے اور بہت طاقتور بنایا ہے، بڑا شجاع بنایا ہے۔ تویہ ساری چیزیں اس کے لیے ہلاکت کا باعث بن سکتی ہیں۔ اس کا حسن و جمال جو ہے اس کو دنیا میں غرق کرسکتا ہے۔ اس کی شجاعت جو ہے اس کو چورو ڈاکو بنا سکتی ہے۔ اس کی اور کوئی خوبی اور کمال جو ہےوہ اس کے برے راستے کے اوپر کام آسکتا ہے۔ اگر کوئی نعمت اللہ نے دی ہے، فضیلت دی ہےتو اس کو کیا کرنا چاہیے؟ اللہ کی طرف سے ابتلاء سمجھنی چاہیےکہ یہ میرا امتحان ہے اور اس نعمت کے جواب میں، میں جو کچھ کررہا ہوں پتا نہیں مقبول ہوگا کہ نہیں؟ تو اس سے جو ہے عجب کی اور کبر کی جڑ کٹ جاتی ہے۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے ایک آدمی نے کہیں کسی کو برائی سے روکا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کہا…… کہ یہ غلطی نہ کرو۔ تو آپ نے ان سے پوچھا، یہ ان کا زیرِ تربیت تھا۔ انہوں نے پوچھا کہ تمہیں امر بالمعروف کی شرائط معلوم ہیں؟ کہا نہیں۔ کہا اس کی ایک اہم شرط تو یہ ہے کہ جب تم کسی کو نیکی کا حکم دو یا کسی برائی سے روکوتو اپنے آپ کو اس سے کم تر جانو، اپنے آپ کو اس سے کم تر جانو…… نہ کہ یہ، کہ دل میں یہ پیدا ہوگیا کہ اچھا اس میں تو یہ خرابی ہے، میرے میں نہیں ہے۔ ماشاءاللہ الحمدللہ میں تو اس سے بڑا افضل ہوں۔ خرابی اس میں ہے میرے میں نہیں ہے۔ نجانے اس کی جو ایک خرابی ہے اللہ اس کو معاف کرنے والا ہو اور نجانے ہمارے اندر کتنی خرابیاں ہوں جس کے اوپر اللہ ہمیں پکڑنے والا ہو۔ تو کبھی بھی مخلوقِ خدا کو، عامۃ المسلمین کو، یا دوسرے مسلمانوں کو، دوسرے مجاہدین کو حقیر نہیں جاننا چاہیے، کم تر نہیں جاننا چاہیے اور اپنے دل کے اعمال کے اوپر نظر رکھنی چاہیے۔ دل جو ہے وہ چھپا ہوا ہے۔ دل کسی نے نہیں دیکھا، لیکن اس دل میں جو کچھ پرورش پارہا ہے، یہ دل جو جو عمل کررہا ہے، ہر لمحے دل کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ہے، برائی کا پکا ارادہ کرے گا…… دل میں برائی کا وسوسہ آجائے تو وہ معاف ہے، لیکن برائی کا پکا ارادہ جب انسان کرلے اور نیت باندھ لے دل میں تو اس کے اوپر پکڑ ہے۔ وسوسے معاف ہیں لیکن جب دل میں پکا ارادہ کریں گےتو فقہا نے لکھا ہے کہ اس کے اوپر پکڑ ہے۔

اسی طرح کسی کو حقیر جاننا، کسی کو کمتر جاننا، اپنے آپ کو افضل سمجھنا۔ نبی کریمﷺ نے اس چیز کا راستہ ایسے بند فرمایا کہ کبھی بھی امتیاز نہیں آنے دیا۔ خود اپنے بارے میں ایک دفعہ سفر پہ جارہے تھے تو ہر شخص نے اپنے اپنے ذمے کا م لیا تو آپﷺ نے فرمایا میں لکڑیاں چنوں گااور امتیاز نہیں آنے دیا۔ کہ میری شانِ رفیع جو ہے وہ وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ، آپ کے ذکر کو، آپ کے چرچے کو ہم نے بلند فرمایا۔ تویہ نبی کریمﷺ کی شاِن رفیع جوتھی اس میں کوئی کمی تونہیں آگئی لکڑیاں چن لینے سےبلکہ آپ ﷺ کی عظمت کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا۔ تو ہر وہ چیز جس سے دلوں میں فرق آجائے ہر وہ چیز جس سے دلوں میں امتیاز پیدا ہوجائے۔ نبی کریمﷺ نے اس کو منع فرمایا ہےاس کو ناپسند فرمایا ہے۔ جب صحابہ کرامؓ کے درمیان آتے تھےتو ادب کا تقاضا تھا اور اس بات پر صحابہ کرامؓ کے دل پھٹتے تھے کہ اب کھڑے ہوجائیں اور نبی کریمﷺ کا کھڑے ہوکر استقبال کریں لیکن نبی کریمﷺ نے منع فرمایا کہ اس طرح مت کرو، میرے لیے کھڑے مت ہوا کرو، تو صحابہ کرام جو ہیں اپنے دلوں پر جبر کرکے بیٹھے رہتے تھے، نہیں کھڑے ہوتے تھےکہ ادب کے خلاف ہے، جب منع کردیا تو ادب کے خلاف ہوگیا۔ تو اپنے دل پر جبر کرتے تھے لیکن نبی کریمﷺ کی اطاعت فرماتے تھے اور آپﷺ کی خوشی کا خیال رکھتے تھے۔ اسی کا نام ادب ہوتا ہے۔ ادب کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کسی کی بلاضرورت خدمت شروع کردیں، جو خدمت نہیں چاہ رہا اس کی بھی آپ خدمت شروع کردیں۔ ادب کا تو یہ مطلب ہوتا ہے کہ دوسروں کو خوش رکھیں اور دوسروں کو راحت پہنچائیں۔ کبھی خدمت کرنے میں راحت ہوتی ہے اور کبھی نہ کرنے میں راحت ہوتی ہے۔ توخیر یہ تو ایک ضمنی بات تھی۔

تو بھائی! دل کے جو اعمال ہیں، عامۃ المسلمین کے بارے میں، اکثر مجاہدین کے دلوں میں یہ عجب پیدا ہوجاتا ہے کہ ہم باقی مسلمانوں سے افضل ہیں اور ہم نے جہاد کیا ہے، باقی لوگ جہاد نہیں کررہے۔ تو یہ عُجب ہے، یہ بھی مستحسن (یعنی اچھا) نہیں ہے، یہ بھی پسندیدہ نہیں۔ کیا پتا کسی مسلمان کی دعا سے ہمارا سفر چلتا ہو، ہمارے جہاد کی گاڑی چلتی ہو۔ جو گھروں کے اندر بیٹھی ہوئی عورتیں ہیں، بچیاں ہیں، مائیں ہیں، بوڑھے ہیں، پڑوسی ہیں، نجانے کتنے لوگ ہیں کہ جن کی دعائیں لگتی ہیں۔ وہ حدیث سنی ہوگی آپ لوگوں نے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے جو بیٹے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ میرے والد کا یہ گمان تھا کہ ان له فضل على من دونه۔ حضرت سعدؓ کا خیال تھا کہ مجھے باقیوں پر، دوسرے اصحاب رسولﷺ پر فضیلت حاصل ہے۔ تو جب رسول اللہﷺ سے انہوں نے یہ حدیث سنی کہ انما ينصر هذه الامة بضعيفها، کہ اس امت کی مدد اس کے کمزوروں کی وجہ سے کی جاتی ہے، اس کے دلیروں اورشجاع لوگوں کی وجہ سے نہیں کی جاتی۔ بضعيفها، کمزور لوگوں کی وجہ سے اس امت کی مدد کی جاتی ہے۔ ان کی دعاؤں کے نتیجے میں، ان کی نمازوں کے نتیجے میں اور ان کے اخلاص کے نتیجے میں…… اس کے طفیل اس امت کی مدد کی جاتی ہے۔ تو کبھی بھی کسی بھی انسان کی اپنے کارناموں پر نظر نہیں ہونی چاہیےبلکہ ہمیشہ اپنی کوتاہیوں پر نظر ہونی چاہیے۔ دوسرے مسلمانوں کی کوتاہیوں پر نظر نہیں ہونی چاہیے بلکہ دوسرے مسلمانوں کی خوبیوں کےاو پر نظر ہونی چاہیے۔ تو عجب،کبر اور دل کے جو برے اعمال ہیں، حسد ہے، کینہ ہے، بغض ہے، ان چیزوں سے اپنے آپ کو ہمیشہ پاک رکھنے کی کوشش کریں اور اس بات کی کوشش کریں کہ ہمارے اور عام مسلمانوں کے درمیان امتیاز نہ آئے۔ ہمارے اور دوسرے مجاہدین کے درمیان امتیاز نہ آئےکہ جس سے یہ ظاہر ہو کہ ہم جو ہیں اعلیٰ ہیں اور دوسرے جو ہیں وہ ادنیٰ ہیں۔ نعوذ باالله من ذلك۔ یا ہم جو ہیں وہ بلند مرتبہ ہیں اور دوسرے جو ہیں وہ کم مرتبہ ہیں۔ ہماری شان زیادہ ہے، دوسروں کی شان کم ہے۔ کبر جو ہے…… تکبر، یہ انسان اپنے دل میں تو بہت بڑا بنارہتاہے لیکن دوسروں کے نگاہوں میں مسلمانوں کے نگاہوں میں اللہ اسے ذلیل کردیتے ہیں اور عاجزی و انکساری ایسی چیز ہےکہ جس کے بارے میں آتا ہے کہ وہ انسان کے درجات کو بلند کرتی ہے۔ ما تواضع احدٌ لله، کوئی ایسا بندہ نہیں کہ جس نے اللہ کی خاطر تواضع اختیار نہ کی ہو، الا رفعه الله عزوجل، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو رفعت نہ دی ہو۔ عزت و جلال تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے تو وہ اس بندے کو رفعت دیتا ہےبلندی دیتا ہے۔ تو بلندی اور رفعت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور یہ کس کا ثمرہ ہے؟ عاجزی و انکساری کا۔ جتنے لوگ دنیا میں، اسلام کی تاریخ میں گزرے…… جنہوں نے بڑے بڑے کارنامے کیےاور بڑی بڑی جنگوں میں اسلام کی خدمات انجام دیں، یہ سارے وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے آپ کو مٹایا ہے، جنہوں نے اپنے آپ کو دوسرے سے ہمیشہ کمزور جانا ہے، جنہوں نے دوسروں کو ہمیشہ اپنے سے افضل جانا ہے۔ دوسروں کو افضل جاننا اور اپنے آپ کو ناکارہ جاننا، یہ ایمان کی علامتوں میں سے ہے۔

تابعین میں سے ایک تابعی کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے ستر سے زیادہ اصحاب سے ملا۔ ان میں سے ہر ایک کو اپنے منافق ہونے کا خطرہ تھا۔ اصحاب رسولﷺ ہیں، ان کے بارے میں ہے کہ اللہ ان سے راضی، وہ اللہ سے راضی ہیں۔ پوری گارنٹی ہے، پوری ضمانت ہے کہ وہ جنتی ہیں، بخشے بخشائے ہیں۔ عدول ہیں سب کے سب، لیکن اپنے بارے میں وہ کتنی عاجزی والے تھے، کہ ایک تابعی کہتے ہیں کہ میں ان میں سے ستر سے زیادہ سےملا، ان میں سے ہر ایک صحابی کو اپنے اوپر نفاق کا خطرہ تھا کہ میں منافق ہوں۔ حضرت عمر فاروقؓ جیسے جلیل القدر صحابی آئے اور حضرت حذیفہ بن یمان…… حذیفہ ابن یمان کون تھے؟ صاحبِ اسرارِ رسولﷺ۔ حضرت حذیفہ بن یمانؓ کو رسول اللہﷺ نے سارے منافقین کی فہرست بتائی ہوئی تھی کہ یہ منافقین ہیں…… مدینے کے اندر فلاں فلاں منافق ہے۔ حضرت عمرفاروقؓ آئے اور حضرت حذیفہ سے پوچھا کہ حذیفہ! ان منافقین کی فہرست مجھے دے دو۔ آپؓ نے کہا کہ جس بات کو اللہ کے رسولﷺ نے مجھے راز میں دیا ہے میں کبھی افشا نہیں کروں گا۔ کہا اچھا میرا نام تو نہیں ہے ان میں۔ آپؓ نے کہا، ہاں اتنا بتا دیتا ہوں آپ کو، کہ آپ کا نام نہیں ہے اس میں اور آج کے بعد یہ بات بھی کسی کو نہیں بتاؤں گا۔ تو آپ دیکھیے کہ وہ عمر فاروقؓ کہ جس راستے سے وہ گزرتے ہیں تو شیطان وہ راستہ چھوڑ دیتا ہے، وہ اپنے بارے میں ڈرتے ہیں کہ میں شاید منافق ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسی ہستی نے بھی اپنے آپ کو اعلیٰ نہیں سمجھا، برتر نہیں سمجھا، انہیں بھی اپنے اوپر ہمیشہ نفاق کا خطرہ رہتا تھا۔ توہمارے اعمال کیا ہیں اور ہماری اوقات کیا ہے اور ہمارا انجام کیا؟ کسی کو نہیں معلوم!!

اس لیے اپنے آپ کو کم تر سمجھنا اور اپنے آپ کو حقیر سمجھنا لازمی ہے۔ مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو حقیر ہیں، ناکارہ ہیں، ناچیز ہیں…… کہتے ہیں، یہ تو اس وقت پتا چلے گا کہ آپ حقیر ہیں کہ جب کوئی دوسراآپ کو کہے کہ آپ تو حقیر ہیں۔ ایسے وقت میں تو آپ بھڑک اٹھتے ہیں۔ جب آپ کو کوئی کہے کہ آپ تو ناکارہ ہیں، ناچیز ہیں، حقیر ہیں، تو آپ بھڑک اٹھتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنے آپ کو ناکارہ نہیں سمجھتے ہیں، آپ سمجھتے ہیں کہ آپ بڑی چیز ہیں۔ تو اس کا امتحان تو تبھی ہوتا ہے کہ آپ میں کتنی عاجزی ہے کہ جب دوسرا آپ کو للکارتا ہے، اور جب وہ ایسا کرتا ہے تو آپ اس سے سیخ پا ہوتے ہیں۔

اس لیے میرے بھائیو! آخرت کا سفر جو ہے بڑا مشکل ہے۔ آخرت کے سفر میں اپنے اوپر نظر رکھنا اور اپنے اعمال پہ نظر رکھنا…… اور سب سے مشکل کیا ہے؟ اپنے قلب کے اوپر، اپنے دل کے اوپر نظر رکھنا اور دل کے اعمال کی پروا کرنا کہ دل کے اندر تکبر پیدا نہ ہو۔ دل کے اندر سوئے ظن پیدا نہ ہو، حسد پیدا نہ ہو، دوسروں سے کینہ اور بغض نہ ہو۔ یہ وہ چیزیں ہیں کہ جو بڑے مرتبے دلاتی ہیں انسان کو۔ اگر دل صاف ہےاہلِ ایمان کے بارے میں تو نماز اور روزہ انسان کو اس درجے پر نہیں پہنچا سکتا، جس تک آپ کے دل کے اعمال آپ کو پہنچاتے ہیں۔ ایک بندہ نماز پڑھتاہے، روزے رکھتاہے لیکن اس کادل بغض، کینے، حسد اور تکبر سے بھرا ہوا ہے…… یہ چیزیں اس کو کون سے رتبےدلاسکیں گی۔ ایک بندہ ہے جس کے ظاہری اعمال تھوڑے ہیں لیکن اس کا دل شیشے کی طرح صاف ہے، اس میں کسی مسلمان کے لیے نفرت نہیں ہے، کسی مسلمان کے لیے حقارت کے جذبات نہیں ہیں۔ تو اس کادرجہ یقیناً اس مسلمان سے بڑا ہوگا جو بظاہر بہت آگےہے لیکن اس کا دل غلاظت سے بھرا ہوا ہے۔ تو اللہ سے ہمیشہ یہ دعا مانگی جائے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں سلامتِ صدر عطا فرمائے اور دل ہمارے صاف ہوجائیں۔

و آخر دعوانا ان الحمدللہ ربّ العالمین۔

Previous Post

امیر المومنین شیخ ہبۃ اللہ اخوندزادہ نصرہ اللہ کی ہدایات…… مجاہدین کے نام | مئی تا جولائی ۲۰۲۲

Next Post

بدنظری اور عشق مجازی کی تباہ کاریاں اور اس کا علاج

Related Posts

اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | نویں قسط

26 ستمبر 2025
اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | آٹھویں قسط

14 اگست 2025
اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | ساتویں قسط

14 جولائی 2025
اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط

9 جون 2025
اصلاحِ معاشرہ | پہلی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | پانچویں قسط

25 مئی 2025
اصلاحِ معاشرہ | پہلی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | چوتھی قسط

31 مارچ 2025
Next Post

بدنظری اور عشق مجازی کی تباہ کاریاں اور اس کا علاج

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version