نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | پانچویں قسط

سورۃ الحجرات کی روشنی میں

بلال عبد الحی حسنی ندوی by بلال عبد الحی حسنی ندوی
25 مئی 2025
in تزکیہ و احسان, اپریل و مئی 2025
0

 وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ فَاِنْ فَاۗءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ ۝ (سورۃ الحجرات: ۹)

’’ اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے کے ساتھ زیادتی کرے تو اس گروہ سے لڑو جو زیادتی کر رہا ہو، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ چنانچہ اگر وہ لوٹ آئے، تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کرادو، اور (ہر معاملے میں) انصاف سے کام لیا کرو، بیشک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ ‘‘

صلاح واصلاح کا اسلامی نظام

عالمگیر فساد

صلاح و اصلاح کا جو عالمی نظام اسلام نے پیش کیا ہے، اگر اس کو دنیا اختیار کر لے تو فساد و افساد کے عالمگیر ماحول میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے، سیلاب جتنا تیز ہو بند اس کی شدت کو دیکھ کر باندھا جاتا ہے، آج پوری دنیا جس طرح کرپشن کا شکار ہے، اتنے وسیع پیمانہ پر شاید ہی کبھی بگاڑ پھیلا ہو، قرآن مجید نے اس کی وجہ بھی بیان کردی ہے:

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ (سورۃ الروم: ۴۱)

’’خشکی اور تری میں بگاڑ پھیل گیا ہے، لوگوں کے کرتوتوں کی وجہ سے۔‘‘

اعمال کی خاصیتیں

اللہ تعالیٰ نے جس طرح اشیاء میں خواص رکھے ہیں ، اسی طرح اعمال میں بھی خواص رکھے ہیں ، حدیثوں میں اس کی تفصیلات موجود ہیں ، گانے بجانے اور فحاشی کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے بعد زلزلوں اور طوفانوں کی کثرت ہوتی ہے، زمانہ اس کا گواہ ہے، دنیا میں آج فحاشی اور گانے بجانے کو جس طرح ایک فن کی شکل دے دی گئی ہے اور اس کو تعلیم کا اہم جزء بنا دیا گیا ہے، شاید پہلے اس کا تصور بھی نہ کیا گیا ہو گا، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مختلف ملکوں میں زلزلوں اور طوفانوں کا ایک تسلسل سا معلوم ہوتا ہے۔

دنیا میں قیامت سے پہلے قیامت کا منظر نگاہوں کے سامنے ہے، ہر شخص کو صرف اپنی فکر لگی ہے، اپنے تھوڑے سے فائدہ کے لیے وہ سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہے، اس خود غرضی کی خاصیت بے برکتی ہے، اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ افراد افراد کے ساتھ، جماعتیں جماعتوں کے ساتھ اور ملک ملکوں کے ساتھ برسر پیکار ہیں ، عدل و انصاف کے پیمانے بدل گئے ہیں ، اصول و اخلاق کا توازن بگڑ گیا ہے۔

اصلاح کی دعوت

اسلام نے صرف صلاح ہی نہیں بلکہ اصلاح کی بھی دعوت دی ہے، سیلاب آتا ہے تو کوئی اپنے گھر کے دروازے بند کر کے محفوظ نہیں رہ سکتا، تیز موجیں اس کا خاتمہ کر کے دم لیں گی، اس کا طریقہ صرف یہ ہے کہ سیلاب کو روکنے کی کوشش کی جائے اور اس کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دی جائے۔

موجودہ عالمی نظام کا سب سے بڑا نعرہ آزادی کا ہے، کوئی کچھ بھی کرے کسی کو اس وقت تک روکنے کا حق نہیں جب تک وہ دوسرے سے تعرض نہیں کرتا اور اس قانون میں بھی ایسا کھوکھلا پن ہے کہ ملک ملک کو ہڑپ کر جاتے ہیں ، کسی کے منہ میں زبان نہیں جو بولے ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کا اندھا نظام اپنی ترقی یافتہ شکل میں پوری طرح موجود ہے۔

اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اس کا مکلف کیا ہے کہ وہ صلاح کے ساتھ اصلاح کے عمل کو جاری رکھیں ، آپس کے جھگڑوں کو دور کریں ، نزاعات کا تصفیہ کریں ، تاکہ اللہ کی بخشی ہوئی صلاحیتیں صحیح مثبت اور تعمیری کاموں میں صرف ہوں ، خاص طور پر اگر ایمان والوں میں نزاعی شکلیں پیدا ہو جائیں تو اصلاح کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔

آپس کے جھگڑوں کا وبال

آپس کے جھگڑے خواہ کتنے ہی معمولی کیوں نہ نظر آتے ہوں ، اسلام میں ان کو بدترین گناہوں میں شمار کیا گیا ہے، ایک حدیث میں ان کو ’’حالقہ‘‘1سے تعبیر کیا گیا ہے، حالقہ استرے کو کہتے ہیں ، جس طرح استرے سے سر کے بال صاف ہو جاتے ہیں ، اسی طرح آپس کے جھگڑوں سے دین آہستہ آہستہ نکل جاتا ہے، جو اعمال کیے گئے ہیں اس کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ اعمال رائیگاں نہ چلے جائیں ، اس لیے کہ نزاع میں عام طور پر آدمی اپنی زیادتی محسوس نہیں کر پایا، وہ فریق ثانی پر ظلم کرتا ہے، لیکن اپنے آپ کو مظلوم سمجھتا ہے، دوسرے کا حق مارتا ہے، اس کے ساتھ نا انصافی کرتا ہے، لیکن خود انصاف کی دہائی دیتا ہے، اس کے اس ظلم و زیادتی کے نتیجہ میں حرماں نصیبی اس کا مقدر بنتی ہے، دنیا میں وہ اس کو اپنی عزت کا سوال سمجھتا ہے، لیکن آخرت میں اس سے بڑھ کر مفلس کون ہو گا کہ نیکیوں کے باوجود اس کے بارے میں جہنم کا فیصلہ کر دیا جائے۔

جھگڑوں کی خاصیت اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کمزوری پیدا ہو جاتی ہے، دشمن کو غالب آنے کے مواقع حاصل ہو جاتے ہیں ، قرآن مجید میں ارشاد ہے:

وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا ۭ (سورۃ الانفال: ۴۶)

’’اور آپس میں جھگڑا مت کرو (ورنہ تو) تم ناکام ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور ثابت قدم رہو۔‘‘

صلح صفائی کا حکم

جس طرح خود جھگڑوں میں پڑنا باعث خفت و ذلت ہوتا ہے اور اس سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے، اسی طرح اہل ایمان کو یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ جھگڑے کے ماحول کو بھی بدلنے کی کوشش کریں اور اگر اہل ایمان آپس میں الجھ رہے ہوں تو ان میں صلح کرا دی جائے، دو ٹوٹے دلوں کو جوڑنا اور آپس میں صلح کرا دینا اتنا اہم اور فضیلت والا کام ہے کہ اس کے لیے اگر کچھ بات بھی بنانی پڑے تو اس کی اجازت دی گئی ہے۔

سورۃالحجرات کی چھٹی آیت میں یہ حکم تھا کہ ہر سنی سنائی بات پرکان نہ دھرا جائے، اگر ایسا شخص کوئی خبر لے کر آیا ہے جس کا اعتبار نہیں تو بغیر تحقیق کوئی اقدام نہ کیا جائے، اگر غلطی ہو گئی تو اس کا نتیجہ جھگڑے کی شکل میں ظاہر ہو گا، اور یہ بات بڑھتے بڑھتے قتل و غارت گری تک پہنچ سکتی ہے، اسی لیے اسی سورہ کی نویں آیت میں یہ تلقین کی جا رہی ہے کہ اگر اہل ایمان میں جھگڑے کی یہ شکل پیدا ہو تو ان میں صلح کی کوشش کی جائے اور اگر کوئی فریق صلح پر رضامند نہ ہو تو حتی المقدور اس کو اس پر آمادہ کیا جائے، ارشاد ہوتا ہے:

وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا ۚ

’’اور اگر اہل ایمان میں دو فریق لڑ پڑیں تو ان دونوں میں میل ملاپ کرا دو۔‘‘

عربی گرامر کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر اسم (Noun) پر ’’إن‘‘ کا لفظ آ جائے تو اس کے بعد فعل ماضی، مضارع کے معنیٰ دیتا ہے، یہاں پر بھی بظاہر یہی مفہوم ہے کہ اگر دو گروہوں میں جھگڑا بڑھ جائے اور اس کا خطرہ پیدا ہو جائے کہ وہ قتل و غارت گری شروع کر دیں گے تو دونوں میں صلح کرا دو، صلح کا یہ کام جتنی جلدی کرا دیا جائے، اور بات آگے نہ بڑھنے دی جائے، اتنا ہی یہ آسان ہے، جتنی اس میں تاخیر ہوتی جاتی ہے، دشواریاں بڑھتی جاتی ہیں ۔

خود صلح کرانے میں دشواری ہو اور اس کا غالب امکان ہو کہ دونوں فریق یا دونوں میں سے کوئی ایک فریق اس کی بات ماننے پر رضامند نہ ہو گا تو بہتر ہے کہ درمیان میں ایسے لوگوں سے ثالثی کرائی جائے جن کا دونوں فریقوں پر اثر ہو اور دونوں فریق اس کی بات میں وزن محسوس کرتے ہوں ۔

آیت کے شانِ نزول میں بعض واقعات بھی نقل کیے جاتے ہیں ، لیکن اس میں خطاب جس طرح قرنِ اوّل کے مسلمانوں کو کیا گیا ہے، اسی طرح قیامت تک کے مسلمان اس کے مخاطب ہیں ، ان کی ذمہ داری ہے کہ اصلاح کے عمل کو جاری رکھیں ، اگر صورت حال یہ پیدا ہو کہ ایک گروہ ظلم و زیادتی پر آمادہ ہو جائے اور وہ کسی کی بات سننے کو تیار نہ ہو تو ہر ممکن طاقت سے اس فریق کو ظلم و زیادتی سے روکا جائے، ارشاد ہوتا ہے:

فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ

’’پھر اگر ان میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کے لیے جھک جائے۔‘‘

’’بغی‘‘ بغاوت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، لیکن اس کے اصل معنی حد سے تجاوز کرنے اور زیادتی کرنے کے ہیں ، جو فریق بھی زیادتی کر رہا ہو اور بات سننے کا روادار نہ ہو تو مسلمانوں کے نمائندہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر طرح سے روکنے کی کوشش کریں ، جہاں مسلمانوں کے پاس قوتِ نافذہ ہو، وہ اس قوت کا استعمال کریں تاکہ فساد کا وہ دروازہ بند ہو جائے، اور جہاں قوتِ نافذہ نہ ہو وہاں سماج کے دباؤ سے اجتماعی اور قانونی طاقت سے زیادتی کرنے والے فریق کو روکنے کی کوشش کی جائے۔

صلح کرانے کے آداب

آگے جو بات کہی جا رہی ہے وہ صرف اسلام ہی کے متوازن عادلانہ نظام کا ایک حصہ ہے، دوسری جگہ اس کا تصور بھی مشکل ہے، طاقت سے ایک فریق کو روکنے کے باوجود اصلاح کی دوسری کوشش کا حکم دیا جا رہا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب قوت کے استعمال میں بھی اعتدال و توازن قائم رہے، سب سے مشکل ترین کام ہے، آدمی خلاف ہوتا ہے تو دشمنی کی ساری حدود پار کرنے لگتا ہے، چاہتا ہے تو محبوب کی خامیاں خوبیوں کی شکل میں اس کو نظر آتی ہیں ، اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ :

أحبب حبیبک ھونا ما عسی أن یکون بغیضک یوما ما، وابغض بغیضک ھونا ما عسی أن یکون حبیبک یوما ما

’’محبوب سے محبت کرو تو بھی اعتدال کے ساتھ، ممکن ہے کہ کسی دن وہ تمہارا مبغوض بن جائے، نفرت کرو تو بھی توازن کے ساتھ، ہو سکتا ہے کہ وہ کسی دن تمہارا محبوب بن جائے۔‘‘

دو فریقوں میں ثالثی کرنے والوں کو یہ بنیادی حکم ہے کہ اگر ایک فریق بات نہیں مانتا اور وہ ظلم پر کمربستہ ہے، اس کو بہ زورِ طاقت ظلم سے روک دو، لیکن طاقت کے استعمال میں توازن قائم رہے، اصلاح کی کوشش ابھی ختم نہیں ہوئی، طاقت کے زور پر سہی، جب ایک فریق جھک گیا اور زیادتی سے باز آ گیا تو اب دوبارہ دونوں فریقوں کو جوڑنے کی کوشش کرو اور دلوں کو ملانے کا کام کرو، ارشاد ہوتا ہے:

فَاِنْ فَاۗءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا

’’پس اگر وہ جھک جاتا ہے تو پھر دونوں میں برابری سے صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو۔‘‘

صلح کی دوسری کوشش کے موقع پر بار بار انصاف کا حکم اسی لیے دیا جا رہا ہے کہ جب صلح کرانے والے، زیادتی کرنے والے فریق کے خلاف طاقت کا استعمال کر چکیں اور اس کی ضرورت اسی لیے پڑی کہ انہوں نے بات نہیں مانی تو طبعی طور پر میلان دوسرے فریق کی طرف ہونے کا غالب امکان ہے، اس اندیشہ کے پیش نظر اس کی تاکید کی جا رہی ہے کہ کسی کی طرف فیصلہ کرنے میں جھکاؤ نہ ہو، اور صلح ممکن بھی اسی وقت ہے کہ جب دونوں فریق صلح کرانے والوں کو ہمدرد سمجھیں اور کسی ایک فریق کی طرف جھکاؤ محسوس نہ کیا جائے:

اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ ۝

 

’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‘‘

اس پر پوری آیت کا اختتام کیا جا رہا ہے، جو مسک الختام ہے، صلح و اصلاح کی ساری کوششیں جو بڑی مبارک ہیں ، اور ان پر اجر کے بڑے وعدے ہیں ، اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہیں جب انصاف اور عدل کے ساتھ یہ کوششیں کی جائیں ، اور پھر یہ علیٰ العموم انعام ربانی ہے، ان لوگوں کے لیے جو ہر موقع پر انصاف سے کام لیتے ہیں ۔

یہیں سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ جب اصلاح ذات البین میں ، ٹوٹے اور روٹھے دلوں کو جوڑنے میں اس قدر اجر و ثواب ہے کہ جھوٹ جیسی برائی کو بھی اس کے لیے ایک حد تک روا رکھا گیا، تو اگر کوئی دلوں کو توڑنے کا کام کرے، لوگوں کو آپس میں لڑائے اور نمک مرچ لگا کر بات کو بگاڑے تو وہ کس قدر غضب الٰہی کا مستحق ہے!

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝ ۧ (سورۃ الحجرات: ۱۰)

’’تمام اہل ایمان بھائی بھائی ہیں ، تو اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرا دیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحمت ہو۔‘‘

اخوت اسلامی

ایمانی اخوت کی طاقت

اسلام نے اپنے ماننے والوں کو محبت کی ایک لڑی میں پرو دیا، اپنے بیگانے ہو گئے اور بیگانے سگے بھائیوں سے بڑھ کر قرار پائے، خونی رشتہ کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے لیکن اسلامی رشتہ خونی رشتہ سے بڑھ کر ہے، خونی رشتہ طبعی اور فطری ہے، اس میں شعورو تعقل کو دخل نہیں ہوتا لیکن ایمانی رشتہ عقل و آگہی کی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے، عقل کے راستہ سے یہ محبت دل میں داخل ہوتی ہے پھر کوئی بڑی سے بڑی طاقت اس کو جدا نہیں کر سکتی، خونی رشتے ٹوٹتے ہوئے دیکھے گئے ہیں لیکن ایمان کا رشتہ جب استوار ہو جاتا ہے تو شاید ہی اس کو کسی نے ٹوٹتے ہوئے دیکھا ہو، اس ایمانی رشتہ کی بنیاد ایمان ہے، ایمان کی پختگی کے ساتھ اس کی پختگی قائم ہے، ایمان کی کمزوری سے یہ رشتہ بھی کمزور پڑ جاتا ہے۔

آنحضرت ﷺ کا فیض تربیت

آنحضرت ﷺ کی بعثت سے پہلے لوگ اس رشتہ سے واقف نہ تھے، ان کے تعلقات قبائل کی بنیادوں پر قائم تھے، ان کے یہ تعلقات اور آپس کے رشتے اندھے اصولوں کے ساتھ وابستہ تھے، ان کا نعرہ تھا:

أنصر أخاک ظالماً أو مظلوماً

’’ہرصورت میں بھائی کی مدد کرنی ہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔‘‘

آنحضرت ﷺ نے بعثت کے بعد اسلامی اخوت کا جو رشتہ عطا فرمایا اس کو پاکیزہ اصولوں کے ساتھ جوڑا اور اس کی روشنی میں ان اوّلین مسلمانوں کی ایسی تربیت فرمائی کہ وہ ان تعلیمات میں ڈھل گئے، اسلامی اخلاق و تعلیمات اور اجتماعی زندگی کے اصول ان کے مزاج میں داخل ہو گئے، اسی لیے جب آپ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا:

أنصر أخاک ظالماً أومظلوما

’’اپنے بھائی کی مدد کروظالم ہو یا مظلوم‘‘،

توانہوں نے فوراً کہا:

ھذا ننصرہ مظلوما فکیف ننصرہ ظالما

’’ہم مظلوم کی مدد کرتے ہیں، ظالم کی مدد کیسے کریں ؟‘‘،

آپ ﷺ نے فرمایا :

تمنعہ من الظلم

’’اس کو ظلم نہ کرنے دو، یہی اس کی مدد ہے۔‘‘2

آپ ﷺ کے فیض صحبت سے ان کے مزاج بدل گئے، کل تک جن کی زبانیں اسی نعرہ کو دہراتے دہراتے نہ تھکتی تھیں ، آج جب آنحضرت ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے یہ جملہ دہرایا تو وہ چونک گئے، آپ ﷺ نے اس کا رخ پھیر دیا اور اس کی حقیقت بیان فرما دی کہ تم جس کو مدد سمجھتے ہو وہ دشمنی ہے، مدد تو یہ ہے کہ ظالم کو ظلم سے روک دیا جائے تاکہ وہ اس کے اخروی اور حقیقی نقصانات سے محفوظ رہے۔

صحابہ کی زندگی

اسی پاکیزہ اسلامی بھائی چارہ کا اثرتھا کہ اسلام پھیلتا جاتاتھا اوراسلامی برادری بڑھتی جاتی تھی، اس میں رنگ ونسل کی کوئی تمیز نہ تھی، کوئی حبش کا ہے توکوئی فارس کا، کوئی خالص عربی النسل ہے توکوئی عجم کے خاندان کا فرد ہے، سب ایک دسترخوان کے شریک ہیں ، سب اپنے اپنے ظرف کے اعتبار سے لے رہے ہیں ، کسی کو کسی سے کوئی عار ہے نہ بیر، یہ اسی اسلامی اخوت کا نمونہ تھا کہ عرب کے سردار فاروق اعظم ﷜ایک حبشی نزاد سیاہ فام کے بارے میں ’’سیدنا‘‘3 ہمارے آقا کے الفاظ استعمال کررہے ہیں ، حضرت بلال مؤذن رسول ﷺ کو یہ رتبہ کہاں سے ملا؟ یہ اسی اسلامی اخوت کا نتیجہ تھا۔

حضرات صحابہ کا مزاج بن چکا تھا، وہ اس اسلامی اخوت کے حامل و ترجمان تھے، پھرہجرت مدینہ کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے مواخات کی جوفضا قائم فرمائی، مہاجرین و انصار کے درمیان اس کے نتیجہ میں جومحبت قائم ہوئی تاریخ اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی، ایک ایک مہاجر کوانصاری کا بھائی قراردیاگیا، حضرات انصار نے اس کا حق ادا کردیا، اپنا کل مال دوحصوں میں تقسیم کردیا اورمہاجرین کو اس میں پوری طرح شریک کرنا چاہا، اس کی انتہائی مثال یہ ہے کہ ایک انصاری نے کہا کہ میری دوبیویاں ہیں آپ جس کو پسند کرنا چاہیں قبول کرلیں میں طلاق دے دیتا ہوں ، آپ اس سے نکاح کرلیں ۔ حضرات مہاجرین کہاں اس پر راضی ہوتے، انہوں نے کہا کہ بازار کا پتہ بتادیجیے، یہ مال آپ کو مبارک ہو۔4

اسی اسلامی اخوت کا نتیجہ تھا کہ اوس وخزرج کے قبائل جن کی دشمنی سالہا سال سے چلی آرہی تھی، جنگ بعاث جن میں چالیس سال تک جاری رہ چکی تھی اسلام نے اس طرح ان کو جوڑدیا کہ آج دونوں کی الگ الگ پہچان مشکل ہے، دنیا دونوں قبیلوں کو انصار کے نام سے جانتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اس احسان کا ذکر قرآن مجید میں فرمایا ہے:

وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِھٖٓ اِخْوَانًا ۚ (سورۃ آل عمران: ۱۰۳)

’’اوراپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم (آپس میں ایک دوسرے کے)دشمن تھے تواس (اللہ) نے تمہارے دلوں کو جوڑدیا،سوتم اس کی نعمت سے (آپس میں )بھائی بھائی ہوگئے۔‘‘

سورہ الحجرات کی دسویں آیت میں اسی بات کو تازہ کیاگیا ہے، ارشاد ہوتاہے:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ

’’تمام اہل ایمان بھائی بھائی ہیں۔‘‘

رشتہ محبت

آیت کے اس حصہ میں کئی باتیں قابل غور ہیں ، بھائی کابھائی سے کیا رشتہ ہوتا ہے، کیسی محبت ہوتی ہے، آج خالص مادی دورمیں شاید اس کو سمجھنا مشکل ہو، یورپ کے خالص مادی اورمیکانکی نظام زندگی نے ساری انسانی قدریں خاک میں ملادیں ، اخبار میں اکثر یہ خبریں بھی آنے لگی ہیں کہ ماں نے بیٹے کو قتل کیا، نوزائیدہ بچہ کواس کی ماں کوڑے دان میں ڈال گئی، بعثت نبوی سے پہلے عربوں میں ہزار جاہلیت کے باجود یہ درندگی نہ تھی، وہ بھائی کے رشتۂ محبت سے آشناتھے، اسی رشتہ کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے، ایک بھائی کا بھائی سے جوتعلق ہوتا ہے وہی تعلق ایک ایمان والے کا دوسرے ایمان والے سے ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تشبیہ میں کوئی واسطہ اختیارنہیں کیاگیا،یہ نہیں کہاگیا کہ ایمان والے بھائیوں کی طرح ہیں ، براہ راست کہا جارہا ہے کہ وہ توبھائی بھائی ہیں ۔ تیسری ایک بات اورقابل توجہ ہے، وہ یہ ہے کہ بات کہنے سے پہلے ’’إنما‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، عربی گرامر کا قاعدہ یہ ہے کہ اگرلفظ ’’إنما‘‘ کے ساتھ کسی چیز کی خبر دی جارہی ہو تووہ خبر بالکل نئی نہیں ہوتی، لوگ اس کے بارے میں پہلے سے واقف ہوتے ہیں گویا اس میں یہ اشارہ ہے کہ تم اخوت ایمانی سے واقف ہوتوتمہیں اس کا خیال رکھنا چاہیے۔

زندگی کا مزہ

آگے بطور خاص اس چیز کا ذکرکیا جارہا ہے جس کی تمہید کے طورپر إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ کہا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے:

فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ ۚ

’’تو اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرا دیا کرو۔‘‘

یہ پوری آیت درحقیقت گذشتہ آیت کا تتمہ ہے جس میں یہ حکم تھا کہ اگر دو مسلمان گروہوں میں تصادم ہوجائے توتمہیں صلح صفائی کرادینی چاہیے، یہاں اس کی تحریض کی جارہی ہے، اوراس کی وجہ بھی بیان ہورہی ہے کہ اگردوبھائیوں میں جھگڑا ہوجائے توبقیہ بھائیوں کورشتۂ

محبت کی بنا پر اس کی فکر ہوتی ہے کہ دونوں کو ملادیا جائے تاکہ سب کو اس مصیبت سے نجات ملے اورزندگی کامزہ آئے، اسی طرح ایمانی رشتۂ اخوت میں بھی جوکسی طرح بھی خونی رشتہ سے کم نہیں بلکہ بعض وجوہات کی بنا پر اس سے بڑھ کر ہے، یہی فکرہونی چاہیے، اگردوایمان والوں میں یا دومسلمان گروہوں میں نزاع ہو توبقیہ ایمان والے بھائیوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ صلح صفائی کی فکر کریں تاکہ بہتر ماحول پیدا ہو،آپس کے تعلقات استوار رہیں اورجینے کا مزہ آئے، آیت کے اخیر میں فرمایا:

وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝ ۧ

’’ اور اللہ سے ڈرتے روہ تاکہ تم پر رحمت ہو ۔‘‘

اس میں خطاب صرف صلح کرانے والوں کوہی نہیں ہے بلکہ دونوں جھگڑنے والے فریق بھی اس میں شامل ہیں، اورتمام مسلمانوں کے لیے ایک عمومی حکم بھی ہے،تقوی کی زندگی اختیارکرنے سے مومن اللہ کی رحمت خاص کا مستحق بنتا ہے، عام طورپر جھگڑے دل کے میل سے پیدا ہوتے ہیں، کینہ کپٹ، حسد، غیبت، چغلی، حق تلفیاں جھگڑوں کی بنیاد بنتی ہیں، اگرتقوی مزاج میں داخل ہوگا تودلوں میں صفائی پیدا ہوگی، قلبی امراض سے شفاملے گی، دل آئینہ کی طرح شفاف ہوجائے گا، اپنی برائیاں نظر آنے لگیں گی، اب دوسروں کی آنکھوں کے شہتیر کے بجائے اپنی آنکھ کے تنکے نظر آئیں گے، دوسروں کے لیے چشم پوشی کا مزاج بنے گا، اور اس کے نتیجہ میں بہترسے بہتر ماحول پیدا ہوگا، دونوں فریقوں کوبھی صلح کے لیے تقوی اختیارکرنے کی ضرورت ہے اورثالثی کرنے والے اورصلح صفائی کرانے والے کوبھی تقویٰ کی ضرورت ہے تاکہ وہ جنبہ داری نہ برتے،فیصلہ کرتے وقت اللہ کا لحاظ اوراس کا ڈرہو۔
مجموعی اعتبار سے اس تقویٰ کے نتیجہ میں جب میل ملاپ کا ماحول بنے گا، ایک دوسرے کا خیال ہوگاتویہ چیزیں بھی رحمت الٰہی کو متوجہ کرنے والی ہیں ۔

عالمی اخوت اسلامی کی یہ دعوت ہی نہیں بلکہ حقیقت ایمان کا یہ نتیجہ ہے جس کوآیت شریفہ میں بیان کردیاگیا ہے، اوریہ نتیجہ تب ہی ظاہر ہوگا جب ایمان اورایمان کے تقاضوں کو سمجھ کر ان پرعمل کا جذبہ ہوگا، جب مومن اپنے مومن بھائی کے لیے وہی پسند کرے گا جواپنے لیے پسند کرتا ہے، جب وہ اپنے مومن بھائی کو نہ رسوا کرے گا نہ اس کو بے یارومددگار چھوڑے گا، بلکہ اگر ضرورت پڑے گی تواس کے لیے سِپَر بن جائے گا، یہ ہے وہ ایمانی اخوت کا مضبوط تررشتہ جس کے نتیجہ میں ایک صحابی نے جان دے دی لیکن اپنے پیاسے ایمانی بھائی سے پہلے خود پانی پینا گوارہ نہ کیا۔5

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

1 ابوداؤد، باب فی اصلاح ذات البین /۴۹۲۱، ترمذی، باب اصلاح ذات البین/ ۲۶۹۷ـ۲۶۹۸

2 صحیح بخاری، باب أعن أخاک ظالما أو مظلوما/۲۴۴۴ـ۶۹۵۲، ترمذی، باب انصر أخاک ظالما أو مظلوما/ ۲۴۲۱، مسند احمد/۱۳۴۲۱

3 مصنف ابن ابی شیبہ، باب ما ذکر فی أبی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ /۴۴

4 صحیح بخاری، باب إخاء النبی صلی اﷲ علیہ وسلم بین المہاجرین والانصار/۳۷۸۰، نسائی، باب الھدیۃ عن عرس/۳۷۰۱

5 معجم کبیر للطبرانی ۱/۳۲۶۴، بیہقی، شعب الایمان ، باب ماجاء فی الایثار/۳۳۲۹، مستدرک حاکم، باب ذکر مناقب عکرمہ/۵۰۵۸

Previous Post

گر جرأ ت ہو تو سر ڈالو!

Next Post

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | آٹھویں قسط

Related Posts

اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | آٹھویں قسط

14 اگست 2025
اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | ساتویں قسط

14 جولائی 2025
عمر ِثالث | ساتویں قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | ساتویں قسط

9 جون 2025
اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط

9 جون 2025
اِک نظر اِدھر بھی | اپریل و مئی 2024
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | اپریل، مئی 2025

27 مئی 2025
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چوتھی قسط

27 مئی 2025
Next Post
سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چوتھی قسط

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | آٹھویں قسط

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version