يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ ۡ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا ۭ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ ۭ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٌ(سورۃ الحجرات: ۱۲)
’’اے ایمان والو! اکثر گمانوں سے بچو، بلاشبہ بعض گمان گناہ ہیں ، اور نہ ٹوہ میں رہو اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو، کیا تم میں کسی کو اچھا لگے گا کہ اپنے مردار بھائی کا گوشت کھائے، اس سے تو تم گھن کرو گے ہی، اور اللہ سے ڈرو، بلاشبہ اللہ توبہ قبول فرماتا ہے، رحم فرماتا ہے۔‘‘
سماج کی تین بیماریاں
مریض سماج کی فکر
سماج کے سدھار کے لیے آج جگہ جگہ پروگرام ترتیب دیے جا رہے ہیں ، کارنر میٹنگوں کا سلسلہ بھی جاری ہے، یہ ایک قابل ستائش اقدام ہے، اصلاح معاشرہ کی سب سے بڑی ذمہ داری مسلمانوں کی ہے، ان کے پاس اس کا پورا لائحۂ عمل موجود ہے، ان کی اس سلسلہ کی تمام کوششیں ضروری ہیں اور قابل تعریف ہیں ، لیکن ان کوششوں کے جو مثبت نتائج سامنے آنے چاہئیں، بڑی حد تک وہ نتائج سامنے نہیں آتے، شاید اس کا سبب یہ ہے کہ اندر سے جو روگ سماج کو لگ گئے ہیں ان کے علاج کی فکر کم سے کم کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ اکثر و بیشتر یہ کوششیں نقش بر آب ثابت ہوتی ہیں ۔
معاشرہ افراد سے وجود میں آتا ہے، اس کی اصلاح افراد کے صلاح سے وابستہ ہے، لوگوں میں اگر کوئی متعدی مرض پیدا ہو جائے تو وہ پورے معاشرہ کو متعفن کر دیتا ہے، بعض مرتبہ ایک فرد کی بیماری پورے معاشرہ کو اپنے لپیٹ میں لے لیتی ہے، اس لیے اصلاح معاشرہ کی سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ معاشرہ کا ایک ایک فرد اپنا جائزہ لے اور کم سے کم وہ بیماریاں جن کے اثرات دوسرں پر بھی پڑتے ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کی جائے، ان میں تین بنیادی امراض ہیں جن سے پورا معاشرہ کرپٹ ہو رہا ہے، سورۃ الحجرات کی بارہویں آیت میں بطور خاص ان تینوں کو بیان کیا گیا ہے۔
گیارہویں آیت میں ان تین بیماریوں کا ذکر تھا جن کی تشخیص آسان تھی، ان کو آسانی سے گرفت میں لایا جا سکتا تھا، اور اس آیت میں جن تین بیماریوں کا ذکر ہے وہ اندر کی بیماریاں ہیں ، بعض مرتبہ ان کا احساس بھی مشکل ہوتا ہے اور ان کے علاج میں بھی دشواری پیش آتی ہے، اس لیے ان کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے تاکہ یہ روگ جو معاشرہ کو لگ چکا ہے وہ زیادہ بڑھنے نہ پائے اور کسی ایسے خطرناک مرض کی شکل نہ اختیار کر لے جو لا علاج ہو جائے۔
بدگمانی
ان تین مہلک بیماریوں میں پہلا مرض ’’بدگمانی‘‘ ہے، ارشاد ربانی ہے:
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ ۡ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ
’’اے ایمان والو! اکثر گمانوں سے بچو، بلاشبہ بعض گمان گناہ ہیں ۔‘‘
یہ بات انسان کی نفسیات میں داخل ہے کہ وہ عام طور پر جلدی بد گمان ہو جاتا ہے، برے خیالات اس کو گھیر لیتے ہیں ، کسی کے بارے میں اچھا گمان کرنا اس کے لیے قدرے مشکل ہوتا ہے، آیت شریفہ میں اسی لیے یہ حکم دیا گیا ہے کہ اکثر گمان سے بچو پھر اس کی وجہ بیان فرما دی کہ بعض گمان گناہ کی حد تک پہنچ جاتے ہیں ، کسی کے بارے میں اچھا گمان کرنا آدمی کے لیے عام طور پر نقصان دہ نہیں ہوتا لیکن بد گمانی کے اثرات بعض مرتبہ بہت ہی سخت ہوتے ہیں اسی لیے بہتر یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی کے بارے میں معلومات پوری طرح نہ ہوں تو اس کے بارے میں اچھا گمان رکھے، کسی برے شخص کے بارے میں اگر اچھا گمان ہے تو قیامت میں یہ سوال نہیں ہو گا کہ تو نے برے کو اچھا کیوں سمجھا لیکن اگر کسی اچھے شخص کے بارے میں برا گمان ہے تو قیامت میں اس کی گرفت ہو گی، تاہم اچھا گمان رکھنے کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ بغیر تحقیق کے اس سے معاملات شروع کر دے۔
تحقیق کی ضرورت
اگر اچھے گمان کے نتیجہ میں اس سے معاملہ کیا اور وہ فی نفسہٖ اچھا انسان نہ ہوا تو معاملہ کرنے والا دھوکہ کھا سکتا ہے، دھوکہ دینا تو بدترین گناہ ہے ہی، دھوکہ کھانا بھی فراست ایمانی کے منافی ہے، حدیث میں آتا ہے:
لا یلدغ المؤمن من جحر واحد مرتین1 صحیح بخاری، باب لا یلدغ المؤمن من جحر، مسلم، باب لا یلدغ المؤمن من جحر مرتین
’’مومن ایک سوراخ سے دومرتبہ نہیں ڈسا جاسکتا۔‘‘
اگر ایک مرتبہ دھوکہ ہو بھی جائے تو دوسری مرتبہ وہ دھوکہ نہیں کھاتا، اسی طرح اگر کسی سے دینی مسائل میں استفادہ کرنا ہے تو بھی بہتر یہی ہے کہ اس کے بارے میں اچھی طرح سے معلومات حاصل کر لی جائیں اور اچھی طرح پرکھ لیا جائے، قرون اولیٰ میں یہ مقولہ لوگوں کی زبان پر تھا:
إن ہذا العلم دین فانظروا عمن تأخذون دینکم۔2صحیح مسلم،باب فی أن الاسناد من الدین
’’یہ علم دین ہے تو اچھی طرح دیکھ لو کہ تم دین کس سے حاصل کر رہے ہو۔‘‘
کسی سے اگر معاملہ کرنا ہو، وہ معاملہ دنیوی ہو یا دینی اس سے فوراً خوش اعتقاد ہو جانا اور بغیر تحقیق کے اچھا گمان کر کے معاملہ کر لینا بھی دینی مزاج کے خلاف ہے اور بعض مرتبہ اس کے بڑے نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں ، اس لیے سب سے بہتر شکل یہ ہے کہ عام طور پر لوگوں کے ساتھ اچھا گمان رکھا جائے لیکن اگر کسی قسم کا لین دین کرنا ہو یا دین حاصل کرنا ہو تو جب تک اچھی طرح تحقیق نہ کر لی جائے اس وقت تک معاملہ نہ کیا جائے اور نہ ہی کسی دوسرے کے سامنے اس کی گواہی دی جائے تاکہ کوئی دوسرا بھی دھوکہ میں نہ پڑے، کسی نے حضرت عمرؓ کے سامنے کسی کی تعریف کی تو حضرت عمر نے فرمایا کہ تم یہ بات یقینی طور پر کیسے کہہ رہے ہو، کیا تمہیں اس سے کسی لین دین کا سابقہ پڑا ہے یا تم نے اس کے ساتھ طویل عرصہ گزارا ہے؟3 سبل السلام، باب شہادۃ البدوی، جامع الاحادیث للسیوطی، کنزالعمال بغیر اس کے تم کسی کے بارے میں یقین کے ساتھ ایسی بات کیسے کہہ سکتے ہو!
یہ بات سمجھ لینے کی ہے کہ دو باتیں الگ الگ ہیں ، اچھا گمان کرنا الگ بات ہے لیکن اس کی بنا پر معاملہ کر لینا الگ بات ہے، جب تک برائی کا علم یقینی طور پر نہ ہو جائے اس وقت تک اچھا گمان رکھنے کا حکم ہے، لیکن بغیر تحقیق کے معاملہ کر لینے میں نقصان کے خطرات ہیں۔ امام ابوداودؒ،حضرت ابوہریرہؓ سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حسن الظن من حسن العبـادۃ۔4ابوداؤد،کتاب الادب، باب فی حسن الظن، مسند احمد
’’اچھا گمان کرنا اچھی عبادت میں سے ہے۔‘‘
بدگمانی کے نقصانات
اگر ناحق بد گمانی کی ہے تو یہ اس کے حق میں وبال ہے، اور اس کے بارے میں سخت سے سخت روایات وارد ہیں ، اس کے نقصانات دنیا میں بھی بہت ہیں ، بعض مرتبہ بد گمانی کی بنا پر انسان بہت کچھ خیر سے محروم رہتا ہے، عالم کو جاہل سمجھ رہا ہے تو اس کے علم سے محروم ہو گا، کوئی ایسا شخص جواس کی صحیح رہنمائی کر سکتا ہے اس کو صحیح راستہ بتا سکتا ہے اس کو وہ گمراہ سمجھ رہا ہے اور بغیر تحقیق کے اس سے بد گمانی کا شکار ہے تو وہ اس کی رہنمائی سے محروم رہے گا، کوئی بھی اس کو نفع پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے اس کا خیر خواہ ہے لیکن وہ اس کے بارے میں بد گمان ہے تو اس کے ہر طرح کے فائدے سے دور رہے گا۔
بد گمانی کی مذکورہ بالا شکلیں تو وہ ہیں کہ جن کا نقصان انفرادی طور پر خود بد گمانی کرنے والے کو ہو رہا ہے، لیکن عام طور پر بد گمانی کرنے والا اقدام اور انتقام پر آمادہ ہو جاتا ہے، اس کے نتائج پورے معاشرہ کو بھگتنے پڑتے ہیں ، بد گمانی کی جو بھی نوعیت ہو اس کے اعتبار سے بد گمانی کرنے والا آگے بڑھتا ہے، اور بات قتل و غارت گری تک پہنچ جاتی ہے، اس میں عام طور پر غلط فہمیوں کو دخل ہوتا ہے، آدمی کسی کے بارے میں کوئی بات سن کر یا کچھ دیکھ کر ایک رائے قائم کر لیتا ہے، اس کے بعد بات بڑھتے بڑھتے کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے، اس مرض کے نقصانات محدود نہیں رہتے عام طور پر متعدی ہوتے ہیں ، اسی لیے اس کی سخت نکیر کی گئی ہے اور یہ حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں میں خیر کا پہلو تلاش کیا جائے، حضرت عمرؓ سے منقول ہے کہ اگر تمہارا مومن بھائی کوئی بات کہتا ہے اور اس کو خیر پر محمول کیا جا سکتا ہے تو تم برا خیال مت لاؤ اور اس کو خیر ہی پر محمول کرو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دسیوں حدیثیں منقول ہیں جن میں بد گمانی سے روکا گیا ہے، ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إیاکم والظن فإن الظن أکذب الحدیث5صحیح بخاری، کتاب الوصایا، باب لا یخطب علی خطبۃ أخیہ، صحیح مسلم، باب تحریم الظن
’’بدگمانی سے بچو اس لیے کہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے۔‘‘
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کو خطاب کر کے فرمایا:
’’تو کیا خوب ہے اور تیری خوشبو بھی کیسی پاکیزہ تر ہے، تو کیسا عظیم ہے اور تیری حرمت کیسی عظیم تر ہے، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے، ایک مومن کی حرمت تجھ سے بڑھ کر ہے، اس کا خون اور اس کا مال، اور یہ کہ اس کے بارے میں اچھا ہی گمان کیا جائے۔‘‘6 ابن ماجہ،کتاب الفتن، باب حرمۃ دم المومن و مالہ
بدگمانی کا علاج
اگر کسی کے بارے میں برے خیالات پیدا ہوں اور بد گمانی کی صورت پیدا ہو جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا علاج بھی ایک حدیث میں تجویز فرمایا ہے، آپ فرماتے ہیں :
’’تین چیزیں میری امت کا پیچھا نہیں چھوڑ سکتیں ، فال، حسد اور بدگمانی۔‘‘ سوال کیا گیا کہ ان کے برے نتائج سے کیسے حفاظت ممکن ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر حسد پیدا ہو جائے تو اللہ سے استغفار کرو، اگر بد گمانی پیدا ہو تو عمل اس کے مطابق نہ کرو (اور اس کو ذہن سے نکال دو)،اگر فال ہو تو بھی فال بد کی وجہ سے عمل ترک مت کرو۔‘‘7 جامع الاحادیث للسیوطی، مصنف عبدالرزاق، بیہقی فی شعب الایمان
کسی کے بارے میں محض خیالات کاآجانا قابل مواخذہ نہیں ہے، ایک حدیث میں آتا ہے:
إن اللّٰہ تجاوز عن أمتی ما وسوست بہ صدورہا ما لم تعمل أو تکلم8 صحیح بخاری، کتاب العتق، باب الخطأ والنسیان، نسائی، باب من طلق فی نفسہٖ
’’اللہ تعالیٰ نے میری امت کے وسوسوں کومعاف کردیاجب تک وہ وسوسوں کی حد تک رہیں اور ان کو دور کیا جاتا رہے۔‘‘
اگر اس پر عمل شروع ہو گیا اور گفتگو کی جانے لگی اور ذہن میں وہ چیز بیٹھنے لگی تو اس پر مواخذہ ہو گا اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا علاج یہ بتایا ہے کہ اگر برے گمان پیدا ہونے لگیں تو ان کو باقی نہ رکھا جائے۔
حسن ظن
یہ مرض عام طور پر ہم مسلمانوں میں پیدا ہو گیا ہے کہ دوسروں کے معائب پر نگاہ رہتی ہے اور ذرا سی بات بھی بہت بڑی نظر آتی ہے، یہ مثل پوری طرح ہم پر صادق آتی ہے کہ اپنی آنکھوں کے شہتیر نظر نہیں آتے لیکن دوسروں کی نگاہوں کے تنکے نظر آ جاتے ہیں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک مرتبہ کسی کا ذکر آیا تو بعض لوگوں نے جو واقفیت رکھنے والے تھے ان کے بارے میں کہا کہ وہ بڑے گناہوں میں مبتلا ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کو اللہ اوراس کے رسول سے محبت ہے‘‘۔9 صحیح بخاری، کتاب الحدود، باب ما یکرہ من لعن شارب الخمر بڑے گناہوں کے پائے جانے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ایک نیکی کا ذکر فرمایا اور یہ سبق دے دیا کہ مجلسوں میں اس طرح اگر کسی کا ذکر آئے توذکرِ خیر ہی بہتر ہے، بعض مرتبہ ایک نیکی اللہ کی بارگاہ میں ایسی قبول ہو جاتی ہے کہ بڑے بڑے گناہوں پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے، بد گمانی کرنے والے کے اندر عام طور پر اپنی بڑائی کا احساس بھی پیدا ہونے لگتا ہے اور یہ چیز اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند ہے، مسئلہ صرف بد گمانی ہی کا نہیں بلکہ اگر کسی کے اندر خرابی موجود ہے اور اس کی نکیر کرنی ہے تو بھی اگر ایسا کوئی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے جس میں اپنی بڑائی کا اظہار ہوتا ہو، تو اللہ کی ذات بہت غنی ہے معاملہ بالکل الٹ سکتا ہے۔ ایک حدیث میں دو دوستوں کا واقعہ بیان ہوا ہے، ان میں سے ایک متقی پرہیزگار تھا دوسرا برائیوں میں مبتلا ہو جایا کرتا تھا، اس کا نیک دوست اس کو سمجھاتا رہتا تھا مگر اس سے برائیاں چھوٹتی نہ تھیں ، ایک دن غصہ میں آ کر اس کا نیک دوست کہنے لگا تو جنت میں کبھی نہیں جا سکتا، تیرا ٹھکانہ تو جہنم ہی ہے، اللہ تعالیٰ کو اس کی یہ بات پسند نہیں آئی اور اللہ تعالیٰ نے اس سے کہا کہ تو کون ہوتا ہے اس کو جنت سے روکنے والا، میں تجھے جہنم میں بھیج دوں گا اوراس کوجنت میں داخل کروں گا۔10 بیہقی، شعب الایمان، فصل فیما ورد من الاخبار فی التشدید علی من اقترض
یہ تو ایک واقعہ تھا مسئلہ صرف بد گمانی کا تھا، اس پر اتنی سخت پکڑ ہو گئی، اگر صرف بد گمانی کی بنا پر کسی کو ذلیل اور کمتر سمجھا گیا اور اپنے قول و فعل سے اس کا اظہار بھی کیا گیا تو کیسے سخت گناہ کی بات ہے، اور پھر جب اس کے بدترین نتائج معاشرہ کے سامنے آئیں گے تو معاشرہ کیسا کرپٹ ہوتا چلا جائے گا یہ ہر تجزیہ کرنے والا سمجھ سکتا ہے۔
تین بیماریوں میں سے یہ وہ پہلی بدترین بیماری ہے جو ایک روگ کی طرح امت کو لگ گئی ہے، امت کی وحدت کو یہ گھن کی طرح چاٹتی چلی جا رہی ہے، آیت شریفہ میں اس کے بعد جن دو بیماریوں کا ذکر ہے وہ بھی اکثر و بیشتر اسی پہلی بیماری کے نتیجہ میں پیدا ہو جاتی ہیں ۔
تجسس
دوسری بیماری جس کا آیت شریفہ میں ذکر ہے وہ تجسس ہے، ارشاد ہوتا ہے:
وَّلَا تَجَسَّسُوْا
’’اور نہ ٹوہ میں رہو ۔‘‘
آدمی جب کسی سے بد گمان ہوتا ہے تو اس کی ٹوہ میں پڑتا ہے، اس کی نقل و حرکت پر اس کی نگاہ ہوتی ہے، اس کے پیچھے وہ اپنے جاسوس لگا دیتا ہے، اور پھر اس کی اچھائیاں بھی اس کو برائیوں کی شکل میں نظر آنے لگتی ہیں ، جاسوس، تجسس ہی سے بنا ہے، بڑے پیمانہ پر جب یہ کام ہوتا ہے تو جاسوسی کا پورا نظام شروع ہو جاتا ہے، کسی ایمان والے فرد یا جماعت کے لیے درست نہیں کہ وہ اپنے ایمانی بھائیوں کے عیوب تلاش کرے، عیوب ہر ایک کے اندر ہوتے ہیں ، کسی کے اندر معمولی اور کسی کے اندر زیادہ، اسلامی حکم یہ ہے کہ آدمی عیوب سے چشم پوشی کرے اور بھلائیوں سے فائدہ اٹھائے، ہاں ان لوگوں کے لیے جو خدا کے باغی ہیں اور اسلام کے دشمن ہیں ، ان کے مکائد سے مطلع ہونے کے لیے جاسوسی کرنا یا کرانا جنگی حکمت عملی ہے تاکہ ان کی کمزوریوں سے واقف ہو کر ان پر قابو پایا جا سکے، اور دنیا کو ان کے شر سے بچایا جا سکے۔
ایمان والے تو آپس میں بھائی بھائی ہیں ، امیر ہو یا غریب، چھوٹا ہو یا بڑا، عبادت گزار اور شب بیدار ہو یا گناہ گار، وہ ایک دوسرے کی کرید میں نہیں پڑتے، ہر ایک کے لیے خیر خواہی کرنا ان کا مزاج ہو گا، یہ امت کے لیے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وصیت ہے، وہ کسی کو نیچا دکھانے کا خیال بھی دل میں نہیں لاتے، دوسروں کے لیے وہ وہی پسند کرتے ہیں جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں ، وہ دوسروں کی برائیاں تلاش نہیں کرتے اور اگر کوئی برائی سامنے آ جاتی ہے تو اس کے اندر اصلاح کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، کسی کی تحقیر و تذلیل کا خیال بھی اس کے ذہن میں نہیں آتا، مشہور حدیث ہے، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم امت کے افراد کو خطاب کر کے فرماتے ہیں:
إیا کم والظن فإن الظن أکذب الحدیث ولا تحسسوا ولا تجسسوا ولا تنافسوا ولا تحاسدوا ولا تباغضوا ولا تدابروا وکونوا عباد اﷲ إخوانا۔11 صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الظن والتجسس والتنافس ونحو، صحیح بخاری، باب ما ینہیٰ عن التحاسد
’’بدگمانی سے بچو، اس لیے کہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے، نہ تجسس میں پڑو، نہ ٹوہ میں لگو اور نہ (دنیا میں ) منافست کرو، نہ ایک دوسرے سے حسد کرو، نہ بغض کرو اور نہ منھ موڑو اور اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی ہو کر رہو۔‘‘
حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
إنک إن اتبعت عورات الناس أفسدتھم أو کدت أن تفسدھم۔12ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی النہی عن التجسس
’’اگر تم لوگوں کے پوشیدہ معائب کے پیچھے پڑو گے تو ان کو بگاڑ ہی دو گے یا بگاڑ کے قریب پہنچادو گے۔‘‘
ایک دوسری حدیث امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے نقل کی ہے، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :
إن الأمیر إذا ابتغی الریبۃ فی الناس أفسدھم۔13ابوداؤد، باب فی النہی عن التجسس، مسند احمد
’’امیر جب لوگوں میں شبہ کی باتیں تلاش کرے گا تو ان کو بگاڑ کر چھوڑے گا۔‘‘
حدیثوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو برائیاں کھلی ہوئی ہوں ان پر نکیر کی جائے اور کھل کر ان سے روکا جائے لیکن جن برائیوں کا لوگوں کو علم نہیں ان کو کرید کرید کر عام نہ کیا جائے، اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ برائیاں پھیلنے لگتی ہیں ، سماج میں بگاڑ پیدا ہونے لگتا ہے، اسی لیے حدیث میں آتا ہے:
کل أمتی معافی إلا المجاھرین۔14 صحیح بخاری، کتاب الادب، باب ستر المؤمن علی نفسہٖ، صحیح مسلم، کتاب الزہد والرقاق، باب النہی عن ہتک الانسان ستر نفسہٖ
’’میری کل امت کو معاف کیا جائے گا سوائے ان لوگوں کے جو گناہوں کا چرچا کرتے ہیں۔‘‘
جب حدیث میں اپنے گناہوں کو چھپانے کا حکم ہے تو دوسروں کے معائب کو اچھالنے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے، اسی لیے ہر ایک کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ دوسروں کی ٹوہ میں رہے اور نہ اس کے اندرونی حالات کے جاننے کا چکر چلائے۔
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے اور بلند آواز سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
یا معشر من قد أسلم بلسانہ ولم یغض الإیمان فی قلوبہ لا تؤذوا المسلمین ولا تعیروھم ولا تتبعوا عوراتھم فإن من تتبع عورۃ أخیہ المسلم تتبع اﷲ عورتہ ومن تتبع اﷲ عورتہ یفضحہ ولو فی جوف رحلہ۔15 ترمذی، کتاب البر والصلۃ،باب ماجاء فی تعظیم المومن، ابوداؤد،باب فی الغیبۃ
’’اے وہ لوگو! جو زبان سے تو اسلام لے آئے ہو لیکن دلوں میں اسلام نہیں اترسکا، مسلمانوں کو ایذاء نہ پہنچاؤ، ان کو عار مت دلاؤ، اور ان کے عیوب کے پیچھے نہ پڑو، جو بھی اپنے (مسلمان) بھائی کے عیب کے پیچھے پڑے گا اللہ تعالیٰ اس کے عیب کے پیچھے پڑے گا اور اللہ تعالیٰ اگر کسی کے عیب کے پیچھے لگ جائے تو اس کو رسوا کر کے چھوڑے گا خواہ وہ کجاوے کے اندر ہی (چھپا) کیوں نہ ہو۔‘‘
اس حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کے عیوب کی تلاش میں وہی لوگ پڑتے ہیں جو دل کے مریض ہوتے ہیں ، ایمان کے حقیقی نور سے ان کے دل خالی ہوتے ہیں ، اللہ کو اپنے مومن بندوں سے پیار ہے، اگر کوئی ان کو ایذاء پہنچاتا ہے بے ضرورت عار دلا کر، ان کے پوشیدہ عیوب کے پیچھے لگ کر، تو اللہ تعالیٰ بھی ایسے شخص کو نہیں چھوڑتے: ’’الجزاء من جنس العمل‘‘ (جیسی کرنی ویسی بھرنی) ، جو دوسروں کو ذلیل کرنے کی مذموم کوشش کرے گا وہ اپنے آپ کو بچا نہیں سکتا، اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل کر کے چھوڑیں گے۔
ایک حدیث میں ناحق کسی مسلمان کی بے آبروئی کو بدترین سود قرار دیا گیا16 ابوداؤد،باب فی الغیبۃ، مسند احمد ، بیہقی فی شعب الایمان، فصل فیما ورد من الاخبار فی التشدید علی من اقترض، اس کے بالکل برخلا ف اگر کوئی عیوب کی پردہ پوشی کرتا ہے، اول تو عیوب کی تلاش میں نہیں رہتا اور اگر کبھی کسی کی برائی پر نگاہ پڑ بھی جاتی ہے تو وہ اس کو اچھالتا نہیں اور اس کی عزت سے کھلواڑ نہیں کرتا، تو اس کے لیے بڑے اجر کی بات ہے۔ آج وہ اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کر رہا ہے، کل قیامت میں اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں پر پردہ ڈال دیں گے۔ حدیث میں آتا ہے:
من ستر مسلماً سترہ اﷲ فی الدنیا والآخرۃ۔17 ابن ماجہ، کتاب الحدود، باب الستر علی المومن ودفع الحدود بالشبہات، مسند احمد
’’جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے ساتھ ستاری فرمائیں گے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہوتا ہے:
من رأی عورۃ فسترھا کان کمن أحیا موؤدۃ۔18 ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی الستر عن المسلم، مسند احمد
’’اگر کسی کی نگاہ کسی کے پوشیدہ عیب پر پڑ گئی اور اس نے اس کو چھپا لیا، اس نے (گویا) زندہ درگور لڑکی کو زندگی بخشی۔‘‘
حدیث میں بڑی حکیمانہ تعبیر اختیار کی گئی ہے، اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ اگر کسی کی برائی اچھال دی گئی تو اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ مرد یا عورت کسی قابل نہیں رہ جائے گی، گویا کہ اس کی جان ہی نکال لی گئی، دوسرا اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ پھر ان کے اندر مزید برائیوں کے پیدا ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے، وہ سوچتے ہیں کہ جب ایک تہمت لگ ہی گئی تو اب کس کا ڈر، عرف اور معاشرہ کا دباؤ بھی بڑی چیز ہے، جب یہ بھی ختم ہو جاتا ہے تو کبھی کبھی آدمی برائیوں کا پیکر بن جاتا ہے، اور اس کے نتیجہ میں معاشرہ میں ایک ناسور وجود میں آ جاتا ہے، اب اگر کوئی ایسی برائی دیکھ کر اس پر پردہ ڈال رہا ہے تو گویا وہ اس برائی کرنے والے کو ایک نئی زندگی دے رہا ہے اور اس کو سنبھلنے کا دوبارہ موقع مل رہا ہے، اسی لیے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی کہ گویا اس نے زندہ درگور کو زندگی دی۔
ہاں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ برائیوں کو دیکھ کر ان کی پردہ پوشی کرنا اور لوگوں سے ان کو چھپانا الگ بات ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش بھی نہ کی جائے، اور جو ہو رہا ہے اس کو ہونے دیا جائے، حدیث میں صاف آتا ہے:
من رأی منکم منکرا فلغیرہ بیدہ فإن لم یستطع فبلسانہ فإن لم یستطع فبقلبہ وذلک أضعف الإیمان۔19 صحیح مسلم، کتاب الایمان،باب بیان کون النہی عن المنکر من الایمان، ابوداؤد، کتاب الملاحم، باب الامر والنہی، ترمذی،کتاب الفتن، باب ماجاء فی تغییر المنکر
’’تم میں جو منکر دیکھے اپنے ہاتھ سے روک دے، اگر یہ بس میں نہ ہو تو زبان سے روکنے کی کوشش کرے، یہ بھی نہ کرسکتا ہو تو دل سے اس کو برا سمجھے، اس کے بعد ایمان کا کوئی درجہ نہیں۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہوتا ہے:
ما من رجل یکون فی قوم یعمل فیھم بالمعاصی یقدرون علی أن یغیروا علیہ فلا یغیروا إلا أصابھم اﷲ بعذاب من قبل أن یموتوا۔20ابوداؤد، کتاب الملاحم، باب الامر والنہی، مسند احمد
’’ایک شخص بھی اگر کسی قوم میں رہ کر معصیتیں کرتا ہے اور لوگ اس کو روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود نہیں روکتے تو وہ سب مرنے سے پہلے عذاب میں مبتلا ہوں گے۔‘‘
بخاری شریف کی ایک حدیث میں اس کی بہت واضح مثال پیش کی گئی ہے، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :
’’حدود الٰہیہ میں داخل ہو جانے والے اس کو پامال کرنے والے اور اس میں مداہنت کرنے والے کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کچھ لوگوں نے کشتی پر سوار ہونے کے لیے قرعہ ڈالا، کچھ لوگوں کا نام بالائی منزل کے لیے نکلا اور کچھ لوگوں کا نیچے کے لیے، نیچے والے پانی لینے کے لیے اوپر جاتے تو اوپر والوں کو تکلیف ہوتی، نیچے والوں نے اس کو محسوس کیا تو کلہاڑی لی اور کشتی میں سوراخ کرنے لگے، اوپر والوں نے آ کر پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہوں تو انہوں نے جواب دیا کہ اوپر آنے جانے میں تم لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے اور پانی ہمارے لیے ضروری ہے، اب اگر اوپر والوں نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور سوراخ کرنے سے روکا تب تو وہ اپنے لیے بھی نجات کا سامان کریں گے اور ان کو بھی بچا لیں گے، ورنہ خود بھی ہلاک ہوں گے اور ان کو بھی ہلاک کریں گے۔‘‘21صحیح بخاری، کتاب الشہادات، باب القرعۃ فی المشکلات
برائیوں سے روکنا ایک مذہبی فریضہ ہے، یہ مسلمانوں کے فرض منصبی میں داخل ہے، لیکن کسی کی برائیوں کو اچھالنا اور اس کو بے عزت کرنا سخت گناہ کی بات ہے، یہ حکم شرعی ہے کہ برائیوں کو چھپایا جائے، ان کا چرچا نہ کیا جائے، اس کا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اچھے لوگوں میں اس کا تذکرہ ہونے لگتا ہے اور ان میں بھی یہ برائیاں گھسنے لگتی ہیں ۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
- 1صحیح بخاری، باب لا یلدغ المؤمن من جحر، مسلم، باب لا یلدغ المؤمن من جحر مرتین
- 2صحیح مسلم،باب فی أن الاسناد من الدین
- 3سبل السلام، باب شہادۃ البدوی، جامع الاحادیث للسیوطی، کنزالعمال
- 4ابوداؤد،کتاب الادب، باب فی حسن الظن، مسند احمد
- 5صحیح بخاری، کتاب الوصایا، باب لا یخطب علی خطبۃ أخیہ، صحیح مسلم، باب تحریم الظن
- 6ابن ماجہ،کتاب الفتن، باب حرمۃ دم المومن و مالہ
- 7جامع الاحادیث للسیوطی، مصنف عبدالرزاق، بیہقی فی شعب الایمان
- 8صحیح بخاری، کتاب العتق، باب الخطأ والنسیان، نسائی، باب من طلق فی نفسہٖ
- 9صحیح بخاری، کتاب الحدود، باب ما یکرہ من لعن شارب الخمر
- 10بیہقی، شعب الایمان، فصل فیما ورد من الاخبار فی التشدید علی من اقترض
- 11صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الظن والتجسس والتنافس ونحو، صحیح بخاری، باب ما ینہیٰ عن التحاسد
- 12ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی النہی عن التجسس
- 13ابوداؤد، باب فی النہی عن التجسس، مسند احمد
- 14صحیح بخاری، کتاب الادب، باب ستر المؤمن علی نفسہٖ، صحیح مسلم، کتاب الزہد والرقاق، باب النہی عن ہتک الانسان ستر نفسہٖ
- 15ترمذی، کتاب البر والصلۃ،باب ماجاء فی تعظیم المومن، ابوداؤد،باب فی الغیبۃ
- 16ابوداؤد،باب فی الغیبۃ، مسند احمد ، بیہقی فی شعب الایمان، فصل فیما ورد من الاخبار فی التشدید علی من اقترض
- 17ابن ماجہ، کتاب الحدود، باب الستر علی المومن ودفع الحدود بالشبہات، مسند احمد
- 18ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی الستر عن المسلم، مسند احمد
- 19صحیح مسلم، کتاب الایمان،باب بیان کون النہی عن المنکر من الایمان، ابوداؤد، کتاب الملاحم، باب الامر والنہی، ترمذی،کتاب الفتن، باب ماجاء فی تغییر المنکر
- 20ابوداؤد، کتاب الملاحم، باب الامر والنہی، مسند احمد
- 21صحیح بخاری، کتاب الشہادات، باب القرعۃ فی المشکلات