مجاہد کے لیے آداب
۱۔ جہاد اور اطاعت مال یا دنیا کے لیے نہ ہو بلکہ صرف اور صرف اللہ کے دین کے لیے ہو۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں فرمائے گا نہ ان کی طرف رحمت کی نظر سے دیکھے گا اور نہ ہی ان کا تذکرہ کرے گا بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ وہ آدمی جو جنگل میں بچے ہوئے پانی سے مسافر کو روک دے۔ وہ آدمی جو عصر کے بعد اپنے سامان کو فروخت کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی قسمیں اٹھائے تاکہ زیادہ سے زیادہ نفع کما سکے، وہ اس کی تصدیق کرتا ہو حالانکہ حقیقت میں وہ ایسا نہ ہو۔ وہ آدمی جو کسی امیر کے ہاتھ پر صرف حصولِ دنیا کے لیے بیعت کرے۔ اگر امیر اسے کچھ دے دے تو وہ اس سے وفادار رہے اگر کچھ نہ دے تو بے وفائی کر جائے۔‘‘
فتح الملہم میں آیا ہے کہ بیعت کرنے کا یہ قاعدہ ہے کہ امیر کے سامنے یہ باتیں رکھیں کہ حق پر رہیں گے، حدود جاری کریں گے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو نہیں چھوڑیں گے، اسی طرح کتاب میں آیا ہے کہ ہر وہ عمل جس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا نہ ہو بلکہ دنیا ہو تو وہ عمل فاسد اور اس عمل کے کرنے والا گناہ گار ہے۔
۲۔ مجاہد کو چاہیے کہ اپنے آپ کو غلول1 اور خیانت سے بچائے۔
حضرت عمرؓ بن خطاب سے روایت ہے، آپؓ نے فرمایا: ’’جب خیبر کا دن آیا (یعنی جب غزوۂ خیبر ختم ہو گیا) تو نبی کریمﷺ کے صحابہ میں سے چند لوگ آئے اور آپس میں کہنے لگے کہ فلاں شخص شہید ہوگیا، اس کا نام لے کر اس کی شہادت کا ذکر کرتے، یہاں تک کہ وہ لوگ ایک شخص کی لاش پر سے گزرے اور کہا کہ یہ فلاں شخص شہید ہے۔ نبی کریمﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ ہرگز نہیں، (تم لوگ جس معنیٰ میں اس کو شہید کہتے ہو وہ صحیح نہیں ہے کیونکہ) میں نے اس شخص کو مالِ غنیمت میں سے ایک چادر یا ایک دھاری دار کملی چرانے کے سبب دوزخ میں جلتے دیکھا ہے۔ پھر نبی کریمﷺنے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ ابنِ خطاب! جاؤ اور لوگوں کے درمیان تین مرتبہ یہ منادی کردو کہ جنّت میں (ابتداءً) صرف مومن (یعنی کامل مومن) ہی داخل ہوں گے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ چنانچہ میں نکلا اور تین مرتبہ یہ منادی کی کہ خبردار! جنّت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے۔‘‘
دوسری حدیث جو کہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے:
’’ہم نبی کریمﷺ کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح نصیب فرمائی، اس دفعہ ہمارے ہاتھ سونا اور چاندی نہیں آئی، بلکہ کپڑے، خوراک اور باقی چیزیں ہمارے ہاتھ آئیں۔ پھر ہم وادی القریٰ نہر میں پہنچے۔ نبی کریمﷺکے ساتھ ایک آدمی تھا، جس کو قبیلۂ جذام کے ایک فرد عفاعہ بن زید جو ضبیب کے گھرانے سے تھا، نے ہبہ کیا تھا۔ جب ہم نہر میں اتر گئے تو اس آدمی نے سامان کو کھولنا شروع کیا، اچانک ایک تیر آیا اور اس آدمی کو لگ گیا، تو ہم نے کہا، اس کو شہادت مبارک ہو اے اللہ کے رسولﷺ۔
نبی کریمﷺ نے فرمایا: ایسا نہیں ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمدﷺ کی روح ہے، وہ چادر اس کو آگ میں جلا دے گی جو اس نے خیبر کی غنیمت میں سے تقسیم سے قبل اٹھائی تھی۔ لوگ ڈر گئے اور جس کسی نے ایک تسمہ بھی غنیمت کے سامان سے اٹھایا تھا وہ آپﷺ کی خدمت میں لے کر آئے اور کہا: یا رسول اللہ! ہم نے بھی یہ چیزیں خیبر کے دن اٹھائی تھیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تسمہ ایک ہو یا دو، وہ آگ سے ہے۔‘‘
فتح الملہم میں آیا ہے، اگر کوئی شخص غنیمت کے سامان میں سے کوئی چیز اٹھائے، تو اس پر واجب ہے کہ اسے واپس رکھ دے اور بعض کو قبول کرلے۔ یعنی امیر کی اجازت سے قبول کرلے۔
۳۔ مجاہد اور خصوصاً امیر کے لیے لازم ہے کہ بیت المال کے مال سے اپنے آپ کو ایسے بچائے جیسا کہ یتیم کے مال سے آدمی اپنے آپ کو بچاتا ہے۔
کنز العمال میں حضرت عمرؓ بن خطاب کے بارے میں آیا ہے کہ آپؓ نے فرمایا: ’’میں بیت المال کو یتیم کے مال کی جگہ اتار رہا ہوں۔ اگر مجھے اس کی ضرورت نہ ہو تو اپنے آپ کو اس سے بچاتا ہوں اور اگر محتاج ہوا تو بھلائی کے طریقے سے کھاؤں گا۔‘‘
ابو نعیم نے لکھا ہے: کہ حضرت عثمانؓ لوگوں کو امارت کے مال سے خوراک دیتے تھے اور خود گھر جا کر وہاں سرکہ اور گھی سے روٹی کھاتے تھے۔
۴۔ مجاہد کو چاہیے کہ بلاوجہ فائرنگ نہ کرے، کیونکہ یہ مال کا ضیاع ہے۔
کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ گولیوں کو بلاوجہ ضائع کیا جاتا ہے اور بوقتِ ضرورت ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا۔ حمزہ بن اسید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ’’جب غزوۂ بدر کے دن قریش نے ہمارے لیے اور ہم نے قریش کے لیے صفیں باندھ لیں تو نبی کریمﷺ نے فرمایا؛ جب دشمن تمہارے قریب ہوجائے (جب یقین ہوجائے کہ دشمن تیروں کی زد میں ہے)، تب مارو۔‘‘
ابوداؤد کی روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ اپنے تیروں کو بچائے رکھو۔
(وما علینا إلّا البلاغ المبین!)
1 غلول: غنیمت میں خیانت کرنا۔