نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | چوتھی قسط

سورۃ الحجرات کی روشنی میں

بلال عبد الحی حسنی ندوی by بلال عبد الحی حسنی ندوی
31 مارچ 2025
in تزکیہ و احسان, مارچ 2025
0

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ ۝

’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح جانچ لو کہ کہیں تم نادانی میں کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو، پھر تمہیں اپنے کیے پر پچھتاوا ہو۔‘‘

فیصلہ میں احتیاط

اسلام کا امتیاز

دوسرے تمام مذاہب و ادیان میں یہ اسلام کا نمایاں امتیاز اور اس کی اہم ترین خصوصیت ہے کہ اس میں زندگی کے ہر شعبہ کے لیے رہنمائی موجود ہے، زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو تشنہ رہ گیا ہو اور اس میں تسکینِ قلب و نظر کا سامان نہ کیا گیا ہو، انفرادی زندگی کے مسائل ہوں یا اجتماعی زندگی کی دشواریاں اور پیچیدگیاں ، ہر مشکل کا حل اسلام کی روشن اور پاکیزہ تعلیمات میں موجود ہے، اگر اسلام کے ان معاشرتی مسائل و تعلیمات کو سماج میں برتا جائے تو وہ سماج ظلم اور حق تلفیوں کے عالمی ماحول میں امن و آشتی کا ایسا گہوارہ بن سکتا ہے جو ساری دنیا کے لیے نمونہ ہو، اور شاید دنیا کو آج ایسے ماحول کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

دوسروں کا لحاظ

اجتماعی زندگی ایک دوسرے پراعتماد کے ساتھ مربوط ہے اور یہ ایک انسانی ضرورت ہے، اس اعتماد کے نتائج اگر صرف اپنی ذات تک محدود ہیں تو فیصلہ کرنے والا آزاد ہے، وہ غور کر کے کچھ بھی فیصلہ کر سکتا ہے، لیکن اگر اس اعتماد کے نتائج متعدی ہیں اور اس کی وجہ سے دوسروں پر بھی اس کا اثر پڑ رہا ہے تو اس صورت میں فیصلہ کرنے والا آزاد نہیں ہے، وہ جب تک پوری تحقیق نہیں کر لیتا اور جس پراس نے اعتماد کیا ہے اس کی سچائی اور امانت داری جس کو اصطلاح میں ’’عدالت‘‘ کہتے ہیں ظاہر نہیں ہو جاتی اس وقت تک وہ فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں ، اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ اعتماد کر کے کوئی اقدام کر بیٹھے اور اس کا نقصان دوسروں کو بھگتنا پڑے، سورۃ الحجرات کی چھٹی آیت میں اسلام کے اجتماعی نظام زندگی کے اسی اہم جزء کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، ارشاد ہوتا ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ۝ (سورۃ الحجرات: ۶)

’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح جانچ لو کہ کہیں تم نادانی میں کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو، پھر تمہیں اپنے کیے پر پچھتاوا ہو۔‘‘

تفتیش کی ضرورت

یہ معاشرے کا ایک فرض ہے کہ عام طور پر لوگ کان کے کچے ہوتے ہیں ، فوری طور پر فیصلہ کرنے میں ان کو کوئی باک نہیں ہوتا، اور اس پران کو ناز ہوتا ہے، اس کو وہ قوت فیصلہ سے تعبیر کرتے ہیں ، حالانکہ حکم شرعی یہ ہے کہ فیصلہ کرنے سے پہلے خوب جانچ پرکھ لیا جائے کہ کسی پر ناحق اس کی زد تو نہیں پڑ رہی ہے، کوئی مظلوم تو نہیں بن رہا ہے، پوری تحقیق کے بعد جب شرح صدر ہو جائے تو فیصلہ کیا جائے، عزم کے ساتھ کیا جائے اور اللہ پر اعتماد ہو۔
عام طور پر اجتماعی کاموں میں ، اداروں میں ، تحریکات میں یہ ناسور پیدا ہو جاتا ہے، ایک بڑا گناہ، بدترین گناہ وہ لوگ کرتے ہیں جن کا کام ہی کان بھرنا ہے، اور دوسری بڑی غلطی وہ لوگ کرتے ہیں جو بغیر تحقیق کے ان کی بات تسلیم کر لیتے ہیں ، اس کے نتیجہ میں دلوں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں اور بعض مرتبہ بڑے بڑے دینی و دعوتی کام، ادارے اور تحریکات شقاق و نفاق کا شکار ہو جاتے ہیں ۔

اس آیت شریفہ میں سماج کے اس ناسور کو بند کیا گیا ہے، ہر سنی سنائی بات، کسی کے بارے میں کسی کا کوئی تبصرہ بغیر تحقیق کے مان لینا اور اس کا حوالہ دینے لگنا یا اس کے حوالہ سے اقدام کرنے لگنا بالکل غیر اسلامی عمل ہے، حدیث میں آتا ہے:

کفی بالمرء کذبا أن یحدث بکل ما سمع1

’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ جو سنے اس کو بیان کرنے لگے۔‘

آنحضرت ﷺ کا طریقہ

اس آیت کے شان نزول کے بارے میں متعدد روایات ہیں ، یہ واقعہ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ولید بن عقبہ ﷜ کو قبیلہ بنو المصطلق زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا، جب ان کو معلوم ہوا کہ ولید بن عقبہ زکوۃ وصول کرنے کے لیے آ رہے ہیں تو انہوں نے خود ہی مال زکوۃ جمع کیا اور اس کو لے کر اپنے اپنے علاقہ سے باہر نکل آئے تاکہ وہ خود ہی زکوۃ حضرت ولید کے حوالہ کر دیں اور ان کا استقبال بھی ہو جائے، اسلحہ وغیرہ ان کے ساتھ تھے۔ ادھر کسی نے حضرت ولید کو یہ خبر پہنچائی کہ یہ لوگ زکوۃ دینا نہیں چاہتے اسی لیے تم کو قتل کرنے کے لیے آ رہے ہیں ، حضرت ولید نے اس کو سچ سمجھا اور واپس آ کر ﷺ کو پورا قصہ سنایا، بعض حضرات کی رائے ہوئی کہ ان پر فوراً حملہ کرنا چاہیے، لیکن آنحضرت ﷺ نے حضرت خالد بن ولید ﷜کو تحقیق حال کے لیے بھیجا تو معلوم ہوا کہ ساری باتیں غلط تھیں، کسی نے حضرت ولید کو بالکل غلط خبر دی تھی ،وہ لوگ پوری طرح اسلام پر قائم ہیں اور زکوۃ کی ادائیگی کے لیے وہ خود ہی پہلے سے تیار تھے بلکہ بعض روایات میں تو یہ ہے کہ وہ مال زکوۃ لے کر خود ہی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گئے، اسی واقعہ پر یہ آیت شریفہ نازل ہوئی۔2

فاسق ناقابل اعتبار

عربی زبان میں فاسق چپکے سے نکل جانے والے کو کہتے ہیں ، اور اصطلاحِ شریعت میں فاسق اس کو کہتے ہیں جو احکاماتِ شریعت سے نکل جائے اور اللہ کی نافرمانی کرے، بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی اور انہوں نے فاسق کا اطلاق حضرت ولید ﷜ پر کر دیا لیکن کہیں سے بھی اس کا مصداق حضرت ولید نہیں ہو سکتے اس لیے کہ انہوں نے تو جو کچھ ان کو بتایا گیا اس کی خبر حضور ﷺ کو کر دی، اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہی، ان پر کہیں سے کذب کا اطلاق نہیں ہو سکتا ہے، اور پھر (معاذ اللہ) اگر انہوں نے غلط بیانی کی ہوتی تو ’’يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا ‘‘ کی تعبیر استعمال نہ ہوتی بلکہ ’’يٰٓاَيُّهَا النّبی‘‘ کی تعبیر استعمال ہوتی، خطاب صرف آپ ﷺ کو ہوتا اس لیے کہ انہوں نے تو حضور ﷺ کو خبر دی تھی جبکہ آیت شریفہ میں تمام اہل ایمان کو خطاب ہے، اس میں حضرت ولید ﷜ بطور خاص شامل ہیں۔ لفظ فاسق کا اوّل تو اطلاق اس شخص پر ہو رہا ہے جس نے حضرت ولید کو غلط خبر دی تھی، دوسری بات یہ ہے کہ آیت تو بے شک اس پس منظر میں نازل ہوئی لیکن اب جو حکم دیا جا رہا ہے وہ قیامت تک کے لیے ہے، اس میں کسی فاسق کی تعیین نہیں ہے کہ کوئی بھی فاسق خبر دے تو اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اور ظاہر ہے کہ جب فاسق پر اس سلسلہ میں اعتماد نہیں کیا جائے گا تو کافر و مشرک بدرجہ اولیٰ اس میں داخل ہیں ۔

’’نبأ‘‘ اہم خبر اور قصہ کے معنی میں ہے اس کا اطلاق عام طور پر کسی بڑی یا اہم خبر پر ہوتا ہے، یہاں فاسق اور نبأ دونوں نحو(عربی گرامر) کی اصطلاح کے مطابق نکرہ استعمال ہوئے ہیں ، اس میں عموم کا مفہوم ہوتا ہے، اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ کیسی ہی خبر ہو اگر اس کے اندر اہمیت ہے اور اس کو بتانے والا فاسق ہے تو اعتبار نہیں ، اسی طرح کیسا ہی شخص ہو، معاشرہ میں اس کی بڑی عزت ہو، دولت مند ہو، صاحب منصب ہو اگر اس کے اندر فسق ہے تو اس کی بات معتبر نہیں ، ’’تبین‘‘ کی ضرورت ہے، یعنی تحقیق و جستجو کے بعد ہی فیصلہ ہو سکتا ہے، اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ فیصلہ کرنے کے لیے نہ قیل و قال کا اعتبار کیا جائے گا اور نہ گمان کی بنا پر فیصلہ ہو گا، جب تک یقین یا ظن غالب نہ ہو جائے۔ ہاں اگر کوئی معمولی بات بتائی جا رہی ہے یا کوئی ایسی خبر دے رہا ہے جس کا کسی پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں تو اس میں تحقیق بھی لازم نہیں ہے۔

سنی سنائی باتوں پر یقین کا نقصان

آگے گمان یا سنی سنائی باتوں کی بنا پر جو فیصلے کر دیے جاتے ہیں اس کے نقصان کا بیان ہے۔

’’أَنْ تُصِیْبُوْا قَوْماً بِجَہَالَۃٍ‘‘ کوئی قوم تمہاری ناواقفیت یا طیش کا شکار نہ ہو جائے، جہالۃ کے دونوں مفہوم ہو سکتے ہیں ایک مفہوم اس کا ناواقفیت کا ہے یہ علم کی ضد ہے اور دوسرا مفہوم اس کا طیش میں آ جانے کا ہے یہ حلم کی ضد ہے، ظاہر ہے دونوں صورتوں میں جب حقیقت حال سامنے آتی ہے تو سوائے ندامت کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا، اسی لیے فرمایا ’’فَتُصْبِحُوْا عَلیٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ‘‘ اپنے کیے پر پھر تم کو نادم ہونا پڑے۔

اصولی باتیں

اس آیت سے بعض اصولی مسائل سامنے آتے ہیں :

  1. غیر معروف شخص کی نہ شہادت کا اعتبار ہے اور نہ روایت کا، قاضی اس وقت گواہی قبول کر سکتا ہے جب گواہ معروف و معتبر ہو، عادل و ثقہ ہو، اسی طرح روایت حدیث میں بھی اسی راوی کا اعتبار ہے جو معروف ہو، ’’جہالۃ راوی‘‘ اصول حدیث کی مستقل اصطلاح ہے، اس کے معنی راوی کا ناواقف ہونا نہیں ہے بلکہ راوی کے بارے میں ناواقفیت مراد ہے، یہ جہالت راوی ان دس اسباب طعن میں داخل ہے جن کی بنا پر راوی مطعون ہو جاتا ہے اور اس کی روایات قبول نہیں کی جاتیں ۔

  2. کسی بھی ایسے عمل سے احتراز ہونا چاہیے جو باعث ندامت ہو، اس میں سارے گناہ اور بے احتیاطیاں شامل ہیں بطورِ خاص قاضی جب کسی کے بارے میں حد، تعزیر، تاوان یا سزا کا فیصلہ کرے تو اس کو بہت تفتیش و تحقیق کے بعد فیصلہ لینا چاہیے، ورنہ وہ خود قابل مواخذہ ہے۔

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ فِيْكُمْ رَسُوْلَ اللّٰه ِ ۭ لَوْ يُطِيْعُكُمْ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَّنَهٗ فِيْ قُلُوْبِكُمْ وَكَرَّهَ اِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْيَانَ ۭاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ۝ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَنِعْمَةً ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝ (سورۃ الحجرات: ۷،۸)

’’اور جان رکھو کہ اللہ کے رسول تم میں موجود ہیں ، اگر وہ اکثر چیزوں میں تمہاری بات مانیں گے تو تم مشکل میں پڑ جاؤ گے، البتہ اللہ ہی نے تمہارے لیے ایمان میں رغبت پیدا فرما دی اور کفر و نافرمانی اور معصیت سے تمہیں بیزار کیا، یہی لوگ راہ ہدایت پر ہیں ، (جو ہوا وہ) اللہ کے فضل سے اور اس کے احسان سے، اور اللہ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔‘‘

رسالت کا حق

تین بنیادی حقوق

امت پر رسول اﷲ ﷺ کے بے شمار احسانات ہیں ، ان احسانات کے نتیجہ میں امت پر جو حقوق عائد کیے گئے ہیں ان میں تین بہت ہی اہم اور بنیادی حقوق ہیں ، اور یہ تینوں عقیدۂ رسالت سے متعلق ہیں ، امت اس وقت تک اپنے نبی ﷺ کی احسان شناس نہیں ہو سکتی او ر نہ ہی اس کا عقیدۂ رسالت درست ہو سکتا ہے جب تک وہ ان تینوں حقوق کو سمجھنے والی اور ان کو ادا کرنے والی نہ ہو، ان میں سب سے پہلا حق ’’عظمت‘‘ کا ہے، یہ عقیدۂ رسالت کا جزء ہے کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کو کل مخلوقات میں سب سے افضل سمجھا جائے، آپ ﷺ نے خود یہ اعلان فرما دیا:

أنا سید ولد آدم ولا فخر3

’’میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں اور میں یہ بطور فخر کے نہیں (بلکہ اظہار حقیقت کے لیے کہہ رہا ہوں )۔‘‘

دوسرا حق ’’محبت‘‘ کا ہے، آپ ﷺ سے بڑھ کر کوئی محبوب نہ ہو، نہ ماں باپ، نہ مال و تجارت اور نہ ہی اپنی ذات، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اَلنَّبِیُّ أَوْلیٰ بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أَنْفُسِھِمْ(سورۃ الاحزاب: ۶)

’’نبی ایمان والوں کے لیے اپنی جانوں سے زیادہ محبوب ہیں ۔‘‘

اور خود آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:

لا یؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین4

’’تم میں کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘

تیسرا اہم ترین حق آپ ﷺ کی ’’اطاعت‘‘ کا ہے، یہ حق عقیدۂ رسالت کا اہم ترین جزء ہے، جو آپ ﷺ کو واجب الطاعۃ نہ سمجھے وہ ایمان سے خارج ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

أَطِیْعُوْا اﷲ َ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ

’’اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی۔‘‘

رسول اﷲ ﷺ کی رائے کو اپنی خواہشوں ، رغبتوں کے مطابق کرنا غیر ایمانی فعل ہے، سورۂ حجرات کی اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

وَاعْلَمُوْآ أَنَّ فِیْکُمْ رَسُوْلُ اﷲِ لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الأَمْرِ لَعَنِتُّمْ (سورۃ الحجرات: ۷)

’’اور جان رکھو کہ اللہ کے رسول تم میں موجود ہیں ، اگر وہ اکثر چیزوں میں تمہاری بات مانیں گے تو تم مشکل میں پڑ جاؤ گے۔‘‘

عظمت و اطاعت

عظمت رسالت سے متعلق شروع میں جو بات عرض کی جاچکی ہے، وہ بات ایمان کی ہے، حضور ﷺ کی حیات طیبہ میں کون ایمان والا اس سے واقف نہیں کہ آپ ﷺ بنفس نفیس تشریف فرما ہیں لیکن جذبۂ اطاعت کو ابھارنے کے لیے یہ تعبیر اختیار کی جا رہی ہے تاکہ عظمت رسالت دل میں بیٹھ جائے اور اطاعت کا جذبہ پیدا ہو جائے، اللہ کی طرف سے یہ احسان جتلایا جا رہا ہے کہ تمہیں یہ خصوصیت حاصل ہے کہ رسول اﷲ ﷺ تم میں موجود ہیں ، تم براہ راست مستفید ہو رہے ہو، آپ ﷺ جو فرماتے ہیں وہ اللہ کی طرف سے ہے، تمام کے تمام تشریعی احکامات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہیں ، ان میں کسی کی رغبت اور خواہشات کو دخل نہیں ، آپ ﷺ جو رائے قائم فرماتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مؤید ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ ہر طرح کے مصالح اور ضروریات کے جاننے والے ہیں ، علیم و خبیر ہیں ، جو حکم بھی رسول کی جانب سے دیا جائے، اس میں چوں چرا کی گنجائش نہیں ، اگر رسول اﷲ ﷺ خود رائے طلب فرمائیں یا آپ کو مشورہ دیا جائے اور اس میں کسی قسم کا اصرار نہ ہو تو اس کی اجازت ہے، اس کے متعدد واقعات حدیث و سیرت میں موجود ہیں ۔

غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت حباب بن منذر ﷜کا مشورہ آپ ﷺ نے قبول فرمایا5، غزوۂ خندق کے موقع پر خود آپ ﷺ نے حضرت سلمان فارسی ﷜ سے مشورہ لیا6، غزوۂ احد کے موقع پر آنحضرت ﷺ کی رائے مدینہ میں قیام کی تھی لیکن وہ صحابہ جو غزوۂ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے جذبہ جہاد اور شوق شہادت سے سرشار تھے7، انہوں نے باہر نکل کر مقابلہ کرنے کی رائے دی، آپ ﷺ نے ان کی طیب خاطر کے لیے ان کی رائے قبول فرما لی، اس کا کچھ نقصان بھی ہوا، غزوۂ احد میں بڑے بڑے صحابہ کرام شہید ہوئے، حضرات صحابہ ﷢کو اگر یہ اندازہ ہو جاتا کہ آپ ﷺ حکم دے رہے ہیں اور آپ ﷺ کی خواہش اس میں ہے تو فوراً سر تسلیم خم کر دیتے اور اگر کوئی مشورہ کی بات ہوتی تو مشورہ بھی دیتے، حضرت بریرہ ﷞ جو حضرت عائشہ ﷞ کی خادمہ تھیں ، ان کو آپ ﷺ نے ایک خانگی مشورہ دیا، انہوں نے دریافت کیا کہ اللہ کے رسول! یہ آپ کا حکم ہے یا صرف خانگی مشورہ ہے؟ جب آپ ﷺنے فرمایا کہ حکم نہیں صرف مشورہ ہے تو انہوں نے معذرت فرما لی، اور آپ ﷺ نے اس کو قبول فرما لیا، حکم نہیں دیا۔8

اسوۂ کاملہ

یہ ساری تفصیل اس زمانہ تک محدود تھی جب احکامات شریعت نازل ہورہے تھے، ان میں کبھی ردوبدل بھی ہوتا، احکامات منسوخ بھی ہوتے، لیکن تیئس سال کی مدت میں جب یہ شریعت مکمل ہوگئی اور آپ ﷺ دنیا سے تشریف لے گیے تو یہ پورا نظام متعین ہوگیا، اب کسی حکم میں تبدیلی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی، اور نہ اس کی گنجائش باقی رہی کہ کسی مسئلہ میں آپ ﷺ سے کچھ دریافت کیا جاسکتا ہو، آپ ﷺ نے ہر چیز تفصیلی طور پر بیان فرمادی، اب آپ ﷺکے لائے ہوئے نظام ِشریعت کی پیروی ہر امتی کا فرض ہے، اور جو کچھ منقول ہے وہ حکم شریعت ہے، یہ تقسیم اب کسی طرح ممکن نہیں کہ کسی مسئلہ کو آپ ﷺ کی بشری رائے کہہ کر چھوڑ دیا جائے، کوئی اگر ایسا سوچتا یا رائے رکھتا ہے تو یہ اس کے لیے خطرے کی بات ہے، آپ ﷺ اسوۂ کاملہ ہیں ، آیت شریفہ میں خطاب براہ راست حضرات صحابہ ﷢سے ہے، لیکن بالواسطہ پوری امت کو خطاب کیا جارہا ہے، اور جس طرح قرن اوّل میں ترتیب بدل جانے کے نتیجہ میں حیرانی و سرگردانی کا خطرہ تھا وہ خطرہ آج بھی ہے، آپ ﷺ کو پوری امت کے لیے مطاع بنایا گیا، ہر امتی کی حیثیت بنیادی طور پر مطیع کی ہے، اسی طرح آپ ﷺکی لائی ہوئی شریعت کی حیثیت بھی مطاع کی ہے، علمائے امت کو نائبین رسول اسی بناء پر کہا گیا ہے کہ وہ آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے حامل ہیں ، ان کے ان فیصلوں میں جو قرآن و سنت سے مأخوذ ہوں ان کی پیروی بھی لازم ہے، درحقیقت یہ ان کی پیروی نہیں بلکہ نبی ﷺ کی پیروی ہے۔

اطاعت مطلقہ

جس طرح آپ ﷺ حیات طیبہ میں مطاع تھے، اسی طرح آج بھی مطاع ہیں ، اور آپ کی اطاعت کا مظہر آپ کی شریعت کااتباع ہے اور جس طرح آپ کی حیات طیبہ میں آپ کی رائے کو کسی کی خواہش و ضرورت یا مصلحت کی خاطر تبدیل کردینے میں سخت حیرانی کا اندیشہ ہے، قرآن مجید میں صاف کہہ دیا گیا ہے :

لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الأَمْرِ لَعَنِتُّمْ (سورۃ الحجرات: ۷)

’’اگر وہ (یعنی نبی ﷺ) بہت سے امور میں تمہاری بات مانیں تو تم چکر میں پڑجاؤ۔‘‘

آپ ﷺ کی حیات میں چونکہ اس کا احتمال تھا کہ صحابہ کی رائے اختیار کی جاتی اور مشاورت ہوتی، اس لیے ’’فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الأَمْرِ‘‘ فرمایا گیا، آپ ﷺ کی وفات کے بعد اس کا کوئی احتمال باقی نہیں رہا، اس لیے کسی بھی منصوص حکم شرعی میں ایسی گفتگو کی بھی گنجائش نہیں ، جس طرح کتاب و سنت میں وہ حکم منقول ہے اسی طرح اس کو باقی رکھنا اور عمل کرنا اور کرانا علمائے امت کی ذمہ داری ہے۔

موجودہ دور کا یہ ایک بڑا فتنہ ہے کہ بہت سے نام نہاد علماء یا وہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ جو کتاب و سنت سے ناواقف ہے، بعض مرتبہ منصوص احکامات شرعیہ کے بارے میں ایسی رائے کا اظہار کرتا ہے جس کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، اور اگر وہ رائے تسلیم کرلی جائے تو پھر رسول اﷲ ﷺ کی حیثیت مطاع کی نہیں رہ جاتی، بلکہ اس میں اپنی رائے کو ان کی رائے پر غالب کرنا ہے، اور اس کے نتیجہ میں امت کے لیے حیرانی کے سوا کچھ نہیں ، آج ایک رائے ہے،کل دوسری رائے سامنے آئے گی، اور شریعت کھلواڑ بن کر رہ جائے گی، اور اس کا مقصد فوت ہوجائے گا، قرآن مجید میں اس کے لیے ’’عنت‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس میں مشقت ِشدیدہ کا بھی مفہوم ہے، اور اختلال کا بھی، یعنی سخت دشواری کے نتیجہ میں آدمی چکرا کر رہ جائے گا، اس کو پھر کوئی سرا نہ مل سکے گا۔ امت کے ہر ہر فرد کی ذمہ داری ہے، خواہ کسی طبقہ سے اس کا تعلق ہو، شریعت مطہرہ سے اس کا تعلق کبھی ٹوٹنے نہ پائے، اس لیے کہ جب ایک مرتبہ آدمی تاریکی میں پڑ جاتا ہے تو پھر اس کو راستہ ملنا سخت دشوار ہوجاتا ہے:

ومن لم یجعل اﷲ لہ نورا فما لہ من نور

’’اللہ جس کو روشنی نہ دے اس کو روشنی کہاں سے ملے گی؟‘‘

صحابہ ﷢ پر اللہ کا انعام

حضرات صحابہ کرام ﷢کو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول ﷺ کی صحبت و رفاقت کے لیے منتخب فرمایا تھا، پوری جماعت کی تربیت خود آنحضور ﷺ نے فرمائی تھی، ان کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے محبت رسول ﷺ سے معمور کردیا تھا، وہ آپ ﷺ کے چشم و ابرو کے منتظر رہتے تھے، آپ ﷺ کی محبت و اطاعت کا جو نمونہ انھوں نے چھوڑا وہ پوری امت کے لیے بڑا سرمایہ ہے، اللہ تعالیٰ کا ان پر خاص انعام یہ تھا کہ وہ مزاج نبوت میں ڈھل گئے تھے، حضور ﷺکی چاہت ان کی چاہت تھی، آپ ﷺ کی مرضی کے آگے دنیا کی بڑی سے بڑی دولت و عزت قربان کردینا ان کے لیے بڑی بات نہ تھی، اور یہ صرف ان کا حال نہ تھا بلکہ ان کی طبیعت ثانیہ بن گئی تھی، ایمان سے ان کے دل لبریز تھے، خیر ان کے مزاج میں داخل ہوگیا تھا، اللہ تعالیٰ ان پر اپنے اس انعام کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

وَلٰکِنَّ اﷲ َ حَبَّبَ إِلَیْکُمُ الإِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ إ ِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ، أُولٰـئِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْنَ (سورۃ الحجرات: ۸)

’’البتہ اللہ ہی نے تمہارے لیے ایمان میں رغبت پیدا فرمادی اور کفر و نافرمانی اور معصیت سے تمہیں بیزار کیا، یہی لوگ راہ ہدایت پر ہیں ۔‘‘

آگے ارشاد ہوتا ہے:

فَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ وَنِعْمَۃً

’’(جو ہوا وہ) اللہ کے فضل سے اور اس کے احسان سے۔‘‘

وہ صحابہ جن کی بڑی تعداد ایمان لانے سے پہلے دوسرے رنگ میں رنگی ہوئی تھی، عمومی ماحول کے اثرات اکثر لوگوں پر تھے، لڑائی جھگڑا جن کی گھٹی میں پڑا تھا، اور دسیوں برائیاں ان میں پائی جاتی تھیں ، ایمان لاتے ہی ان کی دنیا بدل گئی، ایک صحابی ﷜ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ ایمان لانے کے بعد کہیں سے گذر رہے تھے، وہاں کسی خاتون نے جس سے پہلے ان کے تعلقات رہ چکے تھے دل لگی کی دعوت دی، انہوں نے فرمایا کہ اب یہ نہیں ہوسکتا، میں ایمان لاچکا ہوں ، ایمان ایسی باتوں سے روکتا ہے9، ان میں کتنے شراب کے رسیا تھے، لیکن حرمت کا اعلان آتے ہی پھر کبھی خیال بھی نہ لائے، ان کے دلوں کی کیفیت ایسی بدلی کہ ایسی تبدیلی کا نظارہ دنیا نے کبھی نہ کیا ہوگا، یہ ان کے ساتھ اللہ کا خاص فضل تھا، اللہ نے ان کا انتخاب اپنے نبی کی صحبت کے لیے فرمایا تھا، ان میں ایمان لانے سے پہلے بھی نفاق نہیں تھا، دوغلاپن نہیں تھا، وہ صاف گو تھے، حقیقت شناس تھے، جب کسی بات کو صحیح سمجھتے تو اسی کے ہو رہتے، ایمان کے بعد جب حق ان کے سامنے آیا اور ان کے دلوں میں ا س کی مٹھاس پیدا ہوئی تو ان کی رت بدل گئی، وہ آنحضرت ﷺ کی صحبت و تربیت میں ایسے ڈھل گئے اور حق کے ایسے داعی بن گئے کہ جہاں گئے وہاں کی دنیا بدل ڈالی، اپنے بلند اخلاق و کردار سے زہد و پرہیزگاری سے اور خلوص و محبت سے انہوں نے دلوں کو فتح کرلیا، چونکہ دین کی حامل وہ ہی جماعت تھی جو دنیائے اسلام کی معلم بنی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو خاص امتیاز بخشا تھا تاکہ وہ آپ ﷺ سے دین سیکھ کر اور آپ کے رنگ میں رنگ کر دنیا کے مختلف علاقوں میں دین کی مکمل ترجمانی کرسکیں ، پھرآگے اس کے بارے میں قرآن مجید کی گواہی ہے کہ :

أُولٰـئِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْنَ

’’ یہی لوگ راہ ہدایت پر ہیں ۔‘‘

دوسری جگہ ان کے بارے میں یہ اعلان بھی ہوچکا ہے کہ:

رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ (سورۃ المآئدۃ: ۱۱۹)

’’اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔‘‘

بعد میں آنے والوں کے لیے خطرہ

آیت کے آغاز میں ایک بڑے خطرہ سے آگاہ کیا گیا تھا کہ اگر رسول اﷲ ﷺکو تم اپنی مرضی پر چلانا چاہو گے تو پورا نظام بگڑ کر رہ جائے گا، مگر اس کے آگے ہی یہ وضاحت کی جارہی ہے کہ تم پر اللہ کا بڑا فضل یہ ہے کہ تم اس سے دور رہے، اللہ نے خیر کو تمہارے دلوں میں پیدا فرما دیا ہے، اور رسول اﷲ ﷺ کی اطاعت تمہارے مزاج میں داخل کردی ہے، اس سے ایک اشارہ یہ ملتا ہے کہ حضرات صحابہ کے دور میں تو وہ خطرہ بہت کم تھا، اس لیے کہ وہ اطاعت میں ڈھلے ہوئے تھے، لیکن یہ خطرہ زمانۂ نبوت سے دوری کے ساتھ ساتھ بڑھتا جائے گا، گرچہ آنحضرت ﷺ موجود نہ رہیں گے لیکن لوگ آپ ﷺ کے ارشادات کو اپنے مفاد کے مطابق کرنے کی کوشش کریں گے، گویا کہ حدیث کو اپنی مرضی کے مطابق بنائیں گے، اور اس کی بیجا تاویلیں کریں گے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں آپ کو اپنی رائے پر آمادہ کرنا، جیسے وہاں کہا گیا کہ اگر رسول ﷺ تمہاری ہر بات ماننے لگیں گے تو تم سخت دشواری میں پڑ جاؤ گے، اسی طرح اگر ارشادات رسول کو بھی اپنی مرضی اور اپنی خواہش کے مطابق کیا جائے گا تو اس کے نتیجہ میں بھی حیرانی و سرگردانی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭


1 مصنف ابن ابی شیبہ، باب ما کرہ للرجل أن یحدث بکل ما سمع/۲۶۱۳۱

2 مسند احمد/۱۸۶۵۰ (۴/۲۷۹)

3 مصنف ابن ابی شیبہ ۷/۴۷۵، ترمذی/ ۳۴۴۱

4 صحیح بخاری، کتاب الایمان ، باب حب الرسول من الایمان/۱۵، صحیح مسلم/۴۴

5 سیرت ابن ہشام ۱/۳۷۸

6 زادالمعاد، کتاب الجہاد والمغازی، فصل رأی سلمان بحفر الخندق/۲۴۰

7 زرقانی ۲/۲۵

8 صحیح بخاری، کتاب النکاح،باب شفاعۃ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم

9 ابواداؤد، باب فی قولہ تعالیٰ : الزانی لا ینکح الا زانیۃ /۲۰۵۳، سنن نسائی/۳۲۲۸

Previous Post

آخر جہاد ہی سے لاپروائی کیوں؟

Next Post

اِک نظر اِدھر بھی! | مارچ 2025

Related Posts

اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | آٹھویں قسط

14 اگست 2025
اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | ساتویں قسط

14 جولائی 2025
اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط

9 جون 2025
اصلاحِ معاشرہ | پہلی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | پانچویں قسط

25 مئی 2025
معرکۂ روح و بدن
طوفان الأقصی

معرکۂ روح و بدن

31 مارچ 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: ستائیس (۲۷)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: اکتیس (۳۱)

31 مارچ 2025
Next Post
اِک نظر اِدھر بھی | اپریل و مئی 2024

اِک نظر اِدھر بھی! | مارچ 2025

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version