اے میری محبوب سرزمین فلسطین! تو اس وقت سے میرے دل میں بسی ہے جب میں اسکول میں زیرِتعلیم ایک چھوٹا سا بچہ تھا اور تجھے بھیجی جانے والی سرمائی امداد کے لیے کوپن خریدتا تھا۔ اپنے پڑوس میں رہنے والے اس فلسطینی کے خدوخال بھی میرے ذہن سے اوجھل نہیں ہوتے جو کئی کئی بار غائب ہوجاتا پھر ایسے حال میں لوٹتا کہ زخموں پر پٹیاں ہوتیں اور ٹوٹی ہڈیوں پر پلستر چڑھا ہوتا۔ میں تجھے بھول بھی کیسے سکتا ہوں، میں مصر کا فرزند ہوں اور تو میری زمین کی ماں جائی ہے۔ اے اہلِ صبر کی آماجگاہ! تیری محبت تو مجھے گھٹی میں ملی ہے اور میں اس نسل کا ایک فرد ہوں جو تیری آزادی اور تیرے دین کی نصرت کی خاطر جیتی ہے۔ میرے بچپن کے کوپن خریدنے کے وقت سے تاحال پچپن برس بیت چکے ہیں، لیکن تو اب بھی اجر کی امید لیے صبر کا دامن تھامے ہوئے ہے۔
زندگی کے تجربات نے ہمیں سکھایا ہے کہ جرأت مندانہ فیصلہ حکمت کے لوازم میں سے ہے، اور بردباری کے لوازمات میں غضب ناک ہونا بھی شامل ہے، سخت سزا دینا بھی رحمدلی ہی کا ایک پہلو ہے، ہوشیاری بہادری کا ایک تقاضہ ہے، سیاست کا ایک حصہ چالبازی ہے، نیز غالب آنے کے لیے دشمن کا خوب خون بہانا ضروری ہے، لیکن فتح پالینے کے لوازمات میں سے ایک معاف کرنا ہے، اس ترتیب سے ہماری جنگ شروع ہوکر اختتام پذیر ہوتی ہے۔
حق وباطل کی معاصر کشمکش میں امتِ مسلمہ ایک اہم ترین تاریخی موڑ سے گزر رہی ہے، اگر امت اس سے بخوبی فائدہ اٹھالے تو یہ اس کے لیے اہم اور مفید ثابت ہوگا، اس عیسوی صدی کے آغاز میں اللہ جل جلالہ نے امریکہ اور یہود کے ساتھ نبردآزما اپنے مجاہد بندوں کو توفیق دی اور انہوں نے اس دشمن پر بڑی کاری اور بھاری ضرب لگائی، جس سے اس کی داخلی کمزوری اور خارجہ پالیسی کی حماقت طشت ازبام ہوگئی۔
ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے واضح فرق کے باوجود مجاہدین نے گوریلا جنگ کے اصولوں کو استعمال کیا اور دشمن کی قوت اور عسکری و ٹیکنالوجی کی برتری کو اسی کے خلاف استعمال کر ڈالا اور آج امت کے بیٹوں کو یہ موقع میسر ہے کہ وہ جنگ کو اگلے مرحلے میں منتقل کردیں۔ نوے کی دہائی کے شروع میں امریکیوں کو صومالیہ سے ذلیل و خوار کر کے نکالا گیاتھا، چند سال قبل وہاں دوبارہ یہ تاریخ دہرائی گئی ہے، دوسال قبل افغانستان سے بھی اسے دُم دبا کر بھاگنے پر مجبور کیا گیا، نیز صہیونی دشمن کی کمزوری بھی طوفان الاقصیٰ کی کارروائی میں واضح ہوئی ہے۔ یہ مبارک کارروائی نائن الیون کے بعد اب تک کی سب سے شاندار کارروائی ہے۔ اس میں ایک خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ جامعۃ الازہر نےامریکیوں پر مجاہدین کی برتری کی گواہی دی ہے، اس بیان پر القاعدہ کے نشریاتی پمفلٹ ’النفیر‘ میں تبصرہ بھی کیا گیا ہے، اور ہم ازہر شریف سے کہتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ تو نظام کی بیڑیاں اور طوق توڑ ڈالے،انقلاب کے رستے پر گامزن ہوجائے اور اپنا وہ تاریخی کردار ادا کرے جس کے ہم سب بےچینی سے منتظر ہیں۔
اب ہم لوٹ کر ارضِ عزت غزہ کی صورتحال کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیتے ہیں:
دشمن کے زاویے سے
امریکہ نے فلسطین پر قابض صہیونیوں کو ایکہاتھ سے دس ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد دی اور دوسرے ہاتھ سے اسے ہر طرح کا اسلحہ فراہم کیا اور ہر طرح کے بم اور بین الاقوامی سطح پر ممنوع میزائل فراہم کیے، تاکہ غزہ کے نہتے مسلمانوں پر انہیں برسائے۔ بلکہ امریکہ نے بے شرمی کی ساری حدیں پھلانگتےہوئے اپنے بحری بیڑے اور افغان سرزمین پر شکست کھانے والی اپنی سپیشل فورسز کے دو ہزار فوجی بھی یہاں بھیجے۔ امریکہ کے فوجی جرنیلوں کے جنگی جرائم صرف غزہ کے نہتے عوام تک محدود نہیں، بلکہ پوری انسانیت ان کی درندگی کانشانہ بن چکی ہے۔ یہ طرزِ عمل انسانی جانوں اور املاک کے خلاف ایک کھلی زیادتی ہے۔ یہ غزہ میں کوئی عسکری ہدف نہیں دکھا سکتےاور نہ اس قتل و وحشت کا کوئی جواز گھڑ سکتے ہیں، البتہ تحریفات کا شکار ان کی آسمانی کتاب توارت کی کتاب ’’تثنیہ ،باب:۲۰‘‘ میں اس بے جواز قتل وغارت کا جواز موجود ہے۔
’’صلح ان کے نزدیک غلام بنانے اور کام میں لانے کے مترادف ہے،اور اگر یہ دشمن سے لڑیں اور غالب آئیں تو تمام مردوں کو تلوار سے قتل کردیں اور جو کچھ زمین پر ہو عورتیں، بچے اور مویشی انہیں بطورِ غنیمت لے کر استعمال میں لائیں۔ یہ قانون دور کے شہروں (کے باسیوں) کے لیے ہے، البتہ سرزمینِ انبیاء (مشرقِ وسطیٰ)میں دشمن کا حکم یہ ہے کہ ان کا اجتماعی قتل کیا جائے۔‘‘
آگے چل کر اسی تحریف شدہ باب کے الفاظ ہیں :
’’رہے ان قوموں کے علاقے جو تیرا معبود رب تجھے بخش دے تو کسی جاندار کو زندہ مت چھوڑ، بلکہ اسے حرام (و تباہ) کر کے رکھ دے۔‘‘
قوموں سےمرادحتی،اموری،کنعانی،فریسی،حوی اور یبوسی ہیں ۔
تورات کی اس نص سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کے لیے عسکری اہداف کی کوئی خاص اہمیت نہیں ، کیونکہ اصل ہدف تو انسان ہیں، دنیا بھر کے یہودیوں اور صلیبیوں کا یہی وطیرہ ہے، کیونکہ ان کا اصل دستور اقوامِ متحدہ کا بین الاقوامی قانون نہیں، بلکہ عہدنامہ عتیق تورات ان کا اصل دستور ہے، اور انسانی حقوق کے بارے میں ان کی چکنی چپڑی باتیں بغیر معنی کے صرف الفاظ کی جگالی ہیں۔
بین الاقوامی قانون صرف کمزوروں، لاچاروں اور قابو میں آئے ہوئے لوگوں کے لیے ہے، مقبوضہ فلسطین کی امریکی ریاست کے صہیونی حکمرانوں نے کبھی اس قانون کی پرواہ نہیں کی۔ اسرائیل پچھلے پچھتر سال سے فلسطین پر قابض ہے،عرصہ بیس سال سے غزہ اور مغربی کنارے کا محاصرہ کیے ہوئے ہے، فلسطینی زمین پر ناجائز نوآبادیاں بنانے سے ایک دن کے لیے بھی نہیں رکا،تاریخ کا بدترین نسلی امتیاز کا نظام لاگو کر کرکھا ہے،قتل وگرفتار کرنے اور مکانات گرا کر زمین ہتھیانے کی منظم مہمات چلاتا ہے، وہاں بسنے والے انسانوں، تمام انسانوں، پر پانی، کھانا، ایندھن اور تمام ضروریاتِ زندگی کو بند کررکھا ہے۔ یہ اسی اجتماعی قتل اور نسل کشی کی عملی تطبیق ہے جس کا حکم تحریف شدہ تورات میں ہے۔ یہ سبھی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے، لیکن بین الاقوامی قانون نے حق دار کو اس کا حق دلانے یا اس کا معاوضہ دلوانے میں کب کوئی بھی کردار ادا کیا؟ اس سب کے بعد متعصب صلیبی یورپ کہتا ہے کہ یہود کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے؟ اس بدبخت ظالم کو مظلوم کیسےکہا جاسکتا ہے؟ ہٹلر نے بڑی غلطی کی جو صرف چند سو یہودیوں کو مارا، یہ تو نسل کشی کے مستحق ہیں،اور ان شاء اللہ یہی ان کا انجام ہوگا اور ان پر کوئی رونے والا بھی نہ ہوگا۔
غزہ کی صورتحال پکار پکار کر بتا رہی ہے کہ یہ یہود اپنے فرسودہ عقائد پر جمے ہوئے ہیں اور تمام انسانیت سے نفرت کرتےہیں۔ ان کے جرائم کے انکار کے لیے تو اب بودی سے بودی تاویل بھی نہیں بچی۔ کیونکہ موبائل فون نے ہر فرد کو ٹی وی چینل بنادیا ہےجو ایسے دل دہلا دینے والےحقائق کو نشر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کتنے چینل بھی ان مظالم کو براہِ راست نشر کررہے ہیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہود بھی اپنے جرائم چھپانا نہیں چاہتے (ورنہ کلیدی خبررساں ادارے انہی کی ملکیت ہیں) بلکہ ان کے ذریعے پوری دنیا کو ڈرانا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ یہود اور امریکہ اس بات کو نظرانداز کررہے ہیں کہ وہ غزہ نامی بڑے سے شہر میں نہتے، کمزور اور محاصرے میں آئے لوگوں کا قتلِ عام کررہے ہیں (اور اسے اپنی بہادری کی معراج کہہ رہے ہیں) لیکن اس دن کو بھول رہے ہیں جب افغانستان نامی ملک میں ان کے سارے حربے بے کار گئے اور ذلت ورسوائی ان کا مقدر ٹھہری۔ تو کیا یہ افغانی مسلمانوں کا بدلہ غزہ کے مسلمانوں سے لے رہے ہیں؟ باؤلی بمباری والی اس جنگ کی بابت کچھ اور سوالات بھی سر اٹھاتے ہیں :
- کیا تم غزہ کی حکومت (حماس)کو گرانے میں کامیاب ہوگئے؟ نہیں !
- کیا تم نے اپنے قیدی چھڑا لیے؟ نہیں!
- کیا تمہارے لیے وہاں اپنی وفادار حکومت قائم کرنا ممکن ہے؟ نہیں!
- کیا تم نے حماس کا نام ونشان مٹادیا؟َ نہیں!
- کیا تم نے افغانستان کے تجربے سے کچھ سیکھا؟ نہیں!
- کیا تم اپنے روندے گئے غرور کو واپس لانے میں کامیاب ہوگئے؟ نہیں!
- کیا تم نے اپنی ناقص عقل سے یہ معلوم کرلیا کہ اب صورتحال بدل چکی ہے اور دوبارہ پہلے کے جیسی (تمہارے حق میں) نہیں ہوسکتی؟ نہیں!
- اچھا !اب تم کیا کروگے؟ افغانستان میں پڑنے والی مار کچھ زیادہ پرانی تو نہیں !
تمہارے سارے اندازے غلط ثابت ہوں گے، ساری کوششیں رائیگاں جائیں گی، محاصرے اور بمباری سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ نہ غزہ کو تنہا کیا جاسکتا ہے اور نہ وہاں کے باسیوں کو جلاوطن کیا جاسکتا ہے۔ زمانہ تمہارے لیےعار لکھے گا اور تاریخ گواہی دے گی کہ سنگ دل لوگوں کے ہاتھ جب اسلحہ لگا تو انہوں نے اپنے پڑوسیوں کے وسائل لوٹنے کے لیے انہیں صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ دنیا کی تمام قوموں ،ملتوں اور نسلوں پر لازم ہے کہ وہ امریکہ اور یہود کے خلاف پوری دنیا میں ہر محاذ پر ایک فیصلہ کن جنگ کے لیے خود کو تیار کریں، اور بغیر کسی حدبندی کے ہر طرح کا اسلحہ جمع کریں، اور اس اسلحے کو بلاجھجک استعمال کرنے کی جرات بھی ان میں ہونی چاہیے، ورنہ پھر یہود اور امریکہ کے کوڑوں کے لیے اپنی پیٹھ تیار رکھیں ۔
اہلِ غزہ اور مجاہدین کے زاویے سے
سات اکتوبر کے کارنامے پر ہمیں کماحقہ سوچ بچار کرنی چاہیے کہ کیسے فاسد صہیونی حکومت کے تمام ادارے لرزہ براندام ہوگئے۔ قابض فوج کے عسکری ادارےکی بات کریں تو جنوب کی پوری بریگیڈ تباہ ہوگئی اور کئی افسران اور سپاہیوں کو مجاہدین نے قید کیا۔ حقیقی نقصان کا تاحال اعلان نہیں کیا گیا۔ استخباراتی ادارے کو بھی اپنی تاریخ کی بدترین ضرب لگی،کنکریٹ کی دیواروں اور برقی رکاوٹوں کو مجاہدین نے عبور کرلیا۔ یہودی آبادکار بھی اپنی حفاظت نہ کرسکے، رہا سیاسی ادارہ تو وہ ایک ایسی داخلی جنگ میں الجھ گیا ہے جس سے تاحال نکل نہیں سکا۔ چنانچہ امریکہ نے فلسطین میں جنگ کو منظم کرنے کے لیے خود ہنگامی مداخلت کرڈالی۔ اگر امریکہ کی یہ ظالمانہ مداخلت نہ ہوتی تو حالات ایک دوسرا رخ اختیار کرتےجس سے پھر صہیونی نمٹ نہ سکتے اورانجامِ کار پورے خطے کا نقشہ بدل جاتا۔ اب بھی محض اللہ کی مدد سے عنقریب یہ نقشہ بدلے گا۔
یہ قتلِ عام (اسے جنگ نہ کہیں )چوتھے ہفتے1بوقتِ تحریر۔ اب تو اس قتلِ عام کو دو سال ہونے کو ہیں۔ (ادارہ) میں داخل ہوچکا ہے، دشمن کی زمینی افواج حرکت میں آگئی ہیں تو عنقریب کون سی تبدیلی آنے والی ہے؟
ہم سب کو پیکرِ صبر غزہ سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ انسانیت کے دشمن صہیونی دردندوں کو یومیہ بنیادوں پر جو سبق غزہ سکھا رہا ہے ہمیں ان پر غور کرنا چاہیے۔ ایک غیرت مند قوم ایسی ہی ہوتی ہے۔ اپنے دشمن کا ترنوالہ نہیں بنتی۔ غزہ کا صبر اور ثابت قدمی دیکھیں! یہ قوم ناقابلِ شکست ہے، بمباری، تباہی اور مقتولین کے ہوش اڑادینےوالے اعداد وشمار نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا اور دشمن کو فتح نہیں دلائی۔ مجاہدین کے فصیلوں کو پھلانگ کر حملہ آور ہونے کے وقت سے ہی صلیبی صہیونی ٹولہ اس جنگ کو ہار چکا ہے۔ اے دشمنو! تم ناکام ہوچکے ہو! پچھتر سال کا ظلم و ستم جب اہلِ اسلام کے ارادہ جنگ کو نہیں توڑ سکا تو یہ چند ہفتوں کی (اور بوقتِ ترجمہ تقریبا دوسال کی) بمباری کیسے اسے توڑ سکے گی؟ گو اس بدترین بمباری کی مثال پیش کرنے سے تاریخ کے صفحات قاصر ہیں! کیا روزانہ حملہ کرکے بھاگ جانے کی کارروائیوں میں تمہیں کچھ کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے یا ہمیشہ ناکام ونامراد بھاگنے پر مجبور ہوتے ہو؟ کیا تم اہل اسلام کے میزائیلوں کو اپنی زمین کے عین بیچ میں گرنے سے روکنے میں کامیاب ہوئے؟ کیا تمہاری بکتربندیں الیاسین ۱۰۵ کی ضربوں سے بچ نکلیں؟ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر تمہارے ٹینکوں پر دن دہاڑے بارودیں سرنگیں نصب کرتے سرفروشوں نے کیا تمہیں دہشت زدہ نہیں کردیا؟ ابھی تم نے کچھ نہیں دیکھا، وقت دور نہیں جب امت کے بیٹے اٹھ کھڑے ہوں گے اور تمہیں اور تمہارے مفادات کو ہرجگہ نشانہ بنائیں گے۔
تمہارا پروپیگنڈہ ناکام ہوچکا، اب ہماری دعوت شروع ہوگی۔ سات اکتوبر کاحملہ اپنے عسکری اہداف کو حاصل کرچکا اور اس کے سیاسی اہداف حاصل ہونے کا ابھی انتظار ہے۔ لیکن ان بنیادی اہداف کے ساتھ مزید کچھ اور اہداف بھی حاصل ہورہے ہیں۔ اس مبارک حملے سے یہود کی خودساختہ مظلومیت کا پول کھل گیا اور ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ مظلوم نہیں، بلکہ نسل پرست اور اعصاب زدہ درندے ہیں۔ اسی طرح مغرب (امریکہ اور اس کے تابعِ مہمل یورپ) کے انسانی حقوق،عالمی معاشرے اور برادری کے نعروں کی قلعی بھی اترگئی اور ان کی شرمناک نسل پرستی، طبقانی نظام، فساد اور یہود کی رسواکن طرف داری کھل کر سامنے آگئی۔ فی زمانہ ان کی نظر میں صرف یہود، پروٹسٹنٹ اور کیتھولک عیسائی ہی انسان ہیں۔ باقی سب کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ تقدیسِ انسانیت کے فریبی نعروں کے بالکل برعکس بقیہ انسانیت ان کے لیے محض اپنی مقصد برآری کا ایک آلہ ہے اور بس۔ اپنی پہچان سے دستبردار جاپان اور بت پرست بھارت چین کا راستہ روکنے کا ذریعہ ہیں، تائیوان بحیرہ چین میں واقع ایک دوسر ااسرائیل ہے جو مغرب کی سافٹ پاور (Soft Power)2یعنی مغربی تہذیب و ثقافت کے نفوذ کی آسانی کے لیے ایک پل کا کام کررہا ہے،جنوبی کوریا ،شمالی کوریا کو بہکانے اور پھسلانے کا آلہ ہے،آسٹریلیا جنوب مشرقی ایشیا کے اسلامی جزیروں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کا ایک اڈہ ہے، بقیہ حلیف بھی ایسے ہی کسی مفاد کی وجہ سے ہیں۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہارے یہ پروپیگنڈے اب بھی اس کرہ ارض پر جاری اور موثر رہیں گے؟ ٹیکنالوجی نے ہر چیز کوہر جگہ پھیلادیا ہے۔ آج کے بعد توکوئی تمہاری بات سننے پر بھی تیار نہ ہوگا،چہ جائیکہ وہ دھوکے میں آکر تمہیں کچھ دے۔ ٹیکنالوجی ایک عالمگیر انقلاب ہے، لیکن اس نے تمہارا پول کھول کر تمہیں وہاں پہنچادیا ہے جس کے تم مستحق ہو۔
مکروہ چہرے والا جان کیریبی برملا یہ کہہ رہا ہے کہ ابھی جنگ بندی کا وقت نہیں آیا! کیوں؟ کیونکہ مجاہدین کے حوصلوں کو توڑنے کا اصل ہدف ابھی پورا نہیں ہوا، اور ان شاء اللہ یہ ہدف کبھی پورا ہوگا بھی نہیں۔ بلکہ تمہیں مجاہدین کے فیصلے کے آگے جھکنا ہوگا۔ جیسے تمہارے ساتھ افغانستان میں ہوا۔ اے امریکیواور صہیونیو! تم نے اپنی حماقت سے خود کو تنہا کردیا ہے، دنیا اور خطہ بلکہ تمہارے قائم کیے ادارے تمہیں چھوڑ چکے ہیں۔ مغرب کو اور صہیونیوں کو یہ مان لینا چاہیے کہ سخت جنگ کے پچیس روز گزرنے کے بعد جان کیریبی کی یہ وضاحت امریکیوں اور صہیونیوں کی شکست کا اعلان ہے۔ تمہاری جنگ عنقریب رکے گی اور سرحدی راہداریاں ضرور کھل کر رہیں گی۔ لیکن اب ہماری جنگ شروع ہوچکی ہے،آنے والا وقت تمہارے حق میں مزید بدتر ہوگا۔ یہاں تک کہ تم ہماری زمینوں سے نکل بھاگو اور تمہارے آلہ کار حکمرانوں کو بھی ہم تمہارے پیچھے ہی چلتا کردیں گے۔ ہم امت کو ایک بار پھر متحد کریں گے،اور تمہارے خودساختہ قوانین اور اصولوں کے بجائے دنیا کو آسمانی ہدایت کے ساتھ جوڑ کر اسے حقیقی امن وسلامتی کی طرف لے چلیں گے۔ تم نے ایک طویل عرصے تک دنیا کو اسلام کے مہربان سائے میں پرسکون زندگی گزارنے سے محروم کررکھا ہے۔ تم نے محض اپنی عیاشی کی خاطر اسلحے کی زور پر اور جھوٹ و دھوکے کے ذریعے دنیا کو حقیقی امن سے محروم کر رکھا ہے ۔
عالمِ اسلام کے مطلق العنان حکمرانوں کے لحاظ سے
’’بلنکن اور عرب حکام‘‘ نامی مضحکہ خیز، خواہ مخواہ کے لمبے اور بور ڈارمہ سیریل کو پوری دنیا دیکھ رہی ہے، ’’کسنجر اور عرب حکام‘‘ ڈرامہ سیریل کا پلاٹ اس سے کافی عمدہ اور پرتجسس تھا،اس کے علاوہ کسنجر کے شریک اداکار اپنی ایک شخصی وجاہت رکھتے تھے، بلنکن کے غیر معروف بالشتیوں کاکام تو محض اس کے تلوے چاٹنا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ سارے (یہود،مغرب،عرب حکام اور عالمِ اسلام کے حکمران) یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس سیاسی منظرنامے سے غزہ کے خونیں منظرنامے کی سنگینی (لوگوں کی نگاہ میں) کچھ کم ہوگی، ہرگز نہیں ! خدا کی قسم! ہماری زمین پر تم نے جو آگ بھڑکائی ہے وہ تم سب کے لیے جہنم ثابت ہوگی، پوری دنیا کی اقوام غزہ کی نصرت کے لیے اٹھ کھڑی ہوچکی ہیں،یہ مظاہرے مایوسی کی طرف نہیں جارہے، بلکہ تبدیلی اور انقلاب کی طرف بڑھ رہے ہیں، اگر تمہارے پاس ہتھیار ہیں تو لوگوں کے پاس بھی سِوِل نافرمانی کا ہتھیار موجود ہے، اور کچھ کے پاس اصل اسلحہ بھی ہے۔ عنقریب یہ عوامی تحریک ایک آگ بن کر بھڑکانے والوں کو بھسم کر ڈالے گی۔
اسلامی دنیا کے حکام کا طرزِعمل کتنا ذلت آمیز ہے۔ دین اور انسانیت کے دشمن کے آگے مکمل سرینڈر کرچکے ہیں، سرحدی چوکیوں اور سلامتی کونسل کی دربان گاہوں پر منتظر کھڑے ہیں۔ کس قدر رسواکن بات ہے کہ یہ حکام رفح کراسنگ پر کھڑے دشمن کی اجازت کا انتظار کررہے ہیں۔ کیسا عار کا مقام ہے! سلامتی کونسل سے سیز فائر کی التجا کرنا کتنا شرمناک ہے۔ اس التجا کا کیا فائدہ جب کہ امریکہ کو ہر چیز ٹھکرانے کا اختیار ہےاور یہود نے کبھی بھی اقوامِ متحدہ نامی ادارے کی کسی فیصلے کو تسلیم نہیں کیا؟ امت کی اقوام تو سات اکتوبر کے پیغام کو سمجھ چکی ہیں، لیکن اے حکمرانو! تم اب بھی ٹس سےمس ہونے کو تیار نہیں۔
اسلامی ملکوں کے حکمرانوں سے امت کو جو جائز توقع تھی وہ یہ تھی کہ وہ مصر، اردن، لبنان، سوریا اور ارضِ حرمین میں اپنی فوجوں کو جمع کرتے، اور اپنی اعلیٰ تربیت یافتہ خصوصی فورسز کو اجازت دیتے کہ وہ بھی ایسے کارنامے انجام دیں جو مجاہدین کےخصوصی دستوں نے انجام دیے۔
ہماری تاریخ میں فتح کا عدل وانصاف، حریت و آزادی اور عزت و شرف سے گہرا تعلق ہے۔ شکست اور ناکامیاں آمریت و قہر کا پرتو اور نتیجہ ہیں۔ کیا فلسطین پر قبضہ سیاسی قہر کی فضا میں نہیں ہوا تھا؟ جب حکمران اپنے عوام پر ظلم کرنے میں تو شیر بنے، لیکن دشمن کے مقابلے میں گیدڑ ثابت ہوئے۔ لہذا اس وقت جو یہ حکومتیں کررہی ہیں وہ یہ ہے کہ بے نتیجہ مظاہروں سے عوامی غضب کو ٹھنڈا کیا جائے۔ اور اس مرحلے میں امریکہ اور اس کے چہیتے اسرائیل کو اس سے کوئی مسئلہ بھی نہیں، (یہ نہ سمجھیں کہ یہ اسلام دشمن غلام حکومتیں مظاہروں کی اجازت دے کر فلسطین کاز کا ساتھ دے رہی ہیں۔) یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمد ﷺ کے جزیرے میں بسنے والی مسلم قوم کہاں گئی؟ کیا وہ مظاہروں میں شریک ہوئی؟ یا ان کے طاغوتی حاکم بن سلمان اور اس کے احمق مشیروں نے انہیں اس سے بھی روک دیا ہے؟
اے ہماری پیاری امت! ان مظاہروں کا بھی کوئی فائدہ نہیں، اگر یہ آگے بڑھ کر وہ تحریک نہ بنیں جو تمہارے ہاتھوں کو باندھنے والی اور اپنے رب کی منشا کے مطابق مستقبل کی صورت گری میں رکاوٹ بننے والی ان حکومتوں کو گرا دے، تب کہیں جا کر تم اس قابل ہوگی کہ ہرجگہ اپنے فرزندوں کی مدد کرسکو، ظلم کا شکار کمزوروں کو انصاف دلا سکو اور اللہ کے دائمی پیغام کو عام کرسکو۔
عرب اور عالم اسلام کے حکام کا طرزِ عمل
عرب حکام اور عالمِ اسلام کے دیگر حکمرانوں کا ردِ عمل کیا رہا؟کیا وہ لوگ اس تاریخی مرحلے کے اہل ثابت ہوئے؟ غزہ کے مسلمانوں کی نصرت کے لیے انہوں نے کیا اقدامات کیے؟ غزہ کے مجاہدین کی نصرت کا ان سے کیا پوچھنا! جب سے جزیرۂ عرب پر بے اختیار بادشاہ سلمان بن عبد العزیز اور اس کا احمق بیٹا براجمان ہوا ہے، انہوں نے اور ان کے ہم مشرب عرب حکام نے مجاہدین کی طرف پیٹھ پھیر لی ہے۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے صلیبی صہیونی آقاؤں کے نقشِ قدم پر چل کر مجاہدین پر دہشت گردی کی تہمت لگانے لگے، بلکہ مزید تِیرہ بختی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجاہدین کے خلاف فلسطین پر قابض صہیونی دشمن کے حلیف بن گئے۔ اس سے قبل ۲۰۲۱ء میں غزہ کے واقعات نے ہی انہیں بے نقاب کیا تھا۔
۲۸ اکتوبر ہفتے کی دن کی عصر تک یعنی کارروائی کے اکیس دن بعد تک ہم نے ان کی آواز تک نہیں سنی۔ البتہ،سرجھکائے منہ ہی منہ میں بہت سے باتیں کررہے تھے۔ جن سب کا مطلب ایک تھا ’’ہمیں جلد ان دہشت گردوں سے نجات دلواؤ، تم نے ہمیں ہماری قوم کے سامنے رسوا کردیا‘‘۔ ان عرب اور عالمِ اسلام کے دیگر حکمرانوں کو ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ پندرہ اگست کو افغانستان سے امریکی فوجوں کے بھاگنے کے بعد سے یہود کی قوت کا وہمی ہالہ پاش پاش ہو چکا ہے، اس دن اعلان ہوگیا کہ اب مغرب اور اس کے پروردوں کے دن پورے ہوچکے ہیں، دنیا میں طاقت کی نئی مساوات سامنے آچکی ہے، جو اسی دہائی میں آگے چل کر مزید نکھر کر سامنے آئے گی۔ کیا اب بھی تمہارے لیے ممکن نہیں کہ ایک مسلمان حاکم کی صحیح ذمے داری پوری کرسکو؟مجھے نہیں لگتا کہ تم ایسا کرنے کا سوچو گے بھی۔
امریکہ کے پرشور سقوط نے لوگوں کی آنکھوں سے پردے ہٹا دیے ہیں، لیکن تمہارے دلوں کے پردے نہیں اٹھے۔ یا پھر شاید تمہاری تمنا ہے کہ یہ نظام اسی طرح باقی رہے تاکہ تمہاری حکومتیں بچی رہیں ،تمہاری بابت اللہ جل جلالہ کا ارشاد ہے :
فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْهِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَةٌ ۭفَعَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَ سَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِيْنَ (سورۃ المآئدۃ: ۵۲)
’’چنانچہ جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) روگ ہے تم انہیں دیکھتے ہو کہ وہ لپک لپک کر ان (کفار) میں گھستے ہیں، کہتےہیں ہمیں ڈر ہے کہ ہم پر کوئی مصیبت کا چکر آپڑے گا، (لیکن) کچھ بعید نہیں کہ اللہ (مسلمانوں کو) فتح عطا فرمائے یا اپنی طرف سے اور کوئی بات ظاہر کردے اور اس وقت یہ لوگ اس بات پر پچھتائیں جو انہوں نے اپنے دل میں چھپا رکھی تھی۔‘‘
نیز ارشادِ باری تعالی ہے:
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ ۭ مَا هُمْ مِّنْكُمْ وَلَا مِنْهُمْ ۙ وَيَحْلِفُوْنَ عَلَي الْكَذِبِ وَهُمْ يَعْلَمُوْنَ (سورۃ المجادلۃ: ۱۴)
’’کیا تم نے ان کو نہیں دیکھا جنہوں نے ایسے لوگوں کو دوست بنا رکھا ہے جن پر اللہ کا غضب ہے؟یہ نہ تو تمہارے ہیں اور نہ ان کے،اور یہ جان بوجھ کر جھوٹی باتوں پر قسمیں کھاجاتے ہیں۔‘‘
پس تم میں سے کچھ تو ان کفار کے معبدوں کے رکھوالے ہیں (تمام عرب اور عالم ِ اسلام کے حکمران) اور کچھ نے محمدﷺ کے جزیرے میں ان کے مندر اور عبادت خانے بنائے، جیسا کہ خلیج کے اکثر حکام نے کیا، ان میں سرِ فہرست ’’خلیج کا شیطان‘‘ بن زاید ہے، کچھ نے مسلمانوں کی جاسوسی کرکے ان کی خبریں دشمن تک پہنچائیں (عبدالفتاح سیسی) کچھ نے یہود کا خیرخواہ بنتے ہوئے انہیں مشورہ دیا کہ غزہ کے مسلمانوں کو صحرائے نقب میں دھکیل دو (عبدالفتاح سیسی) اور کچھ مسلمانوں اور اپنی فوجوں کو سرحد بند کر کے یہود پر حملے سے روک رہے ہیں (اردن، مصر، سوریا، لبنان، ریاض، ترکی اور عراق کے حکمران)، اور تم میں سے کچھ، بے ضمیری کی ساری حدیں پھلانگ چکے ہیں ،
تم سب اپنی امت کے خلاف دشمن کی خندق میں مورچہ زن ہو، غزہ میں بہتے خونِ مسلم میں برابر کے شریک ہو۔ اور مسلمانوں کے قاتل کواللہ نے وعید سنائی ہے:
وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاۗؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِيْھَا وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهٗ وَاَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِيْمًا (سورۃ النساء: ۹۳)
’’جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اللہ اس پر اپنا غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا اور اللہ نے اس کے لیے زبردست عذاب تیار کررکھا ہے۔‘‘
مصر میں زبردستی اقتدار پرقابض صہیونی مہرہ (عبد الفتاح سیسی)
آج کل مصر کے بہادرانہ موقف کی بڑے گن گائے جارہے ہیں کہ اس نے اہلِ غزہ کو اپنے یہاں ٹھہرانے سے انکار کا فیصلہ کیا ہے۔ کیا اہلِ غزہ نے غزہ سے چلے جانے کی یہودی پیشکش کو قبول کر لیا تھا؟ اگر اہلِ غزہ خود غزہ چھوڑنے کا فیصلہ کرتے تو انہیں کوئی روک نہیں سکتا تھا اور وہ پہلے کی طرح راہداری کو عبور کرکے مصر میں داخل ہوجاتے۔ جلاوطنی سے انکار کا فیصلہ اس سیدھے سادے غزہ کے مسلمان کا ہے جس کے باپ دادا جلاوطنی کی تلخی جھیل چکے تھے کہ بعد میں انہیں ان کی زمین کبھی واپس نہ مل سکی۔ سیسی کہاں ان کا خیرخواہ ہے، یہ تو وہ بدبخت ہے جس نے اپنے کارندوں کے ہاتھ یہود کو پیغام بھجوایا کہ غزہ کے مجاہدین تمہارے خلاف کسی بڑی کارروائی کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ یہی وہ سیسی ہے جس نے یہودکو مشورہ دیا کہ وہ اہلِ غزہ کو صحرائے نقب میں جلاوطن کردے، پھر یہود چاہیں تو وقت آنے پر انہیں واپس غزہ آنے دیں یا وہیں صحرا میں مرنے کے لیے چھوڑ دیں۔ اسی سیسی نے یہود کی طرف سے امداد پہنچانے کی اجازت ملنے تک سرحدی راہداری کے دروازے بند کرکے وہاں پہرے بٹھادیے، حالانکہ اسے تو چاہیے تھا کہ عالمی طور پر دسویں نمبر کی حامل اپنی فوج کو فلسطین کی حفاظت کے لیے سرحد پر لے آتا۔ اگر خود کمزور تھا تو دیگر اسلامی حکمرانوں کو اپنی مدد کے لیے بلاتا۔ اسے یہودی فضائیہ کو غزہ پر بمباری سے روکنا چاہیے تھا، کیونکہ اس سے مصر کی سلامتی وابستہ ہے۔ اور پھر اپنی فوج لے کر فلسطین کی آزادی کے لیے نکل کھڑا ہوتا، یہ کیابا ت ہے کہ سلامتی کونسل کے آستانے پر بڑی شرمناک تابعداری کے ساتھ جنگ بندی کے فیصلے کا انتظار کررہا ہے۔ کیا یہی نہیں تھا جس نے دھمکی دی تھی کہ جو بھی مصر کے قریب آئے گا اسے سبق سکھادوں گا (شاید اس کی مراد اپنی کرسی تھی)۔ سیسی نے اپنے عمل سے واضح کردیا کہ مصری فوج کا مقصد فقط اپنی سرحدات کی حفاظت ہے، اس سے زیادہ کی اس سے توقع نہ رکھی جائے (کتنی شرم وعار کی بات ہے)۔ سات اکتوبر کے جانبازوں نے جو کیا یہ فوج اس کا سوواں حصہ کرنے سے بھی قاصر ہے، کیونکہ ان کا قائد سیسی ہے، ذیل کے اشعار میں شاید شاعر نے سیسی کے حال کا نقشہ کھینچا ہے:
اسد علی وفی الحروب نعامۃ
فتخاء تنفر من صفیر الصافر
ھلا برزت الی غزالۃ فی الوغی
بل کان قلبک فی جناحی طائر
’’مجھ پر تو تُو شیر ہے لیکن جنگ میں ایسا شترمرغ بن جاتا ہے جو سیٹیوں کی آواز سے بگٹٹ دوڑتا چلاجاتا ہے ۔
توجنگ میں ہرنی کے مقابل کیوں نہیں نکلا؟ تو کیا نکلتا! تیرا تو مارے خوف کے دل سینے سے باہر نکلا جارہا تھا۔‘‘
اے مصر کے معزز لوگو!اور ہر وہ فوجی جس کے دل میں ذرہ بھر بھی غیرت وحمیت ہے! کیا اپنی اس حالتِ زارپر تم خوش ہو؟ کیا تم نہیں چاہتے کہ دنیا کے بہترین فوجی بنو اور یہود اور ان کے حلیفوں کے خلاف جہاد کا جھنڈا اٹھاؤ؟ بخدا! تم سے کم درجے کے اور کمزور لوگ بھی یہود اور ان کے کرتوتوں کو برداشت نہیں کرنے والے اور نہ سیسی اور اس کی فوج و خفیہ اداروں کے کمانڈروں اور ان کی شرمناک حرکتوں پر چپ کرکے بیٹھنے والے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ہمیں تم سے بڑی توقعات ہیں، ورنہ تم پر رہتی دنیا تک ایسی عار مسلط ہوگی جس سے خود رسوائی بھی پناہ مانگے گی۔
جزیرۂ عرب کے مشرق میں واقع چند انتہائی مالدار شہروں کا صہیونی حاکم (خلیج کا شیطان:بن زاید)
تیرے جہاز لیبیا اور مالی میں مسلمانوں پر بم برسانے پہنچ گئے، لیکن اپنے پڑوس میں واقع فلسطین کی مدد کے لیے نہیں پہنچ سکے، کیوں؟ جب تو نے ہندوستان میں اللہ کے گھر مساجد کی شہادت پر کوئی غیرت نہیں دکھائی، نہ کوئی مخالف عندیہ ظاہر کیا ۔ نہ ہندوؤں کو ملک بدر کرنے کی دھمکی دی نہ خود تو نے حرمین کی زمین پر ان کے لیے جو مندر بنایا ہے اسے بند کرنے کی دھمکی دی۔ جب تو ہندوستان کے خلاف کچھ نہیں کرسکا تو اپنے پاسبان امریکہ اور اپنے صہیونی آقا کے خلاف کیا کرسکتا ہے؟ میں اکثر اپنے ساتھیوں سے کہتا تھا کہ آلہ کاری کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔آلہ کار مکمل جھکتا نہیں، بلکہ اس نے ایک حد مقرر کی ہوتی ہے جس سے وہ نیچے نہیں جاتا۔ لیکن تیری آلہ کاری کی کوئی حد نہیں، تیرے جہازوں نے یمن، لیبیا اور مالی میں مسلمانوں پر جو ستم ڈھائے وہ فلسطین میں یہودی جہازوں کے جرائم سے کم نہیں۔ کتنے فلسطینی تیرےملک میں کام کرتے ہیں لیکن تو نے انہیں شہریت نہیں دی، جبکہ سات ہزار سے زائد یہودیوں کو تونے شہریت دی ہے۔ تونے ویٹی کن کے پوپ کی دعوت کی اور اس کے سامنے ذلت سے کھڑا رہا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ تو صلحِ کل اور وحدتِ ادیان کے عقیدے کو مانتا ہے؟ لیکن یہ بھی تب ہوتا ہے جب تیرے سامنے کافر ہوں، جیسے مسلمان سامنے آئیں تو تو اس عقیدےکو بھی چھوڑ دیتا ہے۔ سو تیری یہ بدعقیدگی تجھے مبارک ہو۔
ریاض کا حاکم ولی عہد بن سلمان،زنا اور گناہوں کو ترویج دینے والا
محمدﷺ کے جزیرے میں دین ،پاک دامنی اور تمام اچھائیوں کے خلاف اس کے احمق حاکم کی قیادت میں ہمہ جہت جنگ لڑی جارہی ہے۔ اہلِ علم کو گرفتار کیا جاچکا ہے، اور ایک بڑی تعداد کو دار پر چڑھا دیا ہے۔ باقیوں کو خاموش کردیا گیا ہے، صرف اسی کو بولنے کی اجازت ہے جو اس بدبخت کے نام کی مالا جپےاور اسے بخشش کے پروانے دے۔ اس نے زنا اور منکرات کی محفلوں کو عام کرکے (حتیٰ کہ حرم کے قرب میں بھی یہ گندگی کی گئی) بے غیرتی کو فروغ دیا ہے۔ دولت مندوں کی دولت کو بزور چھینا ہے، بن لادن کی ٹھیکے دار کمپنی کو بھی ضبط کرلیا، اب اسے بیچ ڈالا ہے یا یہود کے سپرد کردیا ہے۔ امریکی سفارتخانے کو القدس شہر منتقل کرنے کے نذرانے کے طور پر مجرم ٹرمپ کو ایک ٹریلین ڈالر دیے۔ مسلمانوں کے جمع کیے مال سے اپنے نام ونمود کے لیے فٹ بال کے کھلاڑی خریدے،تاکہ مسلمان نوجوانوں کا لایعنی کاموں میں مشغول کرکے جہاد و استشہاد سے دور اور غافل کردے۔ میں حرم کے اما م (سدیس) سے پوچھتا ہوں: کیا اب بھی ریاض اور امریکہ دنیا کی قیادت کررہے ہیں (غزہ کے خلاف جنگ میں)؟ جن حکام کا اپنا یہ حال ہو ان سے کیا توقع کہ وہ غزہ یا اس کے علاوہ کمزور و مظلوم مسلمانوں کی مدد کریں گے؟
سب رکاوٹوں کے باوجود برپا ہونے والے سات اکتوبر کے مبارک حملے نے بہت سے حقائق کو آشکار کردیا۔ امت کے ابطال اس کے ہراول مجاہد دستے اور مخلصین سے یہ بات مخفی نہیں کہ اس دور رس اثرات کی حامل ضرب نے اسلام، اہلِ اسلام اور ان کی زمینوں اور وسائل کے خلاف بنائے گئے بہت سے منصوبوں کو ناکام بنادیا ہے۔ یہ حکومتیں اور ان کے کرپٹ کرتا دھرتا خود اپنی خوشی سے صلیبی صہیونی شکنجے میں بےبس پڑے ہیں۔ عنقریب پوری بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ آلِ سعود اور یہود کے مابین تعلقات کی بحالی کا اعلان ہوجائے گا، اور نیوم کی نوآبادی میں چھپی یہ دوستی کھل کر سامنے آجائے گی۔ مجھے یقین ہے کہ بن سلمان میں بے باکی ہے کہ وہ پہلی فرصت یہ کرڈالےگا۔ شاید رواں ریاض فیسٹیول کے اختتام پر۔
شاید ہم بن سلمان (اللہ اسے ہلاک کرے) کے بارے میں کچھ زیادہ بدگمانی کا شکار ہورہے ہیں۔ ممکن ہے وہ ریاض فیسٹیول میں سے حاصل شدہ آمدنی کو غزہ کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں خرچ کرے۔
میں ان چند حکام کی مثالوں پر بس کرتا ہوں، کیونکہ دیگر بھی انہیں کے نقشِ قدم پر ہیں، البتہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کا معاملہ مختلف ہے۔ اس کا اپنا کوئی لائحہ نہیں، وہ تو بس اتھارٹی کے دفتر میں پڑا یہود کے احکام کا منتظر رہتا ہے۔ اگر شاعر احمد مطر کے ’’قصیدے‘‘ اور غزہ کی موجودہ صورتحال نہ ہوتی تو کسی کو یاد بھی نہ ہوتا کہ رام اللہ میں محمود عباس نام کا کوئی حاکم بھی ہے۔ کیا واقعی احمد مطر تمہاری ذات کے ’’قصیدے‘‘ لکھتا تھا یا پھر وہ تمہارے نام کو بے بس حکمرانوں کے لیے ایک استعارے کے طور پر استعمال کرتا تھا۔
سیسی اور مصری فوج کے بارے میں جو میں نے کہا، بعینہ اسی کو میں دیگر اسلامی ملکوں کے لیے بھی دہراتاہوں۔ آج کسی کے پاس کوئی عذر نہیں کہ وہ یہود اور امریکہ کو نشانہ نہ بنائے، کیونکہ دشمن فلسطین تک محدود نہیں، بلکہ اس کے مفادات پورے عالمِ اسلام میں پھیلے ہوئے ہیں، ان کے سفیر محض سفیر نہیں ہوتے، بلکہ متعلقہ ملک کے عملی اور اصلی حکمران ہوتے ہیں۔ ہم نے تاحال کسی ملک کے بارے میں نہیں سنا کہ اس نے یہود اور مغرب کا بائیکاٹ کیا ہو یا اس کے ساتھ تجارت روکی ہو۔ اور کسی ایسے حاکم کا بھی نہیں سنا جس نے مونچھوں کو تاؤ دے کر بہادری دکھاتے ہوئے امریکہ یا یہودکے سفیر کو ملک بدر کیا ہو! کریں بھی کیسے؟ وہ خود یہود سے بڑھ کر یہودی ہیں، بلکہ ان کے آقا امریکہ نے تو یہ کہہ کر انہیں برملا رسوا کردیاہے کہ ’عرب حکام‘ حماس کی تباہی کے یہود سے بھی زیادہ خواہش مند ہیں اور اگر ایسا ہوگیا (لا قدر اللہ) تو یہ یہود سے زیادہ خوش ہوں گے۔
آج یکم نومبر ۲۰۲۳ء ہے، میرا سوال ہے: غزہ کی خاطر عرب لیگ کا اجلاس منعقد ہوگیا؟ یا ابھی کورم پورا نہیں ہوا؟
سالم الشریف
جنگ کا چوتھا ہفتہ
٭٭٭٭٭
- 1بوقتِ تحریر۔ اب تو اس قتلِ عام کو دو سال ہونے کو ہیں۔ (ادارہ)
- 2یعنی مغربی تہذیب و ثقافت