تاریخ کے اوراق پلٹیں تو مصر اور اسرائیل کے تعلقات ایک ایسی داستان رقم کرتے ہیں جو سیاسی مصلحتوں، سفارتی چال بازیوں اور مفادات کی جنگ کی عکاس ہے۔ ۱۹۷۹ء میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے سے لے کر آج تک مصر فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتا ہی نظر آیا ہے۔ غزہ پر مسلط موجودہ جنگ میں جہاں ایک طرف معصوم بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے، تو دوسری طرف بھوک اور پیاس سے نڈھال ہڈیوں کا ڈھانچا بنے اہل غزہ، پڑوس میں بسے اپنے مسلمان مصری بھائیوں سے مدد و نصرت کے منتظر ہیں۔ لیکن مصر کی بے حسی اور خاموشی ایسی کان پھاڑ دینے والی ہے کہ اس میں اہلِ غزہ کی آہیں، چیخیں اور پکار کہیں دب کر رہ جاتی ہے۔غزہ پر مسلط اس جنگ نے فلسطینیوں کے حوالے سے مصر کے گھناؤنے کردار کو روزِ روشن کی طرح عیاں کر دیا ہے۔
یہ تحریر اسی تلخ حقیقت کا جائزہ لیتی ہے کہ کس طرح مصر نے اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے فلسطینیوں کے ساتھ غداری اور قبلۂ اوّل کے ساتھ خیانت کی۔
شاہ فاروق (1936ء تا 1952ء)
فلسطین میں صہیونیت کے اثر و رسوخ میں اضافہ اور بالآخر صہیونی ریاست کے قیام کے زمانے میں مصر میں خاندانِ محمد علی کی سلطنت کا دسواں بادشاہ شاہ فاروق حاکم تھا۔ جو اپریل ۱۹۳۶ء میں اپنے والد شاہ فواد کے مرنے کے بعد ۱۶ سال کی عمر میں مصر کا بادشاہ بنا۔
شاہ فاروق کے دور کے زیادہ تر عرصے میں وہ خود، اور مصری عوام بالعموم، عالم اسلام بالخصوص فلسطین کے معاملے سے پوری طرح لاتعلق تھے۔ لیکن اس صورتحال میں ۱۹۴6ء میں تبدیلی آئی جب بیت المقدس کے مفتیٔ اعظم شیخ امین الحسینی جو مختلف یورپی ممالک میں یہود مخالف (antisemite) ہونے کے الزام میں مطلوب تھے ، فرانس سے فرار ہو کر مصر آ گئے اور شاہ فاروق نے انہیں سیاسی پناہ دے دی۔
مفتیٔ اعظم امین الحسینی کی مصر میں موجودگی نے مصریوں کی توجہ مسئلہ فلسطین کی جانب مبذول کروائی، اور اس میں مزید اضافہ تب ہوا جب مفتیٔ اعظم نے اخوان المسلمون کے مرشدِ عام شیخ حسن البناء کے ساتھ اتحاد کر لیا۔ اس وقت تک اخوان المسلمون مصر کی مقبول ترین جماعت بن چکی تھی اور اس کے ارکان کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔ مفتیٔ اعظم نے اخوان کے عوامی اجتماعات میں صہیونیت کے خلاف جہاد کی اہمیت کو اجاگر کیا جس کی وجہ سے پورے مصر میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے آگاہی میں اضافہ ہوا۔
نومبر ۱۹۴۷ء میں جب برطانیہ نے اعلان کیا کہ وہ فلسطین سے اپنا تسلط مئی ۱۹۴۸ء میں ختم کر رہا ہے تو اس اعلان کے فوری بعد فلسطین میں خانہ جنگی چھڑ گئی۔ صہیونی نیم فوجی دستوں نے فلسطینیوں کا قتلِ عام شروع کیا اور ان تمام مظالم کی خبریں مصر میں بھی پہنچنے لگیں۔
دسمبر ۱۹۴۷ء میں اخوان المسلمون نے قاہرہ میں ایک مظاہرے کا اہتمام کیا جس میں ایک لاکھ سے زائد مصریوں نے شرکت کی جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ حکومت فلسطین میں مداخلت کرے اور جاری مظالم کر رکوائے۔
اس عرصے میں مصر میں یہ تصور پایا جاتا تھا کہ جب برطانوی فلسطین کو چھوڑیں گے اور اس کے نتیجے میں جو اسرائیلی ریاست قائم ہو گی تو نتیجے میں چھڑنے والی جنگ بہت آسان ہو گی اور مصری فوج چند ہی دنوں میں بیت المقدس پہنچ جائے گی۔
شاہ فاروق کو اپنی فتح کا اس قدر یقین تھا کہ اس نے جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی قاہرہ میں فتح کے جشن کی تقریبات شروع کر دیں، لیکن شاہ فاروق نے اپنے جنگ کے ارادے اپنے وزیر اعظم اور سیاسی حکومت سے مخفی رکھے۔ مئی ۱۹۴۸ء میں جنگ سے کچھ وقت قبل ہی وزیر اعظم محمود پاشا کو جنگ کا علم ہوا تو اس نے مخالفت کی اور کہا کہ مصری فوج جنگ کے لیے تیار نہیں۔ شاہ فاروق نے جوا ب میں کہا کہ جنگ ناگزیر ہے کیونکہ اخوان المسلمون ایک عرصے سے اسرائیل سے جنگ پر زور دے رہی ہے اور مجھے خوف ہے کہ اگر میں نے جنگ سے انکار کیا تو وہ مجھے تخت سے بے دخل کر دیں گے۔
جنگ شروع ہوئی اور مصر کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا جس کی بہت سی وجوہات میں ایک تو یہ تھی کہ مصری فوج نا تجربہ کار تھی اور اس نے جنگ میں انتہائی ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ شاہ فاروق کی کابینہ میں شامل برطانوی ’ایڈمنڈ گالہن‘ (Edmond Galhan) نے مصری فوج کو دوسری جنگِ عظیم میں اطالوی فوج کی چھوڑی ہوئی ناقص بندوقیں بیچ دیں جو جنگ کے دوران ناکارہ ثابت ہوئیں۔
جنگ میں مصری فوج کے علاوہ اخوان المسلمون کے ارکان بشمول مرشدِ عام شیخ حسن البناء نے براہ راست حصہ لیا اور مصری فوج کے برخلاف اخوان نے جنگ میں شجاعت کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں غزہ مصر کے قبضے میں آیا۔
جنگ کے وقت تک اخوان المسلمون کے ارکان کی تعداد ۲۰ لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی اور اسرائیل کے خلاف جنگ میں شجاعت کا مظاہرہ کرنے اور اس کے بعد برطانیہ سے مصر سے فوری نکل جانے کا مطالبہ کرنے کی وجہ سے اخوان المسلمون کی شہرت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔
اخوان المسلمون کی یوں روز بروز بڑھتی مقبولیت ایک طرف شاہ فاروق کے اقتدار کے لیے بھی خطرہ بن رہی تھی تو دوسری طرف برطانیہ بھی شاہ فاروق پر زور دے رہا تھا کہ اخوان پر پابندی لگائی جائے۔ اس لیے شاہ فاروق نے ۹ دسمبر ۱۹۴۸ء کو اخوان المسلمون پر پابندی لگا دی اور اس کے ہزاروں ارکان کو گرفتار کر لیا۔
جنوری ۱۹۴۹ء میں مصر نے اسرائیل کے ساتھ سرحدوں کے تعین کے لیے آرمسٹائس معاہدہ کر لیا جس کے نتیجے میں غزہ مصر کے پاس آیا اور باقی اسرائیل کے ساتھ سرحد کو مصر نے باقاعدہ سرحد تسلیم کر لیا۔ اس کی اخوان المسلمون نے بھرپور مخالفت کی اور شاہ فاروق کا تختہ الٹنے کی مہم شروع کر دی۔ جس کے جواب میں شاہ فاروق نے فروری ۱۹۴۸ء کو اخوان المسلمون کے مرشدِ عام شیخ حسن البناء کو پولیس کے ہاتھوں شہید کروا دیا۔ شیخ حسن البناء کی شہادت کے بعد مفتیٔ اعظم امین الحسینی بھی مصر سے نکل گئے اور لبنان منتقل ہو گئے۔
اس سب کے بعد شاہ فاروق کی شہرت تیزی سے گرنے لگی۔ ۱۹۴۸ء کی جنگ میں شکست، اور اخوان پر کریک ڈاؤن کے علاوہ اس کی بڑھتی ہوئی بدنامی کی وجہ اس کی شاہ خرچیاں بھی تھیں۔ شاہ فاروق کا شمار دنیا کے دس امیر ترین افراد میں ہوتا تھا اور اس کی دولت اور عیاشیوں کی خبریں پوری دنیا میں مشہور ہوتی تھیں۔
ان سب چیزوں کی وجہ سے ۱۹۴۸ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد مصری فوج میں حرکة الضباط الأحرار‘ (Free Officers Movement) کے نام سے ایک گروپ بن چکا تھا جس کی قیادت کرنل جمال عبد الناصر کر رہا تھا۔ یہ گروپ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے نوجوان سرکاری اور فوجی افسران پر مشتمل تھا۔اس گروپ کا مقصد برطانوی اثر و رسوخ اور شاہی نظام سے مکمل آزادی تھا۔ ۱۹۴۹ء میں مصری فوج کے مشہور جنرل نجیب نے اس گروپ میں شمولیت اختیار کر لی اور کرنل جمال عبد الناصر نے اسے گروپ کے ایک عوامی چہرے کے طور پر متعارف کروانے کے لیے اسے گروپ کا سربراہ بنا دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عوام نوجوانوں کے ایک گروپ کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لے رہی تھی لیکن ایک مشہور اور پختہ عمر کے جنرل کی قیادت سے اس گروپ نے عوامی اعتماد حاصل کیا۔
۲۳ جولائی ۱۹۵۲ء کو فری آفیسرز موومنٹ نے بغاوت کر دی اور صرف ۱۰۰ جونئیر افسروں کی مدد سے شاہ فاروق کا تختہ الٹ دیا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ شاہ فاروق تخت سے دستبردار ہو گیا اور بادشاہت اپنے ۷ ماہ کے بیٹے فواد ثانی کے حوالے کر دی۔ ۲۶ جولائی ۱۹۵۲ء کو شاہ فاروق کو مصر سے جلا وطن کر دیا گیا۔
جمال عبد الناصر(۱۹۵۴ء تا ۱۹۷۰ء)
۱۹۵۲ء کے انقلاب کے بعد فری آفیسرز موومنٹ نے محدود وقت کے لیے سولین حکومت چلنے دی اور پھر مصر کا اقتدار فوج کے ہاتھوں میں چلا گیا اور تمام سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگا دی گئی۔ ۱۸ جون ۱۹۵۳ء کو جمہوریہ مصر کا اعلان کر دیا گیا اور محمد نجیب اس کا پہلا صدر قرار پایا۔ لیکن مصری نظام پر صدر محمد نجیب کی بجائے ’مجلس قیادۃ الثورۃ‘ [Revolutionary Command Council (RCC)] کا قبضہ تھا جس کی سربراہی جمال عبد الناصر کے ہاتھ میں تھی۔ محمد نجیب نے اختیار آر سی سی سے اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کی تو جمال عبد الناصر نے اسے اقتدار سے بے دخل ہو جانے پر زور دینا شروع کر دیا۔
۲۵ فروری ۱۹۵۴ء کو محمد نجیب نے صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور جمال عبد الناصر نے اسے اس کے گھر میں قید کر دیا اور آر سی سی نے جمال عبد الناصر کو ملک کا وزیر اعظم قرار دے دیا۔ لیکن اس اقدام کے نتیجے میں ملک بھر میں احتجاج شروع ہو گیا اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ جس کے نتیجے میں جمال عبد الناصر کو اپنے فیصلے واپس لینے پڑے۔
۲۶ اکتوبر ۱۹۵۴ء کو اخوان المسلمون کے ایک رکن محمود عبد الطیف نے جمال عبد الناصر کو اس وقت قتل کرنے کی کوشش کی جب وہ برطانوی فوج کے انخلاء کی خوشی میں اسکندریہ میں تقریر کر رہا تھا اور وہ تقریر پوری عرب دنیا میں ریڈیو پر براہ راست نشر کی جا رہی تھی۔ محمود عبد الطیف جمال عبد الناصر سے صرف ۲۵ فٹ (تقریباً ساڑھے سات میٹر) دور تھا اور اس نے جمال پر آٹھ گولیاں چلائیں۔ جن میں سے کوئی ایک بھی جمال عبد الناصر کو نہیں لگی۔ جمال عبدالناصر اپنی جگہ سے بالکل نہیں ہلا اور اس کے بعد اس نے تقریر کرتے ہوئے کہا:
’’میرے ہم وطنو! میرا خون آپ کے لیے اور مصر کے لیے بہتا ہے۔ میں آپ کے لیےجیتا ہوں اور آپ کی آزادی اور وقار کے لیے مرتا ہوں۔ انہیں مجھے قتل کرنے دیں، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر یہ مجھے قتل کر دیں اگر اس کے بدلے میں آپ کے اندر فخر، وقار اور آزادی پیدا کر سکوں۔ اگر جمال عبد الناصر مر جاتا ہے ، تو آپ میں سے ہر کوئی جمال عبد الناصر ہو گا۔ جمال عبدالناصر آپ کے لیے ہے اور آپ میں سے ہے اور وہ اس قوم کے لیے اپنی جان بھی قربان کرنے کو تیار ہے۔‘‘
اس وقت پورا میڈیا آر سی سی کے قبضے میں تھا اس لیے کسی میں جرأت نہیں تھی کہ اس بھونڈے ڈرامے کی حقیقت کی طرف نشاندہی کر سکتا۔ اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والا محمود عبد الطیف ایک ماہر نشانہ باز مانا جاتا تھا اور صرف ۲۵ فٹ کی دوری سے اس کی آٹھ گولیوں میں سے ایک بھی جمال عبد الناصر کو نہیں لگی اور اس دوران جمال عبد الناصر اپنی جگہ سے ٹس سے مس بھی نہ ہوا اور پھر ایسی سوچی سمجھی تقریر بھی کر ڈالی۔ لیکن ان سب واضح اشاروں کے باوجود اسے جمال عبد الناصر پر حقیقی حملہ تصور کر لیا گیا۔
نتیجہ وہی ہوا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ نہ صرف مصر میں بلکہ چونکہ یہ اقدامِ قتل ایک ایسے موقع پر کیا جا رہا تھا جب جمال عبد الناصر کی تقریر پوری عرب دنیا میں براہ راست نشر کی جا رہی تھی، اس لیے اس واقع کے بعد جمال عبد الناصر کی شہرت پوری عرب دنیا میں آسمان سے باتیں کرنے لگی۔
اس واقع کے بعد جمال عبد الناصر نے وہ سارے اقدامات کیے جو پہلے وہ عوامی مخالفت کی وجہ سے نہیں کر پا رہا تھا۔ قاہرہ واپسی کے بعد اس نے مصر کی تاریخ کا سب سے بڑا کریک ڈاؤن کیا اور ہزاروں کی تعداد میں اخوان المسلمون کے ارکان اور اپنے دیگر مخالفین بھی گرفتار کر لیے۔ فوج میں نجیب کے وفادار ۱۴۰ افسروں کو برطرف کر دیا، اخوان المسلمون کے ۸ قائدین کو سزائے موت سنا دی جبکہ سید قطب کو ۱۵ سال کی قید سنا دی گئی۔1قید کے دس سال بعد مئی ۱۹۶۴ء میں سید قطب کو رہا کر دیا گیا۔ لیکن ۹ اگست ۱۹۶۵ء کو انہیں ’معالم فی الطریق‘ لکھنے کی وجہ سے، جو کہ انہوں نے دراصل جیل میں ہی لکھی تھی، دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر مقدمہ چلایا گیا جس کے نتیجے میں انہیں اور اخوان المسلمون کے چھ دیگر ارکان کو سزائے موت سنا دی گئی۔ ۲۹ اگست ۱۹۶۶ء کو انہیں پھانسی دے دی گئی۔1 نجیب کو صدر کے عہدے سے ہٹا کر اسے گھر میں قید کر دیا، اور اس بار نہ عوام میں سے اور نہ ہی فوج میں سے کوئی اس کے دفاع کے لیے اٹھا۔ اور اس طرح جمال عبد الناصر مصر کا بے تاج بادشاہ بن گیا۔
۲۸ فروری ۱۹۵۵ءکو اسرائیلی فوجی دستوں نے غزہ کی پٹی پر حملہ کر دیا۔ لیکن جمال عبد الناصر کی نظر میں مصری فوج ابھی تصادم کے لیے تیار نہیں تھی اس لیے اس نے کوئی جوابی کارروائی نہیں کی۔ اس کے اس طرح کوئی جواب نہ دینے سے جمال عبد الناصر کے تحت مصری فوج ناکارہ فوج کے طورپر بدنام ہوئی اور جمال عبد الناصر کی بڑھتی شہرت میں بھی کمی آئی۔ اس مسئلے کے حل کے لیے جمال عبد الناصر نے آبنائے تیران سے اسرائیلی بحری جہازوں کے گزرنے پر پابندی لگا دی جبکہ خلیج عقبہ کی فضائی حدود سے اسرائیلی ہوائی جہازوں کے گزرنے پر بھی پابندی لگا دی۔
اس سے چند دن قبل ہی ۲۴ فروری ۱۹۵۵ء کو پاکستان، ایران، ترکی اور برطانیہ کے درمیان معاہدۂ بغداد طے پایا تھا جس کے ذریعے پاکستان، ایران اور ترکی سوویت یونین کے مشرقی بلاک کے مقابلے میں مغرب کے حلیف بن گئے تھے۔ جمال عبد الناصر کی نظر میں یہ معاہدہ مشرقِ وسطیٰ سے مغربی اثر و رسوخ کو ختم کرنے کی راہ میں رکاوٹ تھا اور اس کا مقصد عرب لیگ کی حیثیت کو کمزور کرنا اور عربوں کو صہیونیوں اور مغربی استعمار کا غلام بنانا تھا۔ اس کے نتیجے میں جمال عبد الناصر کا جھکاؤ مشرقی بلاک یعنی سوویت یونین کی جانب ہونا شروع ہو گیا اور اس نے چیکو سلواکیا کے ساتھ اسلحے کی خریداری کا ایک بڑا معاہدہ کیا۔ اس کے علاوہ اس نے سرد جنگ میں مصر کی جانب سے غیر جانبداری کا اعلان کیا۔
سرد جنگ میں غیر جانبداری کا اعلان کرنے اور سوویت بلاک کی جانب جھکاؤکے سبب امریکہ اور برطانیہ نے مصر کے سب سے بڑے منصوبے اسوان ڈیم میں سرمایہ لگانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اس فیصلے نے جمال عبد الناصر کو سیخ پا کر دیا اور اس نے نہر سوئز کو نیشنلائز کرنے کے اپنے پرانے ارادے پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
۲۶ جولائی ۱۹۵۶ء کو سکندریہ میں اپنی ایک تقریر کے دوران جمال عبد الناصر نے نہر سوئز کو نیشنلائز کرنے کا اعلان کر دیا تاکہ اسوان ڈیم کے منصوبے کو ضروری سرمایہ فراہم کیا جا سکے۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی جمال عبد الناصر نے تمام اسرائیلی بحری جہازوں کے نہر سوئز سے گزرنے پر پابندی لگا دی۔
سوئز کینال کمپنی میں فرانس اور برطانیہ سب سے بڑے شیئر ہولڈر تھے اور جمال عبد الناصر کو علم تھا کہ وہ عسکری ذریعے سے نہر سوئز پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن اکتوبر ۱۹۵۶ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد منظور کی جس کے مطابق مصر کو نہر سوئز کو نیشنلائز کرنے کا حق حاصل ہے جب تک کہ وہ بیرونی ممالک کے جہازوں کو وہاں سے گزرنے دے۔ اس قرارداد کی وجہ سے جمال عبد الناصر کی نظر میں نہر سوئز پر حملے کے امکانات بہت کم رہ گئے تھے۔ لیکن برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے اسی عرصے میں ایک خفیہ معاہدہ کیا جس کا مقصد نہر سوئز اور اس سے ملحقہ علاقوں پر قبضہ اور جمال عبد الناصر کا تختہ الٹنا تھا۔
۲۹ اکتوبر ۱۹۵۶ء کو اسرائیلی فوج صحرائے سینا میں داخل ہو گئی اور مصری فوج کی پوسٹوں پر قبضہ کر لیا اور تیزی سے اپنے ہدف کی جانب بڑھنے لگی۔ دو دن بعد برطانیہ اور فرانس نے نہر سوئز کے علاقے میں موجود مصری فضائیہ کے اڈوں پر بمباری شروع کر دی۔جمال عبد الناصر نے صحرائے سینا سے فوج نکالنے کا اور نہرِ سوئز کا دفاع مضبوط کرنے کا حکم دیا۔ اس حکم کے باوجود اسرائیلی فوج سے لڑتے ہوئے دو ہزار مصری فوجی ہلاک ہوئے جبکہ پانچ ہزار مصری فوجی اسرائیلی فوج کے قیدی بن گئے اور صحرائے سینا آسانی سے اسرائیلی فوج کے قبضے میں چلا گیا۔ مصری فوج کے سربراہ عبد الحکیم عامر نے جمال عبد الناصر کو مشورہ دیا کہ وہ برطانیہ اور فرانس کے آگے ہتھیار ڈال دے۔ مصری فوج پہلے ہی ہتھیار ڈالنے کو تیار تھی۔ لیکن جمال عبد الناصر نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی، مصری فوج کی ناقص کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اس نے چالیس ہزار بندوقیں رضاکاروں کو دینے کا حکم دیا اور اس طرح پورے مصر میں سینکڑوں نیم فوجی دستے تیار ہو گئے ۔
جمال عبد الناصر نے پوری توجہ نہر سوئز پر واقع اہم ترین مقام پورٹ سعید پر مرکوز کی کیونکہ نہر سوئز پر قبضہ کرنے کے لیے فرانسیسی اور برطانوی فوجوں نے یہیں اترنا تھا۔ جمال عبد الناصر نے ایک بٹالین فوج اور سینکڑوں رضاکار اس شہر کی حفاظت کے لیے بھیج دیے۔ ۵ اور ۶ نومبر کو جب برطانوی اور فرانسیسی افواج پورٹ سعید میں اتریں تو ایک بار پھر مصری فوج آغاز میں ہی ہتھیار ڈالنے کو اور جنگ بندی کے لیے تیار تھی۔ لیکن برطانوی اور فرانسیسی افواج کو رضاکاروں کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور شہر کی گلیوں میں جنگ شروع ہو گئی۔ ۷ نومبر تک برطانوی و فرانسیسی مشترکہ دستوں نے ز یادہ تر شہر کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس جنگ میں ایک ہزار کے قریب مصری ہلاک ہوئے۔ امریکی حکومت نے تینوں ملکوں کے مشترکہ حملے کی شدید مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ تمام افواج مصر سے انخلا کر دیں اور اقوام متحدہ کی ایمرجنسی فورس کو صحرائے سینا میں تعینات کر دیا جائے۔ اس کے بعد دسمبر کے اختتام تک تمام برطانوی و فرانسیسی افواج مصری حدود سے نکل گئیں جبکہ اسرائیل نے مارچ ۱۹۵۷ء تک صحرائے سیناء سے مکمل انخلاء کر لیا اور تمام مصری قیدی رہا کر دیے۔ ۸ اپریل ۱۹۵۷ء تک نہرِ سوئز دوبارہ کھول دی گئی اور اس سے قبل آبنائے تیران پر سے اسرائیلی بحری جہازوں کے گزرنے پر اور خلیج عقبہ سے اسرائیلی ہوائی جہازوں کے گزرنے پر لگی پابندی بھی اٹھا لی گئی تھی۔ اور صحرائے سینا میں اقوام متحدہ کی ایمرجنسی فورس تعینات کر دی گئی۔
مئی ۱۹۶۷ءمیں سوویت یونین نے مصر کو شام پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے خبردار کیا۔ اس سے قبل اردن کے شاہ حسین نے بھی اطلاع بھیجی تھی کہ امریکہ کی سرپرستی میں اسرائیل مصر کو جنگ میں دھکیلنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ اس کے جواب میں عبد الحکیم عامر نے صحرائے سینا میں فوجی دستے تعینات کرنا شروع کر دیے اور جمال عبد الناصر نے اقوام متحدہ کی ایمرجنسی فورس کو وہاں سے نکلنے کا کہہ دیا۔
۲۱ مئی کو عامر نے جمال عبد الناصر کو آبنائے تیران بند کرنے کا مشورہ دیا۔ جمال کے نزدیک اسرائیل اسے اعلان جنگ کے مترادف تصور کرے گا اور وہ ایسا نہیں چاہتا تھا کیونکہ وہ اپنی فوج کی نا اہلی سے اچھی طرح واقف تھا۔ لیکن پھر جمال عبد الناصر کو اتنا اعتماد تھا کہ مصری فوج کی اسرائیلی فوج پر عددی برتری ہونے کے سبب مصر اسرائیلی فوج کو دو ہفتوں تک روک سکتا ہے اور اتنے عرصے میں سفارتی کوششوں کے ذریعے جنگ بندی کی جا سکے گی۔ اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے جمال عبد الناصر نے ۲۲ اور ۲۳ مئی کے درمیان آبنائے تیران سے اسرائیلی جہازوں کے گزرنے پر پھر سے پابندی لگا دی۔ ۳۰ مئی کو اردن نے بھی مصر اور شام کے ساتھ اسرائیل کے خلاف جنگ کے لیے اتحاد کر لیا۔
۵ جون کو اسرائیلی فضائیہ نے مصری فضائیہ کے اڈوں پر بمباری کر دی جس سے زیادہ تر مصری فضائیہ تباہ ہو گئی۔ اسی دن اسرائیلی بکتر بند گاڑیوں نے مصر کا دفاعی حصار توڑ دیا اور صحرائے سینا کے علاقے العریش پر قبضہ کر لیا۔ اگلے ہی دن عبد الحکیم عامر نے جمال عبد الناصر کو بتائے بغیر صحرائے سینا سے ساری فوج کو نکالنے کا حکم دے دیا اور اس طرح جلد ہی اسرائیل غزہ کی پٹی اور صحرائے سینا مصر سے، مغربی کنارہ اردن سے جبکہ گولان کی پہاڑیاں شام سے قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
جنگ کے پہلے دو دن تک مصری ریڈیو جھوٹے دعوے کرتا رہا کہ مصر کو اسرائیل پر فتح حاصل ہو رہی ہے اور اسرائیل کی فضائیہ کو ناکارہ بنا دیا گیا ہے۔ لیکن ۹ جون کو جمال عبد الناصر نے ٹی وی پر آ کر مصر کی شکست کا اعلان کر دیا اور کہا: ’’ہم اس حقیقت سے آنکھیں نہیں بند کر سکتے کہ پچھلے چند دنوں میں ہمیں شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے‘‘۔ اور اس کے ساتھ اس نے ٹی وی پر استعفیٰ بھی دے دیا۔
مصر میں جمال عبد الناصر کے استعفیٰ کے خلاف مظاہرے ہوئے جس کے نتیجے میں جمال عبد الناصر نے اپنا استعفیٰ واپس لے لیا۔
جنگ کے فوراً بعد جمال عبد الناصر نے امریکہ سے تعلقات منقطع کر دیے۔ اس جنگ میں شکست نے جمال عبد الناصر کو ذہنی طور پر بھی شکست خوردہ کر دیا اور اس کے اندر پورے عالمِ عرب کی قیادت کرنے والی پہلی سی خو باقی نہ رہی۔ نومبر میں اس نے اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 242 قبول کر لی جس میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ جنگ میں قبضے میں لیے گئے علاقوں سے دستبردار ہو جائے۔ اس قرارداد کا قبول کرنا ایک علامت تھی کہ اب جمال عبد الناصر کو پورے فلسطین کی آزادی سے کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی۔ اس کے بعد جمال عبد الناصر نے فلسطینی رہنما یاسر عرفات کو مشورہ دیا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کے حوالے سے سوچے اس بنیاد پر کہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر مشتمل ایک فلسطینی ریاست قائم کر دی جائے اور باقی پورے فلسطین پر اسرائیلی ریاست کا وجود تسلیم کر لیا جائے۔ اس طرح سے جمال عبد الناصر نے پہلی بار اسرائیل کو تسلیم کرنے اور مقبوضہ فلسطین سے دستبردار ہو جانے کی بات کی۔
۲۸ ستمبر ۱۹۷۰ء کو دل کا دورہ پڑنے سے جمال عبد الناصر کی موت واقع ہو گئی۔
جمال عبد الناصر ایک سیکولر اور عرب قوم پرستی کا علمبردار رہنما تھا۔ اپنے دورِ اقتدار میں فلسطین سے اس کی دلچسپی کی وجہ یہ تھی کہ وہ خود کو پورے عالم عرب کا رہنما تصور کرتا تھا اور عرب سرزمین کا غیر عرب کے قبضے میں جانا قبول نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن وہ ساتھ میں اسلام دشمن بھی تھا۔ اس نے اپنے دور میں ملک سے اسلامی ثقافت تک کو مٹانے کی بھرپور کوشش کی۔ اسلام پسندوں بشمول اخوان المسلمون کے ہزاروں کارکنوں کو جیلوں میں ڈالا، اور ان کے قائدین بشمول سید قطب کو پھانسی دی۔ اسی نے فراعنہ کے مصر کے تاریخی بادشاہ ہونے پر فخر کو فروغ دیا اور ملک کی اسلامی تاریخ سے مصر کو کاٹنے کی کوشش کی۔ اپنے پورے دور اقتدار میں ۱۹۶۷ء تک اس نے اتنا ضرور ثابت کیا کہ وہ ایک بہادر جرنیل ہے لیکن اس میں وہ اکیلا ہی تھا جبکہ اس کی فوج بدترین درجے کی نا اہل اور بزدل فوج رہی جس کا ثبوت اس نے ۱۹۴۸ء کی جنگ سے لے کر ۱۹۶۷ء کی جنگ تک بار بار دیا۔
جمال عبد الناصر کی یہ شخصیت تھی جس کی وجہ سے آج تک عالم عرب میں اسلام پسند اسے ایک ظالم و جابر آمر جبکہ سیکولر طبقہ اسے پورے عالم عرب کا قائد تصور کرتے آئے ہیں۔
انور سادات (۱۹۷۰ء تا ۱۹۸۱ء)
جمال عبد الناصر کے مرنے کے بعد نائب صدر انور سادات کو ملک کا عبوری صدر بنا دیا گیا جسے بعد میں مستقل حیثیت دے دی گئی۔
مئی ۱۹۷۱ء میں انور سادات نے ’’اصلاحی انقلاب‘‘ کا اعلان کیا اور حکومت اور سکیورٹی اداروں سے جمال عبد الناصر کے حامیوں اور اس کے نظریات کے حامل لوگوں کو نکالنا شروع کر دیا اور دوسرے نائب صدر علی صابری اور وزیر داخلہ شاروی جمعہ، جس کے دائرہ اختیار میں خفیہ پولیس تھی، کو گرفتار کر لیا۔ اس کے علاوہ اس نے سوویت یونین کے فوجیوں اور دفاعی مشیران کو ملک بدر کر دیا اور مصر کو سوویت یونین کے کیمپ سے باہر نکال لیا۔
۱۹۷۱ء میں ہی اس نے اقوام متحدہ کو خط لکھ کر یہ تجویز پیش کی کہ اسرائیل ۱۹۶۷ء کی جنگ کی حدود پر واپس لوٹ جائے تو دونوں ملکوں کے درمیان مستقل امن معاہدہ کر لیا جائے اور مصر اسرائیل کی حیثیت کو تسلیم کر لے گا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی بھی عرب ریاست نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تجویز رکھی تھی۔ لیکن امریکہ اور اسرائیل دونوں نے یہ تجویز مسترد کر دی۔ فروری ۱۹۷۳ء میں انور سادات نے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے توسط سے ایک بار پھر اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا میئر کو اسرائیل اور مصر کے درمیان سابقہ شرط پر امن معاہدے کی تجویز بھیجی جو ایک بار پھر اسرائیل نے مسترد کر دی۔
اس کے بعد انور سادات نے شام کے حافظ الاسد کے ساتھ مل کر اسرائیل کے خلاف جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں جن کا مقصد ۱۹۶۷ء کی جنگ میں مصر اور شام کے علاقے جو اسرائیل کے قبضے میں چلے گئے تھے ان کو واپس لینا تھا۔
ستمبر ۱۹۷۳ء کو اردن کا شاہ حسین سکندریہ میں انور سادات اور حافظ الاسد سے ملاقات کے لیے آیا۔ دونوں رہنماؤں نے شاہ حسین کو اسرائیل کے خلاف جنگ میں شمولیت کا کہا جس کا اس نے انکار کر دیا۔ واپس جانے کے بعد ۲۵ ستمبر کی رات شاہ حسین خفیہ طور پر تل ابیب پہنچا اور اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا میئر کو مصر اور شام کے ارادوں سے آگاہ کر دیا۔
۶ اکتوبر ۱۹۷۳ء کو مصر اور شام نے مشترکہ طور پر اسرائیل کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا۔ ابتدائی طور پر مصری افواج پیش قدمی کر رہی تھی اوروہ نہر سوئز عبور کر کے مقبوضہ صحرائے سینا میں ۱۵ کلومیٹر اندر تک گھس گئی لیکن پھر ایریل شیرون کی قیادت میں اسرائیلی فوج نہر سوئز پار کرنے میں کامیاب ہو گئی اور اس نے مصری فوج کا گھیراؤ کرنا شروع کر دیا۔ ۲۴ اکتوبر تک اسرائیلی فوج نے مصری فوج کو پوری طرح سے گھیر لیا تھا۔ ۲۵ اکتوبر کو امریکہ اور سوویت یونین کی ثالثی میں اسرائیل اور مصر کے درمیان جنگ بندی ہو گئی۔ جنگ بندی کے وقت اسرائیلی فوج مصر میں قاہرہ سے ۱۰۱ کلومیٹر کے فاصلے پر جبکہ شام میں دمشق سے ۴۰ کلومیٹر کے فاصلے پر پہنچ چکی تھی۔ اسرائیلی فوج نے جنگ کے اختتام پر نہر سوئز کے مغربی کنارے کی جانب بھی ۱۶۰۰ مربع کلومیٹر کا علاقہ قبضہ کر لیا اور قاہرہ سوئز شاہراہ کو کاٹ دیا۔
اس جنگ کے دوران امریکہ نے اسرائیل کی مدد کے لیے ۵۶۷ فضائی مشن میدان جنگ میں بھیجے جنہوں نے اسرائیلی فوج کو ۲۲ ہزار ۳۹۵ ٹن جنگی ساز و سامان فراہم کیا۔ جو اسرائیل کی مصر اور شام کے دونوں محازوں پر فتح کا سبب بنا۔
جنگ بندی کے بعد ہنری کسنجر نے دونوں فریقوں کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے لیے کوششیں شروع کیں جس کے نتیجے میں ۱۹ جنوری ۱۹۷۴ء کو مصر اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا۔ معاہدے کے تحت اسرائیل نے نہر سوئز کے مغربی کنارے پر قبضے میں لیے گئے علاقے واپس کر دیے اور واپس نہر کے مشرقی کنارے پر آ گیا۔ علاوہ ازیں نہر سوئز کے دونوں جانب دس دس کلومیٹر کے علاقے کو اقوام متحدہ کی زیر نگرانی بفر زون قرار دے دیا گیا۔
۴ ستمبر ۱۹۷۵ء کو جنیوا میں اسرائیل اور مصر کے درمیان ایک اور معاہدہ طے پایا جس میں اسرائیل نہر سوئز کے قریب کے مزید ۲۰ سے ۴۰ کلومیٹر کے علاقے سے پیچھے ہٹنے اور اس کو اقوام متحدہ کی زیر نگرانی بفر زون بنانے پر راضی ہو گیا۔
۱۹۷۳ء کی جنگ کے بعد کے ان امن مذاکرات میں مصر کے مغرب سے تعلقات مضبوط تر ہوتے چلے گئے اور شام اور فلسطینی اتھارٹی سے اس کے تعلقات کمزور ہوتے چلے گئے۔
نومبر ۱۹۷۷ء میں مصری صدر انور سادات نے یروشلم کا دورہ کیا اور اسرائیلی پارلیمنٹ میں تقریر کی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی عرب رہنما نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔ انور سادات نے اپنی تقریر میں کہا:
’’میں آج آپ کے پاس ٹھوس بنیادوں پر ایک نئی زندگی تشکیل دینے اور امن قائم کرنے کے لیے آیا ہوں۔
…… ہم آپ کو ہمارے درمیان رہنے کی دعوت دیتے ہیں، مستقل امن میں جو انصاف پر مبنی ہو۔ ہم مصر اور اسرائیل کے درمیان الگ امن نہیں چاہتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ انصاف جامع اور مستقل ہو اور فلسطینی عوام کے حقوق کو مد نظر رکھتے ہوئے ہو۔
……اپنی بات ختم کرتے ہوئے میں آپ سے کہتا ہوں کہ آئیے ہم سب مل کر اس سفر پر روانہ ہوں۔ ہم سب مل کر ایک مستقبل تعمیر کریں جہاں ہمارے بچے امن، سلامتی اور باہمی احترام میں پل سکیں۔ ہم دنیا کو دکھائیں کہ سب سے بڑے دشمن بھی انصاف اور امن کے تعاقب میں دوست بن سکتے ہیں۔‘‘
۵ ستمبر سے ۱۷ ستمبر ۱۹۷۸ تک امریکہ میں کیمپ ڈیوڈ کے مقام پر امریکی ثالثی میں اسرائیل اور مصر کے درمیان امن معاہدے پر مذاکرات ہوئے۔ ان مذاکرات میں مصری صدر انور سادات، اسرائیلی وزیر اعظم مینخم بیگن اور امریکی صدر جمی کارٹر نے شرکت کی۔
ان مذاکرات میں اسرائیل مکمل صحرائے سینا سے انخلاء پر راضی ہو گیا۔ دونوں ملک آپس میں سفارتی تعلقات قائم کرنے پر راضی ہوئے۔ مصر نے اگرچہ غیر رسمی طور پر مصری صدر کے یروشلم دورے کے ساتھ اسرائیل کی حیثیت کو تسلیم کر لیا تھا لیکن ان مذاکرات کے ذریعے مصر باضابطہ طور پر اسرائیل کی رسمی حیثیت قبول کرنے پر راضی ہو گیا۔ اور اس طرح وہ اسرائیل کو بطور ملک تسلیم کرنے والا پہلا عرب ملک بن گیا۔
۱۹۷۸ء میں مصری صدر انور سادات اور اسرائیلی وزیر اعظم مینیخم بیگن کو اسرائیل اور مصر کے درمیان امن مذاکرات کی وجہ سے امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔
ان مذاکرات کے نتیجے میں ۲۶ مارچ ۱۹۷۹ء کو اسرائیل اور مصر کے درمیان امن معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدے کے تحت درج ذیل امور طے پائے:
- دونوں ملکوں کے درمیان ۱۹۴۸ء سے جاری حالتِ جنگ کا خاتمہ ہوا اور دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی حیثیت کو قبول کر لیا۔
- اسرائیل صحرائے سینا سے مکمل انخلاء پر راضی ہو گیا اور ۲۵ اپریل ۱۹۸۲ء تک مکمل طور پر صحرائے سینا سے نکل گیا۔
- مصر اور اسرائیل کے درمیان اس معاہدے کے بعد طے پانے والی سرحد کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کر لیا گیا جس میں صحرائے سینا مصر کے پاس جبکہ غزہ اسرائیل کے پاس تھا۔ لیکن غزہ کے علاقے رفح کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا جن میں سے ایک غزہ میں اسرائیلی قبضے میں چلا گیا جبکہ دوسرا سرحد پار صحرائے سینا میں مصری عمل داری میں چلا گیا۔
- دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ سفیروں کے تبادلے اور مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے پر رضامند ہوئے۔
- اسرائیلی بحری جہازوں کو نہر سوئز، آبنائے تیران اور خلیج عقبہ میں آمد و رفت کی مکمل آزادی مل گئی۔
- صحرائے سینا کے اسرائیلی سرحد کے قریبی علاقے سمیت ایک بڑے حصے کو غیر فوجی علاقہ قرار دیا گیا جہاں پر مصر کو اپنی فوجیں رکھنے پر پابندی تھی۔
- اس خطے میں اقوام متحدہ کا امن مشن غیر فوجی علاقے کی نگرانی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
- اسرائیل کو صحرائے سینا میں پیشگی وارننگ کے لیے دو سٹیشن بنانے کی اجازت دے دی گئی۔
فلسطین کے حوالے سے مصر کی طرف سے معاہدے سے قبل، اس کے دوران اور بعد میں بلنگ و بانگ دعوے تو بہت کئے گئے لیکن معاہدے میں فلسطینیوں کے حوالے سے کوئی شِق شامل نہیں کی گئی۔ معاہدے سے واضح تھا کہ مصرف صرف صحرائے سینا واپس لینے کے لیے باقی سب کچھ قبول کرنے کو تیار تھا۔
اس معاہدے کے بعد انور سادات مصر کے اندر، عرب ممالک اور پورے عالم اسلام میں بہت بدنام ہوا اور مصر میں اس کے خلاف نفرت بڑھنے لگی۔ عرب لیگ نے مصر کی رکنیت ختم کر دی اور عرب لیگ کا ہیڈ کوارٹر قاہرہ سے تیونس منتقل کر دیا۔
جون ۱۹۸۱ء میں انور سادات کے خلاف ایک فوجی بغاوت کی کوشش کی گئی لیکن وہ ناکام بنا دی گئی۔ ۹ اکتوبر ۱۹۸۱ء کو ایک فوجی پریڈ کے دوران مصری فوج کے لیفٹیننٹ خالد اسلامبولی نے سٹیج کے سامنے سے گزرتے ہوئے اپنی رائفل کا رخ انور سادات کی طرف کیا اور پورا میگزین اس پر خالی کر دیا جس سے انور سادات کی موت واقع ہو گئی۔
انور سادات کے جنازے کی خاص بات یہ تھی کہ اس جنازے میں امریکہ کے تین صدور ، جیرالڈ فورڈ، جمی کارٹر اور رچرڈ نکسن نے اور اسرائیلی وزیر اعظم مینیخم بیگن نے بھی شرکت کی جب کہ پوری اسلامی دنیا سے صرف سوڈان کے صدر جعفر نمیری، صومالیہ کے صدر زیاد بری اور عمان کے سلطان قابوس نے ہی شرکت کی۔
حسنی مبارک (۱۹۸۱ء تا ۲۰۱۱ء)
انور سادات کے مارے جانے کے بعد نائب صدر حسنی مبارک مصر کا چوتھا صدر بنا۔ حسنی مبارک کا دور جمال عبد الناصر اور انور سادات دونوں کے ادوار کی پالیسیوں کا امتزاج تھا۔ حسنی مبارک نے انور سادات کی طرح اپنا جھکاؤ مغرب کی جانب ہی رکھا لیکن ساتھ ہی ساتھ سوویت یونین کے ساتھ بھی تعلقات بحال کیے اورمصر کو عرب دنیا میں دوبارہ سے مرکزی حیثیت دلانے کے لیے بھی کوشش کی۔ حسنی مبارک نے صدر بننے کے بعد پہلی ترجیح عرب لیگ کی رکنیت واپس لینے کو دی اور عرب ممالک کے حکمرانوں سے رابطے شروع کیے۔
۱۹۷۹ء میں ایران میں خمینی انقلاب کے بعد ایران نے پوری امت مسلمہ کی قیادت کا دعویٰ شروع کر دیا تھا اور خمینی عرب ممالک کی بادشاہتوں کا تختہ الٹ کر وہاں ایرانی طرز کا انقلاب لانے کے عزائم کا اظہار بھی کر رہا تھا۔ عرب حکمران ان عزائم سے خوفزدہ تھے اور مصر نے اس خوف کو کیش کروانے کی کوشش کی ۔ ایران عراق جنگ کے دوران بھی مصر نے عراق کی بھرپور معاشی مدد کی۔ ایران کے خطرے نے مسئلہ فلسطین کو عرب ممالک کے لیے پس منظر میں ڈال دیا اور انہیں مصر ایران کے مقابلے کے لیے بہتر حلیف نظر آنے لگا۔
حسنی مبارک کے سعودی عرب کے شاہ فہد کے ساتھ صدر بننے سے پہلے سے ہی قریبی تعلقات تھے۔ صدر بننے کے بعد حسنی مبارک نے شاہ فہد کو مسئلہ فلسطین کے لیے اپنی تجویز پیش کی کہ اگر اسرائیل مغربی کنارے اور غزہ پر مشتمل ایک فلسطینی ریاست کے قیام پر راضی ہو جائے تو تمام عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ شاہ فہد نے یہ تجویز ۱۹۸۲ء میں سعودی عرب میں ہونے والے عرب لیگ کے اجلاس میں پیش کی۔ یہ پہلا موقع تھا جب تمام عرب ممالک نے سنجیدگی سے اسرائیل کی حیثیت تسلیم کرنے پر غور کیا۔
حسنی مبارک نے فلسطینی آزادی کی تنظیم PLO کے ساتھ بھی دوبارہ تعلقات بحال کیے اور دسمبر ۱۹۸۳ء میں یاسر عرفات کوقاہرہ میں ایک اجلاس میں شرکت کے لیے بلایا۔ اس وقت کے بعد سے مصر PLO کا بنیادی حلیف بن گیا۔ اس طرح اپنی پالیسیوں کے ذریعے سے حسنی مبارک نے مصر کو عرب دنیا میں دوبارہ مرکزی حیثیت دلائی جس کے نتیجے میں ۱۹۸۹ء میں عرب لیگ نے مصر کی نا صرف رکنیت بحال کر دی بلکہ لیگ کا ہیڈ کوارٹر بھی واپس قاہرہ منتقل کر دیا۔
حسنی مبارک نے ۱۹۸۲ء میں عرب لیگ میں پیش کی گئی اپنی مسئلہ فلسطین کے حل کی تجویز پر عمل درآمد کے لیے سفارتی کوششیں جاری رکھیں۔ ۱۹۹۱ میں امریکہ اور سوویت یونین نے مشترکہ طور پر سپین کے شہر میڈرد میں مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے کانفرنس منعقد کی جس میں میں اسرائیل ، مصر سمیت مختلف عرب ممالک اور ساتھ میں PLO کو بھی مدعو کیا گیا۔ اس کانفرنس کے بعد اسرائیل اور PLO کے درمیان تین مختلف ادوار میں مذاکرات ہوئے جن کے تحت اسرائیل اور PLO کے درمیان معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ جن میں سے پہلا ناروے کے شہر اوسلو میں ۱۹۹۳ میں، دوسرا ۱۹۹۴ء میں مصر کے دار الحکومت قاہرہ میں جبکہ تیسرا ۱۹۹۵ء میں مصر میں صحرائے سینا کے شہر طابا میں طے ہوا۔ ان معاہدوں میں مسئلہ فلسطین کے لیے دو ریاستی حل پر اتفاق ہوا ، اسرائیل نے PLO کی رسمی حیثیت کو تسلیم کر لیا اور اسے فلسطینی اتھارٹی بنا دیا گیا ۔ جبکہ بدلے میں PLO نے اسرائیل کی رسمی حیثیت کو تسلیم کر لیا اور اسرائیل کے خلاف ہر طرح کی ’’دہشت گردی‘‘ اور ’’تشدد‘‘ کی بھرپور مذمت کی۔
PLO کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کر لینے کے بعد فلسطین میں حماس کی مقبولیت میں اضافہ ہونے لگا اور وہ فلسطین میں مزاحمت کی نمائندہ تنظیم سمجھی جانے لگی۔ چونکہ حماس کے مصر کی اخوان المسلمون کے ساتھ قریبی تعلقات تھے اس لیے حماس کے قیام سے ہی حسنی مبارک اس کا مخالف تھا اور PLO اسرائیلی معاہدے کے بعد مصر نے ۱۹۹۶ء سے باقاعدہ طور پر اسرائیل کے ساتھ حماس کے خلاف انٹیلی جنس شیئرنگ کا آغاز کیا۔
ستمبر ۲۰۰۰ء میں ایریل شیرون کے مسجد اقصیٰ میں داخلے کے خلاف بیت المقدس میں احتجاج شروع ہوا جو جلد ہی دوسرے انتفاضہ کی شکل اختیار کر گیا۔ اور پورے فلسطین میں اسرائیلی فورسز اور فلسطینیوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ حسنی مبارک نے امریکہ کے ساتھ مل کر ہنگامی طور پر مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں اجلاس بلوایا جس میں حسنی مبارک کے علاوہ امریکی صدر بل کلنٹن، اسرائیلی وزیر اعظم ایہود بارک، فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ یاسر عرفات، یورپی یونین کے نمائندے، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان اور روسی وزیر خارجہ نے شرکت کی۔
اس ہنگامی اجلاس میں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان جھڑپیں بند کرنے اور اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے فلسطینی علاقوں سے نکل جانے پر اتفاق ہوا۔ بدلے میں یاسر عرفات نے یقین دہانی کروائی کہ فلسطینی اتھارٹی فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیلی فورسز پر حملے روکنے کے لیے اسرائیلی فورسز کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی۔
لیکن یہ معاہدہ دوسرے انتفاضہ کو روکنے میں ناکام رہا جو۲۰۰۵ء تک جاری رہا۔ اس عرصے میں مصر نے غزہ کے علاقے میں حماس کی سرگرمیوں کے خلاف اسرائیل کے ساتھ انٹیلی جنس تعاون جاری رکھا۔
۲۰۰۵ء میں جب اسرائیل نے غزہ سے مکمل انخلاء کر لیا تو مصر کی جانب سے رفح کراسنگ پر سکیورٹی تعاون کی مکمل یقین دہانی کروائی گئی اور مصر نے رفح کراسنگ پر آمدو رفت کو کنٹرول کرنے اور اسلحے کی ترسیل کو روکنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ حسنی مبارک نے مصر اور غزہ کے درمیان ۱۲ کلومیٹر لمبی سرحد پر اپنے بارڈر سکیورٹی دستے تعینات کیے ۔غزہ سے نکلنے کے بعد اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ کر لیا اور ضروریات زندگی کی اشیاء کی غزہ ترسیل پر پابندیاں عائد کر دیں۔ دوسری طرف حسنی مبارک نے بھی غزہ میں جانے والی اشیاء کی رفح کراسنگ سے داخلے پر پابندی لگا دی اور رفح کراسنگ کی بجائے اسے کرم شالم کراسنگ سے بھیجنا شروع کیا جو کہ اسرائیل کے قبضے میں تھا۔ تاکہ مصر کی طرف سے بھی غزہ میں کوئی سامان اسرائیل کی مرضی کے بغیر نہ جا سکے۔ اس کےبعد مستقل اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فضائی حملے کیے جاتے رہے جبکہ حماس اسرائیل پر راکٹ حملے کرتی رہی۔
جون ۲۰۰۸ء میں حسنی مبارک نے حماس اوراسرائیل کے درمیان ایک معاہدے کی ثالثی کی جس میں طے ہوا کہ حماس اسرائیل پر راکٹ حملے نہیں کرے گی اور اسرائیل غزہ میں فضائی بمباری نہیں کرے گا جبکہ غزہ کا محاصرہ بتدریج ختم کیا جائے گا اس میں جنگ بندی کے فوراً بعد اسرائیل غزہ میں سامان کی ترسیل کی مقدار میں ۳۰ فیصد اضافہ کرے گا جبکہ جنگ بندی کے دو ہفتوں بعد سے ہر طرح کے سامان کی ترسیل پر لگی پابندی اٹھا لے گا۔
حماس نے تو معاہدے کی پاسداری کی لیکن اسرائیل نے اپنے حصے کی پاسداری نہیں کی اور آنے والے دو ماہ میں صرف ۲۰ فیصد سامان کی ترسیل میں اضافے کی اجازت دی۔ اس حوالے سے اسرائیلی وزیر اعظم نے امریکی وفد کو وضاحت دی کہ :
’’اسرائیل غزہ کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر ہی رکھنا چاہتا ہے۔ ‘‘
معاہدے کے چھٹے ماہ نومبر ۲۰۰۸ء میں اسرائیل نے غزہ میں حملہ کر کے حماس کے چار ارکان کو شہید کر دیا اور اس طرح باقاعدہ طور پر جنگ بندی معاہدہ توڑ دیا۔
۲۰۱۱ء میں ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں حسنی مبارک نے فروری ۲۰۱۱ء میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اور مصری افواج کے سربراہ فیلڈ مارشل حسین طنطاوی نے عبوری طور پر حکومتی اختیار اپنے قبضے میں لے لیا۔
محمد مرسی (۲۰۱۲ء تا ۲۰۱۳ء)
۲۰۱۲ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتیجے میں اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے محمد مرسی کو جون ۲۰۱۲ء میں مصر کا پانچواں صدر بنا دیا گیا۔ اور محمد مرسی نے فوج کے سربراہ حسین طنطاوی کو عہدے سے دستبردار کر دیا اور انٹیلی جنس کے سربراہ عبد الفتاح السیسی کو ملک کا وزیر دفاع بنا دیا۔
محمد مرسی نے صدر بننے کے بعد اسرائیل کو یقین دہانی کروائی کہ مصر اسرائیل امن معاہدے کی پاسداری کی جائے گی لیکن ساتھ میں رفح کراسنگ پر سامان کی ترسیل پر لگی پابندی ہٹا دی۔
اگست ۲۰۱۲ء میں وزیر دفاع السیسی نے اسرائیلی وزیر دفاع ایہود بارک سے ملاقات کی اور ان کے درمیان صحرائے سینا کے غیر فوجی علاقے کے حوالے سے ایک غیر اعلانیہ معاہدہ طے پایا۔ حسنی مبارک کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ اسلامی تنظیموں پر لگی پابندی ختم ہو چکی تھی جس کے بعد سے صحرائے سینا میں جہادی تنظیمیں مضبوط ہو رہی تھیں۔ سیسی کا اسرائیل کے ساتھ یہ غیر اعلانیہ معاہدہ صحرائے سینا کے غیر فوجی علاقے میں مصری فوج داخل کر کے وہاں موجود جہادی تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کی خاطر تھا۔
اس کے کچھ عرصہ بعد یہ خبر سامنے آئی کہ مصری فوج نے صحرائے سینا سے طیارہ شکن، ٹینک شکن اور دیگر اسلحہ ضبط کر لیا جو کہ غزہ کی پٹی میں حماس کو بھیجا جانا تھا۔
کیمپ ڈیوڈ معاہدے سے غزہ کا علاقہ رفح بارڈر کے دونوں طرف تقسیم ہو چکا تھا اور اس نے خاندانوں کو دونوں طرف تقسیم کر دیا تھا۔ لیکن اس چیز نے ۸۰ء کی دہائی میں شروع ہونے والے پہلے انتفاضہ کے دوران سرحد پر سرنگیں کھودنے میں سہولت فراہم کی۔ ۱۹۸۷ء میں جب غزہ میں حماس کی تنظیم قائم ہوئی تو اس کے بعد یہی سرنگیں پہلے انتفاضہ کے لیے اسلحے کی ترسیل کے لیے کلیدی ثابت ہوئیں۔ اور ۲۰۰۵ء کے بعد جب غزہ کا کا مکمل محاصرہ کر لیا گیا تھا تو یہی سرنگیں اہل غزہ کے لیے لائف لائن کا کردار ادا کر رہی تھیں۔ محمد مرسی کے دور میں سیسی کے حکم پر مصری فوج نے غزہ اور مصر کی سرحد پر پائی جانے والی سو سے زیادہ سرنگیں تباہ کر دیں۔
۸ ستمبر ۲۰۱۲ء کو اسرائیلی حکام نے بھی تصدیق کر دی کہ صحرائے سینا میں مصری فوج کے آپریشن میں اسرائیل کا تعاون شامل ہے۔
۳۰ جون ۲۰۱۳ء کو مصر کے سیکولر طبقے کی جانب سے مرسی کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے اور انہوں نے مرسی سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ اس کے جواب میں اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے مرسی کے حامیوں نے مسجد رابعہ العدویہ کے پاس چوک میں دھرنا دیا۔
یکم جولائی کو مصری فوج نے حکومت کو ۴۸ گھنٹے کا الٹی میٹم دیا کہ مظاہرین کے مطالبات تسلیم کیے جائیں اور اگر تب تک مسئلہ حل نہ کیا گیا تو فوج مداخلت کرے گی۔ اسی دن اخوان المسلمون کے علاوہ حکومت میں موجود دیگر وزراء نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔
مرسی نے فوج کے دیے گئے الٹی میٹم کو مسترد کر دیا اور مطالبات تسلیم نہیں کیے جس کے نتیجے میں ۳ جولائی کو مصری فوج نے مرسی کو گرفتار کر کے وزارتِ دفاع کی ایک عمارت میں منتقل کر دیا جہاں سے بعد میں طرہ کی جیل میں منتقل کر دیا۔ عبد الفتاح سیسی نے فوری طور پر حکومتی نظام سنبھال لیا اور عدلی منصور کو ملک کا عبوری صدر بنا دیا۔
مرسی پر اپنے مخالف مظاہرین کے قتل پر اپنے حامیوں کو اکسانے، غیر ملکی عسکری گروہوں بشمول حماس اور حزب اللہ کے لیے جاسوسی کرنے، ۲۰۱۰ء میں جیل توڑ کر فرار ہونے اور الجزیرہ کے دو صحافیوں کی مدد سے خفیہ دستاویزات قطر کو دینے کے الزامات پر مقدمات چلائے گئے۔
اپریل ۲۰۱۵ء میں مرسی کو اپنے مخالف مظاہرین کو گرفتار کرنے اور تشدد کا نشانہ بنانے پر بیس سال قید کی سزا سنائی گئی جبکہ جون ۲۰۱۶ء میں ریاست کے راز قطر کے حوالے کرنے پر مرسی کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
جون ۲۰۱۹ء میں حماس اور حزب اللہ کے لیے جاسوسی کے الزام کا مقدمہ چل رہا تھا کہ دل کا دورہ پڑنے سے محمد مرسی عدالت ہی میں فوت ہو گئے۔
عبد الفتاح السیسی (جون ۲۰۱۴ء تا حال)
مرسی کو ہٹانے کے بعد جب سیسی نے نظام کا کنٹرول سنبھالا تو مرسی کے حق میں دھرنا دینے والوں کا دھرنا فوجی بغاوت کے خلاف ہو گیا۔ ۱۴ اگست ۲۰۱۳ء کو مصری سکیورٹی اداروں نے مسجد رابعہ عدویہ میں جمع مظاہرین کو گھیرے میں لے لیا اور مظاہرین پر آنسو گیس کے گولے برسانے لگے۔ ساتھ میں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے سے انہیں فوری طور پر مظاہری ختم کرنے اور محفوظ راستے سے نکل جانے کا کہا جانے لگا۔ اس کے بعد قریبی عمارتوں سے مظاہرین پر سنائپر سے گولیاں چلائی جانے لگیں۔ مظاہرے اگلے دن بھی جاری رہے اور مظاہرین نے مرکزی شاہراہ بند کر دی جبکہ سکیورٹی فورسز نے ان پر براہ راست گولیاں چلانا شروع کر دیں۔
۱۴ اگست کو مظاہرین پر ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں دو ہزار کے قریب مظاہرین ہلاک ہوئے جبکہ اگلے دن تک یہ تعداد ۲۶۰۰ تک پہنچ گئی۔ جبکہ چار ہزار سے زیادہ مظاہرین زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں بہت سے ایسے بھی تھے جنہیں حکومتی بلڈوزروں کے نیچے کچل کر ہلاک کیا گیا تھا۔ ۱۴ اگست کو مصری سکیورٹی فورسز نے رابعہ عدویہ مسجد کو جلا کر تباہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد اگلے دن پورے مصر میں سکیورٹی فورسز کے مظالم کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے اور وہاں بھی سکیورٹی فورسز نے سینکڑوں کی تعداد میں مظاہرین کو ہلاک کیا۔ اس طرح عبد الفتاح سیسی نے تاریخ کے بد ترین تشدد کا استعمال کرتے ہوئے اپنے تمام مخالفین کو دبا لیا۔
مئی ۲۰۱۴ء میں مصر میں صدارتی انتخابات منعقد ہوئے اور سیسی ۹۶ فیصد ووٹ حاصل کر کے ملک کا چھٹا صدر بن گیا۔
سیسی کے آنے سے مصر کے اسرائیل کے تعلقات تاریخی سطح پر پہنچ گئے۔ خود سیسی کے بقول وہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے باقاعدگی سے بات کرتا رہتا ہے۔ مشہور انگریزی جریدے دی اکانومسٹ (The Economist) کے بقول سیسی مصر کی تاریخ کا سب سے زیادہ اسرائیلی حامی رہنما ہے۔
مرسی کو اقتدار سے ہٹانے کے ساتھ ہی سیسی نے غزہ اور مصر کے بارڈر پر موجود سرنگوں کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کر دیا۔ بہت سی سرنگوں کو سمندری پانی سے جبکہ بہت سی دیگر کو سیوریج کے پانی سے بھر دیا۔ اس کے علاوہ بعض سرنگوں کو بارود لگا کر مکمل منہدم کر دیا جبکہ بعض کے دہانے مستقل طور پر بند کر دیے۔ اگست ۲۰۱۴ء تک سیسی نے کل 1659 سرنگیں تباہ کر دی تھیں۔
مستقبل میں ان سرنگوں کے خطرات کو مستقل طور پر ختم کرنے کے لیے سیسی نے رفح بارڈر پر مصر کی جانب موجود رفح کی آبادی کو تقریباً مکمل مسمار کر دیا اور بارڈر کے ساتھ ایک بفر زون قائم کیا جو کہ تین کلومیٹر تک طویل تھا۔ اس کے علاوہ رفح کراسنگ پر جو پابندی مرسی نے ہٹائی تھی اسے دوبارہ بحال کر دیا بلکہ ماضی کے ادوار سے بھی زیادہ اسے سخت کر دیا اور صحافیوں تک کو غزہ میں داخلے کی اجازت بند کر دی۔
مرسی کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد اسرائیل نے کیمپ ڈیوٹ معاہدے میں طے شدہ شرائط میں نرمی کر دی اور صحرائے سینا کے ’غیر فوجی علاقوں‘ اور ’نیم فوجی علاقوں‘ میں مصری فوج کی تعیناتی کی اجازت دے دی۔ ۲ جولائی ۲۰۱۵ء کو اسرائیل نے مصر کو صحرائے سینا میں فوجی تعیناتی کی کھلی اجازت دے دی تاکہ وہا ں موجود جہادی گروپوں کے خلاف مصری فوج کریک ڈاؤن کر سکے۔
ان آپریشنز میں مصری فوج کو اسرائیل کی طرف سے فضائی تعاون بھی حاصل تھا۔ اسرائیلی ڈرونز مصری فوج کو انٹیلی جنس معلومات فراہم کرتے تھےجن کی بنیاد پر مصری افواج آپریشنز کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ اسرائیلی ہیلی کاپٹر، جیٹ طیارے اور ڈرونز وقتاً فوقتاً جہادی تنظیموں کے مراکز پر بمباری بھی کرتے تھے۔ نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے ۲۰۱۵ء کے اواخر سے جنوری ۲۰۱۸ء تک صحرائے سینا میں مصری حکومت کی اجازت سے ۱۰۰ بار فضائی حملے کیے۔ ۶ جنوری ۲۰۱۹ء کو امریکی ٹی وی چینل CBC کے پروگرام 60 Minutes میں انٹرویو کے دوران سیسی نے اسرائیل اور مصر کے درمیان فوجی تعاون اور صحرائے سینا میں مصری حکومت کی رضامندی کے ساتھ اسرئیلی فضائی حملوں کی تصدیق کی۔
۲۰۲۰ء میں امریکی صدر ٹرمپ نے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے ایک متنازع حل پیش کیا جس میں مجوزہ فلسطینی ریاست مختلف ٹکڑیوں میں تقسیم ہو گی، جس کی نہ اپنی کوئی فوج ہو گی اور نہ ہی وہ اسلحہ رکھ سکے گی اور اس میں کوئی بھی مسلح گروہ (جیسے حماس) نہیں رہ سکے گا۔ اس ریاست کی فضائی حدود اور سرحدات اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے ہاتھ میں ہوں گی۔ بیت المقدس مکمل اسرائیل کا دار الحکومت ہو گا جبکہ فلسطینی ریاست کا دار الحکومت ’’مشرقی بیت المقدس‘‘ شہر کی دیوار سے باہر کے چند مضافاتی علاقوں پر مشتمل ہو گا۔ ٹرمپ کے بقول اس تجویز پر مذاکرات کے لیے فلسطینی فریق کو چار سال کا وقت دیا جائے گا اور اگر چار سال کے وقت میں فلسطینی فریق کسی معاہدے پر رضامند نہ ہوا تو اسرائیل پورے مغربی کنارے پر مکمل قبضہ کرنے کا مجاز ہو گا۔
یہ اس قدر بیہودہ تجویز تھی کہ کسی بھی اسلامی ملک نے حتیٰ کہ فلسطینی اتھارٹی نے بھی اسے تسلیم نہیں کیا پوری اسلامی دنیا میں واحد سیسی تھا جس نے اس تجویز کی حمایت کی۔
سیسی حماس کا شدید مخالف ہے اور اقتدار سنبھالنے کے بعد سے مستقل غزہ کے مسئلے کا حل یہی پیش کر رہا ہے کہ غزہ سے حماس کو ختم کیا جائے اور غزہ کا کنٹرول فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کیا جائے جو مصر کی حلیف ہے۔ سیسی نے حکومتی نظام سنبھالتے ہی حماس کے خلاف اسرائیل کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ میں اضافہ کیا۔
۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو طوفان الاقصیٰ شروع ہونے سے چند روز قبل ہی مصری حکومت نے اسرائیلی حکومت کو خبردار کر دیا تھا کہ حماس کوئی بڑا حملہ کرنے جا رہی ہے۔
اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد سے اب تک اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی کی مہم کے دوران مصر نےاسرائیلی مظالم کے خلاف صرف رسمی زبانی احتجاج پر ہی اکتفا کیا ہے جبکہ عملی طور پر اس نسل کشی میں پوری طرح اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے۔
رفح بارڈر مصر نے پہلے ہی بند کر رکھا تھا لیکن غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد اسے مکمل سیل کر دیا گیا۔ اسرائیل کی مرضی کے بغیر نہ تو کسی کو غزہ سے نکلنے کی اجازت دی گئی اور نہ ہی کسی کو غزہ میں جانے کی اجازت دی گئی۔ امدادی سامان کے سینکڑوں ٹرک مہینوں اجازت کے انتظار میں کھڑے رہے اور ان کا سامان پڑے پڑے خراب ہو گیا لیکن مصر کی جانب سے یہ سامان غزہ پہنچانے کی کوئی معمولی کوشش تک نہیں کی گئی۔بلکہ اس کے برعکس جب اسرائیل نے غزہ کے مہاجرین کو صحرائے سینا بھیجنے کی بات کی تو سیسی نے احتجاج کے طور پر غزہ کی طرف جانے والے امدادی سامان پر ہی عارضی طور پر پابندی لگا دی۔ یعنی اسرائیلی تجویز پر سزا غزہ کے مسلمانوں کو دی۔
دوسری طرف نہر سوئز سے اسرائیلی جنگی بحری جہازوں کو گزرنے کی مکمل آزادی ہے، اسرائیلی مظالم کے جواب میں مصر کی جانب سے نہر سوئز کو بند کرنے کی کوئی کھوکھلی دھمکی تک نہیں دی گئی۔
جون ۲۰۲۵ء میں دنیا کے پچاس ممالک سے ۱۵۰۰ سے زائد مظاہرین قافلۂ صمود کے نام سے مصر میں جمع ہوئے تاکہ غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے رفح بارڈر کی طرف مارچ کریں۔ لیکن مصری سکیورٹی فورسز نے ان کو رفح بارڈر کراسنگ کی طرف جانے سے روک دیا اور صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا اور انہیں گرفتار بھی کیا اور پھر انہیں ملک بدر کر دیا۔
غزہ میں جاری اسرائیلی حملے کے باوجود اسرائیل اور مصر کے تجارتی تعلقات میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ اکتوبر ۲۰۲۴ء میں مصر نے اسرائیل سے گیس کی خریداری میں ماضی کی نسبت ۲۰ فیصد اضافہ کر دیا۔ نومبر ۲۰۲۴ء میں مصر نے گیس کی خریداری میں مزید ۱۰ فیصد اضافہ کیا جبکہ جنوری ۲۰۲۵ء میں مزید ۱۷ فیصد اضافہ کیا۔ اس طرح سے ایک طرف جب غزہ جل رہا ہے مصر اسرائیلی جنگی مشینوں کو چالو رکھنے کے لیے مستقل پیسہ فراہم کر رہا ہے۔
اختتامیہ
مصر کی قبلۂ اوّل سے خیانت کی داستان اردن و مراکش جتنی پرانی تو نہیں لیکن اتنی ہی بھیانک ہے۔ بلکہ غزہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس سے کہیں زیادہ سنگین اور تکلیف دہ ہے۔ مصر اسرائیل کے بعد غزہ کو لگنے والا واحد پڑوسی ملک ہے۔ امید کی واحد کرن! غزہ میں بمباریوں اور قحط سے شہید ہوتے لوگوں کی آنکھیں مصر کی جانب ہی دیکھتے دیکھتے پتھرا گئیں کہ اگر کوئی مدد آ سکتی ہے تو اسی جانب سے آ سکتی ہیں۔ ہر گرتے ہوئے بم، ہر منہدم ہوتی عمارت اور بمباری اور قحط سے ہر شہید ہوتے ہوئے انسان کے قتل کافرد جرم جتنا اسرائیل پر عائد ہوتا ہے اتنا ہی مصر پر بھی عائد ہوتا ہے کیونکہ وہ اس نسل کشی میں اسرائیل کے ساتھ برابر کا شریک رہا ہے۔
مصری حکومت کا تو رونا ہی کیا کہ وہ تو ہے ہی صلیبی صہیونی کٹھ پتلی۔ اس سے اس سے مختلف رویے کی توقع کرنا ہی حماقت ہے۔ مصری فوج سے بھی کیا گلہ کہ اس کی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ وہ تو اپنی ذات میں بزدلی کا ایک استعارہ ہے۔ اور ویسے بھی مسلم ممالک کی افواج کی تو تربیت ہی اس نہج پر کی جاتی ہے کہ اپنوں کے آگے شیر اور دشمن کے آگے ڈھیر!
لیکن مصری عوام کی خاموشی سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ اہل مصر پر اہل غزہ کی نصرت کی تاریخی، جغرافیائی، قومی، اخلاقی، دینی و شرعی ہر طرح کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن کئی عشروں سے مصر پر مسلط فوجی آمریتوں کی اسلام دشمن پالیسیوں نے ایک ایسی نسل پیدا کر دی ہے جو دو واضح طبقوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ایک سیکولر طبقہ ہے جو اپنی نسبت دین سے کرنے کی بجائے مصر سے یا زیادہ سے زیادہ عرب قومیت سے کرنا پسند کرتا ہے۔ یہ طبقہ عقبہ بن نافع اور صلاح الدین ایوبی کو اپنی تاریخ کا حصہ تصور نہیں کرتا اور نہ ہی اس پر فخر کرتا ہے بلکہ اس کے لیے باعث فخر مصر کے قدیم فراعنہ ہیں، اور اس طبقے کی نظر میں اوّلین ترجیح مصر کو حاصل ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح افغانستان پر امریکی حملے کے وقت مشرف نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگایا اور افغانستان کی مدد کرنے کی بجائے اس پر حملہ آوروں کے ساتھ شامل ہو گیا تو اس کے پیروکار سیکولر طبقے نے مشرف کے اس نعرے پر لبیک کہا کچھ ایسا ہی معاملہ مصر کے سیکولر طبقے کا بھی ہے۔
دوسرا طبقہ دین پسند طبقہ ہے جو دہائیوں سے فوجی آمریتوں کے جبر و استبداد کو برداشت کر کر کے اس حد تک دب چکا ہے کہ اب ان کے لیے سر اٹھانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ محمد مرسی کی حکومت میں دین پسند طبقے کو کئی دہائیوں بعد ایک امید کی کرن نظر آئی تھی، لیکن اس حکومت کو ختم کر کے سیسی نے اہل دین طبقے پر مظالم کی جو انتہا کی اس کی مثال اس سے پہلے کی تاریخ میں بھی نہیں ملتی۔ ان سب مظالم کے نتیجے میں ایسا لگتا ہے کہ اہل دین طبقے کی اکثریت نظام کے آگے ہتھیار ڈال چکی ہے اس لیے وہ بھی اب اہل غزہ کے لیے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے۔
دنیا کے پچاس سے زائد ممالک سے جمع ہونے والے قافلۂ صمود کے ۱۵۰۰ لوگ مصری فوج کے آگے ہاتھ جوڑتے رہے، ان کی منت کرتے رہے کہ دیکھو یہ غزہ کے لوگ تمہارے بھائی ہیں! تمہارے ہم مذہب ہیں تمہارے ہم قوم ہیں! اگر تم ان کی مدد کو نہیں جا سکتے تو کم از کم ہمارا راستہ تو نہ روکو! لیکن مصر فوج ٹس سے مس نہ ہوئی۔ الٹا بعض سادہ کپڑوں میں ملبوس لوگوں نے قافلۂ صمود میں شامل لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کی توہین کی۔ ہو سکتا ہے یہ سادہ کپڑوں میں ملبوس مصری سکیورٹی فورسز کے اہلکار ہوں جس کے حوالے سے لوگ قیاس آرائی بھی کر رہے ہیں لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ سیسی کے حامی سیکولر طبقے کے لوگ ہوں جیسا کہ بظاہر نظر آ رہا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ دین پسند طبقہ اس قدر دب چکا ہے کہ ان میں اتنی جرأت بھی نہیں بچی کہ وہ اہل غزہ کی مدد کے لیے پوری دنیا سے جمع ہوئے ان سماجی کارکنوں کا ہی دفاع کر پاتے۔
آج مصر تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں اس کا کردار کبھی نہیں بھلایا جائے گا۔ مصری حکومت کا غزہ میں جاری نسل کشی میں اسرائیل کے ساتھ تعاون اور اہل مصر کی خاموشی اہل غزہ کو مٹا نہیں سکتی۔ اہل غزہ زندہ ہیں، چاہے وہ سب شہید ہو جائیں تب بھی وہ زندہ ہی رہیں گے! فلسطینی جہادی مزاحمتی تحریک بھی زندہ ہے اور وہ ان شاء اللہ اس وقت تک زندہ رہے گی جب تک کہ قبلۂ اوّل کو آزادی نہیں مل جاتی۔ یہ بمباریوں سے ہونے والی تباہی کا ملبہ اس تحریک کو دبا نہیں سکتا۔ لیکن اگر آج اہل مصر نہ اٹھے اور اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھا تو ان کی یہ خیانت اور بے حسی خود انہیں تاریخ کے ملبے میں دبا کر فراموش کر دے گی۔
یہ خاموشی ایسی بے حسی ہے جو اللہ کے عذاب کا مستحق بنا دیتی ہے۔ ہم سب کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ کیا ہم، غزہ کے لیے وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو ہمارے بس میں ہے؟ یا ہم بھی تو کہیں خدانخواستہ اللہ کے عذاب کے مستحق تو نہیں بن رہے؟ یہ بارشیں، طوفان، سیلاب اور زلزلے غزہ سے متعلق ہماری بے حسی پر تنبیہ تو نہیں؟
٭٭٭٭٭
- 1قید کے دس سال بعد مئی ۱۹۶۴ء میں سید قطب کو رہا کر دیا گیا۔ لیکن ۹ اگست ۱۹۶۵ء کو انہیں ’معالم فی الطریق‘ لکھنے کی وجہ سے، جو کہ انہوں نے دراصل جیل میں ہی لکھی تھی، دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر مقدمہ چلایا گیا جس کے نتیجے میں انہیں اور اخوان المسلمون کے چھ دیگر ارکان کو سزائے موت سنا دی گئی۔ ۲۹ اگست ۱۹۶۶ء کو انہیں پھانسی دے دی گئی۔