جدت
دیکھے تُو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
اَفلاک منوّر ہوں ترے نورِ سحَر سے
خورشید کرے کسبِ ضیا تیرے شرر سے
ظاہر تری تقدیر ہو سِیمائے قمر سے
دریا مُتَلاطم ہوں تِری موجِ گُہر سے
شرمندہ ہو فطرت ترے اعجازِ ہُنَر سے
اغیار کے افکار و تخیّل کی گدائی!
کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی؟
بادشاہی تخت و عرش کا نام نہیں۔ بادشاہی تو اس ’خودی‘ کا نام ہے کہ جس کے پاس وہ دیکھنے والی آنکھ ہو جو زمانے کے ہر طور و انداز کو اپنی نظر سے دیکھے۔ اس نظر کو اقبال رحمۃ اللہ علیہ خودی کہتے ہیں۔ خودی، اپنے آپ کو جاننا ہے کہ میں کون ہوں اور کیوں ہوں؟ جوابِ خودی ہے کہ میں ’عبد‘ ہوں، غلامُ اللہ ہوں۔ اور عبد کیوں ہوتا ہے، یعنی کس لیے ہوتا، مقصدِ تخلیق کیا ہے؟ عبد اس لیے ہوتا ہے کہ غلامی کرے، فرمایا ہم نے تم کو اپنی بندگی کے واسطے پیدا کیا، إلّا لیعبدون! یہی خودی ہے۔
سونا چاہو تو اس طریقے سے جو میں نے اپنے حبیب (علیہ الصلاۃ والسلام) کے طریق سے بتایا، کھاؤ تو ایسے، پیو تو ایسے، پہنو تو ایسے، نمازیں یوں پڑھو، روزے یوں رکھو۔ محبوب رکھنا چاہتے ہو تو اسے رکھو جسے میں نے اپنا محبوب بنایا، صلی اللہ علیہ وسلم۔ سیکولرازم قبول نہیں ہے، کہ پرائیویٹ لائف میں خدا کوئی اور ہو اور منڈی، بازار، دکان، کارخانے، سڑک، عدالت، دفتر، حکومت و پارلیمان میں خدا کوئی اور ہو۔ جنگ بھی بے مہار نہیں، جہاد فی سبیل اللہ ہے، مقصد و اصول کتاب و سنت میں بیان کر دیے گئے ہیں۔ combatant و non-combatant کون ہے، غزوۂ بنو قریظہ و خیبر، غزوۂ فتحِ مکہ و طائف و حنین میں دیکھو۔ جمہوریت، یونان کا فرسودہ نظام، جہل پر مبنی ووٹوں کی گنتی؟ جہاں ڈاکٹر بھی برابر اور نرس بھی؟ سول انجنیئر بھی برابر اور مزدور بھی؟عالمِ قرآن و سنت بھی برابر اور گلی کا بھنگی بھی؟
اقبال نے ان اشعار میں ماضی و مستقبل کو سمو دیا ہے۔ کل جب اے بندۂ مسلماں! تُو زمانے کو اپنے اللہ کے دین اور محمد مصطفیٰ احمدِ مجتبیٰ علیہ صلاۃ اللہ کی نظر سے دیکھتا تھا تو تُو نے شہر یار و ہرمز و رستم کا سر کاٹا تھا، قیصرِ روم تجھے خراج دیا کرتے تھے۔ پھر تُو، تُو نہ رہا، تیری نظر بدل گئی تو فرڈیننڈ و ازابیلا تجھ پر حاکم ہو گئے، سلطنتیں لٹیں، خلافتیں چھنیں، عثمانی لٹے، مغل قتل ہوئے، تیری زمینیں کاشغر تا خاکِ مغرب ٹکڑوں میں بانٹ دی گئیں۔ کہیں کی باگ ڈور، نہروؤں، گاندھیوں اور ہندتووادیوں کے ہاتھ آئی، کہیں بے شرف شریف و بھٹو غالب ہوئے، کہیں آلِ نہیان و ثانی و سعود تو کہیں رعمسیسی۔
لمبی بات نہیں ہے، بس اپنی آنکھ میں سرمۂ محمدیؐ لگا لے، عقبہؓ و براءؓ و ربعیؓ والا ایمان زندہ کر۔ پھر تیرے شرارۂ ایمان سے سورج بھی روشنی و حدت لے گا، چاند کی نرم و میٹھی چاندنی بھی تیرے دم سے ہو گی، دریاؤں کا طوفان بھی تو ہو گا۔ تیرے کردار میں وہ کیمیا اثر ہو گا جو دھاتوں کو نہیں ریگ و مٹی کو سونا بنا دے۔تُو دین سے چمٹا رہ تو آکسفورڈ و ہارورڈ کا نہیں، سمرقند و بخارا کا، بغداد و دمشق کا، قرطبہ و قاہرہ کا دور پھر سے لوٹ آئے گا، لیکن پہلے اپنی خودی تک رسائی پیدا کر!
مغربی مکتبوں کی نئی روشنی، تیری تاریکیوں کا ازالہ نہیں
طاقِ دل میں اجالا اگر چاہیے تو پرانے چراغوں سے ہی پیار کر
٭٭٭٭٭